"All despair is followed by hope
And all darkness is followed by sunshine” (Rumi)
یہ ترکی کا شہر ازمیر ہے ۔ ایک بے مثال شہر ، اپنے اندر کئی روشنیان کئی باتیں کئی یادیں اور دلوں کے راز سمٹے ہوئے ۔ اپریل کا مہینہ چل رہا ہے ۔ ہوا میں خنکی باقی ہے پر پہلے والی سردی اب نہیں رہی ۔
ارج نے اپنا کالے رنگ کا سکاف ٹھیک کیا جس میں بالوں کی لٹیں باہر کو آ رہیں تھیں ۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا اور پھر چلنا شروع کر دیا ۔
وہ ایک دو منزلا ترکش سٹائل کے بنے مکان کے سامنے آ کر رکی ۔اور دو زینے عبور کر کے دروازے کھٹکھٹایا ۔
"کون ہے ۔ ” اندر سے پوچھا گیا
"میں ہوں ارج آرزو آنٹی ۔”
ارج نے ہاتھ میں پکڑے کیک کو سمبھلتے ہوئے کہا
"آج بہت دیر کر دی بچے کب سے انتظار تھا تمہارا ”
ایک چالیس پچاس سالہ سرخ بالوں والی عورت نے دروازہ پر پوچھا ۔
"کیا بتاؤں آپ کو آرزو انٹی ۔ آج کافی رش تھا ۔ بس اسٹاپ پر پھنچی تو بس نکل چکی تھی ۔ تو دوسری کا انتظار کرتے کرتے لیٹ ہو گئی۔پھر میٹرو پر آ گئی ۔ آپ بتائیں کیسا دن رہا ؟”
گندمی رنگ ، مناسب نقش نین ، پانچ اعشا یہ چھ فٹ قد کی مالک ارج نے سکاف اتار تے اور اپنے گھر والے جوتے پہنتے ہوئے کہا
میں تو زیادہ تر تمہارا انتظار کرتی ہوں یا گھر کے کم یا پھر پاس جو لائبریری ہے وہاں پڑھنے چلی جاتی ہوں ۔ انہوں نے کھانا میز پر چونتے ہوئے کہا
آہ ہاں ۔ لائبریری ! جانتی ہوں وہاں آپ کا کسی پر کرش ہے ۔ جو آپ روز وہاں جاتیں ہیں ۔ میں تو لائبریری کو کم ہی ٹاٹا بائے بائے کرتی ہوں ۔ ارج نے مسکراتے ہوئے کہا
ارج احسن باز آ جاؤ ۔ اور جا کے فریش ہو کے آؤ ۔ تب تک میں قوہ بنانے کے لئے پانی رکھتی ہوں ۔ وہ کتیلی اٹھاتے ہوۓ مخاطب ہوئیں
بس میں یوں گئی اور یوں آئی ۔ وہ کہتے ہوئے سیڑ ھیوں سے اوپر بھاگ گئی ۔
لائبریری میں روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ کتابیں اپنے راکس میں لگیں ہوئیں تھیں ڈارک براؤن رنگ کے لکڑی کے بنے ریکس تھے تھوڑا آگے کر کے پانچ کے قریب ٹیبل لگے ہوئے تھے ساتھ بیٹھنے کے لئے کرسیاں لگیں تھیں ۔ انٹرنس پر شیشے کا دروازہ لگا تھا
اس لائبریری میں زیادہ کتابوں کا ذخیرہ تو نہ تھا پر اتنی کم کتابیں بھی نہ تھیں اسلامی کتابیں ، مختلیف تاریخی کتابیں ، سائنس ، ناول ہر طرح کی کتابیں تھیں
لائبریری میں اس پھیلے سکوت کو کتاب کی گرنے کی آواز نے توڑا ۔
چھ فٹ کا لمبا تکڑا سا بندہ اٹھ کر سائنس رایک کی طرف آیا ۔
"کیا ہو رہا ہے ادھر اتنا شور کیوں ہے؟” پامیر نے بڑی بڑی گلاسس لگائے ہوئے لڑکے کی طرف دیکھ کر کہا
"وہ۔۔۔ میں وہ کتاب لینا چاہتا ہوں پر پہنچ نہیں پا رہا” اس نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے ریک کے آخری خانے کی طرف اشارہ کیا ۔
پا میر نے اپنے ماتھے پر آئے بال پیچھے کئے ۔تھوڑا سانولا رنگ تھا پر زیادہ گہری رنگت نہیں تھی ایک پرانے زخم کا نشان اس کی گردن سے ہوتا کندھے سے تھوڑا پیچھے ختم ہوتا تھا ،
وہ تھوڑا اوپر ہوا اور اس بچے کو مطلوبہ کتاب نکال کر دی ۔
” آئندہ سے وہ سیڑ ھی نظر آ رہی ہے ۔ اس کی مدد سے نکال لینا ۔ ” وہ کہتے ہوئے واپس اپنے کاؤنٹر پر جا کر بیٹھا اور کتاب پڑھنے لگا۔
موبائل کی ویبرشن پر اس نے اپنی کتاب واپس میز پر رکھی اور فون اٹنڈ کیا ،
"جی بولیے ! مس آرزو کوئی کام تھا ۔ ” اس نے فون کان پر لگاتے ہوئے بے تاثر آواز سے کہا
"میں نے یہ پوچھنے کے لئے فون کیا ہے کہ اب تمہارا دل اور دماغ راضی ہوا ہے شادی کرنے کے لئے کے نہیں ۔”
انہوں نے بنا کوئی تمہید باندھے بات بیان کی ۔ پچھلے چار سال سے یہاں آنے کی وجہ سے وہ پامیر کو کافی حد تک جانتیں تھیں ۔وہ بھی صرف اپنی باتونی نیچر کی وجہ سے
پامیر نے ان کو بات سن کر آنکھیں بند کر کے گہرا سانس خارج کیا ۔
"مطلب آپ یہ بات ختم نہیں کرنے والیں میں(38) اٹھتیس سال کا بندہ ہوں اور آپ شادی پچیس سال کی لڑکی سے کرنا چاہتیں ہیں ۔میری ہسٹری جانتے ہوئے بھی ” ۔ اس نے پنسل کو ہاتھوں میں گھوماتے ہوۓ کہا
"اس ھی لئے تو کرنا چاہتی ہوں ۔ کیونکہ میرے خیال ہے تم سے زیادہ بہتر انسان اس کو ملنا بہت مشکل ہو گا ۔” وہ بات کرتے ہوۓ بولیں
"ٹھیک ہےکل شام کو لائبریری میں بیھج دیں ۔ لیکن پانچ سے پہلے پہلے اس کے بعد لائبریری بند ہو جاتی ہے ۔ ”
اس نے اپنے اطراف پر نظر ڈالتے ہوئے کہا
"ہاں ہاں ٹھیک ہے ”
وہ خوشی سے بولیں
” پر تم شادی کی کوئی بات مت کرنا بس ویسے ھی بات کرنا اگر وہ اچھی لگے تو ۔ تمھیں کنونس کر لیا تو اسے بھی کر لوں گی ۔ ٹھیک ہے پھر وہ شام کو آئے گی میں تصویر اور نام سینڈ کرتی ہوں ۔ ”
انہوں نے مطلب کی بات پوری ہوتے ھی فون بند کر دیا ۔
"مجھے کونسا وہ پسند آ جائے گی یا مجھے شادی کرنی ہے ۔ ”
اس نے کہتے ہوئے فون واپس کاؤنٹر پر رکھ دیا ۔ اس کے فون پر ویبراشن ہوئی جیسے اس نے اگنور کر دیا
آج ارج نے بیکری سے چھٹی کی تھی ۔ وہ تکریباً بارہ بجے اپنے کمرے سے نمودار ہوئی ۔ اور سیدھا کھانے کے لئے کچھ ڈھونڈنے لگی ۔
"ترکش بورک بنایا ہے ۔ اوون کے ساتھ پڑا ہے ۔”
پیچھے آتی آواز پر وہ اچھل پڑی ۔اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوۓ مڑی
"اف ۔ انٹی آرزو آپ نے تو جان ھی نکال دی تھی میری ۔”
اس نے کہتے ہوئے او ون کا رخ کیا ، اور کھانا اٹھا کر گول لکڑی کے میز پر بیٹھ کر کھانے لگی ۔آرزو صاحبہ جنہوں نے پاؤں تک جاتا ترکش لباس پہن رکھا تھا ۔اس کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھیں
"تم آج پھر نہیں سو سکی نہ ؟”
آرزو صاحبہ نے اس کی آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے دیکھ کر کہا
"نہیں ایسی بات نہیں میں وہ بس بیکری کے آرڈر کی لسٹ بنانی تھی تو کام بہت زیادہ تھا تو بس اس ھی لئے ۔”
اس نے کہتے ہوئے اپنا چہرہ پلیٹ پر تھوڑا جھکا لئے
"اچھا خیر چھوڑو !! ۔۔آج رات میری دوست کے گھر ہونے والی پارٹی پر چلو گی بس ہم خواتین ھی ہوں گی۔چلو گی نہ ۔ ”
ان کی بات سن کر ارج کا تنفس بڑھ گیا کسی محفل اور لوگوں کا سن کر وہ یونہی دہشت زدہ ہو جاتی تھی ۔پارٹیز اور کسی بھی تقریب میں جانا اس کے لئے نا ممکنات میں شامل تھا ۔
"آپ۔۔۔۔ جانتی ہیں ۔۔مم ۔۔۔۔میں زیادہ رش والی جگہ پر نہیں جا سکتی ۔ میں جانتی ہوں آ۔۔آپ ۔۔۔ مجھ سے بہ۔۔۔بہت پیار کرتیں ہیں لیکن ابھی مجھ م۔۔میں اتنا فیس کر نے کی ہم۔۔۔ہمت نہیں ۔ ”
اس نے آنکھوں میں آنسو لئے ہوئے ان کی طرف دیکھا ۔
"کوئی بات نہیں تم آرام سے بیٹھو کچھ نہیں ہوا ۔ بس آج بیکری کے کسی کام کے لئے مت جانا میرے ساتھ چلنا ۔ لائبریری جانا ہے اور کچھ گروسری خریدنی ہے ۔ ”
انہوں نے ارج کو پانی دیا اور اس کا گال تھپتھپایا ۔
"ٹھیک ہے !یہ کر سکتی ہوں لیکن رش میں نہیں جانا ۔ میں نارمل رہنے کی کوشش کروں گی کے مجھے پینیک اٹیک نہ ہوں ۔ ”
ارج نے اپنے آپ کو پر سکون کرنے کی کوشش کی ۔ وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑنے میں مصروف تھی ۔
آرزو گلدان بیگم نے اس ھی بات پر سکون کا سانس لیا کے وہ مانی تو سہی ۔ورنہ اپنے ڈر کی وجہ سے بیکری سے گھر اور گھر سے بیکری یہ ھی روٹین تھی ۔ کبھی رش والی جگہ پر نہیں جاتی تھی ۔ پتا نہیں کیا یہ کبھی آگے بڑھ بھی سکے گی زندگی میں ۔ آرزو صاحبہ نے سوچا ۔
"چلو میں ذرا نیلوفر صاحبہ سے مل کر آتی ہوں ۔”
انہوں نے گھر کے جوتے پہنتے ہوئے اور سکاف لپٹتے ہوئے کہا
وہ کہتے ہوئے باہر چل دیں جبکہ ارج نے ان کو دیکھتے ہوئے گہرا سانس خارج کیا اور کھانے کی طرف مبذول ہو گئی ۔۔
گھڑی ساڑھے چار بجا رہی تھی ۔ باہر کے موسم میں خنکی دن کی نسبت بڑھ چکی تھی ۔ ارج آرزو صاحبہ کے ساتھ آس پاس کے ماحول سے بے تاثر ہو کر دھیمے دھیمے چل رہی تھی ۔
"بیٹا ! مجھے یاد آیا کے میں نے اپنی کچھ کتابیں اپنی ایک دوست کو دیں ہوئیں تھیں میں ابھی لے کر آتی ہوں۔تم یہ کتابیں لائبریری سے اشو کر وا لو یہ لائبریری کارڈ ہے میں بس ابھی آئی ۔ ”
وہ ارج کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر کتابوں کا بتاتے ہوۓ چل دیں ۔جبکہ ارج کبھی ان کو جاتا دیکھ رہی تھی کبھی لائبریری کے دروازے کو ۔
"ہمت کرو ارج پوری زندگی ڈر ڈر کر تو نہیں گزرنے والی” اس کہتے ہوئے قدم لائبریری کی طرف بڑھائے ۔اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی
دو تین لوگ ھی تھے جو کے ابھی کاؤنٹر پر کھڑے تھے ۔وہ ہمت کر کے ریکس کی طرف بڑھی اور مطلوبہ کتاب ڈھونڈنے لگی ۔
"کونسی کتاب چاہیے آپ کو مس !”
بھاری مردانہ آواز پر اس کے ہاتھ ایک دم کانپے ۔وہ آہستہ سے پیچھے کی طرف موڑی ۔
اس نے گردن اٹھا کر اپنی بڑی بڑی ڈری ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا ، براؤن رنگ کی آنکھوں نے اس کی کالی آنکھیں میں دیکھا تھا ۔ آنکھوں سے ہوتی ہوئی اس کی نظر کان کے پیچھے سے شروع ہوتے ہوئے گردن کے نیچے تک جاتے نشان پر گئیں ۔
مگر پامیر کی نظر اس کی آنکھوں پر ہی ٹھہر گئی ۔ سرد ،منجمد ہر جذبے سے خالی ، جیسے اس نے بھی وہ حیوانایت دیکھی ہو جو پا میر اپنی زندگی میں دیکھ چکا تھا۔ ۔تحیر محبّت کا دور شروع ہونے کو تھا ۔ رات کی رانی کی گلیاں کھلنے کو بے تاب تھیں ۔
"یہ ہلک (hulk) کو کھلا کس نے چھوڑ دیا ۔”
ارج نے سوچنے کی جگہ یہ بات اونچی آواز میں کہہ دی
"کارا (ڈیئر) ! ہلک کو آج سے پہلے کوئی انسان قید ہی نہیں کر پایا ۔”
پامیر بغیر سوچے سمجھے ہی بول گیا ارج کی آنکھیں پھیل گئیں
” اف میرا خدا ! ان کو سنائی دے گیا اور یہ کارا کیا بلا ہے ۔ ”
ارج اب کے اردو میں بڑبڑائی ۔
کیا !! پامیر نے ناسمجھی سے کہا
‘ آپ ہیں کون ؟ مجھے جو کتاب چاہیے ہو گی میں خود ہی ڈھونڈھ لوں گی ۔ آپ جا کر اپنا کام کریں ۔” ارج ہمت جتا کر بولی
” میں اپنا کام ہی کر رہا تھا مس دراصل آپ کے کندھے پر کاکروچ بیٹھا ہے ۔” ہلک کی بات سن ارج کی روح ہی فنا ہو گئی ۔
” جج،۔۔۔۔جی!!!! ” اس نے ہلکی سی مری مری آواز میں کہا
ارج نے اپنے کندھے پر پڑا سکاف زور سے جھاڑ ا اور نیچے کوکرو چ کو تلاش کرنے لگی ، جبھی اسے پامیر کی عجیب آواز آئی ۔ مڑ کر دیکھا تو محترم اس کو پاگل بنا کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش میں مصروف تھے
"آپ کو شرم تو نہیں آئی ہو گی پاگل بناتے ہوئے ،خود وہاں کھڑے کنگ کانگ جیسی آوازیں نکال رہے ہیں” ارج نے پامیر کو ڈانٹتے ہوئے لال ہوتا چہرہ لئے کہا
"آپ ہیں ہی ایسی اس میں میرا کیا قصور ہے” اس بار وہ دل کھول کر ہنسا ۔
"سر ! مجھے یہ بکس نہیں مل رہیں ۔” ایک لڑکی نے پوچھا ۔تو پامیر ہوش و خرد کی دنیا میں لوٹا ۔
"یہ یہاں نہیں ملے گی آپ کو کسی بڑی دکان سے مل سکتی ہے اور مہنگی بھی ہو گی ۔ ”
وہ لڑکی کو بتا کر واپس ارج کی طرف متوجہ ہوا پر اب کے اس کی آنکھیں سنجیدگی اور حیرانی سے اس کو تک رہیں تھی گویا نئے عجوبے کی دریافت کرنے والا ہو
” آپ لائبریرین ہیں پہلے کیوں نہیں بتایا دیکھیں میں یہ کتابیں لینے کے لئے آئی ہوں کیا ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں یہ کہاں ملیں گی ۔”
یہ کہتے ہوئے اس نے لسٹ اس کی طرف اچھالی ۔
جس پر پامیر نے ہوش میں آتے ہوئے وہ لسٹ پکڑی ۔۔ ایک بار اس لڑکی کی طرف دیکھ کر سر جھٹکا۔ اور واپس سنجید گی سے لسٹ دیکھ کر ریک کی طرف اشارہ کر کے ٹرانس کی کیفیت میں کاؤنٹر پر چل دیا ۔ وہ آج اپنے راویے پر خود ہی حیران تھا ،۔ پامیر نے اپنا ہاتھ ہلکی بڑھی داڑھی پر پھیرتے ہوئے سانس خارج کی اور خود کو ہوش میں لانے کی کوشش کی ۔
ارج کو مطلوبہ کتاب مل تو گئی تھی ۔ پر وہ کاؤنٹر پر جانے سے گھبرا رہی تھی۔شائد کے آرزو آنٹی آ ہی جایئں ۔ اس نے سوچا
۔لیکن اب پانچ بجے کاؤنٹر کیا لائبریری میں بھی کوئی نہیں تھا ۔ تو اسے مردہ قدم اٹھا کر خود ہی آنا پڑا ۔ جبکہ پامیر اس میتھ کے مسلوں سے زیادہ پچیدہ لڑکی کو دیکھ کر الجھ گیا تھا ۔
"مجھے یہ اشو کروانی ہے ۔ ”
ارج نے گھبراتے ہوئے کہا ۔
"آپ کو لائبریری کارڈ بنوانا ہو گا یہاں کا ۔”
اس نے بظاہر خود کو مصروف دیکھنے کی کوشش کی ۔
ارج نے کارڈ نکالا ہی تھا کے آرزو لائبریری میں داخل ہوئیں ۔ ارج جو پامیر کی نظروں سے تنگ آ چکی تھی جلدی جلدی کارڈ آرزو صاحبہ کو دے کر باہر کی رہ لی
لیکن وہ مسلسل پیچھے کو مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھی چلتے چلتے سیدھا دروازے سے جا ٹھکرائی ۔
پا میر کے حیران چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ار ج نے اسے آنکھیں نکالیں اور ناک ملتے ہوئے شرمندہ ہوتی باہر چلی گئی
"ہیلو ! مسٹر وہ چلی گئی ہے ۔” آرزو صاحبہ نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا
پا میر نے آرزو صاحبہ کی طرف دیکھا پھر دروازے کی طرف ۔
"تو یہ ۔”
وہ سمبھلتے ہوئے بولا
"ہاں یہی تو ہے ارج احسن ہے ۔ ہے نہ پیارا سا پھول ۔”
جبکہ پامیر کے اندر کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔وہ تو لڑکی کو دیکھے بغیر ہی انکار کر دینا چاہتا تھا ۔ اب بھی کرنا چاہتا تھا پر کر نہیں پا رہا تھا ۔
"مجھے۔۔۔۔۔۔مجھے کچھ وقت در کار ہے ۔”
آخر کار خود سے ہار کر خود سے بے گانہ لہجے میں بولا
‘ٹھیک ہے صرف ایک ہفتہ ۔مجھے اپنے بھائی کے پاس کچھ عرصے شفٹ ہونا ہے وہ بہت بیمار ہیں پر میں ارج کو یہاں نہیں چھوڑ سکتی ۔ اگر تم نہیں تو کوئی سیکنڈ بیسٹ ڈھونڈ لوں گی ۔”
وہ مزے سے کہتے ہوئے باہر چلیں گئیں جبکہ پامیر کا دماغ گھوم گیا ۔ اس کا ذہن سیکنڈ بیسٹ پر ہی الجھ گیا ۔ دل و دماغ میں نئی جنگ شروع ہو چکی تھی ۔
"سیکنڈ بیسٹ ”
آنکھوں سے گھورتے ہوئے کاؤنٹر کو دیکھا ۔جیسے اس کو انکھوں سے ہی راکھ کا ڈھیر بنا دے گا وہ وہیں کرسی پر ڈھے گیا ۔
” میں اس کے لئے بلکل بھی اچھا نہیں ہوں ۔ پھر انکار کرنے سے ہچکچا کیوں گیا ۔میں گناہوں کے شہر کا باسی رہ چکا ہوں اور وہ معصوم سی لڑکی ” پر یہاں پامیر کا اندازہ غلط تھا ۔
اس کے سر میں درد کی ٹسیں اٹھیں وہاں بیٹھے گئیں گھنٹے گزر گئے ۔ اسے لگا باہر بڑھتا اندھیرا اس کے اندر کے اندھیرے کی عکاسی کر رہا ہے
پر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ بڑھتا ہوا کالا گہرا اندھیرا آنے والی سحر کا پتا دے رہا تھا