ہر روز صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ہزاروں مزدور وسگس کے تنگ راستوں پر وادی کی فیکٹریوں کی طرف اپنے کام کی طرف جا رہے ہوتے۔ رات کے اندھیرے میں وہ اپنے ٹھکانوں کو لوٹتے جہاں ایک بستر پر کئی لوگ سوتے تھے یا سرد ہوادار جھونپڑوں میں یا بارسلونا یا لوول کی کچی آبادیوں میں۔
صدیوں سے دنیا میں شدید غربت اور سخت مزدوری عام تھی لیکن اس بار ایک نیا نظارہ تھا۔ مشینی پیداوار کے ردھم پر چلتے انسانوں کا سمندر جو ان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔ ہفتے میں چھ دن، کم سے کم بارہ گھنٹے، بچے، خواتین اور حضرات ان مشینوں کو چلاتے، ان کو کِھلاتے، ان کی مرمت کرتے اور ان کی نگرانی کرتے۔ خام کپاس کی گانٹھیں کھولتے، ان کو کارڈنگ مشینوں کے اندر ڈالتے، جہاں دھاگہ ٹوٹتا، اس کی مرمت کرتے، تکلے بھر جانے پر ان کی صفائی کرتے۔ گھومتی مشینوں کی دیکھ بھال کرتے۔ سامان ڈھو کر لے جاتے۔ اس سب کے لئے ڈسپلن کی ضرورت تھی۔ اس ڈسپلن کے کئی طریقے تھے۔ اس میں جرمانہ بھی تھا اور ملازمت سے برخواستگی بھی۔ انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں ایک کارخانے کے ریکارڈ میں برخواست کرنے کی وجوہات میں ہر قسم کی وجہ نظر آتی ہے۔ “گندی زبان استعمال کرنا”، “اپنے بدصورت چہرے سے مسٹر پیئرسن کو خوف زدہ کرنا” بھی۔
لیبر فورس کا ڈسپلن قائم رکھنا آسان نہیں تھا۔ ایک برطانوی مل میں 1786 کے بعد بیس برسوں میں 780 اپرینٹس بچے بھرتی ہوئے۔ ان میں سے 119 بھاگ گئے۔ 65 وفات پا گئے۔ 96 کو ان کے والدین یا نگران نے واپس بلا لیا۔ یہ اس دور کی ابتدا تھی جس کو ولیم بلیک نے “تاریک شیطانی کارخانے” کا دور کہا ہے۔
سردی ہو یا گرمی، بارش یا دھوپ، مزدور ان کئی منزلہ عمارتوں میں جاتے۔ ان کے بڑے کمروں میں کام کرتے۔ عام طور پر گرم اور ہمیشہ حبس اور دھول مٹی والی جگہ اور کان پھاڑ دینے والے شور کا ماحول۔ یہ محنت کرتے، غربت کی زندگی بسر کرتے اور جوانی میں فوت ہو جاتے۔ لیون لیوی نے 1863 میں لکھا، “کچھ دیر کے لئے ان میں سے کسی فیکٹری میں چلے جائیں، ان ہزاروں مزدوروں کو دیکھیں، کام میں جتے ہوئے۔ ان کا ہر منٹ، یہاں کا ہر گز، ہر تربیت یافتہ آنکھ، ہر ماہر انگلی، ہر سوچنے والا ذہن ایک سخت پریشر میں دی جانے والی خدمت ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم میں سے بڑی تعداد اپنی محنت کو فروخت کر کے پیسے کماتی ہے۔ روز کے مخصوص گھنٹے کام کرنے کے عوض تنخواہ ملتی ہے جس سے ضرورت کی اشیا خریدی جاتی ہیں۔ یہ ایک حیران کن سسٹم ہے جو تاریخِ انسانی میں ایک جدید اختراع ہے۔
ہم اس پر بھی حیران نہیں ہوتے کہ مشینیں انسانی ایکٹیوٹی کی رفتار طے کرتی ہیں۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ایسا نہیں تھا۔ اگر اس وقت دنیا کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسے لوگ جو اجرت کے عوض کام کرتے تھے بہت ہی کم تھے۔ اور کام کا ردھم کئی چیزیں طے کرتی تھیں۔ موسم، رواج، قدرت کے سائیکل۔ لیکن مشینیں نہیں۔
لوگ کام اس لئے کرتے تھے کہ وہ غلام تھے یا پھر کسی فیوڈل کے زیرِ نگیں۔ یا مذہبی ذمہ داری کی وجہ سے۔ یا پھر وہ اپنی گزربسر زمین پر پیداوار اگا کر کرتے تھے۔ اس زمین پر کسی طرح کے ملکیتی حقوق ہوا کرتے تھے اور اوزار ان کے اپنے ہوتے تھے۔
دھاگے اور کپڑے کی تیاری کی مزدوری بنیادی طور پر ہی بالکل جدا تھی۔ اس کا انحصار اس پر تھا کہ لوگوں کو کیسے قائل کیا جا سکتا ہے یا لالچ سے لایا جا سکتا ہے یا جبر سے کہ وہ صدیوں سے انسانی زندگی کی کی گئی تنظیم چھوڑ دیں اور فیکٹری کا طرزِ زندگی اپنا لیں۔ یہ مشینیں خود شاندار تھیں اور دنیا کو تبدیل کرنے والی تھیں لیکن کام کے ردھم میں آنے والی تبدیلیاں زیادہ نتیجہ خیز تھیں۔ بہت سے محنت کش دوسرے مستقبل کی دنیا کی بنیاد ڈال رہے تھے۔
اجرت کے عوض کام کا نظام صنعتی کیپیٹلزم کی ایک بہت شاندار جدت تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...