(Last Updated On: )
اف کہ گرویدۂ اصنام ہوا جاتا ہے
کیا سے کیا پیروِ اسلام ہوا جاتا ہے
چشمِ ساقی کا جو انعام ہوا جاتا ہے
خود ہی دل مجتنبِ جام ہوا جاتا ہے
بے نیازِ غمِ ایام ہوا جاتا ہے
دل کو اس طرح کچھ آرام ہوا جاتا ہے
زندگی بھر نہ ملی قبر کی منزل مجھ کو
مر کے اب فاصلہ دو گام ہوا جاتا ہے
اشک آنکھوں میں نظرؔ آنے لگے بالآخر
ہنستے رہنے کا یہ انجام ہوا جاتا ہے
٭٭٭