“ماما…..! یہ جو لڑکی آپ کے ساتھ کام کرتی ہے نا… اسے کسی یورپین ملک میں ہونا چاہیے تھا…”
“وہ کیوں….؟”
“ارے ماما…… یقین جانیں……. میں نے ابھی تک کسی لڑکی کو سائیکل کے پیچھے ایسے بیٹھتے نہیں دیکھا سارے لاہور میں ایک یہی واحد لڑکی ہو گی سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والی…”
“تم نے سارا لاہور دیکھ لیا؟” وہ مسکرائیں…
“سارا نہیں دیکھا… جتنا بھی دیکھا ہے… اس میں وہ واحد ہے… شاہراہ قائداعظم جیسی پررونق سڑک پر وہ سائیکل پر بیٹھ کر سفر کرتی ہے… بہت اعتماد ہے اس میں…”
“اعتماد نہیں فرزام! وہ ان باتوں کو معمولی جانتی ہے… اگر وہ پاکستانی معاشرے میں نہ ہوتی تو وہ خود سائیکل چلایا کرتی… بس کی کنڈیکٹر بھی بن جاتی… اسکول بس چلاتی…”
“اسی لیے تو کہا کہ اسے یورپ میں ہونا چاہیے تھا… اتنی لمبی چادر لپیٹ کر وہ پیچھے بیٹھتی ہے’ کسی دن سائیکل میں چادر پھنسی نا’ تو جس سڑک پر وہ گرے گی’ اس پر سے مر کر ہی اٹھے گی…”
“ایسے نہ کہو پاگل…”
“ارے ماما……. محنت سے کام کرنے والوں کے لیے پاکستان بہت سخت ملک ہے… عورتوں کے لیے خاص طور پر… عزت بھی سنبھالو’ کپڑے بھی اور انا بھی… ان معاملات میں پاکستانی عورت دنیا کی دوسری عورتوں سے زیادہ محنتی ہے اور اگر اس عورت کا معاشرہ ذرا سا ساتھ دے تو یہ عورت کہاں سے کہاں جا پہنچے…”
“تمہیں وہ سائیکل پر بیٹھی اچھی نہیں لگتی؟”
“اچھی بری نہیں ماما! بڑا بونا سمجھتا ہوں میں خود کو اس کے سامنے… اس کے سامنے ہی نہیں’ اپنے کاریگر اسلم کے سامنے…… جمال اور اسد کر سامنے…. اس دن افق نے دس بار اسے گھر بھیجا چیزوں کے لیے…. ماما! وہ دس چکر لگا کر آیا… پانچویں چکر میں’ میں نے اسے پیسے دیے کہ رکشہ کر لو اور اس میں سب چیزیں لے آؤ تو بولا فرزام بھائی! آپ کو کتنی عادت ہے پیسے ضائع کرنے کی… ان پیسوں میں ایک کلو سیب آ جائیں گے… انہیں لیں اور کھائیں… میرے پاس وقت بھی ہے اور طاقت بھی….. مجھے انہیں استعمال کرنے دیں… جیسے اس نے دس چکر لگائے ماما! میں اسے دیکھ دیکھ کر تھک گیا… لیکن وہ نہیں
تھکا….. کچھ دن پہلے میں ان کے پریس چلا گیا… اتنی گندی جگہ پر پریس ہے ماما! کہ بتا نہیں سکتا… دو فٹی گلی ہو گی’ جس میں سے گزر کر آگے پریس خانہ تھا اور اتنی بدبو اور گرمی وہاں…. اسد اتنا پیارا لڑکا ہے… نیلی آنکھیں ہیں اس کی… اتنا خوب صورت ہے کہ بتا نہیں سکتا… مجھے بہت ترس آیا… اسے اتنے گندے حلیے میں وہاں دیکھ کر… میں نے جمال سے کہا کہ میں اس کے لیے کسی اور نوکری کا پتا کر دوں تو کہتا ہے ہمارے مالک نے ہمیشہ ہمارے سر پر ہاتھ رکھا ہے… آج کل وہ بیمار ہیں… ان کا کام ہم سنبھال رہے ہیں… ایسے انہیں چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جائیں گے…” وہ بےحد متاثر نظر آ رہا تھا مسز گوہر مسکرا دیں…
“ماما! میں نے آپ کو کبھی بتایا نہیں… لیکن میں اپنی زندگی کے اس طرح بدل جانے پر بہت دکھی تھا… برطانیہ سے نکالے جانے پر……. اس بنا بجلی کے ملک میں رہنے پر…… اور اب میں بہت شرمندہ ہوتا ہوں… کیونکہ لاکھوں سے کم تر ہو کر کروڑوں سے میں بہتر ہی رہا… میں نے زندگی میں کبھی کوئی اصول اور فلسفہ نہیں بنایا… جمال کے پاس اصول ہیں… اسد کے پاس بھی ہیں… ماسٹر جی اور اسلم کے پاس بھی ہیں اور پانی بیچنے والے بچے تک کے پاس اصول ہیں… لیکن میرے پاس نہیں… ماما! جب ہم ایک پرآسائش زندگی گزارتے ہیں نا تو ہم صرف چیزوں کے نام اور انہیں استعمال کرنا ہی سیکھتے ہیں… لیکن جب ہم جدوجہد میں آتے ہیں… مصائب کا شکار ہوتے ہیں نا تو ہی ہمیں اپنے اصل اور نقل کا پتا چلتا ہے… تب ہی ہم تانبے سے سونا بنتے ہیں… یہ ماسٹر جی ہیں… مشین خراب ہو جاتی ہے… گھنٹوں ٹھیک کرتے رہتے ہیں… جبکہ یہ ان کا کام نہیں… پنکھا خراب ہوا… وہ بھی ٹھیک کر دیا… خود ہی جا جا کر پیٹرول لاتے ہیں جنریٹر کا… کبھی نہیں جتایا کہ میں تمہارے اتنے کام کر دیتا ہوں… اسلم کو میں نے اپنی کچھ شرٹس دینی چاہیں تو کہتا ہے… “بھائی جی! کسی ضرورت مند کو دیں… میں تو اچھے خاصے رزق والا ہوں… اگر ایک بار لینے والوں میں سے ہو گیا تو دینے والا کبھی بھی نہیں بن سکوں گا…” ماما! وہ دینے والا بننا چاہتا ہے بتایئے’ مجھے ماما! عظمت کی اور کیا نشانیاں ہوتی ہیں…”
مسز گوہر گود میں رکھے اس کے سر کو پیار سے سہلاتی رہیں…
“اس دن آپ اسٹور جانے لگیں… آپ اپنے کپڑے اور جوتے نکال کر رکھ گئیں… ماما میں نے دیکھا کہ افق نے آپ کی جوتی کو کپڑے سے صاف کر دیا اور ویسے ہی واپس رکھ دی کہ آپ کو معلوم نہ ہو سکے کہ… اس نے صاف کی… میں کچن کی کھڑکی سے اسے دیکھ رہا تھا… مجھے بہت حیرت ہوئی آپ کے جوتے تو کبھی میں نے بھی صاف نہیں کیے…”
“مجھے حیرت نہیں ہوئی… وہ میرا بہت احترام کرتی ہے… میں جانتی ہوں’ وہ ایسی ہی ہے…”
“وہ جیسی بھی ہے… ایسے بنے بنائے تو پیدا نہیں ہوتے نا؟ ایسا تو خود کو بنانا پڑتا ہے… اب آپ مجھے بتایئے کہ کیا میں کچھ کچھ ان سب کے قریب کا ہو سکتا ہوں؟”
“میرا بیٹا بہت پیارا ہے…” انہوں نے اس کی پیشانی پر پیار کیا…
فرزام نے کالج میں بی ایس سی کرنے کے لیے ایڈمیشن لے لیا… اس کے پاس اب اتنا وقت ہوتا تھا کہ وہ کالج جا
سکے… آمدنی بھی اچھی ہو گئی تھی… کالج سے آ کر وہ آرڈرز کے لیے چلا جاتا… دوسرا لڑکا ان آرڈرز کو سپلائی کر دیتا… باقی لوگوں سے مسز گوہر فون پر رابطہ کر لیتیں یا خود چلی جاتیں… اب ان کے پاس چار کاریگر اور تین ماسٹر جی ہو گئے تھے… بہت سی بڑی دکانوں والے انہیں گھر کے آفس میں آ کر مل لیتے تھے… وہیں سب حساب کتاب ہو جاتا تھا… لڑکیوں کے لیے کپڑے کے بنے پاؤچ کا کام بھابھی کے سپرد تھا… یہ ان کے لیے کپڑوں میں مفت کا آئٹم تھا’ جو انہوں نے شامل کیا تھا… اس آئٹم کے شامل کرنے سے ان کے کپڑوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تھا… چھوٹی بچیوں کو ہینڈ بیگ اور پرس کا بہت شوق ہوتا ہے تو اس سے کپڑے کی فروخت میں واضح فرق آیا… کپڑے کے یہ پاؤچ کسی وقت میں افق اور بھابھی نے درجنوں کے حساب سے بنائے تھے… یہ پاؤچ دلہنوں کے لیے بنوائے جاتے تھے… اس نے مسز گوہر کو بچیوں کے لیے چھوٹے سائز میں بنانے کا مشورہ دیا’ جو انہیں اچھا لگا اور ان کا آئیڈیا مقبول ہو
گیا… یہ آئیڈیا فارن آرڈرز کے ساتھ زیادہ مقبول ہوا… انہیں تھیم بتائی جاتی اور ایک سے پاؤچ بنوائے جاتے… ان کا یہ آئٹم ریڈی میڈ کپڑوں کے ساتھ مفت تھا… لیکن جب انہیں تھیم بتائی جانے لگی تو اس کا معاوضہ بھی دیا جانے لگا… ان کی پسند کے عین مطابق…
“یہ کام بننے کا وقت ہے…” مسز گوہر بہت خوش تھیں…
“کیا مطلب؟”
“انسان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سب کچھ بگڑتا ہی چلا جاتا ہے… لاکھ کوشش پر بھی…… اس وقت کے اثرات ہی کچھ ایسے ہوتے ہیں….. اور ایسے ہی ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سب کچھ سنورتا چلا جاتا ہے… ہر بگڑی بات بننے لگتی ہے….. تو یہ وقت کام بننے کا ہے… ہمیں اور آئیڈیاز پر کام کرنا چاہیے…”
“مثلاً……؟” اس نے پوچھا…
“تم بھی سوچو افق! کیا ہونا چاہیے…”
“میں تو ایک عرصے سے سیل کا سوچ رہی ہوں…”
“سیل کا…….”
“جی….. ہم ایک ہی قیمت پر کپڑے تیار کرتے ہیں… منافع رکھ کر سیل لگا لیتے ہیں…”
وہ سوچنے لگیں… “اس کے لیے الگ سے تیاری کرنی ہو گی… جگہ بھی ڈھونڈنی ہو گی… فرزام سے کہتی ہوں’ معلومات کرے… اگر کسی بڑے ایونٹ میں اسٹال مل جائیں تو بہت زبردست رہے گا… اس سے ہمیں بہت فائدہ ہو گا…”
“جی ہاں!”
“افق! پھر تم کچھ ڈیزائن ریڈی کرو… کچھ پرانے پرنٹ نکالو… ان میں تھوڑا بہت ایڈ کرو… دیکھتے ہیں ان کا کیا’ کیا بن سکتا ہے…”
افق بڑی ڈیزائن بک اٹھا لائی… اس میں ان کے تیار کردہ ڈیزائن نمونے موجود تھے…
فرزام کو سیل کے بارے میں بتا کر وہ سب اس کے لیے تیاری کرنے لگے… فرزام نے ایک اسٹال صنعتی نمائش میں بک کروا لیا… نمائش دس روزہ تھی اور اب یہ انہیں پہلے دن کے بعد معلوم ہونا تھا کہ انہیں کس قدر اسٹاک ریڈی رکھنا چاہیے… لیکن اس وقت وہ اسٹاک ریڈی کر نہیں سکتے تھے… اب وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ اتنا کم ہو کہ انہیں منافع ہی نہ ہو اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ فروخت نہ ہونے کی صورت میں الٹا انہیں نقصان ہی ہو جائے…
لیکن شاید مسز گوہر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہ وقت کام بننے کا ہے’ تو ان کا کام بن گیا… دس روز رات دن ان کے اسٹال پر رش رہا… ابتدائی چار دنوں میں ہی انہیں مٹیریل کی قیمت وصول ہو گئی… اگلے دو دنوں کے منافع سے اسٹال بکنگ کے لیے ادا کئے گئے پیسے پورے ہو گئے اور باقی کے چار دن کا منافع ان کی جیب میں آیا… دس دنوں میں اسٹال کے لیے سب نے کام کیا… فرزام’ اسلم’ جمال سب سامان لائے… اسٹال کو ڈیکوریٹ کرتے… مسز گوہر بھی وہیں موجود رہتیں… اسلم اور فرزام نے سیلز مینی کی… افق گھر میں ہوتی اور ترتیب سے ہر دن کا سامان الگ کر کے پیک کرتی…
سیل کامیاب ترین رہی… ساتھ انہوں نے پمفلٹ بھی بانٹ دیے… جس میں ان کے فون نمبرز اور ایڈریس تھا… ایسے کپڑوں کی خریداری کے لیے ان سے کبھی بھی رابطہ کیا جا سکتا تھا… گاہے بگاہے عورتیں ان کے پاس خریداری کے لیے آ جاتیں… کچھ آرڈر دے جاتیں… فون پر رابطے رہتے… انہیں مستقل کلائنٹس مل گئے…
مسز گوہر نے کاریگروں کے بڑے کمرے میں اے سی لگوا
دیا…
یہ پہلا اے سی تھا’ جو ان کے گھر لگا… فرزام کا خیال تھا کہ یہ کاریگروں کے کمرے میں ہی لگنا چاہیے… پہلے وہ سب اپنا دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے تھے… اب مسز گوہر نے ایک کام والی رکھ لی تھی… اوپر کی صفائی وہ کرتی تھیں اور کاریگروں کے جانے کے بعد فرزام نیچے کا حصہ صاف کر دیتا تھا… اب کام والی نیچے کی صفائی بھی کر دیتی اور ان سب کے لیے دوپہر کا کھانا بھی پکاتی…
سب کاریگر ماہر ہو چکے تھے… ایک بار بتانے سے ہی بات سمجھ جاتے… ان کے کام میں غلطیاں کم ہونے لگیں… اب ہر وقت ان کے سر پر بیٹھے کی ضرورت نہیں رہی تھی… مٹیریل کے لیے بھی کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا تھا… اسلم سب سمجھ گیا تھا… وہ اور فرزام جاتے اور مٹیریل لے
آتے… کبھی کبھی افق اور مسز گوہر اسلم کو لے کر چلی جاتیں… آئے دن مارکیٹ میں نئی سے نئی چیز موجود
ہوتی… وہ پھر وہیں طے کر لیتیں کہ کون سی نئی چیز شامل کرنی ہے اور کتنی… مسز گوہر کے تیار کیے گئے ملبوسات میں ایک ہی بات تھی… جسے خاص پسند کیا جاتا تھا… وہ تھی نفاست… وہ بچیوں کے ملبوسات کو ان کی عمر کے مطابق ہی نفیس اور نازک سا تیار کرتی تھیں اور بقول ان کے ریگولر کسٹمرز’ ان کے کپڑوں میں بچیاں بہت آرام محسوس کرتی ہیں… کپڑے سنبھالنے میں انہیں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہوتا…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...