’’تمہارا ایک ہفتے کا وعدہ تھا اور اب دو ماہ ہو چکے ہیں۔ مجھے حویلی کیوں نہیں آنے دیا؟‘‘ وہ کل ہی پاکستان آیا تھا اسے واپس لے جانے کے لیے۔ مگر اس نے کہہ دیا تھا کہ تم حویلی مت آنا۔ میں کل خود تم سے ملنے آؤں گی اور اس وقت دونوں جھیل کے کنارے اونچے نیچے پتھروں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ موسم اچھا تھا۔ فضا خوش گوار مگر پھر بھی جیسے ہر سمت کچھ کمی سی تھی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے اور کیسے بات شروع کرے۔
’’مجھے تم سے کچھ کہنا تھا۔‘‘
’’ہاں ! کہو۔‘‘ وہ ہمہ تن گوش ہوا۔ مگر اس کی سمجھ میں آ چکا تھا کہ وہ کمی کہاں تھی۔ وہ کمی بیلا کے انداز میں تھی۔ اس کے گریز میں تھی۔ وہ اپنے اور اس کے مابین فاصلہ رکھ کر بیٹھی تھی۔ وہ کمی اس ہاتھ بھر کے فاصلے پر تھی۔ وہ کمی تو اس کی آواز میں بھی تھی۔
اور شاید سب سے بڑھ کر وہ کمی اب دل میں تھی۔
’’مانیک! میں مسلمان ہو چکی ہوں۔‘‘
’’اف!‘‘ اس نے بے ساختہ ایک گہرا سانس خارج کیا۔ وہ کمی اب کہیں نہیں تھی۔
’’میں سمجھ رہا تھا کہ تم جانے ایسا کیا کہنے والی ہو۔ یقیناً تمہاری فیملی نے تمہیں مجبور کیا ہو گا۔ بہرحال مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘
’’مسلمان ہونے کے بعد میرا جو تم سے تعلق تھا، وہ ختم ہو چکا ہے۔ اب جب تک تم اسلام قبول کر کے مجھ سے نکاح نہیں کر لیتے۔ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے مانیک کے حواسوں پر بم پھوڑا تھا۔
’’کیا بکواس ہے یہ؟ تم یہاں آ کر کن چکروں میں پڑ گئی ہو؟ چلو! واپس چلتے ہیں۔ ہماری اپنی ایک دنیا ہے۔ جہاں تم میری ہو اور میں صرف تمہارا۔ یہی حقیقت ہے۔ باقی سب …‘‘
’’میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی۔‘‘ اس کا انداز اتنا قطعی تھا۔ مانیک اسے دیکھ کر رہ گیا۔ وہ کس قدر اجنبی لگ رہی تھی۔ جیسے وہ اس سے پہلی بار مل رہا ہو۔
’’بیلا۔‘‘
’’میرا نام فاطمہ ہے۔‘‘ اس نے ٹوک دیا۔
’’نام بدلنے سے تم اپنی پہچان نہیں بدل سکتیں۔‘‘
’’وہ بھی بدل جائے گی۔ اگر تم نہ مانے تو مجھے اپنا حوالہ بدلنا ہی پڑے گا۔‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی۔
’’کیوں کر رہی ہو تم ایسا؟‘‘ وہ بے بس ہوا۔
’’مانیک! پلیز تم میری بات مان جاؤ۔‘‘ اس کا اندازہ ملتجی تھا۔
’’کبھی نہیں۔‘‘ ’’راستہ تم نے بدلا ہے۔ واپس بھی تمہیں ہی آنا ہو گا۔‘‘ اس کے انداز میں ضد تھی۔
’’میں نے راستہ نہیں بدلا۔ محض اپنی سمت درست کی ہے۔‘‘
’’میرے نزدیک یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
’’اور میرے لیے یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے محبوب کا امتی ہونے کا شرف بخشا۔‘‘
’’تم ایک مذہب کی خاطر مجھے چھوڑ دو گی؟‘‘ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’تم بھی تو مذہب کی خاطر مجھ سے دست برادری پر رضا مند ہو۔‘‘
’’تم نے کہا تھا تم کبھی بھی کسی کے بھی کہنے پر مجھے نہیں چھوڑو گی۔‘‘ اس نے یاد دلانا چاہا۔ مگر ایسا ایک عہد ان مہکتے شاداب لمحوں اور دلفریب قربتوں نے اسے بھی عنایت کیا تھا۔
’’تم نے بھی کہا تھا کہ جب کبھی میں کچھ ایسا چھوڑنے کو کہوں، جو تم نہیں چھوڑ سکتے۔ پھر بھی چھوڑ دو گے۔ اپنا مذہب چھوڑ دو مانیک! میں کبھی تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
’’میری بات کو مشروط نہ کرو۔ اپنے وعدے پر قائم رہو۔‘‘
’’میں یہ عہد نہیں نبھا سکتی۔ اللہ کے حکم سے انحراف میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ میں نے اپنی سب سے پیاری چیز اس کی راہ میں قربان کر دی ہے۔ اب کاش! وہ اجر کے طور پر میری وہ پیاری چیز مجھے واپس لوٹا دے۔ عجیب خواہش ہے۔ مگر اس سے تو کچھ بھی مانگا جا سکتا ہے نا۔‘‘ وہ ہار کر واپس لوٹ آئی۔ مانیک نے اسے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں پکارا۔
وہ کمی اب ہر جگہ تھی ہمیشہ کے لیے۔
٭٭٭
جمعہ کے روز اس کا نکاح سادگی کے ساتھ زریاب شاہ سے ہو گیا۔ احمد کمال نے جب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر فاطمہ کا پروپوزل پیش کیا تو وہ چاہ کر بھی انکار نہ کر سکا۔ بلا ارادہ اس کا سر اثبات میں ہل گیا۔
وہ اس سے دو سال بڑی تھی۔ وہ اس کی عزت کرتا تھا۔ مگر ایسا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
’’مہک! اگر تم میرا ساتھ دو تو میں اسٹینڈ لے سکتا ہوں۔‘‘ وہ آخری کوشش کرنا چاہتا تھا۔
’’مسٹر زریاب شاہ! تم اپنے متعلق کچھ زیادہ ہی خوش فہمیوں کا شکار ہو۔ تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ تم میں اور مجھ میں کوئی ایسا جذبہ ہو سکتا ہے ؟ تم میرے اچھے کزن ہو، دوست ہو تو اس کا یہ مطلب …‘‘
کھنکتی چوڑیوں کی چھن چھن پر وہ سامنے پھولوں کی سیج پہ بیٹھی دلہن کی جانب متوجہ ہوا۔
اسے جیسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ سرخ زرتار میں چھپا وہ چہرہ مہک کا نہیں، کسی اور کا تھا۔
دونوں کو بچپن سے ہی پتا تھا کہ ان کی شادی آپس میں ہی ہو گی اور فطری طور پر اسے اس سے بے حد لگاؤ رہا تھا۔ اسے وہ ساری شرارتیں، جھگڑے، روٹھنا اور منانا یاد آ رہا تھا۔
’’ہرگز نہیں کہ تم سے شادی کر لوں۔‘‘مہک کا ادھورا فقرہ اس کی سماعتوں میں گونجا تو وہ بے قراری سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانتا تھا، وہ جھوٹ بول رہی ہے۔
’’اور وہ تو ازل سے ہی جھوٹی تھی۔ پھر میں نے اس کا اعتبار کیونکر کیا۔ ’’اب اسے خود پہ غصہ آ رہا تھا۔ بے بسی سے اس نے اپنے بال نوچ ڈالے۔
احمد کمال نے بھی تو اسے سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیا تھا۔ اس نے تو محض ان کی جذباتیت کا بھرم رکھا تھا۔ اب کیا معلوم تھا کہ وہ اگلے ہی روز نکاح کروا دیں گے۔
’’کاش! میں نے نکاح سے انکار کر دیا ہوتا۔‘‘ پچھتاوے اسے گھیرنے لگے۔
’’میں چینج کر لوں۔‘‘ فاطمہ اس کی جانب سے کوئی پیش قدمی نہ ہوتے دیکھ کر خود ہی اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی۔
زریاب نے بلا ارادہ ہی اوپر دیکھا تھا اور اپنی جگہ مبہوت سارہ گیا خوب صورت تو وہ بہت تھی۔ مگر اس وقت اس کا حسن قیامت ڈھا رہا تھا۔
مگر وہ مہک کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتی تھی۔
’’یہ ڈریسنگ روم ہے۔‘‘ وہ دائیں جانب اشارہ کرتا خود باہر نکل آیا۔
٭٭٭
آئینے میں اپنا پور پور سجا سراپا دیکھ کر وہ دشمن جان آج پھر بڑی شدت سے یاد آیا تھا۔
’’میرا دل چاہتا ہے تم دلہن بنو۔‘‘ وہ ادھ کھلے دریچے میں کھڑی سوئٹزر لینڈ کا نظارہ دیکھ رہی تھی، جب مانیک نے اسے اپنے بازوؤں میں بھرتے ہوئے ٹھوڑی اس کے نشانے پر ٹکا دی تھی۔
’’کتنی بار دلہن بناؤ گے ؟‘‘ وہ اس انوکھی فرمائش پر ہنس پڑی۔
’’وائیٹ میکسی والی نہیں یار! میں چاہتا ہوں، تم انڈین برائیڈل بنو … وہ جیسی ہم نے ہوٹل میں دیکھی تھی۔ سرخ لہنگے میں ملبوس ڈھیر سارا زیور پہنے، سولہ سنگھار کیے۔ وہ کیا ہوتا ہے ہاں ! بندیا، چوڑیاں، گجرے مہندی اور جانے کیا کیا۔‘‘ وہ سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔ پتا نہیں اس نے یہ سارے الفاظ کس سے سیکھے تھے۔
اس نے پھولوں کے گجرے نوچ کر پھینک دیے۔ ایک ایک کر کے ساری چوڑیاں توڑ دیں۔ ان کے نوکیلے کانچ گوری ملائم کلائیوں کو زخمی کر گئے۔ زخموں سے خون رسنے لگا تھا۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اپنی جگہ بیٹھتی چلی گئی۔ آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی امڈ آیا تھا۔
٭٭٭