قصبہ کیرانہ دہلی سے تقریباً ۱۰۰کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ جسے چھٹی صدی ہجری میں راجا کرن پال دت رانا نے بسایا تھا۔کیرانہ کی سرزمین پر ہر دور میں ایسی عظیم شخصیتیں ہوئی ہیں جنہوں نے کیرانہ کو ہر میدان میں مشہور و معروف کردیا۔جیسے غدر کے دور میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی عیسائیت پر’’اظہار الحق‘‘اور ’’ازالۃ الاوہام‘‘ شاندار اورنایاب تصانیف میں شمار ہوتی ہیں۔ اُن جیسے عالموں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ کیرانہ کے اطراف میں ۱۰۰۔۱۰۰کلومیٹر تک عام آدمی عیسائی مذہب سے واقف ہی نہیں، آج تقریباً ۱۵۰سال بعد بھی عیسائی مشنری نے اِس خطّہ کا رُخ نہیں کیا۔ غدر میں آپ سعودی عرب چلے گئے اور وہاں مدرسہ سولتیہ قائم کیا۔ جو سعودی عرب کا مشہور و معروف مدرسہ ہے۔ان کی تصنیف ’’اظہارالحق‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن ٹائمز نے لکھاتھا:
’’اگر لوگ اس کتاب کو پڑھتے رہیں گے تو دنیا میں مذہب عیسوی کی ترقی بند بند ہوجائے گی۔‘‘
عربی لغت میں وحیدالزماں کیرانوی کا کوئی غیر عرب ثانی نہیں۔ وحید الزماں کیرانوی صاحب کی عربی میں تقریباً ۱۰طرح کی لغت ہیں۔اُردو ادب میں ڈاکٹر تنویر احمد علوی کیرانوی کا تصانیف و تراجم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بقول مولانانورالحسن راشد کاندھلوی، علوی صاحب چلتی پھرتی لائبریری ہیں۔شباب کیرانوی جو پاکستان کے مشہور فلمساز، ڈائرکٹر اور نغمہ نگار تھے، پاکستان کی فلمی تاریخ میں اُن کا قد بہت بلند ہے۔خواجہ فریدؒ پرشہزادہ مرزااحمداخترکیرانوی کی چھوٹی بڑی ۱۰تصانیف بتائی جاتی ہیں۔بقول ساجد جتوئی صاحب،(سکریٹری، خواجہ فرید فاؤنڈیشن) اُن میں سے کئی لائبریری،خواجہ فرید فاؤنڈیشن، خانپور، پاکستان میں موجود ہیں۔ مرزااحمد اختر تیمور کے اُنیسویں پوتے تھے۔ اُن کے دو شعر کافی مقبول ہیں:
احمد اختر نام ہے میرا یہ ہے میرا نسب
پوتا ہوں ۱۹واں میں حضرت تیمور کا
۔۔۔
حیا آتی ہے یہ کہتے ہوئے ہم شا ہزادے ہیں
فلک نے اس طرح کی کچھ مصیبت ہم پہ ڈالی ہے
نواب مقرب خاں کیرانوی ،وزیرِ جہانگیر بادشاہ کا نام کیرانہ میں آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ کیرانہ کی تاریخ میں جب بھی کوئی جھانکتاہے اس کو مقرب خاں کیرانوی کی شخصیت مسحور کرلیتی ہے۔نواب صاحب بادشاہ جہانگیر کے ایّامِ شہزادگی کے وفادار ساتھی تھے۔ مقرب خاں کیرانوی کو جہانگیر نے کئی مرتبہ خاص مہموں پر بھیجااور جب بھی کسی ذمّہ داری میں معتمد وزیر کی ضرورت ہوتی وہ ذمّے داری مقرب خاں کیرانوی کوسونپی جاتی۔ شاید اسی وفاداری کو دیکھتے ہوئے جہانگیر بادشاہ نے شیخ حسن کو ’’مقرب خاں‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا۔
’’تزکِ جہانگیری‘‘ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوئی کہ بادشاہ جہانگیر کیرانہ میں دوبار آیا تھا۔ ایک مرتبہ کیرانہ کے قرب میں پڑاؤ ڈالا تھا۔ تب اطراف کیرانہ کے امراء نے بادشاہ جہانگیر کو نذرانے پیش کئے تھے۔ ایک مرتبہ جہانگیر اہلِ حرم کے ساتھ کیرانہ میں دو دِن اور ایک رات مقرب خاں کیرانوی کے مہمان رہے تھے۔ جس جگہ پر بادشاہ جہانگیر کا دربار لگا تھا وہاں آج بھی مسجد درباروالی موجود ہے۔
بادشاہ جہانگیرنے ’’تزکِ جہانگیری‘‘ میں اس سیر کی روداد یوں لکھی ہے:
’’روز جمعہ بست و یکم بہ پرگنہ کرانہ نزول سعادت اتفاق افتاد پرگنہ مذکور وطن مالوف مقرب خان است آب و ہوایش معتدل و زمینش قابل مقرب خان در انجا باغات و عمارات ساختہ چون مکرر تعریف باغ او بعرض رسیدہ بود خاطر را بسیر آں رغبت افزود روز شنبہ بیست و دوم با اہل حرم از سیر آن باغ محظوظ گشتم بے تکلف باغے است بفایت عالی و دلنشیں انچہ دیوار پختہ و در آن برکشیدہ و خیابا منارا فرش بستہ یکصد و چہل بیگہہ است و درمیان باغ حوضے ساختہ است طول دو بست و بیست درع عرض دوبیست د رع و درمیان حوض صفہ ماہتابی بیست و دو درع مربع و ہیچ درخت گرم سیرے و سرد سیرے نیست کہ دران باغ نباشد از درختہاے میوہ دارکہ درولایت میشود حتٰی نہال پستہ سبز شدہ سروہاے خوش قد باندام دیدہ شد کہ تاحال باین خوبی و لطافت سرد بنظر درنیا دہ باشد فرمودم کہ سروہا را بشمارند سیصد درخت بشمار در آمد در اطراف حوض عمارات مناسب اساس یافتہ ہنوز درکارند‘‘
(’’توزک جہانگیری‘‘’فارسی‘، نور الدین جہانگیر، مرتبہ مرزا محمد ہادی، مطبع نولکشور، جلد۔۲،صفحہ ۲۸۶)
ترجمۂ انگریزی :
On, Sunday, the 16th, I marched from delhi, and on Friday the 21st, halted in the pargana of Kairana, This pargana is the native place of Muqarrab K. Its climate is equable and its soil good. . Muqarrab had made buildings and gardens there. As I had often heard praise of his garden, I wished much to see it. On Saturday, the 22nd, I and my ladies were much pleased in going round it, Truly, it is a very fine and enjoyable garden. Within a masonry (pukhta, pucca) wall, flower-beds have been laid out to the extent of 14 0bighas. In the middle of the garden he has constructed a pond, in length 22 0yards, and in breadth 20 0yards. In the middle of the pond is a mah-tab terrace (for use in moonlight) 2 2yardssquare.There is no kind of tree belonging to a warm or cold climate that is not to be found in it. Of fruit-bearing trees belonging to Persia I saw green pistachio-trees, and .cypresses of graceful form, such as I have never seen before. I ordered the cypresses to be counted, and they came to 300. All round the pond suitable buildings have been begun and are in progress.
)Tuzuk-i-Jahangiri or memoirs of Jahangir,Tanslated by Alexander Rogers, Atlantic publisher, Drya ganj, New delhi-2, page112, v2)
ترجمہ :
’’۲۱؍تاریخ کو پرگنہ کیرانہ میں آنے کی سعادت مندی کا اتفاق پڑا۔ پرگنہ مذکورہ وطن مالوف مقرب خاں کا ہے۔ اِس کی آب و ہوا معتدل اور کیرانہ کی زمین اہلیت رکھنے والی ملی ہے۔ مقرب خاں نے وہاں پر باغات اور عمارات بنائے ہیں جب دو مرتبہ تعریف باغ کی پیش کی گئی تو دل کو اس باغ کی سیر کرنے کی رغبت پیدا ہوئی شنبہ یعنی پیرکے روز جبکہ تاریخ ۲۲؍ہوگئی میں گھر والوں کے ساتھ اس باغ کی سیر سے خوش ہوگیا ہوں یہ باغ تکلفات سے خالی اور بلند مرتبہ و دل نشیں ہے ۔پکی دیواراس کی گھیر میں کھینچ دی گئی اور کیاریوں کو نکالا گیاہے۔ ایک سو چالیس بیگہ زمین ہے اور بیچ باغ ایک حوض ہے لمبائی دو سو بیس گز ہے۔ درمیان حوض کے ’صفۂ ماہتابی‘(چاندسے فیضیاب) نامی چبوترہ ہے جو کہ بائیس گز مربع ہے او رباغ میں کوئی بھی پیڑ ایسا کہ گرمی کی سیر اور سردی کی سیر کے لئے موزوں ہو وہاں باغ میں موجود ۔ میوہ دار درخت جو کہ ولایت میں ہوتے ہیں یہاں تک کہ پستہ کے پودے بھی سرسبزی کی شکل میں اور خوش قد اور خوش بدن سرو کے پیڑ اس قسم کے دیکھے کہ اب تک کہیں بھی ایسے خوبی اور لطافت والے سرو نہیں دیکھے گئے میں نے حکم دیا کہ سرو کے پیڑوں کو شمار کریں۔ تین سو پیڑ شمار میں آئے اور حوض کے آس پاس مناسب عمارتوں کا پتہ بھی چل رہا ہے۔‘‘
کیرانہ کے تاریخی نولکھا باغ اور حوض سے متعلق ایک روایت سینہ در سینہ چلی آرہی ہے۔ میرے والد ماسٹر حاجی شمس الاسلام مظاہری نے اس روایت کو مجھے یوں سنایا :
جہانگیر بادشاہ کی زوجہ جو کہ نورجہاں کے علاوہ تھیں، کے پیٹ میں درد ہواتو علاج معالجہ کے لئے مختلف علاقوں سے وید حکیم بلائے گئے۔ انہوں نے مختلف علاج و تدابیر پیٹ کے درد کو دور کرنے کی کیں لیکن ناکام رہے۔ اسی علاج معالجہ کے دوران کسی درباری نے نواب مقرب علی خاں کے والد صاحب کا نام بتایا کہ کیرانہ میں ایک ہوشیار حکیم ہیں۔ حکیم صاحب اس مرتبہ پر کیسے آئے؟ ان کی داستان اس طرح ہے کہ حکیم صاحب ایک مقبول اور خدا کے پیارے بندے تھے۔ ان کو عملیات سے شغف تھا ایک دن انہوں نے ایک لکڑہارے کو دیکھا کہ لکڑیوں کابڑا گٹھڑسرپر اٹھائے لئے جارہاہے مگر حالت یہ تھی کہ شیشہ کی طرح اُس کا اندرونی جسم دکھائی دے رہا تھا۔ حکیم صاحب نے دیکھا اور جانا کہ کیا عجوبہ ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ لکڑیاں کسی آسیب زدہ پیڑ سے لی گئی ہیں انہوں نے لکڑہارے کو آواز دی اور پوچھا یہ لکڑیاں کتنے کی ہیں۔ ا س نے ’’ہشت فلس‘‘ کا جواب دیا یعنی آٹھ پیسے۔ حکیم صاحب نے اُس کی ایک ایک لکڑی کو اُس کے سرپر رکھواکر دیکھا جب وہ لکڑی آئی جس میں خصوصی اثر آسیب کا تھا اور سرپر رکھی گئی تو لکڑہارے کا تمام جسم آئینہ کے مثل نظر آنے لگا۔ آنت، جگر، گردے،دل صاف نظر آنے لگے۔ حکیم صاحب نے وہ لکڑی اپنے پاس رکھ لی۔ باقی لکڑیاں لکڑہارے کو واپس کردی اور اُس کو آٹھ پیسے قیمت لکڑیوں کی بھی دیدی۔ حکیم صاحب نے وہ لکڑی رکھ لی اور جس مریض کو دیکھنے جاتے اس سے ذاتی حالات معلوم کرتے اور وہ لکڑی بھی سَر پر رکھ دیتے جس سے مرض کی پوری کیفیت سامنے آجاتی او راُن کی دوا کارگر ہوتی ان کی شہرت دور دور پہونچی اور جب رانی کے پیٹ میں درد ہوا تو جہانگیر بادشاہ کو کیرانہ کے باشندے حکیم صاحب کا پتہ بتایا گیا۔ انہوں نے باعزت دربار میں طلب کیا اور رانی کے علاج کی تدابیر میں لگے اور ذاتی معاینہ کیا کہ درد کا سبب کیا ہے۔ حکیم صاحب نے جب رانی کے سرپر جب وہ کرشمہ سازلکڑی رکھی تو پتہ چلاکہ رانی حاملہ ہے اور بچہ کا ایک ہاتھ بچہ دانی سے باہر نکلا ہواہے اور اُس نے آنت پکڑ رکھی ہے جس کے باعث یہ درد ہے۔ حکیم صاحب نے بادشاہ کے خادموں کو کہا کہ چالیس سیر راکھ لائی جائے اور ایک سیر گوکھرو کانٹے بھی لائے جائیں۔ پہلے پانچ گز زمین پر راکھ بچھائی جائے پھر اُس میں گوکھرو ملائے جائیں جو کہ دیکھنے میں نہ آئے۔ رانی کو اس کاروائی کی مطلق اطلاع نہ ہو۔ چالیس سیر راکھ منگاکر اُس میں گوکھرو چھپادئے گئے۔ پھر حکیم صاحب نے رانی کو بلوایا اور راکھ پر چلنے کو کہا جب وہ راکھ پر چلی تو گوکھرو نظر نہیں آئے۔ گوکھرو کے کانٹے جب اُس کے پیر میں چبھے اور وہ اچھلی تو راکھ سے باہر آنے لگی اسی ایک دو اچھل کود کے جھٹکے سے بچہ نے انتڑی کو چھوڑ دیا۔ کچھ دیر بعد حکیم صاحب نے رانی سے کہا کہ تمہاری طبیعت اب کیسی ہے۔ رانی نے کہا میں بالکل ٹھیک ہوگئی ۔یہ سب اطلاعات جہانگیربادشاہ کو دی گئی اور اُس نے خوش ہوکر کہا بولئے حکیم صاحب کیا انعام چاہتے ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہئے اگر آپ دیناچاہتے ہیں تو میرے لڑکے مقرب علی خاں کو اپنا وزیربنالیجئے اور اُس کو جاگیر خرچ کے لئے عطا کردیجئے۔ جہانگیر بادشاہ نے کرنال کیرانہ کی جاگیر نواب مقرب علی خاں کو دے دی۔ نواب مقرب علی خاں نے اس جاگیرکوپاکر سوچا کہ یہ تو چٹیل میدان ہے۔ جہاں گنّا، گیہوں کی کاشت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے کیرانہ میں محل بنایا جس کا نشان آج بھی نواب دروازہ کے نام سے مشہور او رموجود ہے۔ باپ سے عرض کیا کہ آپ اپنے خادم جنوں سے ایک تالاب بنوادیں جو چاروں طرف سے پٹڑی دار ہو۔ اس میں چاروں طرف سے اترنے کے راستے ہوں اور بیچ میں ایک چبوترہ ہو اور میں یہ بھی چاہتاہوں کہ آپ کے ماتحت جنات میرے محل سے تالاب کے چبوترے(صفۂ ماہتابی) تک بیگمات کے لئے باپردہ آنے جانے کو ایک سرنگ بھی بنادیں۔ چنانچہ جنوں نے بڑے بڑے پتھر ڈھوکر تالاب اور بیچ میں چبوترہ بنا دیا اور چبوترہ سے محل تک سرنگ کا راستہ بھی بنا دیا تالاب میں پانی آنے کے لئے جمنا ندی سے پانی خاص جھیل میں آجاتا او ر وہاں سے یوسف والے جوہڑ میں آجاتا اور وہاں سے بذریعہ کچا نالہ بابا مٹی جوہڑ میں آتا وہاں مٹکوں والی عمارت سے بذریعہ جھرنوں کے تالاب میں پانی آجاتا۔ جھرنے، مٹکے اور تالاب ابھی تک موجود ہیں۔ تالاب کے مغربی حصہ میں بھول بھلیاں کی شکل پر ایک گڑھی بنی ہوئی ہے جہاں نوابی زمانہ میں شکار اور تفریح کے لئے ملاح کشتیاں لئے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ اسی بیچ نواب صاحب کو سوجھی کہ ایک بہت بڑا باغ لگوایا جائے۔ جس میں کم از کم نو لاکھ پیڑ ہوں اس کاروائی کے لئے انہوں نے اُس قاتل راجپوت پناہ گزیں سے کہاوہ راجستھانی راجپوت پیشہ سے مالی تھا اوروہ راجستھان میں کسی قتل میں ملوث تھا۔نواب نے اس سے کہا کہ اگر تم ہماری خدمات قبول کرو او رہمارا کہا مانو اور نولاکھ پیڑ لگاسکو جو ہمارا منصوبہ ہے تو ہم تم کو بادشاہ کی طرف سے قتل کیس سے بری کراسکتے ہیں۔ آنے والے راجپوت راجستھانی نے کہا میں اکیلا اس کام کو کیسے کرسکتا ہوں تو نواب صاحب نے کہا تم اپنا سبھی خاندان یہاں لے آؤ۔
نولکھا باغ کا کام شروع ہواتو پانی کی فراہمی کا مسئلہ سامنے آیا۔نواب صاحب نے پھر اپنے ابا حضور کے سامنے پانی کا مسئلہ رکھاکہا کہ نولاکھ پیڑوں کی سیچائی کے لئے کم از کم تین سو بڑے بڑے کنوئیں درکار ہوں گے چنانچہ حکیم صاحب نے جنّات کے ذریعہ بڑے بڑے دودھی پتھروں کے تین سو کنوئیں جانب مغرب کیرانہ میں بنوادئے جوکہ باغ کی سیچائی کا ذریعہ تھے۔ یہ تین سو کنوئیں آج بھی بذریعہ ملکیت یا موروثیت مالی اور راعین برادری کے قبضہ میں ہیں۔
جب ساجد جتوئی صاحب(خواجہ فریدؒ فاؤنڈیشن،خانپور،پاکستان)نے کیرانہ کے ایک شخص شہزادہ مرزا احمد اختر کی تصانیف کی تلاش میں مدد مانگی تومرزا احمد اخترکے رشتے کے بھانجے سلیم اختر فاروقی اور میں نے کیرانہ کے بزرگوں سے بات چیت کی ۔کتب خانوں،ذاتی کتب خانوں میں تاریخی کتابوں میں مرزاحمد اختر تلاش کرنے لگے تو انکشاف ہوا کہ کیرانہ میں جوصدیوں سے روایت چلی آرہی ہے اس کا کوئی ثبوت تاریخ میں نہیں کہ یہ تعمیرات جنّات نے کی اور نواب مقرب خاں وزیرِ جہانگیر بادشاہ کا نام مقرب علی خاں نہیں ہے۔ ’’تزکِ جہانگیری‘‘ کے حوالوں سے اس روایت کی تردید ہوتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
’’شیخ بہا کا بیٹا شیخ حسن جو بچپن سے میری خدمت انجام دے رہاتھا اور جس کی خدمت سے خوش ہوکر میں نے ایّام میں شہزادگی میں ’’مقرب خاں‘‘ کا خطاب عطاکیا تھا ہمیشہ اپنے کام میں چست و چالاک ثابت ہوا اور جب میں شکار کھیلنے جاتا تھا تو میلوں میرے آگے آگے پیدل دوڑا کرتا تھا۔ وہ اور اس کے آباء اجداد تیر و کمان اور بندوق چلانے اور فن جراحت میں یکتائے روزگار تھے․․․‘․‘
(’’تزک جہانگیری‘‘ اردو،تصنیف نورالدین جہانگیر بادشاہ ، ترجمہ مولوی احمد علی صاحب رامپوری، نظرِ ثانی جمیل الدین احمد،‘ص۵۲)
’’ایک بیوہ عورت نے میرے حضور میں فریاد کی کہ مقرب خاں نے کھبایت کی بندرگاہ میں میری لڑکی کو زبردستی اپنے گھر میں ڈال رکھاہے۔ میں نے اُس سے طلب کیا تو اُس نہ کہہ دیا کہ وہ اپنی موت مرگئی میں نے اُس واقعہ کی تحقیقات کی تو اس ظلم کا ذمہ دار اس کا ایک ملازم تھا․․․‘‘
(’’تزک جہانگیری‘‘ اردو،تصنیف نورالدین جہانگیر ، ترجمہ مولوی احمد علی صاحب رامپوری، نظرِ ثانی جمیل الدین احمد)
’’نورجہاں بیگم جو عرصہ دراز سے علیل تھی ہندومسلمان شاہی اطبّا کے معالجے کے باوجود کوئی افاقہ نہ ہوتا تھا۔ اب انہوں نے بھی مزید علاج سے معذرت مانگ لی۔لیکن کچھ دن ہوئے کہ حکیم روح اللہ نے آستان بوسی کی سعادت حاصل کی تھی اور اُس نے بیگم کا علاج اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کہ فضل و کرم سے روح اللہ کے دستِ شفا سے اُسے مکمل صحت ہوگئی اس لیے میں نے اِس خدمت کے صلے میں حکیم کو منصب عنایت کرتے ہوئے اُس کے آبائی وطن میں تین گاؤں بطور جاگیر عطا کئے۔ پھر اُس کو چاندی میں تول کر وہ چاندی اُسی کو عنایت کردی۔‘‘ (’’تزک جہانگیری‘‘ اردو،تصنیف نورالدین جہانگیر ، ترجمہ مولوی احمد علی صاحب رامپوری، نظرِ ثانی جمیل الدین احمد،ص۳۰۰)
اِن حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ مقرب خاں کا نام شیخ حسن تھا اور ’’مقرب خاں‘‘ خطاب تھا۔ جبکہ اہلِ کیرانہ نواب مقرب علی خاں کہتے ہیں اُن کی دلیل ہوتی ہے کہ پانی پت میں نواب کے مزار پر نواب مقرب علی خاں کیرانوی لکھاہے۔ مزارپر غلط نام کا لکھا جانا، اور خطاب کے بیچ میں ’علی‘ کا رائج ہونا ایک تحقیق طلب بات ہے۔ دوسری بات تعمیرات کا جنات کے ذریعہ تعمیر ہونے کا کوئی مستند ثبوت نہیں ہے، ہو بھی کیونکر تاج محل جیسا عظیم شاہکار انسانوں کا بنایا ہوا ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مقدّس عمارتوں میں غیبی مدد تو رہی مگر یہ نہیں ہوا کہ ایک رات میں عمارت مکمل بناکر سونپ دی جائے۔
ان حوالوں سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ نواب مقرب خاں کیرانوی کے والد وہ حکیم نہیں تھے جنہوں نے جہانگیر کی بیوی کا علاج کیا تھا اُن کے والد کا نام شیخ بہا تھا جبکہ یہ حکیم روح اللہ ہیں او راِن کو کوئی غیر معروف جاگیر انعام میں دی تھی جبکہ مقرب خاں تو جہانگیر بادشاہ کے بچپن کے وفادار تھے اور ان کے خالہ زاد بھائی نواب محمود علی جھنجھانہ میں پانصد سوا رکے عہدہ ومنصب سے ممتاز تھے۔
بادشاہ جہانگیر کی تصنیف’’تذکرہ جہانگیری‘‘ سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی کہ نواب کا نام مقرب خاں تھا اور اُن کو جاگیر بطور انعام نہیں ملی بلکہ وہ مغلیہ خاندان سے پہلے سے وابستہ تھے اور تعمیرا ت کیرانہ کا جنات کے ذریعہ تعمیر ہونے کی روایت میں کوئی سچائی نہیں۔ ٭٭٭
ضروری اعلان : کثیراللسانی نعتیہ مجموعہ
امین خیال جاپان میں مقیم ہیں اور وہاں سے ایک ایسا نعتیہ مجموعہ ترتیب دے رہے ہیں جس میں دنیا کی
مختلف زبانوں کی نعتیں شامل ہوں گی۔انڈوپاک کی علاقائی زبانیں جاننے والے دوست ان علاقائی
زبانوں میں نعتوں کی فراہمی ممکن بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔اسی طرح یورپ کے مختلف ممالک میں
رہنے والے دوست جو وہاں کی زبانیں بخوبی جانتے ہیں،وہاں سے اُن زبانوں میں اپنی طرف سے
بارگاہِ رسالت ﷺمیں منظوم نذرانۂ عقیدت بھجوا سکتے ہیں۔یہ ایک وسیع منصوبہ ہے جو دنیا بھر میں پھیلے
ہوئے عاشقانِ رسولﷺکے دلی تعاون سے مکمل ہو سکتا ہے۔امید ہے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے
والے دوست فوری طور پر توجہ فرمائیں گے۔مزید معلومات کے لئے امین خیال سے اس ای میل ایڈریس
پر رابطہ کریں:[email protected]
ڈاک سے رابطہ کرنے کے لئے پتہ Muhammad Naveed Amin
Yashio Oaza Hachijo 1567, Yashio Danchi 18-504,
Yashio Shi Saitamaken Japan
www.kitaabghar.com
اردو میں اپنی نوعیت کی واحد ویب سائٹ جس پر اردو کی مکمل کتب آن لائن کی جا رہی ہیں۔آپ بھی
اپنی کتاب بلا معاوضہ انٹرنیٹ پر لانا چاہتے ہیں تو فوری طور پرہم سے رابطہ کریں۔
حسن علی:[email protected] کاشف الہدیٰ:[email protected]
حیدر قریشی:[email protected]