(Last Updated On: )
وہ گاڑی بھگاتا ہوا عینا کے بتاۓ ایڈرس پر پہنچا تھا۔۔گاڑی پارک کرتے وہ ریستوران کی طرف بھاگا۔۔عینا کے آنسوؤں نے اسے پریشان کر دیا تھا فون پر وہ بہت رو رہی تھی۔۔
وہ ریستوران کا ڈور اوپن کر کے اندر داخل ہوا۔۔نظریں گھما کر عینا کو ڈھونڈنا چاہا۔۔
کونے میں پڑی ٹیبل کے پاس اسے عینا نظر آئ۔وہ دور تھی مگر اتنے دور سے بھی اس نے دیکھ لیا تھا اس کے آنکھوں کے پپوٹے بہت سوجھے ہوۓ تھے۔۔آنکھوں کے نیچے حلکے بھی پڑ چکے تھے۔۔وہ انتہائ کمزور نظر آ رہی تھی۔۔
وہ پریشانی سے تیز تیز قدم اٹھاتا اس کے پاس پہنچا۔۔عینا ۔۔۔وہ جو خیالوں میں کھوئ ہوئ تھی اس آواز کو سن کر فوراً ہوش کی دنیا میں آئ۔۔
امان۔۔امان کو دیکھ کر رکے آنسو پھر سے بہہ نکلے تھے۔۔
عینا میری جان کیا ہوا ہے اتنا رو کیوں رہی ہو اور اتنی ایمرجنسی میں کیوں ہو۔۔۔ٹیبل کے گرد ترتیب سے چار کرسیاں رکھی ہوئ تھیں۔امان نے ایک کرسی گھسیٹی تو پرسکون ماخول میں تھوڑی ہلچل ہوئ۔۔سب نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔مگر وہ سب سے بےپرواہ کرسی عینا کے پاس رکھ کر بیٹھ گیا۔۔
سب ختم ہو گیا امان۔۔وہ روۓ چلی جا رہی تھی۔۔
پھر بھی پتہ تو چلے کیا ہوا ہے۔اور یہ خلیہ کیا بنایا ہوا ہے۔امان کا اشارہ اس کے رف سے کپڑوں کی طرف تھا جو تین دن سے اس نے نہیں بدلے تھے۔۔
شادی کرو گے مجھ سے۔۔اس کے سوال کو نظرانداذ کرتی بولی۔۔
آف کورس کروں گا یار اور تم سے ہی کروں گا اس میں رونے والی کیا بات ہے۔۔اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے وہ اسے بچوں کی طرح پچکارنے لگا۔۔
آج ہی کرو گے مجھ سے شادی۔۔
واٹ۔۔اسے شاک لگا۔۔
امان ہاں یا نا۔۔عینا نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالا تھا ۔۔
مگر آج کیوں یار ہم میں ڈیسائیڈ ہوا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔
وہ تب کی بات تھی میں آج کی بات کر رہی ہوں۔۔عینا نے اس کی بات کاٹی۔۔
ہاں بابا کروں گا آج ہی کروں گا پتہ تو لگے ہوا کیا ہے۔۔امان نے پھر سے اس کے ہاتھوں کو اپنی مظبوط گرفت میں لیا ۔۔عینا کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔۔ایک ہاتھ سے عینا نے آنسو پونجتے ساری بات اس کے گوش گزار کر دی۔۔
یار تمہاری بہن کیا چیز ہے ایک مرتبہ بات سننے میں کیا خرج ہے۔۔عینا کے آنسو بہتے جا رہے تھے۔۔امان نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر اس کے آنسو چنے۔۔
میرے پاس واپسی کا راستہ ہے نا ارادہ تم مجھ سے شادی کرو گے یا نہیں بس یہ بتاؤ ورنہ لاسٹ اوپشن پر سوسائیڈ ہے میرے پاس۔۔
شٹ اپ یار۔۔امان کا تو دل دہل گیا تھا اس کی بات پر ۔امان نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
میں سعدی کو بلاتا ہوں تم آنسو صاف کرو اپنے رونا نہیں ہے اب تم نے۔۔ویٹر جوس لے کر آیا تو امان نے گلاس اٹھا کر عینا کو پکڑایا اس کا گال تھپتھپاتے وہ موبائل لیئے ریستوران سے باہر نکل گیا۔۔۔
___________________________________________________________________________________________________
کاظمی حویلی کا بڑا گیٹ کھلا تو ایک سفید گاڑی تیزی سے اندر داخل ہوئ۔۔گاڑی آ کر پورج میں رکی تو سومو سائرہ اور رخشندہ بھیگم گاڑی سے نکلیں۔
کل دن کی گئیں وہ آج دن میں لوٹیں تھیں۔
اماں آپ نے خالہ کو جو آسرا دیا ہے مجھے سمجھا بجھا کر بیجھ دیں گی تو میں بتا رہی ہوں میں اس غربت میں نہیں جاؤں گی ۔گٹر سے بھی بدتر جگہ ہے وہ۔۔گاڑی سے اترتے ہی سائرہ شروع ہو گئ تھی وہ کسی حال میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔۔
تو وہ شوہر ہے تمہارا بہلا پھسلا کر یہی لے آؤ۔اتنا بھی نہیں ہو سکتا تم سے۔۔رخشندہ بھیگم نے ایک چپت اس کے ہاتھ پر لگاتے ہوۓ کہا۔۔
اماں ایسے مت بولیں آپی کو جانا چاہیئے اپنے سسرال۔بیاہی لڑکیاں اپنے سسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ویسے بھی عروج اور زوال ساتھ ساتھ چلتے ہیں آج طیب بھائ کے مالی حالات ٹھیک نہیں کل ہو سکتا ہے بہتر ہو جائیں۔۔سومو نے نرم لہجے میں بہت پیار سے انہیں سمجھانا چاہا۔۔
اماں اس کو بولیں میرے معاملات میں مت بولا کرے۔۔سائرہ نخوت سے بولی۔سومو اور اس کی سمجھداری اسے زہر لگتی تھی ہمیشہ۔۔سومو اس کی بات کو نظر انداذ کرتی ان کے آگے چلتی ہوئ لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئ۔۔
تمہیں پا کر کہاں خوش تھے
تمہیں کھو کر کہاں روۓ
ہیں زندہ ہم اگر تم میں
دیا دکھ تو تم نے نہیں تھوڑا
بہت خوش ہیں تیرے بارے
میں جب سے سوچنا چھوڑا۔
لاؤنج میں اونچی آواز میں گانا گونج رہا تھا سامنے صوفے پر ہاتھ میں گاجر کا حلوہ کھاتے ہوۓ دانین بہت غور سے ٹی۰وی کو دیکھ رہی تھی۔سومو کو خوشگوار سی حیرت ہوئ۔دانین کا چہرہ آج باقی دنوں کی نسبت ریلکس لگ رہا تھا۔سومو کو خوشی ہوئ کہ شائد اساور اور دانین کے تعلقات بہتر ہو گۓ ہوں۔۔
سومو کے پیچھے پیچھے سائرہ اور رخشندہ بھی اندر داخل ہوئیں۔سامنے کا منظر دیکھ کر سائرہ نے ناگوار سی شکل بنائ۔رخشندہ بھیگم کا تو غصے سے برا حال ہو رہا تھا دانین کو اتنا ریلیکس دیکھ کر۔۔
یہ میرا گھر ہے کہ کلب۔۔رخشندہ بھیگم نے آگے بڑھ کر دانین کے ہاتھ سے ٹی۔وی ریموٹ کھینچ کر زور سے فرش پر پھینکا۔حلوے کا باؤل سے حلوہ اس کے منہ پر گِرا دیا۔۔
اسلام علیکم بھابھی۔۔!! دانین نے مسکرا کر ٹیبل پر پڑے ٹشو بکس سے ٹشو اٹھا کر منہ سے خلوہ صاف کیا۔۔
کیا سمجھ رکھا ہے تم نے میرے گھر کو ہاں۔حد میں رہو تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے۔۔اس کی مسکراہٹ نے رخشندہ بھیگم کو اور تپا دیا تھا۔۔
آئ نو بھابھی وہ تو میں بڑے گھر کی فیل لے رہی تھی ۔میرے باپ کا گھر ایسا کہاں۔۔سومو کے گلے لگتے اس نے ایک آنکھ سومو کی طرف ماری۔سومو مسکرا کر رہ گئ۔۔
کھانا نکالو ہمارے لیئے بخث مت کرو بھوک لگی ہے ہمیں۔۔سائرہ نخوت سے بولی۔۔
کھانا تو نہیں بنایا۔وہ کیا ہے نا کہ آپ سب تھے نہیں ۔رات کا کھانا رکھا ہوا تھا فقیراں بی نے وہ کھا لیا میں نے خلوہ بنا لیا تھوڑا سا بچا ہوا ہے سومو کا کام ہو جاۓ گا۔ویسے وہ کون سا وقت ہے جب تم بھوکی نہیں ہوتی۔۔دانین آج آپ سے تم پر آ گئ تھی۔سائرہ نے حیرت سے اسے دیکھا کہ وہ گھونگھی آج کیسے بول پڑی۔۔
جاؤ کھانا بناؤ اور اوقات میں رہو اپنی۔۔رخشندہ بھیگم دبے دبے غصے سے بولیں۔۔
آئ۔ایم۔سوری۔میرا موڈ نہیں ہے۔۔آرام سے کہتی وہ باؤل اٹھا کر کچن کی طرف بڑھنے لگی۔۔
بہت زبان چل رہی ہے تمہاری۔۔سائرہ نے اسے ہلکا سا دھکا دیا تو وہ لڑکھڑاتے گرنے لگی تھی لیکن سائرہ کابازو پکڑ کر اس نے گرنے سے بچایا خود کو۔۔
یہ تشدد وغیر آئندہ نہیں چلے گا۔یو نو وائیلنس اس کرائم۔۔سائرہ کے بازو کو پکڑ کر گھما کر کمر پر موڑ کر اس کے کان میں سرگوشی کے انداذ میں کہا۔۔
چھوڑو سائرہ کو۔۔رخشندہ بھیگم نے تھپڑ کے لیئے ہاتھ اٹھایا جسے فوراً سے پہلے دانین نے گھٹنے سے سائرہ کے ٹانگ پر ٹھوکر مار کر گرایا اور پکڑ لیا۔۔
بس مسزرخشندہ ناظم کاظمی بس۔۔اور نہیں میں وہ نہیں تھی جو میں یہاں آ کر بن گئ تھی۔میں یہ ہوں نڈر سی دانین جمشید علی آئ سمجھ۔آئندہ آپ میں سے کسی نے چالاکی کی تو دو اور دو کو پانچ کرنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔۔زور سے ان کے ہاتھ کو جھٹکتی وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تو اک پل کو رخشندہ بھیگم کانپ کر رہ گئیں تھیں۔۔
اماں میری ٹانگ۔۔فرش پر گری سائرہ تکلیف سے چلائ۔۔
چھوٹا سا فریکچر ہوا ہو گا دوبارہ یہ زبان اور ہاتھ ذیادہ چلا نہ تو پرمنٹ وہیل چیئر پر آ جاؤ گی۔ویسے ایک لحاظ سے اچھا ہی ہے بےچارے طیب بھائ کی جان چھوٹے گی۔۔کیوں سومو۔۔ایک آنکھ دباتی مسکرا کر کہتے ہاتھ میں پڑے باؤل کو رخشندہ بھیگم کے پاؤں کے پاس زور سے پٹختی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔
باؤل گرنے سے ایک شور پیدا ہوا اور کانچ بکھر گۓ۔رخشندہ بھیگم ڈر کر پیچھے ہوئیں۔۔سائرہ نے تکلیف سے ماں کی طرف دیکھا۔۔
دانین کا یہ روپ دیکھ کر وہ دونوں ماں بیٹی صیح معنوں میں ڈر گئیں تھیں۔رخشندہ بھیگم نے سائرہ کو پکڑ کر اٹھایا اور کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔
جبکہ پیچھے کھڑی سومو مسکرا کر رہ گئ تھی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
امان کا فون آتے ہی سعدی بائیک لے کر تیزی سے ریستوران کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔۔
ریستوران کے پاس پہنچ کر اسے امان باہر کھڑا ہی دکھ گیا تھا۔۔بائیک سائیڈ پر کھڑی کرتا وہ امان کی طرف بڑھا۔۔
کیا ہوا یار اتنی جلدی میں بلایا تو نے مجھے۔۔سعدی امان کی طرف بڑھا۔۔
ہاں یار وہ مسئلہ ہو گیا ہے ۔۔۔امان نے کان کجھاتے اس کی طرف دیکھا ۔۔
بول بھی کیوں سسپینس کرئیٹ کر رہا ہے۔۔سعدی نے مکہ اس کے کندھے میں مارا۔۔
شادی کرنی ہے مجھے ۔۔
تیری تان پھر وہیں آکر ٹوٹتی ہے تھوڑا صبر کر لے میرے باپ۔۔سعدی نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔
یار تو سمجھ نہیں رہا ۔۔۔
تو سمجھا نا مجھے۔۔۔
دیکھ عینا کی بہن یہ محبت وغیرہ کی سخت دشمن ہے۔اسےعینا اور میرے بارے میں پتہ چل گیا تھا تو اس نے عینا کو کمرے میں بند کر دیا تھا۔بڑی مشکل سے اس کے موم ڈیڈ نے اسے وہاں سے نکالا ہے اب مجھے اس سے شادی کرنی ہے۔اماں نے صاف انکار کر دیا ہے کہ وہ نہیں کروائیں گی ابھی میری شادی کسی بھی صورت۔۔تو کچھ کر یار۔۔امان اللہ ایک ہی سانس میں بولا۔۔
واٹ عینا گھر چھوڑ کر آ گئ ہے۔۔سعدی اچھلا۔۔
یار کیا کرتی ظالم بہن کے ہاتھوں مر جاتی۔۔امان نے برا منایا۔۔
تو اب یہ کہ میری مدد کرو شادی کرواؤ جب مناسب وقت ملا میں اماں کو بتا دوں گا۔۔
یو مین کورٹ میرج۔۔
ہاں۔۔امان نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
یار دیکھ لینا کوئ لفرا نہ ہو جاۓ۔۔
نہیں ہوتا۔۔
چل پھر عینا سے بات کر لیں پھر کچھ ارینج کرتے ہیں۔۔سعدی نے کہا تو دونوں ریستوران کا گلاس ڈور دھکیلتے اندر داخل ہوۓ جہاں گم صم سی عینا سوجھی آنکھوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
یہ جو دل ہے نا جاناں۔!!
آؤ اسے دو ٹکروں میں
بانٹ لیتے ہیں
ایک ٹکڑا تم رکھ لینا
ایک ہم خود میں چھپا لیں گے
یہ جو محبت ہے نا جاناں۔!!
آؤ اسے تقسیم کرتے ہیں
کہیں اس کو تم جی لینا
کہیں ہم اس کو پالیں گے
یہ جو لوگ ہے نا جاناں۔!!
انہیں چھوڑ دیتے ہیں
رخ کو موڑ لیتے ہیں
وگرنہ تم جان لو جاناں۔!!
کہیں یہ تم کو ڈس لیں گے
کہیں مجھ کو نوچ کھائیں گے
یہ جو جنگل ہے نا جاناں۔!!
یہ عاشقوں کا مسکن ہے
کہیں تم ڈیرا لگا لینا
کہیں ہم ایک دوجے کے
سنگ بسیرا کر لیں گے
یہ جو سکون ہے نا جاناں۔!!
اسے تم مجھ میں کہیں
میں تم میں کہیں ڈھونڈ لوں گی۔
(پریشہ ماہ نور)
عینا تم ایک پھر سوچ لو تم یہ صیح ہو گا تمہارے لیئے۔۔سعدی نے اعتماد سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔
وہ مقام بہت پیچھے رہ گیا سعدی جہاں صیح اور غلط کا تعین ہو۔اب وہ وقت ہے جب صرف ہو جانا معنی رکھتا ہے۔۔عینا اب سنبھل چکی تھی۔اطمینان اس کے چہرے پر پھیل رہا تھا۔۔
ٹھیک ہے جیسے تم دونوں کی خواہش مگر یار رخشندہ بھابھی نے کوئ مسئلہ کرئیٹ کیا تو۔۔سعدی آگے کو ہو کر بیٹھا۔۔
یار سائرہ آپی کی شادی ہو جاۓ پھر میں اماں کو بتا دوں گا ۔لاڈلا ہوں ان کا مان جائیں گی آئ نو۔امان نے فرضی کالر جھاڑے۔۔
چل ذیادہ خوش فہم نہ ہو۔سعدی نے اس کے کندھے پر زور کی چپت لگائ تو امان نے برا سا منہ بنایا۔عینا خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔۔
چلو پھر اٹھو جلد سے جلد ختم ہو جاۓ یہ کام تو بہتر ہے۔۔تینوں آگے پیچھے ریستوران سے نکلے۔
امان کی گاڑی تک پہنچ کر سعدی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔امان نے عینا کے لیئے پچھلا دروازہ کھولا تو وہ خاموش سی بیٹھ گئ۔امان بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔گاڑی عدالت کی طرف رواں دواں تھی۔۔
یار وہ جو سامنے شاپنگ مال ہے اس کے پاس روک دے ذرا۔۔امان نے سامنے نظر آتے مال کی طرف اشارہ کیا۔۔
کیوں۔۔سعدی نے تیز نظروں سے اسے دیکھا۔
تو یہیں بیٹھ کباب میں ہڈی آتا ہوں میں۔۔دانت پیس کر کہتے وہ عینا کی طرف کا دروازہ کھول کر عینا کا ہاتھ پکڑے مال کی طرف بڑھ گیا۔۔
خود بھی مرے گا یہ عاشق مجھے بھی مرواۓ گا۔۔سعدی منہ ہی منہ میں بڑبڑیا۔۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ امان اور عینا مال سے باہر نکلے ۔
عینا نے وائٹ تنگ ٹراؤزر کے ساتھ پنک شارٹ شرٹ پہنی ہوئ تھے۔پہلے سے وہ قدرے بہتر اور پرسکون لگ رہی تھی۔
امان کا بازو جھکڑے وہ سر جھکاۓ چلی آ رہی تھی۔۔
اوہ حلیہ درست کروانے لے کر گیا تھا اس کا بڑا تیز ہو گیا ہے۔۔ویسے لڑکی کمال کی وفاشعار اور خوبصورت ملی ہے۔۔
کاش مجھے بھی مل جاۓ وہ۔۔سعدی کی آنکھوں کے سامنے ایک خوبصورت معصوم سا چہرہ آیا۔۔مسکراتے ہوۓ سعدی نے سر جھٹکا۔۔
چل اب سٹارٹ بھی کر دے گاڑی۔۔اس سوچوں کے بھنور میں ڈوبے دیکھ کر امان نے اسے کہنی ماری تو وہ ایک دم ہڑبڑایا جیسے نیند سے جاگا ہو۔۔
ہاں چلتے ہیں یار۔۔وہ پھیکا سا مسکرایا۔اسے خبر ہی نہیں ہوئ تھی کہ وہ دونوں کب آ کر گاڑی میں بیٹھے تھے۔وہ تو کسی کے مسکراتے چہرے کے گہرے ڈمپلوں میں کھویا ہوا تھا۔۔
___________________________________________________________________________________________________
وہ گھر میں داخل ہوا تو غیرمعمولی سی خاموشی چھائ ہوئ تھی۔یہ ویرانی اور خاموشی تو امان کی موت کے بعد اس گھر کا اہم فرد بن چکی تھی۔
مگر آج کچھ ذیادہ ہی خاموشی محسوس کی تھی اس نے۔اسے لگا تھا بھابھی،سائرہ اور سومو آ گۓ ہوں گے مگر یہ خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ نہیں ہیں گھر پر۔۔
سر جھٹکتا وہ آگے بڑھا تبھی کچن سے نکلتی فقیراں بی سے ٹکر لگتے لگتے بچا تھا۔۔
یہ ہلدی والا دودھ کس کے لیئے ہے۔۔فقیراں بی کے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو دیکھ کر وہ چونکا تھا۔۔
جی یہ سائرہ بٹیا کے لیئے ہے ان کو چوٹ لگی ہے۔۔فقیراں بی گلاس لیئے سائرہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔
سائرہ کو چوٹ کیسے لگ گئ۔۔وہ بڑبڑاتا ہوا پریشانی سے سائرہ کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔اندر داخل ہوا تو سامنے بیڈ پر ٹانگ پر پٹی باندھے سائرہ کراہ رہی تھی۔فقیراں بی دودھ کا گلاس رکھ کر فوراً وہاں سے نکلیں۔۔
سائرہ بیٹا یہ کیا ہوا ہے۔چوٹ کیسے لگ گئ۔وہ پریشانی سے اس کے پاس بیٹھا۔وہ اس کی ہم عمر تھی اس کے باوجود وہ اسے بیٹا کہتا تھا۔۔
یہ جا کر اپنی بیوی سے پوچھو۔غنڈہ بن گئ ہے پوری۔۔رخشندہ بھیگم پھٹ پڑیں تھیں۔۔
بھابھی دانی ایسا کیسے کر سکتی ہے۔۔اسے یقین نہیں آیا تھا۔۔
اوہ بیٹا جی جا کر خود دیکھ لو آج مخترمہ کے رنگ ڈنگ کی بدلے ہوۓ ہیں۔۔اساور تیزی سے کمرے سے نکلا۔آج اس کا بدلہ انداذ وہ صبح ہی محسوس کر چکا تھا۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو کپڑے تہہ کرتی دانین نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئ۔۔
اساور غصے سے اس کی طرف بڑا۔اس کا ہاتھ مڑوڑ کر پشت پر کیا۔دانین کے پشت اساور کی طرف تھی۔۔
سائرہ کو تم نے گِرایا۔۔وو دبے دبے غصے سے اس کی کان کے نزدیک غرایا۔اتنا نزدیک کے دانین اس کی سانسیں اپنے گال پر محسوس کر سکتی تھی۔پل بھر کو دانین کانپی تھی۔مگر اگلے ہی پل اس نے اپنے خوف پر قابو پا لیا تھا۔۔
ہاں تو۔۔تکلیف کے باوجود وہ اطمینان سے بولی۔اس کا اطمینان اساور کو آگ لگا رہا تھا۔۔
کیوں۔۔اساور نے اس کے بازو پر اپنی گرفت مظبوط کی تو اس کے منہ سے سسکی نکلی۔۔
جو تم سب میرے ساتھ کرتے ہو میں نے پوچھا کبھی کہ وہ کیوں ہے۔۔دانین نے زور سے پشت اسے ماڑی جس سے ہاتھ پر گرفت ڈھیلی ہوئ۔دانین نے موقع کا فائدہ اٹھاتے اساور کا ہاتھ جھٹک کر خود کو اس کے دور کیا۔۔۔
تم بدلے میں آئ ہو اس بات کو مت بھولو تم۔۔اساور نے انگلی اٹھا کر کہا تھا۔۔
اچھا اگر میں بدلے میں نہ آئ ہوتی تو کیا میں پھر بھی اس گھر میں نہ آئ ہوتی۔۔دانین نے نڈر انداذ میں سوال کیا۔اساور بس غصے سے دیکھ کر رہ گیا۔۔
تم اساور کبھی تم نے سوچا تم محبت کے دعویدار تھے مجھ سے۔میری چھوٹی سی تکلیف بھی تمہاری راتوں کی نیندیں خرام کرتی تھی۔اور اب تم میری تمام تکلیفوں کی وجہ ہو۔۔دانین چلا رہی تھی اور وہ آنکھوں میں غصے کی چنگاری لیئے خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔۔
تم وہ جو کال پر کہتے تھے سنو دانین آئ لو یو” تو میں شرما جاتی تھی۔جب مجھے چوٹ لگتی تھی تو تمہارا تڑپ جانا میری کئیر کرنا مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے جاتا تھا ۔تم نے ایسا پٹخا ہے مسٹر اساور کے جڑنا چاہوں تو جڑ نہ پاؤں کی میرا وجود ٹکڑوں میں صورت میں اس کائنات میں بَٹ چکا ہے۔۔
تم وہ شخص تھے جس سے میں نے بےانتہا محبت کی، تم وہ شخص تھے جس کا نام میں نے اس دل پر لکھا تھا اور تم جان لو یہ سب تھا اور جہاں تھا ہو وہ ماضی ہوتا ہے۔۔تمہاری مخبت میری لگن سب ماضی تھا ۔۔دانین بولتی چلی جا رہی تھی مگر کوئ آنسو نہ تھا جو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر آ گرت۔وہ لڑکی کمال ضبط آزما رہی تھی۔۔
اور تم بھی جان لو دانین جمشید علی تم واحد وہ لڑکی تھی جس کے رہتے میرے لیئے دنیا میں لڑکیوں کا کال تھا۔تم وہ لڑکے تھی جس کے آگے مجھے دنیا ویران لگتی تھی ،تم میری کمزوری تھی اور اسی کمزوری کا تم نے فائدہ اٹھایا تم نے بھروسہ توڑا میرا ۔تم نے سعدی کو بچایا ایک ایسے انسان کو جو مجرم ہے قاتل ہے میرے امان کا۔۔اساور نے بازوؤں سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ ڈالا۔۔
ایک پل کو سوچو اگر سعدی امان کا قاتل نہ ہوا تو پھر۔۔اساور کے ہاتھ دانین کے بازوؤں سے ہٹے۔وہ اسے دیکھتا رہ گیا اس پر تو اس نے سوچا نہیں تھا۔۔
جس دن سعدی پےقصور ثابت ہو جاۓ گا نہ تم اور تمہاری یہ نفرت دونوں خاک ہو جاؤ گے۔تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آۓ گا۔اور یہ میرا وعدہ ہے مسٹر اساور کاظمی جس دن سعدی باعزت اس الزام سے بَری ہو گا میرا اس گھر میں وہ دن آخری ہو گا اس سے پہلے بےفکر رہنا نہیں جاؤں گی مگر ملازمہ بن کر بھی نہیں رہوں گی۔۔
سعدی ہی قاتل ہے امان کا اور یہ پروف ہو چکا ہے اس لیئے فرض کرنے یا وعدے کرنے کی کوئ گنجائش نہیں رہتی ۔۔۔اساور پہاڑ سے پتھر اور چٹان سے نوکیلے لہجے میں بولا۔۔
تم بس یہ سن لو اساور میں اب تم سے محبت نہیں کرتی۔۔اساور کے اندر کچھ ٹوٹا تھا اس سے ذیادہ وہ سامنے کھڑی اس لڑکی کو توڑ چکا تھا۔۔پر میں تم سے نفرت بھی نہیں کرتی۔۔
نہ تم میری محبت ہو نہ نفرت تم ان دونوں کے بیچ لٹکے ہو تمہیں پتہ ہے یہ جو بیچ میں اٹکا ہوتا ہے زندگی کا عذاب ہوتا ہے۔۔۔۔۔دانین نے تہہ لگاۓ کپڑے اٹھاۓ اور الماری کی طرف رکھنے چلی گئ جو واشروم کے ساتھ تھی۔۔
اساور کے اندر بدلے کی آگ پل بھر کو ٹھنڈی ہوئ۔وہ سوچ رہا تھا اگر مگر کو اور آخر وہیں پہنچتا کہ سعدی قاتل ہے۔۔بدلے کی آگ عقل کو مفلوج کر دیتی ہے۔۔
__________________________________________________________________
کیا ہوا ڈرائیور انکل۔۔سکول یونیفارم پہنے وہ پندرہ سولہ سالہ لڑکی کافی دیر سے گاڑی کا معائنہ کرتے اڈھیڑ عمر کے آدمی سے بولی۔۔
بٹیا گاڑی خراب ہو گئ ہے ورکشاپ لے جانی پڑے گی۔۔
افف ہو ایک تو گرمی اوپر سے گاڑی خراب اب کیا ہو گا۔۔وہ خودکلامی کے سے انداذ میں بولی۔۔
سڑک پر بہت سی گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔گاڑیوں کے ہارن اور شور کانوں کے پردے پٹھا رہا تھا۔۔یہ لاہور کی گنجان آباد سڑک تھی۔۔
وہ شیشے سے باہر جھانکتی آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھنے لگی کہ کوئ شائد خراب گاڑی دیکھ کر مدد کو پہنچے مگر انسانیت کے لیئے انسانوں کے پاس فراغت کہاں۔۔
تبھی اسے تھوڑے دور سے اسے موٹرسائیکل آتا ہوا دکھائ دیا۔موٹرسائیکل سوار کچھ جانا پہچانا لگ رہا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے وہ صیح سے دیکھ نہیں پا رہی تھی۔۔موٹرسائیکل گاڑی کے پاس پہنچا تو موٹرسائیکل سوار نے شیشے میں سے جھانکتی لڑکی کو دیکھا۔جو بہت غور سے اسے دیکھ رہی تھی شائد پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
اس کی ادا پر وہ مسکرایا ۔وہ اسے نہیں پہچانتی تھی مگر وہ اسے کروڑوں کے مجمع میں پہچانتا تھا۔۔بائیک سائیڈ پر کھڑی کرتا وہ گاڑی کی طرف بڑھا۔
لڑکی کے چہرے پر ابھی تک اجنبیت کے تاثرات تھے۔۔
کیا ہو گیا چچا گاڑی کو ۔۔انجن چیک کرتے ڈرائیور نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
سدی بیٹا آپ۔۔وہ گاڑی کا انجن مسئلہ کر رہا ہے۔۔
اوہ سعدی بھائ آپ۔۔ڈرائیور نے نام لیا تو وہ جو اتنی دیر سے اسے تکتی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی فوراً بولی۔۔
پہچان لیا چھٹکی۔۔سعدی نے اس کے شیشے سے باہر نکلے سر پر ہلکی سی چپت لگائ۔۔
آپ کون سا آتے ہیں جو میں پہچان جاؤں اپنی سولہ سالہ زندگی میں مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کوئ دوسری تیسری بار دیکھ رہی ہوں آپ کو۔۔سومو نے معصوم سی شکل بنا کر کہا تو سعدی بےاختیار اسے دیکھتا چلا گیا۔۔
وہ چھوٹی سی لڑکی جو اسے پہچان بھی نہ پاتی تھی وہ پورے دل و جان سے اس پر فدا تھا۔۔
چچا آپ گاڑی مکینک کے پاس لے جانا سومو کو میں گھر چھوڑ دوں گا۔۔
سعدی بیٹا موٹرسائیکل پر کیسے جا سکتی ہیں یہ۔۔ڈرائیور کو اعتراض تھا کیونکہ وہ کاظمی حویلی کی شہزادی تھی اور شہزادیوں کی سواریاں تو شان و شوکت والی ہوتی ہیں۔۔
کوئ نہیں انکل میں چلی جاؤں گی مجھے بہت اچھا لگتا ہے کھلی ہوا میں بادلوں کے سنگ اڑتے چلے جانا۔چلیں سعدی بھائ ۔۔سعدی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ اپنا بیگ گاڑی سے نکال کر موٹرسائیکل کے پاس جا کھڑی ہوئ۔۔
چلیں چچا چلتا ہوں۔۔اس کی عجلت پر مسکراتے ہوۓ سعدی موٹرسائیکل کی طرف بڑھا۔جہاں وہ پہلے سے ہی کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
عدالت میں معمول سے کہیں ذیادہ گہماگہمی تھی۔کالے کوٹ پہنے وکیل لوگوں کے ہجوم سے بچ بچا کر نکل رہے تھے۔آتے جاتے کیس جیت جانے پر ہنستے کیس ہار جانے پر روتے ہر طرح کے لوگ تھے۔۔
لوگوں کے ہجوم سے راستہ بناتے وہ تینوں ایک کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔کمرے کے پاس وہ پہنچ کر رکے۔
کمرے کا دروازہ ہلکے کالے رنگ کا تھا جس پر ایڈووکیٹ شامین کے نام کا بیچ لگا ہوا تھا۔سعدی نے دروازے کو ہلکا سا دھکیلا تو وہ چڑچڑاہٹ کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔۔
أگے پیچھے وہ تینوں اندر داخل ہوۓ۔عینا نے امان کا بازو مظبوطی سے پکر رکھا تھا۔۔
اوہ امان اللہ کاظمی اور سعدی رانا یہاں ہمارے تو بھاگ جاگ گۓ۔۔ٹیبل پر پڑے فائلوں کے پلندے میں سر دیئے وہ بیٹھی تھی۔ان کے آنے پر مسکراتی ہوئ کھڑی ہو گئ۔۔
یِس بڈی ہم تمہاری ہیلپ چاہیئے تھی۔۔امان اور سعدی نے ریسلرز کی طرح پنچا ملایا۔انداذ سے لگ رہا تھا کافی گہرے دوست ہیں۔۔
میری ہیلپ ہمم بتاؤ بتاؤ شامین کو غریبوں مسکینوں کی مدد کرنے سے بہت سکون ملتا ہے۔۔شامین نے انہیں چھیڑا تھا۔۔۔
تم بدلو گی نہیں وکیل بن گئ ہو لچھن وہی ہیں۔۔سعدی کرسی گھسیٹتا ہوا بیٹھ گیا۔۔امان اور عینا پاس پڑے ایک بوسیدہ سے صوفے پر براجمان ہو گۓ۔۔
بدل جاؤں تو دھوکے باز کہلاؤ جو نہ بدلوں تو لچھن باز کہلاؤں واہ رے واہ کیسے لوگ ہیں۔۔ویسے کیا ہیلپ چاہیئے تھی اور یہ چھٹکی کون ہے۔۔شامین نے اتنی دیر سے حاموش بیٹھی عینا کی طرف اشارہ کیا۔۔
عینا میری۔ ۔ ۔ ۔
وائف ہے تمہاری اوہ گاڈ مانا تم لوگوں سے بہت سینئیر ہوں بڑی ہوں مگر ہوں تو دوست مجھے بتایا بھی نہیں شادی کا یہ امید نہیں تھی تم سے امان۔اور تم سعدی تم نے بھی کر لی ہو گی۔۔امان کی بات کاٹتے وہ غصے اور تیزی سے بولی۔۔
کیا شامین میں تو ابھی بچہ ہوں۔۔سعدی نے معصوم سا منہ بنایا۔۔
دکھ رہے ہو مجھے پانچ فٹ کے بچے۔۔تم بتاؤ امان کیا ہے یہ سب۔۔؟؟وہ ایک ساتھ دونوں کو لتاڑ رہی تھی۔۔
تخمل نہ آیا تم میں۔امان نے افسوس سےہاتھ ملے ۔۔پوری بات نہ سننا آدھی کاٹ کر شروع ہو جانا۔۔
یہ میری بیوی نہیں ہے مگر تمہارے پاس اسی لیئے آیا ہوں کہ بیوی بنا دو۔۔امان نے تھوڑا سا شرمانے کی ایکٹنگ کی۔۔
میں مولویانی لگتی ہوں تمہیں۔۔وہ اب تھوڑی شانت ہو گئ تھی۔۔
ہاں تو۔۔امان نے تیز نظروں سے اسے دیکھا جو باتوں میں وقت ضائع کر رہی تھی۔۔
اچھا اب کھاؤ مت مجھے نظروں ہی نظروں سے کرتی ہوں کچھ۔۔شامین نے زبان کو ہونٹوں سے باہر نکال کر اسے چراتے ہوۓ کہا۔۔
جلدی۔۔۔
شامین لینڈ لائن سےکسی کو ضروری ہدایات دینے لگی۔۔کچھ دیر وہ فون پر مصروف رہی پھر فون بند کر کے ان تینوں کی طرف دیکھا۔۔
تمہارا کام ہو جاۓ گا تھوڑی دیر تک بس انتظامات ہو رہے ہیں۔۔شامین ہاتھوں کو ملا کر ٹھوڑی کے پیچھے رکھ کر بیٹھ گئ۔۔
اور ایک بات اور۔۔امان نے اسے مخاطب کیا ۔۔۔
جی ماۓ لارڈ فرمائیں۔۔شامین نے ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا تو اداس بیٹھی عینا بھی ہنس پڑی۔۔امان نے بہت غور سے اس دھوپ چھاؤں سی لڑکی کو دیکھا جو اس کی کل متاعِ جاں تھی۔۔
جب تک میں سائرہ آپی کی شادی نہیں ہو جاتی اور میں ان کو منا نہیں لیتا۔عینا تمہارے پاس تمہارے گھر رہے گی۔۔میں اسے اکیلا نہیں رکھ سکتا کہیں۔۔۔
یس ماۓ لارڈ حادمہ ہے آپ فکر کیوں کرتے ہیں۔۔شامین اچھی خاصی خوش مزاج لڑکی تھی۔۔
تینوں باتیں کرتے ہوۓ ہنس رھے تھے جبکہ عینا خانوشی سے امان کے بازو کو زور سے جھکرے بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔
________________________________