تزویتان تو دو روف یکم مارچ1939کو صوفیہ (بلغاریہ)میں پیدا ہوا ۔اس کا والد یونیورسٹی میں پروفیسرتھا جب کہ والدہ کتب خانے کی مہتمم تھی۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے سال 1963میں صوفیہ یو نیورسٹی سے فلسفہ میں ایم ۔اے کیا ۔اس کے بعد اس نے اعلا تعلیم کے لیے جولیا کر سٹیوا کی طرح فرانس جانے کا فیصلہ کیا۔سوربون(Sorbonne)میں اس کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی اوراسے بتایا گیا کہ اس جامعہ میں ادبی تھیوری پر کام نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد اس نے مشہور تعلیمی ادارے ایکول (Ecole)کا رخ کیا جہاں رولاں بارتھ کا بے لوث تعاون اور خلوص اس پریشاں حال محقق کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوا۔اس کے بعد تحقیق کے تما م مراحل میںاسے رولاں بارتھ کاتعاون حاصل رہا ۔جب وہ پی ایچ۔ڈی سطح پر تعلیم حاصل کر رہا تھا تو ممتاز ماہر لسانیات رولاں بارتھ ہی سے اس نے اکتساب فیض کیا ۔اس نے اپنا تحقیقی مقالہ رولاں بارتھ کی نگرانی اور رہنمائی میں مکمل کیا۔اس کا یہ تحقیقی مقالہ ’’Literatrue And Meanings ‘‘ کے نام سے سال 1967 میں شائع ہوا ۔سال 1968میں اس کا تقرر فرنچ سنٹر میںڈائریکٹر ریسرچ کی حیثیت سے ہو گیا ۔یہاں اس نے ادبی تھیوری اور تنقید کے فروغ کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے ۔وہ 1979تک یہاں خدمات انجام دیتا رہا اس عرصے میں وہ ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ممتاز اور مقبول تحقیقی مجلے کی مجلس ادارت میں مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل رہا۔اس کے علاوہ اس نے لسانیات ،تاریخ ،ادبی تھیوری اور شعریات کے موضوع پر تنقیدی کتب کی سلسلہ وار اشاعت کے اہم منصوبے پر بھی کام کیا ۔اس کی نگرانی میں وقیع درسی کتب کی اشاعت کایہ سلسلہ 1987تک جاری رہا ۔ تزویتان تودورف کی ساختیاتی فکر کا مطالعہ کر نے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پروپ اور گریماس کے خیالات اس کے نزدیک محض چراغ راہ ہیںمنزل ہر گز نہیں ۔ روسی ہئیت پسند ی کو بہ نظر تحسین دیکھنے والے اس زیرک نقاد نے 1965 میں روسی ہئیت پسندوں کے فکر و خیال کی انجمن کی دل آویزیوں اور قلم و قرطاس کے شعبے میں ان کی تخلیقی جولانیوںکا تفصیلی احوال اپنی ایک کتاب میں شامل کیا۔ فرانسیسی زبان میں لکھی جانے والی اس کتاب کو بہت پذیرائی ملی ۔اس خطے میں بولی جانے والی اہم ترین سلیوک زبانوں (Slavic Languages) پر اسے جو خلاقانہ دسترس حاصل تھی اس کی بنا پر اسے سلیوک ادبیات(Slavic Literature ) میں استناد کا درجہ حاصل ہے ۔ سلیوک زبانیں جن میں بلغارین،بوسنین،بیلا رشین،اور کروشین زبانیں شامل ہیں ہمیشہ اس کی توجہ کا مرکز رہیں۔ان زبانوں میں اس کی دلچسپی اس کا بہت بڑا اعزازو امتیاز سمجھا جاتا ہے ۔ معاصر ادبیات میں ادبی تھیوری کے صف اول کے دانش ور وں میں اس کا شمارہوتا ہے۔ 1960 میں فرانس میں ساختیاتی فکر نے جب ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی اور اسے پذیرائی ملنے لگی تو تیزی سے بدلتے ہوئے فکری میلانات کو دیکھتے ہوئے تزویتان تودوروف ساختیاتی فکر کے علم برداروں اور بنیاد گزاروں میں شامل ہوگیا ۔ اس نے مستقل طور پر فرانس کی سکونت اختیار کرلی اور فروغ ِ علم و ادب سے عہد وفا استوار کر لیا۔ ادبی مطالعات میں ساختیات کو ایک مؤثر اورفعال تخلیقی قوت کی صورت میںپروان چڑھانے میں تزویتان تودوروف کا کردار نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ابتدا میں اس نے روسی ہیئت پسندوں کی تخلیقات اور تنقیدی کتب کے تراجم پر توجہ مر کوز کی ۔ اس کا خیال تھا کہ سا ختیاتی فکر کے ابتدائی اور دھندلے نقو ش رو سی ہیئت پسند ی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس نے سا ختیا تی فکر کے طر یق کار کو روسی ہیئت پسندی سے مما ثل قرار دیا اور ادب کے سنجیدہ قارئین کی تو جہ اس جانب مبذول کرائی کہ بیش تر امور میںسا ختیا تی فکر کے سوتے رو سی ہیئت پسندی ہی سے پھو ٹتے ہیں۔ اس کا شمار روسی ہئیت پسندی کو پوری دنیا میں بالعموم اور یورپ میں بالخصوص متعارف کرانے اور اسے حقیقی تناظر میں پیش کرنے والے ساختیاتی فکر کے علم بردار صفِ اوّل کے ممتاز ادیبوں میں ہوتاہے۔اس نے ممتاز ماہر لسانیات رولاں با رتھ کی طر ح ایکول (Ecole )میں تدریسی خدمات انجا م دیں۔اس کے بعد پیر س کے تحقیقی مر کز میں کا م کیا ۔اس کی اہم اور معرکہ آرا تصنیف The typlogy of detective fiction جو 1966 میںپہلی بار شا ئع ہو ئی پوری دنیا میں بہت مقبول ہو ئی ۔ تزویتان تودوروف کی اس شہرۂ آفاق فرا نسیسی تصنیف کا نیو یارک میں مقیم نامور ادیب اور مترجم رچرڈ ہاورڈ (Richard Howard ) نے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
تزویتان تودو روف نے بائیس وقیع کتب لکھ کر لسانیات ،تنقید اورادب کی ثروت میں اضافہ کیا ۔اس کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1.The Conquest O f America 1982
2.The Fantastic 1973
3.In The Defence Of Enlightenment 2009
4.Facing The Extreme 1996
5.The Poetics Of Prose 1977
6.The Fear Of Barbarians 2010
7.Hope And Memory 2003
8.Imperfect Garden 2002
9.Introduction To Poetics 1981
10.Mikhail Bakhtin 1984
11.The Inner Enemies Of Democracy 2014
12.On Human Diversity 1993
13.Geners In Discourse 1978
14.The New World Disorder 2004
15.The Morals Of History 1995
16.The Fragility Of Goodness 2001
17. Memory As A Remedy For Evil 2010
18.Symbolism & Interpretation 1982
19.The Limits Of Art 2010
20.Theories Of The Symbol 1982
21.Frail Happiness 2001
22.The Totalitarian Experience 2011
تزویتان تودوروف نے ادب کی شعریات اور تخلیقِ دب کے عام قواعد و ضوابط میں پائے جانے والے بُعد المشرقین کو جس صراحت کے ساتھ پیش کیا وہ اس کی جدت طبع اور اسلوبیاتی تنوع کی عمدہ مثال ہے ۔اس کے خیال میں ادب کی شعریات سے کامل آ گہی کے بغیر تنشیط ِادب اور اس کے استحسان کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔اس نے تخلیق ِادب میں ترجمانی ،تبصرہ نگاری،تنقید اور زبان و بیان کی نفاست و پاکیزگی پرزوردیا۔وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ادب کی شعریات میں مفصل مفاہیم،بیانیہ میں نہاں الفاظ و معانی کی گرہ کشائی،زندگی کے تجربات و مشاہدات کی ترجمانی ،حالات و واقعات کا حقیقی تناطر میں جائزہ اور ان پر بر محل تبصرہ یہی نقد و نظر کے سارے اجمال کے مظہر ہوتے ہیں۔اس نے تاویل نگاری کے سرابوں میںبھٹکنے کے بجائے ادبی شعریات سے جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاج گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے سدا انیسِ جاں سمجھا۔
تزویتان تودوروف نے جا سوسی کہا نیوں کے تجزیاتی مطالعہ پر بہت وقت صرف کیا۔اس دنیا میں مابعد الطبیعات سے تعلق رکھنے والے پُر اسرار واقعات، انڈر ورلڈ کی مجرمانہ سازشیں اور جرائم کی لرزہ خیز وارداتیں قاری کو یاس و ہراس کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں ۔اس کا ایک مضمون جو ڈیوڈ لاج (David Lodge) کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’Modern Criticism And Theory ‘‘ میں شامل ہے افادیت سے لبریز ہے ۔ اپنے اس مضمون’’ The Typology Of Detective Fiction ‘‘ میں اس نے لکھاہے :
“We realize here that two entirely different forms of interest exist.The first can be called curiosity;it proceeds from effect to cause:starting from a certain effect(a corpse and certain clues)we must find its cause (the culprit and his motive).The second form is suspense,and here the movement is cause to effect:we are first shown the cause ,the initial donn,ees(gangsters preparing to a heist),and ourinterest in is sustainedby the expectation o what will happen,that is ,certain effects(corpses,crimes,fights).This type of interest was inconceivable in the whodunit,for its chief characters (the detective and his friend the narrator )were,by by definition ,immunized:nothing could happen to them .The situation is reversed in the thriller: everything is possible,and the detective an dthe detective risks his health,if not his life.” (1)
یہ بات تسلیم کرتے ہیں کسی کو تامل نہیںہو سکتا کہ تزویتان تودوروف نے تخلیق ادب میں ایک واضح ، صاف ستھرا، قابل فہم اور جدید اسلوب اپنایا ۔ اس نے اپنے اسلوب کو ایک تسلسل کے ساتھ مر حلہ وار انداز میں تحقیق و تجز یہ اور تنقید کے آہنگ سے مزین کر دیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ تزویتان تودوروف کے ادبی تھیوری پر مبنی نظریات میں پختگی آتی چلی گئی اور وہ بنیا دی طور پر ایک سائنسی انداز فکر کے حا مل حساس تخلیق کار ، انسا نیت نواز ا دیب اور اخلاقیات کے علم بردار کے روپ میں سامنے آتا ہے ۔ اس نے اپنے افکار کی جولا ں گاہ محض تخلیق ادب تک محدود نہیں رکھی بل کہ سماجی زندگی کے تلخ حقائق اور اخلا قیات پر بھی اپنی تو جہ مر کوز کر دی ۔ تخلیقِ ادب ، تنقید اور تحقیق کے شعبوں میں اس کے فکر و خیال میں ارتقا کا سلسلہ جاری رہا ۔ پی ایچ۔ ڈی کے دوران اس نے سا ئنسی انداز فکر کو اپناتے ہوئے اپنے تحقیق کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ اس عر صے میں اس نے ساختیاتی فکرکی پر زور حمایت کی ۔ بڑھتی ہو ئی عمر کے ساتھ ساتھ فلسفہ اخلاق کی جا نب اس کا رجحان مسلسل بڑھتا چلا گیا ۔ اس کی مثال اس کی درج ذیل تصنیف میں دیکھی جا سکتی ہے :
Facing The Extreme: Moral life in the Concentration Camps” ”
تزویتان تودوروف نے ایک دورے میں جب پولینڈ کے شہر وارسا کی سیاحت کی تو اس شہر کو دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوا۔دوسری عالمی جنگ میں پولینڈ کے باشندوں نے جنگی جنون میں مبتلا نازیوں کے انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم اور فسطائی جبر کا جس جرأت اور حوصلے کے ساتھ سامنا کیاوہ اس کتاب کی تصنیف کا محرک بن گیا۔
بیانیہ کے بارے میں تزویتان تودوروف نے اس بات پر زور دیا کہ یہ واقعات کے نشیب و فراز کا ایک مر حلہ وار سلسلہ ہے جو سیلِ زماںکے مانند زندگی کے متعدد حقائق کو خس و خاشاک کے ما نند بہا لے جا تا ہے ۔سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ کہا نی کی بُنت اور اس میںموجود کہانی پن (Diegesis ) کے بارے میں اس نے بتا یا کہ یہ توفکر وخیال کی ایک انوکھی اندرونی دنیا کی کیفیات کی مظہر ہے۔عملی زندگی کی کہانیوں کے کرداروں کی طرح داستانوں اور حکایات کے کردار جن مراحل سے گزرتے ہیں اور جن مسائل سے دوچار ہو تے ہیںیہ ان سے متعلق تمام نشیب و فراز سامنے لاتے ہیں۔ عملی زندگی کی کہانی بھی حیران کُن ہوتی ہے اور اس کے کردار بھی عجیب ہوتے ہیں ،کبھی تو یہ سوز و ساز رومی کے مظہر ہوتے ہیں کبھی پیچ و تاب رازی ان کی پہچان بن جاتا ہے ۔زندگی کی کہانی ایک ایسے سفر پر محیط ہے جس میں مسافر کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ ہی جاتا ہے مگر طویل مسافت طے کرنے کے بعد سفر کی دُھول اس کا پیرہن بن جاتی ہے اور زینۂ ہستی سے اُترتے وقت اس کا پُورا وجود کر چیوں میں بٹ جاتا ہے ۔اس دنیا کے وسیع و عریض سٹیج پر نمودار ہونے والے سب کردار اپنی اپنی باری بھر کر عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے ہیں۔اس کے بعد مرمریں قبر کے اندر تہہ ِ ظلمات ان کے اجسام ملخ و مُور کے جبڑوں میں چلے جاتے ہیں۔ہزارہا حسرتیں مشتِ غبار میں ڈھل جاتی ہیں مگر کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی،زندگی کے معمولات اسی طرح جاری رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کی اس کہانی کے کرداروںکا یہی المیہ ہے ۔ تزویتان تودوروف نے ان تمام حالات و واقعات ،ارتعاشات اورتضادات جن کی اساس میںنا آسودہ تمنائیں اور نا تمام خواہشات جلوہ گر ہوتی ہیں کی جانب متوجہ کیا ہے۔ تخلیقی اعتبار سے وہ ہرکہانی کو ایسے تمام حالات و واقعات،تضادات و ارتعاشات کے مجموعے سے تعبیر کرتا ہے جن کی اساس پربیانیہ کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے ۔یہی و ہ فکری اثاثہ ہے جسے زادِ راہ بناکر ایک زیرک تخلیق کار منظر ،پس منظر ،شعوری کاوشوں اور لا شعوری محرکات کے باہم اشتراک سے تجسس سے لبریز مر حلۂ شوق پر رواں دواں رہتا ہے ۔جہاں تک پلاٹ کا تعلق ہے اس میں اُن تمام واقعات کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے جو براہ راست کہانی کی فعالیت اور کردار کی جمالیات میں شامل ہوتے ہیں۔تخلیق ِفن کے لمحوں میں اس ترتیب اورمحل ِوقوع کا بھی خیال رکھا جاتاہے جس کے تحت متعدد واقعات رو نما ہو تے ہیں۔ بیا نیہ کی حدود کی صراحت کر تے ہوئے اس نے کہا کہ ایک مستعد اوررمز آشنا تخلیق کا ر زما ن و مکا ن اورصبح وشام کی میزان کی حدود سے با لا تر رہتے ہو ئے اپنے اشہبِ قلم کی جو لا نیاں دکھا نے پر قا در ہے ۔ وہ سلسلۂ رو ز و شب میں الجھنے کی غلطی نہیں کر تا کیو نکہ وہ اس حقیقت سے آگا ہ ہے کہ صریرِ خامہ کو نوائے سروش کی حیثیت حاصل ہے اور تخلیقی وجدان کی منزل تو سر حد ادراک سے بھی آگے ہے۔ کہانی میں سنسنی خیزی،ہیجان اور رومان کی فراوانی کہانی کی تاثیر کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔تزویتان تودوروف نے کہانی میں ان عوامل کے بارے میں تمام حقائق کی مدلل انداز میں وضاحت کی ۔اس نے کردار نگاری کو بہت محنت طلب کام قراردیا ۔اس کا خیال تھا کہ کردار نگاری ہی کہانی کو فن کی بلندیوں کی جانب لے جانے کا وسیلہ ہے ۔اس معجزۂ فن کی نمود خون جگر کی مرہونِ منت ہے ۔اس نے کہانی میںتخلیق کار کے اسلوب کو اس لیے بہت اہم قرار دیا کیوں کہ وہ اپنے زورِ بیان سے کرداروں کے مزاج ،متنوع افعال و اعمال اور اقوال و احوال کے بارے میں لفظی مرقع نگاری کرنے پر قادر ہے ۔کسی بھی کہانی میں پیش کیے جانے والے اہم کرداروں میں ہیرو ، مونس ،رقیب ،عطیہ دینے والا ،معاون ،شہزادی، طوائف،ہیرو کو مہم پر روانہ کرنے والا ، کٹنی، اُچکے ،نائکہ ،جعلی ہیرو اور مسخرے شامل ہیں۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام حسین کردار جن کا ہماری زندگی کی کہانی میں ہمہ وقت ذکر ہوتا ہے ،ہوائے دشتِ چمن ان تمام کرداروں کو چُن کر اپنے ساتھ اُڑا لے جاتی ہے ۔وہ کردار جو رفیق راہ ہوا کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح گردِ راہ میں اوجھل ہو جاتے ہیں کہ ہمارے اور اُن کے درمیانبیتے دنوں کی فصیلِ زماں حائل ہو جاتی ہے جسے آج تک کوئی عبور نہیں کر سکا۔
کہانیوں میں تزویتان تودوروف کی گہری دلچسپی اس کے ذوقِ سلیم کی مظہر سمجھی جاتی ہے ۔بعض لوگوں کی رائے ہے کہ کہانیوں کی قدامت کا تعلق خود انسان کی پیدائش سے ہے۔جب سے انسان نے بولنا سیکھا ہے ، دل کی بات لبوں پر لانے کا ملکہ حاصل کیا ہے، دِل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچنے لگے ہیں،اپنے مشاہدات اور سر گزشت کو پیرایۂ اظہار عطا کرنا شروع کیاہے تب سے کہانی سنانے اور سننے کے عمل کا آغاز ہو گیا۔زندگی،رہن سہن،پیار ،وفا ،ہجر ،وصال ،حسن ورومان اورجہد و عمل سے لبریز متعدد کہانیاںجس طرح اپنی خوش بیانیاں سامنے لاتی ہیں اس سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں مدد ملی ہے ۔جب تک اس کائنات میں زندگی کی رعنائیاں اپنے حسین رنگ بکھیرتی رہیں گی کہانیوں کی تابانیوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔اکثر کہا جاتا ہے کہ سب سے بڑی اورحقیقی کہانی تو اس انگارۂ خاکی کے وجود اور کرۂ ارض پر اس کی زندگی کی پر اسرار کہانی ہے جو ہر عہد میں پیہم مائل بہ ارتقا رہی ہے ۔جس وقت متعدد ازلی اور ابدی صداقتوں سے معمور اس مسحورکُن کہانی کے سب کردار کسی آفتِ نا گہانی کے باعث عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جائیں گے تو یہ کہانی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔جس لمحے حسنِ کلام کا سلسلہ مستقل طور پر منقطع ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی فرد کی زندگی کی کہانی بھی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے ۔ تزویتاں تودوروف نے اپنے اسلوب کی جدت اورتنوع کے اعجاز سے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ تاریخ،فلسفہ،ادبی تنقید وتحقیق،سوشیالوجی،نفسیات،عالمی کلاسیک،علم بشریات،ادبی و ثقافتی تھیوری،سیمیاٹکس(Semiotics) اور تخلیق ادب کے شعبوں میں اس نے پوری دنیا کو جہانِ تازہ کی صد رنگی سے آشنا کیا۔اس نے فروغ علم و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں،ان کے بارِ احسان سے ادب کے طلبا کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔اس نے ساختیاتی فکر کی ترویج واشاعت کے لیے متن کی قرأت کو نا گزیر قرار دیا،وہ اس عمل کو بہت اہم اورافادیت سے لبریزسمجھتا تھا۔متن کے عمیق مطالعہ اورقرأت کی اہمیت و افادیت کے موضوع پر اس کے خیالات کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ممتاز نقاد رولاں بارتھ نے اسی اہم نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس امر پر اصرار کیا کہ فکر و خیال اور اشارات و تفہیمات اور معنیات کے تما م سوتے یہیںسے پُھوٹتے ہیں۔
تزویتان تودوروف کے اسلوب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اصنافِ ادب کی گرامر کو اپنی توجہ کا مرکز بنایااس نے قارئین ادب پر واضح کر دیاکہ دنیا کی ہر زبان میں تخلیق ادب کے لیے ادب کی گرامر سے آ گہی ناگزیر ہے ۔اصناف ادب کے لیے گرامر کی احتیاج اسی قدر لازم ہے جتنی کہ یہ بیانیہ کے لیے لازم ہے ۔تزویتان تو دو روف نے اس بات پر زور دیا کہ جب کوئی ادب پارہ منصۂ شہود پر آتا ہے تو تخلیق کار کی یہ تخلیقی فعالیت اپنی نو عیت کے لحاظ سے دوسری تمام فعالیتوں اور تخلیقات کے طے شدہ لائحۂ عمل کے مطابق روشنی کے سفر کو جاری رکھنے کی ایک عمدہ مثال ہے ۔یہ مرحلہ در اصل اس وسیع دنیا میں پہلے سے وقوع پذیر ہونے والے ادبی تفاعل کے ردِ عمل کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ تخلیق ِفن کی دنیا کے یہ اسرار و رموز قارئین کے لیے ہمیشہ دلچسپی اورتجسس کی وجہ سے مرکزِ نگاہ رہے ہیں۔تخلیقی تحریریں پہلے سے موجود تخلیقات کے رد عمل کے طور پر ہمیشہ توجہ کا مرکز ٹھہرتی ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی حیثیت تخلیقی تصنیف وتالیف کی دنیا میں پہلے سے موجود تخلیقات کا ایک رد عمل ہی ہے اور یہ اپنے پارول(Parole)کے لیے لانگ (Langue) کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ ادبی ساخت میں دوسری ساخت کے بر عکس پارول کو یہ اختیار ہے کہ وہ لانگ میں ترمیم کر سکے ۔اکثر کہاجاتا ہے کہ ہر نئی تخلیق نہ صرف پرانی تخلیقات سے بصیرتیں اخذ کرتی ہے بل کہ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے طرز ِکہن کو ترک کر کے آئینِ نو کے مطابق چلتے ہوئے نئی منزلوں کی جستجو کو شعار بناتی ہے ۔ تزویتان تودوروف کے اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے عالمی شہرت کے حامل ماہر تعلیم، مؤقر نقاد اور گارڈف یو نیورسٹی ویلز(Gardiff University) بر طانیہ کے پروفیسر امریطس انگریزی ادبیات ٹیرنس ہاکس ( Terence Hawkes B:13-5-1932 D: 16-01-2014)نے لکھا ہے :
“Like Greimas Todorov begins with notion that there exists,at a deep level,”a grammar” of narrative from which individual stories ultimatively derive.Indeed,there exists a,universal grammar,whih underlies all languages.This universal grammar acts as the source of all universals and it defines for us even man himself. (2)
تزویتان تودوروف نے اپنی تنقیدی بصیرت کے اعجازسے عالمی ادبیات کی ثروت میںگراں قدر اضافہ کیا ۔اس نے تخلیق ادب کو افادیت سے لبریز ایک ایسی فعالیت سے تعبیر کیا جو انسانیت کی مشترکہ اقدار کے مظہر تجربات کی اساس پر استوار ہے ۔ اس کا خیال تھاکہ تخلیق ادب میں انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی کاوشیں اور لفظ کی حرمت کو پروان چڑھانے کی مساعی کسی ایک زبان تک محدود نہیں بل کہ دنیا کی ہر زبان میں تخلیقِ ادب کے حوالے سے حریت فکر کے علم بردار اور حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنانے والے ادیب ہر دور میں مصروف عمل رہے ہیں۔ادب میں تزویتان تودوروف کے متنوع اور نئے تجربات تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند ہیں ان کا تعلق محض زبان سے نہیں بل کہ اشارات کے وسیع نظام سے ہے ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ نہ صرف زبانیں بل کہ اشارات کے نظام بھی ادب کی گرامر کی اہمیت اور افادیت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ اس نے ادبی گرامر کو ایک آفاقی نظام سے تعبیر کیا جس کی تفہیم سے زبانوں کے حقائق تک رسائی کی راہ ہم وار ہو گئی۔ اس کی علمی ،ادبی ،لسانی اور تنقیدی کامرانیوں کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔اس کے لسانی تجربات میں زبان کی گرامر کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف زبان اور اشارات کے ساتھ بل کہ کائنات کے نظام کے ساتھ اس کی موافقت اس قدر گہری ہے کہ قاری حیرت و استعجاب کے عالم میں چشمِ تصور سے تزویتان تودوروف کی طرف دیکھنے لگتاہے۔اسی اثنا ٔ میں قاری کے تخیل میں اس رجحان ساز ادیب کی طرف سے اُسے یہ نداگونجتی ہے ۔
یاد رکھو تو دِل کے پاس ہیں ہم
بُھول جائو تو فاصلے ہیں بہت
مآخذ
1.David Lodge(Editor):Modern Criticsm and Theory,Pearson Education ,Singapore,2003 Page 141
2.Terrence Hawkes:Structuralism And Semiotics,University Of California Press, California,1977 ,Page,95