رات کے دوبجے کے قریب اطلاعی گھنٹی بجی تھی تو سب چونکے تھےیشب تیزی سے باہر کی طرف بھاگا تھا واپسی میں اجالا زخمی حالت میں اس کے ساتھ تھی۔
آپی!سب سے پہلے درِفشاں کی نظر اس پر پڑی،خالد صاحب نے چونک کر سر اُٹھایا تھا اور اجالا باقی سب کو حیرت سے دیکھنے لگی۔
“آپ لوگ پوچھے گے یا پھر میں پوچھوں کہ یہ سارا دن اور آدھی رات کہاں گزار کہ آئی ہے”،فائق کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ہر اجالا نے ایک بار پھر سب کو حیرت سے دیکھا اور اندازہ ہوا کہ کچھ غلط ہوا ہے یا پھر ہونے جا رہا ہے۔
“کہاں تھی تم”،فائق کے ساتھ افراء بیگم بھی آکر کھڑی ہو گئی،ان کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے جن میں اجالا کو اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا۔
اجالا نے سب سے پہلے اپنی ماں کو دیکھا اور پھر باپ کو جو اسے ہی دیکھ رہے تھے اور پھر جا کر اپنے باپ کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
ابو میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا جس کی میں صفائی دوں لیکن میں آپ کو صفائی دوں گی مجھے آپ کی عزت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہےاور میں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میری وجہ سے آپ کا سر نہ جھکےآج ہم جب آفس سے میٹنگ کے لیے نکل رہے تھے تو بائیک پر سوار کچھ لوگوں نے ہماری گاڑی پر حملہ کر دیا تھا انہوں نے ہمارے بیگ اور موبائیل چھین لیے تو جب انہوں نے میرے ساتھ اور ایک کولیگ کے ساتھ بد تمیزی کرنے کی کوشش کی تو ہمارے باس اور دو کولیگ کے ساتھ ان کی ہاتھاپائی ہو گئی اور اسی جھڑپ میں ہمارے ایک کولیگ کو گولی لگ گئی اور یہی بات سوچ کر اجالا کی آنکھوں میں آنسو آگے۔
خالد صاحب نہ صرف اسے سن رہے تھے بلکہ بغور دیکھ بھی رہے تھے جس کے چہرے پہ چوٹ کے تازہ نشان تھے اور آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی تھی۔
“اپنے زخمی کولیگ کو ہسپتال میں ایڈمٹ کروایا بوس ابھی بھی وہی ہیں اور ہم لڑکیوں کو پہلی فلائٹ میں گھر بھیج دیا،وہاں اتنی پریشانی تھی کہ میں فون بھی نہ کرسکی اور یہ میری غلطی ہے”،اجالا نے یہ کہہ کر سر جھکا لیا۔
“بکواس کرتی ہے یہ سیدھی طرح کہو نہ جس کے ساتھ بھاگی تھی اس نے مار کر نکال دیا”،فائق کی زہر اگلتی زبان ہر اجالا نے نفرت سے اسے دیکھا،کیا وہ ان کی نظر میں بھی گناہ گار ہے۔
“جس نے جو کہنا ہے کہہ لیا،میں نے جو سننا ہے سن لیا”،خالد صاحب کے کہنے پر اجالا ان کی طرف دیکھنے لگی اس کا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔
“بھائی صاحب ۔۔۔خالد صاحب نے افتخار صاحب کو مخاطب کیا،میں جانتا ہوں آپ اجالا سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہی چاہت دیکھتے ہوئے میں نے ایک لمحہ سوچے بغیر رشتہ طے کر دیا لیکن فائق۔۔۔۔چاہت تو دور کی بات اس کی عزت بھی نہیں کرتا،اس کو اجالا پر اعتبار نہیں ،ابھی اس نے سوچے سمجھے بغیر میرے سامنے بیٹھ کر میری بیٹی کے لیے کتنے گندھے لفظ استعمال کیے ہیں میری بیٹی اگر جاب کرتی ہے تو میری مرضی سے کرتی ہے مجھے اعتبار ہے اپنی بیٹی پر اور شادی کے بعد اگر فائق منع کر دیتا تو میری بیٹی جاب چھوڑ دیتی،اتنی سمجھ ہے اس میں۔۔۔۔اور میں اپنی بیٹیوں کو بوجھ سمجھتا رہالیکن یہ ہمیشہ میرے لئے فخر کا باعث بنی ہیں اور آج اجالا نے جو کچھ کہا اس کے حرف حرف پر مجھے یقین ہے میری بیٹی کچھ غلط کام نہیں کر سکتی”۔
اجالا حیرت سے اپنے باپ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر سن رہی تھی اور آخری الفاظ پر اجالا کو لگا جو ساری زندگی افسوس رہا یہ لمحہ ان سب پر بھاری ہے۔
درِفشاں اور مبشرہ بیگم کی بھی یہ کیفیت تھی۔
“اور فائق تم کیا انکار کرو گے میں خود تمہیں اپنی ہیرا صفت ،نیک بیٹی دینے سے انکار کرتا ہوں،یہ رشتہ یہی ختم”۔
فائق کو امید نہیں تھی کہ ایساہوگا کچھ لمحوں کے لیے تو وہ حیران ہوگیا اُس کو لگتا تھا کہ سب اجالا کو ہی بُرا بھلا کہے گے اور سب اِس کی منتیں کریں گےاور اِس پر شادی کی صورت میں احسان کر کے ہمیشہ حاوی رہے گا،اِس نے بےاختیار باپ کی طرف دیکھا لیکن انہوں نے ناراضگی کے ساتھ نظریں پھیر لی اور افراء بیگم نے فائق کا ہاتھ تھاما۔
“اور ضرورت بھی نہیں خالد سنبھال کر رکھو اپنی بیٹی کو،میرے بیٹے کو کمی نہیں”،اور افراء بیگم اس کا بازو کھینچتی ہوئی ساتھ لے گئی اور ان کے پیچھے جائشہ بھی چلی گئی جبکہ ارصم افتخار صاحب کے ساتھ وہی کھڑارہا۔
“خالد میں بہت شرمندہ ہوں”،وہاں سب خاموش تھے اور اِس خاموشی کو افتخار صاحب نے توڑا۔
“بھائی صاحب آپ کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں میں جانتا ہوں کہ آپ کی نیت میں کوئی کوٹ نہیں،آپ میرے بڑے بھائی ہیں میرے لئے قابلِ احترام ہیں”،وہ اُٹھ کر اِن کے گلے لگ گئے اور اجالا کو بھی گلے لگا لیا وہ تو پہلے ہو کسی کے کندھے کی تلاش میں تھی جہاں وہ رو کر اپنا غبار نکال سکے۔
“سرفراز میں نہیں چاہتاکہ ایسا کچھ ہو تم ایک دفعہ یشب سے پوچھ لو کیا وہ یہ رشتہ رکھنا چاہتا ہے کہ نہیں”۔
روتی ہوئی درِفشاں کی نظریں بے ساختہ یشب کی طرف اُٹھی تھی تب بھی یشب نے اِس کی طرف نہیں دیکھاتھا۔
“کیوں بیٹا تمہیں کوئی اعتراض ہے”،درِفشاں کا سر نفی میں ہلا تھا۔
“تم خوش ہو نہ اِس رشتے سے”۔
جی!!!اب کے بار درِفشاں نے واضح جواب دیا اور یشب کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
ؑبیٹا بہن کو کچھ کھانے کو دو پتا نہیں اِس نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں”،افتحار صاحب نے درِفشاں سے کہا اور سر ہلا کر کچن میں چلی گئی اور اس کے پیچھے ارصم بھی گیا جسے دیکھ کر یشب کے ماتھے ہر بل پڑےوہ بھی دبے پاوْں اِس کے پیچھے گیا۔
____________________
درِفشاں سالن گرم کر رہی تھی جب آواز سن کر چونک کر مڑی اور ارصم کو دیکھ کر غصے میں اِس کے تاثرات سخت ہو گئے۔
“یہ تم نےکیا کیا اتنا اچھا موقع تھا چچی نے خود تم سے پوچھا تھا تو نہ کر دیتیں سارا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا”،ارصم کا بس نہیں تھا چل رہا کہ درِفشاں سے ززبردستی نا کرواتا۔
“میں کیوں کرتی نا”،درِفشاں کے ٹھنڈے ٹھار انداز میں پوچھنے پر جہاں پاس کھڑا ارصم چونکا تھا وہی باہر دیوار کے ساتھ کھڑا یشب چونکا تھا۔
“کیامطلب ۔۔۔۔۔تمہیں یشب پسند نہیں تھا نہ”،ارصم ہکلا کر بولا۔
“کیا میں نے آپ کو ایسا کہا”،درِفشاں اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا اور ارصم تو اِس کے انداز دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔
“اُس دن ہماری بات ہوئی تھی”،ارصم نے اُسے یاددلایا۔
جی ہوئی تھی بات،اسی لیے تو پوچھ رہی ہوں کیا میں نے ایسا کچھ کہا کہ میں یشب کو پسند نہیں کرتی”،درِفشاں نے مطمئن انداز میں پلیٹ کاوْنٹر پررکھتےہوئے کہا۔
“پرمطلب تو وہی تھا نہ”۔
آپ اتنے سمجھدار نہیں ہوئے جو دوسروں کے مطلب سمجھ جائے،آپ جیسا حاسد آدمی صرف اپنا مطلب ہی سمجھ سکتا ہےآپ تو اتنےبے شرم انسان ہیں اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی میرےسامنے کھڑےہیں ابھی آپ کے بھائی نے جو کیاآپ کو تو میرے سامنے کھڑے ہونے کے باوجود ڈوب مرناچاہئے۔
“درِفشاں”،وہ ایک دم غصے سے بولا اور جواباً درِفشاں اُس سے بھی زیادہ غصے میں بولی۔
“اپناوالیوم آہستہ رکھےورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا اور وہ جو اُس دن آپ نے یشب کے بارے میں بکواس کی تھی نہ اگر وہ میں نے سن لی تھی تو اِس کا مطلب ہرگز نہیں تھا کہ میں نے اُس پر یقیین بھی کر لیا،کریکٹرلیس آپ ہیں یشب نہیں ، اب میں اتنی بھی بےوقوف نہیں جتنا آپ نے سمجھ لیا تھا اور ہاں ایک بات اور”،درِفشاں سالن نکالتے ہوئے بولی۔
“میں یشب کو بہت پسند کرتی ہوں اور خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں جو میری شادی یشب سے ہورہی ہے”۔
ارصم کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔
“اور آخری بات اگر آپ نے یا آپ کے گندھے زہنیت گھروالوں نےیشب کے خلاف کوئی بات کی تو میں بغیر کسی لحاظ کے اُس کا منہ توڑدوں گی”،درِفشاں یہ کہہ کر ہکابکا اُسے چھوڑ کر خود باہر چلی گئی۔
باہر کھڑا یشب ابھی تک حیرت کے جھٹکے کھا رہا تھا کہ جو کچھ اِس نے سُنا وہ درِفشاں نے کہا تھا اِسے اپنے کانوں پر ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا۔
ارصم جب باہر نکلا تو اس کی نظر باہر کھڑے یشب پر پڑی،یشب کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اُس نے سب سُن لیا ہے۔
“سوچا تھا جو تم نے میرے ساتھ کیاتھا اُس کا جواب تھپڑ سے دوں گاتمہیں،لیکن جو جواب تمہیں میری ہونے والی بیوی نے دیا ہے اِس سے اچھا تو شاید میں بھی نہیں دے سکتا تھا”،یشب کہہ کر مڑگیا۔
خوشی اِس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی دودن سے یشب اتنا پریشان تھا کہ سمجھ نہیں تھی آرہی کیا کرے،لیکن آج بہت خوش تھا اُس کا دل کر رہا تھا ابھی جا کر درِفشاں کوگلے لگا لے۔
_____________________
آزر سے ہمیں اجالا کے ایکسیڈینٹ کا پتا چلا تو ہم اُسی وقت آگئے،بڑی پیاری اور نیک بچی ہے آپ کی جب میں نے پہلی بار اجالا کودیکھا تھا تب ہی میں سمجھ گئی تھی کہ کسی سلجھے ہوئے ماں باپ کے ہاتھوں پرورش ہوئی ہے آزر کی ماں کی بات سُن کر خالد صاحب کے ساتھ بیٹھی مبشرہ بیگم بھی مسکرائی تھی۔
“ویسے بھی ہمیں آناتھا آپ سے ضروری بات کرنی تھی”،اس خاتون کے کہنے پر مبشرہ بیگم اور خالد صاحب نے چونک کر دیکھا تھا۔
وہاں بیٹھے سرفراز صاحب ،افتحار صاحب اور زرینہ بیگم نے بھی ان کی بات سن کر چونکے تھے۔
آزر کے آفس میں کوئی فنکشن تھا وہی ہم لوگ بھی انوائٹڈ تھے اور وہاں میں نے اجالا کو دیکھا تھا تو مجھے بہت پسند آئی تھی اپنے بیٹے آزر کے لیے،اجالا بالکل ویسے ہی ہے جس طرح کی لڑکی کی مجھے تلاش تھی،میں نے کتنی بار کہا تھا کہ اجالا کے پرنٹس سے ملواوْ مگر کچھ دن پہلے اُس نے بتایا کہ اس کی منگنی ہو گئی ہے ،سچ جانیں میرا تو بڑا دل بُرا ہوالیکن اللّه سے اچھی قسمت کی دعا کی تھی بہرحال میں یہاں ایک خاص مقصد سے آئی ہوں”آپ لوگ آزر سے ملے ہیں “،انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا۔
“میرا بیٹا اجالا کے ساتھ کام کرتا ہے بے شک آپ اجالا سے بھی پوچھ لے مجھے بس آپ کی بیٹی چاہیے”،
وہ جتنی چاہت سے رشتہ مانگ رہی تھیں خالد صاحب بھی سوچ میں پڑگئے،انہوں نے پہلی بارمبشرہ بیگم کی طرف دیکھا تھا اور انہوں نے آنکھوں سے ہاں کا اشارہ کیا تھا۔
“دیکھے بھائی صاحب آپ جتنی مرضی تسلی کرنا چاہتے ہیں کر لے لیکن جواب ہمیں ہاں میں ہی چاہئے”،ان کی بات پروہاں سب بیٹھے ہنس دیے تھے۔
اور خالد اور مبشرہ کو بھی وہ لوگ بہت اچھے لگے تھے اورآزر بھی پسند آیا تھا تو اِس لیے ہاں کر دی گئی۔
“بھائی صاحب اگر آپ بُرا نہ منائے تو میں منگنی کی رسم ابھی کر لوں” ۔
“جی جی کیوں نہیں بہن ۔۔۔۔آب اُجالا آپ کی امانت ہے”،پھر اُجالا کو بُلایا اور آزر کی امی نے بیگ سے انگوٹھی نکال کر اجالا کےدائیں ہا تھ کی تیسری انگلی میں پہنا دی اور اجالا کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور مٹھائی کھلائی۔
“میرا خیال ہے شادی کی ڈیٹ بھی فکس کر لی جائے بھئ مجھے تو اپنے بہو گھرلانے کی بہت جلدی ہے” ،آزر کی ماں نے خوشی سے کہا۔
سب ان کی جلدبازی پر ہنس پڑے اور پھر سب کی رضا مندی سے اگلے مہینے کی ڈیٹ فکس کی گئی زرینہ بیگم اور سرفراز بھی بہت خوش تھے افتحارصاحب کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی تھی اپنی اولاد کو دیکھ کر لیکن خیر کربھی کیاکر سکتے تھے لیکن وہ اجالا کا رشتہ اچھے گھر میں ہونے کی وجہ سے بہت خوش تھے۔
_____________________
“آپی آپ بہت لکی ہیں جو آزر بھائی جیسے انسان ملے ہیں”،درِفشاں کو جب اجالا کے منگنی ہونے کا پتا چلا تو بھاگتے ہوئے آکر اُجالا کے گلے لگی۔
“ؓمیری گڑیا تم کیا کم لکی ہو”،اجالا کے کہنے پر اس کے مسکراتے ہوئے ہونٹ سکڑ گئے۔
“کیا ہوا میں نے کچھ غلط کہہ دیا”۔
“آپی آپ نے ٹھیک کہاں تھا کہ میں نے اپنے پاوْں پر خود کلہاڑی ماری ہے مجھے سُنی سنائی باتوں پر یشب کے بارے میں ایسا نہیں تھا بولنا چاہئے مجھے کوئی حق نہیں تھا ان کے بارے میں ایسا بولتی، اب اگر وہ مجھ سے ناراض ہیں تو وہ ٹھیک ہیں”۔
“کیا یشب نے تم سے کچھ کہاہے”،اُجالا نے فکر مندی سے پوچھا اور درِفشاں کا سر نفی میں ہلا تھا۔
“پریشانی والی بات تو یہی ہے نہ آپی کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا، اگر انہیں کوئی بات بُری لگی تھی تو ڈانٹ لیتے،لیکن مجھے ان کی خاموشی سے بڑا ڈر لگ رہا ہے”۔
“چلو تم پریشان نہ ہو میں یشب سے بات کروں گی، لیکن درِفشاں تم نے اسے ہرٹ کیا ہے اب تمہیں خود اِس سے بات کر کے سوری بولنا چاہئے تھا”۔
“آپی میں خود اُن سے سوری بولنا چاہتی تھی لیکن مجھے اُن سے ڈر لگتا ہے کہ۔۔۔۔۔پیچھے سے گلا کنگھارنے کی آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھاجہاں یشب کو دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کر اجالا خوش اور درِفشاں پریشان ہو گئی۔
“مبارک ہو جناب کی منگنی ہو گئی ہے”،یشب درِفشاں کو اگنور کرتے ہوئے اجالا کے گلے لگتے ہوئے بولا۔
“خیر مبارک”ویسے تمہیں کیسے پتاچلا۔
“چاچو نے فون کرکے بُلایا تھا تو میں آگیا دیکھوں تو سہی آزر صاحب دکھتے کیسے ہیں”۔
یشب کے شرارتی انداز میں کہنے پر اجالا کھلکھلاکر ہنسی۔
وہ دونوں باتیں کرنے لگےاور درِفشاں کو سِرے سے ہی اگنور کرگے وہاں ایک اور نفوس بھی موجود ہے درِفشاں کو اپنا آپ مس فِٹ لگ رہا تھا،یشب اُس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا وہ درِفشاں کی باتوں سے بہت ہرٹ ہوا تھا اور وہ اتنی جلدی ابھی راضی نہیں ہونا چاہتا تھا ،اسی لیے اگنور کر رہا تھا اور درِفشاں کی ہمت نہیں تھی ہو رہی کہ وہ اُسے سوری کیسے کرے۔
_____________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...