(Last Updated On: )
آج آمنہ نہ سو رہی تھی نہ سونے کی ادا کاری کر رہی تھی تکیے سے ٹیک لگائے نیند سے بے حال ہوتی آنکھوں کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ سڑھیوں پر قدموں کی چاپ ابھری تو حسیات چوکنی ہو گئیں۔
” آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں۔” اس نے حیرت کا اظہار کیا۔
” جی نیند نہیں آ رہی تھی۔”
” گڈ نیند نہیں آ رہی تو میرا سر دبائیں بہت درد ہو رہا ہے۔” اس کے کچھ بھی بولنے یا سوچنے سے پیشتر وہ جوتوں سمیت لیٹ گیا سر آمنہ کی گود میں تھا وہ یوں بدکی جیسے بجلی کے ننگے سے چھو گئی ہو وہ اتنے قریب کہ وہ ایک دم پیچھے ہٹی۔
” پلیز سر دبائیں ناں آمنہ!” وہ بہت کم اس کا نام لیتا تھا آج اس کے لبوں سے اپنا نام سن کر اسے کسی انوکھے پن کا احساس ہوا۔ اس نے جھجکتے ہوئے آثیر کی پیشانی پر ہاتھ رکھا جو کہ گرم محسوس ہو رہی تھی۔
” بہت تھک گیا ہوں دل چاہ رہا ہے آپ پیار سے سلا دیں۔ میری خواہش بھی کتنی عجیب سی ہے ناں آپ کا دل کر رہا ہو گا میرا سر دبانے کے بجائے گلا دبا دیں۔ اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے آمنہ کے ہاتھ تھام لیے جو اس کے ماتھے پر دھرے تھے کیا تھا اس کے ہاتھ میں بھلا ؟ وہ اپنا آپ بھلانے لگ گئی تھی۔ اس نے زور لگا کر اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالنا چاہا۔
” ہونہہ نہیں اب نہیں پگھلتا میں۔” جس تیزی سے آثیر نے ہاتھ پکڑا تھا اسی تیزی سے چھوڑ بھی دیا اپنی توہین کے احساس سے اس کا رواں رواں سلگ اٹھا۔
” اب جائیں میں ٹھیک ہوں بہت جلد آپ کی تمام مشکلات اور تکالیف کا ازالہ کر دوں گا۔” آمنہ الجھ کے اسے تکنے لگ گئی آثیر نے اپنی نگاہیں اس پر جما دی۔
” اتنے پیار سے نہ دیکھیں مجھے ضبط کھونے لگتا ہوں میں کوئی گستاخی ہو جائے گی مجھ سے۔” آمنہ کو اس انداز سے سراسر تمسخرانہ جیسے وہ اس کا مزاق اڑا رہا ہو۔
” کاش اس کا اصل چہرہ سب کے سامنے آ جائے اس کے کرتوت سب کھل جائیں۔” اس نے صدق دل سے دعا مانگی۔
^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^
رمنا کے گھر بیٹا پیدا ہوا تھا ننھے مہمان کے لیے آثیر نے آمنہ کو شاپنگ کرنے کے لیے کہا تھا یہ خالصتا خواتین کا شعبہ تھا وہ عمارہ بھابی کو ساتھ لے گئی تھی کیونکہ چھوٹے بچوں کی خریداری کا اسے بھی اتنا خاص آئیڈیا نہیں تھا۔ وہ تو بھلا ہو عمارہ بھابی کا جنہوں نے اتنی مدد کی اور پھر وہ دونوں فرحان بھائی کی طرف گئے۔ رمنا اور فرحان دونوں بہت خوش تھے ان کی خوب صورت سی دنیا مکمل ہو گئی تھی۔
” تم مجھے کب انکل بنا رہے ہو؟” فرحان چھوٹتے ہی آثیر سے بولا آمنہ تیز تیز قدم اٹھاتی رمنا کی طرف بڑھ گئی اس میں آثیر علوی کا جواب سننے کی تاب نہیں تھی۔
” کیا بات ہے ڈسٹرب سی لگ رہی ہو کوئی پریشانی ہے۔”
” ارے نہیں ایسی بات کوئی نہیں ہے۔” اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
” کچھ تو ہے جو تم چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔” رمنا اس کے پیچھے ہی پڑ گئی اس نے لاکھ انکار کیا جان چھڑائی پر رمنا اپنے نام کی ایک تھی اگلوا کر ہی چھوڑا۔ آمنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا وہ پھٹ پڑی رمنا آنکھیں پھاڑے ناقابل یقین انداز میں اسے دیکھ رہی تھی وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔
یہاں فرحان کا تجزیہ غلط ثابت ہوا تھا کہ عورت مرد کی محبت سے پگھل جاتی ہے وہ آثیر کی بے اعتنائی سے پگھل رہی تھی اتنی بڑی بات اس پر آج کھلی تھی۔ آمنہ نے بہت بے وقوفی کی تھی اس بات کے پیچھے اپنی ازدواجی زندگی داؤ پر لگا دی تھی کہ آثیر نے شادی سے پہلے اس کی نیک نامہ کو بد نامی میں بدلا۔ خاندان والے کب کے یہ بات بھول بھال گئے تھے کہ ایسا کچھ ہوا تھا آثیر کی وجہ سے وہ اگر بدنام ہوئی تھی تو آثیر نے بھی اسے اپنا کر عزت بھی تو دی تھی معتبر بھی تو کیا تھا۔ آمنہ میں اتنی انتہا پسندی ہو گی اس نے سوچا بھی نہیں تھا فرحان سے شادی کے بعد اس کی زبانی رمنا کو آثیر کے خالص جزبات کا پتا چلا تھا جو صرف آمنہ کے لیے تھے اور اس نے شاید کبھی یہ جاننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی کہ آثیر اسے کس قدر چاہتا ہے اس کے سچے جزبات کو آمنہ نے ہوس کا نام دے کر سراسر اس کی توہین کی تھی پر مجال ہے جو آثیر نے فرحان سے اس کا ذکر کیا ہو وہ دونوں تو یہی سمجھتے رہے کہ آثیر اور آمنہ خوشگوار نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
عمر علوی اور افروز بیگم عمرے پر جا رہے تھے ان کا اچانک پروگرام بنا تھا جس دن انہیں جانا تھا اس دن ان کے گھر ملنے جلنے والوں کا رش تھا۔ عباس صاحب بھی نور افشاں کے ساتھ آئے تھے ائرپورٹ روانگی کے بعد گھر خالی خالی سا ہو گیا۔
آثیر ائرپورٹ سے آیا تو عباس بھی اس کے ہمراہ تھے آمنہ چائے بنانے لگی ابو بہت کم آن کے گھر آتے تھے چائے لے کر اندر گئی تو آثیر علوی اور ابو دونوں پاس پاس بیٹھے تھے۔
آثیر کے چہرے پر معزرت خواہانہ تاثرات تھے وہ دھیمی آواز میں کچھ بول رہا تھا جبکہ ابو کا چہرہ سوچوں اور پریشانی کا شکار لگ رہا تھا اسے دیکھ کر آثیر کے لب ساکت ہو گئے۔ آثیر نے آمنہ کو پانی لانے کے بہانے وہاں سے ہٹا دیا۔
” انکل میں شرمندہ ہوں میری اس حرکت سے آمنہ کو ذہنی اذیت اٹھانا پڑی وہ یہی تصور کرتی رہی کہ وہ نگاہوں سے گر گئی ہے میں اپنی غلطی مانتا ہوں کہ بھری محفل میں مجھے ایک لڑکی کے تقدس اور احترام کا خیال کرنا چاہیے تھا جو بھی جذبہ تھا یک طرفہ تھا آمنہ انوالو نہیں تھی پسندیدگی میری طرف سے تھی۔ آپ تک بات کسی اور ہی رنگ میں پہنچی تھی۔” آثیر کا سر جھکا ہوا تھا وہ ان کی نگاہ میں بہت بلند ہو گیا تھا آمنہ کی خوشگوار زندگی اور پیار کرنے والی سسرال دیکھ کر وہ یہ بات کب کے بھول بھی گئے تھے آثیر نے یاد کروا دیا تھا۔
” اب کبھی اس بات پر معزرت نہ کرنا میں خوش ہوں کہ تم آمنہ کا نصیب ہو۔” انہوں نے شفقت سے آثیر کا کندھا تھپتھپایا تو اسے قدرے سکون کا احساس ہوا۔
عباس انکل کو چائے پیتا چھوڑ کر وہ آمنہ کی تلاش میں باہر آیا وہ کچن سمیٹ رہی تھی۔
” آپ انکل کے ساتھ جانا چاہتی ہیں تو چلی جائیں۔”
آمنہ کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجی۔
” میں نہیں جا رہی آنٹی بھی گھر میں نہیں ہیں عمارہ بھابی نے بھی اپنی امی کی طرف رہنے جانا ہے۔”
” او کے آپ کی مرضی۔” کندھے اچکاتا وہ دوبارہ عباس انکل کی طرف آیا وہ اجازت لے کر چلے گئے۔
واقعی آمنہ ٹھیک کہہ رہی تھی عمارہ بھابی بچوں کو لیے میکے جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں انہیں ڈراپ کر کے یاسر بھائی خود اپنی یونٹ کے ساتھ کوہاٹ کے لیے روانہ ہو گئے۔
” آپ کے لیے ایک اچھی خبر ہے میرے پاس۔” پانی کا گلاس اٹھاتے اٹھاتے آمنہ رک گئی اس کی سوالیہ نگاہوں کا اضطراب دو چند ہو گیا.” میں نے عباس انکل کو بتا دیا ہے کہ آپ مجھ میں کبھی بھی انوالو نہیں تھیں جہاں جہاں میری وجہ سے آپ بدنام ہوئیں میں ان سب لوگوں کے پاس جا کر حقیقت بتانے کے لیے تیار ہوں کہ آپ نے مجھ سے افیئر نہیں چلایا بلکہ یہ میں تھا اور جس کی اس حرکت کی وجہ سے آپ کو ذہنی اذیت اٹھانا پڑی۔” آمنہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی آثیر بہت سنجیدہ تھا۔
” اب آپ میرا مزید تماشہ نہ بنائیں میں اب باب کو دوبارہ نہیں کھولنا چاہتی۔”
” مگر لوگوں کو پھر اس بات کا کیسے پتا چلے گا کہ آپ نہیں بلکہ میں خود آپ میں انڑسٹڈ تھا۔” وہ شاید اس کی قوت برداشت آزما رہا تھا۔
” مجھے نہیں بتانا کسی کو بھی۔” اس کا صبر جواب دیتا جا رہا تھا۔
” لیکن وہی بات پھر لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ آپ بہت اچھی لڑکی ہیں اور میرے جیسے نوجوان کے ساتھ تو آپ محبت کر ہی نہیں سکتیں۔” آثیر اس کا مزاق اڑا رہا تھا آمنہ کھانا ادھورا چھوڑ کر ٹیبل سے اٹھ گئی۔
====================================
تمہیں پہن لیں ہم اپنےوجود کےاوپر
تمہیں لباس بنا لیں ہمارا بس جوچلے
تمہاری مٹی کو گوندھیں ھم اپنی مٹی میں
پھرایک جسم میں ڈھالیں ہمارابس جوچلے
رات آثیر نچلے پورشن میں ہی تھا آمنہ بھی ادھر تھی نچلے حصے میں درخت اور بیل بوٹے بہت زیادہ تھے اسے ڈر سا لگ رہا تھا کیونکہ آثیر نے ایک کمرے میں داخل ہو کر دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ عمارہ بھابی اور یاسر بھائی بھی نہیں تھے لاؤنج کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اس نے وہ بھی بند کر لیں۔ ٹی وی بظاہر آن تھا مگر اس کا دھیان کہیں اور تھا اس کی جو آج آثیر سے گفتگو ہوئی تھی اس کے بعد اس کے ضمیر کو یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنے خوف کا اظہار کرتی۔ وہ اسی کشمکش میں تھی کہ آثیر خوشبوؤں میں بسا بہترین کپڑوں میں ملبوس اس کے سامنے آ کھڑا ہوا گاڑی کی چابی اس کے ہاتھ میں تھی۔
” میں جا رہا ہوں اویس کی طرف جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔ واپسی پر آپ کو بہت بڑی خوشخبری سناؤں گا۔”
” مجھے ڈر لگ رہا ہے گھر میں کوئی نہیں رات کے گیارہ تو بج ہی چکے ہیں۔” وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
” لیکن میرا جانا بہت ضروری ہے دوست میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔”
” میں جانتی ہوں سب کہ آپ اتنی رات کو کون سے دوستوں کے پاس جاتے ہیں۔”
” آپ جانتی ہیں تو یہ اور بھی اچھی بات ہے ویسے آپ بتا سکتی ہیں میں کون سے دوستوں کے پاس جاتا ہوں۔” آثیر اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔
” اپنی ہوس پوری کرنے انسان جہاں جاتا ہے آپ بھی وہیں جاتے پیں۔” آمنہ تن کر کھڑی تھی۔
” آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے۔” آثیر ابھی تک پر سکون سے بات کر رہا تھا۔
” ثبوت تو جیتا جاگتا ہے فائقہ کی صورت میں۔” وہ بے خوفی سے بولی۔
” کیا ثبوت ہے آپ نے مجھے اس کے ساتھ پکڑا؟”
” ہم جب دعوت پر اس کے گھر گئے تو وہ آپ کے ساتھ بیٹھی تھی بار بار آپ کے کندھے پر ہاتھ مار رہی تھی۔ اویس بھائی بتا رہے تھے کہ وہ آپ کو پسند کرتی تھی محبت کرتی ہے شادی کرنا چاہتی تھی۔” آمنہ دل میں اپنی ذہانت پر خود کو داد دے رہی تھی۔ آثیر نے اسے بازوؤں میں جکڑ لیا تھا۔
” اب آپ بھی میرے بہت قریب ہیں کیا یہ بھی ہوس ہے؟ پسند آپ کو میں بھی کرتا تھا تو کیا یہ میری محبت تھی کہ ہوس؟” آثیر کی گرفت سے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اس کی چلتی سانسوں کو روک دینا چاہتا ہو۔
” وہ مجھ سے محبت کرتی تھی اس میں میری ہوس شامل نہیں تھی۔” معا آثیر کی آنکھیں لہو رنگ ہو گئیں یوں لگ رہا تھا وہ اس کی گرفت میں کسی گڑیا کی طرح چرمرا کے رہ جائے گی۔ آثیر ضبط کھو چکا تھا اسے جھٹکے سے آزاد کیا تو وہ صوفے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
” جواب چاہیے مجھے آج خاموشی سے بات نہیں بنے گی محترمہ آمنہ صاحبہ!” آنکھوں میں غیظ و غضب لیے وہ اس کی طرف بڑھا تو تب تک وہ خود کو سنبھال چکی تھی۔
” میں اسے ہوس ہی کہوں گی؟”
” چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔” آثیر نے پوری طاقت سے اسے دو تھپڑ مارے وہ دیوار سے ٹکرا کر صوفے پر گری۔ آثیر اسے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کر چکا تھا۔
” میں بتاتا ہوں محبت اور ہوس میں کیا فرق ہے ہوس بھی ایک بیماری ہے جب انسان اس میں مبتلا ہو تو انسان آرام کے لیے ہر ڈاکٹر کے پاس بھاگا جاتا ہے گویا کہیں سے بھی اپنے جذبات و خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے لیکن محبت میں یوں نہیں ہوتا ایک ہی مسیحا ہوتا ہے اس کا۔ چاہے آرام آئے نہ آئے محبت میں انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی سے اپنے جذبات و خواہشات کی تسکین کرتا ہے کسی اور سے نہیں۔ مجھے فرق کا بہت اچھی طرح پتا ہے سو میں نے اپنے جذبات اور خواہشات پر پہرے بٹھا دئیے۔ ان کی تسکین کے لیے غلط راستہ استعمال نہیں کیا۔” آثیر کی انگلیاں اس کے شانوں پر گڑی جا رہی تھی۔
” میں تمہارے ساتھ ایک کمرے میں ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتا کیونکہ مجھے ڈر تھا میں ایک دن برداشت کرنے کی قوت کھو نہ دوں تم میری دسترس میں تھیں مردانگی کے زعم میں مجھے تمہارے وجود پر قبضہ کرنا گوارا نہیں تھا کیونکہ محبت کرتا تھا میں تم سے جس رات تم نے مجھ سے کلام پاک کی قسم کھانے کو کہا تھا اس رات واقعی میں اس پوزیشن میں نہیں تھا مگر اب میں قسم کھا سکتا ہوں نو ماہ سے زائد تمہیں اس گھر میں ہو چکے ہیں میں نے اپنے حق کا استعمال نہیں کیا۔ میں اسی ڈر سے سعودیہ سیٹل ہونے کی تیاری کرتا رہا کیونکہ میری موجودگی میں تم اپ سیٹ رہتی تھیں لیکن دوبار گیا پھر واپس آ گیا کہ تمہیں ایک نظر دیکھ لوں میرے دل کو سکون آ جائے۔ میں اپنا اعتبار تم پر قائم نہ کر سکا میری وجہ سے تم بدنام ہوئیں میں نے تمہیں اپنا کر عزت دی اپنی سب محبت خلوص وفا تمہارے نام لکھ دی مگر تم سمجھ نہیں پائیں۔ نو ماہ کم نہیں ہوتے اتنا عرصہ تم میری محبت کو جان نہیں پائیں اسے میری ہوس سے تعبیر کرتی رہیں تمہارے دل میں میرے لیے جو نفرت اور عداوت ہے وہ میں کبھی بھی ختم نہیں کر سکتا اس لیے میں اب اور تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا نہیں چل سکتا میں کبھی بھی تمہیں یقین نہیں دلا پاؤں گا تم اس گھر میں جس طرح آئیں اسی طرح جاؤ گی اسے مہربانی سمجھو یا احسان بہر حال میں نے تم پر کر دیا ہے کیونکہ میں اب مزید اپنا امتحان نہیں کے سکتا۔ انسان ہوں فرشتہ نہیں ہوں میرے بھی جذبات و احساسات ہیں کسی بھی وقت بہک سکتا ہوں نہیں چاہوں گا کہ آپ مجھے الزام دے کر اس گھر سے جائیں آپ کو یاد ہو گا شاید ایک رات آپ ڈر کر میرے پاس چلی آئی وہ وقت میرے لیے بہت کڑا تھا اس کے بعد میں نے رات کو باہر جانا شروع کر دیا۔ دوبار چوکیدار سے لاک کھلوا کے کے اپنے آفس میں بیٹھا رہا کبھی فضول میں گاڑی ادھر ادھر دوڑاتا تھک جاتا تو واپس آ جاتا ایک دو بار واقعی دوستوں کے ساتھ رہا مگر زیادہ وقت اکیلے ہی گزرا۔ اس کی وجہ بھی آپ تھیں آپ سامنے ہوتی تھیں تو مجھے لگتا تھا میں ابھی اپنا اعتبار توڑ دوں گا تھک ہار کر آتا واپس تو سو جاتا میں آپ کے سامنے آج سرخرو ہو گیا ہوں۔
” میں یہی خوشخبری واپس آ کے آپ کو سنانا چاہتا تھا کہ آپ میری طرف سے خود کو پابند نہ سمجھیں اس وقت کا انتظار مجھے پہلے سے تھا مما پاپا یہاں نہیں ہیں ان کے سامنے یہ سب ہوتا تو انہیں بہت دکھ ہوتا۔ وہ مجھے اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش بھی کرتے لیکن اب ایسی کوئی مجبوری نہیں ہیں آپ جب چاہیں جا سکتی ہیں میری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔” آمنہ کو خبرہی نہیں ہوئی کے بے آواز آنسو کتنی دیر سے اس کے گالوں کو بھگو رہے ہیں آثیر مرد تھا ضبط کر گیا تھا لیکن آمنہ سے صبر نہیں ہو پایا تھا۔
” آپ کو کب جانا ہے بتا دیں؟” وہ سرخ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا آمنہ کے پاس فیصلے کا ایک لمحہ تھا اس کے بعد وقت نے ہاتھ سے پھسل جانا تھا اور شاید آثیر کی محبت بھی ہمیشہ کے لیے اس سے روٹھ جاتی اس کا ادراک ابھی ابھی ہی تو ہوا تھا خود اپنے دل میں آثیر کی محبت جانے کب سے پنپ رہی تھی اس جذبے کو وہ غصے اور نفرت کی تھپکیاں دے کر آج تک سلاتی اور نظر چراتی آئی تھی مگر اب اور نظر انداز کرنا ممکن تھا. آثیر صوفے پر بیٹھا تھا وہ نیچے آ کے کارپٹ پر اس کے قریب بیٹھ گئی تھی۔
” میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔” معا اس نے آثیر کو دونوں گھٹنوں سے پکڑ لیا جیسے اسے اٹھنے نہ دینا چاہتی ہو اسے اپنے کانوں پر دھوکے کا گمان ہوا۔” مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے آپ کے پاس رہنا ہے کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔۔میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔”
سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان ڈوبتے ابھرتے اس نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی۔
” محبت وہ ہے جو آپ نے مجھ سے کی میں ایسی ہی محبت آپ سے کرنا چاہتی ہوں۔ کسی بھی قسم کے کھوٹ سے پاک۔” روتے روتے اس نے آثیر کا ہاتھ تھاما۔
” آپ کو میرے کسی بھی عمل سے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا؟” اعترافات در اعترافات کا سلسلہ تھا آثیر ایک لفظ نہیں بولا یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔” آپ میری ہر بات پر خاموش رہے مجھے یوں لگتا آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں میری خواہش ہوتی کہ آپ میری طرف متوجہ ہوں مجھ سے کھل کے اپنے پیار کا اظہار کریں آپ کچھ نہیں کہتے تھے مجھے ایسا لگتا کہ جیسے آپ کو صرف اتنی دلچسپی تھی کہ مجھے اس گھر میں لے آئیں ۔ آپ کی قوت برداشت اور ضبط نفس سے میں چڑنے لگی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا آپ میری ذات سے کوئی واسطہ نہیں ہے. میرے ہونے یا نہ ہونے سے آپ کو فرق نہیں پڑتا. آثیر میں آپ کی محبت کو نہیں سمجھ پائی تھی آپ مجھ سے دور ہوتے گئے آپ نے مجھ پر اپنا حق نہیں جتایا یہی بات مجھے آپ کی طرف سے غصہ دلاتی اور مجھے یہ بات آپ کا اسیر کرتی گئی۔ مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ میرے دل کی زمین محبت کے پودے کے لیے بہت موزوں تھی آپ کے نام کا پودا اپنی جڑیں مضبوط کرتا گیا بس مجھے یہ بات تسلیم کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا جب آپ کو پتا چلے گا تو آپ مزاق اڑائیں گے۔ خاندان بھر میں آپ کی محبت کا چرچا تھا مگر اولین ملاقات میں ہی میری نا پسندیدگی کے اظہار کے بعد آپ خاموش ہو گئے مجھے جتایا تک نہیں۔ مجھے اندر ہی اندر سلگاتے رہے راکھ بناتے رہے اب کہتے ہیں میں چلی جاؤں. میں نے اب کہیں نہیں جانا۔” آمنہ نے تھک ہار کر اپنا سر اس کے گھٹنوں پر رکھ دیا تھا آثیر کے جلتے سلگتے جذبوں کو قرار آ گیا جیسے برسوں بعد صحرا کی خشک ریت پر زور دار بارش ہوئی ہو۔
” میں کہیں جانے دینا بھی نہیں ہیں اپنے پاس رکھنا ہے ہمیشہ کے لیے۔ تمہارے منہ سے اعتراف محبت سن کر سکون مل گیا ہے مجھے ٹوٹ کر چاہو اپنی محبت سے سب کچھ بھلا دو آنکھیں بند کر کے میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں گرنے نہیں دوں گا اور آپ ان آنکھوں میں آنسو نہ لائیں میں نے تمہیں دوبار چپکے چپکے روتے دیکھا اور مشکل سے خود پر صبر کیا میں تمہارے جذبوں سے انجان تو نہیں تھا کہ ایک لڑکی میرے انتظار میں جاگتی رہتی ہے اور جب میں آتا ہوں تو وہ سوتی بن جاتی ہے۔ وہ میری پیش قدمی کا انتظار کرتی ہے اپنا آپ مجھ سے چراتی ہے اور ڈرتی بھی ہے کہ میں اس کی چوری نہ پکڑ لوں اس کے مجرم کا نام نہ جان لوں۔”
” آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟”
” کیونکہ میں اپنی محبت کی مضبوطی جانچ رہا تھا۔” آثیر کے لبوں کی تراش میں مسکراہٹ چمکی گرج چمک کے بعد مطلع صاف تھا۔
رمنا نے ہی تو اسے بتایا تھا کہ آثیر بھائی وہ بے وقوف لڑکی آپ سے محبت کرنے لگی ہے اب بھی اگر آپ خاموش رہے تو وہ کوئی حماقت کر بیٹھے گی یہ تو اسے بھی پتا تھا کہ آمنہ پگھل گئی ہیں پگھل رہی ہے بس ایک غرور اور زعم میں ہے۔
آج وہ اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین کرنا چاہتا تھا اس نے دوستوں کی طرف جانے کا اسی لیے کہا تھا کہ آمنہ کو اس عمل سے چڑ ہوتی ہے وہ جانتا تھا کہ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ پھوٹ پڑے گی اور اس غصے میں اس کے منہ سے سچ ہی نکلے گا ڈراپ سین ایسے ہی ہوا تھا۔
آمنہ اپنے آنسو صاف کر رہی تھی آثیر نے اس کے ہاتھ پکڑے اور اپنے سینے پر رکھ لیے۔
” بہت تنگ کرتی رہی ہو مجھے اب اور تو نہ کرو گی۔” آثیر نے اپنے ہاتھوں سے اس کی نم آنکھیں صاف کیں۔
وہ دور ہوئی آثیر نے ہنس کر اس کی روئی روئی آنکھوں میں جھانکا اور اس کی کوشش ناکام بنا دی۔
” تمہاری محبت میں میں نے بھی خود پر بہت پہرے بٹھائے ہیں اپنے ارمانوں کو کچلا ہے اب میں قسم کھا سکتا ہوں کہ میں تمہاری روح سے بھی پیار کرتا پوں۔” آثیر کے لہجے میں سچ کی کھنک تھی۔” لیکن اب اور تم سے دور نہیں رہ سکتا۔”
” میں کون سا آپ سے دور رہ سکتی ہوں۔” آمنہ کے لب کپکپائے۔
” تم نے میرے ساتھ بہت برا کیا بہت تنگ کیا مجھے ۔
بہت کڑی سزا دوں گا۔” آثیر کے لب دھیرے سے جھکے تھے اور انہوں نے آمنہ کے کان میں سرگوشی کی تھی آثیر کے بازو آہنی حصار کی طرح اس کے گرد حمائل تھے۔
خاموشی اور نگاہوں کی زبان میں بہت سے جذبے بول رہے تھے جن کی تال پر آمنہ کا دل دھڑک رہا تھا اور یہ دھڑکن لمحہ بہ لمحہ پر جوش ہوتی جا رہی تھی۔ آثیر نے دوری کی سب دیواریں گرا دی تھیں۔ وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ آثیر اس کے جذبوں کی پزیرائی بخش دے اور آج آثیر نے دل میں چھپی ان کہی باتوں کو جان کر اسے معتبر کر دیا تھا۔