چھیڑیں گے وہی قصۂ غم اور طرح سے
لائیں گے تجھے راہ پر ہم اور طرح سے
“میں اجر کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں۔ ” قدسیہ بیگم نے اس کے کپڑے تہہ کرتے ہوئے ایک طرف رکھے ۔ وہ اس وقت سجاول کے کمرے میں موجود تھیں اور سجاول سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ کمر کے مہرے ہل جانے کے باعث وہ جو تکلیف برداشت کر رہا تھا اس کی اپنی جگہ لیکن جو تکلیف اسے زوئنہ دے رہی تھی وہ انتہا پر تھی۔ اس نے اگر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑا تھا تو زوئنہ کو بھی اس کی حالت کا خیال تو کرناہی چاہیے تھا۔ ہاں مگر اس نے اس نکاح کو مذاق کے طور پر لیا تھا۔
“خیریت بیگم صاحبہ؟ ” فخرزمان جو وہیں ایک طرف آرام کرسی پر بیٹھے کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہے تھے ، عینک اتار کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئے۔
“جی وہ آپا کہہ رہی تھیں کہ اجر کو ملوا جاؤ” انہوں نے کپڑے اٹھائے اور الماری کی طرف بڑھیں۔
“امی!” وہ ابھی الماری تک بڑھی بھی نہ تھیں کہ سجاول نے انہیں پکارا۔ وہ فوراً مڑیں۔ اب تو ایک ایک پکار ان کو تڑپاتی تھی۔
“کیا ہوا درد ہو رہا ہے؟” کپڑے فوراً صوفے پر رکھ کر اس کی طرف واپس مڑیں۔
“نہیں۔۔ آپ یہاں بیٹھیں” اس نے ہاتھ اپنے بسترپر پھیرتے ہوئے کہا۔ وہ ا سکے پاس ہی بیٹھ گئیں اور وہی ہاتھ تھام کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
“ابو!” اس نے اب غور سے ماں بیٹے کا پیار ملاحظہ کرتے باپ کو بھی پکارا۔ وہ بھی گہرا سانس لیتے اسی کی طرف آگئے۔
“آپ کو پتہ ہے امی نے نظریں چرائی ہیں” سجاول نے بائیں طرف بیٹھے باپ کی طرف دیکھا۔
“ہاں جانتا ہوں” انہوں نے اطراف میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“خیر آپ کیا کہیں گے۔ نظریں تو آپ بھی چرا رہے ہیں ” وہ طنزیہ سا مسکرایا۔
“بھوک نہیں کیا؟ کچھ لا دیتی ہوں کھانے کو” قدسیہ بیگم اٹھنے لگیں تو اس نےان کا ہاتھ کھینچا ۔ وہ پھر سے جم گئیں۔
“جو بات آپ لوگ گھما پھرا کر مجھے بتانے والے ہیں ۔ اسے سیدھی طرح بتا دیں” سجاول نے اپنا بوجھ بازؤں پر ڈال کر نیم دراز ہونا چاہا تو درد کی ٹیسیں کمر سے ہوتی ہوئیں ٹانگ کی طرف گئیں ۔ وہ کراہ اٹھا۔فخر زمان اسے سہارا دینے کو آگے ہوئے۔
“امی لاہور کیوں جا رہی ہیں” دانت بھینچ کر درد کو دوربھگانے کی کوشش میں وہ سختی سے بولا۔ قدسیہ بیگم اپنے شوہر کی طرف بے بسی سے دیکھنے لگیں۔
“یہ سوچ رہی تھیں کہ اگر زوئنہ سے ایک بار مل لیا جائے۔ آخر کونکاح کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہیں ہوتا۔ اب تو ویسے بھی ایک ماں بننے والی ہے۔ اور ماں کو میرا خیال ہے کہ عقل آہی جاتی ہے جب وہ یہ سوچے کہ اس کا بچہ ایک بروکن فیملی کا حصہ بن کر ٹوٹ جائیگا۔اور میں بھی ۔۔۔”
“امی ابو پلیز! ایسا سوچئیے گا بھی مت اب۔ کیا یہ کم ہے کہ میرے بچے تک کو ابارٹ کروانا چاہ رہی ہے اب تک؟ اور اگر ابارٹ کروانے سے منع بھی کیا جا رہا تھا تو یہ ہی بہت ہے کہ اس نے مجھے اس حالت میں چھوڑ دیا جب سب سے زیادہ وہی مجھے سنبھال سکتی تھی” اس کی تکلیف دہری ہو رہی تھی۔
“ایک بار بات کرنے میں کیا جاتا ہے سجاول”قدسیہ بیگم نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
“امی مجھ پر رحم کریں۔ میں بار بار ذلیل نہیں ہونا چاہتا۔ بہت سے گناہ کر بیٹھا ہوں ان پچھلے پانچ چھ سالوں میں۔ اور سب سے بڑا گناہ زوئنہ کو پسند کرنے کا تھا۔ یقین کریں بہت تکلیف میں ہوں میں ۔ بہت تکلیف میں ہوں” وہ سسکنے لگا تھا جبکہ فخر زمان اور قدسیہ بیگم اس سے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔
“امی دیکھیں میں جھوٹ نہیں بول رہا میں جانتا ہوں میں نے اسے پسند کیا۔ مگر میں نے ابو سے کہا تھا مت کریں میرا اس سے نکاح۔ ابو نے تو مجھے بھی نکال دیا تھا یہاں سے ” اس نے دل پر دائیں ہاتھ کی انگلی سے دل پر کراس کا نشان بنایا۔فخر زمان بہت ضبط سے بیٹھے تھے۔ان کا جوان بیٹا دن بدن ذہنی ابتری کا شکار ہو رہا تھا اور کہیں نہ کہیں اس ابتری میں ان کا بھی ہاتھ تھا۔
“یہ دیکھیں میری طرف ! دیکھتے کیوں نہیں آپ لوگ” قدسیہ اپنے دوپٹے کو منہ پر رکھ کر سسکی دباتی اس کی طرف دیکھنے لگیں۔
“میں تنگ آگیا ہوں۔ مجھ پر اتنا رحم کر دیں کہ آپ لوگ میرے بچے کے پیدا ہونے تک اس سے دور رہیں۔ میرا بچہ مجھ تک آجائے بس پھر نہیں اس عورت سے کوئی تعلق رکھنا۔ جانتے ہیں میں اب کیوں یہ تعلق توڑنا چاہ رہا ہوں؟ صرف اس لیے کہ اس نے مجھے ‘معذور باپ’ کا لقب دے دیا ہے ابو” اس نے بہتی آنکھوں سے فخر زمان کی طرف دیکھا۔ ان کی اپنی آنکھیں بھی ضبط سے سرخ لہو ہو رہی تھیں۔
“سجاول ہم ایک دفعہ بات تو کریں ۔ سمجھائیں تو سہی۔ سب ٹھیک ہو جائیگا۔ ہر بات دل پر لینے کی تو نہیں ہوتی۔”قدسیہ نے پیار سے سمجھانا چاہا مگر وہ تو جیسے اب کبھی سمجھنے ہی نہ والا تھا۔ سسکیوں اور ہچکیوں میں اور تیزی آچکی تھی کہ اب کمر میں ٹیسیں اٹھتی تھیں۔
“سجاول زمان یہ شادی کھیل نہیں ہے۔ ایک بار اس مسئلے کو سلجھانے تو دو۔ کیا پتہ وہ مان ہی جائے” فخر زمان بھی نرم مگر ٹھہرے لہجے میں بولے۔
“ٹھیک ہے کر دیکھیں آپ۔ جو چاہتے ہیں کر دیکھیں۔اور اگر اس نے انکار کر دیا ۔ یا مزید ایک لفظ کا تیر بھی مجھ تک آیا تو ویسے ہی مجھے بھلا دیجیے گا جیسے مرنے والے کو بھلاتے ہیں” وہ آنسو روکے آنکھوں میں سختی لیے چھت کو گھورتو ہوا بولا تو فخر زمان اور قدسیہ بیگم دہل کر اسے دیکھنے لگے۔ تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ہر فرد نے آنسو یوں صاف کیے گویا کبھی اس راستے سے آنسو بہے ہی نہ ہوں۔آنے والی اجر تھی۔
“ابو! سانول کی کال ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں” اجر نے موبائل فخر زمان کو پکڑایا تو وہ کمرے سے جانے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ جانتے تھے سانول ان سے اسی شخص کی رپورٹس کی بات کرنے والا ہے جو ابھی ‘معذور’کہلوائے جانے سے خوفزدہ تھا۔قدسیہ بیگم بھی بے چین سی ان کے پیچھے ہی نکلی تھیں ۔ان کے باہر نکلتے ہی ایک آوارہ آنسو نے سجاول زمان کی آنکھ سے باہر کا راستہ دیکھا ۔
“اب تم سدھر جاؤ۔ باپ بننے والے ہو اور باپ اتنا کمزور نہیں ہوا کرتا کہ اتنی چھوٹی باتوں پر رو دے۔ ان باتوں کو برداشت کرنا سیکھو۔ کیونکہ ابھی اور بھی بہت سے مرحلے آئیں گے جب تمہیں اس سے زیادہ تکلیف ملے گی۔ ان مرحلوں میں اپنے بچے کو کیسے حوصلہ دینا ہے اور خود کیسے حوصلے سے رہنا ہے یہ چیز تم ابو سے سیکھ سکتے ہو۔ اللہ تمہیں بھی صحت دے اور تمہاری اولاد کو بھی۔ لیکن برداشت کا مادہ اپنے اندر بڑھا لو تم ” اجر نے ایک طرف رکھی پلز ـــ جو کہ ڈاکٹر ہی نے اس کی ٹینشن ریلیز کرنے کو دی تھیںـــ میں سے ایک گولی نکالی اور اسے سہارا دے کر پانی کے ساتھ کھلا دی۔ اس وقت اس کا سو جانا بہت ضروری تھا۔
سجاول زمان نے بھی آنکھیں موند لی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بہت دن بعد حویلی نے یہ صبح دیکھی تھی کہ زہرہ بی بھی آج ناشتے کی میز پر موجود تھیں۔اتوار کا دن تھا سو ہر طرف افراتفری مچی تھی۔ سب بیگمات بھی اپنی نشستیں سنبھالے ہوئے تھیں۔جبل اور حبل بھی آج گھر پر موجود تھے۔ قدسیہ بیگم نے کمیل کو اندر سجاول کو دیکھنے بھیجا جو ابھی تک سو رہا تھا۔ اس کے لیے آرام ہی بہتر حل تھا ۔ منال بہت مزے سے کرسی ہی پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔بالوں کی فرنچ چٹیا بنائے وہ ہمیشہ ہی بہت پیاری لگا کرتی تھی۔ اور جب اس چٹیا میں سے بھی کچھ لٹیں نکل کراس کے سیانے سے چہرے کا احاطہ کرتیں تو جبل اور حبل اسے ‘تھیٹا’ پکارنے سے باز نہیں آتے تھے۔ اب بھی وہ فل موڈ میں اس کو چڑا رہے تھے جبکہ وہاں بیٹھے بڑے بھی اس بات کو انجوائے کر رہے تھے۔
غنویٰ قدسیہ بیگم کی جگہ سنبھالے ہوئے تھی کہ اگر ان کے بعد لسی میں کوئی ذائقہ ڈال سکتا تھا وہ غنویٰ تھی۔اجر پراٹھے بنا رہی تھی جبکہ نمل ،رانی کے ساتھ بڑوں کے لیے توی کی روٹیاں اتارنے حویلی کے پچھلے حصےمیں موجود تھی۔ فجر یہاں سے وہاں کے چکر کاٹ رہی تھی کہ حبل اور جبل کی پروموشن کا قصہ اب زہرہ بی کو بھی معلوم تھا۔
“لسی کتھے گئی ” شیر زمان نے خالی جگ کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے کہا تو جبل اور حبل خفیف سا مسکرا دئیے۔
“یہ آپ کے نمونوں نے ختم کیا ہے جگ۔ اور یقین جانیں یہ بھائیوں کا دوسرا جگ تھا” کمیل بھی سجاول کے کمرے سے واپس آچکا تھا سو وہ بھی بولا۔ کیونکہ جب وہ اندر گیا تھا تب اس نے پہلے ختم کیا ہوا جگ اتنی ہی حیرانی سے دیکھا تھا جتنی حیرانی اب شیر زمان کو ہو رہی تھی۔
“بھئی کہاں گئی وہ اکڑ کہ ‘مجھے اس خاندان کی چائے لسی والی لوجک سمجھ نہیں آتی’؟؟؟” وہ طنزیہ نظروں سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔ فخر زمان اور زہرہ بی مسکا رہے تھے جبکہ قدسیہ بیگم کی جان تو کمرے میں نیم آرام دہ سی حالت میں پڑے وجود میں اڑی تھی۔
“میں کچھ سوچ رہی تھی شیر زمان”زہرہ بی نے انہیں مخاطب کیا تو سب ایک دم سیدھے ہوئے۔ یقیناً کوئی اہم موضوع چھڑنے والا تھا۔
یہ ایک سوچ ہی ہے بس۔ آگے آپ سب کی مرضی جیسے کرنا چاہو کر لینا” وہ مسکرا رہی تھیں مگر ہر فرددم سادھے بیٹھ گیا۔ یوں کہ سوئی گرنے کی بھی آواز سنائی دیتی۔سب اپنی جگہ شرمندہ تھے مگر وہاں بیٹھے حبل کی شرمندگی گہری تھی کہ پچھلی بار وہی زہرہ بی کی سامنے بولا تھا۔
“زہرہ بی آپ حکم کریں” فخر زمان نے ان کا ہاتھ تھام کر کہا۔
“سجاول کا دفتر خالی ہے۔ وہاں اس کا دوست بیٹھتا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ حیدر زمان کو وہاں بھیج دیتے ہیں۔ اس کا کام یہ اچھے سے سنبھال لے گا۔ ” وہ ٹھہری ہوئی سی بولیں جیسے ڈر ہو اب بھی بات رد کر دی جائیگی۔ اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کا یہ لہجہ، یہ انداز سب کو کیسے گھن لگا رہا تھا۔
“جو حکم زہرہ بی! حیدر زمان تم جانے کی تیاری کرو اور عبداللہ کو فارغ کرو” فخر زمان نے فوراً سے حیدر زمان صاحب کی طرف دیکھ کر سجاول کے دوست کو فارغ کر دینے کو کہا۔ انداز حکمیہ تھا۔
“اور میں یہاں ابو کے بغیر کیسے رہوں گی زہرہ بی؟” منال نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔
“تمہارے امتحانات کب ختم ہوں گے؟” زہرہ بی نے آنکھیں اس پر جمائیں۔
آج یقیناً سب کے لیے فیصل کیے جانے کے بعد مہر لگنے کا وقت تھا۔
“وہ تو کب کے ختم ہو گئے” وہ دانت نکوستے ہوئے بولی۔
“میں اصل امتحانات کی بات کرر ہی ہوں منال زمان” وہ مسکرائیں۔
“مئی، جون میں ختم ہوں گے وہ تو۔ ابھی تو صرف اپریل ہے “وہ پھر سے منہ بسور کر بولی۔
“حیدر زمان! تم تیاری پکڑو۔ شہناز یا مہناز کی طرف رہ لینا۔ جب تک منال کے امتحانات نہیں ہوتے یہ اور آمنہ یہیں رہیں گی۔ تم ہفتے بعد آکر مل جایا کرنا۔ سمجھ رہے ہو نا؟” اپنے سامنے پڑی یخنی کو زمز بھر چکھتے ہوئے وہ بولیں۔
پسینے سے شرابور سی نمل ناک سے پسینے کا قطرہ اپنے دوپٹے سے پونچھتی وہاں سے گزری تو حبل زمان نے اسے نظر بھر کر دیکھا۔اور کیسے ہو سکتا تھا کہ زہرہ بی کی زیرک نظری اس کی اس حرکت کو نوٹ نہ کر پاتی۔
“اور شیر زمان! بیٹے ماشاءاللہ اب کام پر ہیں۔ کما رہے ہیں۔ اب ان کا بھی بندوبست کرو۔ ” شیر زمان ان کی بات سن کر فوراً سے نمل کو گھورتےحبل کی طرف دیکھا اور کھنکار دئیے۔
“میں طنز نہیں کر رہی بیٹا جی! میں بہت سنجیدہ ہوں اس معاملے میں۔جبل نے تو باہر چلے جانا ہے نا؟ سو فخر زمان! اب فجر کے کاغذات بنوانے کی تیاری کرو۔ اور کسی تقریب کی بھی تیاری کرو۔ میں نے محفل ِ نعت بھی سجانی ہے انشاء اللہ ” وہ خوش اور مطمئن سی نظر آتی تھیں۔سب ایک دم الرٹ ہوئے بیٹھے جبکہ حبل کی تو دلی مراد بر آئی تھی۔ وہ یوں سامنے پڑے لسی کے جگ کو گھور رہا تھا گویا نمل اس میں بیٹھی ہو۔
” میرے بچے بھوکے بیٹھے ہیں کوئی ناشتہ بھی دے گا ان کو یا نہیں؟” پاس سے گزرتی غنویٰ کی طرف دیکھ کر انہوں نے کہا تو مسکرا کر کچن کی جانب چل دی ۔اب سب لڑکیوں کو ہائی الرٹ کرنا تھا تا کہ ناشتہ سب کو بہم پہنچایا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہوا انجان کچھ ایسے کہ صدیوں سے نہ واقف تھا
نظر انداز کرتا ہے ـــــ کہ جیسے جانتا نہ ہو
بہت دن ہوگئے تھے وہ اس گھر کے چکر کاٹ رہا تھا مگر یوں منہ موڑا گیا تھا گویا کبھی رُخ دکھایا ہی نہ جائیگا۔ ہاں اس سے غلطی ہوئی تھی۔ مگر اس غلطی کا اعتراف بھی تو تھا ناں۔۔
لیکن وہ محبوب ہی کیسا جو سزا کو سزا نہ بنا دے۔ اس کی طرف بھی یہی تو معاملہ تھا۔ وہ غنویٰ کو چھوڑنے بھی اسی در پر جاتا تھا اور اسی دہلیز سے اسے لینے بھی جاتا تھا۔ مگر مجال ہے جو ‘اس’ کا آنچل بھی نگاہ میں آیا ہو۔ وہ تو یوں غائب ہوئی تھی گویا اب کبھی نظر میں نہ آئے گی۔ اب بھی بڑی حویلی میں قدم رکھتے ہی اسے ‘اس ‘ کی خوشبو نے بے چین کیا تو وہ احاطے کی طرف بیٹھی عورتوں کی پرواہ کیے بناء اس طرف چلا آیا۔ اور کچھ نہ سہی۔ دیدارِ یار ہی سہی۔
شمسؔ نے ایک تحفہ بھیجا ہے، تحفہ ہے خوشبو کا
خوشبو جانی پہچانی ہے، رومیؔ کے دوھار کی ہے
“زہرہ بی! اجّی آپی کہاں ہے ؟” زہرہ بی جو باتوں میں مگن تھیں ایک دم چونکیں جبکہ وہ جو پہلے ہی پشت سی کیے بیٹھی تھی اچھل ہی پڑی۔ دوپٹہ فوراً ناک تک کھینچا۔
“ارے پاگل ہو گیا ہے لڑکے؟ یہاں کہاں سینگ گھسا رہا ہے اپنے؟ ” زہرہ بی جلال میں آئی تھیں۔
“وہ میں اجّی آپی کو۔۔۔”
“نظر آئی یہاں کہیں؟” انہوں نے اس کی بات کاٹ کر اسی سے پوچھا تو وہ سر جھکائے کنکھیوں سے سمٹی ہوئی عبادت کو دیکھتا ،نفی میں سر ہلا گیا۔
“پھر پھوٹو ادھر سے” ان کو اس کا وہاں کھڑا رہنا اس لیے ناگوار گزر رہا تھا کیونکہ ان کے خیال یں عبادت کو اس وہاں آنا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ بھی بات پہ فوراً سے عمل کرنے کی بجائے منہ اٹھائے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
“میں کیا کہہ رہی ہوں سنا ہے؟” وہ ماتھے پر تیوری ڈال کر گویا ہوئیں۔
“وہ امی نے بھیجا تھا کہ عبادت اور اجر کو اندر بھیجو” اس نے ایک دم سے ذہن میں آئی بات کہی تو بڑے سے دوپٹے میں چھپی عبادت بے چین ہوئی۔
“زہرہ بی میں ابھی مل کر آئی ہوں ان سے۔ آپ یہ بات ختم کر لیں پھر چلی جاتی ہوں” عبادت بھی کمیل سے کم تو ہرگز نہ تھی۔
“ہاں جی سن لیا؟ اب اپنی اماں کو ادھر بھیجو کہو زہرہ بی نے خصوصی پیغام بھیجا ہے جلدی آئے” وہ اسے گھورتی ہوئی بولیں تو جہاں میل کی جان جوکھم میں آئی وہیں عبادت نے دانتوں تلے لب دبائے۔
“جی بہتر”اس نے اٹکے ہوئے سانس سے جواب دیا اور ڈگ بھرتا وہاں سے نکل آیا۔درگت کی پرواہ نہ تھی البتہ دل مایوسیوں میں گھر گیا تھا۔
مقدر کے ستاروں پر
اداسی کی لکیریں ہیں
کوئی سرگوشیاں کر دے
ہمیں خوش فہمیاں دےدے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرض کرو تم کچھ نہ پاؤ
اپنا آپ لُٹا کر بھی
فرض کرو کوئی مُکر ہی جائے
سچی قسم اٹھا کر بھی
اور فرض کرو یہ فرض نہ ہو
سچی ایک حقیقت ہو
تیرے عشق کے ہر رستے پر
جاناں اک قیامت ہو
اور سنا ہے یہ قیامت
خون جگر کا پیتی ہے
تم تو یارا فرض کرو گے
ہم پہ یہ سب بیتی ہے
اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کرتا ہے جب ہم دوسروں کو نصیحت و فصیحت تو کر سکتے ہیں ۔ مگر ہمارا اپنے دل پر اختیار نہیں رہتا۔ ہاں ٹھیک ہے کہ دل کبھی کبھار خود اپنی ہی کیفیت سے اکتا کر فرار مانگتا ہے۔ مگر ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب واپس اسی کیفیت میں جانے کا جی چاہنے لگتا ہے۔
اور غنویٰ صغیر احمد آج اسی کیفیت سے گزر رہی تھی۔ واپس اسی حالت میں جانے کی۔ محبت اسے خلش سی لگی تھی۔ جو دل سے دور ہی نہ جاتی تھی۔اور وہ محبت سے اگلا درجہ تھا شاید کہ دل اب اس خلش میں بھی قرار محسوس کرتا تھا۔ زمانے کے سامنے وہ ویسی ہی تھی جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔بالکل منفرد، بالکل جدا ۔ لیکن خلوت ہی تو ایک ایسا تحفہ ہے رب العزت کاکہ اس خلوت میں اگر انسان بہت سے گناہ کر بیٹھتا ہے تو اسی خلوت میں اپنے دکھ بھی پھرول لیتا ہے۔ اپنا دل بھی کھول لیتا ہے۔ اور وہ اس خلوت سے بہت پیار سے نوازی گئی تھی۔ بچپن سے نوجوانی اور نو جوانی سے جوانی تک کے سفر میں وہ اسی ایک چیز سے بے بہا نوازی گئی تھی۔ اور اسی خلوت میں وہ اپنے ہر زیاں پر دل کھول کر رو لیا کرتی تھی۔
لیکن اب معاملہ زیاں کا نہ رہا تھا۔ اب معاملہ زیاں کے بعد کے ٹھہرا ؤ کا تھا۔ اور غنویٰ صغیر احمد اس ٹھہراؤ سے خوش تھی۔ ہاں یہ خوشی جو آنسو دان کرتی تھی وہ اس کے سکون کا باعث ہی تھے۔ کہ محبت میں بہایا گیا ہر آنسو اس ذات کی بارگاہ میں معتبر تھا جس نے خود اپنے محبوب کو اپنے عرش پر بلایاتھا ۔وہ آنسو چاہے کوئی اپنے تکیے میں پروتا تھا یا چاہے آنکھوں کے گوشوں سے بہتا بالوں میں جذب ہوجاتا تھا۔یا پھر۔۔۔
یا پھر سربسجود ہوئے وجود کی آنکھ سے ٹپک کر سجدے کی زمین کو بھگو جاتا تھا۔ہاں وہ ۔۔۔ یعنی غنویٰ بنت صغیر احمد ۔۔ سر بسجود ہوئی اس محبت کا دان ادا کر رہی تھی جو ا سے تڑپا رہی تھی۔اور محبت ہی میں یہ طاقت ہے کہ وہ ان دان کیےبلکتے خاموش آنسوؤں کو چوم کر گلے لگا لیا کرتی ہے۔ اور اگر جذبے سچے ہوں تو پھر محبت میں رُلا ہوا، روندا ہوا ہرآنسو اس عرش والے کو بہت پسند آتا ہے۔ اس عرش والے کو محبت اور خلوص بہت بھاتا ہے۔ اور یہی تو اس رب کی دین ہے کہ وہی محبت دل کو خالص کر دیا کرتی ہے۔
اور پھر اس پر تو لمحۂ وجد تھا۔ محبت کا مرحلہ تو کب کا پار ہو چکا تھا۔ محبت سے اگلا درجہ تھا عشق۔۔۔
اور عشق سے اگلا درجہ جانتے ہیں کیا ہوتا ہے؟
عشق سے اگلا درجہ ہے فنا۔۔
فنا؟
یعنی موت۔۔۔
پیار تو ہر رشتے سے ہوتا ہے اور مجاز محبت تو ایک بار ہوا ہی کرتی ہے۔لیکن عشق۔۔
عشق تو فنا ہی کرتا ہے۔اور اُس کے لیے تو فنا کے درجے ہی بدل گئے تھے۔
فنا فی العبد۔۔۔
یہ مرحلہ غنویٰ بنتِ صغیر احمد طے کر چکی تھی۔
فنا فی اللہ۔۔
اس مرحلےکو ہی تو لوگ ترستے ہیں۔ ہاں اسے اسی عشق میں مگن رہ کر اس بقاء کو پانا تھا جو اس عشق کی آگ کو بڑھاتی جاتی تھی۔
“بقاء باللہ”
اور کیا پتہ یہ تار تار ہوئی رگیں وہیں سکون پا جائیں۔ بقا ء میں۔ کیا پتہ وہ رب اسے بقاء عطا کردے۔ اور اس بقاء میں یہ رگیں خون سے تو لتھڑی نہیں ہوتیں ناں۔ اس بقاء میں تو رگوں کے رنگ سے ہی عاشق کی ذات کا پتہ مل جایا کرتا ہے۔
کافرِ عشقم، مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ مَن تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
(میں عشق کا کافر ہوں ۔ مجھے مسلمانی کی ضرورت نہیں۔میری ہر رگ تار تار ہو چکی ہے۔ مجھے زنّارـــ ایک دھاگہ جو پرانے زمانے میں کافر پہنا کرتے تھے تا کہ مسلمانوں اور کافروں میں فرق ہو سکے ـــ کی ضرورت نہیں)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جو کہہ رہی تھی کہ ابھی کچھ دیر میں آمنہ بیگم کی بات سن آئیگی، ابھی آمنہ بیگم کے باہر آتے ہی ان سے پوچھنے بیٹھ گئی۔
“آپ نے مجھے اور اجر آپی کو بلایا تھا ۔ ” اس نے پوچھنے والا انداز اپنانے کی بجائے یوں کہا گویا اطلاع بہم پہنچائی ہو۔
“میں نے۔۔ کس نے کہا؟” وہ الجھیں تو عبادت نے ایک دم آنے والی مسکراہٹ کو لبوں کے گوشوں میں روکا۔
“ابھی کمیل صاحب کہہ کر گئے ہیں زہرہ بی سے” اس نے باتوں میں مگن سی زہرہ بی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“اوہ۔۔۔ اس کا تو پھر تم جانتی ہی ہو نا۔ تمہیں تو تنگ نہیں کیا؟” وہ تھوڑا سا آگے ہو کر رازداری سے پوچھنے لگیں۔
“آپ کو کیا لگتا ہے؟” وہ بھی انہی کی طرح ہولے سے بولی۔
“بھئی میں تو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ آج کل کی اولاد ماں باپ کی تربیت کا مان رکھتی ہی کہاں ہے۔ ابھی دیکھو تو مجھے منال نے بتایاکچھ دن پہلے یہ وہاں کالج پہنچ گیا تھا” وہ فوراً سیدھی ہو کر اپنا دکھڑا سنانے لگیں۔
“اور آپ نے انہیں کچھ نہیں کہاہو گا” اس نے منہ بنایا۔
“لو۔ میں نے کیا کہنا تھا۔ غنویٰ نے ہی بولتی بند کروا دی تھی۔”آمنہ بیگم سر کو اکڑا کر بولیں۔ لہجے میں فخر سا تھا۔
“اور مجھے علم ہوتا کہ آپی بولتی بند کروا سکتی ہیں تو ان سے ہی یہ بات شیئر کر لیتی” اس نے پھر سے منہ بنایا۔ تو آمنہ بیگم پھر سے آگے ہوئیں۔
“یہ بات ہمارے درمیان ہی ہے نا ؟” رازداری سے پوچھا۔
“پہلے تھی ۔اب نہیں رہے گی” اس نے بڑے مزے سے ان کی طرف دیکھا۔
“یعنی اب تم اپنی ساس کو شادی سے پہلے ہی ایک طرف لگا دو گی”وہ حیران ہوئیں۔ انداز بچگانہ سا تھا۔
“تو اور کیا۔ آپ کو نہیں معلوم میری ساس کتنی بزدل ہے ۔ اپنے بیٹے ہی کو منع نہیں کرتی کسی بات سے” اس نے بھی ہولے سے آگے کو ہو کر ہاتھ نچا کر یوں کہا جیسے کوئی لڑائیوں میں منجھی عورت ہو۔
“ہاں ویسے ہے توایسی ہی تمہاری ساس۔ لیکن چلو بات کروں گی میں اس سے۔ اب اتنی پیاری بہو کو گنوائے تو نہیں ناں” وہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر لاڈ سے بولیں تو عبادت شرم سے دہری ہوئی۔
“اب کیوں بولتی بند ہوگئی “وہ ہنسیں۔
“آپ پر ہی گیا ہے آپ کا بیٹا” وہ لب دانتوں تلے دباتی مسکرا کر بولی۔
“اب اگر اجازت ہو تو میں بات کروں تمہارے چاچو سے کہ زہرہ بی کے ذریعے پیغام بھیجا جائے” وہ اس کا ہاتھ تھام کر آہستہ سے بولیں۔ یہ سب گفتگو آہستہ آواز میں ہی کی جا رہی تھی کہ زہرہ بی اور وہاں بیٹھی عورتوں تک اس کی بھنک بھی نہ گئی تھی۔ ہاں مگر زہرہ بی اب بھی کنکھیوں سے ان کو دیکھ رہی تھیں کہ آخر ایک عمر کا تجربہ تھا اور ایک نہیں کئی لوگ نظر سے گزرے تھے۔ چہرے پر آتے جاتے رنگ سے ہی وہ اندر کا معاملہ تو جان ہی لیتی تھیں۔
“ابھی تو فرست ائیر ہے میرا” عبادت فوراً سیدھی ہوئی۔
“ارے تو کیا ہوا۔ ابھی بات تو پکی ہو نا ۔ پھر اس کا بھی ایک ہی سال ہے تمہارا بھی۔ آگے دیکھیں گے” انہوں نے اس کا تھاما ہوا ہاتھ دبایا۔
“لیکن میں ابھی انٹر ہی کے پہلے سال میں ہوں ۔ ابھی تو پڑھنا ہے نا کچھ سال میں نے” وہ گھبرائی جیسے بات ابا تک پہنچ بھی چکی ہو۔
“تو بیٹا ہم کہاں منع کر ہے ہیں پڑھائی سے؟ اور میں تو سوچ رہی تھی کہ تمہارے چاچو سے بات کر کے تمہیں سلائی سکول کھول دیں گے۔ کمائی کی کمائی اور باقی بھی بچیوں کو ہنر ملے گا۔ اب دیکھو! تم ذہنی طور پر تیار رہا۔ زہرہ بی جبل اور حبل کی شادی کی بات شروع کر رہی ہیں۔ انہی دنوں میں بھی تمہاری بات ان کے کان میں ڈالنے والی ہوں۔ بی ریڈی” اس کا ہاتھ دبایا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“پریشان نہیں ہونا ۔ بس جیسے پھرتی ہو نا سہج سہج کر ۔ ویسی ہی رہو۔ ایسی ہی پسند ہو میرے بیٹے کو تم”ا س کے سر پر بوسہ دے کر وہ زہرہ بی کی طرف بڑھ گئیں جو اشارے سے ان کو اپنی طرف بلا رہی تھیں جبکہ وہ ان کی باتوں ہی کے بھنور میں گم تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بہت دن ہو گئے تھے وہ کمرہ نشین تھا۔ لاؤنج تک میں جانے کا موڈ نہیں ہوتا تھا۔ جب سے یہ بیماری آ چمٹی تھی وہ یوں ہی بس لیتا ہی رہتا۔ اگر سہارا ہی تلاشنا تھا تو اس کے لیے یہ بستر کا سہارا بہت تھا۔وہ خود سے اکتایا رہتا تھا۔ آج کل تو اس کا ذہن بٹانے کو کمیل بھی پاس نہیں نظر آتا تھا کہ اس کو آج کل اپنی ہی سوچیں تھیں۔ منال بھی حیدر زمان کے جانے کے بعد بس کتابوں کی ہی ہو کر رہ گئی تھی۔اس کے لیے اب امتحانات ہی کی تیاری اہم تھی کہ زہرہ بی نے اس کے امتحانات کی شرط رکھی تھی اور پھر وہ تو تھی بھی تھیٹا۔
اجر کو قدسیہ بیگم کاموں ہی سے سر نہ اٹھانے دیتی تھیں۔ فجر اور نمل کو تو آج کل ویسے ہی صدمے کا دورہ پڑا ہوا تھا۔مرد حضرات آج کل کم ہی گھر پر رہتے تھے کہ آض کل کٹائی کا موسم تھا اور ڈیرے پر کھیتوں میں اور بھروائی کے لیے ان کا وہاں ہونا لازم تھا۔اور وہ۔۔۔
وہ تو اب سامنے آتی ہی نہ تھی۔ اور قسمت بھی ایسی تھی کہ خود بھی وہ نہ اس کے سامنے جا سکتا تھا۔پھر ان حالات میں اس کا اکتانا بنتا بھی تھا۔
“امی!!” اس نے اٹھنا چاہا تو درد سے کراہ اٹھا۔ پھر درد میں مان کے علاوہ یاد بھی کون آیا کرتا ہے۔قدسیہ بیگم تو پاس نہ تھیں البتہ کمرے کے ساتھ سے گزرتی غنویٰ ٹھٹکی۔
“امی!” وہ ایک بار پھر کراہا۔ آنکھیں چھلکنے کو ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا گویا سار اجسم ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہا ہو۔باہر کھڑا وجود برف کی طرح پگھلنے لگا۔
“کچھ چاہیے تھا؟” اندر قدم رکھتے ہی زبان پھسلی۔اوروہ جو کراہ رہا تھا ایک دم سیدھا ہوا اور سر بستر پر گرا دیا۔ چاہ یوں بھی پوری ہوا کرتی ہے۔
“پانی۔۔۔” اس نے کانپتے ہاتھ سے سائڈ ٹیبل پر پڑے پانی کے جگ کی طرف اشارہ کیا۔وہ آگے بڑھی گلا س میں پانی انڈیلا اور ساتھ میں باہر ہی کھڑی رانی کو آواز دی۔ وہ دوڑ کر اندر آئی۔
“جی باجی؟” وہ بوکھلائی ہوئی لگتی تھی کیونکہ غنویٰنے آواز ہی اتنے غصے سے دی تھی۔
“کسی کو بلا کر لاؤ۔ انہیں پانی پلانا ہے ” وہ نہ تو خود اسے ہاتھ لگا سکتی تھی نہ ہی رانی سے ایسا کہہ سکتی تھی کہ جیسا بھی ہوتا وہ ان دونوں کا نامحرم تھا۔ اور یہی بات تو سجاول زمان کے دل کو چیر گئی تھی۔ وہ آنکھیں میچ کر رہ گیا۔ خود اٹھنے کی ایک بار پھر سے کوشش کی مگر اب کہا وہ دم خم۔۔۔ایک بار پھر درد کی ٹیسیں اٹھی تھیں۔وہ بے حس و حرکت اس کو دیکھ رہی تھی۔ ہاتھ میں گلاس تھامے یوں کھڑی تھی گویا گلاس اس کا واحد سہارا ہو۔
اور کتنا مشکل ہوتا ہے دل کے قریب لوگوں کو اس حالت میں دیکھنا اور کچھ نہ کر پانا۔
“کیا ہوا ؟” فجر بھاگتی ہوئی وہاں آئی تھی شاید ۔ سانس میں سانس نہ ملتی تھی۔
“پانی پلانا تھا” غنویٰ بے بسی سے سے بولی۔
“میں پی لوں گا فجر۔ بس کچھ دیر پاس بیٹھ جاؤ۔ یا مجھے باہر لے چلو۔ میں تھک گیا ہوں یہاں بند رہ کر” وہ چڑ کر بولا۔
“غنویٰ بھائی کی چیئر لاؤ مل کر بٹھا دیتے ہیں “فجر یوں بولی گویا بٹھا بھی لے گی ۔ اور غنویٰ دہلی تھی۔ اتنا کم تھا کہ وہ نامحرم تھاجو اس نے اتنے بڑے وجود کو اٹھانے کا بھی کہہ ڈالا۔
“دماغ ٹھکانے نہیں لگ رہا مجھے تمہارا۔ یہیں بیٹھو چپک کر۔ پانی پلاؤ ان کو۔ میں پھر باقی سب کو یہاں بھیجتی ہوں ۔” ماتھے پر تیوری ڈالتی وہ بول رہی تھی اور وہ جو درد سے آنکھیں میچے ہوئے تھا اب آنکھیں کھول کر اسے دیکھ رہا تھا۔
ہاں اس کے بے شکن ماتھے پر کبھی کبھار کی تیوری سجتی بھی تھی۔وہ درد کے باوجود آنے والی مسکراہٹ بڑھی ہوئی مونچھوں تلے چھپا گیا۔
“بھائی نے ابھی کہا کہ میں تھک گیا ہوں اندر رہ کر۔ سنتا نہیں تمہیں؟” فجر نے غصے سے اسے دیکھا۔
“بے وقوفوں کی سردارنی! گھر میں اس وقت ایک بھی مرد نہیں ہے۔ اور ہم عورتیں کس ہمت سے اتنے بڑے وجود کو۔۔۔ آئی مین کیسے اٹھائیں گی ہم ” وہ تیزی میں بولتی خود کی خود ہی اصلاح کر گئی تھی۔ ہاں یہ بات اور کہ اس کا ہلکا سا گڑبڑانا، لیٹے ہوئے وجود کو ایک بار پھر مسکانے پر مجبور کر گیا تھا۔
‘تو گویا یہ بھی غلطیاں کر بیٹھتی ہیں۔’
“ٹھیک کہہ رہی ہیں یہ۔ جا کر امی کو بلا لائیں آپ۔ اور فجر تم تھوڑا سا سہارا دے دو میں اٹھ جاؤں گا”وہ فجر کے جواب دینے سے پہلے ہی بول اٹھا ۔ غنویٰ اس کے براہ ِراست مخاطب کرنےپر ساکت ہوئی تھی۔ پھر اسے دیکھے بغیر گلاس فجر کو تھما کر باہر نکل گئی۔
“عجیب عورت ہے” فجر نے منہ بنایا اور سجاول کو سہارا دینے آگے بڑھی۔
“کیوں؟ عقل کی بات کر جاتی ہے اس لیے؟” سجاول نے چڑی ہوئی کو اور چڑایا تو وہ غور سے اسے دیکھنے لگی۔
“آپ میرے بھائی ہیں یا اس کے؟” اس سہارا دے کر پیچھے تکیہ درست کیا اور اسے ٹیک فراہم کی۔سجاول کے منہ سے بے اختیار ‘استغفار’نکلا تھا جو فجر نے بڑے غور سے سنا تھا۔
“تمہاری ہی بھائی ہوں کیوں فضولیات بولتی ہو وہ بھی بنا سوچے سمجھے” وہ منہ بنا کر بولا۔ فجر نے اسے گلاس تھمایا اور’ہنہ’ کرتی باہر نکل گئی۔ سجاول زمان نے پانی پی کر ٹھنڈا سانس بھرا اور سر پیچھے کی جانب گرا دیا۔
آج درد نے بھی سکون دیا تھا۔اب تو یہ حال تھا کہ کوئی پاس نہ بھی آتا تو خلوت جچ جاتی۔اب تو یہ حال تھا کہ
تخلیہ اے ہجومِ شور انگیز
خاموشی ہم کلام ہے ہم سے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گردشِ ایام کے اندھے وطیرے تو دیکھئے
ہم جو بیٹھے زیرِ سایہ تو دیوارچل پڑی
“ابا میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں وہاں سب سہولیات دوں گا آپ کو۔ یہاں اب کیا رکھا ہے؟” وہ ان کے سامنے بیٹھا جتنے دلائل دے سکتا تھا، دے رہا تھا۔ اور وہ پاس ہی کچن میں دیوار کے ساتھ لگی کھڑی کب سے اپنے لب بھینچے کوئی سخت لفظ بولنے سے خود کو روکے ہوئے تھی۔
“ہاں اب یہاں نظر بھی کیا آئیگا بیٹا ” وہ طنزیہ سا ہنکارے۔
“میں مذاق نہیں کر رہا ابا! زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ یہاں گاؤں میں کیا رکھا ہے۔ آپ بس چلیں میرے ساتھ” وہ بضد ہوا۔ ان کا ہاتھ تھامے وہ اپنی ہی منوانے کی کوشش میں تھا۔
“مجھ سے نہیں ہوتے اب یہ رویے برداشت۔ کب تک ہمیں جونک کی طرح چاٹنے کا ارادہ ہے؟” وہ غصے سے اسے دیکھنے لگے۔ اندر دیوار سے لگا وجود سیدھا ہوا تھا۔ قدم زمین پر جما کر خود کو مضبوط کرنا چاہا۔ آج تک باہر بیٹھے اس چوڑے سے وجود کے سامنے زبان نہیں کھولی تھی مگر آج وقت تھا کہ وہ اس کے ہوش ٹھکانے لگاتی۔
“ابا ! میں نے۔۔۔”
“صاف کیوں نہیں کہتے آپ کہ ہمارے سر سے اب گھر کا سایہ بھی چھیننا چاہتے ہیں ” وہ باہر آتے ہی ایک دم سے پھٹ پڑی۔ وہ جو ابا کی طرف متوجہ تھا اپنی بات کاٹے جانے پر اس نازک سے وجود حیران سا دیکھنے لگا۔ ‘تو اسے بھی آنکھیں دکھانی آ ہی گئیں۔’
“تم کہاں چھپی بیٹھی تھیں؟ جب سے آیا ہوں ملی ہی نہیں” وہ آگے بڑھا۔
“ہم سے ملنے نہیں آئے تھے آپ۔ جس کام سے آئے ہیں وہ کر رہے ہیں بہت خوش اسلوبی سے” وہ آ کر ابا کی بائیں طرف کھڑی ہوگئی۔ سامنے کھڑے عادل نے غور سے دیکھا۔ اس کی بچپن کی عادت اب بھی بدل نہ پائی تھی۔ اس سے ڈرتی تو ابا کی بائیں طرف کھڑی ہو جاتی۔ کہا کرتی تھی’ میں ابا کے دل کے زیادہ پاس ہوں’ وہ خفیف سا مسکرا دیا۔
“میں کسی اور مقصد کے تحت نہیں آیا عبادت بیٹے” وہ کھڑا ہوا اس کی طرف آنے لگا تو اس نے ابا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کی قمیص مٹھی میں جکڑی۔
“میں نہیں آپ کی بیٹی۔ مجھے میرے ابا بہت ہیں۔” ناک پر غصہ بہت جچ رہا تھا۔ اسے چھوٹی سی عبادت بے اختیار یاد آئی۔ کیسے وہ اتنا عرصہ ان خون کے رشتوں سے دور رہ لیا تھا۔افسوس تھا تو انتہا کا تھا۔
“اچھا چلو صلح کر لو پھر” وہ ویسے ہی آگے بڑھا جیسے بچپن میں بڑھتا تھا۔ مگر نہیں جانتا تھا کہ درمیاں میں بہت سے سالوں کا فاصلہ تھا۔
“بھول جائیں کہ اب میں وہ عبادت ہوں۔اور جانتے ہیں سجاول لالہ کس حال میں ہیں؟ آپ کے بہت اچھے دوست تھے ناں وہ؟ جانتے ہیں وہ کس حال میں ہیں ماں باپ کو دکھ دے کر؟” وہ سختی سے اسے گھورتی ہوئی بولی۔ اکرم خاموش بیٹھےان بہن بھائی کی سن رہے تھے۔ آج عبادت کا غبار نکل جانا بہترتھا۔
“جانتا ہوں۔ اچھے سے جانتا ہوں۔ اور اس کا یہاں کیا ذکر ہے۔ کیا کہنا چاہتی ہو صاف کہو۔” وہ ماتھے پر تیوری ڈال چکا تھا۔
“میں کہنایہ چاہ رہی ہوں کہ ہر شخص کے لیے ہدایت نہیں ہوتی۔ کچھ لوگوں کو ٹھوکر سے ہدایت دی جاتی ہے۔ اور جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہوان کو اپنے چہرے کی جھریوں میں بھی ہدایت نہیں ملتی” وہ ٹھہرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔ عادل نے یوں دیکھا جیسے سمجھ نہ پایا ہو۔ اور ٹھیک بھی تھا۔ اسے سمجھ آ بھی کیسے سکتی تھی۔ اس کو شاید اپنے چہرے کی جھریوں میں ہی ہدایت مل پاتی۔ اور ان جھریوں کے ظاہر ہونے میں بہت وقت تھا۔
“میں لینے آیا ہوں م لوگوں کو۔ اس میں اتنا فلسفہ جھاڑنے کی کیا ضرورت تھی؟” وہ منہ بنا کر بولا۔
“جس مقصد کے لیے لے کر جانا چاہ رہے ہیں اس کے لیے معذرت۔ میرے باپ نے ساری عمر کی جمع پونجی آپ ہی پر لٹائی ہے۔ میں جس عمر میں کما رہی ہوں ہاتھ چھلنی کر رہی ہوں اس عمر میں کبھی آپ نے اتنا کام کیا تھا ؟” وہ چٹخی۔ ابا کا وجود جھٹکے کھا رہا تھا۔
“اب یہ ہاتھ جوڑتی ہوں آپ کے سامنے۔ جائیں اپنی بیوی ہی کے پاس رہیں خوش رہیں اور جیسے مرضی ان کی کفالت کریں۔ ہم آپ کو اپنی کفالت سے آزاد کرتے ہیں۔ بس یہ گھر نہ چھینیں ہم سے۔ایک ہی سہارا ہے ہمارا۔ یہ گھر نہ چھینیں” وہ ہاتھ جوڑے ہوئے پھپھک کے رو دی تھی۔اور سامنے والا ورطۂ حیرت میں تھا۔ کہاں وہ ان کو اپنے دل کی سچائی سے لینے آیا تھا اور کہاں وہ اس سے اس حد تک بد گمان تھے۔ اور ہوتے بھی کیوں ناں۔ آخر اس کا اپنا ہاتھ تھا اس سب میں۔اس گھر کی دہلیز پار کرنے کے بعد وہ اپنی مان کی موت پر ہی آپایا تھا۔ اس کے بعد اس گھر میں قدم آج رکھا تھا۔ کہاں اور کس وقت اس نے اس گھر کے افراد کی کفالت میں ہاتھ ڈالا تھا اسے خود بھی یاد نہ تھا۔اور باپ سے جب بھی رابطہ ہوا تھا بس مدد ہی مانگی تھی۔ اس کی تو اپنی اولاد کو بھی نہ پتہ تھا کہ ان کوئی پھوپھی یا دادا زندہ ہے۔
ہم نے ماضی کا ہر ورق پلٹا
ہم کو ہر بات پر ملال ہوا
اس وقت جو عادل اکرم محسوس کر رہا تھا ، اگر اکرم جان جاتے تو شاید معاف کر دیتے مگر عبادت اپنی زندگی سب سے قیمتی سرمایہ ‘ماں’ اپنی چھوٹی سی عمر میں گنوا بیٹھی تھی۔ وہ کیسے معاف کر دیتی۔
لیکن آخر کو خون ، خون ہی ہوتا ہےناں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“زہرہ بی ! میں نے ڈیٹ لی تھی ڈاکٹر سے۔ سجاول کے چیک اپ کے لیے۔ اور لالہ نے جو رپورٹس بھیجی ہیں وہ چیک آؤٹ کروا نی ہیں تا کہ آپریشن کا معلوم کیا جا سکے” جبل زہرہ بی کے پاس بیٹھتا ہوا بولا۔
آج چونکہ اتوار تھا سو وہ دونوں جڑواں گھر پر موجود تھے۔ سنجیدگی ان کے مزاج کا حصہ بنتی جا رہی تھی۔ اور یہ بات جہاں باقی سب کو بہت عجیب لگتی تھی کہ رونق ان کی ہی وجہ سے ہوا کرتی تھی وہیں کشور بیگم اور شیر زمان بہت خوش تھے کہ ان کی ایک عرصے کی خواہش اب بر آئی تھی کہ وہ لوگ زندگی کو سنجیدگی سے لینے لگے تھے۔
“ہاں ہاں بہتر ہے اس کا حال سیدھا ہو تو تم لوگوں کو بھی ٹھکانے لگانے کا سوچیں” وہ بڑی تسلی سے بیٹھیں طمانیت سے مسکراتی ہوئی بولیں تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دئیے۔
“اچھا بہو بات تو سنو میری!” آمنہ بیگم جو ان کے پاس ہی بیٹھیں ہاتھ سے پنکھی سی بنا رہی تھیں ، ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ وہ ‘بہو’ تب ہی کہا کرتی تھیں جب اچھے سے موڈ میں ہوتیں۔
“کشور کو کہنا نمل اور فجر کو ساتھ لے جایا کرے۔ جو چیز بھی خریدنا چاہتی ہیں خرید لیں ۔ اور فجر نے تو باہر چلی جانا ہے اسکا زرا زیادہ خیال کرنا۔ سمجھ رہی ہو ناں؟” وہ ان کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں۔ پاس سے گزرتی نمل نے حبل کو دیکھا، جو پہلے ہی سے اسی کو فوکس میں لیے ہوئے تھا، اور ‘ہنہ’ کر کے آگے بڑھ گئی۔ حبل کا حلق تک کڑوا ہوا۔ ‘کیسے نبھے گی ہماری’ وہ سوچ ہی سکا۔
“اور تم سنو اچھر آؤ ناں ذرا” کمیل جو چپکے سے کھسکنے لگا تھا کہ کوئی ذمہ داری اسے نہ سونپ دی جائے، فوراً سے زہرہ بی کی نظروں میں آیا۔
“جی زہرہ بی” وہ شرمندہ سا واپس مڑا۔
“کن ہواؤں میں ہو آج کل؟” زہرہ بی نے ایک دم سے تیوری چڑھائی تھی۔ وہ جو ہمیشہ کی طرح بڑا بنا سنورا ہوا تھا منہ سا بنا کر بولا
“اس گرمی میں بھی آپ امید کرتی ہیں کہ میں ہواؤں میں گھوموں گا؟” جبل ، حبل اور آمنہ بیگم سمیت زہرہ بی نے بھی مسکراہٹ ضبط کی۔
“تو یہ نیلے لٹھے کاسوٹ اتنا کلف لگا کر، اتنے بال شال سیٹ کر کے کدھر کو جارہے تھے ابھی؟” زہرہ بی نے ناک پر موٹے عدسوں کی عینک درست کی۔
“میں کام سے بچنے لگا تھا ۔ آپ کام بتا دیں اتنی جرح کیوں کر رہی ہیں” وہ منہ بنا کر وہیں ان کے پاس صوفے پر ٹک گیا۔
“آج کل جامعہ کیوں نہیں جا رہے برخوددار؟” زہرہ بی نے ایک بار پھر سے گھورا۔
“زہرہ بی! آپ کو اچھے سے معلوم ہے کہ آج کل میں سجاول بھیا کی وجہ سے یہاں ہوں” وہ یوں ہوا جیسے کسی نے چٹکی کاٹ دی ہو۔
“میاں اتنے چڑے کیوں بیٹھے ہو؟ اندر ہی اندر کوئی اور ہی معاملہ معلوم پڑتا ہے” عینک پھر سے درست کی گئی تھی۔ جبل کھنکارا۔کمیل اسے کنکھیوں سے گھورنے لگا۔ وہ دونوں وہاں بیٹھے ساری صورتِ حال کو بہت انجوائے کر رہے تھے جبکہ آمنہ بیگم تو یوں گم ہوئی تھیں گویا جانتی ہی نا ہوں کسی بات کو۔یہی بات اسے کھولا رہی تھی۔
“آپ صاف کہیں کہ چچی کو اور دونوں آپیوں کو میں ہی لے کر جایا کروں گا”
“بات تو بڑے انداز سے گھمائی ہے ۔ لیکن خیر۔۔ ہاں ان کو تم ہی ل کر جا ؤ گے۔ اور آمنہ! اس کا ٹھکانہ بھی تلاش کرو اب۔ اور اگر کہو تومیری نظر میں ہے ایک لڑکی” انہوں نے بات کرتے ہی یوں اسے نظر انداز کیا گویا وہ وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔جبکہ آمنہ بیگم زہرہ بی کی بات سمجھ ہی چکی تھیں۔
“جیسے آپ مناسب سمجھیں زہرہ بی۔ حیدر صاحب سے بات کر لیجیے گا۔ اس کا ایک ہی تو سال رہ گیا ہے۔ یوں کریں گے کہ اس کی بات پکی کر دیں گے۔ میں دو بچوں سے تو فارغ ہوں ناں” وہ بھی پورا پروگرام بنائے بیٹھی تھیں۔ اس کی رونی صورت دیکھ کر جبل اور حبل قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔ بہت دن بعد اس حویلی میں ایسے قہقہے گونجے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“رمضان آ رہا ہے یار۔ اتنی گرمی میں کیسے روزے رکھوں گی میں” نمل نے منہ بنا کر کہا۔
” زہرہ بی ڈنڈے سے رکھوائیں گی تمہیں”فجر نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہااور اس کے سامنے پڑے امرود کے دو تین ٹکڑے اٹھا کر منہ میں رکھے۔ وہ لوگ اس وقت بڑی حویلی کے بڑے سے لان میں درختوں کی چھاؤں تلے بیٹھی تھیں۔اپریل کے آخری دن تھے اور گرمی یوں جوبن پر تھی گویا زمین کو جلا کر ہی دم لے گی۔ لیکن شکر تھا کہ اس وقت درخت کی چھاؤں میں سکون محسوس ہوتا تھا۔ غنویٰ اور عبادت تو ہر وقت سلائی مشین میں سر دئیے بیٹھی رہتی تھیں جبکہ وہ دونوں سب کام نپٹا کر ان کے پاس بیٹھ جاتیں اور جتنا ہو سکتا سر کھاتی تھیں۔ سب شاپنگ کیے جانے کے بعد ان کے کپڑے اب عبادت اور غنویٰ ہی کے سپرد تھے۔ عبادت آج کل گھر کا کام ختم کرتے ہی بڑی حویلی کا رخ کر لیتی تھی کہ زہرہ بی نے کہا تھا کہ سبھی کپڑے حویلی ہی میں بیٹھ کر سلائی کرو۔ دوسرا آج کل کمیل بھی گھر پر نہ تھا۔ اس کے فائنلز چل رہے تھے۔سو عبادت بہت سکون سے کام کرتی تھی۔
“تمہیں خود معلوم ہونا چاہیے کہ تم پر جو فرض ہے ، اسے پورا کرنا ہے۔ ڈنڈے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی” غنویٰ نے دامن پر لیس سی لگاتے ہوئے کہا۔
“لو۔۔ وہ نماز میں کوتاہی کر جاتی ہے اسے تم فرض کا سنا رہی ہو” فجر ہنستی ہوئی بولی۔
“میں فرض کا ہی سنا رہی ہوں فجر زمان۔ میں نماز کو فرائض سے خارج نہیں کر رہی” سوئی کے نیچے کپڑا گول گھماتے ہوئے بولی۔ مشین کا پہیہ گول گول گھومے جاتا تھا۔ عبادت اپنا کام چھوڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
“تو کیا کہنا چاہ رہی ہو میں سمجھی نہیں” فجر بھی سنجیدہ ہوئی اسے دیکھنے لگی۔
“تم لوگ گانے سنتی ہو۔ اکثر اسپیشلی ڈرامے اور فلمیں ڈاؤن لوڈ کرتی ہو۔ اور جب نیٹ یا سرور ڈاؤن جا رہا ہو ۔ یا کسی سائٹ پر موجود نہ ہو تو تم لوگ سائٹ کو کریک کرتی ہو وہاں سے اپنی مطلوبہ چیز دیکھ لیتی ہو۔ کیوں؟” اس نے سلائی لگا کر دھاگہ کاٹا ۔
“یوں ہی بس دل کرتا ہے” نمل منہ میں امرود کے ٹکڑے ڈال کر بھرے منہ سے بولی ۔
“نہیں نمل زمان! دل نہیں ۔ نفس۔۔۔ میں اس دن بتا رہی تھی ناں ضبط ِ نفس کا۔۔ تو میں صرف پیار اور محبت یا پسندیدگی کے لیے ہی یہ لفظ استعمال نہیں کر ہی تھی۔ میں ہر اس چیز کے لیے یہ لفظ استعمال کر تی ہوں جو نفس کی خوراک بنے۔ نفس کو بھوکا رکھنے کی عادت ڈالو۔ یہ جو جنون تم فلمیں ڈرامے یا گانے سننے میں دکھاتی ہو ۔ وہ جنون کبھی قرآن پڑھنے میں دکھاؤ۔ تم خود دیکھو گی جس چہرے کے لیے بہت سی کریمیں استعمال کرکے بھی افاقہ نہیں حاصل ہوا۔ وہ صرف ایک وضو ہی سے کتنا روشن ہوتا ہے”کپڑے کا دامن ٹھیک سے پھیلا کر ٹیڑھ دیکھی اور قینچی رکھ کر ایک رُخ پر سیدھا کاٹ ڈالا۔
“سورۂ طحہٰ کی ایک آیت مجھے بہت ہی اچھی لگتی ہے۔ جانتی ہو اللہ اس میں کیسے ہمیں کیا کہہ رہا ہے؟”وہ جو دم سادھے بیٹھی تھیں سبھی کی سبھی شرمندہ ہوئیں۔ ان میں کسی ایک نے بھی کبھی کسی لفظ پر اتنا غور کیا ہی نہ تھا کہ وہ سنہری باتیں سمجھ میں جگہ بناتیں۔
“اور میں نے تمہیں ‘خاص طور’ پر اپنے لئے بنایا ہے” اس نے زور دیتے ہوئے آیت سنائی۔
“اس کا مطلب میں زیادہ واضح نہیں کروں گی۔ بس اتنا سوچ لو کہ ہم اس کی اعلیٰ و عرفہ مخلوق ہو کر بھی، ایک یہ بات نہیں سمجھ پا رہے کہ اس نے ہمیں خاص طور پر’ اپنے لیے’ بنایا ہے۔ اور تم ذرا اس مخلوق کا لیول چیک کرو کہ ہمیں اپنے ‘خاص’ کاموں ہی سے فرصت نہیں۔ تم بتاؤ کبھی سکھ میں اس شوق سے نماز ادا کی ہے جس شوق اور حلاوت سے دکھ میں ادا کرتی ہو؟” کپڑے کے دامن کو موڑتے سلائی لگاتے ہوئے دھاگہ ٹوٹا تو وہ رکی۔
“اپنا تعین کرو کہ کس مقام پر ہو۔ اذان ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑی ہو جاؤ۔ دیر کرو گی تو دل میں وسوسے آئیں گے ۔ اور یہ وسوسے انسان کو تباہ کر دیا کرتے ہیں۔ اس لیے دیر کرو ہی نہیں ۔ یوں نماز میں پابندی بھی ملے گی اور اذان کا جواب بھی دینے لگ جاؤ گی۔ میری دادی ایک فارسی نظم بہت پڑھا کرتی تھیں اپنے آخری دنوں میں۔ کہو تو سناؤں؟” سلائی پکی ہوئی تو دھاگہ کاٹ کر کپڑا سیدھا کیا اورقمیص کو سیدھا کرنے لگی۔
“ہاں سنا دو۔۔بہت دن ہوگئےسنایا ہی نہیں کچھ” اب بھی فجر ہی بولی تھی۔ باقی دو تو چپ ہی تھیں۔ نمل کا فوکس پلیٹ میں پڑے امرود تھے جبکہ عبادت اب اپنا کام شروع کر چکی تھی۔
“میں تمہیں کچھ اچھی بات بتانے کو سنانے لگی ہوں میڈم! خوش نہیں ہو” غنویٰ مسکرا کر بولی تھی۔ سنانے کی آفر بھی صرف اس لیے کی تھی کہ سجاول آج کل جبل اور حبل کے ساتھ آپریشن کے سلسلے میں فیصل آباد تھا۔
گر عشقِ حقیقی است و گر عشقِ مجاز است
مقصود ازین ہر دو مرا سوز و گداز است
(جائے عشقِ حقیقی ہو جائے یا عشقِ مجاز ہو۔ ان دونوں سے میرا مقصد صرف سوز وگداز ہے)
فجر جو منہ بنا کر بیٹھ گئی تھی، اب اس کی آواز اور پھر ترجمہ بیان کرنےکے سلیقے سے اپنی جگہ ٹھٹھر گئی۔نمل بھی اس کو کام کرت ہوئے بھی ایک لے سے گاتے دیکھ کر سیدھی ہوئی۔
گفتی تو الست و زدم آواز بلی من
بنگر کہ مرا با تو زمیثاق نیاز است
(تو نے ازل میں الستِ بہ ربی کہااور میں نے اقرار کیا۔ تو دیکھنا کہ میرا تیرے ساتھ ایک ایسا عہد ہے جو میں نے تمہیں تحفہ کر دیا)
اس نے شعر کو ایک لے میں لیا اور کپڑے کو پھیلا کر اس کی سلائی دیکھی جو ابھی مکمل نہ تھی ۔
” کیا ‘الست بہ ربی’ کا مطلب جانتی ہو؟” اندر کا فالتو کپڑا کاٹ کر اسے فولڈ کرتی ہوئی دوبارہ سلائی لگانے لگی۔
“جس دن اللہ نے اپنی عظیم ترین مخلوق ‘آدم’ کو بنایا۔ تو ان سے سوال کیا۔ ان کو انہی پر گواہ بنا کر سوال کیا کہ’ بتاؤ کیا میں تمہا رارب نہیں ہوں ؟’ تب جواب آیا کہ’ ہ اس بات پر گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ ‘ جانتی ہو اللہ نے یہ وعدہ کیوں لیا تھا؟” اس نے پلیٹ میں سے امرود کا ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے انہیں دیکھا جو دم سادھے بیٹھی تھیں۔
“اس لیے کہ یہ بی آدم جس کی فطرت میں اپنی بات سے مکر جانا ہے ۔ وہ اس ‘آخری روز’ اپنی بات سے مکر نہ جائے۔ اور کون ہے جو اپنی گواہی پر خود ہی مکر جائے؟ اللہ تو بے نیاز ہے نا۔ اللہ مکرنے نہیں دے گا۔ اللہ ہمیں ہماری گواہی تحفہ کر چکا ہے۔ وہ ہمیں خسارے میں دیکھ ہی نہیں سکتا” وہ مسکرائی تو آنکھیں تک چمک اٹھیں۔فجر اور نمل بھی مسکرا دی تھیں۔
رازِ تو بہ لب ناورد و دل شورش خون
ہر کس کہ درین دہر ترا محرم راز است
(جو کوئی بھی تیرا محرمِ راز ہو وہ کبھی تیرا راز اپنے لبوں پر نہیں لاتا۔ یہاں تک کہ دل خون ہو جاتا ہے)
اس بار شعر میں صرف لے نہیں تھی۔ مگر کچھ تو تھا جو اس میں خاص تھا۔اور جانتے ہو خاص کیا تھا؟
خاص تھا کہ غنویٰ صغیر احمد کا رازکامحرم اس کا ‘رب’ تھا۔ لب مسکرا رہے تھے۔انداز مسکرا رہا تھا۔
“اب جو شعر ہیں وہ تم لوگوں کو ڈیڈیکیٹ کرتی ہوں کیا یاد کرو گی میری گدھیو!” وہ مسکرا کر شرارت سے بولی جبکہ باقی تین پر رعب طاری تھا۔
اندر دل و گاؤ خر و ذکر بہ لب ہا
قاضی بہ تصور کہ ہمین حق نماز است
(دل میں گائے اور گدھا ہے اور لبوں پر ‘تیرا’ ذکر ہے ۔ قاضی کا خیال ہے کہ یہی نمازِ حق ہے)
“سمجھی یا سمجھاؤں؟” اس نے نمل کو شرارت سے دیکھا۔اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“ہم جو نماز پڑھتے ہیں وہ بھی ٹکریں مار کر اٹھ جاتے ہیں۔دل میں کچھ اور چل رہا ہوتا ہے اور زبان پر الحمد۔پھر بھی ہم سمجھتے ہیں بھئی آج تو نماز میں ہم نے کمال کر ڈالا۔ یوں ہی ہوتا ہے نا زمان خاندان؟” مسکراہٹ کو لبوں کے گوشوں میں چھپانے کی سعی کرنے لگی۔
“نہیں تم ہمیں بے عزت ہی کیے جاؤ اب”فجر ہمیشہ کی طرح اب بھی چڑ گئی۔
خواہی کہ روی بر در آن دوست قلندر
آن ہدیہ کہ مقبول شود عجز و نیاز است
(اے قلندر اگر تم دوست کے دروازے پر جانا چاہتے ہو تو وہاں ایک ہی ہدیہ قبول ہوتا ہے۔ اور وہ ہے عجز و نیاز۔)
“رمضان آ رہا ہے اورتو یہ نہیں سوچو کہ گرمی ہے روزہ نہیں رکھا جائیگا۔ یہ سوچو کہ اگر اس رب کے سامنے جانا چاہتی ہو تو کس انداز میں جاؤ کہ وہ تم سے خوش ہو جائے ۔ ویسے بھی اللہ کو گرمیوں کے روزے اور سردیوں کا وضو بہت محبوب ہے ۔ کوشش کرو کہ اپنے رویے میں عاجزی پیدا کرو۔اللہ کے لیے بھی اور عبداللہ کے لیے بھی۔اللہ کو یہ انکساری ، یہ عاجزی اور خلوص بڑا پسند ہے “قمیص سلائی کر کے سیدھا کیا تو وہ جو پہلے کچھ نہ نظر آ رہا تھا، اب کچھ سلائیوں ہی سے نکھر سا گیا۔ ہاں اب ٹانکا ٹھیک لگا تھا۔ ہر ٹانکا خوبصورتی سے ابھرا تھا۔
ہاں اب ہر توڑ ، جوڑ میں بدل چکا تھا۔ بے زاری ، دل گدازی میں بدلی تھی۔ اور وہ جو ہوائیں دھوپ سے ہوتی ہوئی ایک گرم جھونکا بھی لاتی تھیں، اب پر سکون سا کر رہی تھیں۔یہی تو ہے وہ راز جو رب اور رب کے بندوں کے درمیان کا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...