مجاز و ناصر کی طرح رئیس فروغ سے بھی میں کبھی نہیں ملا۔ لیکن ان کا کلام پڑھ کر ہمیشہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے دوست تھے۔ اچھا شعر ایک خوشبو کی مانند ہوتا ہے جو ہواؤں کی لہروں کے سنگ سنگ دُور دُور تک پھیل جاتا ہے۔
رئیس فروغؔ کے شعروں کی خوشبو کی مہک نے میرے ذہن کے دریچوں کو ہمیشہ مہکایا ہے۔ وہ یقیناً ایک دلربا شخصیت کے مالک رہے ہوں گے۔ ان کے بارے میں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ غنائیت ان کی شخصیت پر غالب رہی ہو گی۔ ان کی شاعری میں ایک عجیب قسم کی اداسی ہے۔ دراصل ہم جو اندر سے ہوتے ہیں وہی ہمارا فن ہوتا ہے۔ اندر اور باہر کا ٹکراؤ انسان میں منافقت پیدا کر دیتا ہے اور منافق نہ اچھا انسان ہوتا ہے اور نہ ہی بڑا فن کار بن سکتا ہے۔ یہ عہد خود غرضیوں اور منافقتوں کا عہد ہے اور اس عہد کا ہر تیسرا انسان خود غرض اور منافق ہے۔ یہ اس دور کا ایک المیہ ہے۔ ایک ایسا المیہ جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں ایک شدید گھٹن پھیلی ہوئی ہے۔ جب کسی معاشرے میں شدید گھٹن اور یاسیت نمایاں ہو جائے تو فرد اپنے آپ کو تنہائی کے کہر میں بھیگتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ تنہائی کا یہ زہر انسانوں کو زہریلا بنا دیتا ہے اور پھر یہ تنہائی کاز ہر زندگی کی یکسانیت کی تھکن بن جاتا ہے۔ جس نے پال وابری جیسے شاعر سے کہلوایا:
Its true I am gloomy and miserably
tired of myself and my loneliness
and of these gloomy dawns
in which the soul smokes
I feel the fatigue of an angle weighing on me
رئیس فروغ کے یہاں یہ تلخ تاثر کچھ یوں ملتا ہے۔
میری رگوں کے نیل سے معلوم کیجئے اپنی طرح کا ایک ہی زہر آفریں ہوں میں
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سنّاٹے تک میرا حال تماشا ہے
مکاں میں رہ کے مکینوں سے مل نہیں سکتے
عجیب صورت حالات ہے تمھارے لیے
رئیس فروغ کا شمار یقیناً چند جدید شعراء میں ہے جنہوں نے اردو غزل کو ایک نیا پن بخشا ہے اور اردو غزل کو کرب و آگہی سے روشناس کرایا ہے۔ جو اس عہد کے انسان کا کرب ہے۔ وہ کبھی کبھی اس کائنات سے بھی خوفزدہ نظر آتے ہیں۔
میرے دن تو بیت گئے
اپنے آپ سے ان بن میں
کوئی صبح تلک میرے ساتھ رہے
سبھی اپنے چراغ جلائے ہوئے
رئیس فروغ ایک نہایت ہی حساس فن کار اور ایک اچھے انسان تھے۔ زندگی کی بے انتہا تلخیوں کو انہوں نے اپنے ذہن سے جھٹک دیا مگر پھر بھی یہ غم اور زندگی کی ذاتی اور اجتماعی محرومیاں ان کی شاعری کے اداس لہجے میں نمایاں ہیں۔
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
زندگی یاد رکھنا کہ دو چار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
مرے کارزارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
رئیس فروغ کی غزل کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی ذات کو اکائی بنا کر بات کی ہے جس میں تمام کائنات سمٹ کر اجتماعی صورت حال سے دوچار نظر آتی ہے اور بقول سحر انصاری صاحب کے ان کی غزل Autobiographical ہے۔ انھوں نے اپنی تمام تر محرومیوں، تلخیوں اور زندگی کے تجربات کو غزل کی صورت دے دی ہے۔ اس لئے ان کے ہاں بہت سے بالکل مختلف انداز کے شعر بھی مل جاتے ہیں۔
روئے زمیں پہ چار ارب میرے عکس ہیں
ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں
غزلوں کے علاوہ رئیس فروغ کی نئی آواز کا اندازہ ان کی نثری نظموں سے بھی آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی نثری نظموں میں وسعت زیادہ ہے۔ مختصر ترین نظمیں بھی ایک بڑے تھیم کو پیش کرتی ہیں مثلاً نئے پرندے، انکل، پڑھے لکھے لوگ وغیرہ۔
وہ محبت کو اسم اعظم سمجھتے اور اپنی محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
مجھے اپنے شہر سے پیار ہے
نہ سہی اگر میرے شہر میں
کوئی کوہ سر بفلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں
یہ عظیم بحر
جو میرے شہر
کے ساتھ ہے
مری ذات ہے
اسی طرح ان کی نظم ’’لیاری پیاری‘‘ بھی ان کے اپنے شہر سے محبت کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ غرض رئیس فروغ کو اپنی دنیا کی ہر شے عزیز ہے وہ اس کی بہتری اور سنہرے مستقبل کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ اور اپنا تن من دھن اپنی دھرتی پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اور اسے تر و تازہ و آباد دیکھنے کے متمنی ہیں۔
یہ میرے پودے یہ میرے پنچھی یہ میرے پیارے پیارے لوگ
میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا
ہم اپنی فصل کاٹ رہے تھے تو کھیت میں
اک تازہ فصل کے نئے امکاں بکھر گئے
فصل تمھاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے
اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا
رئیس فروغ کی شاعری میں ایک خاص بات، ایک خاص لہجہ ہے جو اداس ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر خوبصورت شے سے شدید محبت رکھتا ہے۔ وہ زندگی کی کڑی دھوپ میں رہتے ہوئے بھی انسان دوستی کے گیت گاتے رہے یہاں تک کہ بہت تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور وہ رئیس فروغ کی زندگی کے چراغ کو گل کر گیا۔
بقول شمیم نوید:
اوڑھ کر خواب سو گیا چپ چاپ
روگ ہی روگ اس کی جان میں تھے
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...