سعدیہ کا چیک اپ ہوا پہلے سے کافی طبیعت بہتر تھی ۔۔۔ اسلیے ڈاکٹر نے انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی ۔۔۔۔ سعدیہ نے بار بار ارشیا کا پوچھا وہ کیوں نہیں ائی ۔ کہاں ہے اسکو کیوں اکیلا چھوڑ کر ائے ؟؟؟پر اشعر ٹالتا رہا۔ خود سے ہی جواب بنا کر دیتا رہا ۔۔
علی دن میں سعدیہ امی سے ملنے گیا تو تب وہ ڈسچارج ہو رہی تھی ۔ اسلیے وہ انکے ساتھ ہی گھر اگیا
علی ارشیا کو بتا چکا تھا سعدیہ کی طبیعت کا اور انے کے بارے میں وہ جیسے انکا ہی انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ سعدیہ کو اندر اتے دیکھ وہ سیدھا سعدیہ کے پاس گئی ۔۔ اس سے حال پوچھا کمرے میں لے کر گئی ۔۔۔
اشعر نے بھی اسے کچھ نہ۔کہا ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی سعدیہ کے سامنے وہ اسے کبھی بھی سعدیہ کے لیے کچھ کرنے سے نہیں روکے گا ۔۔۔
اشعر دوائیوں اور کھانے کے بارے میں سمجھا تا رہا ۔۔۔۔ وہ انکھیں دوائیوں پے مرکوز کیے اشعر کو سنتی رہی ۔۔
اشعر نے بھی اسکی طرف نہ دیکھا ہمت ہی نہ ہوئی اسکی ارشیا کی روئی انکھوں کو دیکھنے کی ۔۔۔۔ احساس شرمندگی نے جیسے آنکھیں اٹھانے ہی نہیں دی ۔
سعدیہ کے کہنے پر کہ وہ بھی ارام کر لے ارشیا ہے اسکے پاس اشعر کو کمرے میں بھیج دیا ۔ وہ بھی فحئ حال فراگ چاہتا تھا۔۔۔ اسلیے ایک بار کہنے پر ہی چلا گیا ۔ ادھر ارشیا نے بھی ڈکھ کا سانس لیا ۔۔۔ وہ بھی سعدیہ۔کے پاس رپنا چاہتی تھی پر اشعت کے ہوتے ہوئے اسے بہت عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔
۔۔ دونوں ایک دوسرے سے چھپ رہے تھے ۔۔پر وہ اور ارشیا ایک ہی گھر میں تھے کب تک وہ ایک دوسرے سے سے چھپ سکتے تھے ۔۔
ارشیا جیسے سعدیہ کے ساتھ ہوتے ۔۔۔۔ ہواؤں میں تھی ۔ علی کافی دیر اسکے ساتھ رہا اسے ادھر سے ادھر بھاگتے دیکھتا رہا ۔ اس ارشیا اور صبح کی ارشیا میں بہت فرق تھا۔۔۔۔ ارشیا کو ساری ضرورت کی چیزیں لا کر دے وہ اپنے کام پر چلا گیا ۔۔۔
ارشیا پورا دن سعدیہ کے اگے پیچھے رہی اسکا خیال رکھتی رہی بس اس نے اشعر کا ایک دفعہ بھی نہ سوچا کہ اسنے کھانا کھایا یا نہیں ۔۔۔ وہ صرف سعدیہ کا خیال رکھتی رہی ۔۔
اشعر رات کو اٹھا تو ٹائم دیکھ کر اسے شوک لگا وہ دن کا سویا ابھی آٹھ بجے اٹھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ فریش ہو کر نیچے آیا تو ارشیا سعدیہ کے پاس بیٹھے ہی اسکی کوئی بات سن رہی تھی ۔۔ اشعر نے اتے ہی سعدیہ سے انکی طبیعت کھانے پینے کا پوچھا ۔ ارشیا وہی بیٹھی رہی ۔
ارشیا کو دیکھتے اس نے دوائیوں کا پوچھا ارشیا نے سارا بتا یا ۔ پر نظریں ابھی بھی اسکی سعدیہ کی دوائیوں پر تھی ۔۔۔ اشعر کو الجھن ہو رہی تھی اسکے نہ اسے دیکھنے پر ۔۔۔ اسکا دل کیا وہ اسے کہے کہ وہ یہاں بیٹھا ہے اس سائیڈ ٹیبل پر نہیں ۔۔۔
سعدیہ نے فوراً تم کھانا کھاو گے اشعر ۔۔
اشعر نے ماں کو دیکھتے ابھی بھوک نہیں ہے امی بعد میں کھا لوں گا ۔۔۔
سعدیہ نے فوراً تم رہنے دو صبح سے کچھ خاص نہیں کھایا پھر اکر سو گئے تھے اسکو چھوڑو ارشیا بیٹا جاو اسے جا کر کھانا دو ۔ میں اور ارشیا تو کھا چکے ہیں
ارشیا بھی سعدیہ کے کہنے پر فورا اٹھی ۔ جیسے وہ چاہتی تھی کہ وہ خود نہ اٹھے اشعر یہی سمجھے کہ وہ سعدیہ کے کہنے پر اٹھی ہے ۔۔۔
اشعر تھوڑی دیر ماں کے پاس بیٹھا ۔ پھر سعدیہ کو لیٹا کر خود کچن میں ارشیا کے پاس اگیا ۔۔۔
وہ روٹیاں بنا رہی تھی ۔۔۔ اشعر پیچھے پڑے ڈئنگ ٹیبل پربیٹھ گیا
وہ بہت دیر سوچتا رہا کہ بات کیسے شروع کرے ۔۔۔ ارشیا کو دیکھا جو اپنے اپ کو مصروف ظاہر کرتی رہی
ایک کپ چائے بھی بنا دینا ۔ اشعر نے بہت سوچنے کے بعد بولا ۔۔۔۔
ارشیا نے بنا موڑے ٹھیک ہے کہہ دیا ۔۔۔۔
ارشیا نے چائے چولہے پر رکھ کر ایک نظر اشعر کو دیکھا جو کھانا کھا رہا تھا۔ کچن سے چلی گئی ۔۔
تھوڑی دیر بعد واپس ائی تو اشعر اپنے برتن اٹھا رہا تھا۔۔۔۔
ارشیا خود اشعر سے بات کرنا چاہتی تھی پر لفظ نہیں مل رہے تھے ۔ دونوں کی ایک سی کیفیت تھی ۔ دونوں نے ایک منٹ ایک دوسرے کو دیکھا تو ارشیا نے اگے بڑھتے مجھے دے دو میں رکھ دیتی ہوں ۔۔۔ کہتے آشعر کے ہاتھ سے برتن لے لیے ۔۔۔۔
آشعر نے بھی بنا کچھ کہے برتن اسکو دے دیے اور دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
چائے کپوں میں ڈالتے ہوئے ۔ اشعر نے ارشیا کو دیکھتے امی سو گئی ۔۔۔
جی سو گئی ہیں ابھی دیکھ کر ائی ہوں ۔۔۔۔ کپ ٹیبل پر رکھتے اسنے کہا۔۔
مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔۔ اشعر نے کپ اٹھاتے ارشیا کو بنا دیکھے بولا ۔۔۔
ارشیا کچھ دیر اشعر کودیکھتے پھر وہی اسکے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔۔۔
کافی دیر لمبی خاموشی کا راج رہا ۔۔۔
اخر اشعر نے بات شروع کی ۔۔۔۔ کل جو ہوا اس کے لیے میں معافی چاہتا ہوں ۔ مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ اس وقت امی کی حالت دیکھ کر میں بہت پریشان تھا اسلیے منہ میں جو بھی ایا میں وہ بولتا گیا ۔ ارشیا کچھ نہ بولی تو ایم سوری ارشی ۔۔۔۔
ارشیا نے اسکی انکھوں میں دیکھا کتنے دنوں بعد اسنے اسے ارشی کہا تھا ۔۔۔ خوشی کا ایک آنسو اسکی انکھوں سے نکلا ۔ اشعر نے اسے آنسو صاف کرتے دیکھ ۔ مجھے پتہ ہے میں نے بہت دل دکھایا ہے تمہارا ۔ میرےالفاظ خنجر کی طرح چھبے ہیں پر میں سچ میں شرمندہ ہوں مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا ۔ ۔۔۔۔
اٹس اوکے اشعر ۔۔۔۔ ارشیا سے اسکی شرمندگی مزید نہ دیکھی گئی تو فورا آنسو صاف کرتے بولی ۔۔۔۔ کاش وہ جان پاتا کہ اسکے الفاظ کے دکھ سے نہیں اسکی ار شی کہنے پر اسکے یہ آنسو نکلے ہیں ۔۔۔۔
ارشیا کو چپ دیکھ تم نفرت کرتی ہو مجھ سے؟؟؟ اشعر نے اسکی انکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
ارشیا نے اسے حیرانی سے دیکھا ۔ ایک یہی کام تو وہ اج تک نہیں کر پائی تھی اس سے نفرت کرنا ۔ سب کچھ جانتے ہوئے اسے اشعر پر بھروسہ تھا اشعر کے لیے دل۔میں محبت تھی ۔ اور نفرت تو چاہ کر بھی وہ اس سے نہ کرسکی ۔۔۔ دل۔میں سوچتے یک طرفہ محبت ہے میری ۔۔۔۔ اب خود کو رسوا نہیں ہونے دوں گی ۔۔ اشعر کو بنا دیکھے ۔ نہ محبت نہ نفرت میرا دل ان سب جذبات سے اب خالی ہے
اشعر نے اسکے چہرے کو دیکھا جو پتہ۔نہیں اسکی کے کس کس غم کو اسکے چہرے پر عیاں کیے ہوئے تھا۔۔۔۔
سامنے دیوار کو دیکھتے ۔ میں بہت رسوا ہو کر یہاں تک پہنچی ہوں اشعر بس اب یہاں سے نہیں جانا چاہتی ۔
اشعر نے اسکو حیرت سے دیکھا۔۔
میں بس امی کے پاس رہنا چاہتی ہوں ۔ تم مجھے ان سے دور مت کرو ۔ ۔پلیز ۔ اسنے اشعر کو دیکھ کر التجا کی ۔۔۔۔
اشعر نے آنکھیں جھکا لی اتنا بھروسہ بھی نہیں کرتی تھی وہ اس پے ۔ شاید یہ سب اشعر کی اپنی غلطی تھی کہ وہ اسے یقین نہ دلا سکا کہ وہ ہمیشہ اسکے ساتھ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہم سب کچھ بھو لا کر دوست بن کر رہ سکتے ہیں ۔۔۔۔ امی کے لیے ۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ ائندہ کچھ ایسا وہ دیکھیں یا محسوس کریں کہ انکی طبیعت پھر سے خراب ہو ۔۔۔۔ کل رات بہت تکلیف میں گزاری ہے میں نے ۔۔۔ ایک وقت ایسا لگا سب کچھ چھوٹ رہا ہو ہاتھ سے ۔۔۔ جتنا پکڑنے کی کوشش کرتا پھسل رہا سب ۔۔۔
ارشیا نے اشعرکی تکلیف کو محسوس کرتے میں سمجھ سکتی ہوں ۔ ائندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا فکر مت کرو ۔ ہم امی کا مل کر خیال رکھیں گے ۔۔اسنے کہتے اشعر کے کندھے پر ہاتھ رکھا اشعر نے اسے دیکھا تو وہ مسکرائی ۔۔۔ اشعر نے تھنکیو کہہ کر مشکور ہوتے سر ہلایا ۔۔۔۔۔
ارشیا اٹھتے ہوئے تمہیں کچھ چاہیے ہو تو بتا دینا ۔۔۔
اشعر نے ہاں میں سر ہلایا وہ کچن سے باہر چلی گئی
وہ بیٹھا ارشیا کو جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔ ایک غلط فہمی کی بنا پر اسکے دونوں رشتے تکلیف سے گزرے تھے ۔۔
۔۔ ارشیا بہت کم بات کرتی پر اسکی باتیں اشعر کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ۔ بہت رسوا ہو کر یہاں تک پہنچی ہوں اب یہاں سے نہیں جانا چاہتی میں ۔۔۔۔ چائے پیتے وہ اسی بات کو سوچتا رہا ۔۔۔ کیوں تھی وہ ایسے ۔۔۔ ایک پل میں کم گو ایک پل میں سب بولنے والی ۔۔۔۔۔۔
ایک پل۔میں ہر چیز سے لاتعلقی ظاہر کرتی اور اگلے ہی پل ہر کسی کو اسکی تکلیف سے ازاد کرنے کی کوشش کررہی ہوتی ۔۔
دن بہ دن سب ٹھیک ہوتا گیا ۔ اشعر اور ارشیا نے ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کر دیا ۔ دونوں کام کے علاؤہ بھی ایک دوسرے کو بلاتے سعدیہ کے سامنے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ۔ رات کا ڈنر اب سب ساتھ کرتے اور ڈئینگ ٹیبل پر کوئی چپ نہ رہتا ۔۔ اشعر جہاں ایک الٹا جواب دیتا وہی ارشیا پھر الٹے جوابوں کی بھرمار کرتی اور ارشیا کو سعدیہ کی سپورٹ بھی ملتی اگر کبھی اشعر کچھ اسے کہہ دیتا ۔ جس کا ارشیا پورا فائدہ اٹھاتی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اج بھی وہ ڈنر ٹیبل پر بیٹھے سعدیہ کو کچھ بتا رہا تھا جب ارشیا وہاں ائی ۔۔۔
سعدیہ نے ارشیا کو جاتا دیکھ اسے کب بتاؤ گے سب ۔ ؟؟؟
اشعر نے ڈوگے کا ڈھکن اٹھا کر دیکھتے کہ کیا پکا ہے ۔۔ ہممم جلد ہی بتا دوں گا ۔۔۔۔
ارشیا جو روٹی لے کر ائی ۔۔۔ کیا بتانا ہے ۔ اشعر نے سعدیہ کو دیکھا ۔ پھر اسے ۔۔۔
اشعر پھر لا علمی ظاہر کرتے امی اسے کیا بتانا اپکو نہیں پتہ ارشیا کو میرے بارے میں مجھ سے زیادہ پتہ ہے ۔۔۔ کیوں ارشی ۔۔۔ ساتھ ہی مسکرا کر دیکھتے ارشیا کو چھیڑا ۔۔
ارشیا کو اسکی مسکراہٹ اور بات چھیڑنا کم اسکا ٹونٹ لگا ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے اشعر کو گھورا پر اشعر نے جیسے دھیان ہی نہ دیا ہو ۔۔۔ سب نے کھانا کھایا ۔۔۔ارشیا چپ چاپ بس اشعر کو دیکھتی رہی ۔۔۔
اشعر کو اسکا دیکھنے خطرے کی گھنٹی لگا ۔ پر خود کا وہم۔سمجھتے کہ اسنے ایسا کچھ نہیں کیا وہ مطمئن ہو گیا ۔۔۔
ارشیا نے رات کی چائے اشعر کو دی ۔ اشعر تب اپنے روم۔میں تھا سعدیہ کی واپس انے کے بعد اشعر جہاں اپنے کمرے میں واپس اگیا تھا وہی ارشیا رات کو سعدیہ کے پاس ہوتی تھی ۔۔۔۔
ارشیا نے اشعر کو چائے دی۔ اشعر فائل دیکھ رہا تھا ۔۔ چائے پکڑتے مسکرا کر دیکھا۔۔۔۔۔ساتھ ہی تھنکیو بولا
جواباً ارشیا بھی مسکرائی وہی صوفے ہر بیٹھ گئی ۔۔۔
اشعر نے فائل کو دیکھتے چائے کا سیپ لیا ۔ چائے کا ایک سیپ لیتے اسکی انکھوں اور کانوں سے دھوائے نکلے ۔۔۔۔
چائے کا کپ ٹیبل۔پر پٹکتے وہ جگ کی طرف بھاگا ۔۔۔
پر جاگ خالی تھا ۔۔۔۔ اسنے موڑ کر ارشیا کو پانی کہاں ہے ۔
ارشیا نے کیوں کیا ہو ا ۔۔۔ پانی ختم ہو گیا روکو میں لاتی ہوں کہتے جگ اشعر کے ہاتھ سے لیتے کچن میں چلی گئی
اشعر جس کی زبان مرچی سے جل رہی تھی پانی کا انتظار کر رہا تھا جب دومنٹ تک وہ نہ ائی تو خود ہی کچن میں چلا ایا وہاں اکر ارشیا کو ٹیبل پر سکون سے بیٹھے چائے پیتے دیکھ اسکا پارا چڑھ گیا۔۔۔
پانی لینے بھیجا تھا تمہیں میں نے ۔۔ تم چائے پی رہی ہو بیٹھ کے ۔۔ ؟؟؟ اشعر نے غصے سے کہا ۔۔۔
ارشی نے بلا کی معصومیت چہرے پر لاتے ۔ وہ چائے ٹھنڈی ہو جاتی تو میں نے سوچا چائے پی کر لے جاتی ہوں ۔۔۔
اشعر سے مزید مرچی برداشت نہ ہو ئی تو اسے چھوڑتے خود پانی کا گلاس بھرا اور گھٹا گھٹ پی گیا۔۔۔۔ ایک کے بعد دوسرا پر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔
ارشیا اس کی حالت دیکھتے اہستہ پیو پانی کہاں بھاگا جا رہا ہے ۔۔۔ اشعر نے ایک دم روکتے تمہیں میں بعد میں دیکھتا ہوں کہتے پانی کا گلاس پھر سے منہ کے ساتھ لگا لیا ۔۔۔
ارشیا نے چائے کا سکون سے سیپ لیتے اچھا میں یہی بیٹھی ہوں ۔۔ وہ جانتی تھی اتنی جلدی یہ جلن ختم نہیں ہونے والی ۔۔۔
اشعر نے ایک نظر اسے دیکھا پھر برف نکال کر زبان پر ماری تاکہ کچھ تو جلن کم ہو ۔۔
ارشیا چائے ختم کرتے دہی کھاؤ فورا ٹھیک ہو جائے گا کہتے کپ اٹھا کر سینک پر رکھا ۔۔۔
اشعر جو فریج کے پاس ہی کھڑا تھا دہی نکال کر ایک چمچ لیا۔۔ پھر دوسرا پھر تیسرا کرتے کرتےساری دہی کھا گیا ۔۔ جلن کم ہوئی تو وہ ارام سے کرسی پر بیٹھا۔
ارشیا اسے دیکھتے یہ دہی امی کے لیے رکھا تھا میں نے تم سارا کیوں کھا گئے ایک دو چمچ لیتے ؟؟؟
اشعر نے نڈھال بیٹھے تو کیا ہو ا صبح لے اوں گا میں فکر نہیں کرو ۔۔۔ وہ فئ حال جیسے اپنے ہوش میں نہ تھا اتنی چلی اسنے شاید پوری زندگی نہ کھائی ہو جتنی ایک سیپ۔میں اسنے پی لی تھی ۔۔۔
ارشیا اسے دیکھتے صبح افس جانے سے پہلے لا کر دو گے مجھے تم ۔۔۔۔
اشعر نے اسے دیکھتے تمہیں دہی کی پڑی ہے میری حالت نظر نہیں ارہی تمہیں ۔۔۔۔؟؟
ارشیا نے فورا جیسے اب اسکی شامت انے والی ۔ مجھے امی بلا رہی میں جاتی ہوں ۔۔۔ کہتی باہر کی طرف بھاگی اس سے پہلے کہ وہ اپنے حواس میں اکر پوچھتا کہ چائے میں
مرچی کس نے ڈالی ۔۔۔
پر ارشیا کے بھاگنے سے پہلے ہی روکو ایک منٹ ۔۔۔ رعب سے کہتے ۔۔۔۔
وہ دروازے تک جا کر روکی ۔۔۔ اشعر اٹھ کر اسکے پاس گیا۔۔۔۔
چائے میں مرچی کیوں ڈالی تم نے ۔۔۔۔ ؟؟
میں نے فورا سے ارشیا نے ۔۔۔ نہیں نہیں میں نے چائے میں چینی ڈالی تھی ۔ دیکھو میں خود بھی پی ہے ۔۔۔
ہاتھ سے کپ۔کی طرف اشارہ کرتے ۔۔۔
اشعر نے سینے ہر ہاتھ باندھے جیسے اسکے وہ جواب اسنے سنا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔اسکے سچ بولنے کا ویٹ کر رہا ہو ۔۔
ارشیا اسکے ہمیشہ ایسے دیکھنے سے پزل ہو جاتی کیونکہ وہ اپنی آنکھیں ٹوٹل ارشیا پر مرکوز کیے ہوتا ۔۔۔ ا ارشیا فورا ہاں تو تم مجھے ٹونٹ نہ کرتے ۔۔۔ تو نہ۔میں مرچی ڈالتی۔۔۔۔
اشعر کو جیسے اسکی بات سنتے کرنٹ لگا ۔۔۔۔۔ٹونٹ ۔۔۔۔ کب ٹونٹ کیا میں نے تمہیں ۔۔۔
ارشیا ڈنر کے ٹائم کہا نہیں تم نے میں تمہیں تم سے زیادہ جانتی ۔۔۔
اشعر نے سر پکڑتے میں مذاق کر رپا تھا اس میں ٹونٹ کہا تھا۔۔۔۔ ۔
ارشیا نے اسکی حالت دیکھتے جو بھی تھا مجھے تو ٹونٹ لگا۔۔۔۔ تمہیں کلیئر کرنا چائیے تھا۔۔۔۔
اشعر کو جیسے اسکا پر سکون لہجہ دیکھ صدمہ ہوا صرف اتنی سی بات پے تم نے مجھے مرچی والی چائے پلا دی ۔۔۔۔ لگتا پوری بوتل ڈال دی تمنے مرچی کی پتہ نہیں کہا ں سے لائی تھی مرچی ابھی تک جلن ہو رہی مجھے ۔۔۔
ارشیا خوش ہوتے یہ انڈین مرچی ہے سائز میں بہت چھوٹی ہوتی پر بہت زیادہ تیکھی ہوتی ۔ ایک چھوٹے سے ٹکڑے سے ہی کام چل جاتا ۔۔ پورے سالن میں میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا ڈالا تھا ۔۔۔۔ کل ہی علی دے کر گیا تھا مجھے ۔۔۔۔
اشعر نے منہ بناتے ۔۔۔ شکریہ اتنی انفارمیشن دینے کا ۔
یور ویلکم ۔۔۔۔ ارشیا نے بھی فورا سے جواب دیا۔۔۔۔
اشعر جو کرسی پر بیٹھے اسی حیرانی سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ تم سچ میں پاگل ہو ۔۔۔
ارشیا اسکی حالت سے محظوظ ہوتے پتہ ہے مجھے ۔۔۔۔ دروازے میں کھڑے کھڑے مسکرائی ۔۔۔
ایک ٹونٹ کہ اتنی بڑی سزا ۔۔۔ اشعر جیسے خود سے پوچھا رہا ہو۔۔۔۔
ارشیا نے اسکی بات سنتے صرف ٹونٹ کرنے پے نہیں اس دن کے رویے کا بھی بدلا ہے یہ ۔۔۔ اشعر نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا جو اسکے خود سے سوال پر جواب دے رہی تھی ۔۔۔
رویہ ؟؟ اچھا اسکے لیے تو سوری بولا تھا ناں میں نے ۔۔۔
ارشیا نے اسکو گھورتے جی نہیں تم نے جو کچھ کہا تھا اسکے بارے میں سوری بولا تھا۔۔۔ جو کیا اسکے بارے میں نہیں ۔۔۔ پھر چل کر اکر اسکے پاس کرسی پر بیٹھتے پوری رات گھر کا دروازہ کھولا تھا کوئی چور ڈاکو اجاتا تو اوپر سے نواب صاحب نےموڑ کرپوچھا ہی نہیں نہ ہی بتایا کی امی کیسی ہیں اتنی بڑی لاپرواہی پے میں تو صرف اتنا سا ٹکڑا مرچی کا ڈالا ساتھ انگوٹھے اور شہادت والی انگلی سے مرچی کے ٹکڑے کا سائز بتاتے اشعر کو دیکھایا ۔۔۔۔۔
اشعر نے شوکڈ حالت میں اسے کے ہاتھ کو دیکھا وہی اسکی بات سنتے شرمندہ ہوا ۔۔۔غصے میں سچ میں وہ اپنی زمہداری بھول گیا تھا ۔۔۔
اسنے ارشیا کودیکھتے سوری بولا ۔۔۔
ارشیا بھی اسے فورا معاف کیا ۔ ائندہ کبھی کچھ کرنے سے پہلے اس مرچی کویاد رکھ لینا ۔۔۔ کہتی اٹھی ۔۔۔ واپس موڑ کر اسے دیکھتے اشعر چائے بنا دوں ۔۔ کہتے طنزیہ مسکرائی ۔۔۔
اشعر فورا ہاتھ جوڑتے نہ نہ اج کے لیے اتنی چائے بہت ہے میں اب صبح ہی پیو گا۔
ارشیا اسکے ایسا کہنے پر کھلکھلا کر ہنستی باہر چلی گئی ۔۔۔
وہی اشعر بیٹھے ۔ اپنے رویہ کو یاد کر کے شرمندہ ہوا کہاں وہ اس دن اس پر حق نہ ہونے پر پریشان ہوا تھا اور کہاں اس پر حق ہوتے وہ اسے اکیلا گھر چھوڑ گیا تھا یہ سوچے بنا کہ اسے کچھ ہوجائے تو وہ کیا جواب دے گا خود کو
_____________
اسلم چوکیدار نے احمد ٹیکسٹائل کے ساتھ غداری کی تھی جس کے ثابوت سب پولیس کے پاس تھے اسلم۔کو گرفتار۔کر کے جیل۔میں لے جایا گیا جہاں اسنے سب کچھ اپنے منہ سے خود قبول کیا ۔۔۔۔
اس پورے پلان میں شبیر کلاتھ شا پس کا مالک بھی شامل تھا۔۔۔۔ وہ گھٹیا مال خرید کر اسے احمد
ٹیکسٹائل کے عمدہ۔کپڑوں سے بدل دیتے جس وجہ سے احمد ٹیکسٹائل کا۔نام سال بہ سال خراب ہوتا گیا ۔۔۔ وہ پہلے چھوٹے پیمانے پر ایسے کرتے پر لالچ بڑھتے بڑھتے انہوں نے سارا کا سارا مال بدلنا شروع کر دیا۔۔ جس سے احمد ٹیکسٹائل کو بہت نقصان ہو ا۔ اور باقی لوگون کو تشویش ہوئی ۔۔۔۔۔مشینری ورکرز پروڈکشن سب کھ ٹھیک ہونے کے باوجود احمد ٹیکسٹائل کمپنی کو نقصان سے دو چار ہونا پڑا ۔ یہ ایک مہینے کا نقصان نہیں سالوں بہ سالوں تھوڑا تھوڑا کیے جانے والا نقصان تھا۔ پورے شہر میں احمد ٹیکسٹائل کا نام بہت خراب ہو چکا تھا ۔ لوگوں کے شئیرز کی قیمتیں گر رہی تھی شئیر ہولڈر اپنے شئیر ز بیچ کر کمپنی سے الگ ہونا چاہتے تھے ایسے وقت میں ۔ سب کی امید اشعر سے تھے کیونکہ یہ کمپنی اسکے بابا اپنی محنت سے کھڑی کردہ تھی وہ ابھی ا بھی اپنی ساخت بزنس میں جما چکا تھا اپنا مختلف اندا ز سے اپنا سکہ منوا چکا تھا۔۔۔لیکن اسے کراچی کی احمد ٹیکسٹائل کمپنی کا نام تک۔نہ۔یاد تھا۔۔کوئی اسکی طرف دھیان نہ دیتا کیونکہ وہ باقی کمپنیوں کے لحاظ سے چھوٹی کمپنی تھی پہلے اشعر کے چاچا سال میں ایک دفعہ اتے تھے کمپنی کو۔دیکھنے پر بعد میں وہ بھی کم ہوتا گیا۔۔۔سب اپنے اپنے بزنس میں بزی ہو گئے ۔۔۔۔ اشعربھی اپنے آسلام آباد کے کاروبار اور پڑھائی میں ایسا مصروف ہوا کہ بھول گیا کہ اسکی گھر اور ایک کمپنی کہیں اور بھی ہے ۔۔۔۔ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اشعر اس کمپنی کا C.E.O تھا۔۔۔ پر اشعر نے وہ کمپنی اپنے ایک وفادار کو دیکھنے کے لیے اپوئنٹ کر لیا وہ۔کراچی نہیں جانا باہتا تھا ۔۔وجہ وہ شاید خود بھی نہیں جانتا تھا
لیکن اسفند کے بتانے پر کہ کوئی اس کمپنی کا نام خراب کر رہا۔ اور کمپنی کے شئیرز ہولڈر اپنے شیئرز بیچنا چاہتے سن کر پہلی دفعہ اسے فکر لا حق ہوئی ۔۔۔۔ اسنے آسلام آباد ہی بیٹھے بیٹھے سب کچھ حل۔کرنے کی کوشش کی پر کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ مسئلہ کہاں تھا وہ سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔
اس لیے سعدیہ سے بات کر کے وہ پھر سے کچھ مہینوں کے لیے کراچی شفٹ ہو گئے ۔۔۔ادھر سعدیہ اشعر کے اپنے پرانے گھر رہنے کی وجہ جانتی تھی پر اسکے لیے یہی بہت تھا کا وہ اس گھر میں رہیے گےپندرہ سال بعد وہ اس گھر میں ائی تھی احمد کے مرنے کے بعد وہ ایک دفعہ ائی تھی یہاں اس کے بعد اج اس گھر میں اسنے قدم رکھا تھا اپنے بیٹے کے ساتھ ۔۔۔۔ یہ گھر خو بصورت تو پہلے بھی تھا پر اشعر کے اسے ری نیو کرانے کے بعد اسکی جوبصورتی میں مزید اضافہ کیا تھا ۔۔۔۔ سعدیہ کے لیے وہ گھر بہت خاص تھا اسکے شوہر کی کمائی سے بنا تھا ۔۔۔۔۔۔ سعدیہ رخصت ہو کر اسی گھر میں ائی تھی ۔ اور اسکی خواہش تھی کہ اسکے بیٹے کی بیوی بھی پہلے اس گھر میں ائے ۔۔۔۔ پھر وہ اپنے بیٹے کے گھر جو اشعر کا تھا۔۔۔۔۔
اس آفس میں کوئی یہ بات نہیں جانتا تھا اشعر کے بارے میں ۔۔۔۔۔ حتیٰ کہ وہاں کے سنیئزز بھی ۔ اشعر وہاں نیو انٹرن کے طور پے کام کر رہا تھا ساتھ ہی یہ پتہ لگا رہا تھا ۔۔۔۔ اس سب میں اسے کافی عرصہ لگ گیا تھا۔ پر پتہ۔لگنے کے بعد اسکا اپنے افس میں کمپنی کے بوس کے لحاظ سے پہلا دن تھا۔۔۔۔۔
انوسمنٹ کے ڈیڑھ مہینے کے بعد اج وہ سبکے سامنے ارہا تھا۔۔۔۔ جب سب کو لگ رہا تھا کہ کوئی نہیں ائے گا۔ کمپنی کو دیکھنے ۔۔۔
سارے سینیئر ز ایک جگہ جمع اپنی انکھیں دروازے پر گاڑے بیٹھے تھے ۔ وہ کافی کچھ سن چکے تھے اپنے بزنس ایسوسی ایٹ سے کہ ان کا نیو بوس کسی نیچر کا ہے ۔ ان سبمیں صرف ایک شخص پرسکون بیٹھا تھا۔ سر حیدر جو ارام سے بیٹھے سب کی باتیں سن رہے تھے ۔۔۔۔۔ ہر کسی کو اپنی جاب کی فکر تھی ۔ اتنے سال بعد کوئی بوس اکر ان سے کمپنی کا پوچھ گچھ کرنے والا تھا بے شک وہ اپنا کام ٹھیک کررہے تھے پر نیو بوس کا امیج ان کی انکھوں میں ایک سخت کھڑوس نیچر والے بندے کا تھا ۔۔۔۔ جس نے غداری کرنے والے ہر شخص کو اسکے کیے کی قانون ست سخت سزا دلوائی تھی
___________
سر اپ کافی خوش لگ رہے ہیں ۔۔۔ اسفند نے لیفٹ میں اشعر کے ساتھ کھڑے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔
اشعر نے مسکراتے ہاں خوش ہونے کی بہت سی وجہ ہیں ۔۔۔ جس کام کے لیے ایاتھا وہ ہو گیا
سر میم اور ا نٹی کیسی ہیں ۔۔۔؟؟؟
وہ دونوں ٹھیک ہیں ۔۔۔ بس ان دونوں کو دیکھ کے لگتا میری امی کی وہ بیٹی ہے اور میں سوتیلا ہوں ۔۔۔ ارشعر اور اسفند ہنسے ۔
لیفٹ کا دروازہ کھولا وہ باہر نکالا تو بہت دفعہ پہلے وہ یہاں ا چکا تھا پر اج وہ احمد کے بیٹے اور C.E.O کی حیثیت سے ارہا تھا۔۔۔
میٹینگ روم کا دروازہ کھولا اشعر اور اسفند اندر ائے
اشعر نے اتے ہی سب کو سلام کیا ۔۔ سارے سینیئر ز کھڑے ہو ئے ۔۔۔
اشعر اکر اپنی چیئر پر بیٹھا ۔ اسفند اشعر کے دائیں طرف کھڑا ر ہ کر اسنے کمپنی کی پولیسی پروجیکٹس پر بات کی ۔۔۔۔۔
سب کی رائے لینے کے بعد سب اشعر کی بات اور رائے کے منتظر تھے ۔۔
اشعر نے اسفند کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے خقد کھڑا ہوا ۔
اشعر نے سنجیدہ لہجہ میں اپنی بات شروع کی ۔۔۔۔
پندرہ سال سے اپ اس کمپنی کے ساتھ جوڑے ہوئے پیں ۔۔۔ اس کمپنی کو اپنی کمپنی سمجھتے ہوئے اپنی پوری لگن اور محنت سے اپنی وفاداری کا ثبوت دے دہے ہیں ۔ اج سمجھ ایا ہے مجھے کہ بابا اپ سب پر اتنا بھروسہ کیوں کرتے تھے ۔کیونکہ اپ سب نے اس کمپنی کی ہر اینٹ کو اپنی وفاداری سے مظبوط کیا ہے ۔۔۔۔ میں اپ سب کا بہت مشکور ہوں ۔۔۔۔ اپ سب کے بیچ میں رہ کر میں وہ سب سیکھ پایا ہوں جو C.E.o بن کر نہ سیکھ پاتا ۔۔۔۔
اپ سب کی کچھ شکایت ہیں اپنے بوس اور اسکے رولز سے میں جانتا ہوں ۔ ان سب شکایات کو سنا اور پرکھا ہے جلد ہی اپکو شکایات دور کی جائیںگی ۔۔۔
میں اپ سب سے وعدہ کرتا ہوں اس کپم ی کو پھر سے اسی مقام تک پہنچاؤں گا جہاں میرے بابا اور اپ سب کی۔محنت اسے لے کر گئی تھی ۔
وہ اپنی بات ختم کرتے بیٹھ گیا۔۔۔۔ پورا روم تاکیوں سے گونج گیا۔۔۔۔۔ ہر بات کو دھیمے لیکن دل چھو لینے والے انداز میں کر کے سب کے دل میں اشعر نے اپنی جگہ بنا لی ۔۔۔۔۔۔۔ سر حیدر نے اسے سر کے اشارے سے سراہا
میٹینگ ختم کر کے سب اشعر سے باری باری ملے ۔۔۔
پورا افس جان گیا تھا کہ اشعر کون ہے ۔۔۔۔
سب سے زیادہ حیرانی ہانیہ اور صبیحہ کو ہوئی ۔۔۔ صبیحہ تو بہت خوش تھی ۔ اشعر سے ملنا چاہتی تھی پر اشعر افس ٹائم سے پہلے ہی ایک اور میٹینگ کے لیے نکل گیا ۔۔۔۔
۔۔۔ اس لیے ۔ صبیحہ نے اسے صرف مبارک باد کا میسج کر دیا ۔۔۔
____________
اشعر نے اسے ہلایا وہ اٹھی ادھ کھلی انکھوں سے اشعر کو دیکھا ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔
تم اج یہاں ہو ۔۔؟؟؟ اشعر نے اسے دیکھتے پوچھا ۔۔۔
ارشیا نے زچ ہوتے تم نے یہ پوچھنے کے لیے میری نیند خراب کی ۔۔۔
اشعر نے فورا ہاں میں سر ہلا دیا ۔۔
زچ ہو کر اشعر کہتے ارشیا پھر سے لیٹ گئی ۔۔۔
اشعر مسکرایا ۔۔۔ اسے زچ ہوتے دیکھ ۔۔ اشعر کو بہت ہی کیوٹ لگی وہ ۔۔۔۔
اشعر اسے پھر سے ہلاتے ۔۔۔ارشی بات تو سنو ۔۔۔۔۔
ارشیا نے پوری انکھیں کھول کر بیٹھتے کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
اشعر نے سنجیدہ لہجے میں جھک کر تم یہاں اج کیسے ؟
ارشیا کا دل کیا پاس پڑا ہوا پانی منہ پر پھینک دے ۔۔۔
ارشیا نے اسے گھورتے بیڈ پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے امی نے بھیجا کہا میں ٹھیک ہوں اب اپنے شوہر پر نظر رکھو جا کر اسلیے ائی ہوں یہاں تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو جاو امی سے جا کربات کرو ۔ کہتے وہ بالکل اسکے نزدیک اسے گھور رہی تھی ۔۔۔
اشعر نے مزید اگے ہو کر اسکے کان کے پاس جاکر اچھا سمجھ گیا غصہ کیوں کر رہی ہو کہا۔۔۔۔۔ اور سیدھا ہو گیا ۔۔۔ اب سو جاؤ میں نے بس یہی پوچھنا تھا کہتا واش روم بھاگا ۔۔۔
ارشیا نے اونچی آواز سے اشعر کہتے پاس پڑا نوٹ پیڈ پھینک جو اشعر نے فورا ہی کیچ کر لیا ۔۔۔ بیڈ شوٹ کہتے واش روم میں گھس گیا ۔۔۔
کافی کوشش کےبعد بھی اسے نیند نہ ائی
اشعر اسے بار بار سائیڈ چینج کرتے دیکھ اب سوتی کیوں نہیں ہو ۔۔۔۔
ارشیا نے اسکی طرف منہ۔کرتے نیند نہیں آرہی لائٹ اون ہے ۔۔۔ تم لائٹ اوف کرو ۔۔۔
اشعر نے لیپ ٹوپ کی سکرین دیکھتے میں کام کر رہا ہوں ابھی ۔۔۔
ارشیا نے اسے دیکھتے تمہاری کتنی کمپنیز ہیں اشعر ۔۔۔؟؟؟ نارمل لہجے میں ایک سوال پوچھا ۔۔
اشعر نے سکرین سے نظریں اٹھائے مطلب ۔۔۔؟؟؟
پتہ نہیں کتنا کام دیتے تمہیں افس والے میں بھی اسی افس میں کام کرتی تھی پر اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا کہ گھر کام اٹھا کر لے اوں ۔۔۔۔۔۔ گپیں کم مارا کرو افس کا کام وہاں ہی کیا کرو کہتے اسنے چادر منہ پر کر لی جیسے سونے کی ایک اور کوشش کرنے لگی ہو۔۔۔۔۔ اشعر نے سکھ کا سانس لیا ۔۔۔ وہ اسے یہ سب کب بتانے والا تھا ۔ وہ نہیں ڈیسائیڈ کر پا رہا تھا۔۔۔۔
ارشیا نے منہ سے چادر ہٹاتے اصف اور اقصیٰ ابھی جاب کرتے ہیں وہاں ۔۔۔
اشعر نے اسے بنا دیکھے ہاں اصف کرتا ہے اقصیٰ نے چھوڑ دیا۔۔۔۔
ارشیا فورا اٹھ کر بیٹھتے کیوں ؟؟؟ اسنے کیوں چھوڑ دیا۔۔۔؟؟؟
اشعر نے اسے ایسے بیٹھتے دیکھ مجھے کیا پتہ ۔۔۔ اور اتنی گہری دوستی نہیں ہے اصف کے ساتھ کے اسکی پرسنل لائف کا پوچھوں ۔۔۔ تم ہو ان کی دوست تمہیں پتہ پونا چاہیے ۔۔۔
ارشیا نے کچھ سوچتے پھر سے لیٹ گئی ۔۔۔۔
اشعر نے اسکو خاموش دیکھا تو لیپ ٹوپ کو بند کرتے ۔۔۔۔ ۔اوف کر دیتا ہوں لائٹ ورنہ پھر سے مرچی پینے کی سزا ملے گی ۔۔۔
ارشیا اسکی طرف دیکھ کر ہنسی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
اشعر بیڈ پے لیٹتے ۔ اصف اور اقصیٰ کافی اچھے دوست ہیں تمہارے ۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد مجال ہے جو مجھ سے بات کی ہو ۔۔۔
ارشیا نے اوف لائٹ میں بھی اسکی طرف دیکھا جیسے اسکے چہرے کے ایسکریشن دیکھنا چاہ رہی ہو ۔۔
اشعر نے تھوڑی دیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد مجھے دیکھنا بند کرو میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔ چاہو تو ملنے چلی انا افس اور اکر پوچھ لینا۔۔۔۔ تمہارے پاس نمبر نہیں ہے انکا ۔۔۔۔ ؟؟؟
ارشیا کچھ نہ بولی نمبر جس سیل۔میں تھاوہ ایان نے اس دن توڑ دیا تھا ۔۔۔ اسکے بعد سے اسے علی کے علاوہ کسی کا۔نمبر نہیں یاد تھا نہ ہی اسنے کسی کا نمبر حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔
نمبر نہیں ہے تمہارے پاس؟؟؟ اشعر نے پھر سے سوال۔کیا۔۔۔
نہیں ہے نمبر میرے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے دوسری طرف منہ کر کے سو گئی ۔ اشعر سمجھ نہ پایا اسنے ایسا کیا کہا کہ اسکے موڈ خراب ہو گیا۔۔۔۔
ارشیا آنکھیں بند کیے ایک دفعہ پھر اس دن ہوئے واقعہ کو یاد کر کے خاموشی سے اپنے آنسوؤں پی گئی ۔
____________
ہیلو ۔۔۔۔ میں عرفان بات کر رہا ہوں ۔۔۔
ربیعہ نے کال اٹھائی تو فورا بھائی کہاں ہو اپ ۔۔۔۔۔ دوہینے ہونے والے اپکا کچھ پتہ نہیںابا نے تو پولیس میں رپورٹ کروادی اپکی گمشدگی کی ۔۔۔۔ کہاں ہو اپ بھائی ۔۔۔ اسنے ایک ہی سانس میں سب پوچھ ڈالا ۔۔۔۔
عرفان نے ہنستے ۔۔۔۔ گڑیا پریشان نہ ہو ۔۔۔ کل ا رہا ہوں میں ۔۔۔۔ یہی بتانے کے لیے فون کیا ہے ۔۔۔۔ کل میرے ساتھ میرا ایک دوست بھی ارہا ۔۔۔ اسلیے تھوڑا اچھے سے کھانا تیار کرنا اور امی ابو ڈے کہنا کہ مجھے بعد میں ڈانٹ لیں پر اسکے سامنے نہیں ۔۔۔۔۔۔ بات تو میں ابا سے کرنا چاہتا تھا پر مجھے پتہ وہ سو رہے ہو گے ۔۔۔۔۔ تم ان کو بتا دینا میں صبح انسے بات کرکے سب بتاوں گا ۔۔ٹھیک ہے ۔۔
ربیعہ نے سر ہلا دیا جیسے وہ سامنے ہو اور اسے دیکھ رہا ہو ۔۔۔۔ الللہ حافظ کہتے اسنے فون رکھ دیا۔۔۔۔
عرفان نے خوشی ڈے اسمان کی طرف دیکھا آخر کار کل وہ ہونےوالا تھا جس کے لیے اسنے اتنی پلاننگ کی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...