وہ اسے آواز دے بھی تو کیسے دے سکتی تھی …نہ ہاتھ کھلے تھے اور نہ منہ …
آج وہ حزیفہ سے مدد کی طلبگار تھی ۔۔اس حزیفہ سے جسکی بے عزتی کرنے میں وہ باعث فخر محسوس کرتی تھی ۔۔وہ حزیفہ …جسکو نیچہ دکھانے سے اسکے چہرے پر مسرت پھیل جاتی …
لیکن اسے کیا پتا تھا کہ یہ وہی حزیفہ تھا ۔۔جو اسکی ایک آہ پر تڑپ اٹھتا تھا …اسکے چہرے پر اداسی کے رنگ وہ محسوس کر سکتا تھا …۔ان رنگوں کو پہچان سکتا تھا جو صرف اسکے نام پر تابی کے چہرے پر نمودار ہوتے تھے …
اب اسکے سر سے خون رسنے لگا تھا …حزیفہ اسکی آنکھوں سے دھیرے دھیرے اوجھل ہو رہا تھا …
بے بسی سے وہ تھک کر گرنے کی سی حالت میں بیٹھ گئی …
وہ جو راستے کو دیکھ کر سوچنے میں مصروف تھا …۔اچانک اسے اپنے آس پاس تابی کے ہونے کا احساس ہوا ۔۔فوراً اس نے چاروں جانب نظر دوڑانا شروع کی ۔۔
تابین …اسنے اسے پکارنا چاہا ۔۔تاکہ تابی تک آواز جا سکے …
کہاں ہو تم تابین …وہ زور سے چیخا …۔
شاید تابین کہیں چھپی ہو اور اسکے آواز لگانے پر دوڑتی ہوئی اسکی بانہوں میں آجائے ۔۔یہ اسکا وہم تھا ۔۔
مگر ایسا بھی کبھی ہوا ہے کیا ۔۔جو ہم سوچیں ۔۔جسکو خواہش کرنا چاہیں وہ مل جائیں …۔؟
ہر گز نہیں …بعض اوقات جو ہم سوچتے ہیں ویسا تو کبھی ہوتا ہی نہیں بلکہ اسکے الٹ ہو جاتا ہے ۔۔
اور اگر ایسا ہوتا تو آزمائش کس چیز کا نام ہے …انسان جو غرور اور فخر کی سیڑھی سے اترنے کے بجائے اور بلندی پر پہنچنے لگتا ہے آخر اسے پتا کیسے چلے ۔۔کہ وہ تو مٹی کا ایک مجسمہ ہے جسے عنقریب مٹی میں ہی دفن ہونا ہے تو غرور کس بات کا …وہ جو اللّه کی مرضی کے خلاف فیصلے کرنا شروع کر دیں ۔انھیں پتا کیسے چلے گا کہ اے بندہ ہوگا وہی جو رب کائنات چاہے گا ۔۔جس میں تو بھلا چاہے وہ نہیں بلکہ جس میں تیرا بھلا ہو ۔۔وہی جوگا ۔۔
بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔۔
۔****************۔
سب راستوں پر پہرے لگا دیئے گئے تھے جگہ جگہ پولیس اہلکار تعینات کر دیئے گئے تھے جو آنے جانے والی ہر گاڑی کو چیک کرنے میں مصروف تھے …
دور سے ہی ڈرائیور کو کالی وردی میں کھڑے پولیس اہلکار نظر آنے لگے ۔۔جلدی سے گاڑی کو روکتے ہوئے اس نے ساتھ بیٹھی میڈم کو ہوشیار کرنا چاہا …
ان سالوکو اب کیسے پتا چل گیا …۔اب کیا کیا جائے …غصے میں اس نے دانت پیستے ہوئے کہا …۔
باھر نکلتے ہوئے اس نے اپنے سینئیر کو فون ملا کر حالات کے بارے میں آگاہ کرنا چاہا …
وہ بات کرتے ہوئے پیچھے کی جانب لڑکیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے چکر کاٹنے لگی جبھی اس لڑکی نے دروازے کو لاتیں لگاتے ہوئے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا …
اسکو اور غصہ آنے لگا …نظر انداز کرتے ہوئے وہ فون کی جانب متوجہ ہو گئی ۔۔مگر وہ پھر بھی زور سے دروازہ کو لاتیں لگانے لگی کے خدا کے لئے بات تو سن لیں کسی کی زندگی اور موت کا سوال ہے …
۔**************۔
اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے ۔۔وہ تو بہت سمجھدار ہے ہاتھ پاؤں مار کر کچھ بھی کر سکتی ہے مگر وہ کچھ کیوں نہیں کر رہی …نہ جانے وہ کہاں ہوگی …میں کیا کروں …وہ روتے ہوئے خود کو ملامت کرنے لگی …
وہ بے بس اور مجبور ہو سکتی ہے کیا پتا …اس کے اختیار میں نہ ہو …ماروی نے اسے سمجھانا چاہا ۔۔جس نے رو رو کر اپنا برا حال کیا تھا صرف تابی کے گمشدہ ہونے پر …
دونوں میں ایک دوسرے کی جان جو بستی تھی ۔۔ایک تکلیف میں ہو تو دوسرا کیسے پر سکون رہ سکتا ہے ۔۔شاید اسی کو تو کہتے ہے دوستی …
تو پھر …اللّه جی کے اختیار میں تو ہے نا ۔۔وہ چاہیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے پھر وہ کیوں کچھ نہیں کررہے …۔۔
وہ بھی حال دیکھ کر بھال کرتے ہیں …۔انھیں پتا ہوتا ہے کہ کس وقت میں کیا کرنا ضروری ہے ۔۔بس کسی کو فرشتے کی صورت میں بھیج کر اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو کسی کی دعا کے زریعے ۔۔تم دعا کرو وہ انشاءلله ضرور پوری کریں گے ٹھیک ہے …۔ماروی اسے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہوئے سمجھانے لگی …
۔****************۔
پولیس پر نظر پڑتے ہی ان سب نے ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیئے …
کہیں یہ شور پولیس کے کانوں تک نہ پہنچے ڈرائیور نے گاڑی کو ریورس کرنا شروع کیا …
جلدی چلو …کہیں دیر نہ ہو جائے …میڈم کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کے بھی چھکے چھوٹ گئے …
وہ موڑ لیتا جبھی …حزیفہ کی گاڑی نے انکا راستہ روک دیا …۔
گاڑی کا دروازہ بند کیئے بغیر ہی وہ غصے میں بپھرا گاڑی سے باھر نکلا ۔۔
ڈرائیور پسینے میں شرابور ہارن پے ہارن دیئے جارہا تھا …
شور سنتے ہوئے پولیس کے اہلکار بھی اس جانب متوجہ ہوئے …
دونوں ہی طرف سے خطرہ تھا ۔۔
جبھی اس جانب حزیفہ اور دوسری جانب پولیس کو دیکھتے ہی ڈرپوک ڈرائیور نے گاڑی سے اترتے ہوئے دوڑ لگانا چاہی …
ارے یہ …اب تو ڈرائیور کو دیکھ کر میڈم نے بھی راہ فرار اختیار کرنے کا سوچا …
حزیفہ کو تو تابین کی پڑی تھی جو نہ جانے کس حال میں تھی …وہ گاڑی کے پچھلے دروازے کو لاتیں مارنے لگا ۔۔جب کام نہ بنا تو آخر تنگ آکر زمین پر پڑی اینٹ اٹھاتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ اسکا نشانہ بنایا جس سے تالا کھل گیا ۔۔
کہتے ہیں دل سے جس کام کا ارادہ کیا جائے تو اسے کرنے میں رکاوٹ پیش نہیں آتی …مگر یہاں تو کام کر رہا تھا صرف غصے بھرا دماغ …
ہے پکڑو اسے …جانے نہ پائے …ایس ای پی نے ایک ہاتھ سے ڈرائیور کو پکڑے ۔۔دوسرے کو میڈم کو پکڑنے کا اشارہ کیا …
بے شمار لڑکیوں کو خستہ حالت میں دیکھ کر اسکا سر چکراگیا …اسے تلاش تھی تو صرف تابی کی …
وہ گاڑی پر چڑھ دوڑا …ایک ایک لڑکی کو جانچتے ہوئے اسے تلاش کرنے لگا ۔۔
۔*************۔
بر وقت وہاں حدید سمیت سب پہنچ گئے …جنکی بچیاں لاپتہ تھیں …
وہ بھی آس پاس پاگلوں کی طرح تابین کو تلاش کرنے لگا …
نہ ملنے پر …گاڑی کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔
وہ جو سر پر چوٹ لگنے سے نیم بیہوشی کی حالت میں پڑی تھی ۔۔اچانک شور شرابا ہونے کو وجہ سے اسنے آنکھیں کھولنا چاہی ۔۔جن میں بیحد بوجھ محسوس کرتے ہوئے وہ کھول نہ پائی ۔۔ہاتھ بندھے ہونے کے باعث وہ اٹھ بھی نہ پائی ۔۔بے بسی محسوس کرتے ہوئے ہانپتے ہوئے اس نے اپناسر ۔۔دوبارہ نیچےجاٹکایا ۔۔
ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے اسکی نظر تابین پر پڑی …
ہاتھ بندھے ہوئے ۔۔منہ پر پٹی بندھی ہوئی۔۔یہ تو وہ تابین نہیں ہو سکتی ۔۔
تابین ۔۔ایک لمحہ زائعہ کئے بغیر وہ اسکی جانب لپکا …
تابی ۔۔آنکھیں کھولو …اسکا سر اپنے سینے سے لگائے اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے اسے ہوش دلانے لگا …
کسی اپنے کا لمس محسوس کرتے ہوئے اس نے مندی مندی سی آنکھیں کھولنا چاہی …
سامنے حزیفہ کا دھندلا چہرہ دیکھتے ہوئے اسکے ذہن میں جھماکا ہوا ۔۔یوں لگا جیسے یہ وقت پہلے بھی گزر چکا ہو ۔۔
ہوش میں آؤ ۔۔کچھ تو بولو …۔اسکے ہاتھ رسی سے آزاد کرتے ہوئے وہ پاگلوں کی طرح کہنے لگا ۔۔
تابین کی حالت دیکھ کر اسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر آئیں ۔۔
تابین …۔موقعے پر ہڑ بڑاتا ہوا حدید بھی پہنچ گیا …
کیا ہوا تابی …وہ اسکے ہاتھ کو رگڑتے ہوئے بولا …
حدید پر نظر پڑتے ھی تابین میں گویا زندگی کی رمق دوڑ چلی تھی کسی اپنے کو دیکھتے ہوئے تابین کا دل چاہا وہ چیخیں مار کر روئے ۔۔وہ اس سے لپٹ گئی ۔۔اسے آس پاس سے خوف محسوس ہونے لگا ۔۔
حزیفہ حیران رہ گیا …مطلب ۔۔اسکی کوئی اہمیت ہی نہیں …
مجھے لے چلو یہاں سے پلز …۔۔وہ حدید سے لپٹتے ہوئے بے تحاشا روتے ہوئے منتیں کر نے لگی ۔۔۔
خوف کے مارے وہ روتے روتے بیہوش ہو گئی …
۔*************۔
صبح ہو چلی تھی ۔۔۔دن تو ایسے کٹا گویا صدیاں بیت گئی ہوں ۔۔ہر طرف خبر عام ہو چکی تھی ۔اخبارات ۔۔ٹی وی میں لڑکیوں پر تشدد اور انھیں درندگی کا نشانہ بنانے والے گروہ کا پتا لگایا جارہا ہے ۔ایسی خبریں جگہ جگہ پھیلی تھیں ۔۔
تابین مل تو گئی تھی …مگر اس حالت میں نہ تھی جیسا وہ ہمیشہ رہتی تھی تھی ۔۔اسے جلد از جلد ہسپتال منتقل کیا گیا ۔۔
تابین کے ملنے پر ایک طرف خوشی بھی تھی اور دوسری جانب اسکو اس حالت میں دیکھتے ہوئے دل پھٹ سا جاتا …
تابین ڈرپ اور انجکشن کے زریعے دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی …اور وہ ہاتھ کی مٹھی بنائے اسکے سامنے بیٹھ کر اسکا جائزا لینے لگا ۔۔
وہ چہرہ جو ہر وقت تازہ دم ۔۔پر مسرت ر ہتا تھا …جس کو دیکھتے ہوئے وہ جی اٹھتا تھا …اس پر کئی قسم کے نشانات ہونے کی وجہ سے اب وہ بے رونق سا تھا ۔۔گویا صدیوں کی بیمار ہو ۔۔
ہاتھوں پر سیخ تپا کر جلایا گیا تھا جو اب سفید پٹیوں سے پوشیدہ تھیں ۔۔
سلکی بالوں کو بےدردی سے کاٹا گیا تھا جنکو ہر وقت وہ اپنے کلیجے سے لگائے رکھتی تھی ۔ ۔۔
وہ منمنائی …تابین آنکھیں کھولتی اس سے پہلے وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا ۔۔تابین کو اچھا نہیں لگتا نہ کہ میں اسکی نظروں کے سامنے رہوں …۔ہاتھوں کی پشت سے اپنی آنکھ میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے وہ گھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔۔
۔***************۔
وہ اسے کال ملا کر تھک گیا تھا مگر کسی نے بھی اٹھانا گوارہ نہیں کیا ۔۔۔
آخر کار گھر کے ملازم سے پتا کرواکر وہ صبح صبح ہسپتال پہنچ گیا تابی کو پوچھنے ۔۔۔
وہ جونہی اندر داخل ہوا ۔۔گیٹ میں حزیفہ سے اسکا سامنا ہوا ۔۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔جبھی باسط نے کچھ بولنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ حزیفہ آنکھیں پھیرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
عجیب ہے یہ انسان بھی ۔۔۔سب کی سمجھ سے باھر ہے یہ ۔۔۔وہ اسکی پشت کو گھورتے ہوئے بڑبڑایا ۔۔۔
۔*************۔
اتنے دن گزر چکے اس واقعے کو مگر تابی کی طبیعت میں کچھ سدھار نہ آیا ۔۔وہ جو رات میں بھی دن کا سماں سمجھ کر باھر نکلتی تھی ۔۔اب دن میں بھی وہ باھر جانے سے ڈرتی تھی ۔۔
وہ جو رات میں اندھیرا کر کے سوتی ۔۔اب اجالے بھی اسے راس نہ آتے ۔۔۔
طبیعت کے بگاڑ کی وجہ سے اس نے یونی جانا بھی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔
ٹوٹے دل کے ساتھ اس نے یونی میں قدم رکھا ۔۔۔جب دل مطمئن نہ ہو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ۔۔۔
وہ ڈیکس پر سر رکھے اداس سی بیٹھی تھی ۔۔۔ایک طرف تابی کی پریشانی تو دوسری طرف رزلٹ کی پریشانی ۔۔۔
اہم ۔۔اہم ۔۔۔۔پروفیسر کی آواز پر وہ جلدی سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔
یہ آپ کی سونے کا وقت ہے ۔۔۔۔؟
ڈر کے مارے وہ ٹھیک سے جواب بھی نہ دے پائی ۔۔صرف نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔۔
میں چاہے تو تم کو کلاس سے گیٹ آؤٹ بھی کر سکتی ہے ۔۔۔پروفیسر کے اس لہجے میں بات کرنے سے سب نے ہنسی دبائی ۔۔۔
یہ تھے پروفیسر حمید ۔۔۔غضب کا غصہ دکھانے والے ۔۔انکی بات کی مخالفت اگر کسی نے کی تو یا تو وہ اس یونی سے باھر یا ایگزیم میں فیل ۔۔۔ڈر کے مارے کوئی زیادہ تر جواب بھی نہ دیتا انھیں ۔۔۔مؤنث کو مزکر میں اور مزکر کو مؤث میں تبدیل کرنا ۔۔۔انکے جنس میں پایا جاتا ۔۔جس سے سب سٹوڈنٹس پیٹ پر ہاتھ رکھے دل ہی دل میں قہقے لگاتے ۔۔
ویل آپ لوگوں کو بتانا یہ تھی کہ نیکسٹ ایگزیم میں آپ لوگوں نے بہت زیادہ محنت کرنا ہے تاکہ آپکا جی پی اے اچھا آئے ۔۔جسکی وجہ سے آپ لوگوں کو جاب ملنے میں بھی آسانی ہوگا۔۔۔وہ ہاتھ باندھتے ہوئے سب کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنے لگے ۔۔
سر میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں ۔۔۔حدید نے کھڑے ہوتے ہوئے انکے لہجے میں پوچھا جس سے باسط سمیت سب کی ہنسی چھوٹی ۔۔
سر جی پی اے کا تعلق ہماری جاب سے کیسے ہوئی ۔۔اور اگر ہمارا گریڈ اے پلس نہ آئی تو ۔۔۔۔؟
گڈ ۔۔۔مجھے تم سے اسی سوال کا امید تھا ۔۔وہ اپنے چشمے کو دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے طنزیہ کہنے لگے ۔۔
پہلے تم اپنا دماغ بازار میں فروخت کرو ۔۔بہت اچھا قیمت وصول ہوگا ۔۔کیوں کہ اس لحاظ سے تو تمہارا دماغ بلکل خالی ہے ۔۔اور خالی چیزوں کا قیمت تو بہت اچھا آتا ہے ۔۔۔
تو اس لحاظ سے تو سر آپ بھی میرے ساتھ چلیں ۔۔۔آپکا دماغ تو دگنی قیمت کرے گا ۔۔۔آخر میں بھی تو آپکا سٹوڈنٹ ہوں نہ ۔۔
اس بات پر سب نے ہنسنا شروع کیا ۔۔جس سے پروفیسر صاحب تپ اٹھے ۔۔
تم میرے ساتھ بد تمیزی کر رہا ہے ۔۔۔میں تمہارے کو فیل کر دے گی ۔۔۔۔
اوکے سر کردے فیل ۔۔۔اسنے بھی رسانیت سے جواب دیا ۔۔
تم کو کوئی جاب بھی نہیں دے گا ۔۔۔وہ دھاڑے ۔۔۔
کوئی بات نہیں سر ہم اپنا بزنس کھولے گی ۔۔۔وہ بھی ڈٹھائی سے بولا ۔۔۔
میں تمہاری شکایت لگائے گی ۔۔تم دیکھ لینا ۔۔۔وہ اسے وارن کرتے ہوئے جانے لگے ۔۔
بیسٹ آف لک سر ۔۔۔بلاول بھٹو کو میرا سلام بھی دیجئے گا ۔۔۔پیچھے سے حدید نے آواز لگائی ۔۔۔۔
۔****************۔
تم اب میری پہنچ سے دور ہو ۔۔۔میں جتنا بھی تمہیں اپنے بارے میں مطمئن کر لوں ۔۔۔تم پھر بھی اس بات کا یقین نہ کر پاؤ گی ۔۔۔دیوار پر اسکی بچپن سے لے کر آج تک کی ساری چسپاں کردہ تصویروں سے وہ بات کرتے ہوئے کہنے لگا ۔۔
اب میں تمہارے پیچھے نہیں بھاگوں گا ۔۔۔اب تم میرے پیچھے آؤ گی ۔۔۔
لیکن تب میں تمہارے ساتھ تمہارے جیسا رویہ اختیار کروں گا ۔۔تب تمہیں پتا چلے گا ۔۔مکافات عمل ہوتا کیا ہے ۔۔۔مس تابین صلاح الدین ۔۔۔
چیپٹر کلوز ز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہی اس نے پردہ گرا دیا ۔۔۔۔
۔****************۔
بھائی کیا ہوا آج تو بلاوجہ بات بات پر مسکرا رہے ہیں ۔۔۔خیر تو ہے نہ ۔۔باسط کو مسکراتے دیکھ کر مناہل نے پوچھا ۔۔
ہاں خیریت ہے ۔۔۔۔بس اب تھوڑی زیادہ محنت کرنی ہے ۔۔اس لئے کل کی فکر کئے بغیر آج کو یاد کر کے مسکرا رہا ہوں ۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔۔؟ وہ الجھی ۔۔۔
مطلب تمہیں آنے والے وقت میں بتاؤں گا ۔۔۔بس تم یہ سمجھو کے اب حالات بدلنے والے ہیں ۔۔۔اب ہمارا دور آئے گا ۔۔۔
مطلب آپ مستقبل کو سوچ کر مسکرا رہے ہیں ۔۔۔؟وہ فوراً بولی ۔۔
اتنے یقین کے ساتھ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اب آپ کا دور آئے گا ۔۔۔؟
کل کس نے دیکھا ہے بھائی ۔۔ہوتا وہی ہے جو اللہ پاک چاہئیں ۔۔
بے شک ۔۔۔لیکن کل آج سے مختلف ہوگا ۔۔انشاءلله ۔۔۔باسط نے جواب دیا ۔۔
ہمم ۔۔۔۔انشاءلله ۔۔۔ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اس نے زیر لب کہا ۔۔۔
۔***************۔
کچھ نہ مانوس سی آوازیں سن کر اس نے قدم کمرے سے باھر کی جانب بڑھا دیئے ۔۔۔
اماں ۔۔۔۔۔لاؤنج میں پہنچتے ہی اس نے آواز لگائی ۔۔۔
تابین پر نظر پڑتے ہی مسز احمد اسکی جانب بڑھیں ۔۔۔
تابین ۔۔۔میری جان ۔۔میرا بیٹا کیسی ہو ۔۔۔تابین کو پیار کرتے ہوئے وہ پوچھنے لگیں ۔۔
تابی پوری کی پوری آنکھیں کھولے حیرت سے انھیں دیکھنے لگی۔۔
کیا حالت ہو گئی ہے تمہاری ۔۔۔میرا تو دل پھٹا جارہا ہے ۔۔۔آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کرتے ہوئے انہوں نے تابی کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔
تابی کی آنکھ سے دو موتی گر کر اسکی شال میں پیوست ہو گئے ۔۔
ہیلو تابین ۔۔۔۔میسنی ۔۔۔۔ہاتھ میں بیگ پکڑے کمر پر ہاتھ ٹکائے وہ تابی کے سامنے کھڑی ہو کر اسے پکارنے لگی ۔۔۔
جسکو دیکھتے ہوئے تابین کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔۔۔
زرش ۔۔۔۔بے اختیاری میں اسکے منہ سے نکلا ۔۔۔
۔**************۔