مگر وصی۔۔کیا وہی تیرے لیے سب کچھ تھی ہم کچھ نہیں؟” شفی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے سمجھانا چاہا۔۔
“تم سب میرے لیے کیا ہو اس بات کا ثبوت میں خود ہوں۔۔۔سی۔۔۔میں زندہ ہوں۔۔ورنہ وصی مرجاتا۔۔” وصی نے ڈبڈباتی آنکھوں سے کہا
“وصی۔۔کیسی باتیں کر رہا ہے۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔یار کسی ایک کے جانے سے زندگی روک دی نہیں جاتی” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“مجھے جانے ہے بس۔۔۔” وہ پھر سے بیگ پیک کرنے لگا۔۔
“وصی۔۔تو۔۔” شفی نے پھر کچھ کہنا چاہا
“ابھی مجھے جانے دے شفی۔۔پلیز” وصی نے بے بسی سے کہا۔۔
اور شفی نے اسے گلے لگا لیا ۔
۔۔
“کل شفی کو کیا ہوگیا تھا۔۔؟” حور کھڑی سوچ رہی تھی
۔۔
“حور۔۔۔وصی کا ناشتہ لگا دو۔۔میں اسے کمرے میں دے آؤں گا” شفی نے کہا۔۔
“جی۔۔۔” حور نے مختصر کہا پھر سے کام میں میں مصروف ہوگئی۔۔
“حور۔۔۔ایم سوری” شفی نے نرم لہجے میں کہا
“کس لیے؟” حور نے اسی انداز میں پوچھا۔۔
“کل میں نے کافی روڈلی بیہیو کیا..” شفی نے شرمندگی سے کہا۔۔
“نو اٹس اوکے۔۔” حور نے سادگی سے جواب دیا ۔
اور ناشتے کی ٹرے اس کی طرف بڑھائی۔۔
“تھینک یو” شفی نے ٹرے تھامی اور کچن سے باہر نکل گیا۔۔
اور حور ہلکا سا مسکرا دی۔۔
وہ وصی کو زبردستی ناشتہ دے کر سیدھا لاؤنج میں آیا۔۔
جہاں ددا ددو اور شائستہ بیگم بیٹھی تھی۔۔
“ددا۔۔وصی واپس جارہا ہے” شفی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
“مگر وہ جو اب آرمی میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا” شائستہ بیگم نے کہا
“بس اب وہ وہی کر رہا ہے جو ہم چاہتے تھے۔۔” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“مگر۔۔۔شفی وہ ایسے کیسے جا رہا ہے؟” شائستہ بیگم حیران ہوئی۔۔
“پھپھو اسے جانے دیں۔۔ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں نا۔۔” شفی نے کہا۔۔
تبھی لاؤنج کا دروازہ کھلا اور وصی اندر داخل ہوا۔۔
بلو جنس پر وائیٹ شرٹ پہنے جوگرز کے ساتھ۔۔
وہ ددو کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔
اور ان کے گلے میں بانہیں ڈالی۔۔
“وصی۔۔تو جا رہا ہے” ددو نے اس کے گال پر ہاتھ لگایا
“ہاں ددو۔۔۔مجھے وہاں کچھ کام ہے میں جارہا ہوں۔۔اور ویسے بھی آپ سب بھی تو یہی چاہتے ہیں نا کہ میں آرمی نا چھوڑوں۔۔تو میں چھوڑوں گا۔۔” وصی نے کہا۔۔
“اللہ کامیاب کرے میرے بچے کو۔۔” ددو نے دعا دی۔۔
“اچھا ددو۔۔میری ٹرین کا ٹائم ہوگیا۔۔” وہ نظریں چراتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔
اور سب سے مل کر چل دیا۔۔
سب نے اسے دعائیں اور پیار دے کر رخصت کیا۔۔
اس کے جانے بعد ددو اور شائستہ بیگم کچن کی جانب بڑھ گئی۔۔
شفی جیسے ہی جانے کے لیے مڑا۔۔کسی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
“کیا بات ہے؟” ددا نے پوچھا۔۔
“نہیں کچھ نہیں ددا” شفی نے کہا۔۔
“تو کل سے پریشان ہے۔۔اور وصی۔۔وہ بھی نظریں چرا رہا ہے۔۔آخر بات کیا ہے؟” ددا نے پوچھا
“نہیں ددا کوئی بھی بات نہیں” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“تو سب سے جھوٹ بول سکتا ہے مگر مجھ سے نہیں اب بتا” ددا نے کہا
اور شفی نے ساری تفصیل ددا کو بتادی۔۔
ڈیوٹی جوئن کیے اسے آج دوسرا دن تھا۔۔
وہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا تھا۔۔
ہر طرف جیسے خاموشی تھی۔۔
شام کا منظر اسے بہت اداس لگ رہا تھا آج۔۔۔
سورج آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا۔۔
اور ٹھنڈ بڑھ رہی تھی۔۔
مگر وہ وہیں بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔۔
(میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں وصی۔۔مجھے پتا ہی نہیں چلا کب مجھے تم سے محبت ہوئی)
نور کا جملہ اسے یاد آیا۔۔
“نہیں نور مجھ سے محبت نہیں کرتی تھی۔۔ورنہ۔۔ورنہ مجھے ایسے کبھی چھوڑ کر نہیں جاتی۔۔” وصی نے اداس لہجے میں خود کلامی کی۔۔
“وصی نے فون نکالا اور کانٹیکٹ بک سے اس کا نمبر نکال کر دیکھنے لگا۔۔
پھر ہلکا سا مسکرایا۔۔
اور ڈائل پریس کیا۔۔
نمبر بند جارہا تھا۔۔وصی نے ضبط سے آنکھیں بند کی۔۔
دو آنسوں اس کے گال کو بھگو گئے۔۔
“تم بے وفا ہو نور۔۔کیسے تم مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔۔”
وصی نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“مما میں نے کھیر فریج میں رکھ دی تھی” حور نے پاس کھڑی شائستہ بیگم کو دیکھ کر کہا۔۔
“اچھا۔۔بس کھانا بن گیا۔۔شفی کو بتا دے حور کب سے انتظار کر رہا تھا۔۔” شائستہ بیگم نے مصروفیت سے کہا۔۔
“جی مما۔۔۔” وہ کچن سے باہر نکل گئی۔۔
شفی کے روم کے باہر کھڑی وہ سوچ رہی تھی کہ اندر کیسے جائے۔۔
ہمت کر کے اس نےدروازے پر نوک کیا۔۔
“کم ان۔۔۔” اندر سے اس کی بھاری آواز ابھری۔۔
وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔موبائل پر نظریں جمائے۔۔۔
“وہ۔۔آپکو مما بلا رہی ہیں کھانا لگ گیا ہے” حور نے آہستگی سے کہا۔۔
اور جانے کیےپلٹ گئی۔۔
“حور۔۔۔” شفی نے پکارا۔۔
“جی۔۔۔” حور نے پلٹ کر کہا
“میرے نا سر میں بہت درد ہے۔۔تم دبا دو گی؟” شفی نے شرارت سےکہا ۔
“جی۔۔۔” وہ چونکی
“جی۔۔۔ہاں۔۔بتاؤ؟” شفی نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔۔
وہ خاموش کھڑی رہی اس کی گھبراہٹ اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔۔
“بولو۔۔۔یار تم چپ کیوں رہتی ہو ہر وقت۔۔۔” شفی اکتاہا۔۔
اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“وہ میں۔۔۔میں مما کو بھیجتی ہوں۔۔” وہ کہ کر جلدی سے دروازے کی طرف بڑھی۔۔
اور دروازہ کھول کرباہر نکل گئی ۔
اور شفی اس کے ردعمل پر زور سے ہنسا۔۔
وہ جاتے جاتے بھی اس کا قہقہہ سن چکی تھی۔۔
وہ بلا وجہ ہی پریڈ گراؤنڈ میں دوڑ رہا تھا
(تم ناول پڑھتے ہو؟)
(میرا بہت لمبا پلان ہے۔۔مجھے بہت کچھ کرنا ہے ابھی لائف میں۔۔۔)
(میں چاہتی ہوں میرا نام ہو دنیا میں۔میری اپنی پہچان ہو)
(میرے ابھی اتنے برے دن نہیں آئے کہ تم سے شادی کرلوں)
(نور کی زندگی وصی کے بنا ادھوری ہے)
نور اس کے دماغ سے ایک پل کے لیے بھی نہیں نکل رہی تھی۔۔
کتنی ہی دیر ہوگئی تھی بھاگتے بھاگتے۔۔
وہ تھک چلا تھا مگر رکا نہیں۔۔
سوچیں مسلسل گردش کر رہی تھی۔۔
نور کی یادیں اس کے گرد گردش کر رہی تھی۔۔
یک دم اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔
اور وہ دھڑام سے نیچے گرا۔۔۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو خود کو بیڈ پر پایا۔۔
اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ہمت نہیں ہوئی ۔
تبھی ڈاکٹر حمنہ اندر داخل ہوئی۔۔
چہرے پر مسکراہٹ لیے۔۔
یونیفارم میں۔۔اسٹیتھوسکوپ گلے میں ڈالے۔۔
“کیسے ہیں مسٹر وصی دارین” حمنہ نے مسکرا کر پوچھا
“ٹھیک ہوں” وصی نے کہا۔۔
اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔
“آ۔۔ہاں۔۔ریسٹ کریں۔۔” حمنہ نے قریب آکر کہا۔۔
“نہیں مجھے۔۔جانا ہے” وصی نے کہا۔۔
“آئی تھنک آپ میں اتنی ہمت نہیں کہ آپ پھر سے بلا وجہ بھاگنا شروع کردیں۔۔۔۔” حمنہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔
وصی نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔۔
“مطلب لمٹ ہے یار۔۔آپ کوئی پاگل واگل تو نہیں ہیں” حمنہ نے بے دھیانی میں ڈانٹا۔۔
“وصی بیٹھا ناگواری سے اسے دیکھنے لگا۔۔
“شفی۔۔آگیا ہے ابھی ڈیوٹی پر ہے۔۔تھوڑی دیر میں آپ کے پاس آجائے گا۔۔کل سے آپ یہیں ہیں۔۔” حمنہ ہاتھ میں میڈیسن لیے معائنہ کر رہی تھی۔۔
“کل سے۔۔” وہ چونکہ۔۔
“ہاں۔۔کل سے میں نے انجیکشن دیا تھا شاید اس کے زیر اثر آپ سوتے رہے۔۔ ” حمنہ نے میڈیسن اور پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔۔
“جسے خاموشی سے وصی نے تھام لیا۔۔
میڈیسن لینے کے بعد حمنہ نے اس سے گلاس لے کر سائیڈ پر رکھا۔۔
“ویل۔۔سوئیں گے تو ابھی بھی آپ۔۔کیوں کہ ان میڈیسن میں سیڈیشن ہے۔۔” حمنہ نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
“مگر۔۔۔ڈاکٹر حمنہ۔۔” وصی نے کچھ کہنا چاہا۔۔
“نو آرگیوز۔۔۔پلیز۔۔۔اب آرام کریں اوکے۔۔” وہ کہتی مسکرا کر باہر نکل گئی۔۔
اور وصی ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔۔
وہ کھڑا کسی کیڈٹ سے بات کر رہا تھا جب اسے خود پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔
سامنے ہی ڈاکٹر حمنہ کھڑی تھی۔۔اسے اپنی طرف دیکھتا پایا۔۔تو یک دم نظریں جھکا لی اور وہاں سے نکل گئی۔۔
شفی لمحہ بھر سوچنے لگا۔۔پھر یک دم اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا اور حمنہ کے پیچھے لپکا۔۔
“ڈاکٹر حمنہ۔۔” شفی نے پکارا۔۔
وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔۔
“یس۔۔” حمنہ نے پوچھا۔۔
“وصی۔۔کی طبیعت کیسی ہے؟” شفی نے پوچھا۔۔
“ٹھیک ہے۔۔میڈیسن کے زیر اثر سورہا ہے…..He perfectly alright ”
حمنہ نے مسکرا کر جواب دیا۔۔
“تھینک یو ” شفی نے کہا۔۔
“نو اٹس اوکے” وہ کہتی پلٹ گئی۔۔
“ڈاکٹر حمنہ۔۔I need your help۔۔” شفی نے سنجیدگی سے کہا
وہ اس کی بات سن پلٹی۔۔
اور اسے سوالیا نظروں سے دیکھا۔۔
فاروق صاحب بیٹھے کسی سوچ میں گم تھے جب شائستہ بیگم کمرے میں آئی۔۔
“ابا۔۔وہ۔۔” وہ کہتی کہتی رکی۔۔
“ابا۔۔میں دو دن سے نوٹ کر رہی ہوں آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں؟” شائستہ بیگم نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
“شائستہ میں چاہتا ہوں کہ شفی کے ساتھ وصی کی بھی شادی ہوجائے۔۔” فاروق صاحب نے کہا
“مگر ابا۔۔وصی تو چھوٹا ہے ابھی” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“کوئی چھوٹا نہیں ہے۔۔۔۔” فاروق صاحب نے کہا
“لیکن لڑکی۔۔مجھے لگتا ہے ہمیں وصی سے بات کرنی چاہیے کیا پتا وہ کسی کو پسند کرتا ہو” شائستہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“نہیں۔۔تم لڑکی ڈھونڈو۔۔بس میں اسے خود منا لوں گا”
فاروق صاحب نے کہا
“چلیں۔۔جیسا آپ کہیں ابا۔۔” شائستہ بیگم سوچ میں پڑی۔۔
ڈاکٹر حمنہ بغور اسے سن رہی تھی۔۔
شفی نے اسے سارا پلان بتایا۔۔
اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔۔
شفی نے اس سے ہیلپ مانگی۔۔
“شفی۔۔آپ کسی اور سے ہیلپ مانگیں میں یہ کام نہیں کرسکتی۔۔” حمنہ نے صاف انکار کیا۔۔
“ڈاکٹر حمنہ آپ سمجھ نہیں رہی۔۔کتنے دن ہوگئے مگر میرا بھائی اس حادثے سے نہیں نکلا۔۔۔میں اسے اس حال میں نہیں دیکھ سکتا۔۔” شفی نے اداسی سے کہا
“مگر شفی محبت کوئی کھیل نہیں جو دل بہلایا جائے۔۔کسی کے جذبات کے ساتھ میں نہیں کھیلنا چاہتی۔۔” حمنہ نے کہا۔۔
“ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔وہ بس اس صدمے سے نکل آئے گا بس۔۔” شفی نے سمجھانا چاہا۔۔
“I agree with you but…. I can’t do this..plz try to another girl..”
حمنہ نے سنجیدگی کا اظہار کیا۔۔
“ڈاکٹر حمنہ پلیز۔۔بس تھوڑے ٹائم کے لیے۔۔” شفی نے اصرار کیا۔۔
“مسٹر شفی میری ڈیوٹی کا ٹائم ہوگیا۔۔بائے۔۔” وہ مسکراتی وہاں سے چلی گئی۔۔
اور شفی اسے جاتا دیکھنے لگا۔۔
وہ جب اندر داخل ہوا۔۔وصی گہری نیند سورہا تھا۔۔
وہ لمحہ بھر اسے دیکھنے لگا۔۔
پھر چیئر قریب کر کے بیٹھ گیا۔۔
“میں کیا کروں تیرے لیے یار۔۔میں تجھے ایسے نہیں دیکھ سکتا” شفی نے دل میں سوچا۔۔
“مگر تو فکر مت کر میں تجھے پھر سے ہنسنا سکھا دوں گا۔۔” شفی کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی۔۔
تبھی اس کا فون بجنے لگا۔۔
اس نے فون نکال کر کال رسیو کی۔۔
“ہیلو۔۔اسلام علیکم ددا” شفی نے سلام کیا
“وعلیکم السلام۔۔وصی کیسا ہے اب؟” ددا نے فکرمندی سے پوچھا۔۔
“ٹھیک ہے ددا سورہا ہے” شفی نے جواب دیا
“میں نے کہا ہے شائستہ کو۔۔ وصی کے لیے کوئی لڑکی دیکھے۔۔جلد سے جلد رشتہ کردیں گے۔۔ہم بھی فرض پورا کریں اپنا تم دونوں کی شادی کر کے” ددا نے کہا ۔
“ہممم۔۔جی۔۔”شفی کی نظریں وصی کے چہرے پر جمی تھی۔۔
جہاں پہلے والے وصی کی جھلک تک نہیں تھی۔۔
وہ ہنستا کھیلتا وصی بہت بدل چکا تھا۔۔
ڈاکٹر حمنہ آج آپ کی ڈیوٹی کہاں ہے؟”
شفی نے کان سے فون لگائے پوچھا۔۔
“ہوسپیٹل میں۔۔۔” حمنہ نے ناسمجھی سے کہا
“ٹھیک ہے۔۔میں وصی کو بھیج دوں گا۔۔اسے وہیں روک لینا” شفی نے کہا۔۔
“وہ رک جائے گا یہاں۔۔؟” حمنہ نے پوچھا۔۔
“یہی تو آپ کا کام ہے آپ کو روکنا ہے اسے۔۔کچھ ٹائم سپینڈ کرنا۔۔” شفی نے شرارت سے کہا۔۔
“شفی۔۔آپ پاگل ہوگئے ہیں۔۔وہ نہیں رکا تو میں کچھ نہیں کرسکتی” حمنہ نے ہنس کر کہا۔۔
“کیا یار آپ اتنی بڑی ڈاکٹر ہیں ۔۔ آپ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا
“یہ آپ کو لگتا ہے شفی۔۔ویل بھیج دینا کوشش کروں گی” حمنہ نے کہا۔۔اور فون بند کردیا۔۔
اور شفی فون کو دیکھ ہنس دیا۔۔