“دیکھو! تم میرے لیے کس قدر حقیر ہو… اگر تم اس حال تک نہ پہنچتے… اگر تم اس دنیا کے بادشاہ ہوتے تو بھی افق پلٹ کر تمہیں نہ دیکھتی… تمہیں تمہاری اوقات معلوم ہوئی؟” افق جم کر اس کے سامنے کھڑی تھی… عدن کو واقعی اپنی اوقات ٹھیک ٹھاک معلوم ہو گئی تھی…
“فرزام کی نظروں میں مجھے تمہاری اوقات معلوم ہو گئی ہے…” ہمت کر کے آواز کو مضبوط بنا کر عدن نے کہہ دیا… جبکہ وہ ایسے گرنے والا تھا… جیسے گھن کھایا زینہ… جو ذرا سے دباؤ سے دھڑام سے چرمرا کر گر پڑتا ہے… اسے کچھ بھی نہ ملا اور وہ گھن کھایا کھڑا رہا…
“تمہارا نام ان ناموں میں لکھا ہی نہیں گیا… جن پر محبتیں واجب ہوتی ہیں… اس حقیقت کو جان جاؤ…” وہ بددعا دے رہی تھی یا سزا سنا رہی تھی… اس نے یہ سب کیسے جان لیا تھا… جیل جانے کے بعد سے وہ بار بار رو پڑتا تھا… اس سے پہلے زندگی میں یہ نوبت کبھی نہیں آئی تھی اس
پر….. یہ بات سن کر اسے رونا آیا… اس پر مہینوں روا رکھے جانے والے تشدد سے زیادہ اسے اس وقت صحیح سلامت کھڑے ہو کر آیا…
“مجھ پر محبت واجب نہیں ہوئی….؟ بھول گئیں’ کیسے تم سے محبت کرتا تھا….؟”
“مجھے یاد ہے’ کیسے تم مجھے چھوڑ گئے اور کس لیے چھوڑ گئے… میں تو تمہاری شکر گزار ہوں… کاش! کہ تم جان سکتے کہ میں نے نصیحت کے بعد انعام ملنے پر کیسے شکر ادا کیا… تم وہ نصیحت تھے’ جو مجھے وقت نے دی… اور فرزام وہ انعام ہے’ جو مجھے خدا نے دیا… تم وہ آزمائش تھے’ جو زندگی میں ہر انسان کو ایک بار تو بھگتنی ہی پڑتی ہے… وہ آزمائشیں جو دھل دھلا کر انسان کا اصل اس کے سامنے لے آتی ہیں… فرزام کا دل دکھا کر میں خدا کی ناشکری کیسے کروں….. ابھی تو فرزام کے ملنے پر اس کا شکر ہی ادا نہیں کر سکی…” اتنی مضبوط آواز افق کی… اتنا کھرا انداز اس کا…
“فرزام تمہیں چھوڑ گیا ہے افق… اس صدمے سے باہر آ
جاؤ…” وہی عدن کا شہہ پر مات دینے والا انداز…
“افق تمہیں دھتکار رہی ہے… اسے اپنی پیشانی پر کند کرا لو…” اس نے عدن کی بچھائی بساط ہی الٹ دی…
“جب جب اپنی شکل دیکھو… تمہیں یہ دکھائی دینا
چاہیے…”
“مجھے تم دکھائی دیتی ہو افق… ایسی باتیں تو تم کرتی تھیں… اب میں کر رہا ہوں… مجھ میں تم سما گئی ہو… میں سانس کیسے لوں افق… میری سانسیں تم سے جڑ گئی ہیں…”
اس نے بڑھ کر افق کا ہاتھ تھامنا چاہا… افق دو قدم پیچھے ہوئی… وہ اس سے ڈر نہیں رہی تھی… بھاگ تو اب قطعاً نہیں رہی تھی… وہ اب اس سے نہیں بھاگے گی… یہ ڈر کر بھاگنے کا ہی انجام تھا…
پانی آئے تو اونچائی پر چڑھ کر جان بچانی چاہیے… عذاب آئے تو سجدے میں جھک کر…… انسان وبال بن کر آئے تو سامنے سے ڈٹ کر……
“میں اسے تمہاری اور اپنی ساری باتیں بتا آیا ہوں… تم کتنی بار میرے ساتھ اکیلی نکلیں… کیسے تم دیوانہ وار مجھ سے محبت کرتی تھیں… ساری خاص باتیں بتا کر آیا ہوں اسے افق….. آخر کو وہ بھی ایک انسان ہی ہے نا…. کتنا بھی اچھا ہو گا’ فرشتہ نہیں ہو گا… وہ تمہاری زندگی میں اب کبھی واپس نہیں آئے گا… تمہاری قسمت میں’ میں لکھا گیا ہوں…”
اس کے ردعمل پر وہ چڑ گیا… ورنہ یہ سب نہ کہتا… افق نے اپنے تاثرات بمشکل دبائے… جن میں پہلا تاثر غیظ و غضب کا تھا…
“مجھ سے متعلق مشورہ لینے وہ تمہارے پاس نہیں آئے
گا…”
“اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایسے چلا نہ جاتا… اپنی بیوی کو میرے ساتھ چھوڑ کر…. وہ تمہیں چھوڑ چکا ہے…”
“اگر وہ مجھے چھوڑتا تو خود یہیں رہتا اور مجھے تمہارے ساتھ چلتا کرتا…..”
“تم بہت خوش فہم ہو افق…”
“تھی….. جب تک “امان” نامی آزمائش میں مبتلا رہی… فرزام میرے لیے کوئی جنگلی جھاڑی نہیں… جسے اکھاڑا اور زمین کسی اور بیل بوٹے کے لیے تیار کر لی… تمہاری بھول ہے… اگر ایسا کچھ ہوا بھی’ تو بھی وہ میرا ہی ہو
گا… کیونکہ میں اسے اپنا ہی رہنے دوں گی…”
اس آخری بات سے عدن کو بہت تکلیف ہوئی اس کا جی چاہا کہ زوردار تھپڑ افق کے گال پر مارے…
“تم سو سال بھی میری راہ میں کھڑے رہے….. تو بھی تمہیں میری ایک نظر نہیں ملے گی…. تم افق کو پلٹ کر خود کو دیکھتا نہیں پاؤ گے…”
کیا ہوا’ اگر وہ اس مجسم حور کو گھسیٹے اور اپنے ساتھ لے جائے… کاش! وہ پاکستان میں ہوتا…. کاش! وہ نام نہاد دہشت گرد نہ ہوتا…
“تم افق کو پلٹ کر خود کو دیکھتا نہیں پاؤ گے…” اس کے اندر باہر سائیں سائیں ہونے لگی…
ایک نے اس سے محبت کی تھی…. ایک سے اس نے شادی کی تھی…
افق کو چھوڑ دیا تھا…. ماریہ نے چھوڑ دیا تھا…
ایک کو دھتکارتا تھا… ایک دھتکار رہی تھی…
افق نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا… وہ ضرور رخ موڑے اسے دیکھ رہا تھا… اس کی چال میں تھکن اور دکھ ضرور تھا… لیکن اس کی سمت سیدھی تھی… اس کا اٹل انداز بتا رہا تھا کہ وہ کب تک بنا رکے چل سکتی تھی… وہ تاعمر بنا رکے چل سکتی تھی…
عدن وہیں کھڑا رہ گیا… افق اپنے پیچھے وہ اندھیرے سمیٹ لائی… جو آج ہی کی رات خاص بوسٹن پر اترے
تھے… اس نے خوف زدہ ہو کر سب ہی بتیاں روشن کر دیں… اندھیرا پھر بھی پھیلتا ہی جا رہا تھا…
اس نے چاہا’ بھاگ کر جہاں بھر کی روشنی لے آئے… فرزام لے آئے… باہر نکلے اور حلق پھاڑ پھاڑ کر فرزام کو آوازیں دے… وہ اس کی پہلی آواز پر نہ پلٹے تو آخری آواز پر ہی پلٹ آئے… وہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دے… اسے بچائے بھی نا…… اسے مر جانے دے….. لیکن اسے چھوڑ کر نہ جائے…
“میرا دل چاہتا ہے’ میں تمہی دریا میں پھینک دوں…”
“مجھے….؟” اسے سن کر بھی یقین نہیں آیا…
“ہاں! تمہیں ہی یار….. تمہیں بہانے سے’ اب سے نظر بچا کر کنارے سے دھکا دے دوں… پھر جھٹ جیکٹ اتار کر خود بھی کود جاؤں اور تمہیں بچا لاؤں…”
“سب سن کر بھی مجھے یقین نہیں آ رہا…”
“سنو….” تمہیں اوپر لے جاؤں اور دھکا دے دوں شڑاپ….. تم پھر گئیں پانی میں…. میں بھی کودا پانی میں اور پھر سے تمہیں بچا کر اوپر لے آؤں گا… میں ہیرو بن جاؤں گا…”
“ہیرو…..بننے کے لیے؟”
“ہاں! میں بار بار تمہارا ہیرو بننا چاہتا ہوں…”
وہ اس بات پر دنوں ہسنی….. اور خوشی سے اسے کئی راتیں نیند نہ آئی… وہ ذہن میں اپنے دریا میں گرنے کی اور فرزام کے ہاتھوں بچائے جانے کی فلم چلاتی رہی….. ہر بار اس فلم کو چلاتے اسے بہت اچھا لگتا… ہر بار اسے اس فلم کے ہیرو پر انوکھے انداز میں پیار آتا…
محبت ان پر بہت سے الگ الگ لمحوں میں وارد ہوئی تھی… جیسے اوس….بارش کی طرح نہیں برستی…. نظر بھی نہیں آتی… لیکن گیلا کر دیتی ہے… نرمی سے… محبت کے لیے گائے گئے لوک گیتوں کی طرح بھی… جو ان گنت پتیاں رکھنے والے پھول کی طرح الگ الگ جدا ہوئے… لیکن لے اور ردھم ایک ہی رکھتے ہیں…
اگر وہ دریا میں کود جائے تو کیا وہ کہیں سے بھی آ جائے گا…
“ہاں….” افق جانتی تھی… ایسا جاننا’ جس کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا… جس یقین کے پیچھے ہی شک چلا آتا ہے…
“میں تمہیں بہت یاد کرتا رہا…” ایک دن وہ اسے ہر دو منٹ کے بعد فون کر کے کہتا رہا…
“بارش ہو رہی ہے… بہت بدصورت سی بارش ہے… مجھے تو اچھی نہیں لگ رہی… ہوا ایسے چل رہی ہے کہ دل بیٹھا جا رہا ہے… جانے کیوں…. اور پھول’ ہاں صرف پھول ہی پیارے لگ رہے ہیں… لگتا ہے سارے امریکی گھروں سے باہر نکل آئے ہیں… دیکھو! مجھے چلنے کے لیے جگہ نہیں مل رہی… اف! یہ امریکی….. اف! یہ لڑے لڑکیاں….. اف افق….. ہاں! میں بھیگ رہا ہوں….. نہیں! میں آئس کریم نہیں کھاؤں گا… نہیں بیٹھنا مجھے کہیں… مجھے یہ سب نہیں چاہیے اپنا نام تو تم لے نہیں رہیں… میں بھی نہیں لوں گا… نہیں! مجھے اب افق نہیں چاہیے’ وہ دیکھو ذرا….. ایک گندی سی لڑکی نے مجھ جیسے معصوم سے لڑکے پر کولڈ کافی انڈیل دی ہے… وہ اب اسے نہیں چھوڑے گا… وہ اس کا گلا دبا دے گا… اسے اس کا گلا دبا دینا چاہیے… میں تمہارا گلا دبا دوں گا افق…. یاد رکھنا…”
ہولے ہولے الہام کی سی صورت لیے محبت ان پر اترتی
رہی… وہ دونوں ایک دوسرے میں مقید ہونے لگے…
وہ اسے فون کر رہی تھی… لیکن اس کا فون بند تھا… اس کے بیڈ روم کی کھڑکی کے ساتھ وہ ٹک کر کھڑی ہو گئی… جس راستے سے اسے آنا تھا’ اس پر نظریں گاڑے……
واقعات تیزی سے رونما ہوئے تھے… لیکن اس سے کیا فرق پڑتا تھا… محبت کا جو معجزہ رونما ہو چکا تھا… وہ اپنا اثر رکھتا تھا… اسے یقین تھا’ فرزام ضرور آئے گا… ایسا یقین جو خود کو خود ہی کروایا جاتا ہے… جو پانی پر بنے بلبلے سا ہوتا ہے… اس کے پاس یقین کے کئی دھاگے تھے… وقت ہی ثابت کرنے والا تھا کہ کون سا دھاگہ کتنا مضبوط ہے اور ٹوٹ جانے کے لیے کتنا نازک…..
وہ بہت زیادہ رونا چاہتی تھی… ہر وہ حربہ آزمانا چاہتی تھی… جس سے اس کی زندگی میں فرزام کے ہونے پر آنچ نہ آئے…
جب وہ امریکا آ رہی تھی تو اماں نے کہا… “میری بیٹی بہت خوش قسمت ہے…”
“امریکا جا رہی ہوں اس لیے؟” وہ مسکرائی…
“تم فرزام کے پاس جا رہی ہو’ اس لیے….”
اس نے اپنے ویزے کے لیے بہت دعائیں کی تھیں… دو بار اس کے ویزے پر مختلف اعتراضات لگ چکے تھے اور دونوں بار وہ کئی گھنٹے روتی رہی تھی… اس نے فرزام کو نہیں بتایا تھا کہ وہ روتی رہی ہے… اس مے یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ یہاں آنے کے لیے اس سے پیکنگ نہیں ہو پا رہی تھی….. چیزیں پھسل پھسل کر اس کے ہاتھوں سے گر جاتی تھیں… اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ فرزام کے پاس آخر کار جا رہی ہے… آخر کار اس کے عین سامنے بیٹھ کر اسے دیکھ سکے گی… اسے سن سکے گی… جہاز میں بیٹھنے تک اسے یقین نہیں تھا… اسے ڈر تھا کہ جہاز کریش ہو جائے گا… وہ مر جائے گی اور آخر کار وہ کبھی بھی فرزام سے نہیں مل سکے گی… بوسٹن ایرپورٹ پر اس کے کاغذات رد کر دیے جائیں گے… ان پر کوئی نیا اعتراض اٹھے گا… اسے وہم تھا کہ اس کے اور فرزام کے درمیان ضرور کوئی آئے گا… وہ عدن ہو گا’ اسے گمان تک نہ تھا… اس طرح آئے گا’ اسے خیال تک نہ تھا…
“فرزام…..” اس نے سسکی سی سرگوشی کی اور پھر وہ سسکتی سرگوشیاں کرتی رہی…
……… ……………… ………
ایک غیر معروف علاقے… ایک غیر معروف سڑک کے کنارے سے ذرا آگے وہ ایک ڈھلان نما جگہ پر دونوں گھٹنوں پر بازو ٹکائے بیٹھا تھا…
“فرزام…..”
آبادی کے نشانات ذرا دور ہی معدوم ہو جاتے تھے… وقفے وقفے سے سڑک پر سے کوئی نہ کوئی گاڑی معمول کی رفتار سے گزر جاتی تو زندگی کے شواہد زندہ ہو جاتے…
یہاں بیٹھنے سے پہلے اس نے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھانے کی کوشش کی تھی… “افق جائے بھاڑ میں” سوچ کر…
اس سے کھانا نہیں کھایا گیا تھا… اس نے کافی پینے کی کوشش کی اور کافی ٹھنڈی ہوتی رہی…
وہ ایک بار میں بھی گیا… وہ خود سے بے خود ہو جانا چاہتا تھا… اس کا دماغ سوچے جا رہا تھا….. سوچے جا رہا تھا…. وہ اسے سلا دینا چاہتا تھا… جو اس سے ہزاروں طرح کے سوال کر رہی تھی… اسے اکسا رہی تھی… بہلا رہی تھی… تکلیف دے رہی تھی… اتنے سارے سوال جو اس کے اندر اٹھ رہے تھے… اس کے پاس ان سب کا جواب نہیں تھا…
آرڈر دے کر وہ اٹھ گیا… واش روم جا کر وہ بلاوجہ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے لگا… اسے معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اسے کرنا کیا ہے… وہ کر کیا رہا ہے… کل اس کی زندگی کچھ اور تھی… آج کچھ اور تھی… کل تک ہی جو تھی’ وہی زندگی تھی…
اسے افق پر غصہ تھا… وہ اس پر بےحد ناراض تھا… اس کی شوخی جاتی رہی تھی… وہ بدتمیز کی حد تک بدمزاج ہو گیا تھا… یہی تجویز کردہ سزا تھی… اس کی طرف سے افق کے لیے…… وہ بددل بھی ہوا تھا اور افق کو ایک تھپڑ بھی مارنا چاہتا تھا….. اور یہ سب بس یہاں تک ہی تھا… وہ افق کو نکال باہر نہیں کرنا چاہتا تھا…
“بیوی وہ تمہاری ہو گی… محبوبہ وہ میری ہے… وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہے…”
ایسے لفظوں کی بازگشت پر وہ اس وقت گھر سے باہر نہ ہوتا تو کہاں ہوتا…
“میں اس کی جان ہوں… مجھے یقین ہے اتنے سال اس نے میری گمشدگی کا سوگ ہی منایا ہو گا… اس جیسی لڑکیاں محبت کے نام پر کھیل نہیں کھیلتیں….. یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں’ جو محبت کے نام پر جو پودا لگاتی ہیں اسی کے نیچے اپنی قبر بناتی ہیں…”
فرزام نے اپنا سر تھام لیا… وہ بار بار اپنا ذہن جھٹک رہا
تھا… وہ افق کو سوچنا نہیں چاہتا تھا… وہ کسی پرسکون جگہ پر جا کر اپنے ذہن کو سلا دینا چاہتا تھا… اسے خیال سا آیا…… زندگی صرف دو دن پیچھے چلی جائے تو وہ افق کو لے کر کہیں چلا جائے… اس نے اس انسان کی یہ سب باتیں نہ سمی ہوتیں… جو اب اس کے ہر یقین کو بےیقین کر رہی تھیں…
وہ افق کو جانتا تھا… اس جاننے کو وہ اب بھول رہا تھا… وہ افق سے محبت کرتا ہے… اس میں شک نہیں تھا… وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے… اس پر اس کا یقین کھو گیا تھا…
اسے عدن کی کہی باتیں سچ لگ رہی تھیں… وہ بکواس کر گیا تھا… وہ مکار ہے… وہ افق کا امان ہے… وہ انہیں برباد کرنا چاہتا ہے… وہ تو صرف حقیقت بیان کر گیا… وہ افق کو چاہتا ہے… وہ افق کی ترجمانی کر گیا ہے… وہ……
پہلے کو رد کرتے….. دوسرے سے سر اٹھاتے خیالات اس کے اندر جنگ کی حالت میں تھے… اس کی عقل عروج و زوال کے ہنڈولے میں جھول رہی تھی…
رومی گئی تو وہ روتا رہا تھا… کئی بار اس کا جی چاہا’ اسے فون کرے اور اسے بتائے “کہ ایسے آ کر چلے جانے سے….. ایسے اپنا کر چھوڑ دینے سے کیا کیا ہوتا ہے…”
لیکن اس نے ایسا نہیں کہا… وہ رومی کی محبت کو رومی سی محبت کو دوبارہ زندگی میں لانا نہیں چاہتا تھا…
افق جا رہی ہے تو اس کی جان کیوں نکل رہی ہے… اب وہ روئے گا نہیں… اب وہ مر جائے گا… کیا نیا ہو گا…. جانے کتنے’ چلتے پھرتے اپنی لاش لیے پھرتے ہیں…
So good bye
Please! dont cry
(اچھا تو پھر الوداع…. دیکھو رونا نہیں)
اسے یہ ساعت منحوس لگی Houston Whitney کے اس الوداع کا یاد آنا منحوس سا لگا……
تو کیا وہ افق کو الوداع کہہ آیا ہے؟ کیا محبتوں میں ایسے الوداع کہہ دینا جائز ہے؟
“I will always love you”
اس نے افق کا ہاتھ اپنے شانے پر رکھا…
سائمن کی نیو ایر پارٹی میں Whitney کے انسٹرومینٹل (Instrumental) عشق کو بہت سوں نے زندہ جاوید کیا… وہ مبہوت دیکھتا رہا… اس سے پہلے اسے معلوم نہیں تھا… محبت رقص کی کیفیت میں ایسے بھی فسوں جگاتی ہے… دراصل جس دل کے اندر محبت در آنے لگی ہو’ اسے ہر چیز رقصاں نظر آتی ہے…
If i should stay
I would only be
in your way…..
“تم مجھے گرا دو گی…. کاش! تم کبھی ایک کام تو میری خوشی کے لیے کر سکو…..”
اس نے اس کی کمر میں بازو حمائل کیے… اور اس کے رنگ بدلتے حسن کو دیکھنے لگا…
وہ اپنی جگہ سے جنبش بھی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی… وہ کر ہی نہیں سکتی تھی… وہ وہی شہزادی تھی نا’ جو سب سے چھپ کر اپنے شہزادے کے لیے میٹھے میٹھے گیت گاتی ہے’ بالکنی میں کھڑی ہوتی ہے’ چاند کو دیکھتی ہے اور جنگل میں نکل جاتی ہے….. اپنی بہترین پوشاک میں
ملبوس….. سارا ہار سنگھار کیے…. میٹھی آواز میں ترنم سے اسے بلاتی ہے… اسے ڈھونڈتی ہے اور جب اس کا محبوب آجاتا ہے تو چھپنے کے لیے جگہ تلاش کرتی ہے اور اگر وہ اس کے بالوں کی ایک لٹ کو ہی چھو لیتا ہے تو کانپ کر بھاگ جاتی ہے… اور پھر رات بھر مسکراتی رہتی ہے…
“ایسے ایسے کرنے میں تمہارا کیا جاتا ہے افق؟” وہ اسے دکھا رہا تھا کہ وہ صرف مذاقاً ہی یہ سب کر رہا تھا جبکہ وہ بےحد سنجیدہ تھا…
“میں انگریز نہیں ہوں…مجھے ڈانس نہیں آتا…” شہزادی ڈر گئی…
“انگریز ہونے سے رقص نہیں آتا…. محبت ہو جانے سے آتا
ہے… کیا تم نے دیوانوں کو رقص کی کیفیت میں نہیں دیکھا…” وہ اسے کیسے سمجھاتا کہ عشق میں جھوم جانے کی کس کیفیت میں وہ تھا…
So i’ll go but i know
I’ll think of you every step
(اور میں چلا ہی جاؤں گا…. اور ہمیشہ ہر موڑ پر تمہیں ہی سوچوں گا)
وہ بیٹھا تھا… وہ افق کی طرف نہیں جا رہا تھا…
So good bye
Good bye
(اچھا تو پھر الوداع….. الوداع)
اس سب کا حساب کرنے میں کہ ان کی زندگیوں میں یہ سب کیا ہو گیا…بہت وقت نہیں’ بہت حوصلہ چاہیے تھا… اس میں یہ حوصلہ ابھی نہیں تھا…
گمنام سی سڑک کے کنارے بیٹھے “افق’ عدن سے محبت کرتی ہے؟” سوچ آتے ہی اس کا جی چاہا’ کسی کار کے سامنے آ جائے یا خود کو نوچ ڈالے…
لیکن کیوں؟ جب بات ہی ختم ہو گئی… وہ افق کو چھوڑ دے گا…بس اب ٹھیک…..
سر کو تھام کر وہ اس “سب ٹھیک” کو لے کر بیٹھا کیوں
ہے… کسی آرام دہ جگہ پر جا کر آرام کیوں نہیں کرتا….. جہاں وہ بیٹھا تھا’ وہ جگہ کھسک رہی تھی… وہ جانتا تھا’ وہ جہاں جہاں افق کو خود میں سے جھٹک کر کھڑا ہو گا’ زمین اس کے وجود کے نیچے سے کھسکے گی… افق نہ رہی تو اس کے پاس کیا رہے گا؟ اس نے اپنی آنکھیں مسلیں…
افق نے اسے ایک شلوار سوٹ خود ڈیزائن کر کے بھیجا تھا… صرف خاص اس کے لیے… جس کے ساتھ سیاہ رنگ کی مردانہ شال بھی تھی… جس الماری میں اس نے وہ شلوار سوٹ ہینگ کیا تھا… اسے وہ کھول کر دیکھتا تھا… ایسے ہی آتے جاتے دیکھتا رہتا تھا… پھر اس نے اپنے کمرے میں کیل ٹھونک کر اسے لٹکا لیا احمد کی تھیم پارٹی میں وہ پہن نہ سکا… اس پر کچھ بھی گر سکتا تھا…
ایک ہندوستانی ہم جماعت کی شادی میں پہننے کے لیے اس نے ایک گھنٹہ لگا کر اچھی طرح استری کیا اور پھر اسے خیال آیا کہ روایتی ہندوستانی کھانوں میں سے اگر اس پر کچھ گر گیا تو….. اس داغ کو کون مٹائے گا…. اگر وہ داغ نہ مٹا تو….؟
جمعہ کے دن سوٹ کو پہن کر وہ کمرے میں ہی بیٹھا پڑھتا رہا… جب وہ کافی بنانے کے لیے اٹھا تو واپس اپنے پرانے لباس میں آ گیا… صرف آدھے گھنٹے بعد ہی….
پھر اسے وہ سوٹ کب پہننا چاہیے؟ اس نے یہ سوچنا چھوڑ دیا…. بیڈ کے عین سامنے کی دیوار پر وہ افق کے آنے سے پہلے تک لٹکا رہا… اس پر نظر پڑتے ہی اس کے روم روم میں چراغ جل اٹھتے… وہ اس کے لیے دیپک راگ بن گیا… الہامی محبت اسے مکمل کرتی جا رہی تھی… اپنے احساسات کی مختلف اشکال پر وہ خود ہی فدا ہوتا جا رہا تھا…
کون ہے’ جو محبوب بننا نہیں چاہتا؟
کون ہے’ جو محبوب کو پانا نہیں چاہتا؟
محبت کی دھن سب کو ہی نچا ڈالتی ہے…
اب جو کچھ اس کے اندر جل چکا تھا… وہ بجھا تو وہ مر جائے گا… کیا ابھی بھی شک تھا…. ابھی بھی کوئی شک تھا فرزام کو….؟”
“میں خود چھوڑ دوں گا افق کو…….” وہ بلند آواز سے
بڑبڑایا… تا کہ خود کو پکا کر سکے… اپنی زبان سے اپنے دل کو سنا رہا تھا…
اس نے ٹھیک کہا تھا… اب اگر کسی رشتے’ تعلق سے اسے صدمہ ملا تو وہ اس کی جان لے لے گا… وہ اس کی جان لے رہا تھا…
وہ افق کو چھوڑ دے گا… یعنی اپنی جان دے دے گا…
دو بار اس نے رومی کو وقفے وقفے سے فون کیا تھا… شکریہ ادا کرنے کے لیے… وہ بری طرح سے چڑ گئی…
“معلوم ہے’ تمہاری بیوی بہت خوب صورت ہے…”
“غلط معلوم ہے… خدا نے اسے فرصت سے نہیں بنایا… خدا نے اسے اپنی بےپایاں محبت سے بنایا ہے… یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا… اگر تم مجھے نکال باہر نہ کرتیں… اگر تم سب وہ نہ کرتیں تو میں خدا کا تنا شکرگزار نہ ہو پاتا… اب مجھے معلوم ہو گیا ہے رومی! خدا کی رحمت کسے کہتے ہیں… مجھ ہر وہ افق کے نام سے نازل کی گئی…”
“رحمت کو زحمت بنتے دیر نہیں لگتی…”
“تم بددعا دو تو بھی ایسا نہیں ہو سکتا….. کبھی نہیں….”
“تم خوش گمان رہو تو بھی ایسا ہو سکتا ہے… یی دنیا ہے… یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے…”
“ہوچکا ہے رومی….کاربن کاپی کے بجائے کائنات کے مصور نے مجھے اصل تصویر تھما دی… اس تصویر کا عنوان “افق” ہے… اس تصویر کا خالق خدا ہے… اس تصویر کا مالک فرزام کو بنایا گیا ہے…” وہ خوش ہو رہا تھا…ان گزرے سالوں میں وہ بہت خوش رہا تھا… کپلز ڈانس کے دوران اس نے ایما کو انکار کر دیا…
“میں کسی اور کا انتظار کر رہا ہوں…”
“کس کا…..؟” وہ سمجھی کسی اور ہم جماعت کا….
“ویل…. کوئی بہت ہی خاص….” وہ آگے بڑھ گئی…
“وہ بہت ہی خاص” گیارہ ماہ بعد امریکا آ سکی…
جو دل ہوتا ہے نا’ یہ مکمل وجود سے پرے’ الگ کسی اور ہی مقام پر موجود ہوتا ہے… اسے فرق نہیں پڑتا باقی کے وجود نے کیا فیصلہ کیا ہے… یہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے… اس دل کے مقام پر باقی کا وجود چاہ کر بھی نہیں پہنچ سکتا…
اس نے یاد کرنا چاہا کہ وہ اس سے محبت کرتا بھی ہے یا نہیں… اسے یاد نہیں آ رہا تھا… گہری ہوئی رات میں وہ گہرائی میں ڈوب چکا تھا…
البتہ اسے وہ وقت ضرور یاد آ رہا تھا’ جب وہ ایک پتلا بنی ان کے پاس کام کیا کرتی تھی… ایک ایسا پتلا جسے یہ تو معلوم تھا کہ اسے کام کرنا ہے… لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ خوش کیسے ہونا ہے… ہونا بھی ہے یا نہیں اور….. ہونا بھی کیوں ہے؟
وہ ایک سوالیہ وجود تھی… اسے دیکھتے ہی کئی سوال جاگ اٹھتے…
“وہ اس سے محبت نہیں کرتی…” فرزام کو یقین سا ہوا….. شکوک و شبہات کے پاتال میں وہ پور پور ڈوب چکا تھا… عدن کا زہر اثر دکھا رہا تھا…
ایک گہرا سناٹا پھٹ کر پھیلا… درد کی ایک گہری تیز لہر اس کے وجود میں لہرا کر پھیلی…
خود کشی کرنے والا آخری بار تو سوچتا ہی ہو گا….. آخر یہ موت ہی کیوں؟
مارنے والا نہ جانتا ہو… مرنے والا تو جانتا ہی نا کہ وہ مر رہا ہے…
وہ اٹھ کھڑا ہوا….. بوسٹن میں رہنے والے دو لوگوں پر ایک ہی قیامت جدا جدا مقامات پر ایک ہی انداز سے گزر رہی تھی…
فرزام نے سر کو جھٹکا…. کوشش کر کے بھی وہ دل کو نہ جھٹک سکا… ایسی کوشش بار بار کرنے سے بھی کامیابی نہیں ہوتی… ایسی کوششیں بار بار کرنے کی کوشش بھی تو نہیں کی جاتی نا….
منگنی ٹوٹ جانے پر وہ دس بار رومی کے پاس گیا تھا… محبت کے ٹوٹ جانے پر اسے ہزار بار تو جانا ہی چاہیے…
اس نے کار اسٹارٹ کی…
اسے تاعمر جاتے رہنا چاہیے… ایک محبت کے لیے….. صرف اتنا کرنے میں کیا جاتا ہے؟
……… ……………… ………
عدن اپنے فلیٹ تک جانے کے لیے بس میں بیٹھا تھا… پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے وہ بس میں بیٹھا ہے… اس کا مطلوبہ اسٹاپ آکر گزر چکا ہے… آخری اسٹاپ ہر اسے اترنا ہی پڑا… اسے پھر معلوم ہوا کہ وہ کتنی دور آ چکا ہے… وہ اتنی دور کیسے آ گیا… اسے معلوم کیوں نہ ہوا؟
اسے واپسی کی جلدی نہیں تھی… ایسی جگہ جانے کی… جہاں اس کے سونے کے لیے ایک بستر موجود ہے…
صرف سونے کے لیے ہی گھروں کو کون جاتا ہے؟
وہ چلتا جا رہا ہے… کہیں تو وہ رک ہی جائے گا…
چند دن پہلےوہ بن ٹھن کر ماریہ کے پاس گیا تھا… وہ اس کے باپ کے پاس بھی جانا چاہتا تھا… وہ انہیں دکھانا چاہتا تھا کہ وہ باہر آ چکا ہے… وہ بےقصور ہے… وہ انہیں ذرا سا ڈرا بھی دینا چاہتا تھا کہ اس کے اس طرح جیل جانے پر ان کے ردعمل کو وہ کبھی نہیں بھولے گا… کبھی نہ کبھی انہیں چوٹ ضرور پہنچائے گا…
ماریہ تین چار مزید شادیاں تو کر ہی چکی ہو گی… اسے ایسے دیکھ کر ضرور پچھتائے گی… عدن جیسے قابل ڈاکٹر کو کیوں ہاتھ سے جانے دیا…باہر آ ہی گیا نا….. کیوں طلاق لی… اس کا باپ ضرور ہاتھ ملے گا… نشہ کر کر کے کہیں مر ہی نہ گئی ہو…
اس نے زیرلب گالیاں دیں خالصتا ًوہی گالیاں جو اس پر تشدد کرنے والے دیا کرتے تھے…ان گالیوں کے لائق صرف ماریہ ہی تھی…
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...