آٹھ بج چکے تھے۔ رام چندرن نے گھڑی دیکھی اور تیزی سے کلاس روم کی طرف روانہ ہوا۔ تیزی سے ایک لڑکی اس کی طرف بڑھی۔
’’سر آپ ہی پرو فیسر رام چند رن ہیں؟‘‘
’’ہاں مگر تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’سر، میں آپ ہی کی اسٹوڈنٹ ہوں۔‘‘ وہ ساتھ چلنے لگی تھی۔
’’اوہ اچھا!‘‘ رام چند رن کی پریشانی دور ہوئی، ’’کس سال میں ہو؟‘‘
’’بارہویں آرٹس سر۔‘‘
’’اوہ! اچھا اچھا! میں تمہاری ہی کلاس میں جا رہا ہوں۔‘‘
’’جی سر‘‘ ۔ اس نے تقریباً دوڑتے ہوئے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہوے کہا۔
’’سر، سب آپ کو نیا اسٹوڈنٹ سمجھ رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’مگر تم نے مجھے کیسے پہچانا؟ میں تو ہفتہ بھر بعد جوائن کرنے والا تھا۔‘‘
’’پتہ نہیں سر … ویل کم ٹو اَوَر کالج سر! ۔‘‘
’’تھینک یو مِس … ‘‘ وہ جملہ ادھورا چھوڑنے لگا۔‘‘
’’سنیہا سر … سنیہا کلکرنی۔‘‘ سنیہا نے اس کے جملے میں اپنا نام جوڑ دیا۔
’’اچھا اچھا۔‘‘
بارہویں کلاس میں لڑکیاں زیادہ اور لڑکے کم تھے۔ رام چند رن ذرا ہی دیر میں سب سے گھل مل گیا تھا۔ کالج ختم ہونے کے بعد جب رام چند رن باہر نکلنے لگا تو گیٹ پر سنیہا کھڑی ہوئی ملی جیسے اُسی کا انتظار کر رہی ہو!
’’کیوں مِس کلکرنی میرا لکچر تو ٹھیک ٹھاک تھا نا؟‘‘ رام چندرن نے یوں ہی پوچھ لیا۔
’’یس سر، بلکہ بہت خوب! سر آج سے پہلے میں نے شیکسپیئر کو اتنے غور سے سُنا ہی نہیں تھا۔ سر کیا سچ مچ شیکسپیئر اتنا جینیئس تھا؟‘‘
وہ سڑک پر اس کے ساتھ چلنے لگی۔
۔ ’’ہاں اور کیا۔ میں نے بتا یا نا کہ اپنے ڈرا موں کے لیے شیکسپیئر جیسی نظمیں لکھتا تھا، ان کی اپنی بھی الگ اہمیت ہے۔ خوبصورت پر شکوہ الفا ظ، خوبصورت پُر جوش لہجہ۔‘‘
’’سچ ہے سر مگر مجھے لگتا ہے سر آپ کے پڑھا نے کے انداز کی وجہ سے میں بھی شیکسپیئر کی فین بن جا ؤں گی۔‘‘
’’اچھا! … ‘‘ وہ رک گیا، ’’اب تم یہ بتاؤ کہ تم جا کِس طرف رہی ہو؟‘‘
’’سر اِسی طرف‘‘ اس نے سامنے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
’’مجھے ذرا ا س طرف جانا ہے۔ ٹھیک ہے، کل میرا تیسرا لکچر ہے تمہاری کلاس میں۔‘‘
’’پتہ ہے سر‘‘ … وہ نروس سی ہو گئی تھی اور رام چند رن نے راہ بدل لی۔
آج کالج کا پہلا دن تھا اور پھر کسی لڑکی کے نام کے ساتھ اسے اپنا نام جوڑنا یوں بھی پسند نہ تھا۔ ایک تو بڑی مشکل سے اسے جونیئر کالج ٹیچر کی یہ نوکری ملی تھی۔ شہروں میں انگریزی ایم اے کو پو چھتا کون ہے! خاص طور پر جبکہ اس کے پاس بی ایڈ کی ڈگری بھی نہیں تھی۔
رام چندرن کی ماں اس کے لئے دلہن کی تلاش میں تھیں۔ اس سال اس نے عمر کے چوبیس سال پورے کر لئے تھے اور ماں فکر مند تھی کہ بیٹا کام پر لگے اور اس کا گھر بسائے۔
کالج میں رام چندرن کی زیادہ سے زیادہ یہی کوشش ہوتی کہ وہ لڑکوں کو اپنا دوست بنائے مگر لڑکیاں اکثر اسے گھیر لیتیں۔ پتہ نہیں کیوں طلبا کی صحبت خود اسے پسند بھی تھی۔ وہ اپنے کو اسٹاف روم میں ابھی ایڈجسٹ نہیں کر پا یا تھا اور پھر اسٹاف روم میں پرو فیسر مہرہ تو جیسے اس کے پیچھے ہی پڑے رہتے تھے۔ پروفیسر مہرہ جن کے سر اور مونچھوں کے بال کھچڑی ہو چکے تھے مگر جلد صحتمند اور چمکیلی تھی۔ شاید خضاب لگاتے تو رام چندرن سے بس ذرا سے ہی بڑے دکھائی دیتے۔ جب اسے دیکھتے آس پاس کسی کی موجودگی کا لحاظ کئے بغیر کہتے۔
’’کیوں بھئی چندر ن، کیا ارادے ہیں؟کیا کالج کی ہی لڑکی سے شادی کا ارادہ ہے؟‘‘
اور وہ ’’نو سر نو سر‘‘ کہتا رہ جا تا۔
’’بھئی مزے ہیں تمہارے۔ لگتا ہے سبھی لڑکیوں کو پتہ چل گیا ہے کہ تم بیچلر ہو۔ تبھی تو ہمیشہ تمہارے آس پاس دکھائی دیتی ہیں۔ ہمیں تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔‘‘
’’نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ اسٹاف روم چھوڑ کر لائبریری میں پناہ ڈھونڈنے لگتا۔
ایک دن جولی برگنزا، رام چندرن سے ملنے کالج کے اسٹاف روم میں آ گئی۔ ویسے تو اسٹاف روم میں بڑے ٹیبل سے ہٹ کر دو صوفے دیوارسے لگے ہوئے تھے، جہاں طلبا یا مہمان، پروفیسروں سے بات چیت یا بحث کر سکتے تھے مگر جولی نے ’’سر‘‘ کہہ کر جیسے ہی اسٹاف روم کے دروازے سے سر اندر ڈالا تو وہ خود بھی سٹپٹا گیا اور اس کی گھبراہٹ دیکھ کر پروفیسر مہرہ اور میڈم مانڈلک مسکرانے لگے۔
’’یس مس برگینزا؟‘‘ رام چندرن اپنی گھبراہٹ پر قابو پا کر بولا۔
’’سر ذرا پلیز! ایک منٹ!‘‘ جولی نے اسے باہر آنے کا اشارہ کیا۔
رام چندرن اسٹاف روم سے باہر نکل آیا۔
’’سر آپ نے کل برنارڈ شاہ کو پڑھا دیا۔ سر میں کل غیر حاضر تھی نا! اب میں اسے کیسے سمجھوں گی سر؟‘‘ رام چندرن کو لگا تھا جیسے اس نے معصوم بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہو۔
’’مس برگنزا آپ اس مضمون کو دو بار پڑھئے۔ ضرورت پڑے تو لغت ریفر کرتی جائیے۔ سب سمجھ میں آ جائے گا۔‘‘
’’او نو سر! کم سے کم آپ مجھے اُس کی سَمَری تو بتا دیجئے سر!‘‘ اس نے بڑی اداسے کہا۔
’’دیکھو جولی!‘‘ رام چندرن نے جولی کو سر سے پیر تک دیکھا۔ کٹے ہوئے بال، سلیو لیس شرٹ اور پتلون میں جولی بہت ماڈرن دکھائی دے رہی تھی۔ اسے لگا کہ اگر وہ کچھ دیر اور اس لڑکی کے سامنے کھڑا رہا تو ضرور ہی یہ اس کی آنکھوں میں اپنے لئے ابھرتی ہوئی پسند کو دلچسپی کا نام دے دے گی کیونکہ جولی تو کلاس روم میں پڑھاتے وقت بھی اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ اور ہتھیلیوں کے بیچ دو خوبصورت آنکھوں کو سجائے اس کے پڑھانے کی ایک ایک ادا کو جذب کرتی رہتی تھی۔
’’ایک کام کرتے ہیں … ‘‘ اس نے جلدی سے کہا، ’’کلاس میں نیا مضمون شروع کرنے سے پہلے میں اِس مضمون کا خلاصہ لے لیتا ہوں۔ اس طرح سبھی طلبا کا ریویزن بھی ہو جائے گا اور تم بھی سمری سمجھ جاؤ گی!‘‘
’’جی اچھا سر‘‘ ،! اس نے بڑی فرمانبرداری سے سر ہلا کر کہا اور جاتے جاتے پلٹ کر پلکیں جھپکا کر مسکرائی اور بولی، ’’تھینک یو سر!‘‘
’’سر! یہ جولی بڑی چالو لڑکی ہے۔‘‘ کالج کینٹین میں سری دھر نے رام چندرن کو بڑی سنجیدگی سے بتایا۔ سری دھر اس کے آس پاس گھومتا اور کلاس اور کالج کی خبریں اسے سنایا کرتا۔ اکثر وہ رام چندرن کو کینٹین میں بیٹھا ملتا۔ اسے دیکھتے ہی پاس آ کر مختلف افواہوں کو بڑے داستان گو کے انداز میں سناتا۔ رام چندرن اپنے اس گپ باز طالب علم سے چِڑتا بھی اور اس کی باتوں کا مزا بھی خوب لیتا۔
’’اچھا تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’وہ سر!‘‘ سری دھر سٹپٹایا، ’’وہ سر، سب لڑکے اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔‘‘
’’تو اِس سے وہ کیسے چالو ہوئی؟‘‘
’’مگر سر! اب تو سبھی لڑکے کہتے ہیں کہ وہ آپ کو … میرا مطلب ہے … آپ کے پیچھے پڑی ہے سر … ‘‘
’’ کیا کہتے ہو؟؟‘‘ رام چندرن کو سری دھر سے اس جملے کی توقع نہیں تھی، حالانکہ وہ خود بھی اس حقیقت سے آگاہ تھا۔
’’اور سر کل وہ سنیہا کلکرنی سے بھی کہہ رہی تھی۔ میں نے خود سنا سر … کہ … ‘‘ وہ رکا اور رام چندرن کا دل دھڑکا۔
’’کہ سر! رام چندرن سر کتنے ہینڈسم لگتے ہیں نا‘‘ ۔ اس نے جولی ہی کے انداز میں کہا۔
’’چھوڑو بھائی۔‘‘ رام چندرن نے چائے کے پیسے ویٹر کے ہاتھ میں تھمائے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے ساتھ سری دھر بھی کھڑا ہو گیا۔
’’چھوڑو، اور کوئی بات کرو۔‘‘ رام چندرن بے پروائی سے بولا۔
’’اور سر!‘‘
’’اب کیا ہوا؟‘‘
’’ وہ منجو ہے نا!‘‘
’’اب منجو کو کیا ہوا؟‘‘
’’سر! سنئے تو، آپ اسے تو جانتے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں ہاں وہ تو بڑی اچھی اسٹوڈنٹ ہے۔‘‘
’’جی سر مگر اس کا چکر تو کیلاش کے ساتھ چل رہا ہے اور سر نعیمہ کہہ رہی تھی کہ اس سال منجو ہی کلاس میں فرسٹ آئے گی۔‘‘
’’اور سنیہا؟‘‘ رام چندرن کے منہ سے یونہی نکل گیا، کیونکہ جب لڑکیوں ہی کی بات چل تھی تو اس کی آنکھوں کے سامنے ایک دبلی پتلی سانولی لمبی سی چوٹی لہراتی لڑکی گھوم گئی تھی، جوا اُس کے کالج کے پہلے دن اسٹاف روم سے دوسرے منزلے تک اس کے ساتھ چلی تھی۔ جواُس دن کالج سے نکلتے وقت اس کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتی تھی مگر دوبارہ اس کے پاس کبھی نہیں آئی تھی۔ ہاں، اس کا کلاس کبھی مِس نہیں کرتی تھی اور کلاس میں مباحثہ میں بھی حصہ لیتی تھی۔
’’وہ … سر‘‘ سریدھر نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’سر وہ تو بہت ہی اچھی لڑکی ہے۔ اس کا کسی کے ساتھ چکر بھی نہیں بلکہ سر کوئی بھی لڑکا اس سے بات کرنا نہیں چاہتا۔ کسی لڑکے نے بات کی تومسکراتی بھی نہیں سر۔ صرف لڑ کیوں سے ہی بولتی ہے۔‘‘
’’اچھا چلو۔ پھر کبھی گپ شپ ہو گی تمہیں بھی کلاس ہو گا۔‘‘
’’ہے سر۔‘‘ ہسٹری کا کلاس ہے مگر سر، تامبے سر اتنا بور کرتے ہیں کہ کیا کہوں۔ آپ بھی نئے آئے ہیں سر، مگر آپ کی کلاس میں بیٹھنے کا جی چاہتا ہے۔ بس آپ ہی کا لکچر دھیان سے اٹینڈ کرتا ہوں۔‘‘
’’کیوں کیا تامبے سر ٹھیک نہیں پڑھاتے؟‘‘ اپنے پیشے میں اپنے کو نمبر ون دیکھنے کی تمنا میں رام چندرن نے پوچھا۔
’’کیا کہوں سر۔ بیچارے کی آواز ہی نہیں نکلتی گلے سے۔ اس پر لڑکے ہوٹنگ بھی کرتے رہتے ہیں۔‘‘
’’چلو۔ تم جانا نہ چاہو تو کینٹین میں بیٹھو۔ میرا لیکچر ہے۔ میں چلا۔‘‘
گرمی کی طویل چھٹیوں کے بعد کالج کھُلا تھا۔ رام چندرن نے کالج آتے ہی پہلے بارہویں بورڈ کا نتیجہ دیکھا۔ جولی اور سری دھر انگریزی کے علاوہ بھی دوسرے مضامین میں فیل تھے۔ سینہا نے انگریزی میں تو اچھے نمبر پائے تھے مگر اکنامکس میں فیل تھی۔ مشکل سے پچاس فی صد طلبا ہی کلی طور پر کامیاب ہوئے تھے۔ سنیہا کے فیل ہونے کا رام چندرن کو خاص افسوس ہوا تھا۔
ایک اور طویل سال گزر گیا۔ اب رام چندرن کو ڈگری کالج کے لیکچر مل گئے تھے۔ وہ خوش تھا۔ بارہویں کلاس کے طلبا اسی کے ساتھ بی اے کے پہلے سال میں داخل ہو گئے تھے۔ نئے طلبا، پرانے اسٹاف ممبرس اور اب مانوس ماحول میں رام چندرن کا دل لگ گیا تھا۔ اب وہ لڑکیوں کو دیکھ کر گھبراتا بھی نہیں تھا۔ کبھی کبھی اسٹاف روم میں صوفے پر بیٹھ کر ان سے بحث بھی کر لیا کرتا تھا۔
رام چندرن کے منگنی کے لڈو کھانے کے بعد پروفیسر مہرہ اور میڈم ما نڈلک کے رویّوں میں بھی فرق آ چکا تھا۔ یوں بھی اب اسے ڈگری کالج کا لکچرر ہوئے دوسال گزر چکے تھے اور اس سال اس کی ملازمت دائمی بھی ہونے والی تھی۔
نئے سال میں بارہویں پاس کر کے آنے والے نئے طلبا کا ریلہ سا آ جاتا ہے مگر بی اے کے سال دوم اور سوم کی کلاسوں پر اس کا اثر کچھ کم ہی پڑتا ہے۔
یہاں اتفا قاًہی ایک آدھ طالب علم کا اضافہ ہو جا تا ہے۔ جن کے والدین کا تبا دلہ یہاں ہو گیا ہے یا پھر پچھلے سالوں کے فیل طلباپھر پاس ہو کر فرسٹ ایئر بی اے جوائن کرتے ہیں۔ اس سال فرسٹ ایئر بی اے کی کلاس میں سنیہا کلکرنی کو دیکھ کر رام چندرن کو تعجب ہوا اور خوشی بھی مگرسنیہا کی آنکھیں نہ چمکیں نہ لب ہلے۔ وہ خاموشی سے لڑکیوں کی بینچ پر بیٹھی لکچر سنتی رہی اور دو تین دن یوں ہی بس ایسے ہی گزر گئے۔ یقیناً سنیہا بدل چکی تھی۔ کبھی کبھی رام چندرن کو بڑا تعجب ہوتا۔
’’ کیا یہ وہی لڑکی ہے، جس نے مجھے پہلے دن ’’ویل کم ٹو اَوَو کالج سر‘‘ کہا تھا!‘‘
’’کہیں میرے اجنبی رویّے سے ہی تو ایسی نہیں ہو گئی۔‘‘ وہ سو چتا، لیکن سنیہا کا صرف رویّہ ہی نہیں بدلا تھا بلکہ جسمانی طور پر بھی وہ بدل سی گئی تھی۔ اب وہ کچھ موٹی ہو گئی تھی۔ رنگت کھل گئی تھی۔ لمبی چوٹی کی جگہ اسٹیپ کٹ، لہر دار کھلے بالوں میں چہرہ پھولا پھولا اور پیارا سانظر آتا تھا۔
ایک دن کلاس سے نکلتے وقت سنیہا خود رام چندرن کے پاس آئی۔
’’سر آج آپ نے ’ٹیمپیسٹ ‘ کیوں پڑھایا؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ رام چندرن نے تعجب سے اسے دیکھا، ’’تمہیں تو شیکسپیئر بہت پسند ہے نا!‘‘
’’جی سر! اور خاص طور پر جبکہ آپ پڑھا رہے ہوں۔‘‘
رام چندرن کو بڑی خوشی ہوئی کہ سنیہانے کالج کے پہلے دن کو یاد رکھا تھا۔
’’اچھا! پھر!‘‘
’’سر آج کلاس میں اسٹوڈنٹس بہت کم ہیں نا!‘‘
’’ہاں، میں پوچھنے والا تھا، کیوں؟‘‘
’’سر بی اے کے لڑکوں نے پکنک کا پروگرام بنایا تھا۔‘‘
’’تم کیوں نہیں گئیں؟‘‘
’’رچنا نے بتایا تھا کہ آپ لکچر لینے والے تھے۔ اس لئے۔‘‘
’’اچھا! … ‘‘ وہ متاثر ہونے لگا۔ ’’میں یہی کہہ رہی تھی سر کہ آپ کی مدد کے بغیر شیکسپیئر کو کوئی کیسے سمجھ پائے گا! آپ کو آج کچھ لائٹ پڑھانا تھا۔ زیادہ اسٹوڈنٹ ہوتے تو …‘‘
’’ہاں، تم صحیح کہہ رہی ہو۔ آج ’بیکن‘ کو پڑھا جا سکتا تھا۔‘‘
’’جی سر!‘‘
’’سنیہا، ذرا تم سے کچھ بات کرنی تھی۔ یہاں آؤ۔‘‘ وہ دریچے کی طرف آ گئے۔
’’ہیئر اسٹائل بدلنے سے اچھی لگتی ہو۔‘‘
’’تھینک یو سر۔‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ، اس سال چپ چپ کیوں رہتی ہو؟‘‘ رام چندرن نے اس کے چہرے کا ردِ عمل دیکھے بغیر کہا۔
’’میری ساتھی نہیں ہیں نا سر۔ میں تو فیل … ‘‘
’’ارے نہیں! دوست بنانے میں کتنی دیر لگتی ہے! … مجھے تو وجہ کچھ دوسری ہی لگتی ہے۔‘‘
’’جی سر!‘‘ وہ مان گئی، در اصل بات یہ ہے کہ میرا ایک کزن ہے، جو فوج میں ہے۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے، سر!‘‘
رام چندرن کو اچھا نہیں لگا مگر اس نے نارمل رہتے ہوئے پوچھا۔ ’’تو کیا وہ دیکھنے میں اچھا نہیں؟‘‘
’’نہیں سر، وہ تو بہت ہینڈسم ہے۔‘‘
’’ پھر گھر والوں کو پسند نہیں؟‘‘
’’وہ تو اسے بہت پسند کرتے ہیں سر!‘‘
’’پھر؟‘‘
’’مگر میں اس سے محبت نہیں کرتی سر۔‘‘
’’عجیب بات کرتی ہو۔ اب دیکھو نا۔ میں بھی اسی سال دیوالی میں شادی کر رہا ہوں۔ اپنی ماں کی پسند کی لڑکی کے ساتھ۔‘‘ رام چندرن نے کچھ خیال کر کے اپنی شادی کے بارے میں اسے بتا دینا ضروری سمجھا،۔ ’’بھلا شادی کے لئے محبت کرنا کیا ضروری ہے؟‘‘
’’پتہ نہیں سر! وہ میرا جتنا خیال رکھتا ہے، مجھے اس سے اتنی ہی چڑ آتی ہے۔‘‘ وہ کہتی رہی۔ ’’ویسے تو سر بہت سے رشتے آتے ہیں مگر ڈیڈی چاہتے ہیں کہ میں دیپک سے ہی شادی کر لوں۔‘‘
’’پھر … !‘‘ رام چندرن جاننا چاہتا تھا کہ وہ اس سے کیا کہنا چاہتی ہے!
’’سر مجھے آپ مشورہ دیں۔‘‘
’’دیکھو سنیہا! پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہیں بی اے کرنے میں ابھی دو سال اور باقی ہیں۔ دوسرے یہ کہ میں نے کہیں پڑھا ہے، ’شادی اس سے کرو، جو تمہیں چاہتا ہو۔ اس سے نہیں، جسے تم چاہو۔‘‘
’’سر آپ میری بات تو سنیں۔‘‘ اس نے تعجب سے رام چندرن کو دیکھا۔
’’کیوں چندر، چائے پیو گے؟‘‘ پروفیسر مہرہ نے سیکنڈ ایئر کی کلاس سے نکل کر آواز لگائی۔
’’آپ کینٹین چلیے سر میں ابھی آیا‘‘ ۔ رام چندرن نے خود اعتمادی سے پُر لہجے میں مہرہ کی معنی خیز نظروں کو کاٹا اور سنیہا سے پوچھا۔
’’جولی بر گنزا اور سری دھر کی کیا خبر ہے۔‘‘
’’سر جولی نے تو شادی کر لی اور سری دھر نے نوکری کر لی۔‘‘
’’یعنی کہ دونوں ہی کو پڑھائی کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا اور آگے بڑھ گیا۔
اسٹاف میٹنگ کے لئے آفس کی طرف جاتے ہوئے رام چندرن کو آکاش ورما نے روکا۔
’’سر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
’’آکاش آرٹس فیکلٹی کا نہیں تھا مگر اسپورٹس میں اچھا تھا، اس لئے وہ اس کے با رے میں اتنا ہی جانتا تھا کہ وہ بی کام کے دوسرے سال میں تھا۔
’’مجھے میٹنگ میں جانا ہے۔‘‘ رام چندرن نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’سر میں صرف دو منٹ لوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے کہو۔‘‘ اس نے اپنا چمڑے کا بیگ نیوز پیپر بورڈ پر رکھ کر کہا۔
’’سر آپ کی ایک اسٹوڈنٹ ہے نا سنیہا کلکرنی!‘‘
’’ہوں۔‘‘ سنیہا کا نام سن کر وہ چونکا۔ اسے یاد آیا کہ کچھ دن پہلے لائبریری کے باہر سنیہا اور دیپتی کو باتیں کرتے دیکھ کر وہ انجان بن کر وہاں سے نکل گیا تھا۔
’’فرسٹ ایئر بی اے میں سر۔‘‘ اسے سوچتا دیکھ کر آکاش بولا۔
’’ہاں تو۔‘‘
’’سر میں اس کو بہت چاہتا ہوں سر۔‘‘ رام چندرن کو بڑا عجیب لگا۔ سنیہا جو لڑکوں سے بات کرتے ہوئے گھبراتی تھی!
’’سر وہ بھی مجھے چاہتی ہے مگر اب مجھ سے بات نہیں کرتی۔ مجھے دیکھ کر بھاگ جا تی ہے سر۔‘‘
’’تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’سر وہ آپ کی بہت تعریف کر تی ہے آپ ہی اس سے پوچھئے نا! وہ ایسا کیوں کر رہی ہے!‘‘
-وہ چپ رہا۔
’’پلیز سر۔‘‘
’’او کے میں اس سے بات کر لوں گا۔‘‘
دوسرے اور تیسرے دن سنیہا کالج نہیں آئی۔ رام چندرن اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ متجسس تھا ساری حقیقت کا پتہ چلا نے کے لئے۔ پتہ نہیں وہ دو دن غیر حاضر کیسے رہی تھی۔
چو تھے دن سنیہا لکچر میں آئی۔ رام چندرن نے سنیہا کو غور سے دیکھا۔ اس نے اپنا ہیئر اسٹائل پھر بد لا تھا۔ اس کے سانولے چہرے کو نو جو انی نے گلابی بنا دیا تھا۔
’’سنیہا کلاس کے بعد اسٹاف روم میں آؤ تم سے بات کرنی ہے۔‘‘ رام چندرن سے رہا نہ گیا اور اس نے کلاس روم میں ہی کہہ دیا۔‘‘
لکچر کے بعد سنیہا اسٹاف روم میں دیپتی کے ساتھ صوفے پر بیٹھی تھی۔
’’ذرا ایک منٹ‘‘ رام چندرن نے لاکر کو کھو لتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہیں ایک کتاب دینا چاہتا ہوں۔ پڑھو گی۔‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’جین آسٹن کی ’پرائڈ اینڈ پریجوڈیز‘ کیا تم نے پڑھی ہے۔ اس کی ہیروئن کی انا حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے پھر … ۔‘‘
’’جی سر میں پڑھ چکی ہوں۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے لاکر بند کر دیا اور صوفے سے لگی ہوئی کرسی پر آبیٹھا۔
’’یہ آکاش ورما والا کیا چکر ہے۔‘‘ وہ سیدھے کام کی بات پر آ گیا۔
’’سر آپ کو کیسے پتہ چلا؟‘‘ اس نے شرمندگی سے دیپتی کی طرف دیکھا۔
’’دو دن ہوئے وہ مجھے ملا تھا۔‘‘
’’کیا کہہ رہا تھا سر۔‘‘ وہ اب تک شرمندہ تھی۔
’’کیا تم اسے پسند کرتی ہو؟‘‘
’’ایسی تو کوئی بات نہیں سر۔‘‘
’’در اصل سر وہی سنیہا کے پیچھے پڑاہوا ہے۔‘‘ دیپتی پہلی بار بولی تھی۔
’’سر ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا، ’مجھ سے دوستی کرو گی؟‘ اور سر آپ نے اسی دن مجھے لڑکوں سے کٹے رہنے پر ٹوکا تھا۔ یاد ہے سر، جب میں نے سری دھر کو اپنی نوٹ بُک نہیں دی تھی!‘‘ سنیہا خواہ مخواہ ہی صفائی پیش کرنے لگی تھی۔
’’ٹھیک ہے پھر … !‘‘ رام چندرن نے کہا۔
’’کچھ دن ہنسی مذاق کی باتیں کرتے رہنے کے بعد ایک دن وہ کہنے لگا، ’آئی لَو یو‘ اسٹوپِڈ کہیں کا!‘‘
’’پھر تم نے کیا کہا؟؟‘‘
’’کچھ نہیں سر۔ مجھے لگا تھا وہ مذاق کر رہا ہے اسی لئے میں مسکرا دی تھی۔‘‘
’’سر، اِس کا بھی قصور ہے۔‘‘ دیپتی بولی، ’’اِس کے مسکرانے سے آکاش کو شہ ملی۔‘‘
’’پھر … ؟‘‘ رام چندرن نے دیپتی کو دیکھا۔
’’کچھ نہیں سر! وہ اس کے پیچھے ہی پڑ گیا۔ آتے جاتے ’آئی لَو یو‘ کہتا ہے۔ کا مرس کے لڑکے تو اِسے دیکھتے ہی چڑانے لگتے ہیں۔‘‘ دیپتی نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے۔ تم جاؤ میں آکاش سے بات کروں گا۔‘‘
’’سر پلیز آپ آکاش کو سمجھایئے۔ اس کی وجہ سے تو میں بد نام ہو جاؤں گی۔ میرے پتا مجھے کالج سے نکال دیں گے سر۔‘‘ سنیہا دھیرے سے بولی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’تھینک یو سر۔‘‘ دونوں بولیں اور چلی گئیں۔ رام چندرن نے اپنا تھیلا اٹھا یا اور پرو فیسر مہرہ کے ساتھ کالج سے باہر آ گیا۔
’’سر۔ سر۔ سر۔؟‘‘ دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔
آکاش دوڑا چلا آ رہا تھا۔ ’’سر آپ سے مجھے کچھ پرائیویٹ بات کرنی ہے۔‘‘
رام چندرن نے مہرا کی طرف دیکھا۔
’’تم بات کر لو۔ مجھے بارہ بجے کی بس پکڑنی ہے۔ بائے!‘‘ مہرا چلا گیا۔
’’کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ رام چندرن نے ٹھہر کر آکاش کو غور سے دیکھا۔ گورا رنگ، کتابی چہرہ، دبلا پتلا، نازک نین نقش، اگر یہ لڑکی ہوتی تو بھی کئی نوجوان اس پر عاشق ہوتے۔ نہ جانے اُس سانولی سلونی سنیہا میں اِسے کیا بات نظر آئی تھی!
’’سر آپ نے اُس سے بات کی۔‘‘
دو دنوں سے آکاش، رام چندرن کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ روز یہی جملہ بغیر ایک لفظ اِدھر اُدھر کئے پو چھتا … مگر پچھلے تین دن تو سنیہا ہی کالج نہیں آئی تھی۔
’’ہاں آکاش‘‘
’’سر آئیے، سامنے بھارت ہوٹل میں بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’چلو۔‘‘
’’سر آپ چائے کے ساتھ کیا لیں گے؟‘‘ ہوٹل میں ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے آکاش نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بلکہ چائے بھی نہیں۔‘‘
’’سر ایسے کیسے چلے گا؟ ہوٹل میں بیٹھے ہیں تو چائے تو لینی ہی پڑے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے اب کہو۔‘‘
’’ویٹر دو اسپیشل چائے۔‘‘ آکاش نے آواز لگا کر کہا۔
’’سر کیا کہتی ہے وہ؟‘‘
’’تم کیا سننا چا ہتے ہو؟‘‘
’’سر وہ مجھے نظر انداز کیوں کرتی ہے؟ مجھے اس کا جواب چاہئے۔‘‘
’’وہ تمہیں پسند ہی نہیں کرتی تو … ‘‘
’’مگر میں تو اسے پسند کرتا ہوں سر!‘‘
’’اِس سے کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’سر وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے۔‘‘
’’پسند کرنے سے بھی کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’سر وہ مجھے چاہتی بھی ہے۔‘‘
’’کیا اس نے کہا ہے؟‘‘
’’نہیں سر! مگر اِس سے کیا ہوتا ہے سر! اُس کا بات کرنے کا انداز ہی بتاتا ہے … سر آپ نے اسے کبھی غور سے نہیں دیکھا۔ آج کل وہ بالوں کے اسٹائل اور لباس میں کتنی محتاط رہتی ہے اور گلا بی کپڑے تو خاص طور پر پہنتی ہے کیو نکہ میں نے اس سے کہا تھا۔ ‘، ‘اس نے غرور کے ساتھ کہا۔
’’اِس سے کیا ہوتا ہے آکا ش؟ ہو سکتا ہے اسے بھی وہی پسند ہو۔‘‘
رام چندرن کی مایوس نگاہوں میں سنیہا کا سراپا گھوم گیا۔
کہیں آکاش سچ تو نہیں کہہ رہا ہے!
’’اچھا یہ بتاؤ … اگر۔ تم جو کہتے ہو وہ سچ ہے تو وہ تم سے دور کیوں بھا گتی ہے؟‘‘
’’کیونکہ سر … پتہ نہیں سر۔‘‘ وہ بوکھلا گیا۔ ’’سر اُس نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے۔‘‘ اس نے استادی شاگردی کے رشتے کو بالائے طاق رکھ کر اپنی دھن میں کہا۔
’’تمہاری دیوانگی اور اپنی بد نامی سے وہ ڈرنے لگی ہے۔‘‘ رام چندرن نے بھی مائنڈ نہیں کیا۔
’’ہو سکتا ہے سر۔‘‘
’’تم اس کا پیچھا چھوڑ دو، وہ خود ہی نا رمل ہو جائے گی۔‘‘
’’سر۔‘‘ اس نے بے بسی سے کہا، ’’سر میں زہر کھا لوں گا۔‘‘
تیسرے دن لکچر ہال میں جا نے سے پہلے ہی سنیہا، رام چندرن سے ملی۔
’’سر ذرا ایک منٹ!‘‘ کہہ کر وہ دریچے کی طرف چلی گئی۔ رام چندرن نے سو چا۔ وہ تو خواہ مخواہ ہی سنیہا اور آکاش معاملے میں ملوث ہونے لگا تھا۔ اسے آکاش کے جذبے میں سچائی نظر آنے لگی تھی۔
عام طور پرز ہر کھانے کی نو بت تو لڑکیوں پر ہی آتی سنائی دیتی ہے۔
’’سر دیکھئے اِس بد تمیز کو … اب میری کا لونی کے چکر لگانے لگا ہے۔ کالج کی بد نا می کا فی نہیں ہوئی۔ اب کا لونی میں بھی رہنا دوبھر کر رہا ہے۔‘‘ سنیہا نے بنا کسی تمہید کے کہا:
’’دو سرے اگر میرے ڈیڈی اور بھیا کو پتہ چل گیا تو وہ اسے دھُنک کر رکھ دیں گے۔‘‘
’’دیکھو سنیہا تم ایک اچھی لڑکی ہو۔ ان بکھیڑوں میں نہ الجھو۔‘‘
سنیہاجب رام چندرن سے بات کرتی تو وہ اس کی طرف سے ہی سوچنے لگتا۔ یہ بھی اسے عجیب لگتا۔
’’تم اُسے نظر انداز کیوں کرتی ہو؟ اسی لئے تو اس کی انا جاگتی ہے۔ وہ تڑپتا ہے، پریشان ہوتا ہے۔ ایک دن آکاش سے دو ٹوک بات کر لو۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’مگر سر … ‘‘
’’اب چلیں کلاس میں … دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے ذرا سختی سے کہا۔
’’جی سر۔‘‘ وہ سرجھکا کر غیر مطمئن سی آگے بڑھ گئی۔
ہفتہ بھر بعد رام چندرن ایک اونچے لمبے لڑکے کے ہاتھوں نوٹس بورڈ پر ڈِبیٹ کا نوٹس لگوا رہا تھا۔
’’ہاں موضوع لکھو، ’’شادیاں محبت کی ہونی چاہئیں / نہیں ہونی چاہئیں۔‘‘ پیچھے سے سنیہا کی آواز آئی، ’’سر! میں بھی ڈِبیٹ میں حصہ لوں گی۔‘‘
’’موافقت میں کہو گی یا مخالفت میں۔‘‘
’’موافقت میں۔‘‘
’’یعنی شادیاں محبت کی ہونی چاہئیں!!‘‘ رام چندرن نے معنی خیز انداز میں پوچھا۔
’’جی سر‘‘ اس نے اطمینان سے کہا۔
’’سر آپ سے مجھے ایک بات کہنی تھی۔‘‘
’’آکاش ہی کی بات نا۔‘‘
’’جی سر۔‘‘
لڑکے نے نوٹس لگا کر نوٹس بورڈ کی چابی رام چندرن کے ہاتھ میں دے دی۔
’’سر وہ کل میرے گھر بھی آیا تھا۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’ … اور ڈیڈی سے بات بھی کی۔‘‘
’’او کے!‘‘
’’جی سر۔ ڈیڈی سے کہتا تھا، میں سنیہا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’پھر۔‘‘
’’سر ڈیڈی نے کہا، ’پہلے پڑھائی ختم کرو کچھ نوکری کرو پھر آنا اپنے ماں باپ کولے کر۔‘‘
’’چلو یہ بھی ٹھیک ہی ہوا۔ معا ملہ سلجھ گیا۔ … اب تو خوش ہونا؟۔‘‘
’’نہیں سر۔ وہ چاہے کلکٹر بن جائے، میں اس سے شادی نہیں کروں گی!‘‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’کیوں بھئی اب کیا ہوا۔ بالکل بچوں جیسی حالت ہے تمہاری تو … تمہیں جو پسند کرے، وہ گناہ کرے۔ اُسی سے بھاگتی ہو۔ شاید تمہیں لا حاصل ہی پسند ہے۔‘‘ رام چندرن سچ مچ چِڑنے لگا تھا۔
’’سر … ‘‘ وہ پریشان ہو کر کچھ کہنے لگی تھی۔
’’چلو بس اب ختم کرو اس معاملے کو اور پڑھائی میں دل لگا ؤ۔‘‘
آج کل گھر جانے سے پہلے رام چندرن کالج آفِس میں ڈاک دیکھنے ضرور جاتا تھا۔ کئی دنوں سے ماں کا خط نہیں آیا تھا۔
’’سر۔‘‘ آکاش شاید اُسی کے انتظار میں آفِس کے سامنے کھڑا تھا۔ رام چندرن نے اپنے خیالوں سے نکل کر اس کی طرف دیکھا۔
’’سر، آپ کی اسٹوڈنٹ اپنے آپ کو نہ جا نے کیا سمجھتی ہے!‘‘ وہ رکے بغیر کہتا رہا، ’’میں نے بھی اس سے کہہ دیا ہے کہ شادی کروں گا تو اسی سے۔ اس کے ڈیڈی بھی راضی ہیں۔ بس یہی نخرے کرتی ہے۔ … خود کو بیوٹی کوئن سمجھتی ہے سر۔‘‘
رام چندرن کو اس کا لہجہ بہت برا لگا۔ یہ کیسا عشق ہے!
کیا یہ عشق ہی ہے؟
’’ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟‘‘
’’سر دیکھئے، میں تو اس سے ہر لحاظ سے اچھا ہوں۔ خوبصورتی میں، دولت میں، ہر بات میں۔‘‘ وہ ذرا نرم پڑ کر سمجھانے کے انداز میں کہہ رہا تھا۔
’’ہے نا سر؟‘‘
’’کمال ہے!‘‘ رام چندرن کو اپنے غصہ پر قابو نہ رہا تو وہ بغیر ڈاک دیکھے ہی گھر چلا گیا۔ اسے آکاش سے جو ہمدردی تھی وہ بالکل ہوا ہو گئی۔ وہ سوچتا رہا، ’کتنا خود پرست انسان ہے وہ!‘
دوسرے دن فرسٹ ایئر میں رام چندرن کا لکچر نہیں تھا مگر وہ خود اس کلاس میں جا کر سنیہا سے اسٹاف روم میں آنے کے لئے کہہ آیا۔
’’سر کی فیوریٹ ہے بھائی! سینٹ پر سینٹ مارکس ملیں گے ہاں، انگریزی میں۔‘‘
دوسرا وقت ہوتا تو پیچھے کے بنچ آئی ہوئی سری دھرکی آواز کو پہچان کر وہ چپ نہ رہتا مگر آج تو اسے سنیہا سے ہی بات کرنی تھی۔
سنیہا اپنے ساتھ دیپتی کو لے آئی تھی۔ اسٹاف روم میں کچھ اساتذہ لکھنے یا پڑھنے اور کچھ باتوں میں محو تھے۔ صوفے کی دوسری جا نب مہرہ اور اس کے کچھ شاگرد بیٹھے ہوئے تھے۔
’’سنیہا، تمہیں آکاش سے بالکل شادی نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ وہ چپ رہی۔
’’جو لڑکا خود کو دولت اور حسن میں بہتر اور تمہیں کمتر سمجھے، وہ یقیناً محبت نہیں کرتا … اور مجھے تو یہ سوائے کشش بلکہ ضد کے، کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ رام چندرن نے جیسے آکاش کی نفسیات کے بارے میں سنیہا کو آگاہ کیا۔
’’سر کل میں یہی تو آپ سے کہنا چاہتی تھی … مگر آپ سمجھے … ‘‘ اس نے حیرت سے کہا اور بات ادھوری چھوڑ کر چپ ہو گئی۔
اگلے سال سنیہا نے پاس ہو کربی اے کے دوم سال کے لئے دوسرے شہر میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ دوبا رہ رام چندرن سے ملنے کبھی نہیں آئی۔ رام چندرن کو افسوس ہوا۔ سنیہا آکاش قصے کا انجام عجیب سے المیہ کا رنگ لئے ہوا تھا۔ شاید دونوں ایک دوسرے کو سمجھ ہی نہیں پائے تھے۔ اور پھر مجھ جیسا interpreter! وہ افسوس سے سوچا اور اکثر اسے یاد کر کے مغموم ہوتا۔
پا نچ سال گزر گئے۔
رام چندرن اپنے ایک پرانے طالبعلم اور پڑوسی انٹونی کو ساتھ لے کر اپنے تین سالہ بیٹے کنال کو اپنی بلڈنگ کے کمپاؤںڈ سے باہر سائیکلنگ کروارہا تھا۔ ننھی سی سائیکل پر توازن قائم کرتا ہوا کنال فراٹے سے سامنے سے نکل جاتا اور انٹونی اس کے پیچھے بھا گنے لگتا۔ رام چندرن بڑے مزے سے کنال کے معصوم کھیل دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اس نے اپنے پیچھے انٹونی کو کسی کے ساتھ باتیں کرتے سنا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کے ساتھ آکاش ورما کھڑا تھا۔
’’گڈایو ننگ سر۔‘‘ آکاش رام چندرن کے قریب آ کر جھجکتے ہوئے مسکرایا۔ اپنی بیزاری کو اپنے تجسس کی وجہ سے چھپاتے ہوئے رام چندرن نے سر ہلا دیا۔
’’کیسے ہیں سر آپ؟‘‘
رام چندرن نے جواب دینے کی بجائے مسکرانا بہتر سمجھا۔
’’سر آپ یہیں رہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں تم کیسے ہو؟ سنا ہے لاء کیا ہے؟پریکٹس کر رہے ہو؟‘‘
’’کہاں سر! میں نے ایل ایل بی پورا ہی نہیں کیا۔ سکنڈ ایئر میں ہی اٹکا ہوا ہوں، تین سالوں سے۔‘‘
’’تین سالوں سے؟ پھر تو چھوڑ ہی دو۔ بی کام کا آخری سال بھی تین سالوں میں ہی کیا ہے نا؟‘‘
’’نہیں نہیں سر ایک ہی بار فیل ہوا تھا۔ دوسری بار میں پاس ہو گیا تھا۔‘‘
’’تم تو لاء پڑھ ہی نہیں سکتے۔ چھوڑ دو اب پڑھائی … ‘‘
’’سر لوگ تو ایک ایک سبجیکٹ پاس کر کے بھی لائر بن جاتے ہیں۔‘‘ انٹونی نے آکاش کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔
’’سر میں کچھ بیکار نہیں پھر رہا ہوں۔‘‘ رام چندرن کے لہجے میں طنز کومحسوس کرتے ہوئے آکاش نے صفائی پیش کی، ’’ میرے ڈیڈی انکم ٹیکس کنسلٹینٹ ہیں۔ انھیں کا ہاتھ بٹا تا ہوں۔ اب سنجیدگی سے پڑھوں گا۔‘‘
’’کیوں اب لڑکیوں کے گھر کے چکر لگا نے چھوڑ دیئے ہیں۔‘‘
’’کیا سر آپ بھی!‘‘ اس نے بے تکلفی سے کہا۔ تبھی ایک لنگڑا کر آتی ہوئی لڑکی نے پیچھے سے اس کا سہارا لیا۔
’’سر ان سے ملئے نیلما، میری منگیتر۔‘‘
’’سر یہ بی ایس سی ہے اور ایل ایل بی کے تیسرے سال میں ہے۔ اور نیلما یہ رام چندرن سر ہیں۔ کالج میں انگریزی پڑھا تے ہیں۔‘‘
’’چپل ٹوٹ گئی تھی سر۔‘‘ شاید نیلما نے کچھ بات کرنے کے لئے زبردستی مسکرا کر کہا اور آکاش کی طرف دیکھتی ہوئی سنجیدگی سے بولی۔
’’اب میں یہیں کھڑی ہوں۔ تم جا کر میرے لئے چھ نمبر کے چپل خرید لاؤ۔‘‘ اُس نے جیسے آنکھوں سے اسے ڈرایا۔
’’او کے جناب۔‘‘ وہ بڑی بے بسی کے ساتھ سر خم کر کے بولا۔
رام چندرن کی نگاہوں میں سنیہا گھوم گئی اور آکاش کا جملہ کہیں دور سے سنائی دیا۔
’ ’سر میں زہر کھا لوں گا۔‘‘
’’چلو کنال مجھے باہر جا نا ہے۔‘‘ رام چندرن نے بات چیت کے سلسلے کو مزید بڑھائے بغیر بیٹے سے کہا۔
’’سر تھوڑی دیر بعد میں کنال کو آپ کے گھر چھوڑ جاؤں گا۔‘‘ کھیل میں منہمک کنال کو اور پھر نیلما کو دیکھتے ہوئے انٹونی نے کہا اور رام چندرن اپنے گھر چلا آیا۔
تیار ہو کر رام چندرن اور اس کی بیوی روپا چائے پی رہے تھے کہ انٹونی کنال کو لے کر آ گیا۔
’’سر، آپ کا بیٹا تو گھر لوٹنے کو راضی ہی نہیں تھا۔ آپ لوگوں کے باہر جانے کا کہا، تو بڑی مشکل سے آیا ہے۔‘‘
روپا کنال کو تیار کرنے اندر لے گئی۔
’’بیٹھو۔ چائے پیو گے؟‘‘ رام چندرن نے انٹونی سے پو چھا۔
’’نہیں سر میں نے کچھ دیر پہلے ہی پی ہے۔‘‘ اس نے ادب سے جواب دیا۔
’’تمہیں پتہ ہے، بڑا عا شق تھا آکاش ایک لڑکی کا، اپنے کالج کے زما نے میں! شا دی کرنا چاہتا تھا۔ زہر کھا نے کی باتیں کرتا تھا۔‘‘ رام چندرن جیسے آکاش کے با رے میں انٹونی سے سب کچھ کہنے کے لئے تیار ہی بیٹھا تھا۔
’’مگر سر … وہ تو کہہ رہا ہے کہ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ شرط لگائی تھی کہ سنیہا جیسی لڑکوں سے دور رہنے والی لڑکی کو رام کر کے ہی دم لے گا۔‘‘
رام چندرن انٹونی کا چہرہ بڑی بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔
’’شادی کا پروپوزل بھی شرط جیتنے کے لئے ہی رکھا تھا۔ وہ آسانی سے دام میں نہیں آ رہی تھی نا! سنا ہے بڑی ٹیڑھی کھیر تھی وہ!‘‘
’’اور میں الّو کا پّٹھا!‘‘ رام چندرن کے منہ سے نکلا۔ اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ کر طشتری میں لڑھک گیا۔ ذرا سی چائے چھلک کر سفید شرٹ کو داغدار بنا گئی تھی۔
٭٭٭