تم کیا واپس جا رہے ہو؟؟؟ ویسے میں تو تمہیں بالکل مِس نہیں کروں گی مگر تم مجھے ضرور مِس کرنا اوکے نا۔۔۔ زہرہ کا شاید آج موڈ اچھا تھا یا پھر ہیری کو پیکنگ کرتے دیکھ کر ہو گیا تھا۔ چلو شکر ہے بلا ٹلی۔
اور تمہیں ایسی خوش فہمی کیوں ہے کہ میں تمہیں مِس کروں گا۔ ہیری ابرو اچکاتے ہوۓ بولا۔
وہ کیا ہے نہ ہیری پورٹر۔۔۔۔۔۔۔ زہرہ آگے کو ہو کر رازدرانہ لہجے میں بولی۔
”ہر لڑکی زہرہ خضر نہیں ہوتی“ اسکے لہجے پہ ہیری ٹھٹھک گیا تھا۔
شام کو ہیری ہیڈ کوراٹر کال کر رہا تھا وہ کل کے اپنے پلان کے بارے میں بتا رہا۔ چونکہ وہ چاٸنیز بول رہا تھا سو مطمٸن تھا۔ وہ کال کر کے اٹھا تو زہرہ اسکے سامنے آ گٸ۔
چلو میری ساتھ۔۔۔
مگر کہاں؟؟؟؟
چلو۔۔۔۔
وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ باہر لے آٸ۔
یہ کیا بد تمیزی ہے زہرہ؟؟؟ ہیری غصہ ہوتا ہوا بولا۔
تم کل مقبوضہ وادی میں جا رہے ہو؟؟؟؟ ہاں تو ہیری ناگواری سے بولا ساتھ ہی وہ خود کو کوس بھی رہا تھا کہ کیا ضرورت تھی گھر میں بات کرنے کی۔ وہ کیسے بھول گیا تھا کہ زہرہ کو چاٸنیز آتی ہے۔
تو تم مجھے بھی ساتھ لے کر جاٶگے۔
کس خوشی میں میں تمہیں ساتھ لے کر جاٶں میں وہاں کسی پکنک پر نہیں مشن پر جا رہا ہوں۔ جب زہرہ جان ہی چکی تھی تو پھر ہیری نے بھی بغیر لگی لپٹی اسے سچ بتا دیا۔
یہاں بھی تو تم مشن پر ہی آۓ تھے نہ ورنہ کونسا تمہارے دل میں اپنے ماموں کی محبت جاگ گٸ تھی جو ان سے ملنے آۓ۔
زہرہ ضبط سے بولی۔ وہ اس سے تلخ نہیں ہونا چاہتی تھی تلخ ہونے سے معاملہ بگڑ سکتا تھا اور اسے کبھی لے کر نہ جاتا۔
مگر خوشامد اسے آتی نہیں تھی سو وہ مشکل سے ضبط کر رہی تھی۔
تم کیوں جانا چاہتی ہو وہاں۔
بس مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے مجھے اور کچھ نہیں پتا اور اگر تم کہو گے تو مما بابا انکار نہیں کریں گے۔
دیکھو زہرہ دوسری بات یہ ہے کہ ماموں مشن کے بارے میں جانتے ہیں اور جس طرح کے وہاں حالات ہیں تمہیں کبھی نہیں جانے دیں گے اور ہم بھی بارڈر سے جا رہے ایرپورٹ سے نہیں۔ ہیری سمجھاتے ہوۓ بول رہا تھا جبکہ دل تو چاہ رہا تھا ایک رکھ کر لگاۓ اسکو جسے ہر الٹا کام کرنا ہوتا ہے۔
اور پہلی بات کیا ہے؟؟؟ زہرہ نے معصومیت سے پوچھا تو ہیری سر پِیٹ کر رہ گیا۔
پہلی بات یہ ہے کہ خود بھی تمہیں ساتھ لے کر نہیں جانا چاہتا سمجھی۔
ہیری پلیز۔۔۔۔ زہرہ آنکھوں میں آنسو لاتے ہوۓ بولی۔
تو تم نہیں مانو گی؟؟؟ ہیری مانتے ہوۓ بولا۔
میں اپنے انجام کی ذمہ دار خود ہوں گی۔اسے مانتے دیکھ زہرہ جلدی سے بولی جانتی تھی اس نے اگلی بات کیا کرنی ہے۔
اوکے میں پرمیشن لے لوں گا مگر ایک بات کان کھول کر سن لو تم۔۔۔۔۔اگر تم نے کوٸ بھی گڑبڑ کی تو میں تمہیں شوٹ کر دوں گا۔ ہیری بے رحمی سے بولا۔
اوکے منظور ہے زہرہ تو جیسے اسکی ہر بات پہ آج لبیک کہنے والی تھی۔
اںکے تم پیکنگ کر لینا ہم کل صبح نکلیں گے۔
***********************************
ہیری نے ناجانے کیا کیا کہہ کر خضر صاحب اور ماٸدہ بیگم کو منایا۔ زہرہ کو اسکی پرواہ نہیں تھی وہ تو خوش تھی کہ وہ ساتھ جا رہی ہے۔
زہرہ اگلی صبح تیار ہو کر آٸ تو ہیری اسے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
یہ تم کیا بن کر آگٸ ہو۔
زہرہ نے بلیک جینز شرٹ اور بلیک جیکٹ پہنی ہوٸ تھی۔ اور جیکٹ میں چلی اسپرے ٹواۓگن چاقو اور پتا نہیں کیا الا بلا لگایا ہوا تھا۔
اپنی حفاظت کے لیے اب حفاظتی اقدام تو کرنے ہونگے ہی نہ۔
زہرہ اگر تم نے یہی بچوں والی حرکتیں کرنی ہیں تو پلیز گھر میں رہو۔ ہیری پاگل ہوا جا رہا تھا۔ یہ لڑکی اتنے خطرناک مشن کو مذاق سمجھ رہی تھی۔
اور اس بڑے سے بیگ میں کیا ہے دیکھو زہرہ ہم گھومنے نہیں جا رہے تو تمہیں اپنے ساتھ اتنے ڈریسز اور میک اپ کا سامان بالکل نہیں لے کر جانا آخر تم لڑکیوں کو مسٸلہ کیا ہے۔ تم لوگ میک اپ کے بغیر رہ نہیں سکتی ہو کیا۔
مشن کا پہلا اصول ایک دوسرے کو انڈر اسٹیمیٹ بالکل نہیں کرنا۔ زہرہ مزے سے کہتی خضر صاحب کی جانب بڑھ گٸ جو اسے ڈھیروں ہدایات دے رہے تھے۔ ماٸدہ بیگم رونے میں مصروف تھیں۔
اوفو مما اب آپ رو رو کر مجھے روکنے کی کوشش نہ کریں ایک تو اتنی مشکل سے یہ عجوبہ مانا ہے مجھے لے جانے کے لیے۔ اور ماٸدہ بیگم کا ہاتھ اٹھتا اٹھتا رہ گیا۔ زہرہ کبھی نہیں سدھر سکتی تھی۔
منو ماٸ پرنسس زہرہ منورہ کے گلے لگی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اپیا آپ نہیں جاٶ نہ ہم سب بعد میں بابا کے ساتھ جاٸیں گے نہ۔
پلیز منو آپ جیسی بہت سی پرنسز ویٹ کر رہی ہیں کہ کوٸ تو انکی مدد کو آۓ اور میں نے یاد ہے نہ کیا کہا تھا ضروری نہیں کہ ہر دفعہ پرنس ہی جاۓ۔
مگر ہیری برو جا تو رہے ہیں نہ منورہ سوں سوں کرتی بولی۔
پلیز منو مجھے جوکس بالکل نہیں پسند تمہیں یہ کونگفو پانڈہ کہاں سے پرنس چارم لگتا ہے۔
اپیا برو کو کچھ نہیں بولیں۔ منورہ روٹھتے ہوۓ بولی۔
اوکے بابا نہیں بولتی کچھ بھی اور پرنسس آپ نے اپنا بہت خیال رکھنا ہے اور سَیڈ نہیں ہونا اچھا نہ۔ اور جب میں واپس آٶں گی تو میری پرنسس نے مجھے سب سے پہلے سیلوٹ کرنا ہے اوکے نہ۔۔۔۔ زہرہ اسے ہدایات دے رہی تھی۔
اور ایک بات بتاٶں دیکھنا ایک دن بابا کے ساتھ ساتھ یہ ہیری پورٹر بھی مجھے سیلوٹ کرے گا تب پتا چلے گا اسکو دی گریٹ زہرہ خضر کا۔۔۔ ہاۓ سچی مچی کتنا مزہ آۓ گا نہ تب۔
زہرہ اگر باتیں ختم ہو گٸ ہوں تو چلیں ہم لیٹ ہو رہے۔
ہنہہ آیا بڑا۔۔۔۔ زہرہ منہ بناتی باہر نکل آٸ۔
**************************************
وہ لوگ بہت مشکل سے چرواہے کا روپ دھارے چھپتے چھپاتے بارڈر کراس کر گۓ۔ وہ کل سولہ تھے جن کو آنا تھا مگر اب سترہ تھے۔
ہیری کو لگا تھا زہرہ ہار مان جاۓ گی اور واپسی کا کہے گی مگر دو دن گزرنے کے بعد بھی اسکے ماتھے پہ شکن تک نہ آٸ تھی۔
چوتھے دن بالآخر وہ آبادی تک تک پہنچ گۓ تھے۔ اس جگہ پہ حالات کافی نازک تھے۔ ہر طرف جلاٶ گھیراٶ چیخ و پکار مچی ہوٸ تھی۔ بارود کی بُو میں سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ کہ اچانک ہنگامہ شروع ہو گیا بھارتی فوج اور مقامی آبادی کے بیچ جھڑپ ہوٸ تھی۔ بھارتی فوج اب فاٸرنگ کر رہی تھی اور وہ لوگ لوگوں کے ساتھ ہی بھاگتے اب بکھر چکے تھے۔
وہ سب ٹرینڈ آفیسر تھے مگر زہرہ تو بالکل اناڑی تھی وہ گم ہو چکی تھی۔ ہیری کی جان پہ بن آٸ تھی ابھی تو مشن آگے بھی نہ بڑھا تھا کہ زہرہ گم ہو گٸ۔ اسے اس پر غصہ بھی آیا تھا کہ اسے ساتھ رہنے کو کہا تھا ایک تو وہ ہیڈ کوارٹر میں بھی زہرہ کا بتا کر نہیں آیا تھا۔ ظاہر ہے وہ کبھی بھی اسکی اجازت نہ دیتے۔
زہرہ ایک گھر میں داخل ہو چکی تھی۔ گھر والوں کی حالت بہت خراب تھی اتنے دنوں سے فاقہ اور خوف و دہشت نے انکی حالت خراب کر رکھی تھی۔ وہ ایک ہی خاندان کے افراد نہ تھے۔
بھاگ دوڑ میں جس کو جہاں جاۓ پناہ ملتی وہاں آن ٹھہرتا۔ سب کے دکھ سانجھے تھے سبھی اپنے پیاروں کی درد ناک اموات کو دیکھ چکے تھے۔
انکی حالت دیکھ کر زہرہ کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔
اتنا ظلم۔۔۔۔۔ اتنی لاچاری اتنی بے بسی بھوک پیاس ڈر خوف کیا کیا نہ دیکھا تھا اس نے وہاں۔
اس نے فوراً اپنا بیگ کھولا۔ جس میں اس نے کھانے پینے کی چیزیں دواٸیاں اور فرسٹ ایڈ باکسز رکھے ہوۓ تھے۔ بیگ کافی بڑا تھا جس کو اس نے ایک تھیلے کی شکل دی ہوٸ تھی وہ مشکل سل اٹھا پا رہی تھی۔ مگر کچھ کر دکھانے کا جزبہ ہو سب ممکن ہو جاتا ہے۔
اس نے پانی اور کھانے پینے کا سامان نکالا۔ وہ لوگ اسے حیران ہو کر دیکھ رہے تھے۔ وہ تعداد میں آٹ مرد بارہ عورتیں اور چھ بچے تھے۔
آپ فکر مت کریں مارخور وادی میں آچکے ہیں وہ ہر ممکن طور پر آپکی مدد کریں گے۔ پلیز آپ کچھ کھا پی لیں۔
ان لوگوں نے کلمہ شکر ادا کیا اور ضعیفوں اور بچوں کو کھلا پی لیا تو بچوں کے رونے میں کچھ کمی آٸ۔ مگر بڑے انکا رونا تو ویسے ہی جاری تھا ایک عورت زہرہ کو گھر کی پچھلی طرف لے گٸ۔ جہاں ایک گڑھا کھودا گیا تھا۔
اگر تم دو دن پہلے آجاتی تو شاید یہ بچ جاتے۔ عورت روتے ہوۓ بولی۔ زہرہ آگے کو ہوٸ تو خوف سے اسکی آنکھیں پھٹ گٸیں پانچ لوگوں کی لاشیں ساتھ میں چار بچوں کی لاشیں۔۔۔۔
وہ جو جانور کی تکلیف پہ تڑپ اٹھتی تھی آج انسانوں پہ ایسا ظلم ہوتا کیسے سہہ رہی تھی یہ اسکا دل جانتا تھا۔
اس میں۔۔۔۔۔۔
مم میرے شوہر اور بیٹی۔۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ عورت پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
زہرہ کا دل رک سا گیا تھا وہ عورت عدت میں تھی مگر محکوموں مظلوموں کی کیسی عدت۔۔۔۔۔ آہ کیا بے بسی تھی یہ کیسی قیامت تھی یہ۔۔۔۔۔۔
*************************************
زہرہ کو وہاں رکے آج چار دن ہو چکے تھے۔ ان لوگوں نے اس دن جو تھوڑا بہت کھایا تھا تب سے اب تک کچھ نہ کھایا تھا حالانکہ زہرہ نے انکو کھانے کو کہا تھا مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکا کر دیا کہ ایسے بہت لوگ ہیں جنہیں ابھی اسکی ضرورت ہے۔ ہم اب رہ لیں گے کچھ دن۔ یہ کوٸ نہیں جانتا تھا کہ یہ کچھ دن کتنے ہونے والے تھے مگر وہ خود بھوکے رہ کر دوسروں کی فکر میں تھے۔
زہرہ نے خود بھی اتنے دونوں سے کچھ نہ کھایا تھا نہ ہی آنکھ جھپکی تھی۔ وہاں ظلم کی ایسی ہولناک داستانیں تھیں کہ اسے لگا کہ شاید ہی وہ اب کبھی سو پاۓ گی۔
اتنے دنوں بعد آج اسکی آنکھ لگی تھی۔ ابھی آدھ گھنٹا ہی گزرا تھا کہ چیخ و پکار مچ گٸ۔ بھارتی فوج کے غلیظ غنڈے گھر میں داخل ہو گۓ تھے۔ زہرہ کا ہاتھ فوراً سے بیشتر اپنی جیکٹ پہ گیا تھا تھا۔ اس نے واٹر اسپرے گن جس میں ایسڈ ڈالا ہوا تھا ان پر اسپرے کر دیا وہ لوگ کوٸ کارواٸ نہ کر سکے اور تڑپنے لگے شاید انہیں ایسی امید نہیں تھی کیونکہ انہوں نے تو مقامی آبادی کو بالکل مفلوج کر دیا تھا مگر ایسی بہادری تو زہرہ ہی کر سکتی تھی۔ یہ وہ پہلی تکلیف تھی جو زہرہ نے خود کسی انسان کو پہنچائی تھی اور اسے اس پہ کوٸ افسوس نہیں تھا وہ اس سے ذیادہ کے حقدار تھے۔ چار لوگوں پہ اٹیک کوٸ مشکل نہ تھا زہرہ کے لیے اس نے ان پہ ایسڈ ڈال کر تکلیف دینا مشکل نہ تھا اس نے ایک نفرت بھری نظر ڈالی اور بوٹ سے ٹھوکروں پہ رکھ لیا۔ انہیں مار مار کر بھی اسکا غصہ کم نہ ہو رہا تھا وہ جلن سے شور مچا رہے تھے کہ زہرہ نے باقی لوگوں کی مدد سے انکے ہاتھ پیر اور منہ باندھ لیے۔ اب وہ سبھی اپنے پیاروں کا بدلہ لے رہے تھے۔
زہرہ نے خود کو پرسکون کیا اور بیگ اٹھا کر نکل پڑی۔ اسے ور حال م۶ں اپنی ٹیم تک پہنچنا تھا۔ وہ سب تو آپس میں رابطے میں تھے ایک زہرہ ہی تھی جس سے کسی کا بھی رابطہ نہ تھا۔
وہ اس گھر سے نکل آٸ تھی مگر ان لوگوں کو راہ دکھا گٸ تھی لڑاٸ کی نہیں حفاظت کی۔
*********************************
ندا بیگم اور ہارون صاحب پاکستان آۓ تھے وہ ہیری کو سرپراٸز دینا چاہ رہے تھے۔ ویسے بھی جب سے دونوں بہن بھاٸ کا رابطہ پھر سے جڑا رہا ندا بیگم اپنے بھاٸ سے ملنے کے لیے بے قرار تھیں۔
مگر جب یہاں پہنچے تو صورتحال دیکھ کر ندا ب۶گم کی طبیعت خراب ہو گٸ تھی۔ ماٸدہ بیگم انکا پورا پورا خیال رکھ رہی تھیں۔
ہیری سے ذیادہ تو انہیں زہرہ کی فکر تھی۔ ہیری تو چلو فوجی تھا مگر زہرہ۔۔۔۔۔۔۔
خضر تم نے بچی کو بھیجا ہی کیوں وہ اگر ضد کر رہی تھی تو تم ہر طرح سے واقف تھے نہ حالات سے۔
میں جانتا ہوں وادی کے حالات کو بھی اور زہرہ کو بھی۔ وہ کبھی نہ رکتی کیسے بھی چلی جاتی اسلیے میں ہیری کے ساتھ اسکو اللہ کے سپرد کیا۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے میری بچی سے کیا کام لینا ہے۔
ندا بیگم انہیں دیکھ کر رہ گٸیں خضر میں انھیں آج دلاور صاحب نظر آرہے تھے۔ وہ جزبہ وہ لگن دلاور صاحب سے خضر صاحب میں آٸ تھی اور اب وہی لگن انہوں نے زہرہ میں منتقل کی تھی۔
بھاٸ کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ندا بیگم رو پڑی تھیں۔
جب تک میں خود قربان نہ ہو جاٶں جب تک میری نسل رہے گی یہ قربانی چلتی رہے گی۔
تو آپ اسے مکمل ٹریننگ کے بعد بھیجتے۔
وہ ابھی جانا چاہتی تھی قدرت کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔
خضر اپنے کیے فیصلے قدرت پہ مت ڈالو۔ ندا بیگم اٹھ کر چلی گٸ تھیں۔
اور ایک آنسو خضر صاحب کے گال کو چھوتا ہوا بہا تھا۔
اللہ میرے بچوں کی حفاظت کرنا۔
وہ کیسے برداشت کر رہے تھے وہی جانتے تھے۔ ہیری کی ٹیم کے کسی بھی آفیسر سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا وہ لوگ بے بس تھے سواۓ انتظار کے کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔
*********************************
انہیں آج وہاں پندرہ دن ہو چکے تھے۔ ہیری نہیں جانتا تھا کہ زہرہ کس حال میں ہے وہ مشن کے ساتھ ساتھ زہرہ کو بھی ڈھونڈ چکا تھا۔ اس کی ٹیم کے سبھی آفیسر ڈھونڈ رہے تھے۔
ان تک زہرہ کے بارے میں خبر پہنچ رہی تھی مگر زہرہ کی کوٸ خبر نہ تھی۔
اسے ڈھونڈتے ہوۓ وہ کٸ ایسے لوگوں سے ملے تھے جن کے گھر زہرہ رہی تھی۔ اور وہ اس کی مدد اس کے جذبے کا سن کر حیران ہوا تھا وہ یہاں کی صورتحال جاننے اور لوگوں تک مدد پہنچانے آۓ تھے۔
مگر جو زہرہ کر رہی تھی اس پہ اسے فخر ہوا تھا وہ بالکل عام سی چیزوں سے انہیں بچاٶ کا طریقہ سکھا گٸ تھی۔
ان پندرہ دنوں میں زہرہ لگ بھگ چالیس بھارتی غنڈوں کو جہنم واصل کر چکی تھی۔
ہیری کو زہرہ پہ فخر ہوا تھا۔
*******************************
آج اسے یہاں بیس دن ہو چکے تھے۔ زہرہ تو جیسے سب بھول چکی تھی وہ ہمت و حوصلے کے لیے اتنا کھا رہی تھی کہ وہ ان کافروں کو جہنم واصل کر سکے مگر اسکا بیگ اب خالی ہو گیا تھا تین دن سے بھوکی پیاسی تھی ۔ مگر اسے تو جیسے فرق ہی نہ پڑ رہا تھا ایک جنون تھا جو اس پہ سوار ہو گیا تھا۔ وہ نرم گرم بستر من پسند کھانے بے فکری سب بھول چکی تھی۔ پانچ دن پہلے اسکی ایک جھڑپ میں گولی اسے چھوتی ہوٸ گزری تھی۔ اس نے چاقو گرم کر کے اس پہ لگا کر اپنا دوپٹہ باندھ لیا۔ دل میں درد اتنا تھا کہ جسم میں درد محسوس ہی نہ ہوتا تھا۔
وہ وہاں کے لوگوں کے لیے ہیرو تھی مگر اسے اپنا آپ بےکار لگ رہا تھا وہ کتنے ٹھاٹ سے کتنے مزے کی زندگی گزارتی رہی تھی اب تک۔
وہ ایک بند سی گلی کے قریب سے گزر رہی تھی کہ اچانک ایک گولی اسکی ٹانگ میں لگی۔
اس سے اٹھنا محال ہو گیا درد تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ بمشکل خود کی گھسیٹتے ہوۓ ایک دیوار کی آڑ میں ہو گٸ۔
اسے گولی مارنے والا وہاں آیا اور گھسٹنے کے نشان دیکھتا اس تک گیا اس سے پہلے وہ اس دبوچتا ایک چھوٹی سی لڑکی وہاں آ گٸ۔ اس فوجی کا دھیان زہرہ پہ تھا اسے دیکھ کر اسکی رال ٹپک رہی تھی اور زہرہ نے کرب سے اسے دیکھا وہ ہاتھ مار رہی تھی اسپرے ڈھونڈ رہی تھی مگر وہ وہاں نہیں تھا۔ وہ آدمی جیسے ہی اس پر جھکنے لگا اس لڑکی نے اینٹ اٹھا کر پورے زور سے اسے دے ماری۔ وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہوا اور زہرہ کے لیے اتنا سا موقع کافی تھا۔
وہ اب اس لڑکی کو گالیاں دیتے اسکی طرف بڑھ رہا تھا کہ زہرہ نے چاقو اسکی گردن پہ مار دیا۔
وہ اپنی پوری جان لگا کر اٹھی تھی اور اب درد سے بے حال ہو رہی تھی مگر اس آدمی کی تلاشی لینے کے بعد اسکی گن چاقو اور لاٸٹر نکال کر اس بچی کو لیے وہاں سے نکل گٸ۔
ایک گھر جو بالکل ہی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا وہ اس میں آکر چھپ گٸ۔ آپ رکیں میں پانی ڈھونڈ کر لاتی ہوں۔ زہرہ ہوش سے بے گانہ ہو چکی تھی وہ انکار کرنا چاہ رہی تھی مگر بے ہوش ہو گٸ۔
تین گھنٹوں بعد ہوش میں آٸ تو دیکھا وہ لڑکی پانی لے آٸ تھی۔
زہرہ نے پانی پیا تو اسکے حواس بحال ہوۓ۔
بہت شکریہ مگر تم نے پانی کہاں سے لایا اور یہ چوٹ کیسے لگی۔ زہرہ تشویش سے اسے دیکھ رہی تھی۔ کیونکہ پہلے اسے چوٹ نہیں لگی ہوٸ تھی۔
میں پانی لانے گٸ تھی وہاں ایک کافر آ گیا اس نے مارا مگر میں پھر بھی بھاگ کر چھپ گٸ جب وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر چلا گیا تو میں پانی مانگ لاٸ ایک گھر سے۔
اتنی چھوٹی سی ہو اور اتنی ہمت۔۔۔۔۔۔
پیدا ہوتے ہی یہ ظلم دیکھ رہے ہیں اب تو عادت ہو گٸ ہے۔ اس کا لہجہ تھکا تھکا سا تھا۔
تم وہاں کیا کر رہی تھی۔ وہ درندے میری بہن کو اٹھا کر لے گۓ میں گھر کی پچھلی طرف سے بھاگ نکلی تھی۔
زہرہ اسکی تکلیف کبھی محسوس نہیں کر سکتی اسکے پاس اسے تسلی دینے کے لیے ایک لفظ نہ تھا۔
**********************************
ہیری کے ساتھ آۓ پانچ آفیسر شہید ہو گۓ تھے۔ وہ بہت مشکل سے انہیں وطن واپس بھجوا پایا تھا۔
جانے کتنے ہی یہاں موجود تھے بھیس بدل کر۔
اسکے ہیڈ کوارٹر سے اسے واپسی کا آرڈر آیا تھا۔ مگر وہ زہرہ کو لیے بغیر کیسے واپس جا سکتا تھا۔
تنگ آ ر اس نے تمام رابطے بند کر دیے اور زہرہ کو ڈھونڈنے چل دیا۔ اسکے ہیڈ کوارٹر سے واپسی کا حکم مطلب اس کا مشن مکمل ہو گیا تھا وہ جاسوسی کے لیے آیا تھا اور وہ انہیں تمام معلومات دے چکا تھا۔ سو اب وہ تسلی سے صرف زہرہ کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ وہ خود بھی زخمی تھا مگر اسے زہرہ کی فکر تھی وہ اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔
********************************
زہرہ کو عالیہ کے ساتھ وہاں چھپے تین دن ہو گۓ تھے۔ کہ اچانک ایک فوجی وہاں آگیا۔ وہ ان تک آنے لگا کہ زہرہ نے گن سامنے کر لی وہ اٹھ نہیں سکتی تھی اب مگر ہاتھ تو سلمت تھے نہ۔ عالیہ ڈر گٸ تھی۔
اوہ تو چیونٹی کے بھی پر نکل آۓ ایسی موت ماروں گا نہ کہ تیری روح کانپے گی۔
زہرہ کا نشانہ اچھا تھا مگر گن اسے چلانی نہیں آتی تھی۔
اس نے گولی چلا دی وہ فوجی بر وقت ساٸیڈ پہ ہو گیا۔ اس نے ایک گندی سی گالی دی اور فاٸر کر دیا۔ مگر اس سے پہلے کہ گولی زہرہ کو چھوتی عالیہ آگے آ گٸ۔ گولی اسکے دل پر لگی تھی وہ اگلا سانس نہ لے سکی۔
تم ذلیل گھٹیا اللہ تمہیں غرق کرۓ۔ زہرہ چیخ چیخ کر اسے بددعاٸیں دے رہی تھی عالیہ کا سر اس آدمی کے پاٶں میں تھا وہ اسکے سر پر پاٶں رکھتا اس سے پہلے زہرہ نے گولی چلا دی۔ اب نشانہ چُوکا نہ تھا گولی اسکے پیٹ پہ لگی تھی۔ زہرہ نے دوسری گولی اسکی ٹانگ پہ ماری۔
تیری تو تجھے ابھی بتاتا ہوں وہ دھڑا دھڑ گولیاں اسکی ٹانگوں پہ مار رہا تھا چھ گولیا اس نے اسکی ٹانگوں پہ ماری زہرہ نے ہوش کھونے سے پہلے بولا۔
پاکستان زندہ باد
کیااااا بول پاکستان مردہ باد بول وہ اسکے بال جکڑ کر بولا۔
وہ قریب تھے زہرہ نے اپنی پوری ہمت لگاٸ اور چاقو اسکی گردن پہ مار دیا۔
وہ دور جا گرا اور جہنم واصل ہوا۔
زہرہ کا دل کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا کلمہ پڑھنے سے پہلے اسکے دل نے ایک شخص کو پکارا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ہیری۔۔۔۔۔۔۔ اور
فرض ادا ہوا زہرہ قربان ہو گٸ۔
اس لمحے ہیری کے دل نے ایک بِیٹ مِس کی تھی انہونی کا احساس ہوا۔
مگر فرض ادا ہو چکا تھا۔ قسمت کی مہر جو لگ چکی تھی۔ اب قسمت مطمٸن تھی۔۔۔۔۔۔
********************************
ہیری تھکن سے چُور تھا وہ دم لینے کو ایک ٹوٹے پھوٹے گھر کی طرف بڑھا۔مگر۔۔۔۔۔۔۔
زہرہ زہرہ وہ بھاگتا ہوا اس تک آیا تھا مگر اس کا جسم سرد پڑ چکا تھا اسے مرے ہوۓ اٹھارہ گھنٹے ہو چکے تھے۔
وہ ملی بھی تو کس حال میں۔ ہیری اسے ساتھ لگاۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔
اس کے قریب پڑی دو لاشیں ساری کہانی بتا رہی تھیں۔
اس نے زہرہ کے پاس کوٸ دوپٹہ ڈھونڈنا چاہا اور اسکے مگر وہ ساری تیاری کر کے آٸ تھی۔ اسکی جیکٹ سے سبز ہلالی پرچم برآمد ہوا تھا۔
اس نے بازو سے دوپٹہ کھول کر اس لڑکی پہ ڈالا اور زہرہ کی باڈی کو احتیاط سے پرچم میں لپیٹ دیا تھا وہ اسکی خواہش پوری کر رہا تھا۔
اسے اٹھاۓ وہ چل دیا۔ مگر وادی کے حالات خراب ہو گۓ وہ اسے ہلالی پرچم میں باہر کیسے لے کر جاتا اس نے اپنی جیکٹ اتاری اور زہرہ کے گرد لپیٹ دی اسکی جیکٹ اسکے گھٹنوں تک آتی تھی۔
دو دن وہ اسکی لاش اٹھاۓ چلتا رہا تھا اور اب تیسرے دن کا سورج جب ڈھل رہا تھا تو اسکی ٹیم اس تک پہنچ گٸ۔
زہرہ کی شہادت پہ جہاں انہیں فخر تھا وہیں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ پھر کب کیسے اسے بارڈر پار تک لایا گیا ہیری کچھ نہ جانتا تھا اس نے ایک پل کے لیے بھی اسے نیچے نہ رکھا تھا۔
**************************
زہرہ کی شہادت کی خبر خضر صاحب تک پہنچا دی گٸ تھی۔ جلد ہی یہ خبر پورے گاٶں تک پہنچ چکی تھی سارا گاٶں اکٹھا ہو چکا تھا۔
وہ زہرہ کے استقبال کے لیے پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے۔
ماٸدہ بیگم اور ندا بیگم کو خضر صاحب نے ایک آنسو نہ بہانے دیا تھا۔ انہیں فخر تھا اپنی زہرہ پہ مگر اس باپ کے دل کا کیا کرتے جو ضبط کھو رہا تھا۔
ہیری زہرہ کو اٹھاۓ ہوۓ ایمبولنس سے نکلا اسے دیکھ کر ماٸدہ بیگم ضبط کھو بیٹھی۔ ندا بیگم کا بھی ایسا ہی حال تھا قسمت نے انہیں ملایا بھی تو پھر ایک اور شہادت پر۔ وہ بھاٸ کی شہادت سے ڈرتی تھیں مگر آج اسی بھاٸ کی بیٹی کی شہادت پر موجود تھیں۔
ہیری کو تو کوٸ ہوش نہ تھا۔ اس نے تابوت کے بجاۓ زہرہ کو خضر صاحب کے ہاتھوں میں دیا تھا اور خود وہ ڈھے گیا تھا۔ خضر صاحب بیٹی کو اٹھاۓ کھڑے تھے بھانجے کو کیا تسلی دیتے ہارون صاحب نے آگے بڑھ کر انہیں حوصلہ دیا۔
زہرہ کی ٹانگیں اس قدر خستہ حال تھیں کہ غسل دینا ممکن نہ تھا۔
زہرہ کی بہادری کی وجہ سے اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا جا رہا تھا۔
تمام آفیسرز خضر صاحب اور ماٸدہ بیگم کو سیلوٹ کر رہے تھے۔
ہیری برو اپیا کو کہیں نہ ہمیں چھوڑ کر نہ جاٸیں۔ انہیں جگاٸیں نہ۔
منورہ رو رہی تھی وہ کسی سے سنبھل نہ رہی تھی ہر آنکھ اسے دیکھ کر اشک بار تھی۔
منو اپیا چلی گٸ ہیں اب نہیں آٸیں گی۔
ہیری منورہ کو زہرہ کے انداز میں ہی تسلی دے رہا تھا۔ اس نے زہرہ کو فوجی انداز میں سیلوٹ کیا تھا۔ اور قسمت مسکرا دی تھی۔
***********************************
ہیری چاٸنہ واپس آگیا تھا۔ مگر وہ زہرہ کو ایک پل کو بھی نہ بھولا تھا۔ وہ اسکے خوابوں میں آنے والی لڑکی اب منہ موڑ کہ چہرہ دکھاتی تھی۔ وہ زہرہ تھی۔ دی زہرہ خضر۔۔۔
ہیری میرا بچہ۔۔۔۔۔۔ ندا بیگم اسکے پاس آٸ تھیں مام آپ نے کہا تھا نہ کہ پاکستان سے آپکو اپنا بیٹا صحیح سلامت چاہیے۔
دیکھیے اس خوددار ملک نے کسی اور ملک کے بیٹے کی قربانی لینے کے بجاۓ اپنی بیٹی قربان کر دی۔ اس ملک کو آپ کے بیٹے کی قربانی نہیں جاہیے۔ اس پہ قربان ہونے والے اس کے اپنے بیٹے بیٹیاں ہیں۔ پھر چاہے وہ فوجی ہوں یا عام انسان۔۔۔۔
مگر مام زہرہ عام انسان تو نہیں وہ عام کیسے ہو سکتی ہے۔
وہ تو دی گریٹ زہرہ خضر ہے نہ۔ اور ہر لڑکی زہرہ خضر نہیں ہوتی۔۔۔۔
زہرہ کا کہا جملہ گونجا تھا اور اس نے آنکھیں موند لیں۔
ختم شد