(Last Updated On: )
ماں بلا رہی ہیں کچن میں۔ فاریہ دوپٹے کو پلو سے ہاتھ پونجھتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔اور انجبین سے کو بتایا۔انجبین نے ایسے بے حس ہو حرکت لیٹی رہی جیسے اس نے بات سنی ہی نہیں۔انجبین اکثر ایسے ہی کیا کرتی تھی وہ جب بھی محسوس کرتی کہ اسے کوئی کام کرنے کو کہا جائے گا تو وہ بہانے گھڑنے میں زرا دیر نہیں لگایا کرتی تھی۔
فاریہ: آپی سن لیا ہے تو چلی بھی جاؤ پھر میری مفت میں کلاس ہوتی ہے۔ فاریہ نے منت سماجت کے انداز میں اجبین کو مخاطب کیا۔ لیکن وہ انجبین ہی کیا جو ایسے موقع پر جواب دے۔ آپی کل میرا ٹیسٹ ہے پلیز, آپ نہ گئی تو امی مجھے مارکیٹ بھیج دیں گی۔
اجبین جو اب تک آرام سے بے حس پڑی ہوئی تھی ایک دم سے دونوں آنکھیں کھول کر فاریہ کو تکنے لگی۔۔
انجبین: کیا کیا کیا ہوا کیوں بازار جانا ہے تم نے۔ اوہ مطلب امی نے۔
فاریہ: امی کو نہیں جانا وہ آج قرۃالعین بھابھی آرہی ہیں ان کا لہنگا لینے جانا ہے اس لیے بلا رہی ہیں کہ آپ تیار ہو جاؤ اور ان کے ساتھ چلی جانا۔۔
انجبین: اچھا تو مارکیٹ جانا ہے پہلے نہیں بتا سکتی تھی میں سمجھی کہ کوئی کام ہے, اور اماں کو کیا پتہ آج کل کے ٹرینڈز کا وہ تو میں ہی مدد کروں گی نا۔۔ انجبین الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق غصہ فاریہ پہ ہو رہی تھی۔
انجبین کو جاتے دیکھ کر فاریہ نے بھی سکھ کا سانس لیا اور کتابیں اٹھانے چلی گئی۔
کاشف کے ساتھ چلی جانا تم دونوں اور دیکھنا عینی یہ انجبین بہت دیر کر دیتی ہے مارکیٹ میں۔ انجبین کی امی نے اپنی ہونے والی بہو کو سمجھایا اور ساتھ ہی انجبین کی اس عادت سے آگاہ بھی کر دیا تا کہ اسے بازار میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ انجبین نے عینی کو آنکھ ماری اور ہنسی کو دبائے رکھا۔ عینی کو بھی بازار میں گھومنے اور شاپنگ جنون تھا۔۔ آج کاشف کا دن بہت برا گزرنے والا تھا اس کا اندازہ اسے ہو چکا تھا۔
وہ بیٹھا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا اور خود کو کوس رہا تھا کہ میں گھر رک کیوں گیا آج بھی پڑھنے کے لیے کسی دوست کی طرف چلا جاتا تو اچھا ہوتا۔۔۔ خدا خدا کر کے لڑکیاں جانے کے لیے تیار ہو گئی اور گھڑی کے کانٹے دو بجا رہے تھے۔
مارکیٹ میں زیادہ دیر مت لگانا، جب فری ہو جاؤ مجھے کال کر دینا میں آجاؤ گا لینے رکشہ ٹیکسی کے انتظار میں مت کھڑے رہنا آپ دونوں۔ کاشف نے دونوں کو ہدایت دی اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ اب دونوں لڑکیاں بازار میں اپنی مرضی اور پسند کا سامان لے سکتی تھیں۔
……………………………………
تم دونوں بھائی بہن جا تو رہے ہو وہاں بھی لڑائی نہ شروع کر دینا۔ تم دونوں کو بھیجنے کا دل تو نہیں چاہ رہا میرا مگر کیا کروں نائلہ آنے والی ہے. اگر میں گھر نہ ہوئی تو اس کو برا لگے گا۔ تم دونوں بھی جلدی واپس آنے کی کوشش کرنا۔
جی اچھا امی اب جانے بھی دیں نا, شمائلہ ماں کی باتوں سے بور ہو رہی تھی اور دروازہ تھامے ہوئے آدھی گاڑی کے اندر اور آدھی باہر لٹک رہی تھی۔
زیان اس موقع کو خوب انجوائے کر رہا تھا اور زیر لب مسکرائے جا رہا تھا۔۔۔
ماں نے جانے کی اجازت دی تو زیان نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔
زیان: لسٹ تو رکھی ہے نا بیگ میں اپنے یہ نہ ہو وہاں جا کر پھر واپس آنا پڑے۔۔ زیان نے سن گلاسس لگاتے ہوئے بہن سے سوال کیا۔
شمائلہ: ہاں رکھ لی ہے امی کب مجھے ایسے ہی آنے دیتیں ہیں بھلا۔۔ تم نے لہنگا کب اٹھانا ہے میرا۔۔
شمائلہ بیگ میں کچھ تلاش کرنے میں مصروف تھی جو اسے مل نہیں رہا تھا۔۔
زیان: لہنگا آج ہی اٹھا لاتے ہیں پہلے ادھر ہی چلتے ہیں کیا خیال ہے۔ زیان نے بہن سے مشورہ مانگا۔۔
شمائلہ: ہاں چلو چلتے ہیں ورنہ نائلہ نے آجانا ہے اور اس کے ساتھ لہنگا لینے آئی تو کوئی نہ کوئی نقص اس نے اس میں سے بھی نکال لینا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اتنا شک کرتی ہے ان سب چیزوں کے بارے میں۔۔۔
زیان: بس آپا کی فطرت ہی ایسی ہے یا پھر عادت سے مجبور ہیں۔ باتوں باتوں میں راستہ کب تہہ پا گیا پتہ بھی نہ چلا۔.
آو چلو نا تم بھی ساتھ میرے میں اکیلی کیسے جاؤں اندر شمائلہ نے بچوں جیسا منہ بنا لیا اور روٹھ کر گاڑی میں ہی بیٹھ گئی۔۔۔
اچھا میں چلتا ہوں ساتھ نکلو باہر گاڑی سے اب اسکو تو شاپ میں لے کر جا نہیں سکتا۔۔
زیان کو سخت الجھن ہوا کرتی تھی جب بھی شمائلہ ایسے کرتی تھی لیکن اب بہن کے ناز نخرے اٹھا رہا تھا کہ کچھ ہی دنوں کی تو بات تھی پھر اس نے اپنے گھر چلے جانا تھا۔
شمائلہ جوں ہی دوکان میں داخل ہوئی اسے کسی نے نام لے کر پکارا۔ شمائلہ دائیں بائیں دیکھنے لگی کہ یہاں جان پہچان والا کون آگیا ہے۔ اگر آہی گیا ہے تو کم از کمایسے آوازیں تو نہ دے۔ کیسی بے ہودہ حرکت ہے یہ۔ شمائلہ نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہاں دو لڑکیاں کھڑی ہوئی تھیں اور ان میں سے ایک نے ہی اسے آواز دی تھی۔ جس نے آواز دی تھی وہ ہاتھ بھی ہلا رہی تھی دیکھ کر۔ شمائلہ کو بھی یہ چہرہ دیکھا دیکھا سا لگ رہا تھا۔
شمائلہ: سوری میں پہچانی نہیں آپکو۔ آپ کون ہیں؟
لو جی اب پہچانتی بھی نہیان شہر چھوڑ کر تم گئی اور بھول بھی تم ہی گئی کمال کرتی ہو۔ میں قرۃ العین ہوں تمھارے ساتھ جماعت نہم تک تعلیم حاصل کی ہے بھول گئی مجھے۔۔۔
شمائلہ کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی خوشی سے بے قابو ہوتی شمائلہ نے آگے بڑھ کر عینی کو گلے سے لگا لیا اور دونوں دوستیں برسوں کے بعد آج مل کر بہت خوش تھیں۔ اس خوشی میں ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور وہ دونوں اس بات سے یکسر بے نیاز کہ اس وقت وہ کہاں ہیں اور لوگ ان دونوں کو ہی دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔ ان دونوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ تو بس اپنی ہی دھن میں لگی ہوئی تھیں۔
کچھ دیر کے بعد انہیں محسوس ہوا کے سب لوگ کام کاج چھوڑ کر ان دونوں کو ہی دیکھ رہے ہیں تو وہ دونوں بھی کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہنستے الگ ہو گئیں۔۔ دونوں نے اپنے اپنے یہاں آنے کی وجہ بھی ایک دوسرے کو بتائی تو اس خوشی میں پھر سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئی۔
دونوں ابھی باتوں میں ہی لگی ہوئی تھی کہ اچانک سے انجبین چیخ کر بولی,
انجبین: تم یہاں بھی آگئے ہو شرم نہیں آتی ایسے لڑکی کا پیچھا کرتے ہوئے۔ جاؤ یہاں سے ورنہ میں شور کر کے سب کو جمع کر لوں گی۔۔ انجبین کی آواز سن کر عینی اور شمائلہ نے مڑ کر دیکھا۔۔
شمائلہ: ایکسکیوز می انجبین آپ میرے بھائی پہ کیوں غصہ کر رہی ہو۔
انجبین: یہ اور آپکا بھائی, سگا بھائی ہے۔۔
شمائلہ: کیا ہوگیا ہے آپکو میرا سگا بھائی ہی ہے خیر تو ہے آپ ہائپر کیوں ہو رہی ہو۔
شمو یہ وہی ہیں جو میری گاڑی کے سامنے آگئی تھی تم کیسے جانتی ہو اس کو اور میڈم میں آپکے پیچھے نہیں آیا اپنی بہن کے ساتھ آیا ہوں یہاں۔ میں تو سوچ رہا تھا معافی مانگوں گا آپ سے لیکن آپ تو,,,,,, زیان نے اپنے غصہ کو مشکل سے قابو کیا۔۔۔
ان دوںوں کی بحث اس سے پہلے کے میدان جنگ بن جائے شمائلہ نے اپنے بھائی کا تعارف کروایا عینی سے اور انجبین کو بھی یقین دلایا کہ وہ اس کے پیچھے نہیں بلکہ میرے ساتھ آیا ہے۔
دونوں دوستیں اپنے اپنے لہنگے ایک دوسرے کو دیکھا رہیں تھی۔ جبکہ زیان منہ لٹکائے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اور انجبین مسلسل اسے گھورتی جا رہی تھی۔ ایک دو بار ان دونوں کی نظر آپس میں مل گئی تو انجبین کی آنکھوں سے جیسے شعلے برس رہے تھے۔۔
شمائلہ: تم لوگ کس کے ساتھ جاو گے واپس گاڑی تم لائی ہو کیا؟؟
عینی: میرا دیورہے نا ساتھ میں وہ گاڑی لے آئے گا۔۔
شمائلہ: ارے کیوں اس کو بلاتی ہو ہم لوگ ڈراپ کر دیں گے نا۔۔ کیوں زیزو؟؟
زیان جیسے چونک اٹھا اچانک اپنا نام سن کر۔۔۔۔ جی جی چھوڑ دیں گے۔ زیان نے ہربراہٹ میں جواب دیا۔۔۔۔
انجبین غصہ میں لال پیلی ہو کر رہ گئی وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی کہ زیان کا احسان لے۔۔ لیکن وہ اس موقع پر
بولی بھی نہیں۔۔ لیکن زیان جانتا تھا کہ انجبین جانے کے لیے تیار نہیں ہے اس کے ساتھ۔۔۔۔
انجبین تم کاشف کو کال کر دو پلیز میرا کریڈٹ ختم ہو گیا ہے۔۔۔۔ عینی نے انجبین کو بلایا تو وہ خیالوں کی دنیا سے اچانک لوٹ آئی۔۔۔۔ انجبین نے مجبوری میں کال کر کے بتا دیا کہ وہ لوگ کسی دوست کے ساتھ گھر آجائیں گی۔۔ کاشف نے یہ بات سنی تو سکھ کا سانس لیا کہ اسے بار بار بازار نہیں جانا ہوگا۔۔۔۔
دوکان سے باہر آتے ہوئے سب سے آگے شمائلہ اور عینی تھیں اس کے پیچھے زیان اور انجبین باہر آرہے تھے۔۔ زیان کے سامنے نہ جانے کیوں انجبین کو جیسے چپ سی لگ جاتی تھی وہ نہ معلوم کیوں اس کی شخصیت کے رعب میں آگئی تھی اور اب تک بس اپنی الجھن کو اپنی آنکھوں سے ہی ظاہر کر پا رہی تھی۔۔۔۔
زیان: سنئے۔۔۔۔ زیان نے پہلی بار براہ راست انجبین سے بات کی تھی۔۔۔۔
خلاف ء روایت انجبین نے نرمی سے بس اتنا ہی جواب دیا۔۔ جی!۔۔
اس قبل کے زیان کوئی بات کرتا شمائلہ نے جلدی چلمے کا اشارہ کیا۔ زیان نے کندھے اچکائےاور سر جھکا کر گاڑی طرف چل دیا۔ گاڑی پارکنگ سے باہر نکال کر زیان قریب آیا تو شمائلہ اور عینی پیچھے بیٹھ گئی کہ ان کو تو آپس میں باتیں کرنا تھی۔
عینی: آگے بیٹھ جاؤ نا انجبین تم پیچھے ہم دونوں ہیں چلو شاپاش آگے بیٹھ جاو۔
شمائلہ: ہاں ہاں بیٹھ جاؤ چلو۔
زیان نے گاڑی چلانی شروع تو کر دی لیکن وہ کچھ الجھا الجھا سا تھا۔۔ معافی مانگے یا چپ رہے کوئی بات کرے نہ کرے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ آج پہلی بار کسی اجنبی لڑکی کے ساتھ وہ ایسے بیٹھا ہوا تھا۔ بے چینی اور گھبراہٹ کے مارے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔ اور دوسری جانب انجبین کن اکھیوں سے زیان کو دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں ہنس بھی رہی تھی کہ اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ اب بدلہ لوں گی میں اپنی ڈانٹ کا دیکھتے جاؤ بچے میں سیٹ کرتی ہوں تمہیں تم بہت کہتے ہو نا میڈم میڈم اب کرتی ہوں میں سیٹ۔۔
انجبین: مسٹر آگے دیکھ کے گاڑی چلایئں آپ ڈر کیوں رہے ہیں کیسی ہارش ڈرائیو کرتے ہو آپ۔۔ انجبین نے موقع کا فائدہ اٹھا خوب اچھے سے اٹھا لیا تھا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہی تھی۔ لیکن یہ خوشی جلد ہی ہوا ہو گئی جب جواب میں زیان نے انجبین کی سائڈ کا دروازہ ٹھیک سے نہ بند ہونے کا شکوہ کیا ۔۔ دروازے میں سچ مچ دوپٹہ پھنسا ہوا تھا۔۔
اس کے بعد تمام راستے میں انجبین خاموش رہی اور ایک لفظ بھی زبان سے نہ ادا نہیں کیا۔ گھر کا راستہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن عینی اس بات سے لا علم تھی۔اس لیے وہ ساتھ ساتھ ہدایات دیتی جا رہی تھی۔
اب گاڑی کے اندر ہلکی پھلکی باتیں ہونے لگ گئی تھیں۔ جن کا تعلق صرف اور صرف شادی سے تھا, اور شادی زیان کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں تھی اسے تو بس گھر جانے کی جلدی تھی لیکن شمائلہ نے ایسے ہی ان کو ساتھ لے جانے اور گھر چھوڑنے تک کی بات ہونہہ پاگل ہے قسم سے۔۔
گھر کے دروازے پر گاڑی روک کر زیان انتظار کرنے لگ گیا کہ کب ان کی باتیں ختم ہوں اور وہ گاڑی سے اتریں۔
لیکن نہ لڑکیوں کی باتیں ختم ہوں اور نہ آزادی نصیب ہو سکے زیان کو۔ عینی نے گھر کے اندر چل کر چائے پینے کی دعوت بھی دی اور بتایا کہ یہ اس کا ہونے والا سسرال ہے۔۔۔ تو زیان کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔۔ اللہ حمت اور حوصلہ دے آپکو۔
انجبین: کیا کیا کیا بولا آپ نے؟
زیان: میں بولا کچھ, کب مجھے نہیں لگتا کے میں بولا ہوں۔۔ زیان ایسی معصومیت سے بولا کہ انجبین کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات کا اعتبار کرنا پڑا۔۔۔ آئندہ کبھی آنے کا وعدہ کر کے شمائلہ اور زیان کو جانے کی اجازت ملی۔
زیان کی شکل پر بارہ بج رہے تھے اور شمائلہ اسے شرارتی انداز سے دیکھ رہی تھی۔
زیان: ہمیں جلدی جانا تھا اوپر سے یہ تمھاری دوست مل گئی, پیچھے نائلہ آپا بھی آگئی ہوں گی۔ زیان نے فکرمندی سے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔
زیان نے گھر جلدی جلدی جانے کے لیے گاڑی کی رفتار بڑھا دی وہ اب کسی بھی قیمت پر مزید دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
………………………………..
آئندہ میں تمھارے ساتھ نہیں جاؤں گی بھابھی۔ یہ لڑکا مجھے زہر لگتا ہے ہر وقت ہی سنجیدہ اور عجیب سی مسکراہٹ ہے اسکی نہ پتہ لگتا خوشی ہے یا اداسی بس منہ بنا ہوتا۔۔ انجبین نے گھر میں داخل ہوتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا اور بولتی چلی گئی۔۔۔ عینی کو اس انداز پر بہت ہنسی آرہی تھی لیکن وہ ہنسی روکتے ہوئے بولی,
عینی: اچھا بابا نہیں کروں گی اب ایسا, اور وہ میری دوست کا بھائی ہے اب ساتھ تھا کیا کرتی۔۔ عینی بیگز کو گھسیٹ گھسیٹ کر اندر لے کر جا رہی تھی جبکہ انجبین غصہ میں لال پیلی ہوئی دور کھڑی تھی۔ بلکل ایک ضدی بچے کی طرح۔۔۔جس کی پسند کی چیز بازار میں جب ماں باپ نہ لے کر دیں تو وہ ایک طرف کو کھڑا ہو جاتا ہے, روتا بھی نہیں مگر عجیب عجیب شکلیں بنا بنا کر ماں باپ کے لیے الجھن کا سبب بنتا رہتا ہے۔۔۔
ایسے ہی انجبین کا کسی بات پر ڈٹ جانا تھا۔۔جب نہ کردی تو کسی کے ابا بھی اس نہ کو ہاں میں بدل نہیں سکتے تھے۔۔۔
فاریہ: کھاناکھا لو
انجبین: نہیں کھانا بھوک نہیں ہے مجھے۔
فاریہ: کھانے سے کیا ناراضگی ہے۔۔؟
عینی: انجبین چلو نا اب غصہ تھوک بھی دو۔
انجبین: نہیں مجھے غصہ بھی نہیں تھوکنا کلموہا کہیں کا, اور تم بھی کیسے باتوں میں مگن تھی نا, میرا دوپٹہ ایک تو دروازے میں آ گیا اوپر سے غصہ بھی مجھ پر کیا اس نے۔انجبین تکیہ گود میں رکھے کے اس کے اوپر اپنی دونوں کونیوں کا دباؤ ڈالے بیٹھی تھی اور منہ کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پہ ٹکائے ہوئے تھی۔۔۔
فاریہ: کس کی بات کر رہی ہو, یہ کیا معاملہ ہے۔۔؟
انجبین: کوئی بھی ہو تم کیا چسکے لے رہی ہو جاؤ ادھر سے نہیں کھانا مجھے۔ انجبین کی توپوں کا رخ ایک دم سے فاریہ کی جانب ہو گیا۔۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عینی نے اشاروں اشاروں میں فاریہ کو یہاں سے جانے کا کہا۔۔
انجبین کے علاوہ سب ہی کھانے کی میز پر اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے, جہاں کھانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی جاری تھی۔ انجبین نے اٹھ کر دروازہ آگے کر دیا کہ باہر سے آوازیں اس تک نہ پہنچ سکیں۔ کیا زندگی ہے میری, عجیب بور سی نہ کچھ کرنے کے لیے ہے نہ کہیں آنا جانا,دوستیں بھی تو سب دور رہتی ہیں,یہ چھٹی نہ ہی آیا کرے میری۔۔ انجبین خودکلامی کر رہی تھی۔موبائل فون کی بیٹری بھی ڈیڈ ہو چکی تھی اور یہ بات انجبین کو مزید تیش دلا رہی تھی۔۔
سب ہی بیزار ہیں مجھ سے یا میں ہی ایسی ہوں۔۔۔ ہوں بھی تو کیا ہے میری لائف ہے لوگوں کو اس سے کیا لگے۔
کتابیں اٹھاتی ہوں تب بھی نیند آجاتی ہے۔ آں کیوں میری زندگی عجیب سی ہے ۔۔۔ اللہ جی کیا ہو جاتا جو میں کوئی امیر زادی ہوتی یہاں منہ سے بات نکلی وہاں من کی مراد پوری ہو گئی۔ لیکن نہیں جی نہیں بس انجبین سے ہی کوئی خاص مسلہ ہے سب کو ہی اللہ جی آپ بھی ان سب کے ساتھ ملے ہوئے ہیں کوئی نہیں خیر ہے دیکھی جائے گی, میں کون سی نماز پڑھتی ہوں جو اللہ جی میری سن لیں گے۔۔۔ کیا یار ٹھنڈ میں کیسے پڑھوں میں وضو کرتے کرتے بندا قلفی بن جاتا ہے۔ تکیہ کی جگہ کتابیں رکھے انجبین سوچتے سوچتے وہیں سو گئی۔
………………………………….
بھائی میرا ایک بیگ شاید عینی کی طرف رہ گیا ہے پلیز تم وہ لے آنا آتے ہوئے شام کو۔ شمائلہ نے ناشتہ کی میز پر بھائی کو بتایا۔۔ امی میں تب ہی اسے لے کر نہیں جاتا روز کچھ بھول آتی یا دوکان میں اور اب دوست کے سسرال میں۔۔ زیان نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے ماں سے بہن کی شکایت کی۔ ماں کی طرف سے جواب آنے سے پہلے بڑی بہن بیچ میں بول پڑی۔
نائلہ: اسکی تو عادت ہی یہی ہے ہمیشہ سے, اور شمو یہ عینی وہی موٹی سی جو ہوا کرتی تھی تمھاری کلاس فیلو۔۔ نائلہ نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے سوال کیا۔۔ انووسٹی گیشن کے انداز میں۔۔
شمائلہ: ہاں وہی ہے بہت سال کے بعد کل اچانک سے مل گئی تھی لہنگا اٹھانے آئی ہوئی تھی اپنا۔۔ یہ زیان کے باس کی دیورانی بنے والی ہے۔ سے شمائلہ نے جواب دیا۔۔
تو پھر لے آنا نا بیٹا بیگ بھول جاتی ہے نا کون سا مارکیٹ جانا ہوگا تمھیں۔۔۔ ماں نے پہلی بار اس بارے میں کوئی بات کی تھی۔۔
زیان: امی اچھا ہوتا مارکیٹ میں بھول گئی ہوتی بیگ, اس گھر جانا اور مونسٹر سے مقابلہ کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔۔
مونشتر کون شا مامو, یہ سلسبیل کی آواز تھی نائلہ کی بیٹی جو دو سال کی ہونے والی تھی اور ابھی تک توتلی سی زبان میں باتیں کیا کرتی تھی۔۔ زیان نے پلٹ کر دیکھا جہاں سلسبیل کھڑی ہوئی تھی۔ نائٹ ڈریس میں اپنے ایک ہاتھ میں فیڈر لیے اور دوسرے میں اپنا پسندیدہ ٹیڈی بیر تھام رکھا تھا۔۔ مونسٹرز اور کارٹون کی دیوانی سلسبیل ماموں کے منہ سے مونسٹر کا ذکر سن کر بہت اکسائٹڈ ہو گئی تھی۔۔
زیان: اوہ میرا بچہ ہے ایک مونشتر آپ کو دیکھاؤں گا, ادھر آجاؤ ماموں کے پاس جلدی سے۔ زیان نے بھانجی کو گود میں لے لیا اور زور سے اس کے گال کو چوم لیا۔۔
سلسبیل: آخ ماموں نندے ہو آئیی ماما دی۔۔۔۔ سبیل نے ماموں کی مونچھوں کو پیچھے کیا جو بہت لمبی تھیں اور پرندے کے پروں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔۔ سلسبیل کے شکایت کرنے کے معصوم سے انداز پر زیان کو بہت پیار آیا اور وہ ہنسے بنا نہ رہ سکا۔۔۔۔۔۔
…………………..
مامی ہو سکتا کوئی میری دوست کے گھر سے آجائے یہ بیگ ان کو دے دیجے گا اب میں چلتی ہوں بہت دیر ہو جائےگی اگر آج بھی نہ گئی تو امی نے آسمان سر پے اٹھا لینا ہے۔۔ قرۃ العین نے جلدی جلدی اپنا ناشتہ مکمل کیا اور ممانی کو بیگ دیتے ہوئے بولی۔۔ گزشتہ رات بھی اسے مجبوری میں یہاں رکنا پڑا تھا اس لیے آج وہ گھر واپس جانا چاہتی تھی اس سے پہلے اسے یونیورسٹی بھی جانا تھا۔۔جانا تو انجبین کے ساتھ چاہتی تھی لیکن انجبین اب تک سو کر نہیں اٹھی تھی۔۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کس بات کی چھٹی ہے لیکن انجبین نے کہ رکھا تھا کہ آج چھٹی ہے۔۔
بیٹا کاشف بھی اسی طرف جاتا ہے تم اس کے ساتھ جانا میں اکیلی نہیں جانے دوں گی۔۔۔۔ اپنی ممانی اور ہونے والی ساس کا حکم سن کر عینی چپ ہو گئی وہ کسی بھی قسم کی ناراضگی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔ اسے عابد پر سخت غصہ آرہا تھا وہ جاتے ہوئے کم سے کم پوچھ تو لیتا کے جانا ہے نہیں جانا, لیکن نہیں جناب انکو کیا لگے۔۔۔۔ کاشف نے بھی ناشتہ ادھورا چھوڑ دیا کہ کہیں عینی باجی کو دیر نہ ہو جائے۔۔ ایک کاشف جسے ہمیشہ دوسروں کے کام آنا ان کی مدد کرنا اچھا لگتا تھا جزبہ ایثار سے بھڑا ہوا کاشف جبکہ انجبین اپنے سے آگے کوئی نہیں کوئی بھی ہو چاہے اپنا ہو یا غیر۔۔۔۔
عینی اور کاشف کے جانے کے دو گھنٹے کے بعد انجبین سو کر اٹھی اور یہ دیکھ کر کے گھر کا تمام کام ہو چکا ہے وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔۔۔۔ یہ خوشی جلد ہی مٹ گئی جب دیکھا کچن میں کہ ناشتہ اسے خود
تیار کرنا پڑے گا۔۔۔۔
………………………………….
انجبین کیا حال بنا رکھا ہے تم نے گھر کا؟ تمھیں خدا کا خوف ہے کہ نہیں, میں پورا گھر صاف کر کے اسکول گئی تھی تم نے تو گھر کا ستیاناس کر کے رکھا ہوا ہے یہ سب کیا ہے؟ ماں گھر کے اندر داخل ہوئی گھر کی حالت دیکھ کر سر پیٹ کر رہ گئی ۔ لیکن انجبین کے تو جیسے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی طرح آرام سے وہ صوفہ پہ نیم دراز تھی اور مزے سے پاستا کھانے میں مصروف تھی۔ ماں پر ایک نظر ڈالی اور پھر کان میں لگا ہیڈ فون نکال کر بولی,
انجبین: اور نہ بنا کر جائیں ناشتہ میرے لیے, بس مجھے بھوک لگی تھی اپنے لیے پاستا بنا رہی تھی تو یہ سب ہو گیا۔۔نوالہ لیتے ہوئے بولی انجبین اور نوالہ بھی اپنے منہ سے بڑا۔۔۔ ماں نے افسوس سے دیکھا انجبین کو اور گھر میں پھیلا ہوا سامان سمیٹنے لگی۔۔۔ ماں کو کام کرتے دیکھ کر بھی انجبین کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ کھانا کھا کر برتن ویسے ہی کچن میں رکھ کر کمرے کی طرف چل دی, ماں نے آواز دی کے اب مدد ہی کر دو تو کمال بے نیازی سے بولی,
انجبین: فاریہ کردے گی آکر آپ کیوں زحمت کرتی ہیں۔ ریلکس کریں۔۔
اجنبین کا یہ رویہ اور مزاج دیکھ کر ماں کو اور غصہ آگیا لیکن وہ کیا کر سکتی تھیں بس بابا کو بتانے کی دھمکی دینے کے علاوہ۔۔۔
اسی بحث کے دوران فاریہ بھی گھر آچکی تھی اور گھر کا ماحول دیکھ کر اسے معاملے کی جلد ہی سمجھ آگئی۔ فاریہ نے اپنا بیگ رکھا اور ماں سے جھاڑؤو لے لیا اور کام کرنے لگ گئی, انجبین نے ایک متکبرانہ سی نگاہ ڈالی فاریہ پر اور مزے سے ٹہلتی ہوئی کمرے میں آگئی۔۔۔ انجبین کے ایگزمز ہونے میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کا وقت رہتا تھا اس لیے وہ ابھی اتنی پریشان نہیں تھی, ابھی تو وہ انجوائے کر رہی تھی۔
پڑھائی کے علاوہ انجبین میں کوئی خوبی نہیں تھی مگر ایک بات ضرور تھی کہ جو بات ہوتی تھی صاف کہ دیا کرتی تھی, اس نے کبھی کوئی بھی بات دل میں نہیں رکھی تھی۔۔۔
کمرے میں آتے ہی انجبین نے اپنی سہیلی جبین کو کال کر کے گزشتہ دو تین دن میں ہونے والے تمام باتیں اس سے شئیر کرنے لگی۔۔۔۔
دفتری کاموں اور کلاس سے فارغ ہو کر زیان پہلے مارکیٹ چلا گیا۔ وہاں سے سلسبیل کے لیے بہت ساری چاکلیٹ اور چپس لے کر پہلے گھر دینے چلا گیا, بہن کا شاپنگ والا سامان لے کر آنا ہے یہ بات وہ یکسر بھول گیا۔ گھر آنے کے بعد اسے یاد آیا کے شمائلہ نے کوئی کام بولا ہے۔
زیان: شمائلہ میں بیگز نہیں لایا آو اب جا کر لے آتے ہیں میں اکیلا جاؤ گا تو عجیب لگے گا نا۔۔
شمائلہ کچن میں پکوڑے بنا رہی تھی, اس نے وہیں سے آواز دی کہ نائلہ آپی کو لے جاؤ اور سبیل بھی گھوم آئے گی مجھے ابھی گھر کے بہت سے کام نبٹانے ہیں۔۔ نائلہ آپی تو جیسے تیار ہی بیٹھی ہوئیں تھی, وہ چلنے کو تیار ہو گئی اور سلسبیل بھی اپنا ذکر سنتے ہی بھاگ کر ماموں کے پاس آگئی اور دونوں بازو کھول کر کھڑی ہو گئی, اس کا مظلب تھا کہ اب اسے اٹھا لیا جائے۔
زیان: میں پھر کسی کروں گا رونا نہیں۔
سلسبیل: آیشتا کلنا ماموں میں نہیں لوتی پھیل۔۔سلسبیل ماموں سے چپک گئی تھی۔۔۔
بہن اور بھانجی کو ساتھ لیے اب زیان انجبین کے گھر کی طرف جا رہا تھا, مونسٹر کے گھر۔۔ بہن ساتھ نہ آتی تو شاید زیان بھول کر بھی کبھی اس طرف کا رخ نہ کرتا۔۔
نائلہ جو بہت دن کے بعدشہر کے اس حصہ میں آئی تھی وہ اس جگہ کو بدلے ہوئے دیکھ کر کافی حیرت زدہ تھی۔۔۔
نائلہ: زیان یاد ہے ابا کے ساتھ جب ہم ادھر آتے تھے, تم اس پارک سے نکلتے ہیں نہیں تھے۔۔۔ نائلہ کو گزرا ہوا وقت یاد آنے لگا تھا۔۔ سب کتنے خوش تھے اور اپنی زندگی میں مگن تھے۔ اور پھر جیسے قیامت ٹوٹ گئی اس ہنستے بستے گھر پر۔۔ نائلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وہ سلسبیل سے نظر نہیں ملانا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی اتنی سی عمر میں دکھوں اور تکلیفوں سے آشنا ہو۔۔ وہ تمام کرب جو نائلہ نے برداشت کیا تھا اپنے بابا کے چلے جانے کے بعد اس کا سایہ بھی وہ اپنی بیٹی پر پڑنے نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔۔
زیان نے بہن کی اداسی دیکھی تو سلسبیل کو چھیڑنے لگا تا کہ وہ لڑائی کرے اور گاڑی میں یہ اداسی کا ماحول جو بنا ہوا ہے وہ ختم ہو جائے۔
سلسبیل: ماموں میں آپ تو کھا جاؤں دی نندے نندے آخ نندے۔۔۔ سبیل کی باتوں سے گاڑی کے اندر ہنسی اور زیان کے کہکہے گونچ رہے تھے, انہیں باتوں کے دوران وہ لوگ انجبین ” مونسٹر ” کے گھر کے سامنے آچکے تھے۔۔
نائلہ اور سبیل گھر کے میں گیٹ کے سامنے ہی پہنچی تھی کہ اندر سے عابد باہر نکل آیا اس نے زیان کو پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا اور عینی نے اسے بھی بتایا تھا کہ دوست کا بھائی آئے گا اپنا کچھ سامان لینے کے لیے۔۔۔
عابد: آجائیں آپ لوگ اندر ہی۔
زیان: نہیں بس بیگز دے دیں۔ ہمیں تھوڑی جلدی ہے۔۔ زیان کی بات پوری ہونے سے قبل سلسبیل گھر کے اندر جا چکی تھی, نائلہ نے بہت کوشش کی کے روک لے لیکن سبیل یہ کہتے ہوئے اندر چلی گئی کہ,
سلسبیل: ماموں کہ لے اندر آئیں میں آدی۔۔۔ گھر کے لان میں بھاگتی ہوئی سلسبیل اور اس کے پیچھے نائلہ۔۔ کیا ہی خوب منظر تھا۔۔ عابد نے زیان کو بھی اندر آنے پر رضامند کر ہی لیا اور وہ دونوں بھی اندر آگئے۔
گھر میں کسی بچے کی آواز سن کر تو جیسے سب لوغ الرٹ ہو گئے اور اپنے اپنے کام کاج چھوڑ کر سب ہی لان میں نکل آئے جہاں ننھی سی پری کو گھومتا دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ یہ کون ہے اور ہمارے گھر کہاں سے آگئی۔ جس گھر میں سات سالوں سے اس خوشی کا انتظار ہو رہا تھا وہاں کسی بچے کا آنا اور یوں گھومنا۔۔ اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے جن کے اپنے آنگن یا کسی اپنے بہت پیارے کا گھر ان خوشیوں کو ترس رہے ہوں۔
نائلہ نے پکڑنے کی کوشش ترک کر دی تھی وہ اب انجبین اور اس کی امی سے مل رہی تھیں اور اپنا تعارف بھی کروا رہی تھی۔۔ تعارف کے بعد سب لوگ اندر بیٹھک میں چلے آئے, انجبین کی امی چائے بنانے کے لیے چلی گئی جبکہ اس کے والد اور عابد بھائی زیان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔۔۔
سلسبیل موقع دیکھ کر ٹی وی لاؤنچ میں نکل گئی جسے روکتے روکتے نائلہ بھی اس کے پیچھے باہر آگئی۔۔۔
سلسبیل خود سے ہی رشتے بنانے میں ماہر تھی, باہر آتے ہی انجبین کی امی کے پاس چلی گئی اور کہنے لگی,,, نانی آپکے گھر میں مونشتر ہے؟؟
مونشتر کیا بیٹی؟ یاسمین بیگم سلسبیل کی بات نہ سمجھ سکیں اور حیرت سے دیکھنے لگیں۔ امی یہ مونسٹر کہنا چاہتی ہے فاریہ نے سمجھایا۔۔
اجنبین کی امی: نہیں بیٹی یہاں تو کوئی مونسٹر نہیں ہے۔
نائلہ: بری بات سبیل آپ ایسی بات کیوں کر رہی۔
اتنی دیر میں انجبین بھی وہاں آگئی تھی اور سلسبیل کو بہت پیار سے دیکھنے لگی۔
سلسبیل: کوں ماما ماموں نے کہا تھا ادھل مونشتر ہے میں اش شے بات نئیں کلو دا۔۔۔
انجبین غصہ سے لال پیلی ہو گئی وہ جانتی تھی کہ مسٹر زیان نے یہ بات کس کے بارے میں کی ہو گی۔۔ وہ مٹھیاں بھینج کر ڈرائینگ روم کی طرف دیکھنے لگی جہاں بیٹھا ہوا زیان نہ صرف اس سب بات کو سن رہا تھا بلکہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہا تھا۔
اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے میں انجبین زرا دیر نہیں کیا کرتی تھی, بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے ہوئے انجبین بولی۔
انجبین: ادھر کل جن آگیا تھا اس وجہ سے موسٹر بھی آیا تھا, اس “جن” کی مونچھیں بہت لمبی لمبی تھیں۔۔
سلسبیل: ماموں جیشی۔۔۔ سبیل کے منہ سے اچانک نکل گیا۔۔
ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا۔۔ بس انجبین کی نظریں زیان کی نظروں سے مل گئی تھی۔ دیکھنے کا یہ مقابلہ زیان جیت چکا تھا۔۔ انجبین زیان کی نظروں کی تاب نہیں لا سکی تھی, اور وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ اسے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں بھی نمی سی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ زیان کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ جس کے سامنے انجبین خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔
چائے پینے کے دوران اور گھر سے رخصت ہوتے ہوئے بھی انجبین زیان کے سامنے بلکل بھی نہیں آئی وہ پہلی بار ایسی عجیب سی حالت میں تھی, وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اس احساس کو کیا نام دے۔۔۔
………………………………
گھر آنے پر نائلہ نے جب شمائلہ کو بتیا کے کیسے سلسبیل نے وہاں جا کر ایسی ایسی باتیں کی ہیں, تو شمائلہ کو تو جیسے یقین ہی نہیں آیا اس بات کا۔ مگر جب زیان نے نے تصدیق کی ان سب باتوں کی تب جا کر ماں اور بہن نے یقین کر لیا۔ نائلہ جیسے جیسے باتیں بتاتی جا رہی تھی شنائلہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی اور سلسبیل شرما رہی تھی ماں سے اپنی شرارتوں کا ذکر سن کر۔۔۔ سب ہنسنے ہنسانے میں مصروف تھے لیکن زیان خاموش تھا اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر گھوم رہا تھا جب اس کی نظر لڑی تھی انجبین کی نظر سے۔۔ انہیں خیالوں میں ڈوبا ہوا زیان اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔۔۔۔
نائلہ: اسکو کیا ہوا؟ نائلہ نے زیان کو جاتے دیکھا اور حیرت سے بولی۔
شمائلہ: سونے چلا گیا ہے, صبح سے نکلا ہوتا ہے گھر سے۔
اس کے متعلق مجھے نہیں سوچنا چاہئے۔ ایسے کیسے میں کسی کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔ واش بیسن کے سامنے کھڑے ہوئے زیان نے خود سے سوال کیا۔ اپنے آپ کو آئنینے میں دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے جیسے ساکت ہو گیا۔۔ اپنی گھنی مونچھوں کو دیکھ کر اسے ہنسی آگئی اور سبیل کا وہ آخ ماموں نندے کہنا بھی اس نے سوچا کل جا کر پہلے اپنی صورت حال کو درست کرے گا۔۔ سونے سے پہلے وہ سبیل کو ملنے نیچے گیا اور پھر واپس آگیا کیونکہ اس کی لاڈلی سو چکی تھی ۔۔۔۔ مزید ایک تھکن سے بھرپور دن اختتام
کو پہنچا۔۔
______________
انجبین کالج سے رول نمبر سلپ لینے آئی تھی اس کے ساتھ اس کی بچپن کی سہیلی جبین بھی تھی۔ نرسری سے لے کر آج بی اے کی رول نمبر سلپ حاصل کرنے تک کے تمام سالوں میں اس تمام وقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہی تھیں اس کے بعد جبین کو شادی کر کے دوسرے شہر چلے جانا تھا۔۔۔ اس موقع پر دونوں دوستیں بے حد جذباتی بھی ہو رہی تھی۔ بہت سا وقت انسان کسی خالی کمرے میں یا کسی بے جان چیز کے ساتھ بھی گزار دے تو اس کو ان چیزوں سے اس خالی کمرے سے بھی انس ہو جاتا ہے۔۔۔ ایک الگ سی الفت۔۔ ان کی عدم موجودگی میں انسان خود کو نا مکمل تصور کرتا ہے۔۔اور یہاں تو معاملہ دو دلوں کا تھا دو انسانوں کا تھا۔۔۔ سب سے بڑھ کر یہ بات تھی دوستی جیسے انمول رشتے کی۔۔۔ سلپ لینے سے پہلے دونوں کیفی ٹیریا چلی گئیں جہاں وہ کلاسس “بنک” کر کے چلی جایا کرتی تھی اور کرسیوں پر بیٹھنے کے بجائے درخت کے نیچے زمین پر بیٹھا کرتی تھی۔۔ دونوں وہ چیز آرڈر کیا کریں تھی جو دوسری کو کہانے کا دل کرتا تھا۔ اگر برگر انجبین کو کھانا ہے تو یہ جیبین آرڈر کرے گی۔۔ اسی طرح اگر جبین کو “چاٹ” کھانے کا دل کر رہا ہے تو وہ انجبین منگوائے گی۔۔۔ آج بھی دونوں اپنی پسند کی جگہ پر آبیٹھیں بھی اور آرڈر میں جسٹ “کولڈ ڈرنکس”تھی۔
جبین نے گراونڈ کی گھاس کو ہاتھوں سے توڑتے ہوئے انجبین کی جانب دیکھا اور سوالیہ نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ جب انجبین نے بہت دیر تک کوئی توجہ نہیں دی تب جبین نے پہلا سوال کیا۔
جبین: کون لڑکا ہے وہ؟
انجبین: کون لڑکا؟ کس کی بات کر رہی ہو؟؟ انجبین نے نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا۔
جبین: وہی جس کا کل کال پر بتانے لگی تھی۔۔۔
انجبین کو تو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔۔۔ اور ایک دم سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔۔
انجبین: اوہ وہ بڑے بھائی کے آفس سے آیا تھا پہلی بار یقین کرو اتنا کھروس آدمی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔۔ اور اس کی آنکھیں ایسے چمکتی ہیں کہ بس۔۔
جبین: آہ تو ایک ہی ملاقات میں تم اس کی اتنی بڑی فین ہو گئی ہو؟؟ جبین نے انجبین کو ستانے کی پوری کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔
انجبین: یار,,,, ایک بار ہوتی تو خیر تھی لیکن وہ تو جیسے پیچھے ہی پڑ گیا ہے۔ ۔ کل ہمارے گھر آیا اس سے پہلے مارکیٹ میں ملا۔ ۔ اس کی بہن میرے ہونے والی بھابھی کی دوست ہے۔ ۔ ۔ اور جانتی ہو۔ ۔ ۔ ۔
جبین: کیا کیا کیا جانتی میں نہیں جانتی۔ اس دوران ان کی کولڈ ڈرنکس بھی آگئی تھیں۔ ۔
کل وہ ہمارے گھر آیا تھا اپنی بہن کا ایک بیگ لینے شاپنگ کے بعد ہمارے بیگز میں مکس ہوگیا تھا۔ اور ساتھ بڑی بہن اور بھانجی کو بھی لایا تھا۔ ابھی انجبین کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ جبین بیچ میں بول پڑی۔۔۔
جبین: اوے ہوئے بڑی بہن بھی لے آیا واہ واہ کیا بات جناب کی اور مجھے اب بتایا جا رہا ہے۔۔ جبین غصہ میں اٹھ کر وہاں سے جانے لگی تو انجبین نے کمر میں ایک زور دار دھپ رسید کی, ایسی زور دار کہ ہاتھوں سے بوتل گرتے گرتے بچی۔۔
کالج میں سہیلی سے لڑائی کے بعد سے انجبین کا موڈ بہت خراب تھا۔
گھر آتے ہوئے بھی گاڑی کا معمولی سا ایکسیڈینٹ ہوا جس کی وجہ سے مزاج مزید بگڑ گیا تھا۔۔۔
انجبین: فاریہ کدھر ہو تم اور یہ میرے بیڈ پر سے اپنے کپڑے اٹھاؤ جلدی سے۔
( انجبین نے بہن کے کپڑوں کو اٹھا کر دور پھینک دیا اور خود بستر پہ دراز ہو گئی)
انجبین کے خیالات پر زیان ہی سوار تھا, سلسبیل کا مونستر کہنا اور زیان کی عجیب سی نظریں جیسے کھا جائے گا ابھی۔۔۔
لڑکیوں کے اندر یہ حس شاید بہت ہی تیز ہوتی ہے جس کے باعث وہ مرد کی ہر نگاہ کا مطلب باآسانی جان لیتی ہے۔۔ کچھ ایسا ہی زیان کی آنکھوں میں تھا لیکن وہ بھوک نہیں تھی جس کے باعث اس کا دیکھنا انجبین کو اور زیادہ الجھا رہا تھا۔
انجبین ابھی انہیں سوچوں میں گم تھی اور بہت سکون کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی کہ کوئی چیز اس کی کمر پر آکر گڑی اور انجبین درد سے بلبلا اٹھی۔۔ یہ وار فاریہ کی طرف سے تھا, کپڑے پھینکنے کے جواب میں اس نے لیپ ٹاپ کمر میں دے مارا تھا۔۔
اس سے پہلے کے انجبین کچھ کہتی انجبین کے والد کمرے میں داخل ہو گئے اور ان کے چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔
بابا کو پریشان دیکھ کر انجبین بھی گھبرا گئی اور اپنی کمر کے درد کو بھول کر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔۔
**********************