اوففف یہ گرمی مجھے مار دے گی چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر شفا اسٹیشن پر بیٹھی تھی کسی کو بھی نہیں پتہ لگ رہا تھا کہ اتنی خوبصورت اور نازک سی لڑکی کا ایک بازوں نہیں ہے
سارا سامان زارا نے اٹھایا ہوا تھا یہ ایک ہاتھ سے اپنی چادر ٹھیک کرتے ہوئے بڑبڑائ
ریل آنے کا اعلان ہو چکا تھا سو لوگ کھڑے ہونے لگے سامان اٹھا کر
ایسا لگ رہا ہے آج آخری ٹرین جارہی ہے زارا نے رش دیکھ کر دانت پییسے
چل جلدی آ ٹرین میں سامان رکھتے ہوئے اسے اشارہ کیا
یار میں گر جاؤں گی شفا گھبرا گئ رش کو اور پھر اپنے ہاتھ کو دیکھ کر
اپنا ہاتھ دے زارا نے تحمل سے اسے اندر کھینچا
سامان رکھتے ہو ئے زارا نے کسی کی برتھ پر قبضہ کر لیا
میں اب یہاں سے نہیں اٹھنے والی اٹھے گی تو میری لاش
شفا نے ڈھیٹوں کی طرح سیٹ پر جم کر کہا
شفا وہ دیکھ,,,,,
وہ دیکھ شفا زارا نے شفا کا کندھا ہلایا
کیا ہے زارا پلیز مجھے سکون سے بیٹھنے دے مصروف انداز میں کہا
یار اس تھرڈ کلاس ریل میں اتنا خوبصورت اور ہنڈسم لڑکا اف زارا نے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے خوبرو نوجوان کو دیکھتے ہوئے شفا کے کان میں گھس کر کہا
تو چپ نہیں بیٹھے گی کیا تھوڑی دیر ناگواری سے جھڑک کر واپس موبائل میں لگ گئی
سنئیے محترمہ یہ برتھ میری ہے نوجوان نے تحمل سے استفسار کیا
تو کیا کروں ہم لڑکیاں ہیں ہم آدمیوں کی طرح سنگل سیٹ پر کیسے بیٹھیں گے
موبائل اسکرین کو دیکھتے ہوئے جواب دیا
اور زارتو خون کے آنسو رو دی
اتنے ہنڈسم بندے کو ایسا جواب تو صرف گریٹ شفا ہی دی سکتی تھی
خوبصورت چڑیل میراج نے دل ہی دل میں اس کے انداز اور حسن کو سراہا
…………….
میراج ہم ریل میں چلیں گے کسی کو شک نہیں ہوگا عاقب نے میراج کو پلین بتایا ابھی دونوں ملے تھے
اچھا مگر اس سے پہلے میں پاکستانی ٹرینز میں نہیں بیٹھا
میراج نے تذبذب سے کہا
ارے کوئی بات نہیں یار شاہ ہم مل کر بہت مزہ کریں.گے عادل اور دائم بھی وہیں ہیں
عاقب نے اپنے بے پرواہ انداز سے کہا
اچھا چل پھر میں چلتا ہوں زرا باہر تو آرام کر لے اسے ہوٹل میں ایک ویل ڈزائین روم میں لایا تھا
اور صبح تیار رہنا میں نے ٹکٹ کروالیں ہیں
دور جا کر مسکرا کر کہا اللہ خافظ
میراج نے دھیرے سے کہا
سر کے اشارے سے جواب دیتا باہر چلا گیا
………………………
شفا موبائل کی جان چھوڑ دیا کر مجھ سے بات کر لے زارا بور ہوئ
ایک تو اور ایک یہ ہنڈسم دونوں مجھے اگنور کر رہے ہو
دکھی ہو کر بولا
اچھا نا پانی پلا شفا نے موبائل رکھتے ہو ئے کہا
اٹھو یہاں سے یہ ہماری برتھ ہے ایک موٹی سی عورت لڑنے والے انداز سے شفا سے بولی
ارے یہ سیٹ ہماری ہے کچھ سوچ کر جواب دیا
اٹھو یہاں سے ورنہ مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا عورت ہاتھ نچا نچا کر بولنے لگی آواز کی تیزی کی وجہ سے سب مسافر ان دونوں کو دیکھنے لگے
میں تو یہاں سے ایک انچ بھی نہیں ہلوں گی شفا کو بھی غصہ آگیا
شفا بہت اونچا بولی آواز میراج تک بھی پہنچی
آنٹی یہ میری سیٹ ہے ٹکٹ بھی دیکھ لیں آپ انہیں تنگ نہ کریں میراج اپنی جگہ سے اٹھ کر آیا
ہئے اللہ کتنا خوبصورت ہے زارا کی تو مرادبھر آئی
یہ چور ہے اس نے میری انگلی سے انگھوٹھی نکال لی ہے جب موٹی کو کچھ نہیں سوجا تو الزام لگا دیا
ارے جھوٹی عورت میرا ہاتھ تو چادر پر ہے آپ سب دیکھ رہے ہو نا میں چادر ہی ٹھیک کر رہی ہوں کب سے
چوری کا الزام سن کر شفا کے تن بدن میں آگ لگ گئی
آپ جائیں پلیز زارا نے جلدی سے کہا ورنہ تو وہ دوسرا ہاتھ بھی نکلوانے کا کہتی
آپ الزام مت لگائیں میراج کو بھی اس اچانک الزام پر برا لگا
الزام کیسا دیکھو اس کے دوسرے ہاتھ میں عورت نے چلاکی سے دوسرے ہاتھ میں ڈال دی تھی مگر ہاتھ کی جگہ وہ زمین پر گر گئی
ارے یہ دیکھو اس کے دوسرے ہاتھ سے نکال کر پھینک لی
یہ تم نے گرائ ہے موٹی شفا غصے سے بد تمیزی کرنے لگی
اچھا دیکھاؤ ہاتھ موٹی نے سوچا ہاتھ جب چادر سے نکالے گی تو میں سچی ہو جاؤں گی
ایک ہاتھ موٹی عورت نے پکڑا ہوا تھا چادر سنبھل نہیں پارہی تھی
ہاتھ چھوڑو میرا غصے سے ہاتھ چڑانے لگی اسہی کشمکش میں چادر سر سے گر گئ
ہہئئے………. سب مسافروں کی آنکھیں پھٹی رہ گئی
ایک ہاتھ جو موٹی عورت کے ہاتھ میں تھا اس نے جلدی سے چھوڑ دیا اس خوبصورت نازک سی پری کو اس طرح دیکھ کر موٹی عورت رونے لگی
مجھے معاف کردو بیٹا ہاتھ جوڑ لیۓ
میراج بھی صدمے کی حالت میں تھا نیچے جھک کر چادر اٹھا کر شفا کو اوڑھائ مکمل ڈھانپ کر عورت کی طرف مڑا آپ جاکر اپنی جگہ ڈھونڈیں اور آپ سب بھی اپنا کام کریں
میراج نے سب کو سخت لہجے میں کہا
زارا بھی رو رہی تھی اور شفا کا تو سانس ہی بند ہونے لگا تھا
ایک سال پہلے کی ساری اذیتیں یاد آ گئ
…………………….
آصف نور کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے جب سے پارک سے آئے ہو اسے بخار ہوگیا ہے
……………………..
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...