وُہ میری قطار سے اگلی قطار میں میرے سامنے سے دائیں والی کرسی پر دونوں پاؤں اپنی رانوں تک سکیڑ کر سیٹ پر رکھے بیٹھی تھی۔
آلتی پالتی مارے نہیں بلکہ اپنی منحنی، نازک ٹانگیں دوہری کئے۔
اس کے لاغرسفید پاؤں مجھے بہت خوب صورت اور سبک لگ رہے تھے۔
ایک پاؤں اُجلا تھا اور ایک میلا۔
وُہ خود بھی سُبک تھی۔ دھان پان۔
جیسے چاہے تو ہوا اُڑا لے جائے۔
“اسے میں اٹھاؤں تو یہ اتنی ہی ہلکی ہو گی جتنی مجھے محسوس ہو رہی ہے کہ یہ ہے؟
ایک عجیب سا خیال میرے ذہن میں آیا۔”
یہ گوشت پوست کی عورت ہے۔ اس کے سارے، مکمل اعضا ہیں۔
یہ زندہ ہے۔ سانس لیتی کھاتی پیتی ہضم کرتی ہے۔
چلتی پھرتی سوتی جاگتی ہے۔
یہ یقیناً رُوئی جیسی ہلکی نہیں ہو گی نہ بیر بہو ٹی جیسی نازک۔
اُٹھانے میں یقیناً اچھا خاصا وزن محسوس ہو گا جو مجھے حیران کر دے گا اور چھونے سے یہ ٹھوس لگے گی جو میرے لطیف تصور کو کثیف کرنے کے لئے کافی ہو گا”۔
میں نے سوچا۔
اُس کے بال کالے تھے۔ سیاہ کالے اور لمبے۔ بالکل سیدھے۔ جیسے مصنوعی ہوں۔ اتنی مکمل چیزیں تو مصنوعی ہی ہو سکتی ہیں نا۔ فطری ساخت میں تو کچھ کمی بیشی، کچھ نہ کچھ انیس بیس کا فرق، کچھ اوپر نیچے ہوتا ہی ہے جو کسی چیز کو فطری شکل و صورت دیتا ہے۔
ایسے ہی اُس کے دانت تھے جو مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔
سفید۔
بہت سفید اور چمکدار سفید نہیں، صرف سفید اور ہموار۔
متوازن۔
عجیب لگنے کی حد تک متوازن۔
میرا خیال بہکنے لگا اور میں اس کے دیگر مستور اعزا کو چشم تصور سے دیکھنے لگا۔
سُبک، نازک اور مکمل۔
متوازن۔
مصنوعی ہونے کی حد تک متوازن اور نازک۔
متناسب۔
مجھے لگا کہ اگر میں اسے اوڑھوں تو وہ بہت باریک پڑے گی اور اگر ڈھانپوں تو وہ دب جائے گی۔
“جو چیز اتنی خالص، اتنی شفاف اتنی متوازن اور اتنی مکمل ہو وہ کیا لازم ہے کہ مصنوعی ہی ہو۔” میرا خیال بہکا۔
” میں اصلی ہوں تو تھوڑا کرخت، بے ڈھب اور کھردرا ہوں نا۔ اصلی تو ایسا ہی ہوتا ہے”۔
ایک اور خیال ابھرا۔
لیکن میں تو صنف کرخت ہوں۔ وہ صنف نازک ہے۔ صنف نازک کی بھی شاید کامل نمائندہ۔ ساری عورتیں ایسی تھوڑے ہی ہوتی ہیں۔ کیا میں اس کا مقابلہ کھیتوں میں، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی، زیر تعمیر سڑک پر پتھر کوٹتی عورت سے کر سکتا ہوں؟
کیا وہ بھی ایسی ہی مکمل، متوازن اور دھان پان ہو گی؟
یقیناً نہیں۔
تو ان دونوں طرح کی خواتین میں کچھ تو مشترک ہو گا نا۔
میری الجھن بڑھ رہی تھی۔
ہم ایک ایسی مجلس میں بیٹھے تھے جہاں سب نہیں پہنچ سکتے تھے۔
بس “پہنچے ہوئے لوگ“ ہی اس محفل تک رسائی پا سکتے تھے۔
میرا دل پھر بھی اچاٹ سا ہو گیا۔ اس جگہ سے ہٹنے کا مطلب اپنی جگہ چھوڑنے کے ساتھ اس نظارے اور اس احساس سے بھی دور ہونا تھا جو مجھے گرفت کر چکا تھا اور میں جس کے سحر میں تھا۔
نہیں میں اس احساس سے فرار نہیں ہو رہا تھا، میں تو اس احساس کے زیر اثر اپنے سوال کے جواب کے پیچھے جا رہا تھا۔
اُجلے پاؤں، میلے پاؤں۔
میں ہال سے باھر آیا، پارکنگ لاٹ سے گاڑی حاصل کی اور سڑکوں پر سوار ہو گیا۔ سڑک اچھی تھی اور زیادہ رش بھی نہیں تھا۔ سوچوں میں گم درمیانہ لیکن مسلسل ایک ہی رفتار سے گاڑی بھگاتا چلا آیا۔
بڑی سڑک سے جب اپنے فارم ہاؤس کی طرف ایک کلومیٹر چھوٹی سڑک پر پلٹا تو تھوڑا محتاط ہوا۔ مجھے پتہ تھا کہ اس وقت کون فارم ہاؤس پر ہو گا اور کون نہیں۔ میں نے بڑے گیٹ سے گاڑی داخل کی اور انجن بند کر کے اسے وہاں تک خاموشی سے جانے دیا جہاں تک چرچراتی بجری پر جا کر وہ خود ہی رک گئی۔
میرے السیشنز کا جوڑا بھاگا بھاگا آیا اور دونوں گاڑی کے گرد چکر لگانے، ٹائیر سونگھنے اور شیشوں پر پنجے مارنے لگے۔
پھر جمیلہ بھی اُن کی غُر غُر سُن کر صحن میں نکل آئی اور ان کے پیچھے گاڑی تک آ گئی۔
میں نے کتوں کو پچکار کر پیچھے لگایا اور لے جا کر ان کے کمرے میں بند کر دیا۔
جمیلہ میرے پیچھے پیچھے پھر رہی تھی۔ غلام محمد اور دینو اپنے اپنے کاموں کے چکر میں فارم ہاؤس سے بہت فاصلے پر تھے۔ فارم ہاؤس پر جمیلہ، کتوں کے جوڑے، چھ بکریوں، ایک بکرے، تین میمنوں، تیرہ مرغیوں اور چار مرغوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
بس میں تھا اور جمیلہ۔
ہاں کچھ درخت تھے جن پر پرندے تھے۔
پتہ نہیں کتنے۔
میں آہستہ آہستہ چلتا برآمدے میں پہنچ گیا اور پھر چنیوٹ کے رنگین پایوں والے بڑے سے پلنگ پر چڑھ کر تکیہ لگا کر بیٹھ گیا۔
جمیلہ بھی وہیں آ گئی۔
“بیٹھو”
میں نے سامنے پڑے تخت پوش کی طرف اشارہ کیا۔
وہ بغیر جھجھک کے تخت پوش پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ اسے میرے عجیب و غریب حکم ماننے کی عادت تھی۔
بغیر مزاحمت کئے۔
بغیر سوال کئے۔
بغیر چوں چرا کئے۔
وہ مجھے ہمیشہ بہترین متبادل مہیا کرتی تھی۔ میری بہت سی کیفیات کی شاہد اور کئی رازوں کی امین تھی۔
اس نے تخت پوش سے لٹکتی ٹانگیں جھلانا شروع کر دیں۔
“ٹانگیں اوپر کر کے بیٹھو”
میں نے نرم لیکن معمولی سے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
اُس نے ٹانگیں اوپر کر لیں اور پھیلا کر بیٹھ گئی۔
پھر اس نے متوقع، سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اُس کے چہرے سے نہ محبت ہویدا تھی نہ نفرت۔ نہ اشتیاق نہ تجسس۔ بس سپاٹ سا چہرہ لئے وہ بے معنی نظروں سے مجھے دیکھتی تھی اور جو میں کہتا تھا کر گزرتی تھی۔
“ایسے نہیں دو زانو ہو کر بیٹھو” میں نے حکم جاری کیا۔
وہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئی لیکن اس کا منہ میری طرف تھا اور پاؤں نیچے دب کر پیچھے کے رُخ پر اس کے زانوؤں تک آ کر چھپ گئے تھے۔
“کیسی پھوہڑ ہے۔
اور ایک وہ تھی۔
کیسے بیٹھی تھی وہ!
اِک نویکلا پن تھا اُس کی نشست میں۔
غیر معمولی لیکن پھر بھی معتبر۔
عجب بانکپن تھا اس انداز میں۔
نفیس سی پیش کش تھی۔ دعوت تھی۔
ایک ہی وقت میں بکھرتی ہوئی اور سمٹتی ہوئی کیفیت۔
عجیب لیکن دلکش۔
یہ نہیں کہ ڈھیر لگا دو۔ کوئی کھا لے یا مکھیاں ہگ جائیں۔”
میں نے جھنجھلا کر سوچا۔
“یہ موٹی موٹی رانیں اور تگڑی پنڈلیوں کے نیچے کالے ٹخنوں کے ساتھ جُڑے موٹے تگڑے بھدے پاؤں۔ اسے کیا پتہ کہ نزاکت اور نفاست سے کیسے بیٹھتے ہیں۔”
“پاؤں دکھاؤ؟”
میں نے درُشت لہجے میں کہا۔
اُس نے جلدی سے ٹانگیں سیدھی کر کے آگے بڑھا دیں۔
میرا دیکھنے کو دل ہی نہ چاہا۔
میں اُٹھا اور اسے حیران چھوڑ کر بغیر کوئی بات کئے فارم ہاؤس کے صحن میں بنی کچی پکی سڑک پر پڑے آوارہ پتھروں کو ٹھوکریں مارتا گاڑی میں جا بیٹھا۔ تھوڑے غصے سے گاڑی سٹارٹ کی اور قدرے تیزی سے موڑ کر فارم ہاؤس سے باھر نکل آیا۔
شہر سے بیس تیس کلومیٹر دور تک دیہات کے نیم خواندہ جاٹوں سے خریدے زرعی رقبے پر فارم ہاؤسز بکھرے پڑے تھے۔ دار الحکومت کے کھاتے پیتے طبقے میں فارم ہاؤس بنانا بھی ایک رواج ہی بن گیا ہے۔ ان فارم ہاؤسز سے بہت سے اچھے برے کام لئے جاتے ہیں۔ مجھ سے بہتر یہ کون جان سکتا تھا۔
میں ناہموار پتلی سڑک سے ہوتا ہوا پھر بڑی سڑک پر آ کر شہر سے مخالف سمت نکل گیا۔
سات کلومیٹر دور واقع میرے ملکیتی اینٹوں کے بھٹے کی اونچی اور موٹی چمنی بہت دور سے درختوں سے قد نکالتی نظر آ رہی تھی۔ چمنی سے دھواں نہیں نکل رہا تھا کیونکہ ابھی برسات کا موسم ختم ہوا تھا اور کچی اینٹیں بنانے کا کام تین ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہوا تھا۔ یہ عمل کم از کم ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ کچی اینٹیں بنا کر سُکھانا، پھر ان کی قطاریں خاص مہارت سے بھٹی اور چمنی کے ارد گرد جما کر بھٹہ بھر کر تیار کرنا بڑی مہارت کا کام تھا۔ یہ کام مکمل ہو تو کہیں جا کر بھٹے کو آگ دکھائی جاتی ہے۔ حرارت ہر جگہ مناسب پہنچنی چاہئے تاکہ نہ تو اینٹیں زیادہ پک کر کالا پتھر بن جائیں اور نہ کم حرارت سے پھیکی رہ جائیں جو” پِلّی” کہلا کر ٹھکرا دی جائیں اور اونے پونے بیچنی پڑیں۔ میرا بھٹہ اس جگہ سے آٹھ کلومیٹر دور میرے فارم ہاؤس والی جگہ کے قریب ہوتا تھا لیکن مسلسل استعمال سے ایک تو وہاں کچی اینٹوں کے لئے قرب و جوار میں مٹی دستیاب نہ رہی اور پھر کارپوریشن والوں نے محکمہ ماحولیات کے نوٹس پر بھٹے کو پھیل کر اوپر چڑھتے شہر سے دور لے جانے کا حکم دے دیا۔ بہرحال میں نے اپنے پانچ بھٹوں سے اتنی دولت کما لی تھی کہ یہ منتقلی آسانی سے برداشت کر گیا۔ اب میرا بھٹہ تقریباً تین سال سے یہاں قائم تھا۔ یہ بھٹہ جاٹوں اور ارائیوں کے علاوہ میواتی قوم کی زمینوں کی زرخیز اوپری سطح کچی اینٹوں کی شکل میں نگلتا جا رہا تھا۔ آٹھ دس فٹ مٹی کے پیسے تو بہت ملتے تھے لیکن لہلہاتی فصلوں کے زیور پہنی دھرتی کھڈ اور گڑھے بن جاتی تھی، جس کے کناروں پر بس آک اور سرکنڈے اگتے تھے۔
نسلوں سے آباد جٹ اور ارائیں نیز تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے علاقہ میوات سے آ کر مہاجر ہو کر چلے جانے والے سکھ جاٹوں کی زمینیں الاٹ کروانے والے میواتی اپنی بھٹے میں جھونکی زمینوں کی باقیات کو دوبارہ آباد نہیں کر رہے تھے۔ وہ منتظر تھے کہ چند کلومیٹر دور رہ گیا شہر اس زمین پر چڑھ آئے، زمینوں کے سودے ہوں اور بینک میں کھولے ان کے اکاؤنٹ موٹی رقموں سے بھر جائیں۔
کبھی زمین بیچنا ماں بہن بیچنے کے مصداق سمجھا جاتا تھا لیکن وہ زمانے گزر چکے تھے۔ عزت غیرت اور انا نے نئے پیمانے گھڑ لئے تھے جو خاصی گنجائش رکھتے تھے۔ آبائی پیشہ اور موروثی کھیت کھلیان بیچ کر نفع آور کاروبار اپنا لینا کوئی برا نہیں تھا۔ شہر کی قربت نے نئی نسل کو بدل کر رکھ دیا تھا۔
یہ بھٹہ لگ بھگ ڈیڑھ ایکڑ رقبے پر قائم کیا گیا تھا جو مضافاتی سڑک کے ساتھ واقع ہونے کے باوجود مجھے بڑے معقول بھاؤ سے مل گیا تھا۔ اصل بھٹے نے آدھے رقبے سے بھی کم جگہ گھیر رکھی تھی جب کہ بھٹے کے ارد گرد بہترین کوالٹی اور کم تر معیار کی اینٹوں کو چھانٹ کر گن کر ڈھیروں کی شکل میں ترتیب سے رکھا گیا تھا۔ مُنشی جو اَب مینیجر کہلاتا تھا گنتی کر کے رجسٹر میں درج کر کے ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک لوڈ کرواتا تھا۔
اس سارے کاروبار سے ذرا ہٹ کر بھٹے سے کچھ فاصلے پر جہاں میرا پلاٹ ختم ہوتا تھا سولہ بائی بارہ فٹ کے بھٹے کی خراب اینٹوں سے بنائے گئے اٹھارہ کمرے ایک قطار کی شکل میں بنے تھے۔ ان کمروں میں پتھیرے اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ پتھیرے زمینداروں سے خریدی گئی مٹی سے جو اڑوس پڑوس کی زمین سے حاصل کی جاتی تھی بال بچوں سمیت اینٹیں تھا پتے تھے۔ اچھی اینٹوں کے لئے مٹی میں جو خصوصیات چاہئیں وہ اس علاقہ کی مٹی میں موجود ہونے کی وجہ سے میرے بھُٹے کی اینٹیں درجہ اوّل کی قرار پاتی تھیں۔ ہماری اینٹیں ہر بار بھٹہ کھلنے سے پہلے ہی ایڈوانس میں بک ہو جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ اینٹوں کے حصول کے لئے سفارشوں کا بھی رواج تھا۔ ٹھیکیدار مالکوں کی میرے بھٹے کی اینٹوں کے استعمال کی شرط پوری کرنے کے لئے مُنشی کی چاپلوسی تک کرتے تھے۔ یقیناً مٹی کی خاصیت کے علاوہ اتنی اچھی اینٹیں بنانے میں بہت بڑا ہاتھ محنت کش اور ہنر مند پتھیروں کے ان خاندانوں کا تھا جو بھٹے پر بنی کوٹھڑیوں میں رہتے تھے۔ یہ پشتوں سے اس کام کو کرنے کا تجربہ رکھنے والے ہنرمند بہترین کچی اینٹیں تھاپتے تھے جن کا فی سینکڑہ معاوضہ طے تھا۔
یہ پتھیرے نسل در نسل یہی کام کرتے چلے آتے تھے اور شاید ہی کبھی بھٹہ یا بھٹہ مالک بدلتے ہوں۔ پتھیرے عام طور پر پیشگی رقم لے لیتے تھے جو اُن کی تین چار سال کے بچوں سے لے کر اَسّی سال کے بوڑھوں تک کی بھرپور محنت کے باوجود کبھی کم نہیں ہوتی تھی بلکہ بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ پھر ہم سب بھٹہ مالکان کا آپس میں معاہدہ تھا کہ موجودہ مالک کی مرضی کے بغیر کوئی دوسرا بھٹے والا پتھیروں کے کسی خاندان یا کسی فرد کو کام پر نہیں رکھے گا۔ مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ کسی مالک نے برضا و رغبت کسی پتھیرا خاندان کو اپنا بھٹہ چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اب بدلتے وقت کے ساتھ کچھ لوگ جو خود کو سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے بتاتے تھے آ کر ان پتھیروں سے بانڈڈ لیبر وغیرہ کا نام لے کر سوال کرتے تھے۔ میرے کسی پتھیرے یا اس کے کسے بچے تک نے کبھی اُنہیں کچھ الٹا سیدھا نہیں بتایا تھا۔ وہ لوگ پھر پھرا کر اور کبھی فوٹو وغیرہ کھینچ کر اپنی دیہاڑی لگا کر چلے جاتے۔
ہمارا کام کبھی متاثر نہیں ہوا۔
پتھیروں کی میرے پلاٹ کے کنارے پر بنی اٹھارہ کوٹھڑیوں میں سے تیسری کوٹھڑی پھجے دیندار کی تھی جس میں اب پھجا نہیں رہتا تھا۔ فضل دین عرف پھجّاکی دینداری بس اتنی تھی کہ اس کے باپ نے کسی کے کہنے پر اسلام قبول کر لیا تھا۔ بس اتنا قبول کیا تھا کہ صحیح یا غلط جیسا بھی اس ان پڑھ گنوار سے ہو سکا مولوی صاحب کے پیچھے پیچھے کلمہ دوھرا دیا تھا اور بہت سی مبارک بادیں وصول کر لی تھیں۔ پھجے کی ماں فجری نے بھی یہی عمل دوھرا کر اورنکاح کی تجدید کر کے حاجی عمر دین اور مولوی چراغ حسین کے لئے جنت کا بیع نامہ پکا کروا دیا تھا۔ پھجے کو اس دینداری کے لئے سب سے بڑی قربانی دینی پڑی تھی کیونکہ سات سال کا ہونے کے باوجود اس کے ختنے ہوئے تھے۔
فضل دین کا چند قطرے خون بہا تھا جبکہ اس مقصد کے لئے تاریخ میں تو خون کی ندیاں بہنے کا بھی ذکر ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ فضل دین کی کوٹھڑی میں اب وہ فضل دین نہیں رہتا تھا جس کے باپ جاگرنے جنگلی بلے کھانے والے گگڑوں کا بے نام مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا اور بے مطلب کا کڈھب نام بدل کر پاکیزہ نام رکھ لیا تھا کیونکہ فضل دین اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ اسے ورکشاپ کے جس اناڑی ڈرائیور مستری لڑکے نے کسی گاہک کی کار کی ٹرائی لیتے ہوئے مارا وہ اللہ کو پیارا نہ ہوا، بس فضل دین عرف پھجا دیندار پتھیرا اللہ کو پیارا ہو گیا۔ پھجا دیندار تو دینداری سمیت گیا لیکن پیچھے رہ گئی سیماں اور اس کی دو ننھی ننھی دیندار بچیاں۔ سیماں اور پھجے نے پیار کی شادی کی تھی اور شادی کے بعد بھی پیار کیا تھا۔ پھجے دیندار کا تو مرنے، اللہ کو پیارا ہونے کے بعد کا پتہ نہیں کیا بنا لیکن سیماں کا پیار اسی طرح قائم رہا تھا۔ اس کی خوب صورتی اور جوانی پر ترس کھاتے کئی کنوارے اور کئیر نڈوے آئے لیکن اس نے ایک ہی ضد پکڑے رکھی کہ فضل دین کی تھی اور اسی کی رہ کر اسی کی کوٹھڑی میں مرے گی۔ محنت کرے گی اور اپنی ننھی بچیوں، پھجے کی نشانیوں کو پالے گی، ان کی شادیاں کرے گی اور پھر پھجے دیندار کے پیچھے اس جہان جائے گی جہاں پھجا سارے وعدے توڑ کر چلا گیا تھا۔
پھجا اس بھٹے پر واحد پتھیرا تھا جو مجھ سے پیشگی نہیں لیا کرتا تھا۔
سیماں اور وہ بڑے محنتی تھے، جوان تھے ہمت اور انا انکھ والے تھے۔ وہ اپنی پتھیرا برادری سے علیحدہ تھے، انوکھے تھے۔
دونوں مل کر مٹی کھودتے، برابر باریک کرتے، گھانی کرتے، گوتے اور پوری دیانتداری سے سانچہ بھر کر، اچھی طرح دبا کر جو کچی اینٹ ہموار کی گئی زمین پر الٹنے تو لگتا کہ برفی کی ڈلی ہے۔ ان کی اینٹیں نکھری نکھری سی علیحدہ نظر آتیں۔ بہرحال پھجا چلا گیا تو سیماں نے سارا کام اکیلے سنبھال لیا۔ چار سال کی زینب اور چھ سال کی بشریٰ اس کے ساتھ کھڈوں میں لڑھکتی پھرتیں۔
میں نے گاڑی کھڑی کی اور کھڈوں کے کنارے کنارے چلتا پتھیروں کا کام دیکھتا گیا۔ سب مجھے دیکھ کر حیران ہوئے۔ جو بھی دیکھتا سلام کرتا اور پھر کام میں مشغول ہو جاتا۔ پھرتے پھر۱تے مجھے وہ کھڈا نظر آ گیا جہاں سیماں کی کالی چادر کنارے پر ٹکی تھی اور وہ گوئی، کمائی ہوئی مٹی سے اینٹیں تھاپ تھاپ کر کئی قطاریں لگا چکی تھی۔ زینب اور بشریٰ کھڈے سے باہر نکل کر آگے پیچھے بھاگ کر ایک دوسری کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ سیماں کھڈے کے کنارے سے پشت ٹکا کر دونوں ٹانگیں لمبی کئے آنکھیں بند کر کے سستا رہی تھی۔ مٹی سے ستے ہوئے ہونے کے باوجود اس کے دونوں تلوے جو میری سمت تھے بالکل صاف تھے۔
اس کے سانولے پاؤں چمک رہے تھے۔ اُجلے پاؤں۔
یا شاید مجھے ایسا لگ رہا تھا۔
مجھے قیمتی جوتوں کے اندر نرم جرابوں سے ڈھکے اپنے دونوں پاؤں سخت میلے محسوس ہوئے۔
یقیناً یہ سب میرا وہم تھا۔
ایسا تھوڑے ہی ہوتا ہے۔۔۔
٭٭٭