(Last Updated On: )
اُلٹا ہی دُعاؤں کا اثر دیکھ لیا ہے
اب تو میرا آفات نے گھر دیکھ لیا ہے
اب چین کہاں، راحت و آرام کہاں کا
جنّت میں جو ممنوعہ شجر دیکھ لیا ہے
بس حاجتِ احسان نہیں ہے کہ اب ھم نے
جنگل میں، بیابان میں گھر دیکھ لیا ہے
کیا چین ملے مجھ کو سُکوں کیوں ہو میسّر
بے چین اُسے، چشم کو تر دیکھ لیا ہے
ویسے تو کوئی شخص بھی عیبوں سے نہیں پاک
مُنہ بند رکھو پھر بھی اگر دیکھ لیا ہے
پھن سانپ کی مانند اُٹھایا ہے جِنہوں نے
ایسوں کا تو کُچلا ہؤا سر دیکھ لیا ہے
بچّوں پہ لُٹا دی تھی پسینے کی کمائی
حسرتؔ جو ملا اُن سے ثمر دیکھ لیا ہے