اپیا۔۔۔ اپیا۔۔۔ اپیااااااااااااا منورہ زور سے چیختے ہوۓ بولی۔
اف کیا ہے منو کان کے پردے پھاڑو گی کیا اب کیا تم چاہتی ہو کہ ایک پیاری سی معصوم سی کیوٹ سی لڑکی بہری ہو جاۓ۔ اب تم یہاں وہاں کیا گھور رہی ہو۔ پکی جاسوس لگ رہی ہو تم۔ زہرہ اسے یہاں وہاں دیکھتے پا کر بولی۔
وہ دراصل میں اس پیاری معصوم اور کیوٹ لڑکی کو ڈھونڈ رہی ہوں جو میرے چیخنے سے بہری ہو جاۓ گی۔ منورہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ بولی۔
کیاااااااااااا تمہاری نظر کمزور ہو گٸ ہے کیا تمہیں میں نظر نہیں آ رہی؟؟؟؟ زہرہ صدماتی کیفیت میں بولی یعنی کہ حد ہی ہو گٸ ہے میں کسی کو پیاری معصوم اور کیوٹ ہی نہیں لگتی۔
میں زہرہ مس منورہ کو نظر نہیں آٸ زہرہ کا ڈرامہ شروع ہو چکا تھا تبھی منورہ بیچ میں بول پڑی۔ پلیز اپیا کسی اور وقت مجھے اس وقت ہیلپ چاہیے ۔ اوہ تو مطلبی عوام کو میری ہیلپ چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ دی گریٹ منورہ خضر کو ہم سے کیا ہیلپ چاہیے۔
دی گریٹ پرنسس منورہ خضر۔۔۔۔۔۔ منو اسکی تصحیح کرتی ہوٸ بولی آپ پرنسس کہنا بھول گٸ تھی لیڈی۔ واہ کیا شاہانہ انداز تھا۔
اوکے کیا ہیلپ چاہیے پرنسس کو۔ زہرہ منو کے گال کھینچتے ہوۓ بولی۔ اور یہ شیطان نما پرنسس منہ بنا کر بیٹھ گٸ تھی۔ اوکے ام سوری چلو بتاٶ کیا ہیلپ چاہیے۔
مجھے ایک ڈرامہ میں پارٹیسیپیٹ کرنا ہے اور کیونکہ آپ ڈرامہ کوٸین ہیں تو میری ہیلپ کریں۔ منورہ منہ پھلاۓ ہی بولی۔
منو تم مجھے ڈرامہ کہہ رہی ہو۔
نہیں آپ نے ٹھیک سے سنا نہیں میں نے آپ کو کوٸین بھی کہا۔
اوکے چلو اس بار معاف کیا۔ یہ بتاٶ کونسا ڈرامہ ہے۔
ابھی ہم نے ڈیساٸیڈ نہیں کیا آپ کو ہیلپ کرنی ہے۔ اور تھیم سیو انوارمنٹ
save environment
ہے۔ اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہم کیا پرفارم کریں۔
ہمم یہ تو سچ مچ سوچنے والی بات ہے۔
ہاں نہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم کچھ نیا اور بالکل الگ سے پرفارم کریں۔ منورہ جوش سے بولی۔ اوکے میں دیکھتی ہوں۔
*****************************
ہیری پیکنگ کر رہا تھا کہ ہارون صاحب اسکے کمرے میں آۓ۔
ہو گٸ پیکنگ؟؟؟؟؟
جی بابا بس ختم سمجھیں۔
ہمم اوکے۔ ہارون صاحب کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولے۔
کیا بات ہے بابا آپکو کچھ بات کرنی ہے کیا؟؟ آپ پریشان لگ رہے ہیں کیا آپ میرے جانے سے خوش نہیں ہیں۔
ایسی بات نہیں ہے بیٹا بس کچھ بات کرنی ہے تم سے تم فری ہو جاٶ پھر بات کرتے ہیں۔
اوکے بس پانچ منٹ۔
ہیری فری ہو کر بیٹھا تو ہارون صاحب نے بات شروع کی۔۔۔
********************************
دلاور صاحب فوج کے اعلیٰ عہدے پر فاٸز تھے۔ ان کے دو بچے تھے خضر اور ندا۔
خضر بے انتہا شرارتی اور بے حد باتونی جبکہ ندا بہت ہی سلجھی ہوٸ بچی تھی۔ چھ نفوس پر مشتمل یہ گھرانا دلاور صاحب کی مکمل دنیا تھی۔ دلاور صاحب کے والدین انکی عزیز از جان بیگم مہر النسا اور ان کے دو بچے۔ خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔
انکی خوشیوں کو نظر تب لگی جب اس گھرانے پر داعش کی نظر پڑی۔ دلاور صاحب کے پاس انتہاری اہم اور حساس معلومات کی فاٸل رکھواٸ گٸ تھی۔ جسکی وجہ سے داعش کو خطرہ لاحق ہوا۔ اور انھوں نے وہ معلومات نکلوانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ مگر نہ دلاور صاحب کو جھکنا تھا اور نہ ہی وہ جھکے۔
ندا میڈیکل کے آخری سال میں تھی جبکہ خضر سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ کرکٹر بننا اسکا خواب تھا مگر دلاور صاحب کی وجہ سے اس نے سی ایس ایس کے لیے رضا مندی تو دے دی مگر اسکی پوری کوشش تھی کہ وہ فیل ہو جاۓ۔
ندا کا نکاح دلاور صاحب کے دوست کے بیٹے ہارون سے ہو چکا تھا جو چاٸنہ میں پولیس کی ٹریننگ حاصل کر رہا تھا۔
وہ چھ ستمبر کا دن تھا یومِ دفاع کے موقع پر دلاور صاحب کو نجی کالج میں پرچم کشاٸ کی تقریب کے لیے بلایا گیا۔ ندا اور خضر بھی ضد کر کے انکے ساتھ ہو لیے۔
اور جب دلاور صاحب طلبہ سے خطاب کر رہے تھے دوسری طرف انکے گھر میں داعش کے لوگ داخل ہو گۓ۔
انھوں نے دلاور صاحب کے والدین کو ایک کمرےمیں بند کر دیا اور مہر النسا کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوۓ لے گۓ۔ ملازمین میں سے ہی کوٸ ملا ہوا تھا تبھی ایسا ممکن ہوا تھا۔
وہ مہر النسا پر تشدد کرتے رہے اور اس فاٸل کے بارے میں پوچھتے رہے مہر النسا لا علم تھیں اگر جانتی بھی ہوتیں تو بھی ملک سے اور شوہر سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
چپ چاپ تشدد سہتی رہیں مگر ایک لفظ ادا نہ کیا ۔ ان لوگوں نے دلاور صاحب کے والدین پر بے انتہا تشدد کیا چاقو کے اتنے وار کیے کہ جسم مسخ ہو گیا۔ دوسری طرف مہرالنسا کو بے آبرو کر کے تیزاب ڈال دیا اور پھر تینوں کی لاشوں کو آگ لگا دی ۔
دلاور صاحب تقریر کر رہے تھے کہ انکے نمبر پر کال آنے لگی تقریر ختم کر کے جب دیکھا تو کوٸ ویڈیو وصول ہوٸ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ویڈیو۔ جسے دیکھ کر انسانیت شرمندہ ہو جاۓ جس سے زمین کانپ اٹھے مگر ظالموں کو رحم نہ آیا۔
وہ کس مشکل سے وہاں سے واپس آۓ یہ وہی جانتے تھے یا رب تعالٰی۔ گھر پہنچے تو قیامت سا منظر تھا جلی ہوٸ لاشیں اور بچوں کی دھمکی۔ اس وقت وہ چٹان سا مرد پھوٹ پھوٹ کر رویا اسکی چیخیں سن کر ہر انسان رو دیا۔ ندا کی حالت بہت خراب ہو گٸ تھی یہ سب دیکھ کر حالت تو خضر کی بھی مختلف نہ تھی ان کی تو دنیا ہی لٹ گٸ تھی اس پر ستم یہ کہ ان کو یہ ہیبت ناک منظر دکھاۓ بھی گۓ تھے۔ ان پر تو قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔
دلاور صاحب کو تو چپ لگ گٸ تھی وہ منظر چپ ہی تو لگا گۓ تھے مگر انہوں نے ملک کا سودا پھر بھی نہ کیا۔ یہی تووہ لوگ ہیں جنکی وجہ سے یہ ملک سلامت ہے۔ جنہوں نے خود پر کیا کیا نہ ستم جھیلے مگر ملک سے وفا کی۔
خضر نے سی ایس ایس کا امتحان دیا زندگی معمول پر آ گٸ تھی۔ ہارون کے والد نے دلاور صاحب کو کہہ دیا کہ وہ انکے گھر شفٹ ہو جاٸیں مگر دلاور صاحب نہ مانے وہ اپنی وجہ سے انکو خطرے میں نہ ڈال سکتے تھے۔
اور اب جب وہ تھوڑے سے سنبھل گۓ تھے دشمنوں نے دوبارہ وار کیا۔ دلاور صاحب کی گاڑی پہ اٹیک کیا اور انھیں کڈنیپ کر لیا۔ اور پھر ہوٸ ان پر ظلم کی انتہا۔۔۔۔۔۔
انکے ہاتھوں پیروں کے ناخن نکال دیے گۓ گرم کھولتے پانی سے انکا جسم جلا دیا گیا گرم لوہے کی سلاخوں سے جسم کو داغا گیا غرض کیا کیا نہ ظلم ڈھایا گیا مگر انکی زبان نہ کھلوا سکے۔
آخرکار دو مہینے مسلسل ظلم برداشت کرتے وہ جان کی بازی ہار گۓ۔ خضر اور ندا کے لیے یہ عرصہ قیامت سے کم نہ تھا۔
ندا کو سنبھالنا مشکل ہو گیا خضر لڑکا ہو کر بکھر گیا تھا تو وہ تو پھر نازک سی لڑکی تھی۔ جب اپنوں پر ایسی قیامت ٹوٹے تو فرق نہیں پڑتا کہ لڑکا ہے یا لڑکی انسان کا ضبط ہار جاتا ہے۔
پورا ایک سال ندا ساٸیکاٹرسٹ کے پاس جانے کے بعد تھوڑی سنبھلی۔ اس وقت خضر آرمی کے سلیکٹ ہو گیا تھا اور اب ٹریننگ کے لیے جا رہا تھا۔ مگر ندا نہیں مانی وہ کسی صورت بھی اب خضر کو فورسز جواٸن نہیں کرنے دینا چاہتی تھی۔ مگر خضر پہ جنون سوار تھا۔ وہ کسی بھی صورت اپنے گھروالوں کے قاتلوں کو بخشنے کو تیار نہ تھا۔ ندا نے آخرکار دھمکی دی کہ اسے فوج یا بہن میں سے کسی کو چننا ہو گا۔ اور خضر نے فوج کو چننا۔ ندا نے بھی پھر غصے میں اس سے کوٸ رابطہ نہ رکھا حالانکہ کہ خضر نے بہت کوشش کی مگر ندا ٹس سے مس نہ ہوٸ۔
ہارون نے ندا کو چاٸنہ بلوا لیا اور اس کے بعد پھر ندا کبھی چاٸنہ سے نہ گٸ یہاں تک کہ خضر کی شادی پر بھی واپس پاکستان نہ گٸیں۔
*******************************
اوہ گاڈ! مام نے اتنا سفر کیا اور مجھے کبھی پتہ بھی نہ چلا۔ ہیری نے مکمل کہانی سننے کے بعد کہا۔
بیٹا تمہاری مام نے غصے میں خضر سے رابطہ نہیں رکھا مگر وہ آج بھی اسکی کمی محسوس کرتی ہیں۔ تمہیں آج قدرت موقع دے رہی ہے تم اپنے ماموں کو ڈھونڈو۔ تمہارے لیے تو یہ بھی آسانی ہے کہ خضر کشمیر میں ہی ہے اور تم نے بھی وہی پر جانا ہے یقیناً تم اسے ڈھونڈ لو گے۔
ان شاء اللہ بابا میں انھیں ضرور ڈھونڈوں گا۔
آٸ ایم پراٶڈ آف یو ماٸ سن۔ چلو اب تم ریسٹ کرو۔
مگر بابا مام کو اگر آرمی سے مسٸلہ تھا تو پھر مجھے کیسے پرمیشن دے دی۔ وہ الجھا ہوا تھا۔
وہ اسلٸیے کیونکہ تم چاٸنہ میں ہو پاک آرمی میں نہیں ۔ہارون صاحب مسکراتے ہوۓ بولے۔
کیا مطلب۔ وہ مزید الجھ گیا۔
مطلب یہ بیٹا جی کہ دنیا کی ہر فوج اپنے پاس زہر رکھتی ہے وہ ٹارچر سہنے کی بجاۓ مر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر پارک آرمی دنیا کی وہ واحد آرمی ہے جو زہر نہیں رکھتے وہ ہر قسم کا تشدد برداشت کرتے ہیں مگر زہر نہیں کھاتے۔ انکے اس جذبے سے تمہاری مام خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ انھوں نے وہ بدترین تشدد اپنے پیاروں پہ ہوتا دیکھا ہے۔
ہارون صاحب کہتے ہوۓ باہر نکل گۓ جبکہ ہیری کے دل میں پاک آرمی کی قدر کٸ گنا بڑھ گٸ اسے اب فخر محسوس ہونے لگا کہ وہ اس قدر بہادر اور عظیم فوج کے ساتھ کام کرنے جا رہا ہے۔ جن کے دل اپنے وطن کی محبت انکے گھر والوں سے بھی ذیادہ ہے۔ اسے اپنے نانا پر بھی فخر تھا جنہوں نے اتنے ظلم کے باوجود بھی ملک سے غداری نہیں کی۔ سچ ہے تاریخ ایسے سپوت عظیم قوموں کو ہی عطا کرتی ہے۔
پہلے جہاں وہ بے زار تھا جانے کے لیے اب اتنا ہی پر جوش ہو رہا تھا۔