ماضی
زیام کو ہاسپٹل سے آئے تقریبا ایک مہینہ ہو چکا تھا اور اس ایک مہینے میں عرزم نے ضرورت سے زیادہ اس پر توجہ دی تھی۔۔۔۔ اس ایک مہینے میں عرزم کا بمشکل ہی رحاب سے سامنا ایک دو بار ہوا تھا لیکن دونوں کے درمیان بات چیت بالکل نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔ آج بھی وہ سکول کے گرائونڈ میں بیٹھا زیام کا انتظار کر رہا تھا جو کسی ٹیچر سے کوئی ٹاپک سمجھنے گیا تھا ۔۔۔ پندرہ دن بعد اس سنے سکول آنا شروع کیا تھا اور پندرہ دنوں میں جو اس کے لیکچر مس ہوئے تھے وہ وہ کور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ عرزم اپنی سوچ میں اتنا مگن تھا کہ پاس آ کر بیٹھنے والی رحاب کو بھی دیکھ نہ سکا۔۔۔۔۔
اہممم ۔۔۔۔اہممم۔۔۔۔
رحاب نے گلہ کھنکار کر اس کو متوجہ کیا تو اس نے بے ساختہ اپنے دائیں طرف بیٹھی رحاب کو دیکھا۔۔ جو مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
عرزم سر جھٹک کر مسکرا دیا۔۔۔۔
کیسی ہو؟؟؟
میں تمہارے سامنے ہوں ۔۔۔ تم بتائو تم کہاں غائب ہوتے ہو آج کل؟؟
رحاب کے جواب پر عرزم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور نرمی سے بولا۔۔۔
میں تمہارے دل میں ۔۔۔ اور کہاں ہونا چاہیے مجھے؟؟؟؟
عرزم کی بات پر رحاب کے چہرے پر سرخی چھائی تھی ۔۔ دھڑکنوں کا شور عرزم کو واضح سنائی دیا تھا۔۔۔ پلکیں حیا کے بوجھ سے اٹھنے سے انکاری ہوگئیں تھیں ۔۔۔ جبکہ زبان تو جیسے سرے سے ہی غائب ہوگئی تھی ۔۔۔۔ عرزم نے مہبوت ہو کر اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ اس کے لئے یہ نظارہ دنیا کے سب حسن نظاروں سے بڑھ کر تھا ۔۔۔۔
عرزم حیران تھا اس کی بے ضرر سی بات پر وہ اتنا ری ایکٹ کیسے کر سکتی ہے؟؟؟ اچانک ہی حیرانگی کی جگہ شرارت نے لے اور وہ مصنوعی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے شرارت سے چمکتی آنکھوں سے گویا ہوا ۔۔۔۔۔
ہیں یہ میری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں؟؟ رحاب حسن مجھ سے شرما رہی ہے؟؟؟
رحاب کا تو مانو پارہ ہائی ہوگیا تھا عرزم کی بے تکی بات پر ۔۔۔۔ اس لئے دانت پیس کر بولی۔۔۔۔
مجھے بخار ہے اسی وجہ سے میرا چہرہ کبھی کبھی سرخ ہورہا ہے۔۔۔
عرزم کا قہقہ بے ساختہ تھا ۔۔۔۔ رحاب نے خفگی سے عرزم کو دیکھا اور وہاں سے اٹھنے لگی جب عرزم نے بمشکل اپنے قہقے کا گلہ گھونٹا اور اسے ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکا۔۔۔۔
کیا ہے؟؟؟ کیوں روکا ہے اب؟؟؟
رحاب اسے گھورتے ہوئے بولی۔۔۔
وہ یہ پوچھنا تھا کہ بخار میں ہی ڈھول کا رنگ بدلتا ہے یا ۔۔۔۔
عرزم نے رحاب کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ دبائی تو رحاب نے غصے سے عرزم کو گھورا۔۔۔۔
اب تم بچ کر دکھائو مجھ سے ۔۔۔ پرنس سے نوکر نہ بنا دیا تو میرا نام بھی رحاب نہیں ۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر اس کے پیچھے بھاگی تھی کیونکہ وہ اس کے تیور بھانپ کر پہلے ہی بھاگ چکا تھا۔۔۔۔ وہ دونوں آگے پیچھے بھاگ رہے تھے اور بھاگتے ہوئے سکول کی بیک سائیڈ پر آگئے تھے۔۔۔
تم رک رہے ہو یا نہیں ۔۔۔۔
رحاب اسے دیکھ کر ہانپتے ہوئے بولی۔۔۔۔
عرزم نے اسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔۔۔
اتنے میں ہی تھک گئی ہو۔۔۔ اگر کبھی ذیادہ بھاگنا پڑا پھر کیا کرو گی۔۔۔؟؟؟
ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ میں تمہاری ٹانگیں ہی توڑ دوں گی۔۔۔ نہ تم بھاگو گے نہ مجھے بھاگنا پڑے گا۔۔۔۔
رحاب کے جواب پر عرزم نے اسے مصنوعی گھورا ۔۔۔۔
ذرا جو کسی کو خوش کر دو موٹی۔۔۔۔
عرزم کی بات پر رحاب نے آنکھیں گھماتے ہوئے اسے دیکھا۔۔۔۔
تم نے پھر مجھے موٹی کہا۔۔۔۔
نہیں ڈھول کہا ہے۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے بھاگنے کے لئے مڑا جب پیچھے سے رحاب کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔
عرزم نے مڑ کر اسے دیکھا تو وہ اپنی بائیں آنکھ پر ہاتھ رکھے کراہی تھی ۔۔۔ عرزم جلدی سے اس کے پاس آیا اور پریشانی سے بولا۔۔۔
رے۔۔۔ تم ٹھیک ہو؟؟؟ کیا ہوا ہے آنکھ کو؟؟؟
پتہ نہیں کچھ چلا گیا ہے اندر اور بہت چبھن ہو رہی ہے۔۔۔۔
رحاب رو دینے کو تھی۔۔۔
اچھا ۔۔۔تم ہاتھ ہٹائو میں دیکھتا ہوں۔۔۔
عرزم اسے بول کر اس کے کافی قریب آگیا تھا جبکہ رحاب تو اس کے قریب آنے پر ہی حواس باختہ ہوگئی تھی ۔۔۔ لیکن عرزم کے چہرے پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی ۔۔۔رحاب نے اپنے ہاتھ ہٹائے تو عرزم نے دونوں ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کی آنکھ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔ وہ اس کے اتنے قریب تھا کہ اگر کوئی تیسرا وجود انہیں دیکھتا تو یقینا کچھ غلط سمجھ بیٹھتا ۔۔۔ اور وہ تیسرا وجود شاید انہیں دیکھ چکا تھا۔۔۔
اجالا بیگم جو آج رحاب کو سرپرائز دینے کی غرض سے اس کے سکول آئیں تھیں ۔۔۔ پرنسپل آفس میں بیٹھے اس کا انتظار کر رہی تھیں جب ان کی نظر آفس میں موجود کھلی ہوئی ونڈو پر پڑی ۔۔۔ ایک لمحے میں وہ رحاب کو پہچان چکی تھیں ۔۔۔ لیکن وہاں موجود نظارہ ان کے ضبط کو آزما گیا تھا۔۔۔ رحاب کا چہرہ جبکہ عرزم کی پشت تھی ان کی طرف اور تقریبا دس بارہ قدموں کی دوری پر دونوں کھڑے تھے۔۔۔
اجالابیگم نے غصے سے رخ موڑا تھا ۔۔۔
رے۔۔ اب ٹھیک ہے۔۔۔۔
عرزم جو اس کی آنکھ میں پھونک مار رہا تھا نے پوچھا تو رحاب نے جلدی سے اپنا سر اثبات میں ہلایا کیونکہ عرزم کی قربت اس کے حواسوں پر چھا رہی تھی۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹا اور نرمی سے بولا۔۔۔۔
خیال رکھا کرو اپنا کیونکہ ابھی میں تمہارے پاس موجود نہیں ہوں ۔۔۔ لیکن انشاءاللہ سٹڈی مکمل ہوتے ہی تمہیں اپنے پاس لے آئوں گا۔۔۔
رحاب نے سر جھکا کر آگے بڑھ گئی جبکہ لبوں پر مسکراہٹ جم کر رہ گئی تھی۔۔۔ عرزم نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے وہاں سے اس کے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔
رحاب کلاس کی طرف ہی جا رہی تھی جب کسی نے اسے پرنسپل کا پیغام دیا تو وہ وہاں سے سیدھے پرنسپل آفس میں چلی گئی۔۔۔ وہاں موجود اجالا بیگم کو دیکھ کر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا تھا جبکہ اجالا بیگم نے اسے مکمل اگنور کیا اور پرنسپل سے رحاب کی چھٹیوں کی بات کرنے لگیں ۔۔۔ رحاب اس دوران خاموش تھی ۔۔۔ اسے اجالا بیگم کی اگنورینس سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مگن تھی کہ اجالا بیگم نے باقاعدہ اس کا بازو ہلا کر اسے متوجہ کیا اور اسے ایک ہفتے کا سامان پیک کرنے کو کہا ۔۔۔۔ رحاب اپنا سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے اپنی کلاس روم کی طرف چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد وہ دونوں پرنسپل سے اجازت لے کر گھر کے لئے روانہ ہوگئیں ۔۔۔ رحاب نے راستے میں بھی اجالا بیگم سے بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اجالا بیگم نے اسے سختی سے خاموش رہنے کو کہا تھا۔۔۔ اسی خاموشی میں وہ گھر پہنچ گئیں تھی ۔۔۔ اجالا بیگم سیدھا اپنے کمرے میں جبکہ رحاب اپنے کمرے میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
عرزم زیام کو گھر چھوڑ کر واپس جا رہا تھا جب روڈ پر سگنل بند ہونے کی وجہ سے اسے رکنا پڑا ۔۔۔
وہ کوفت سے اردگرد دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر نائلہ پر پڑی ۔۔۔۔ جو وہیں روڈ کی دوسری طرف بوتیک سے نکل رہی تھی۔۔۔ عرزم کو نئے سرے سے غصہ آیا تھا ۔۔۔ نائلہ وہاں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی جب سگنل کھلا ۔۔۔ عرزم نے ٹرن لے کر اس کی گاڑی کا پیچھا کیا ۔۔۔ جب نائلہ کی گاڑی ایک سنسان روڈ پر آئی تو عرزم نے اپنی گاڑی اس کی گاڑی کے آگے کھڑی کر دی۔۔۔ نائلہ کے ڈرائیور نے بمشکل بریک لگائی تھی ورنہ عین ممکن تھا کہ عرزم کی گاڑی سے ٹکڑا کر بڑا نقصان ہو جاتا۔۔۔۔
واٹ داہیل۔۔۔ منظور ۔۔۔ پاگل ہو ایسے کون بریک لگاتا ہے؟؟؟
نائلہ کا سر اگلی سیٹ سے ٹکرایا تھا ۔۔ اور وہ غصے سے ڈرائیور پر چیخی تھیں ۔۔۔۔
میڈم وہ سامنے کسی نے گاڑی کھڑی دی ہے جس کی وجہ سے اچانک بریک لگانی پڑی۔۔۔۔
نائلہ کا اتنا سننا تھا کہ وہ گاڑی سے باہر نکلی ۔۔۔ لیکن سامنے عرزم کو دیکھ کر اس کا غصہ ختم ہوگیا تھا اور چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی اور اس مسکراہٹ میں صرف تمسخر تھا۔۔۔ جبکہ عرزم جیسے جیسے نائلہ بیگم کی طرف بڑھ رہا تھا اس کی پیشانی پر شکنوں کا جال گہرا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔
عرزم حیدر۔۔۔ وجہ جان سکتی ہوں اس طرح مجھے یہاں روکنے کی؟؟؟
جیسے ہی عرزم ان کے مقابل آ کر رکا نائلہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔
اپنی اوچھی حرکتوں سے بعض آ جائیں مسز علوی۔۔۔ ورنہ میں سارے لحاظ بھول جائوں گا۔۔۔۔
عرزم دانت پیس کر بولا۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔ سچ میں تمہیں لگتا ہے تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو عرزم حیدر۔۔۔ ؟؟
مسز علوی ۔۔۔ آپ جانتی ہیں آپکا مسئلہ کیا ہے؟؟؟ آپ کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ زیمی مکمل انسان نہیں بالکل آپکا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جیسا انسان نہیں ۔۔۔ آپ تو وہ ناگن ہیں جو اپنے ہی بچوں کو نگلنے خو تیار رہتی ہے۔۔۔ اگر آپکو لگتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ کیا کر رہی ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کیونکہ زیمی کے معاملے میں میں ضرورت سے زیادہ چوکنا رہتا ہوں۔۔۔
آئندہ احتیاط کیجئیے گا۔۔۔۔
عرزم سرد لہجے میں بول کر وہاں سے جانے لگا جب نائلہ بیگم غصے سے بولی تھیں ۔۔۔۔
کل تو صرف پوسٹر لگوا کر اسے ہاسپٹل پہنچایا تھا نا ۔۔۔ اب دیکھنا اسے جان سے مار دوں گی۔۔۔۔
نائلہ کو خود نہیں معلوم تھا کہ وہ غصے میں کیا بول گئی ہے جبکہ عرزم الٹے قدموں واپس آیا اور ایک ہاتھ سے نائلہ کی گردن دبوچی تھی۔۔۔
یہ سانسیں روکنے میں مجھے ایک لمحہ نہیں لگے گا۔۔۔۔۔ اگر ایسا کچھ سوچا بھی تو میرا یقین مانیے میں آپکو قتل کرنے سے پہلے لمحہ نہیں لگائوں گا۔۔۔۔
نائلہ جو مسلسل اس کے ہاتھوں سے اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ ان کی آنکھوں سے پانی نکل آیا تھا۔۔۔ زیام نے ایک جھٹکے سے انہیں چھوڑا تھا۔۔۔۔
ہوپ سو آپ سمجھ گئی ہیں۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا ۔۔۔
جبکہ نائلہ بیگم نے غصے سے عرزم کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اور پھر کچھ سوچ کر مسکراتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئیں تھیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
دو دن ہوگئے تھے اسے گھر آئے ہوئے اور ان دو دنوں میں رحاب کافی بور ہوگئی تھی۔۔۔ کیونکہ اجالا بیگم پچھلے دو دن سے اپنے کسی رشتے دار کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔۔۔
آئی جسٹ مسڈ یو پرنس۔۔۔۔
رحاب خود سے بڑبڑائی ۔۔
اتنے میں اسے پورچ میں گاڑی رکنے کی آواز آئی ۔۔ وہ بھاگ کر کھڑی کی طرف پہنچی تو سامنے ہی اجالا بیگم اپنی گاڑی سے نکل کر گھر کے اندر کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔ رحاب خوشی سے اپنے کمرے کے دروازے سے لائونج کی طرف بھاگی ۔۔۔
ویلکم بیک ماما۔۔۔ میں نے آپکو بہت مس کیا۔۔۔۔
رحاب نے مسکراتے ہوئے اجالا بیگم کو گلے لگایا جبکہ اجالا بیگم جواب میں مسکرا بھی نہ سکیں ۔۔۔
ماما۔۔۔ مجھے آپکو کچھ بتانا ہے لیکن پہلے آپ فریش ہو جائیں ۔۔۔
رحاب نے یہ بول کر اجالا بیگم کی پیشانی پر بوسہ دیا جبکہ اجالا بیگم اپنا سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں ۔۔۔۔
تقریبا ایک گھنٹے بعد اجالا بیگم رحاب کے کمرے میں آئیں جہاں وہ اپنی بکس کھولے سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔
ارے ماما ۔۔۔ آپ ۔۔۔ کچھ چاہیے تھا۔۔۔
رحاب نے اجالا کو دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
نہیں ۔۔۔ کچھ نہیں چاہیے۔۔۔ تم بتائو کیسی جا رہی ہے سٹڈی؟؟؟ ہاسٹل یا سکول میں کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔۔۔۔
نہیں ماما۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔ اور ویسے بھی اگر کوئی پریشانی ہوئی تو آپکی روحی سب سنبھال لے گی۔۔۔۔
رحاب چٹکی بجا کر بولی۔۔۔
ہاں وہ تو میں جانتی ہوں کہ میری روحی اب بڑی ہوگئی ہے۔۔۔۔۔
رحاب نے جواب میں مسکرا کر انہیں دیکھا۔۔۔
روحی کیا بات کرنی تھی تم نے مجھ سے؟؟؟
اجالا بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ماما۔۔۔ پہلے پرامس کریں کہ کسی سے بات نہیں کریں گی۔۔۔ بابا سے تو بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔
رحاب ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ اجالا بیگم کی چھٹی حس ایک دم سے بیدار ہوئی تھی ۔۔۔اور بمشکل مسکرا کر بولیں ۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔
ماما۔۔۔ میرا ایک کلاس فیلو ہے۔۔۔ مطلب کلاس سیم ہے لیکن سیکشن الگ ہے۔۔۔ وہ مجھے لائک کرتا ہے اور میں بھی اسےلائک کرتی ہوں۔۔۔ مطلب ہم دوست ہیں لیکن دونوں دوستوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کے لئے فیل کرتے ہیں وہ بہت اچھا ہے ۔۔۔ سب سے الگ ہے۔۔۔ سب سے مختلف۔۔۔۔
رحاب بول رہی تھی جبکہ اجالا بیگم نے بمشکل اپنے اندر کے غصے کو قابو کیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں رحاب عمر کے جس حصے میں ہے کسی بھی قسم کی سختی اسے باغی کر سکتی ہے۔۔ اس لئے انہوں نے نرمی سے رحاب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔
روحی ادھر آئو میرے پاس۔۔۔۔
اجالا بیگم نے اپنے بازو پھیلائے تو وہ ان کے پاس آ کر ان سے لپٹ گئی۔۔۔
روحی میرا بچہ دنیا ویسی نہیں ہوتی جیسے ہم دیکھتے ہیں۔۔ تمہاری عمر اتنی نہیں ہے کہ تم دنیا پرکھ سکو ۔۔۔ رہی بات پسند نا پسند کی تو ابھی تم صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دو ۔۔۔ کیونکہ ابھی تمہیں اپنا کرئیر بنانا ہے ۔۔۔ اور ابھی تمہیں اس سب سے دور رہنا ہے۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ کوئی میری بچی پر انگی اٹھائے ۔۔۔ اس لئے تم اس لڑکے سے بھی اب دور رہو گی۔۔۔ سمجھ گئی نا۔۔۔۔۔
لیکن ماما وہ بہت اچھا ہے ۔۔۔ سریسلی اگر ایک بار آپ اس سے ملیں گی تو آپکو پتہ چل جائے گا۔۔۔
رحاب نے سر اٹھا کر اجالا بیگم کو التجائیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔
میری بیٹی کی پسند ہے اچھا تو ہوگا ہی لیکن فلحال آپکو اس سے دور رہنا ہے۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔۔
رحاب کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔۔
میں شادی صرف اسی سے کروں گی اور آپکو ایک دفعہ اس سے مل کر اسے سمجھانا ہوگا کہ اب وہ مجھ سے نہیں مل سکتا۔۔۔۔
اجالا بیگم نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اپنا سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
تھینکس ماما۔۔۔ یو آر دا ورلڈ بیسٹ مام ۔۔۔۔۔
رحاب خوشی سے اجالا کے گلے لگی تو اجالا بیگم اسے دیکھ کر رہ گئیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے بعد اجالا بیگم رحاب خو ہاسٹل چھوڑنے آئیں تھیں ۔۔۔ آج روحی کی ضد کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ تو آ گئی تھیں لیکن انہوں نے سوچ لیا تھا کہ رحاب کے دماغ سے سارا فتور نکال کر رہیں گی ۔۔۔
عرزم جو ایک ہفتے بعد رحاب کو دیکھ رہا تھا مسکراتے ہوئے رحاب کی طرف بڑھا جو پارکنگ میں اجالا بیگم کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔ اچانک اس کی نظر عرزم پر پڑی تو اس نے عرزم کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس آنے کو کہا۔۔۔
رحاب میں اس کا یک چھوٹا سا ٹیسٹ لینا چاہتی ہوں ۔۔۔ تم بس چپ رہنا س دوران۔۔۔
اجالا بیگم رحاب سے مسکرا کر بولیں تو رحاب نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا ۔۔۔
تب تک عرزم قریب آ چکا تھا۔۔۔
اسلام وعلیکم۔۔۔
عرزم نے جھجکتے ہوئے سلام کیا۔۔۔۔
اجالا بیگم نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔۔
تم پرنس ہو۔۔؟؟؟
جی لیکن آپ۔۔۔؟؟؟
میں روحی کی ماما ہوں۔۔۔
اجالا بیگم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
اوو۔۔۔ میم کیسی ہیں آپ؟؟؟
میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ ایکچوئیلی مجھے تمہیں انوائیٹ کرنا تھا ہم نے روحی کا رشتہ فکس کر دیا ہے اس کے کزن کے ساتھ۔۔۔ اس سنڈے کو پارٹی دے ہیں ۔۔ اسی پارٹی میں روحی کے بابا انائونس کریں گے۔۔۔
رحاب نے چونک کر اجالا بیگم کو دیکھا تھا جبکہ عرزم کا دل ایک لمحے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا تھا ۔۔۔ بے یقینی سے اس نے رحاب کو دیکھا تھا۔۔۔ رحاب نے سر جھکا لیا تھا ۔۔۔ وہ اپنی ماں کے کہے کے مطابق خاموش تھی۔۔۔۔۔۔
مبارک ہو روحی۔۔۔
عرزم بمشکل مسکرا کر بولا جبکہ رحاب نے اپنا سر اثبات میں ہلا کر مبارکباد وصول کی تھی ۔۔۔
مبارک ہو میم آپکو۔۔۔ میں چلتا ہوں میری کلاس کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔
عرزم کی آنکھوں میں موجود نمی رحاب نے واضح محسوس کی تھی۔۔۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی لیکن اجالا بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
ماما وہ۔۔۔
روحی اچھا ہے وہ۔۔۔ تمہیں خوش رکھے گا۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں واقعی تمہارے لئے پسندیدگی دیکھی ہے۔۔۔ اب تم جائو اور میں ایک ویک تک تمہارے بابا سے بات کرتی ہوں تاکہ جلد از جلد تم لوگوں کی بات پکی کر سکوں تب تک اسے کچھ مت بتانا۔۔۔
اجالا بیگم مسکرا کر بولیں تو رحاب مسکراتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی۔۔۔
تھینکس ماما۔۔۔
یہ بول کر وہ وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ اجالا بیگم نے مسکرا کر اس کی پشت کو دیکھا تھا ۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں ان کی کوشش ان کے لئے زندگی کی سب سے بڑی غلطی بننے والی ہے۔۔۔
عرزم چھٹی کے بعد واپس آیا تو زیام نے اسے بجھا بجھا سا دیکھا ۔۔۔
عرزی کیا ہوا ہے ؟؟؟
زیام کے پوچھنے کی دیر تھی کہ اس کے آنسو بہنے شروع ہوگئے تھے۔۔۔ وہ رونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ لیکن دل کی تکلیف اس کی حد سے بڑھ گئی تھی ۔۔۔ زیام تو ہکا بکا رہ گیا تھا اس کی ری ایکشن پر ۔۔۔ وہ جانتا تھا بات معمولی نہیں ہے اس لئے عرزم رو رہا ہے کیونکہ عرزم کی برداشت بہت زیادہ تھی۔۔۔
عرزی۔۔۔
زیمی ۔۔۔ وہ چھوڑ کر چلی گئی مجھے۔۔۔ کیوں بے وفائی کی اس نے؟؟ کیوں اس نے مجھے اس نے اس راستے کا مسافر بنایا جس پر خود اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے ۔۔۔ زیمی مجھے لگتا ہے میں مر جائوں گا۔۔۔۔
عرزم ہوا کیا ہے؟؟؟ بتائو مجھے۔۔۔
زیام نے اسے خود سے الگ کر کے پوچھا۔۔۔
جواب میں عرزم نے ہچکیوں سے روتے ہوئے اسے ساری بات بتا دی۔۔۔۔
عرزم تم اس سے بات تو کرتے یار ۔۔۔ ہوسکتا ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو ویسا کچھ نہ ہو۔۔۔۔
زیام نے اس سمجھانا چاہا۔۔۔
مجھے اس پر یقین نہیں رہا ۔۔۔ اپنی ماں کے سامنے اس نے سر جھکا دیا تھا۔۔۔ مجھے اسے مجبور نہیں کرنا۔۔۔
لیکن ایک سکول میں رہتے ہوئے میں کیسے اس کا سامنا کروں گا۔۔۔۔ میں پل پل نہیں مرنا چاہتا ۔۔۔
عرزم چھوٹے بچوں کی طرح رو رہا تھا جبکہ زیام کی آنکھیں بھی نم ہوچکی تھیں ۔۔۔
مجھے اس سکول میں نہیں رہنا ۔۔۔ ہم یہاں سے جا رہے ہیں ۔۔۔ میں ماما کو کال کرتا ہوں وہ آ کر ہمیں لے جائیں گی تب تک تم سارا سامان پیک کرو۔۔۔ تمہارے پاپا کے نمبر بھی میں کال کرتا ہوں۔۔
عرزم یار جذباتی فیصلہ نہ کر۔۔۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچ۔۔ پیپر سر پر ہیں اور تم اپنی سال کی محنت ضائع کرو گے کیا؟؟؟ ہم پیپرز کے بعدچلے جائیں گے۔۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے اسے دیکھ کر کہا۔۔۔
ہم جا رہے ہیں زیمی ۔۔ اینڈ ڈیٹس فائنل۔۔۔
لیکن عرزم۔۔۔۔
کیا تم چاہتے ہو میں مر جائوں؟؟؟
عرزم چیختے ہوئے بولا تھا جبکہ زیام نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا۔۔۔
سامان پیک کرو تب تک میں نیچے سے کال کر کے آتا ہوں۔۔۔
عرزم کی گرین آنکھوں کی سرخی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی تھی جس سے زیام اس کی حالت کا اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ ضبط کے کن مراحل میں ہے۔۔۔ عرزم زیام کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے جلدی سے وہاں سے نیچے کی جانب گیا تھا کیونکہ اس کے آنسوئوں پر اس کا اختیار ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔
بعض دفعہ آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا سچ نہیں ہوتا۔۔۔ انسان جلد بازی میں غلط فیصلے کر لیتا ہے ۔۔ عرزم بھی یہی کر رہا تھا۔۔۔ اور ایک غلط فیصلہ عرزم کو زندگی بھر کا پچھتاوا دینے والا تھا۔۔۔
دل کی ہزاروں دلیلوں کو رد کرگئے۔۔۔
اے دل۔۔۔۔۔
وہ میرے ہیں اس گمان میں پھر بھی حد کرگئے ۔۔۔۔۔
اگلے دن فائزہ بیگم کے ساتھ وہ دونوں وہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔ رحاب نے کافی اسے ڈھونڈا لیکن وہ تھا کہ ایسا نظروں سے اوجھل ہوا دوبارہ ملا ہی نہیں ۔۔۔ رحاب نے اس سب کا قصوروار اجالا بیگم کو ٹھہرایا تھا اس لئے وہ ان سے بد ظن ہوگئی تھی کیونکہ اس کے مطابق اگر وہ اس کے سامنے جھوٹ نہ بولتیں تو پرنس اس کے پاس ہوتا ۔۔۔۔۔ لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی انسان صرف وسیلہ ہوتا ہے ۔۔۔ آزمائش تو وقت لیتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
حال
اگلے دن عرزم ناشتہ کرکے زیام کے گھر کے لئے نکل گیا ۔۔۔ ابھی وہ زیام کے گھر پہنچا ہی تھا جب لائونج سے اسے نائلہ بیگم کے رونے کی آواز آئی۔۔ جسے وہ مکمل طور پر اگنور کرتے ہوئے انیکسی کی طرف چلا گیا ۔۔۔ انیکسی میں نہ تو زیام تھا نہ ہی دائی ماں ۔۔۔ اسے حیرانگی ہوئی تھی ۔۔۔ وہ انیس کی سے باہر آیا ۔۔۔
شاویز بھائی سے پوچھتا ہوں۔۔۔۔
عرزم خود سے بول کر گھر کے اندر کی طرف بڑھا جب اسے زیام نظر آیا جو نائلہ بیگم کے پاس سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔ جبکہ نائلہ بیگم صوفے پر بیٹھیں اپنے آنسو صاف کر رہی تھیں۔۔۔ پاس ہی جہانگیر علوی بیٹھے تھے۔۔۔ جبکہ انکی لیفٹ سائیڈ پر صوفے پر شمائل اور شاویز بیٹھے تھے۔۔۔۔ جبکہ دائی ماں ان سے تھوڑی دور کھڑی غصے سے نائلہ بیگم کو گھور رہی تھیں۔۔۔۔
زیمی۔۔۔۔
عرزم نے آگے بڑھ کر اسے آواز دی۔۔۔
سب نے لائونج کے داخلی دروازے کی طرف دیکھا ۔۔۔ جہاں عرزم کھڑا تھا۔۔۔ زیام آگے بڑھا اور اس کے مقابل آیا۔۔۔۔
زیم۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا زیام نے اس کے بائیں گال پر تھپڑ رسید کیا۔۔۔ سب اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے تھے کیونکہ سب کے لئے ہی زیام کا ردعمل شاکنگ تھا جبکہ نائلہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔ جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گئی تھیں ۔۔۔۔۔
عرزم نے گال پر ہاتھ رکھ کر زیام کو دیکھا جس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی ممی کو بیچ سٹرک پر دھمکی دینے کی؟؟؟
زیام غراتے ہوئے بولا تھا جبکہ عرزم نے بے ساختہ نائلہ بیگم کو دیکھا تھا جو مسکرا رہی تھیں ۔۔۔۔ عرزم ایک لمحے میں سارا معاملہ سمجھ گیا تھا۔۔۔۔
زیمی۔۔ جو اس عورت نے کیا ہے اس کے آگے یہ دھمکی تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ میں جان سے مار۔۔۔۔
چٹاخ ۔۔۔۔
زیام نے ایک اور تھپڑ اسے مارا تھا۔۔۔۔
مت بھولو عرزم حیدر کے تم زیام علوی کی ماں کے بارے میں بات کر رہے ہو۔۔۔ وہ جو بھی ہیں جیسی بھی ہیں ۔۔۔ ماں ہیں میری ۔۔۔ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا انہیں سرعام بے عزت کرنے کا۔۔۔۔
زیام کے بولتے ہوئے گردن سے نسیں نمایاں ہو رہی تھیں جبکہ عرزم بے یقینی سے زیام کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ یہ اس کا دوست نہیں تھا یہ نائلہ علوی کا بیٹا تھا۔۔۔۔ جو اپنی ماں کے لئے لڑ رہا تھا۔۔۔
مجھ پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے اپنی اس سوکالڈ ماں سے پوچھو کہ اس کی ہمت کیسے ہوئی وہ پوسٹر لگوانے کی؟؟؟
عرزم بھی غصے سے بولا تھا۔۔۔ اب وہ مزید نائلہ بیگم کے کارنامے کو چھپا نہیں سکتا تھا ۔۔۔ اس کی بات پر جہاں باقی گھر والے شان میں تھے وہیں زیاں کا چہرہ سپاٹ ہوا۔۔۔ جہانگیر علوی نے بے یقینی سے نائلہ کو دیکھا جو کسی بھی طرف دیکھے بغیر زیام کے پاس پہنچ گئی تھیں۔۔۔
زیام یہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ اسے پتہ نہیں کیا غلط فہمی ہوگئی ہے جو اس نے روڈ پر بھی میری گردن دبائی تھی۔۔ اور بار بار یہی الزام لگا رہا تھا۔۔۔
بس کریں مسز علوی۔۔ اور کتنا گریں گی آپ۔۔۔
عرزم نے غصے سے نائلہ کو دیکھا تھا۔۔۔
تم بس کرو عرزم حیدر۔۔۔ اور مجھے یہ بتائو کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کہ ممی نے یہ سب کیا ہے؟؟ بالفرض اگر کیا بھی ہے تو کیا مفاد ہے انکا اس کے پیچھے؟؟ وہ اپنی اولاد کو کیوں بدنام کریں گی؟؟؟
زیام نے عرزم کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔ عرزم نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف اجنبیت تھی۔۔۔۔
کیا تمہیں مجھ پر یقین کرنے کے لئے ثبوتوں کی ضرورت ہے۔؟؟؟
عرزم نے بے یقینی سے پوچھا۔۔۔ جبکہ زیام نے لب بھینچ لئے تھے عرزم کی بات پر۔۔۔
واہ واہ۔۔۔ مسز علوی واہ۔۔۔ کیا گیم کھیلی ہے آپ نے۔۔۔ ماننا پڑے گا آپکو۔۔۔ پہلے اپنے بیٹے کو ساری دنیا کے سامنے حوس کار ثابت کرنے کی کوشش کرتیں ہیں پھر اسے بیٹے کے سامنے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں ۔۔۔
بس کرو۔۔۔ عرزم میری ماں کے خلاف ایک لفظ نہیں سنو گا میں۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔ اور ابھی اسی وقت ممی سے معافی مانگو۔۔۔
میں معافی مانگو وہ بھی اس عورت سے کبھی نہیں ۔۔۔
عرزم نے انکار کیا۔۔۔
عرزم میں نے کہا ممی سے معافی مانگو۔۔۔
اس بار زیام نے عرزم کا گریبان پکڑ کر کہا تھا ۔۔۔ عرزم مسکرایا تھا۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں موجود دکھ تکلیف زیام نے واضع محسوس کی تھی ۔۔۔
عرزم نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھے جن سے اس نے عرزم کا گریبان پکڑا ہو اتھا۔۔۔
تم جانتے ہو زیمی ۔۔۔ تم واحد انسان ہو اس دنیا میں جس کا ہاتھ میرے گریبان تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔ دوست نہیں ہو میرے تم دنیا ہو میری۔۔۔ پھر اگر کوئی میری دنیا تباہ کرنے کی کوشش کرے تو تم ہی بتائو کیا کرنا چاہیے مجھے اس کے ساتھ۔۔۔
عرزم نے آخری بات اس کے ہاتھ جھٹک کر کہی تھی۔۔۔
تو تم میری بات نہیں مانو گے؟؟؟
زیام کا لہجہ وہاں موجود ہر شخص کو چونکنے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔
مجھ سے ایسی کوئی امید باندھنا بھی مت کہ میں اس گھٹیا عورت سے معافی مانگوں گا۔۔۔۔
عرزم نے غصے سے گھورتے ہوئے نائلہ بیگم کو دیکھا تھا۔۔۔
عرزم حیدر اگر تم نے ابھی اسی وقت ممی سے معافی نہ مانگی تو تم بھول جانا کہ تمہارا کوئی زیام نامی دوست بھی تھا۔۔۔ اب فیصلہ تمہیں کرنا ہے میری دوستی یا تمہاری انا۔۔۔۔
زیام نے آخری بات عرزم کو دیکھے بغیر کہی تھی۔۔ جبکہ عرزم لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔۔
تم جانتے ہو تم کیا بول رہے ہو؟؟
عرزم کو اپنی آواز کسی کھائی میں سے آتی ہوئی سنائی دی۔۔۔
میں مکمل ہوش و حواس میں ہوں عرزم حیدر۔۔۔
میں معافی کسی صورت نہیں مانگوں گا۔۔۔ آج اگر تمہارے لئے مجھے تمہیں بھی چھوڑنا پڑے تو میں یہ کر گزروں گا۔۔۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا اس عورت کا چہرہ تمہارے سامنے جلد لا کر رہوں گا۔۔۔ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔
جاتے جاتے میری بات سنتے جائو عرزم حیدر ۔۔۔ آئندہ اگر تم نے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی یا میری زندگی میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کی تو میں خود کو ختم کر لوں گا۔۔۔
زیام کے الفاظ عرزم حیدر کے سینے میں تیر کی طرح لگے تھے لیکن وہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے چلا گیا جبکہ زیام نے آنکھیں بند کر کے اپنے آنسوئوں کو روکا تھا۔۔۔ اور پھر بھاگتے ہوئے انیکسی کی طرف چلا گیا تھا۔۔۔ کیونکہ آج اس نے عرزم کو نہیں بلکہ اپنے ماں باپ بہن بھائی کو کھویا تھا۔۔۔
سب گھر والے ان دونوں کو اس طرح دیکھ کر افسردہ ہوئے تھے سوائے نائلہ کے جس کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔۔۔ اس نے آج صبح ہی زیام کو انیکسی سے بلوا کر ایموشنلی ٹریپ کیا تھا۔۔ جس میں وہ کامیاب بھی رہی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...