امان عدن نامی لڑکے کے بارے میں افق’ فرزام کو بتانے لگی… اس کے باپ کا اس کی عزت پر حملے کو چھوڑ کر اس نے ان سے ملاقات کے متعلق بھی بتا دیا…
جب اس نے بات ختم کر لی تو اس نے خاموشی سادھ لی کہ کیا اب بھی یہ فرزام نامی لڑکا اس سے شادی کرنا چاہتا
ہے… بہت دیر تک فرزام بھی خاموش رہا…
“ماما نے ٹھیک کہا تھا کہ افق کے اندر بہت کچھ ٹوٹ چکا ہے…”
اس نے اتنا کہا اور خاموش ہو گیا… افق کو جیسے جواب مل گیا کہ وہ اسے انکار کر رہا ہے… جس طرح اسے اس کے پروپوز کرنے پر خوشی نہیں تھی… ایسے ہی انکار پر بھی دکھ نہیں تھا… اسے عدن کا خوف تھا کہ وہ پھر نہ اس کے اندر آن بسے….. اس کا خیال پھر نہ اسے آ لے…… اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اتنی بڑی بات سن کر وہ اس سے شادی کے خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک ہی دے گا…
“تم جیسی لڑکی کو کوئی بھی آسانی سے بےوقوف بنا سکتا ہے…”
اس کی اگلی بات سن کر وہ زمین میں گڑ گئی…اب اسے احساس ہوا کہ اس نے کتنی بڑی غلطی کی ہے اسے یہ سب بتا کر… اس کے بعد وہ دوسرا شخص ہے جسے اس نے اس بارے میں معلوم ہونے دیا… یہ بات اس نے اپنے اندر راز کی طرح نہیں’ ایک گناہ کی طرح چھپا کر رکھی تھی… اس نے اپنے گناہ کا خود ہی پردہ چاک کر دیا… اب یہ اس کا مذاق اڑائے گا… وہ جو اسے سمجھ رہا تھا… اس کے الٹ سمجھے گا… وہ اٹھنے لگی…
“جو چھوڑ جاتے ہیں’ وہ اپنا نقصان کرتے ہیں…” اٹھنے کے لیے پر تولتی افق نے اس کی طرف دیکھا… “اس نقصان پر انہیں افسردہ ہونا چاہیے’ ہمیں نہیں افق…” وہ مسکرایا… افق بیٹھ گئی…
فرزام نے اسے رومی کے بارے میں بتا دیا… دو لوگوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے خود کو بیان کر دیا… افق کو اب زندگی میں کسی مرد کی ضرورت نہیں تھی… اسے تو خود کو امان سے بچانا تھا’ وہ اس جیسے شخص کے لیے جوگ لینا نہیں چاہتی تھی…
فرزام اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کو شامل کرنے سے ڈرتا تھا’ جو آئیں اور پھر اسے چھوڑ جائیں اور وہ ٹوٹ جائے… وہ دونوں فی الحال اپنے اپنے اندرونی خوف کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے…
ان دونوں میں “محبت” نامی احساس کہیں بھی نہیں تھا…
……… ……………… ………
مسز گوہر افق کے گھر جا کر اس کا ہاتھ مانگ آئیں… جسے فوراً قبول کر لیا گیا… جمال اور اسد کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا… انہیں اتنا پیارا “بھائی جان” مل رہا تھا… طے یہ پایا کہ فرزام کے جانے سے پہلے نکاح کر دیا جائے گا…
فرزام کے کاغذات میں تھوڑی سی ہی کمی بیشی رہ گئی تھی… جن کے لیے وہ بھاگ دوڑ کر رہا تھا… برطانیہ کی طرف سے جو اس کا ویزہ منسوخ کیا گیا تھا… اس وجہ سے اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا… بہرحال اب تو وہ ہر طرح کی اور ہر مقام پر اچانک سے مل جانے والی مشکلات کا عادی ہو چکا تھا…
کبھی کبھار ہی مسز گوہر کی احمر سے بات ہو جاتی تھی… انہوں نے اسے فرزام کے نکاح میں شرکت کی دعوت دی… اتنے پیسے لگا کر وہ صرف نکاح میں شرکت نہیں کر سکتا تھا اور پھر اسے ڈر تھا کہ پیسوں کا تقاضا پھر سے نہ کر لیا جائے… اس نے بہانے سے انکار کر دیا…
مسز گوہر نے کبھی اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کا کاروبار کتنا اچھا چلنے لگا ہے اور اس کاروبار کے لیے دونوں ماں بیٹے اور ان کی ہونے والی بہو نے کتنی محنت کی ہے… ان کا خیال تھا کہ اگر ان کا بیٹا ان کے برے وقت میں حصےدار نہیں بنا تھا تو اچھے میں بننا بھی پسند نہیں کرے گا…
احمر اپنی ماما سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ وہ وہاں کیسے اور کہاں رہ رہی ہیں… پوچھنے کا مطلب تھا’ پھر امداد بھی کرنا اور ابھی ابھی انہوں نے بلڈنگ کا گھر چھوڑ کر ایک ڈبل اسٹوری گھر لیا تھا… اب وہ لیڈز میں کسی کو جواب دہ بھی نہیں تھا کہ تمہارے پاس پیسے کہاں سے آئے اتنا بڑا گھر لینے کے لیے اور نئے ماڈل کی کار تم نے کیسے لے لی؟ نئے سال کی چھٹیوں میں تم یورپ کیسے گھوم آئے؟ اب وہ وہاں کھل کر پرآسائش زندگی گزار رہا تھا…
اس کا انگریز نما بھائی سیکنڈ ہینڈ بائیک چلاتا رہا تھا… ماں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کھڑی ہو کر کٹنگ کرتی رہی تھی… لیکن جو بھی تھا… وہ مسز گوہر اور فرزام کے لیے بہت اچھا تھا… وہ ایک پرآسائش زندگی نہیں گزار رہے تھے… لیکن وہ غاضب نہیں بنے تھے….. تو ایسی آسائشوں سے محنت اور خواری بھلی….. چیزوں کی تعداد میں کمی ہو جانی چاہیے….. خوبیوں کی نہیں…… نیکی کی توفیق ملے نہ ملے… گناہ سے دوری کی ضرور ملنی چاہیے…
مسز گوہر کو اتنا شوق ضرور تھا کہ احمر اپنے بھائی کی شادی میں آ جائے… کم سے کم کوئی ایک تو دوسرے کی شادی میں شرکت کر لے… لیکن تانیہ کے ہوتے’ وہ نہیں آئے گا…
جمعے کے دن دوپہر کے وقت بند گلی کے ہرے رنگ کے دروازے کے گھر میں فرزام اپنی چھوٹی سی بارات لے کر اترا… اس نے ڈیزائنر سفید شلوار سوٹ پہنا تھا… ہلکے سرخ دوپٹے کو جو دولہا کے لیے ہوتے ہیں گلے میں ایک بل دے کر ایک سرا پیچھے اور ایک آگے رکھا تھا… اتنی سی ہی تیاری میں وہ شہزادہ لگ رہا تھا’ جو کشمیر کی کلی کو لینے کے لیے آیا تھا… باراتیوں میں اب ہی کاریگر اور استقبال کرنے والوں میں افق کے چچا’ ماموں’ بھابھی اور چند اور لوگ شامل تھے… جہیز کے نام پر دعائیں تھیں اور بری کے نام پر فرزام سا مرد…
افق رخصت ہو کر فرزام کے گھر آ گئی… فرزام نے ماں کو افق کے بارے میں اس کی بتائی کوئی بات نہیں بتائی
تھی… اس کا خیال تھا کہ یہ اب بس ان دونوں کا آپس کا مسئلہ ہے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کو ماضی کی تکلیفوں سے نکالتے ہیں…
افق نے مسز گوہر کا لایا سرخ رنگ کا شرارہ پہنا تھا اور وہ بےحد خوب صورت لگ رہی تھی… اس کی خوب صورتی ایک طرف اور اس کا دھواں دھواں ہوتا روپ ایک طرف… خود کو نارمل رکھنے کے باوجود وہ وحشت زدہ سی نظر آ رہی تھی… جیسے ابھی اب چھوڑ چھاڑ بھاگ جائے گی…
مسز گوہر دونوں کی تصویریں بنا رہی تھیں… فرزام کی دلہن کے لیے انہوں نے تھوڑے سے زیورات بنا لیے تھے… وہ انہوں نے پہلے ہی افق کو دے دیے تھے… افق کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر وہ کافی دیر تک اس سے باتیں کرتی رہیں…
نکاح دوپہر کے وقت ہوا تھا اور شام تک افق گھر آ گئی… رات کو ان تین لوگوں نے فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر کیا… ماں کو گھر ڈراپ رک کے وہ ایسے ہی تھوڑی سی ڈرائیو کے لیے کار ادھر ادھر گھماتا رہا… اب ایسا تھا کہ انسان بہت سے فیصلے بہت مضبوطی سے کر تو لیتا ہے… لیکن جب ان فیصلوں کے راستوں پر سے گزارتا ہے تو معلوم ہوتا ہے…
فرزام ایک اچھا اور انصاف پسند لڑکا تھا’ لیکن اس کے کانوں میں ماضی میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر’ قطار در قطار درختوں کے سایوں میں چہل قدمی کرتے اور کسی جھیل کے کنارے بیٹھے بنے گئے خواب آبشار کے جھرنے کی طرح رواں تھے…
وہ ذہن کو جھٹک رہا تھا… پھر بھی کانوں میں سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں… ایک خفیف سی کپکپاہٹ اس کے اندر تھی… اب اسے معلوم ہوا کہ کسی کو دھکا دے کر’ گھر سے باہر نکال کر دروازہ مقفل کر دینے سے کوئی زندگی سے نہیں چلا جاتا… دل جو دھکے لگاتا ہے… دل والوں کو نکالنے کے لیے وقت آنے پر ان دھکوں کا بھانڈا پھوٹ ہی جاتا ہے…
اس نے افق کو دیکھا دونوں ہاتھوں کو گود میں رکھے وہ تازہ تازہ پینٹ سے بنائی گئی دیوی لگ رہی تھی… اس چہرہ اسی دیوی جیسا لگ رہا تھا’ جسے حنوط کر کے تابوت میں بند کر دیا گیا ہو’ تازہ تازہ وجود پر صدیوں پرانا چہرہ…. چند گھنٹوں کی دلہن کا صدیوں سے ناتا…..
“آئس کریم کھاؤ گی؟”
“جی! کھا لوں گی…” آواز اتنی دھیمی تھی کہ بمشکل فرزام نے سنا…
“میرا خیال تھا کہ تم کہو گی… میرا کھانے سے ہی پیٹ بھر گیا…” وہ ہنسا تاکہ وہ بھی ہنسے…
“پھر میں نہیں کھاتی…” وہ ہنسی نہیں… سنجیدہ ہی
رہی… وہ اس کے مذاق کو سمجھی ہی نہیں…
“جب تک تم میں حسِ مزاح آئے گی… میری حسِ مزاح مر چکی ہو گی… میں تو تمہیں ایک دو لطیفے سنانے جا رہا تھا… لیکن مجھے تو تمہیں لطیفے سمجھانے بھی پڑیں
گے…”
وہ چپ رہی… ہولے سے کبھی کبھی گود میں رکھے ہاتھوں کو جنبش دے دیتی… ایسے سمٹ کر بیٹھی تھی جیسے بہت خوف زدہ ہو… بہت برے وقت پر اسے یاد آ رہا تھا وہ… دوسری بار کسی کے ساتھ کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی… پہلی بار کا بیٹھنا یاد آ رہا تھا…
دونوں میں خاموشی رہی… بنا کہے دونوں ہی سمجھ گئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رشتے کو سمجھے’ اس رشتے کو نبھانے’ دوست بن کر ہی سہی’ ساتھ ساتھ’ خوشی خوشی زندگی گزارنے میں انہیں وقت لگے گا…
……… ……………… ………
فرزام کے پاس چند ہفتے ہی تھے… اس کا ویزا آ چکا تھا… وہ جانے کی تیاری کر رہا تھا… افق نے اچھے نمبروں سے بی اے پاس کر لیا تھا… اسے ساتھ لے جا کر اس کا پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں ایڈمیشن کروا دیا… وہ چاہتا تھا کہ وہ ریگولر اسٹڈی کرے… افق کا کہنا تھا کہ وہ کام کرنا چاہتی ہے… اس طرح یونیورسٹی جا کر اس کا بہت وقت صرف ہو گا… لیکن فرزام کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کام سے نکل کر اپنے لیے بھی کچھ کرے…
کلاسز شروع ہونے میں ابھی وقت تھا… فرزام کے جانے سے پہلے ایک اور پیش رفت ہوئی… جس نے ان کی زندگی میں تھوڑی اور تبدیلی کر دی… افق کی اماں کا گھر ایک بند گلی میں تھا… اس گلی کے دونوں گھر ایک پارٹی مارکیٹ بنانے کے لیے خریدنا چاہتی تھی… اس گلی کے سرے پر سڑک تھی اور اس سڑک پر بہت سی دکانیں تھیں… جو پارٹی وہ جگہ لینا چاہتی تھی’ اسے راتوں رات ہی جگہ چاہیے تھی… اسی لیے انہیں اچھی خاصی قیمت کی پیش کش کی جا رہی تھی… رقم اتنی اچھی تھی کہ انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا… باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ افق کا خاندان فی الحال مسز گوہر کے گھر میں رہے گا… آئندہ کے لیے کچھ بھی پلان کیا جا سکتا تھا…
دونوں گھر بک گئے… بھابھی مرکزی شہر سے دور چار مرلے کے گھر میں چلی گئیں… افق کا گھرانہ مسز گوہر کے گھر میں آ گیا… جس ہال نما کمرے میں سامان پیک کر کے رکھا جاتا تھا… وہاں لکڑی سے پارٹیشن کروا لیا گیا… ان کے پچھلے گھر سے بڑا اور کھلا کمرہ بن گیا… فرزام نے ایک بیڈ لا کر وہاں سیٹ کر دیا… آرڈر لینے اور سپلائی کرنے کی ذمہ داری جمال نے سنبھال لی… فرزام کی موٹر بائیک اسے دے دی گئی…
گھر بکنے سے جو رقم موصول ہوئی تھی’ اسے افق نے مسز گوہر کے حوالے کیا… وہ اسے بزنس میں لگانا چاہتی تھی… دونوں پارٹنرز کی طرز پر برابر آ گئے… اب وہ ایک خاندان بن گئے تھے… انہیں مل کر محنت کرنی تھی… مسائل کا حل مل کر نکالنا تھا… وسائل اور کامیابی کے لیے مل کر جدوجہد کرنی تھی… وہ سب جدا جدا تھے… لیکن ان میں ایک قدر مشترک تھی… وہ لفظ “محنت” کو سیکھ چکے تھے… کامیابی کے راستے خدا کے ہاتھ میں… لیکن ان سب نے اپنی اپنی سیڑھیاں بنا لی تھیں…
……… ……………… ………
رات گئے وہ اس کی پیکنگ کر رہی تھی… اس گھر کی ایک ہی رونق تھی’ فرزام….. اور وہ جا رہا تھا… جانے سے پہلے وہ سب کو کرائے کی کار میں خوب گھماتا رہا… جمال اور اسد نے زندگی میں تفریح نام کی چیز نہیں دیکھی تھی… اب وہ ہر وقت فرزام کے ساتھ چپکے رہتے…
جمال تو اب گھر ہی میں ہوتا تھا… رات کو ہی پریس جاتا تھا’ لیکن اسد اسکول سے آنے کے بعد فرزام کے ساتھ ساتھ رہتا… جتنی بار بھی وہ خریداری کرنے کے لیے گیا’ اسد اس کے ساتھ ہی رہا… اکثر تینوں مال پر چہل قدمی کرتے… بھنے ہوئے چنے کھاتے… آئس کریم’ گولے’ گول گپے…… اور نہیں تو’ فرزام ان کے ساتھ شرط باندھ کر دوڑ لگانے لگتا…
اس کا معمول تھا’ مسز گوہر کے ساتھ چھٹی والے دن باغ جناح جانا’ چہل قدمی کرنا’ کبھی کبھی بیڈمنٹن کھیل لیتے اب وہ سب ساتھ جانے لگے تھے… اسد اور جمال اس کے ساتھ کرکٹ کھیلتے… اماں سب کو ایسے ہنستے کھیلتے دیکھ دیکھ گلابی ہوتی جا رہی تھیں… صحت اچھی ہو ہی گئی تھی… لیکن اس اطمینان و سکون نے اور اچھی کر دی تھی…
بیڈمنٹن کھیلتے وہ ریکٹ افق کے ہاتھ میں بھی دیتا تو وہ سر نفی میں ہلا دیتی… وہ پکڑا کر دور سامنے جا کر کھڑا ہو جاتا… جب وہ ہر شٹل کو مِس کر دیتی تو ایسے شرمندہ ہوتی’ جیسے بہت بڑا گناہ کر لیا ہے اور باغ جناح کے سبھی لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو ” شیم شیم” کہہ رہے ہیں…
“افق! آخر ریکٹ کو ایسے….. ایسے پکڑنے میں تمہارا کیا جاتا ہے…” وہ قریب آ کر پھر سے بتاتا کہ ریکٹ کو کیسے پکڑنا ہے… اس کے دور جاتے ہی وہ پھر سے بھول جاتی…
“اس شٹل سے تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو؟ یہ دیکھو! اس میں کوئی بم فٹ نہیں ہے…
وہ ریکٹ اسد یا جمال کو پکڑا دیتی… فرزام دور سے
چلاتا… “واپس کرو اسد اسے……” وہ واپس اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتے…
“کھیلتی کیوں نہیں ہو افق باجی…. ایسے کھیلو….. ایسے…” اسد بھی اس کے پاس آ کر بتاتا…
فرزام نے اس کی طرف ہٹ کی اور وہی پہلی ہٹ اس نے ریورس کی تو وہ ریکٹ چھوڑ چھاڑ’ دل پر ہاتھ رکھ کر قہقہہ لگانے لگا… اسد اور جمال نے تالیاں بجائیں… وہ چلتا ہوا قریب آیا…
“اسد! میں جا رہا ہوں… لیکن تم یاد سے یہاں آ کر یادگاری پودا لگا جانا… ٹھیک یہاں…..” جہاں افق کھڑی تھی’ وہاں کھڑے ہو کر اس نے کہا…
“ٹھیک ہے فرزام بھائی! اور کچھ…..؟”
“میرا خیال ہے’ اتنا ہی کافی ہے…” ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اس کی طرف دیکھا… وہ ریکٹ ہاتھ میں لیے کھڑی تھی کہ جاؤں یا یہیں رہوں…
پھر وہ اس کے ساتھ لمبی لمبی سڑکوں پر چہل قدمی کرتا… ہلکی پھلکی باتیں کرتا… ایک بار اسے خریداری کے لیے لے گیا… اسے اپنی پسند کے لمبے کھڈی اور سوتی کے کرتے اور جینز کے کپڑے نما تنگ پاجامے لے کر دیے… پمپ شوز لے کر دیے… بڑے بڑے کلاسیک ہلکے رنگوں کے ہینڈ بیگز لے کر
دیے…
“تمہاری یونیورسٹی وارڈروب تیار ہے…” اس کا کہنا تھا کہ کپڑے کم ہی ہوں… لیکن صاف ستھرے ہوں… وہ ایک ہی کیوں نہ ہو… نفیس ہو’ اچھے رنگ اور اچھے کپڑے میں ہو…
اسے اپنے یونیورسٹی بیگ میں کیا کیا رکھنا ہے… اس نے اسے یہ بھی بتایا…
“کسی سے ڈرنا نہیں اور سب سے ہائے ہیلو رکھنی ہے…” اس نے سمجھایا کہ “لوگوں کے ڈر کو اپنے اندر سے نکال دو….. ان سے فاصلے پر رہو… لیکن انہیں جانچتی رہو… جب ہم زیادہ لوگوں کو جانچ لیتے ہیں تو کم بےوقوف بنتے ہیں… جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے لگتے ہیں’ بہادر بننے لگتے ہیں…
اس کی پیکنگ مکمل ہو گئی… اسے صبح کی فلائٹ سے جانا تھا…سب لوگ کھلی چھت پر موجود باتیں کر رہے
تھے… اسد نے ابھی سے رونا شروع کر دیا تھا اور فرزام اسے بہلا رہا تھا… جب وہ کمرے میں آیا تو وہ اس کے کپڑے استری کر رہی تھی… وہ بیگ کی زپ کھول کر سرسری نظر سامان پر ڈالنے لگا…
“افق…..!” آواز دی… اس نے سوئچ بند کر دیا کہ کوئی کام ہو گا…
“ارے نہیں… تم کام کرتی رہو….. میں یہاں کرسی پر بیٹھا بات کر رہا ہوں…”
اس نے سوئچ آن کر دیا اور پھر سے استری کرنے لگی…
“مجھے چند سال تو لگ ہی جائیں گے امریکہ میں…” اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور خاموش ہی رہا… اگلی بات کے انتظار میں افق نے ہی مڑ کر اسے دیکھا… وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا… اسے ایسے دیکھتے پا کر وہ جھٹ سیدھی ہو گئی…
“تم مجھے یاد کرو گی…..؟ ایسے ہی پوچھ رہا ہوں…… بس ایسے ہی…. روز فون کیا کروں گا…. ایسے میں یاد کیا کرنا؟” وہ سوال پوچھ کر خود ہی ڈر گیا کہ اگر اسے نے “نہ” کہہ دیا یا کوئی بھی جواب نہ دیا تو….. تو اس نے جواب کی گنجائش ہی ختم کر دی…
افق نے اثبات میں سر ہلا دیا…
“ایک اور بات پوچھ لوں….؟” انداز بچگانہ تھا… لیکن دراصل اسے بچگانہ بنایا گیا تھا…
“جی! میں سن رہی ہوں…” یہ نہیں کہا… ضرور ضرور….. اس سوال پر وہ خود بھک سے اڑ گئی کہ نجانے کیا پوچھ لے…
اس نے دیکھا کہ وہ استری شدہ شرٹ کے کالر کو پھر سے استری کر رہی ہے’ بار بار اسے استری کر رہی ہے… سوال پوچھنے کی نوبت ہی ختم ہو گئی… جب اس نے افق کو وقت دے ہی دیا تھا اور بنا کہے اس سے مانگ بھی لیا تھا… پھر اسے ایسے اس سے دل لگی نہیں کرنی چاہیے… وہ اٹھ کر کمرے سے چلا گیا…
افق نے اسے جاتے دیکھا اور چاہا کہ اسے روک رک پوچھے کہ کیا پوچھنا تھا… لیکن وہ ایسا کر نہیں سکی… ابھی اس میں اتنی ہمت نہیں آئی تھی اور ابھی وہ اس سے پوچھنا نہیں چاہتی تھی… ابھی وہ ہر سوال پوچھے جانے سے ڈرتی تھی… ہر جواب کے لیے تیار نہیں تھی… ابھی تو وہ صرف فرزام کا احترام کرتی تھی….. صرف احترام….. باقی سب جذبوں کے لیے نجانے کتنا وقت درکار تھا…
ہفتہ کی رات ان سب نے اسے خدا حافظ کہا…… ٹرالی کو گھسیٹتے اس نے ایک اور بار مڑ کر خاص طور پر افق کو دیکھا….. وہ جلد ہی اسے بھی بوسٹن بلا لے گا…
……… ……………… ………
افق کے پیسوں اور کچھ اپنی بچت کو مسز گوہر نے استعمال کیا اور قذافی اسٹیڈیم میں ایک دکان کرائے پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں… برطانیہ جانے سے پہلے ان کا خواب رہا تھا یہاں ایک دکان حاصل کرنا… لیکن اس وقت یکے بعد دیگرے ان کے حالات بدلتے ہی چلے گئے اور وہ خواب پورا نہیں ہو سکا…اب دکان انہیں حاصل ہو گئی تھی… کچھ تزئین و آرائش کروا کر انہوں نے اس کا افتتاح کر دیا… افتتاح کچھ ایسے تھا کہ پانچ سو اور ہزار میں سیل لگا دی گئی تھی اور تین کی خریداری پر ایک جوڑا مفت تھا… یہ پیش کش اگلے پندرہ دنوں تک کے لیے تھی… اس افتتاح کے لیے انہوں نے نئے کپڑے بنائے تھے… ساتھ ہی ساتھ اسٹاک میں رکھے اچھی حالت کے پرانے کپڑے بھی ڈسپلے کر دیے تھے… اسد اور جمال دکان کے سیلز مین بن گئے… بیس دن کے اندر اندر سارا اسٹاک ختم ہو گیا…
مسز گوہر کو اسی دن کا انتظار تھا… اب انہیں من چاہا منافع ہو رہا تھا…چند بڑے اسٹورز کے آرڈرز کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے برانڈ “چنر” کے لیے کام شروع کر دیا… یہ اس علاقے میں کھلنے والی پہلی مکمل بچیوں کے ملبوسات کی دکان تھی… جس میں ہر رنگ’ کپڑے’ ڈیزائن’ کام اور ہر طرح کے ایونٹ کے لیے لباس ملتے…… انہیں آرڈر بھی دیا جا سکتا تھا’ تھیم بھی… آرڈر اور تھیم ورک کے لیے وہ تھوڑے سے زیادہ پیسے چارج کرتے تھے… مسز گوہر کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی میچنگ پاؤچ اور زیورات کا کام بھی شروع کر دیں گے…
کام بڑھ جانے کی صورت میں انہیں کاریگر زیادہ رکھنے پڑے اور اوپر نیچے اس گھر کو انہوں نے چھوٹا سا کارخانہ بھی بنا دیا…
خود ایک اچھی کالونی میں پندرہ مرلے کی کوٹھی میں کرائے دار بن کر آ گئے… کارخانے میں مٹیریل کی سپلائی کے لیے بینک سے ایک سوزوکی قسطوں پر نکلوا لی… اس سوزوکی کا ڈرائیور جمال تھا… وہی کارخانے کے سب ہی اندر باہر کے کام دیکھتا تھا… کاریگروں کے مسئلے حل کرتا تھا… حساب کتاب دیکھتا تھا… وہ ساتھ ساتھ پرائیویٹ میٹرک کے امتحان تیاری بھی کر رہا تھا…
اسد نے ایف ایس سی میں کالج میں داخلہ لے لیا تھا… قذافی اسٹیڈیم میں دکانیں دوپہر کے بعد ہی کھلتی ہیں… اس لیے اب ان دونوں کے پاس کافی وقت ہوتا تھا…
افق اور مسز گوہر کی ساری توجہ اب ڈیزائننگ پر آ گئی تھی…اب انہیں کسی کا پابند نہیں ہونا پڑتا تھا کہ فلاں آرڈر نے فلاں طرز کا سمپل ہی بنانے کے لیے کہا ہے یا فلاں کپڑا اور ڈیزائن ہی مانگا ہے… اب انہیں مکمل آزادی تھی… وہ اپنی مرضی کا ڈیزائن کریں گی اور “چنر” میں ڈسپلے کریں گی… انہیں یقین تھا کہ ان کے ہر ڈیزائن کو پسند کیا جائے گا… اور فخر سے پہنا جائے گا… اب انہیں ریگولر کسٹمر مل گئے تھے جو سیدھا “چنر” ہی آتے… ویسے بھی انسانی خبط ہے کہ وہ ایک بڑی سوپر مارکیٹ سے گھسیٹا چیز بھی بہت اطمینان کے ساتھ لے لے گا اور فخر کے ساتھ سب کو بتائے گا… اونچی جگہ اور اونچے نام بہت سے نقائص پر پردوں کا کام کرتے ہیں…
لاہور کے اتنے شان دار علاقے میں ایک شاندار دکان نے انہیں دنوں میں خاطر خواہ سے زیادہ منافع دینا شروع کر دیا… منفع سے زیادہ وہ ملبوسات کی پسندیدگی سے خوش
تھیں… ان کی محنت رنگ لا رہی تھی… وقت دو طرح سے بدل جاتا ہے… ایک قسمت سے… ایک ہاتھ سے… قسمت سے نہ بدلے تو ہاتھ سے بدلنے کی کوشش ضرور کرنا چاہیے… قسمت ہار جاتی ہے… ہاتھ نہیں ہارتے… دنیا میں جتنی بھی انسانی ترقی ہوئی ہے… اسے ہاتھ سے ہی ممکن کیا گیا ہے… ورنہ ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہنے والے لوگوں کے زمین میں دبے ڈھانچے بھی نہیں ملتے اور مل جائیں تو کارآمد نہیں ہوتے…
افق کا….. مسز گوہر کا….. اسد اور جمال کا….. ان کا وقت بدل چکا تھا اور یہ وقت ہاتھ باندھے بیٹھے رہنے سے نہیں بدلا تھا…
اپنی سوزوکی میں جمال’ افق کو ڈراپ کر دیتا… وقت ہوتا تو لے بھی آتا… ورنہ وہ خود ہی آ جاتی… اماں نے گھر کے معاملات سنبھال رکھے تھے… وہ کام والی کی نگرانی کر لیتیں… کچن کو دیکھ لیتیں… ان سب کے لیے دوپہر کا کھانا بنوا کر کارخانے بھجوا دیتیں…
رات کو فرزام آن لائن آ جاتا… باری باری سب سے بات کرتا… افق کو اپنی یونیورسٹی کے بارے میں بتاتا…. کیا کھایا’ کیا پیا’ کب سویا’ کب جاگا….. وہ اسے دیر تک بتاتا اور اس سے بھی ڈھیروں سوال کرتا… آہستہ آہستہ دونوں میں اچھی گپ شپ ہونے لگی… وہ لیپ ٹاپ کے سامنے لا لا کر دکھاتا… یہ شرٹ لی’ یہ پینٹ لی…. یہ مگ لیا…. پین لیا…. یہ مکی ماؤس وال کلاک……. ایک منٹ تک ہر صورت بجنے والا الارم….. یہ نیا سیٹ’ نیا لوشن’ نئے جوتے’ نئی گھڑی اور جرابیں بھی….
اگر وہ یہیں اس کے پاس ہوتا تو شاید ایسے کبھی نہ کرتا… لیکن سات سمندروں کے درمیان میں آ جانے سے’ اتنا دور ہو جانے سے اسے احساس ہوا کہ وہ کسے اپنے پیچھے چھوڑ آیا
ہے…
……… ………………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...