یہ مضامین مختلف اوقات میں وقفے وقفے سے لکھے گئے ہیں مگر شاید بے ربط نہ ہوں کیونکہ ان کی شیرازہ بندی تاریخی اصولِ تنقید سے کی گئی ہے۔ واقعات یا خیالات کی تکرار ممکن ہے کہ نازک طبیعتوں پر گراں گزرے لیکن بات سچی ہو تو اس کی تکرار میں چنداں مضائقہ نہیں۔ بعض مضامین نزاعی ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے غور کرنا مناسب ہوگا۔ مصنف کی دلیلیں یا دعوے اگر غلط ہوں تو ان کو بے شک رد کر دیجئے۔ مشتعل ہونا قوتِ استدلال کے ضعف کی علامت ہو گی۔ قلم کا جواب زبان قلم سے دینا اربابِ فہم کا مسلک ہے اس لیے کہ خیالات کو بہتر حالات ہی سے شکست دی جا سکتی ہے اور گمراہیاں راستی کی راہ دکھانے ہی سے رک سکتی ہیں نہ کہ احتساب کی آہنی دیواروں سے ۔ پاپائے روم کی روحانی سلطنت میں احتساب کا باقاعدہ ایک محکمہ صدیوں سے قائم ہے۔ پرانے زمانے میں تو ممنوعہ کتابیں اور ان کے مصنف دونوں کو آگ میں زندہ جلا دیا جاتا تھا پھر بھی نئے خیالات پیدا ہوتے رہے۔ سرسید اور علامہ اقبال کی تحریروں کے خلاف جو فتوے لگے ان سے جگ ہنسائی کے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ زمانے نے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ خود کردیا۔ سر سید کی تصنیفات آج سرکاری طور پر شائع ہوتی ہیں اور علامہ اقبال مفکرِ پاکستان کہلاتے ہیں۔ہمارے روشن خیال علمائے سلف کا قول تھا کہ یہ نہ دیکھوں کہ وہ کون ہے بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ انہوں نے لوگوں کی فکری اصلاح اسی اصول کے تحت کی۔ جو خیالات ان کو سچ دکھائی دیے ان کو انہوں نے مومن کا کھویا ہوا مال سمجھ کر خوشی خوشی قبول کر لیا۔ نہ ان کے دین میں خلل پڑا نہ ان کے عقائد بگڑے، جو خیالات ان کو غلط لگے ان کو انہوں نے دلائل وبراہین سے رد کرنے کی کوشش کی مگر قدما کی یہ درخشاں روایت افسوس ہے کہ رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جذباتیت، تنگ نظری اور ناروا داری ذہنوں پر اس قدر حاوی ہے کہ نئی فکر کی تازہ ہوائیں ادھر کا رخ کرتے ہیں حالانکہ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
یہ روش اگر جلد نہ بدلی گئی تو ہم اپنی نئی نسلوں کو شاہ دولہ کے چوہوں کے سوا تحفے میں کچھ نہ دے سکیں گے۔
سبطِ حسن۔ کراچی
24 جولائی 1982
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...