(Last Updated On: )
دیکھیں پیشنٹ کی حالت بہت کریٹیکل ہے دماغ پہ بہت گہرا صدمہ پہنچا ہے آپ سب کو کہا بھی تھا کہ انہیں کسی بھی ٹینسن سے دور رکھیں۔۔۔انہیں آئ سی یو میں رکھا گیا ہے چوبیس گھنٹے تک انہیں ہوش میں آجانا چائیے ورنہ پیشنٹ کے 70% چانسس ہیں کومے میں جانے کے یا پھر آگے آپ لوگ سمجھدار ہیں آئ ہوپ سمجھ گئے ہونگے۔۔۔
ڈاکٹر علی کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے چلا گیا
ڈاکٹر کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ ۔۔۔۔
امی بھائ ٹھیک تو ہوجائیں گے نہ۔۔۔
ارحم بیٹا دعا کرو دعا میں بہت طاقت ہے انشاءاللہ ارمان کو کچھ نہیں ہوگا ہماری دعائیں ارمان کے ساتھ ہیں۔۔۔
علی مجھے ار ارمان سے ملنا ہے۔۔۔اجالا نے پر امید نظروں سے علی کی طرف دیکھا۔۔۔
“میں کوشش کرتا ہو”علی اتنا کہہ کے ڈاکٹر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
کچھ منٹ بعد اجالا ارمان کے پاس تھی۔۔۔
“جس طرح ٹوٹ کے گرتی ہے زمیں پر بارش”
“اس طرح خود کو تیری ذات پہ مرتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
منہ پہ آکسیجن ، ہاتھ پہ ڈرپ صدیوں کا بیمار ۔۔۔یہ تو پہلے والا ارمان لگ ہی نہیں رہا تھا جو اپنی ہر صبح کا آغاز مسکراہٹ کے ساتھ کرتا تھا۔۔۔
جو ہر وقت اپنے شعر و شاعری سے سب کے دلوں کو روشن کیے تھا وہ آج بےسوس پڑا ہے ۔۔۔۔
“ارمان”۔۔۔اجالا نے دھیمی آواز سے پکارا ۔۔
“ارمان دیکھو میں آئ ہوں اجالا” اجلا ارمان کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھ گئ۔۔۔
“پلیز آنکھیں کھولو دیکھو میں تمہارے پاس ہوں”ارمان مجھے تم سے محبت ہے میں تم سے ناراض نہیں ہوں پلیز اٹھ جاو دیکھو سب پریشان ہیں”۔۔اجالا کا آنسو ارمان کے ہاتھ پہ گرا۔۔۔اگر ارمان ہوش میں ہوتا تو ان آنسوؤں کو چوم لیتا کیونکہ یہ اجالا کی آنکھ کا آنسو ارمان کے لیے نکلا تھا۔۔۔
میں جا رہی ہوں ارمان پلیز مجھے روکھ لو” اجالا نے امید نظروں سے ارمان کو دیکھ کے یہ بات کہی کہ شاید اسی بات پہ ارمان کو ہوش آجائے۔۔۔۔
اجالا بے بسی سے باہر آگئ سامنے کرسی پہ علی بیٹھا کسی گہری سوچ میں بیٹھا تھا۔۔۔اجالا علی کے برابر بیٹھ گئ۔۔۔
“اسے ہوش نہیں آیا علی اس نے آج بھی میری بات نہیں سنی اگر وہ سنتا تو ضرور ہوش میں آتا وہ مجھ سے ناراص ہی علی تم تو اسکے بیسٹ فرینڈ ہو تم کہو نہ شاید تمہارے کہنے پہ اسے ہوش آجائے”
“اجالا سمبھالو خود کو انشاءاللہ اسے کچھ نہیں ہوگا”
**********************
ایک ہفتہ گزر گیا ارمان کو ہوش نہیں آیا اجالا روز ہوسٹل جاتی ارمان سے ڈھیر ساری باتیں کرتی لیکن ارمان کی طرف سے مایوس ہوجاتی۔۔۔ابھی تک ارمان کو مسنوئ سانسیں دی جارہی تھی ۔۔۔۔
علی کے لیے گھروالوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا اوپر سے زوجاجہ کا کچھ اتہ پتہ نہیں جس رات جنید کی سچائ پتا چلی اسی رات زوجاجہ اور اسکی امی شرم سے گھر سے چپ چاپ چلی گئیں دو دن تک سب کی ارمان کی طرف توجہ تھی مگر تیسرے دن زوجاجہ اور نغمہ بیگم نظر نہ آئیں تو سب پریشان ہوگئے۔۔۔
ارحم کی ٹانگ دن با دن صحیح ہوتی جارہی تھی لیکن اسے اپنے سے ذیادہ اپنے بھائ کی فکر تھی بوڑھی دادی دن رات ایک کر کے اپنے لاڈلے پوتے کے لیے دعائیں کرتی رہتی تھیں۔۔۔
***********♡******
علی آفس کے لیے نکل رہا تھا کہ ہاسپٹل سے کال آگئ
سب چھوڑ چھاڑ کے ہاسپٹل چلا گیا۔۔۔۔
ڈاکٹر فرحان صاحب کے پاس آئے کچھ کہنے والے تھے کہ نرس بھاگ کے آئے ڈاکٹر کے کان میں کچھ بول کے دوبارہ چلی گئ۔۔۔
سب پریشان سے ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔
پندرہ بیس منٹ بعد ڈاکٹر باہر آئے کسی میں ہمت نہیں تھی کہ ڈاکٹر سے کوئ سوال کرے۔۔۔
علی ہمت کر کے ڈاکٹر کے پاس گیا۔۔۔
“مبارک ہو اب وہ خطرے سے باہر ہیں ۔۔
۔۔آپ سب کی دعائیں کامیاب ہوگئ”
سب کے چہروں پہ خوشی کی لہر دوڑی ۔۔
“ڈاکٹر صاحب ہم مل سکتے ہیں ارمان سے”فرحان صاحب نے آنسو صاف کر کے پوچھا۔۔۔
“ابھی وہ ہوش میں نہیں ہیں ایک گھنٹے بعد انہیں ہوش آجائے گا آپ سب مل لیجیئے گا”
“شکریہ ڈاکٹر آپ کا ہم پہ احسان ہے آپ نے ہم سب کی زندگی لوٹادی” ارحم خوشی سے بولا۔۔
“ارے یہ تو ہمارا فرض تھا احسان کی کیا بات”
دادو اور آمنہ بیگم شکرانے کے نوافل ادا کرنے چلی گئین فرحان صاحب صدقہ اتارنے چلے گئے فاطمہ راحم اور ارحم تینون ایک دوسرے سے لگ کے رونے لگ گئے اجالا خرم کے سینے پہ سر رکھے خوشی سے رو رہی تھی۔۔۔علی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کے ارمان کے پاس پہنچے اور اسے دانٹے ایک آدمی ہو کے اپنی یہ حالت کر دی مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ محبت مضبوط سے مضبوط انسان کو اجاڑ دیتی ہے وہی حال ارمان کا بھی تھا۔۔۔
“اب تم سب کیوں تو رہے ہو” علی چاروں کو روتے دیکھ بول بیٹھا۔۔۔
“یار کہاں سے لاتے ہو اتنا صبر” راحم علی کے پاس آکے بولا۔۔۔
“ہم تمہاری طرح مضبوط نہیں ہیں ع”
“اب بچوں کی طرح رونا بند کرو ورنہ ارمان کہے گا کہ تم سب کا خیال کیوں نہیں رکھا لیکن اب اس کو کون سمجھائے کہ یہ ضدی بچے میری سنتے ہی نہیں ہیں”
**************♡***********
ایک گھنٹے بعد سب ارمان سے مل رہے تھے علی نے سب کو گھر بھیج دیا آرام کرنے کے لیے۔۔۔۔
فاطمہ ثوبیہ ارحم راحم علی چاروں اندر تھے علی باہر آیا سامنے کرسی پہ اجالا اپنے آنسو بہا رہی تھی۔۔۔
علی چپ چاپ اجالا کے برابر بیٹھ گیا۔۔۔
” قیمتی آنسو بہانے سے اچھا ہے تم مل کیوں نہیں لیتی ارمان سے” علی دھیمی آواز میں بولا۔۔
اجالا نے چونک کے اپنے برابر دیکھا پھر ہلکا سا مسکرا کے گردن نیچے کر لی۔۔
“ہمت نہیں ہے” اجالا نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔۔۔
اسکے سامنے جانوگی تو ہمت کھودونگی بہت مشکل سے آنسو روکنے میں کامیاب ہوئ ہوں دس دفعہ سوچا ہے جاوں کہ نہیں جاوں لیکن یہ آنسو اسکو سوچتے ہی آنکھ سے پھسل جاتے ہیں”اجالا آنسو صاف کر کے بولی۔۔
“وہ ابھی ابھی ٹھیک ہوا ہے مجھے یوں روتا دیکھ کے کہیں اسکی دوبارہ طبیعت خراب نہ ہوجائے پہلے ہی میری وجہ سے اسکی یہ حالت ہوئ ہے”
“مل لو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رو کے دل ہلکا کرلو کب سے تمہاری راہ دیکھ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے انتظار میں واقعی”۔۔۔علی اتنا کہہ کے چپ ہوگیا آگے بولنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔
علی نے راحم ارحم فاطمہ ثوبیہ کو گھر بھیج دیا تھا اب ہوسٹل میں اجالا اور علی کے علاوہ کوئ نہیں تھا علی کچھ کھانے کے لیے ہاسپٹل کی کینٹین چلا گیا ۔۔۔
اجالا نے ہمت جمع کر کے دروازہ کھولا۔۔۔
سامنے ارمان آنکھیں موندے لیتا ہوا تھا۔۔
“جس طرح ٹوٹ کے گرتی ہے زمیں پر بارش”
“اس طرح خود کو تیری ذات پہ مرتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
اجالا آہستہ آہستہ چل کے ارمان کے پاس گئ۔۔۔
علی ارمان کا ہاتھ پکڑ کے کرسی پہ بیٹھ گئ۔۔
ارمان نے چونک کے آنکھیں کھولی برابر اجالا کو دیکھ کے اٹھ بیٹھا۔۔۔
“اٹھو مت لیٹے رہو تمہیں آرام کی ضرورت ہے” اجالا نے ارمان کو دوبارہ لیٹایا ۔۔۔۔
“کیسی ہو” ارمان نے دھیمی آواز میں پوچھا۔۔
“تمارےبنا کیسی ہو سکتی ہوں”تم بتاو کیسے ہو”
“تمہارے بنا میں کیسا ہوسکتا ہوں میری حالت تمہارے سامنے ہے دیکھ لو”ارمان دھیمے سے مسکرایا ۔۔۔
“وہ تو دیکھ رہی ہوں”۔۔
” اب بھی ناراض ہو”
“بھلا میں تم سے ذیادہ دیر تک ناراض ہو سکتی ہوں”
“مجھے معاف کردیا”
“معاف انہیں کیا جاتا ہے جس کی غلطی ہو اور تمہاری کوئ غلطی نہیں ہے ارمان حالات ہی کچھ ایسے تھے”
“غلطی نہیں سزا بولو میں تمہارا مجرم ہوں”ارمان نے کہا۔۔۔اجالا ایک سرسری نگاہ ڈال کے رخ پھیر گئ۔۔۔صاف پتا چل رہا تھا کہ ارمان کی بات بری لگی۔۔
“اچھا سوری پلیز معاف کردو اپنے اس نکمے ارمان کو
آئندہ تمہیں شکایت کا موقع نہیں دونگا”ارمان ہاتھ جوڑ کے بولا۔۔
اجالا نے ارمان کا ہاتھ نیچے کردیا۔۔
“کہا نہ معافی مت مانگو تمہاری کوئ غلطی نہیں ہے”
“میں پتھر دل ہوگیا تھا اجالا یہ تو بہت کم سزا تھی اگر مر کے بھی محبت کا کفارہ ادا کرنا پڑے تو وہ بھی منظور تھا مجھے”۔۔۔
ہاں تم تو خوشی خوشی مرنا پسند کروگے ایک ہم تھے
جن کی تم نے راتیں حرام کی تھیں پتہ ہے اس دو مہینے میں سب کس تکلیف سے گزرے تھے دن رات ایک کر کے تمہاری ہی زندگی کی دعا کرتے تھے اور تم کہہ رہے ہو کہ مرنا بہت چھوٹی سے سزا ہے” اجالا غصے سے بولی۔۔۔
“تم نے معاف کردیا نہ بس اب جینے کی چاہ ہے میں تمہارے ساتھ ساری زندگی گزارنا چاہتا ہوں تمہاری ہر ایک تکلیف کا مداوا کرنا چاہتا ہوں” ارمان آنکھوں میں چمک لاکے بولا۔۔۔
“تمہیں نہیں پتا ان دنوں ہم پہ کیا بیتی تھی”اجالا بے بسی سے بولی۔۔۔
“مجھ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ اپنوں کے بچھڑنے کا دکھ کیسا ہوتا ہے میں بھی اس تکلیف سے گزرا ہوں” ارمان نے گہرا سانس لیا
“ارمان آر یو اوکے ڈاکٹر کو بلاوں” اجالا ارمان کو دیکھ کے پریشان ہوگئ۔۔۔۔
“نہیں میں ٹھیک ہو” ارمان ہلکا سا مسکرایا ۔۔
سر میں درد ہو رہا ہے تو بتاؤ میں ابھی ڈاکٹر کو بلاتی ہوں”اجالا کرسی سے اٹھ کے جانے لگی کہ ارمان نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
ہر زخم کی آغوش میں ہے “درد” تمہارا
ہر درد میں تسکین کا احساس بھی تم ہو۔۔۔
ارمان نے آنکھیں بند کر کے شعر پڑھا۔۔
“ہاہاہا ارمان تم اب بھی نہیں سدھرے اب لگ رہا ہےکہ تم پہلے والے ہی ارمان ہو۔۔۔قسم سے کان ترس گئے تھے تمہاری آواز سننے کو”اجالا نے شوخ نظروں سے ارمان کی جانب دیکھا۔۔۔
“اجالا” ارمان نے دھیمی آواز میں پکارا۔۔
“ہوں کہو”
اگر میں تم سے کچھ مانگوں؟
اگر میں تم سے یوں بولوں؟
اگر میری تمنا ہو؟
میرے دل کی یہ خواہش ہو؟
کہ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں جب کبھی تم کو پکاروں میں؟
تمہارا ساتھ چاہوں میں؟
تمہارے پیار کی تھوڑی سی جو خیرات مانگوں میں؟
تو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصل کے ان خوابیدہ لمحوں میں
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو بانٹ لو گے ناں؟
ہمارا ساتھ دو گے ناں؟
“اجالا نے اپنی پلکھیں جھپکائ “گردن ہاں میں ہلا دی۔۔۔
ارمان ہلکا مسکرایا۔۔۔
اتنے میں علی اندر داخل ہوا دونوں کو یوں مسکراتا دیکھ کے دل میں دعا کی کے یہ دونوں یونہی ساری زندگی ہنستے مسکراتے رہیں
“ارے علی تم۔۔۔آو نہ ” ارمان نے علی کی طرف دیکھ کے پکارا۔۔
کیسے ہو مجنوں جی”علی نے شرارت سے پوچھا۔۔۔
“بس لیلا مل گئ اب چنگا ہوں”ارمان نے شوخ نظروں سے اجالا کی طرف دیکھا
“ہاں وہ تو دیکھ رہا ہے لیلا مجنوں ۔۔۔یار اتنا ستایہ ہے تم نے قسم سے دل چاہ رہا ہے دو لگاوں تجھے”
“ہاہاہاہ اب بس کر پہلے ہی باتیں سن چکا ہوں دادو ماما چاچو چاچی ۔۔چاچی سے یاد آیا نغمہ چاچی اور زوجاجہ ملنے نہیں آئیں”ارمان کے سوال پہ علی نے اجالا کی طرف دیکھا۔۔۔
وہ دونوں گھر پہ ہونگی تو تمہارے پاس آئیں گی نہ۔۔ابھی ابھی انہیں سے مل کے آرہا ہوں ایدھی ہوم سے۔۔۔
“کیاا پر نغمہ چاچی اور زوجاجہ وہاں کیوں گئیں”ارمان بےیقینی سے علی کی طرف دیکھا۔۔۔
” جنید کی حرکت پہ دونوں شرمندہ ہیں” جواب اجالا کی طرف سے آیا ۔۔۔
“میں وہیں گیا تھا زوجاجہ کی عقل ٹھکانے سمجھتی کیا ہے وہ منہ اٹھا کے چل پڑی میں شوہر ہوں اسکا ایک بار مجھ سے پوچھ تو لیتی”علی غصے سے بولا۔۔۔
“لگتا ہے اب علی کی باری ہے مجنوں بننے کی علی تم اپنی یہ حالت مت کردینا ورنہ میری طرح بیچاری زوجاجہ کا بھی یہی حال نہ ہوجائے”اجالا نے مزاق میں کہا۔۔۔
“میں اسکی طرح بزدل نہیں ہوں جو ایک لڑکی کے پیچھے اپنی ایسی حالت کردوں الحمداللہ ایک مضبوط آدمی ہوں اگر میری ایسی حالت ہوتی اور آرمی جوائن کرنے کے بعد جب سب کو پتا چلتا کہ میری ایک لڑکی کے پیچھے خوار ہو کے ایسی حالت ہو گی ہے تو قسم سے پہلی فرصت میں آرمی سے نکال دیتے” علی نے ارمان پہ طنز کیا۔۔۔ارمان اسکی بات پہ مسکرا دیا۔۔۔
” اچھا اب چھٹی کب ہوگی یار میں اکتا گیا ہوں بیڈ پر پڑھے پڑھے” ارمان بیزاری سے بولا۔۔۔
“خود ہی کی وجہ سے تیری ایسی حالت ہوئ ہے اب ڈاکٹر اتنی جلدی نہیں چھوڑنے والے کھا تو مریضوں والا کھانا” علی اپنی ہنسی ضبط کر کے بولا۔۔
” طنز کے تیر چلانا بند کر” جیسے میں نے بولا تھا کہ
آ بیل مجھے مار”۔۔۔۔
“آو اجالا ہم تو باہر کچھ چٹ پٹا کھا کے آتے ہیں” علی شرارت سے بولا ۔۔۔
” ہاں جلاو مجھے تم دونوں بس ایک بار مجھے ٹھیک ہونے دے پھر سود سمیت سارے بدلے لونگا”ارمان تپ کے بولا۔۔۔
“ہاہاہاہا پہلے اس بستر سے تو اتر پھر ہمیں بھی دیکھ لینا ” علی اتنا کہہ کے باہر چلا گیا
************
ماشااللہ خیر سے ارمان ٹھیک ہوگیا
ہے میں نے بچوں کے متعلق کچھ سوچا ہے اگر تم میں سے کسی کو کوئ اعتراض نہ ہو تو میں کچھ بولوں۔۔۔
اماں جی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ کا حکم سر آنکھوں یہ آپ بس حکم کیجیئے۔۔
۔فرحان صاحب اپنی ماں کی بات پہ بولے۔۔۔
میں نے سوچا ہے کہ ارمان اور اجالا کے ساتھ ساتھ ثوبیہ اور فاطمہ کو بھی رخصت کر دینا چاہئیے ۔۔۔
“اماں جی ارمان اور اجالا کی بات تو صحیح ہے ہم خود یہی سوچ رہے تھے لیکن فاطمہ اور ثوبیہ کی شادی کیسے میرا مطلب ان کے لیے تو کوئ ابھی تک ہم نے کسی لڑکے کو ہی نہی چنا” فرحان صاحب ہچکچاتے۔۔۔
“بیٹا میں چاہتی ہوں کہ بچے ہماری آنکھوں کے ہی سامنے رہیں تو ذیادہ بہتر ہے اور فاطمہ اور ثوبیہ کے لیے لڑکے دیکھنے کی کیا ضرورت جبکہ لڑکے گھر پہ ہی موجود ہیں۔۔۔”ثوبیہ کے لیے ارحم اور فاطمہ کے لیے خرم”
” اماں جی مجھے ثوبیہ کے لیے کوئ اعتراض نہی ہے ماشااللہ اپنے گھر کا ہی بچہ ہے پہلے آپ آمنہ بھابھی اور ارحم سے پوچھ لیں”
فرحان صاحب نے اپنا نظریہ پیش کیا۔۔۔
میں نے انکے کہنے پہ ہی یہ بات کہی ہے دونوں کو کوئ اعتراض نہیں ہے ۔۔۔
وہ تو اچھی بات ہے لیکن یہ فاطمہ اور خرم کا رشتہ کیا خرم ماں جائے گا۔۔۔
” میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں نے یہ بات سب کی رضامندی سے کی ہے”راشدہ بیگم اپنے بیٹےکی باتوں سے جھنجھلا گئیں۔۔۔
“خرم کو کوئ اعتراض نہیں ہے”۔۔۔
**************♡**********
“ثوبیہ یار میں کیسے خرم سے شادی” فاطمہ پریشان سی ادھر ادھر ٹہل رہی تھی۔۔۔
“کیا مطلب کیسے ظاہر ہے نکاح ہوگا تم دونوں
کا”ثوبیہ نے کہا۔۔
“ففففففف میرا مطلب وہ بہت غصے والے ہیں یار میں کیسے برداشت کر سکونگی”
“جیسے اجالا نے دل بڑا کر کے ساری زندگی خرم بھائ کو برداشت کیا ویسے ہی تم بھی برداشت کرنا”
” تمہیں تو کوئ ٹینشن ہی نہیں ہے تمہیں تو میرا سیدھا سادھا بھولا سا بھائ جو مل رہا ہے” فاطمہ نے حل بھون کے کہا۔۔۔
“ارحم اور وہ بھی بھولا بہت بڑی خوش فہمی ہے تمہیں”
بیٹا سب پتا ہے جب ارحم کی موت کی خبر ملی تھی راتوں میں چھپ چھپ کے تم بھی روتی تھی میرے بھائ کے لیے۔۔۔
اور جو تم خرم کو چھپ چھپ کے دیکھتی تھی وہ کیا۔۔۔ثوبیہ نے اپنا بدلہ پورا کیا۔۔۔۔
چلو نکل یہاں سے ایک تو میں پہلے ہی پریشان ہوں اوپر سے تمہاری سڑی ہوئ باتیں۔۔۔۔فاطمہ نے ثوبیہ کو کمرے سے نکال دیا۔۔۔
**********♡*******
آج تینوں کا نکاح اور رخصتی تھی علی اور زوجاجہ کا نکاح تو پہلے ہی ہوچکا تھا آج ان کی رخصتی تھی۔۔۔
نکاح کے بعد اجالا ثوبیہ اور فاطمہ اور زوجاجہ کو اپنے شوہر کے پہلوؤں میں بیٹھا دیا تھا۔۔۔
چاروں لال جوڑے میں بےحد حسین لگ رہیں تھیں۔۔۔
علی بھی اپنی ناراضگی بھول کے زوجاجہ کے ساتھ ہلکی پھلکی باتیں کر رہا تھا
ارحم اور ثوبیہ دونوں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ کہتے رہتے۔۔۔
آج فاطمہ کا بے ہوش ہونے کا دن تھا کیونکہ اکڑو خرم آج فاطمہ سے اتنے پیار سے باتیں کر رہا تھا فاطمہ صرف ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی۔۔۔
اجالا ارمان کے پہلو میں بیٹھی ارمان کے شعر و شاعری پہ ہلاک ہلاک مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
تم ساتھ ھوتو مقدر پر حکومت اپنی
بن تیرے زندگی کی اوقات ھی کیا تھی۔۔
ارمان کے شعر پہ اجالا ہلکا سا مسکرا دی۔۔۔
ارمان نے سامنے دیکھا تو راحم تر سی نگاہوں سے چاروں کی جانب دیکھ رہا تھا ۔۔۔
سب راحم کو یوں تر سی نگاہ سے دیکھ کے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔۔۔۔
“ہنس لو ہنس لو جتنا ہنسنا ہے ہنس لو بعد میں یہی چڑیلین تم سب کو رولائیں گی” راحم نے جل بھن کے کہا
ارحم کو یوں ہنستے دیکھ کے راحم کے تن بدن میں آگ لگ گئ۔۔۔
“تو بھی ہنس لے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائ تھی بھول گیا”۔۔
“ہیں تو کیا میری محبوبہ ہے جو تجھ سے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاونگا”
“کمینے اکیلے اکیلے شادی کرلی اپنے بھائ کو پوچھا بھی نہیں ہم تو دنیا میں ہر کام ساتھ کرنے والے تھے نہ”راحم دکھی لہجے میں بولا۔۔۔
“نہ رو میرے بچے اللہ تجھے بھی دے گا فلحال ہمیں اینجوائے کرنے دے” علی آنکھ دبا کے بولا۔۔۔
“تم سب اپنے ننھے منھے سے بچے کو بھول گئے اللہ تم سب کو پوچھے گا”۔۔۔
“خرم بھائ آپ بھی آپ نے اچھا نہیں کیا یہ چوڑیل تو آپکی زندگی اجیرن کر دے گی دو مہینے بعد آپ بھی ان تینوں کی طرح جورو کے غلام بن جائیں گے”
“خرم نے شانے اچکائے”
“میں تو جورو کا غلام بن کے رہونگا” خرم کی بات پہ سب ہنس دیے ۔۔۔
یار تم سب محبت کر کے بیٹھ گئے ہو اور ایک میں ہوں “جس کو ابھی تک اسکی محبت نہیں ملی ہائے جانے کہاں ہوگی میری ہونے والی بیوی”۔۔۔ویسے محبت پہ ایک شعر یاد آیا سناوں کیا۔۔۔
محبت بھی سرکاری نوکری کی طرح ہے
کمبخت غریب کو ملتی ہی نہیں”۔۔۔۔
راحم نے حسرت سے شعر پڑھا
شـــــــاعری اس کے لب پر سجتی ہے
جس کی آنکهوں میں عشق ناچتا ہے۔۔
ارمان نے شعر سنایا۔۔
“ہاں بھی تم تو عاشق ہو ہم میں وہ بات کہاں ۔۔یہ عاشقی کا بھوت چند دن میں ہی اتر جائے گا”
“چل اب اتنی حسرت سے مت دیکھ جا دادو کے پاس جا کے بیٹھ جب تک تیری نہ ہونے والی بیوی نہیں آجاتی تب تک اپنی دکھڑے دادی کو سنا” راحم کی شکل دیکھنے والی ہوگی تھی۔۔
“نہ میرے بچے یوں دل چھوٹا نہیں کرتے اچھا پکاوالا پرومس کل صبح پہلی فرصت میں میں تجھے گڑیا لادونگا تم اس کے ساتھ کھیل لینا”
ارمان شرارت سے بولا۔۔۔۔ارمان کی بات پہ سب ہنس دیے سامنے بڑوں نے بچوں کو یوں ہنستا دیکھ کے دل میں دعا دی اللہ تاعمر
بچوں کو یونہی خوش شاداب و آباد رکھے(آمین)۔۔۔
****************
ختم شدہ