(Last Updated On: )
عمرِ عزیز اپنی چلے ہم گزار کے
آئے نہیں پلٹ کے مگر دن بہار کے
چھاؤں میں زلفِ پر شکن و تابدار کے
بھولا ہوا ہوں سیکڑوں غم روزگار کے
دورِ خزاں میں نغمے ہیں فصلِ بہار کے
قربان جائیں گردشِ لیل و نہار کے
اس رات کی سحر ہی نہیں ہم سے پوچھ لو
مارے ہوئے ہیں ہم بھی شبِ انتظار کے
اے حسنِ ذوق صحنِ گلستاں سے پھول چُن
کانٹوں سے کیا غرض ہے یمین و یسار کے
احسان کیوں اٹھائیں کسی راہبر کے ہم
رہبر ہمیں نقوش کفِ پائے یار کے
سونے دو اے فرشتو لحد میں تو نیند بھر
لوٹا ہوں میں سفر سے کڑے دن گزار کے
دل کی فسردگی نہیں جاتی کسی طرح
قصے سناؤ لاکھ بھی باغ و بہار کے
شاہوں کو جس کی حلقہ بگوشی پہ فخر ہے
ادنیٰ غلام ہم بھی اسی تاجدار کے
ہوش و حواس قلب و نظرؔ کیا عطا نہیں
احساں ہیں کس قدر مرے پروردگار کے
٭٭٭