خان حسنین عاقب
خان حسنین عاقب ۸؍ جولائی ۱۹۷۱ کو اکولہ میں پیدا ہوئے۔ انگریزی اردو اور تاریخ میں ایم اے کے علاوہ ایم ایڈ کی سند بھی حاصل کی۔ شعبۂ تدریس سے وابستہ ہیں۔ مختلف زبانوں کے ماہر ہیں۔
خان حسنین عاقب نے شاعری اور تنقید کے علاوہ ترجمہ نگاری کے شعبے میں بھی قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔
’’رمِ آہو‘‘ اور ’’خامۂ سجدہ ریز‘‘ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ انھوں نے چند طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی قلم بند کئے ہیں۔
رابطہ 9423541874
ٹی وی اور ’بی وی‘
خان حسنین عاقبؔ
دیکھا جائے تو ٹی وی اور بی وی (آپ املا پر نہ جائیں، اسے بیوی ہی پڑھیے کہ اس سے ہماری مراد ’بیوی‘ ہی ہے، کچھ اور نہیں) میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں الفاظ ہم قافیہ ہیں لیکن ہم ٹی وی کو بی وی پر فوقیت دیتے ہیں۔ ہاں بھائی، ہماری اپنی کچھ دلیلیں، کچھ وضاحتیں ہیں اس ضمن میں۔ آپ کو ٹی۔ وی شروع کرنی پڑتی ہے جب کہ بی وی خود بخود شروع ہو جاتی ہے۔ آپ ٹی۔ وی کو جب چاہے بند کر سکتے ہیں لیکن بی وی کے بارے میں ایسا سوچنا ممکن ہی نہیں بلکہ پاپ بھی ہے۔ آپ ٹی۔ وی کا چینل بدل سکتے ہیں لیکن بی۔ وی کا موڈ بدل نہیں سکتے۔ بجلی چلی جانے پر ٹی۔ وی آف ہو جاتی ہے لیکن بجلی چلی جانے پر بی۔ وی کی حربی قوت میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ ٹی۔ وی کو شوہر کے رشتے داروں سے کوئی بیر نہیں ہوتا لیکن بی۔ وی کے لئے شوہر کے رشتے دار اتنے ہی ازلی دشمن ہوتے ہیں جتنی ازلی دشمنی ابنِ آدم اور شیطان میں ہے۔ آپ سکون پانے کے لئے ٹی۔ وی شروع کرتے ہیں اور بی۔ وی شروع ہو جائے تو سکون کی تلاش میں ہمالیہ جا کر بھی ناکامی ہی ہاتھ آتی ہے۔
لیکن ایک بات ہے کہ ہم اور مرزا احترام بیگ ایک معاملے میں ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں۔ ہمیں ٹی۔ وی اور بیوی سے جتنا شدید اختلاف ہے انہیں ان دنوں سے اتنی ہی شدید محبت ہے۔ یہ بات دیگر کہ ان کا اصول ہے ’ ٹی۔ وی اپنے گھر کی اور بیوی پڑوس کے گھر کی۔‘ ان کے پاس اس کی بہت واضح دلیل ہے۔ کہتے ہیں، ’’میاں، تم کیا جانو! پڑوسی کے حقوق کیا ہیں؟ کہا گیا ہے کہ پڑوسی سے بالکل اپنوں جیسی محبت کرو۔ ورنہ آج کل تو خون کے رشتوں میں بھی محبت باقی نہیں رہی۔‘‘
اور ان حقوق کی ادائیگی کے لئے مرزا جی ہر پڑوسی کے ہر وقت کام آنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ پڑوسی کو کوئی کام ہو یا نہ ہو، مرزا جی بڑی محبت سے اس کے گھر روزانہ حاضری دیتے ہیں۔ ہر پڑوسی کے گھر کو وہ اپنا گھر اور پڑوس کے ہر رشتے کو وہ اپنا رشتہ سمجھتے ہیں۔ پڑوسی اپنی بیوی کو اتنی محبت سے آواز نہ دیتا ہو گا جتنی محبت سے مرزا جی اس کی بیوی کو ’بھابھی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ لیکن ایسا صرف ان ہی گھروں میں ہوتا ہے جہاں ’’بھابی‘‘ خود کو اتنی محبت کے ساتھ ’’بھابھی‘‘ کہلوانے کا شوق رکھتی ہوں۔ ورنہ مرزا جی اتنے بدھو بھی نہیں ہیں کہ جہاں انہیں انگلی رکھنے کو جگہ نہ ملے، وہاں خود گھُستے پھِریں۔ یہ تو مرزا جی کا خلوص ہی ہے ورنہ اب ایسے لوگ کہاں؟
خیر، یہ مرزا نامہ تحریر کرنے کیا سوجھ گئی بھائی؟ بات ہو رہی تھی ٹی۔ وی اور بیوی کی۔
بیوی سے تو ہم پہلے ہی سے چِڑتے ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ چِڑ ہمیں شادی کے بعد لاحق ہوئی ہے۔ نا جی نا، اپنی شادی سے پہلے ہم ہر بیوی سے چِڑتے تھے، یہ سوچ کر کہ ہر کوئی کسی نہ کسی کی بیوی ہے، ہماری ایک عدد بیوی کیوں نہ ہوئی؟ البتہ شادی کے بعد صرف اپنی ہی بیوی سے چِڑتے ہیں۔ دوسروں کی بیویوں پر تو رشک آتا ہے کہ کیسی سگھڑ، گھریلو اور فرمانبردار بیویاں ہیں۔ کاش۔۔ ۔۔ خیر، جانے دیجئے، نا ممکن بات کی کیا خواہش کرنا!
اسی حوالے سے ہمیں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ کچھ عرصے قبل ہمارے گھر کی ٹی۔ وی بگڑ گئی تھی۔ ہم نے اسے درست کروانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ بچوں کے امتحانات کا موسم تھا۔ لیکن بچے کہاں مانتے ہیں۔ انہوں نے ٹی۔ وی سے استفادے کا عمل جاری رکھا۔ ٹی۔ وی کا کوئی پُرزہ اندر سے ڈھیلا ہو چکا تھا اور اُسے ایک ہلکا سا دھکا دئے بغیر تصویر نہیں آتی تھی، وہ ریڈیو ہی بنا رہتا تھا۔ دھیرے دھیرے ٹی۔ وی معمولی دھکے کھانے کے بعد بھی ’بلبل فقط آواز ہے‘ کی عملی شکل بنی رہی تو بچوں نے اسے ٹھونکنا شروع کر دیا۔ پھر ٹی۔ وی اس ٹھونکا ٹھانکی کی بھی عادی ہو گئی تو بچوں نے اسے لاتوں گھونسوں پر رکھ لیا۔ ہمیں جب خبریں یا میچ دیکھنا ہوتا تو کبھی کبھی ہم خود بھی اس ’زد و کوب‘ میں شامل ہو جاتے۔ یہ مریضہ اور مضروب ٹی۔ وی کبھی ایک جگہ ٹِک کر نہیں رہی۔ سیاسی لیڈروں کی طرح (جو پارٹی بدلتے رہتے ہیں) یہ ہمیشہ کمرے بدلتی رہی۔ کبھی ہال میں، کبھی بیڈروم میں، اور کبھی ہال اور بیڈروم کے درمیان اپ۔ ڈاؤن کرتی رہی۔ بچے جہاں چاہتے، مریضہ کو سیر کے لئے لے جاتے۔ ہمارے چھوٹے صاحبزادے عدنان احمد خان نے تو ایک نئی ترکیب نکال لی تھی۔
مریضہ جب بیڈ روم میں سکونت پذیر تھی تو بچے مع اپنی ماں کے، آرام کے ساتھ بستر پر جم جما کر مریضہ سے استفادہ (بہ ترکیبِ عیادت) کرتے۔ مریضہ کے اسکرین پر جب کوئی انتہائی دل چسپ منظر چلتا اور ایسے میں اچانک اس کی تصویری صلاحیت غائب ہو جاتی اور وہ محض ریڈیو بن جاتی تو عدنان میاں اس کو ٹھونکنے کے لئے ایک لمبا سا ڈنڈا پاس رکھتے تھے جسے وہ ایسی صورت میں فوراً مریضہ کے سر یا پیٹھ یا جس جگہ مناسب محسوس ہوتا، رسید کر دیتے۔ یعنی بستر سے اُتر کر مریضہ تک پہنچنے کا تکلف کرنے کی کوئی ضرورت اس نئی ترکیب کی وجہ سے باقی نہیں رہی تھی۔ مریضہ شاید اس ڈنڈا کشی کی وجہ سے تھوڑا افاقہ محسوس کرتی تھی اس لئے کبھی کبھی یہ ترکیب کام کر جاتی تھی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے اپنے بال بچوں کو اس ’مشقِ ستم‘ سے نجات دلا دی یعنی اس ٹی۔ وی کو باہر میدان میں لے جا کر لوہے کی سلاخ سے اس کی پکچر ٹیوب پر ایسا وار کیا کہ بس دیکھنے والوں کو ضربِ کلیم (علامہ اقبال کی بھی) ہی یاد آ گئی ہو گی، لیکن وہ تو اچھا ہوا کہ دیکھنے والا کوئی نہیں تھا ورنہ وہ سارا وقت ’ضربِ کلیم‘ کے معنی ڈھونڈنے میں لگا رہتا۔۔ ۔ بہر حال، اس ضربِ کلیم سے استفادے کے بعد ٹی۔ وی بے چاری کسی کام کی نہ رہی اور صبح کچرے والا اسے اُٹھا لے گیا۔ کانچ اب بھی وہیں بکھرے پڑے ہیں۔
بس، یہ سلوک آپ صرف ٹی۔ وی کے ساتھ ہی کر سکتے ہیں۔ بی۔ وی کے ساتھ تو۔۔ ۔۔ نہیں۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔۔ بقول قتیل شفائیؔ
؎ گرمیِ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
اب یہی دیکھ لیجئے۔ ہم ابھی قتیل شفائی کا یہ مصرعہ ٹائپ کر ہی رہے تھے کہ ہماری اہلیہ آ دھمکیں۔ انہیں آتا دیکھ کر ہماری سٹی پٹی گُم ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنا چشمہ ڈھونڈ کر کمپیوٹر پر مضمون کا اسکرین غائب کرتے، ہم ان کے احاطۂ رسائی میں پہنچ چکے تھے۔ (یا شاید زیادہ درست یہ ہو کہ وہ ایسے احاطہ میں پہنچ چکی تھیں جہاں سے ہم تک ان کی رسائی سے فرشتے بھی انہیں باز نہیں رکھ سکتے تھے۔) انہوں نے پوچھا، ’’کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ ہمارے ان دو لفظوں سے زیادہ ہماری ہکلاہٹ نے ان کے شُبہ کو تقویت بخشی اور انہوں نے ہمیں ایک ہاتھ سے یوں بازو سرکایا جیسے کوئی شخص اپنے سامنے رکھی خالی رکابی کو بے نیازی کے ساتھ بازو کر دیتا ہے۔ ہم سہم کر رہ گئے۔ جہاں تک قتیل شفائی والا مصرعہ ٹائپ ہو چکا تھا، انہوں نے وہاں تک یہ انشائیہ پڑھا، بہت ہنسیں، بہت ہنسیں، خوب ہنسیں۔ کہنے لگیں ’’رُکو، ذرا ٹھہر کر پڑھتی ہوں۔ ہنستے ہنستے جبڑے دُکھنے لگے ہیں۔‘‘ ہم کو اپنے قلم کی طاقت پر ناز ہوا کہ وہ مارا۔ آج تو شیر شکار ہو گیا۔ پھر جب وہ پڑھ چکیں اور پڑھتے پڑھتے مہینے بھر کی ہنسی کا کوٹہ پورا کر چکیں تو اچانک ٹھٹھک گئیں۔ بس، ہم ان کے اسی ٹھٹکنے سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اپنی پیشانی پر بَل ڈال کر(انہیں بَل ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہمیں اور ہمارے رشتے داروں کو دیکھ کر خود بخود ان کی پیشانی پر غیب سے یہ بَل نمودار ہو جاتے ہیں) بولیں، ’’تم نے یہ بیوی اور ٹی۔ وی پر انشائیہ لکھا ہے، تو بیوی کے بارے جو اتنی باتیں لکھیں، یہ کس کی بیوی کے بارے میں ہیں؟ کہیں یہ میں تو نہیں ہوں؟‘‘ ہم نے فوراً ان کے شُبہ کو یقین میں بدلنے سے روکتے ہوئے کہا، ’’ارے بیگم، تم بھی کمال کرتی ہو۔ کہاں تم جیسی لاکھوں میں ایک بیوی اور کہاں میرے انشائیے والی بیوی! یہ تو ہم نے دوسروں کی بیویوں کے بارے میں لکھا ہے۔ ہم جب تم پر لکھیں گے تو دیکھنا، کیسا انشائیہ لکھیں گے۔ تم امر ہو جاؤ گی۔‘‘ ہماری اہلیہ بے انتہا خوش ہو گئیں کیونکہ انہیں امر ہونے میں دل چسپی تھی، یہ جاننے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ امر کب ہوا جاتا ہے۔ چلئے، یوں ہماری جان چھوٹی۔
شوہر اور بیوی میں وہی رشتہ ہوتا ہے جو ادبی تخلیق کار اور نقاد میں ہوتا ہے۔ شوہر ادبی تخلیق کار کی مانند ہوتا ہے اور بیوی نقاد کی طرح۔ یہ واقعہ ہمیں اسی ضمن میں یاد آ رہا ہے۔ اور ہاں، یہ انشائیہ ’لیڈی چیٹرلیز لورز‘ یا ’ کیسانووا‘ کی محبت کی کہانیوں کی طرح بالکل چھپا کر پڑھئے گا ورنہ آپ جانئے۔ خیر، تو سُنئے۔ ایک ولی اللہ اپنی ریاضت اور تقویٰ کی وجہ سے کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے مرید ملک بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ دور دراز سے مرید ان کی خدمت اور فیوض سے استفادہ کرنے کے لئے آتے۔ لیکن گھر میں پیرانی صاحبہ کا اپنا مزاج تھا۔ وہ پیر صاحب کے مریدوں کو کاہل، نکھٹو اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازتیں اور اپنے شوہر کی ولایت کو تو کسی طور خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔ حضرت گھر کی آفت سے بچنے کے لئے مریدوں کے ساتھ کسی گوشۂ عافیت میں چلے جاتے۔ اس بات پر پیرانی صاحبہ کا غصہ مزید بھڑک اُٹھتا۔
ایک دن پیر صاحب عصر کی نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لائے۔ پیرانی صاحبہ تو پہلے ہی لبریز بیٹھی تھیں۔ حضرت کے دروازے میں قدم رکھتے ہی ان پر ٹوٹ پڑیں۔ کہنے لگیں۔ ’’بہت دیکھے تم جیسے ولی۔ تم کیا ولی ہو سکتے ہو۔ ولی تو ایسے ہوتے ہیں جیسے میں نے آج دیکھے۔‘‘ حضرت کو جاننے کا اشتیاق ہوا کہ پیرانی صاحبہ نے کیا دیکھا۔ انہوں نے رغبت سے پوچھا، ’’اچھا، بتاؤ تو، ولی کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ پیرانی صاحبہ بولیں۔ ’’آج جب میں آنگن میں پانی لینے کے لئے گئی تو اچانک آسمان کی طرف نظر اُٹھ گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سفید براق لباس پہنے ہوئے بزرگ، نورانی چہرہ، خوبصورت داڑھی، چہرے پر نور کی تجلی، آسمان میں اُڑے جا رہے ہیں۔ ولی ایسے ہوتے ہیں۔‘‘ حضرت نے پوچھا، ’’نیک بخت، کیا بتا سکتی ہو کہ یہ کتنے بجے کا وقت ہو گا‘‘؟ پیرانی صاحبہ بولیں، ’’تقریباً ظہر کے آس پاس کا وقت تھا۔‘‘ حضرت بولے، ’’اری نیک بخت، وہ میں ہی تھا۔ در اصل مریدوں میں پند و نصیحت کی وجہ سے دیر ہو گئی تو میں نے سوچا کہ نماز میں دیر نہ ہو جائے اس لئے اُڑتا ہوا مسجد کی طرف چلا گیا۔‘‘ پیرانی صاحبہ کے چہرے پر چند لمحے کے لئے شکست خوردگی نمودار ہوئی لیکن فوراً سنبھالا لیتے ہوئے وہ چمک کر بولیں، ’’اچھا؟ وہ تم تھے؟ تبھی تو میں کہوں کہ ٹیڑھے ٹیڑھے کیوں اُڑ رہے تھے۔‘‘ اسے آپ منفی سمت نہ لے جائیے۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست بولے، ’یار، یہ بیویاں بڑی شجیع اور بہادر ہوتی ہیں۔‘ ہم ہنس دئے۔ انہوں نے استعجابیہ انداز میں ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے وضاحت کی، ’بھائی، یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ معمولی کاکروچ اور چھپکلی سے ڈر جانے والی عورت بہادر اور شجیع کیسے ہو سکتی ہے؟‘
وہ بولے، ’کیا شادی کے دن آپ اپنی بیوی کو لانے کے لئے اکیلے گئے تھے؟‘
ہم نے زور سے (اتنی زور سے کہ گردن میں موچ آتے آتے رہ گئی) نفی میں سر ہلا کر کہا، ’ارے صاحب، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘
انہوں نے پوچھا، ’کتنے لوگ گئے تھے اسے لانے؟‘
ہم نے تھوڑا سوچ کر کہا، ’صرف خاندان والے ہی کم از کم سو ڈیڑھ سو ہوں گے۔‘
وہ بولے، ‘اس کا مطلب سینکڑوں لوگ بارات میں شامل تھے۔ یعنی تم بیچاری اُس اکیلی عورت کو لانے کے لئے سینکڑوں لوگوں کو لے کر گئے۔ اور اُدھر اُس ’بِنتِ اسد‘ کو دیکھو کہ شام میں بغیر کسی کو ساتھ لئے، پہلی مرتبہ تمہارے ساتھ، سینکڑوں اجنبی لوگوں کی ہمرہی میں، تنِ تنہا، کس خسروانہ شان سے بڑی جرات و شجاعت کے ساتھ چلی آئی۔ پھر بھی اس کی بہادری کو تسلیم نہیں کرتے؟‘
ہم خاموش ہو رہے۔ انہیں کیا بتاتے کہ ہم تو بیوی کی بہادری کو برسوں سے، روزِ اول ہی سے، اور روزانہ تسلیم کرتے آرہے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ ٹی وی کے بغیر انسان زندگی گزار سکتا ہے لیکن بیوی کے بغیر نہیں۔