تقریباً دو دن بعد اسے مکمل ہوش آیا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھی اور کمرے کا جاٸزہ لینے لگی۔ شہرذاد اور ماہین صوفے پر بیٹھی باتیں کررہی تھیں، شہریار کسی سے فون پر بات کررہا تھا جبکہ حنان اور علی غاٸب تھے۔ اسکی نظریں اس وقت صرف اور صرف حنان کو تلاش کررہی تھی۔ جب کافی دیر تک حنان نہ آیا تو اسکے دل کو وہمہ ہونے لگا
”جو میں نے دیکھا کہیں وہ میرا وہم تو نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔کہیں بھاٸ سچ میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ تھوڑی دیر گزرنے کے باوجود بھی حنان کے آثار دکھاٸ نہ دیۓ تو فاطمہ نے رونا شروع کردیا۔ اسکی رونے کی آواز سن کر آپس میں محو گفتگو شہرذاد اور ماہین چونکی اور پھر اسے روتا دیکھ کر گھبراتی ہوٸ اسکے پاس آٸ
”کیا ہوا فاطمہ آپ رو کیوں رہیں ہیں؟ کہیں درد ہورہا ہے کیا؟“ شہرذاد نے پوچھا
”اگر سر میں درد ہے تو میں ڈاکٹر کو بلا لاٶں؟“ ماہین نے بھی پوچھا، پر وہ کسی کو بھی جواب نہیں دے رہی تھی۔ بس گھٹنوں میں سر دیۓ زار وقطار رو رہی تھی۔ اسے روتا دیکھ کر شہریار بھی وہیں آگیا
”کیا ہوا ہے اسے؟“ اس نے ان دونوں سے پوچھا
”پتہ نہیں کچھ بول ہی نہیں رہی، بس روۓ جارہی ہے“ ماہین نے پریشانی سے جواب دیا۔ اسی وقت دروازہ کھولنے کی آواز آٸ اور علی اور حنان ایک ساتھ اندر داخل ہوۓ۔
”اچھا ہوا تم آگۓ۔ دیکھو یہ کب سے رو رہی ہے“ ماہین نے حنان کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا۔ وہ تیزی سے اس کے پاس آیا۔ وہ بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگاۓ دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے اس میں سر دیۓ رو رہی تھی۔ حنان اسے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔بیڈ کے پاس پہنچ کر اسکے قدم زنجیر ہوگۓ۔ آس پاس کا منظر تبدیل ہونے لگا۔ وہ اٹھارہ برس پیچھے پہنچ گیا، جب وہ دس سال کا بچہ تھا۔ ایک ہفتے پہلے ہی اسکے ماں باپ کا ایک حادثے میں انتقال ہوا تھا۔روزانہ ہی تعزیت کرنے کوٸ نہ کوٸ آ جاتا تھا۔آج بھی تعزیت کے لۓ آنے والوں کا سلسہ بندھا ہوا تھا جو کہ رات کو جاکر تھما، رات کے کھانے کے لۓ اس نے دادی کو بلایا تو انہوں نے منع کردیا کیونکہ انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، پھر وہ مرجان کو بلانے اسکے کمرے میں گیا پر وہ وہاں نہیں ملی۔ اس نے گھر کے دوسرے حصوں میں اسے تلاش کیا مگر وہ کہیں نہ ملی۔ اب تو حنان کو پریشانی ہونے لگی۔ قریب تھا کہ وہ دادی کو جاکے اٹھاتا جب اسے ڈراٸنگ روم سے کسی کی سسکیوں کی آواز آٸ۔ وہ جلدی سے وہاں گیا
”مرجان؟۔۔۔۔“ اس نے ڈراٸنگ روم میں داخل ہوکر لاٸٹ آن کی اور اسے پکارا۔ لیکن اسے وہ دکھاٸ نہ دی، سسکیوں کی آواز اب بھی آرہی تھیں۔ وہ آواز پر غور کرنے لگا۔ سسکیاں صوفے کے پیچھے سے سناٸ دے رہی تھی۔ وہ صوفے کے پیچھے گیا۔ تو دیکھا کہ چار سالہ مرجان صوفے سے ٹیک لگاۓ، گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے، ان میں سر دیۓ زار و قطار رو رہی تھی
”مرجان کیا ہوا گڑیا؟ کیوں رورہی ہو؟“ حنان اسکے رونے سے پریشان ہوگیا
”بھاٸ۔۔۔۔ماما کو بلاۓ مجھے انکی یاد آرہی ہے“ اس نے روتے ہوۓ کہا تو حنان کا دل کٹ گیا
”دادی نے تمھیں بتایا تھا نا کہ وہ اللّٰہ کے پاس چلے گۓ ہیں۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آسکتے“ چار سال کی بچی کو زندگی اور موت کی اتنی سمجھ نہیں ہوتی اسے بس اتنا بتایا گیا تھا کہ اسکے ماں باپ اب واپس نہیں آۓ گے
”کیوں نہیں آسکتے واپس؟ پہلے بھی تو باہر جاتے تھے نا لیکن گھر واپس آجاتے تھے تو پھر اب کیوں نہیں آسکتے؟“ اس نے روتے ہوۓ پوچھا
”تم رو نہیں پلیز، چل کر کھانا کھالو۔۔۔۔۔۔“ حنان نے اسے پچکارتے ہوۓ کہا
”ماماسے کہے نا میں اب سے انکی ہر بات مانوں گی، ہوم ورک بھی خود سے کروں گی۔ ٹی وی دیکھنے کے لۓ ضد بھی نہیں کروں گی۔ بابا سے پارک لے کر جانے کی ضد بھی نہیں کروں گی۔ بس ماما بابا کو واپس آنے بول دے۔ پلیز“
”دیکھو مرجان! جسے اللّٰہ اپنے پاس بلا لیتا ہے نا وہ کبھی واپس نہیں آتے“ اس نے سمجھایا
”تو پھر اللّٰہ تعالیٰ سے کہیں کہ مجھے بھی اپنے پاس بلا لیں“ اس نے روتے ہوۓ کہا
”مرجان۔۔۔۔۔۔“ حنان کا دل دہل گیا، اس نے مرجان کو خود میں بھنچ لیا
”میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔ تمہارے علاوہ میرے پاس ہے ہی کون؟“ اس دن حنان نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ مرجان کو کبھی کوٸ دکھ نہیں دے گا۔ اسکی ہر بات مانے گا، اسکی ہر ضد پوری کرےگا۔ اسکی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دے گا۔ اس دن کے بعد سے اس نے مرجان کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی وہ جب بھی گھر آتا اس کے لۓ دو چاکلیٹ ضرور لاتا۔ کبھی اسکے لۓ آٸسکریم لے آتا، تو کبھی اسکے ساتھ کھیلنے لگتا، اور چند ہی دنوں میں وہ پنے ماما بابا کو بھول گٸ
لیکن آج وہ پھر سے رو رہی تھی، بلکل ویسے ہی جیسے بچپن میں روتی تھی۔ گھٹنوں میں منہ چھپا کر زار و قطار روتی تھی۔ وہ آج بھی بچی ہی تھی۔ حنان اپنے آنسو اندر اتارتے ہوۓ اسکے پاس آکے بیٹھا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا
”مرجان۔۔۔۔۔۔“اس نے پکارا تو فاطمہ نے سر اٹھا کر دیکھا، آنکھوں میں بےیقینی سی اترنے لگی۔ آج کتنے عرصے بعد اس نے اپنے لۓ مرجان نام سنا تھا۔ دو سالوں میں وہ تو بھول ہی گٸ تھی کہ اسکا نام مرجان ہے
”بھاٸ۔۔۔۔۔۔آپ کہاں۔۔۔۔چلے گۓ تھے؟“ اس نے بے قراری سے اسکے ہاتھ تھامے، اس سے پہلے کے وہ کوٸ جواب دیتا مرجان نے اسکے سینے سے لگ کر رونا شروع کردیا۔ حنان بہت مشکل سے ضبط کررہا تھا۔آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ وہ اسکا سر سہلاتا رہا
”اب مجھے چھوڑ کر نہ جانا بھاٸ۔۔۔۔“ وہ چھوٹے بچوں کی طرح رورہی تھی
”نہیں جاٶں گا۔۔۔۔۔۔اب اپنی بہن کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاٶں گا“ حنان نے اسکے آنسو پونچھتے ہوۓ اسے یقین دلایا
——–*—————–*———–*
اگلے دن ڈسچارج ہوکر فاطمہ گھر آگٸ۔ ماہین نے اسے لاٶنج میں رکھے صوفے پر بٹھایا
”تم بیٹھو میں تمہارے لۓ سوپ لے کر آتی ہوں“ ماہین کہتے ہوۓ کچن میں چلی گٸ
”ارے۔۔۔۔۔۔تم یہاں بیٹھی ہو؟“ حنان گاڑی پارک کر کے اندر آیا اور اسے وہاں بیٹھا دیکھ کر پوچھا
”آٶ تمہیں تمہارا روم دکھاٶں“ حنان نے کہا
”میرا روم؟“ وہ حیران ہوٸ
”ہاں! تمہارا روم۔۔۔۔۔میں نےخود ڈیکوریٹ کیا ہے تمہارے لۓ“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا اور اسے سیڑھیوں سے اوپر لے آیا۔
براٶن کلر کی دیوار میں ایک سفید رنگ کا لکڑی کا دروازہ تھا۔ حنان نے دروازہ کھولا اور اندر گیا فاطمہ بھی اسکے پیچھے کمرے میں داخل ہوٸ۔ حنان نےسوٸچ بورڈ پر ہاتھ مار کر ساری لاٸٹ آن کردی۔ جیسے ہی لاٸٹز آن ہوٸیں۔ فاطمہ مبہوت ہوگٸ اور ٹکر ٹکر کمرے کو دیکھنے لگی
کمرے کی تھیم واٸٹ اور لاٸٹ بلو کلر کی تھی۔ کھڑکی، دروازے، فرنیچر اور صوفے واٸٹ کلر کے تھے۔ جب کہ دیواریں، کشنز، بیڈ شیڈ اور تکیے کے کور وغیرہ لاٸٹ بلو کلر کے تھے۔ کمرے کے بیچ میں بیڈ رکھا تھا، بیڈ کی داٸیں طرف صوفے تھے اور اس سے پیچھے ایک چھوٹا سا ٹیریس تھا، جسکا دروازے سفید رنگ کا ہی تھا۔ ایک جانب واڈ روب تھا۔ جو کہ سفید ہی رنگ کا تھا۔ داٸیں طرف سفید رنگ کی ڈریسنگ ٹیبل اور اسکے برابر میں راٸٹنگ ٹیبل تھی۔ راٸٹنگ ٹیبل کی اوپر والی دیوار پر بے شمار تصویریں لگی ہوٸ تھیں۔ اسکے اور حنان کی بچپن سے لے کر جوانی تک کی بےشمار تصاویر۔ ایک تصویر میں سات سالہ حنان، ایک سال کی مرجان کو چاکلیٹ کھلانے کی کوشش کررہا تھا اور وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ دوسرے تصویر مرجان کی سولہویں سالگرہ کی تھی جس میں وہ حنان کو کیک کھلا رہی تھی۔ ایک اور تصویر میں حنان اسے ساٸیکل چلانا سکھا رہا تھا۔ اور ایک تصویر جسے حنان حیرت سے دیکھ رہا تھا وہ ایک سال پہلے کی تھی جس میں کمال صاحب فاطمہ کو بیسٹ ایمپلاٸ کا ایوارڈ دے رہے تھے۔ یہ تصویر کل ہی ماہین نے یہاں لاکر لگاٸ تھی۔کمرے کی کھڑکیوں اور ٹیریس کے دروازے کے پردے بلو کلر کے تھے۔ اور سب سے خوبصورت چیز جو اس کمرے میں تھی وہ بیڈ کی داٸیں طرف والی دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھا ایک فل ساٸز کا ٹیڈی بیٸر تھا۔وہ بھی ہلکے نیلے رنگ کا تھا۔
”کیسا لگا کمرہ؟“ حنان نے اسکی محویت کو توڑا
”بہت پیارا ہے۔ آپ بہت اچھے ہیں بھاٸ“ اس نے حنان کے گلے لگتے ہوۓ کہا تو اس نے مسکراتے ہوۓ اسکے سر پر ہاتھ رکھا
”ارے۔۔۔تم دونوں بہن بھاٸ ابھی تک کھڑے ہوۓ ہو۔“ کمرے میں سوپ کا پیالہ لے کر داخل ہوتی ماہین نے مسکرا کر پوچھا۔ فاطمہ بیڈ پر جاکر بیٹھ گٸ۔ ماہین اسکے برابر میں بیٹھی جبکہ حنان راٸٹنگ ٹیبل کی چیٸر گھسیٹ کر بیڈ کے برابر میں رکھ کر بیٹھ گیا
”کیسا ہے سوپ؟“ فاطمہ نے ایک سوپ کے پیالے سے ایک چمچ منہ میں رکھا تو ماہین نے پوچھا، وہ دونوں اسے کسی بچے کی طرح ٹریٹ کر رہے تھے
”بہت اچھا ہے۔ تھینک یو بھابھی“ ماہین کو اسکے منہ سے بھابھی سننا بہت اچھا لگا
”بھاٸ۔۔۔۔۔۔مجھے نا ایسا ایک اور ٹیڈی بیٸر چاہیۓ لیکن چھوٹا سا تاکہ میں اسے اپنے بیڈ پر رکھوں“ وہ فاطمہ جس نے دوسال سے کسی سے کوٸ فرماٸش نہیں کی تھی، جو اپنی ذات کی فکر کرنا بھول چکی تھی، جو دو جوڑوں میں ہی پورا پورا سال گزار دیتی تھی۔ بھاٸ کے پاس آتے ہی اسکا سارا لاڈ، نخرا واپس آگیا تھا۔ اس لۓ اس نے حنانا سے فرماٸش کی
”مل جاۓ گا“ حنان نے ہنستے ہوۓ کہا۔
”اور مجھے آپ کے ہاتھ کا بنا ہوا میکرونی بھی کھانا ہے جو آپ نے لاسٹ ٹاٸم مجھے بنا کر کھلایا تھا“
”بلکل جناب اور کچھ؟“
”ہاں! اور کل آپ مجھےاور بھابھی کو آٸسکریم کھلانے لے کر جاۓ گے“ اسکا فرماٸشی پروگرام جاری تھا۔ ماہین اور حنان مسکرا رہے تھے۔ وہ سوپ کا پورا پیالہ ختم کر چکی تھی
”ویسے جتنا تم بچپن میں کھاتی تھی، اتنا ہی آج بھی کھاتی ہو۔ پتہ ہے ماہین! مرجان جب چھوٹی تھی نا، تو اتنی موٹی تھی کہ پوچھو ہی مت۔ ایک بار جھولے پر بیٹھی تو جھولا ہی ٹوٹ کر گر گیا“ حنان نے مزے سے کہا تو ماہین ہنسنے لگی جبکہ فاطمہ نےناراضگی سے اسے دیکھا
”کوٸ نہیں اتنی بھی موٹی نہیں تھی میں“ اس نے ناک چڑھاتے ہوۓ کہا
”جھوٹ بول رہی ہے، اتنی ہی موٹی تھی یہ۔ بلکل گول مٹول سی فٹ بال جیسی لگتی تھی“ حنان نے پھر اسے چھیڑا تو اس نے ماہین کی طرف منہ کرلیا
”پتہ ہے بھابھی، بھاٸ بچپن میں کتنے بےوقوف تھے؟ ایک بار دادی نے انہیں سودا لینے بھیجا تو۔۔۔۔۔۔۔۔“ وہ مزے سے اسے حنان کے بچپن کا کوٸ قصہ سنانے لگی۔ ماہین دونوں بہن بھاٸ کی نوک جھونک سن کر محفوظ ہورہی تھی۔ حنان مسکراتے ہوۓ اپنی بیوی اور بہن کو دیکھ رہا تھا۔ دونوں کو ہی اس نے کھو کر دوبارہ پایا تھا۔ ایک لمبی آزماٸش سے گزرنے کے بعد آج اسکا گھر مکمل ہوگیا تھا
————-*————-*———-*
علی کو اپنے گھر دیکھ کر حنان کو بہت حیرت ہوٸ تھی کیونکہ جب سے فاطمہ گھر آٸ تھی تب سے وہ ایک بار اس سے ملنے نہیں آیا تھا بس آفس میں ملاقات ہوجاتی تھی۔ شہریار اور شہرذاد تو اکثر آجاتے تھے
”آٶ علی! تم اچانک کیسے؟“ حنان نے پوچھا۔ اصولاً تو اسے آفس میں ہونا چاہیے تھا اس وقت، ماہین بھی آفس میں تھی۔ حنان فاطمہ کی وجہ سے رک گیا تھا کیونکہ اسےبخار تھا۔ اور بخار میں وہ ویسے بھی بہت چڑچڑی ہوجاتی تھی، سواۓ حنان کے کسی کی نہیں سنتی تھی۔ دو ہفتوں میں اسکا ناز نخرا، اور لاڈ اٹھوانے والا مزاج پھر سے واپس آگیا تھا۔ کل رات ہی اس نے زہرہ بیگم کو اسکاٸپ کال کر کے حنان کے بارے میں ناصرف سب کچھ بتایا تھا بلکہ اس سے بات بھی کراٸ تھی۔ حنان ان سے بہت عاجزی اور تشکر سے ملا تھا۔ آخر وہ اسکی محسن تھی کیونکہ انہوں نے بغیر کسی رشتے کے فاطمہ کا اتنا خیال رکھا تھا۔ وہ ساری زندگی ان کا احسان نہیں اتار سکتا تھا۔ زہرہ بیگم تو نہال ہوگٸ تھی دونوں بہن بھاٸ کو ساتھ دیکھ کر، بار بار ان کی نظریں اتارتی تھی۔ ان دو ہفتوں میں علی ایک بار بھی فاطمہ یا حنان سے ملنے نہیں آیا تھا
”یار۔! ایک کام کرتے ہیں کہ یہی لان میں بیٹھ جاتے ہیں“ علی نے کہا تو حنان نے اسکی بات مان لی اور دونوں لان میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گۓ۔ حنان نے ملازم کو چاۓ لانے کا کہا
”تم آفس نہیں گۓ آج؟“ حنان نے پوچھا
”گیا تھا لیکن جلدی واپس آگیا۔ دراصل۔۔۔۔۔جھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی“
”مجھ سے؟ ہاں! کہو کیا بات کرنی ہے“ حنان نے
پوچھا، اسے علی کچھ کنفیوز لگ رہا تھا
”بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔اصل میں مجھے یہ کہنا تھا کہ۔۔۔۔۔“ علی کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اسےکیسے بتاۓ
”کیا ہوگیا ہے علی؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟“ حنان اسے دیکھ کر حیران ہوا
”پہلے تم قسم کھاٶ کہ جو میں تم سے کہوں گا اسکے بعد تم مجھے مارو گے نہیں“ علی نے جلدی سے کہا
”ہیں؟“ حنان نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
”کھا قسم۔۔۔۔۔“علی نے پھر کہا تو حنان کو اسکی ذہنی حالت پر شک گزرا
”ٹھیک ہے تیری قسم نہیں ماروں گا تجھے“
”دیکھ تو نے میری قسم کھاٸ ہے اگر تو نے مجھے مارا نا تو میں مر جاوں گا“
”کیا ہوا گیا ہے علی؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟“ حنان کو اسکی مشکوک حرکتیں دیکھ کر یہ یقین کرنے میں دیر نہ لگی کہ۔۔۔۔۔۔۔اسکا جان سے پیارا دوست اپنا ذہنی توازان کھو چکا ہے
”بات اصل میں یہ ہے۔۔۔۔۔تم غصہ مت کرنا“ علی پھر سے کہا تو حنان چڑ گیا
”اب اگر تم نے نہیں بولا نا تو میں سچ میو ماروں گا تمہیں“
”میں تم سے تمہاری بہن کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں“ علی نے جلدی سے بات مکمل کرکے سر جھکا لیا کیونکہ وہ حنان کا ریایکشن نہیں دیکھنا چاہتا تھا اب دوست سے اسکی بہن کا ہاتھ مانگنے کے بعد کم از کم بھی دو تھپڑ تو بنتے تھے ناں۔
”کیا؟۔۔۔۔۔۔۔“ حنان کو شاک لگا
”میں پہلے بھی فاطمہ کو پرپوز کرچکا ہوں جب مجھے یہ معلوم بھی نہ تھا کہ وہ تمہاری بہن ہے لیکن۔۔۔۔۔اس نے مجھے انکار کردیا تھا“ وہ سر جھکاۓ ہی بولا
”کیوں انکار کردیا“ حنان کو ایک اور جھٹکا لگا
”وہ سمجھتی تھی کہ اگر مجھے اسکے ماضی کہ بارے میں معلوم ہوگا تو میں اسے برا سمجھوں گا لیکن حنان!۔۔۔۔۔۔۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں فاطمہ کو بہت خوش رکھوں گا، مجھے اسکے گزرے ہوۓ کل سے کوٸ سروکار نہیں ہے۔ نہ ہی میں کبھی اس سے اسکے ماضی کے حوالے سے باز پرس کروں گا“ علی نے مضبوط لہجے میں کہا۔ حنان تو قسمت کی اس مہربانی پر اللّٰہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ اسکی بہن کو علی سے اچھا انسان مل ہی نہیں سکتا تھا۔
”تم کچھ بول کیوں نہیں رہے۔“ علی نے حنان کو خاموش دیکھ کر پریشانی سے پوچھا،
”اٹھو۔۔۔۔۔۔“ حنان نے کرسی سے اٹھتے ہوۓ اسے بھی اٹھنے کو کہا
”تمہیں برا لگا ہے کیا ؟“
”میں کہہ رہا ہوں اٹھو“ علی کھڑا ہوگیا اور حنان کے سنجیدہ چہرے کی طرف دیکھا، لیکن اسے اسکی آنکھوں میں چمکتی شرارت نظر نہ آٸ تھی
”کیا ہوا ہے حنان؟“ علی نے پوچھا
”ہاں تو برخودار! کما کتنا لیتے ہو؟“ حنان نے سنجیدگی سے پوچھا تو علی نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
”دو وقت کی روٹی تو کھلا سکتے ہو نا میری بہن کو؟“ اس نے کہا، علی اسکی شرارت سمجھ گیا
”صرف روٹی؟ میں تو اور بھی بہت کچھ کھلا سکتا ہوں جیسے پزا، برگر، فراٸز۔۔۔۔۔۔“ وہ مزے سے ڈیشیز سے کے نام گنوا رہا تھا جب حنان نے مفی میں سر ہلاتے ہوۓ اسکی بات کاٹی
”نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس رشتے پر اعتراض ہے“ علی نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا پھر دونوں قہقہ لگا کر ہنس پڑے
”میں مرجان کی مرضی پوچھ لوں پھر تمہیں جواب دوں گا“ حنان نے کہا تو علی نے اسے گلے لگالیا
————-*————*———–*
چار ماہ بعد
وہ قبرستان میں کھڑا تھا۔ اسکے سامنے لاٸن سےچار قبریں تھیں۔ایک اسکی ماں، دوسری اسکی ماں جیسی چاچی، تیسری اسکے بھاٸیوں جیسے کزن شہیر کی اور چوتھی اسکی بہنوں جیسی دوست سوہا کی۔ وہ قبر پر فاتحہ پڑھتا رہا پھر قبرستان سے باہر آیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک ڈراٸیو کرنے کے بعد اس نے گاڑی ایک مارکیٹ کے سامنے روکی۔ اور اتر کر مارکیٹ میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کچھ گرم کپڑے اور ایک کمبل بھی تھا۔ اس نے سارا سامان گاڑی میں رکھا اور ایک بار پھر ڈراٸیو کرنے لگا
تھوڑی دیر کے بعد اس نے گاڑی کراچی سینٹرل جیل کے سامنےروکی۔ وہ وہاں اپنے ڈیڈ سے ملنے آیا تھا۔ گھر میں اگر کوٸ مصطفٰی صاحب سے ملنے جیل آتا تھا تو وہ صرف شہریار ہی تھا کیونکہ اپنے باپ سے محبت کرنا اسکی مجبوری تھی۔ چاہے کچھ بھی ہو جاۓ وہ اپنے باپ کی فکر کرنا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ وہ جتنے بھی بڑے مجرم ہوں، تھے تو آخر اسکے باپ ہی نا۔۔۔۔۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود، ایک حقیقت یہ بھی تھی کہ اس نے کسی بھی غلط کام میں انکا ساتھ نہیں دیا تھا اور نہ ہی چاچا کے سامنے انکی سفارش کی تھی۔ بلکل اسی طرح گھر میں چاچو اور شہرذاد نے یہ جانتے ہوۓ بھی کہ مصطفٰی صاحب انکے گھر کی خوشیوں کے قاتل ہیں، انہوں نے شہریار کو ان سے ملنے سے ایک بار بھی نہ روکا کیونکہ وہ اس کے جذبات سمجھتے تھے
”کیسے ہیں آپ؟“ ملاقاتی کمرے میں دونوں باپ بیٹا آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ شکل سے کافی کمزور لگ رہے تھے۔ داڑھی اور سر کے بال سفید ہو چکے تھے۔
انکا کیس بہت سیدھا تھا کیونکہ مجرم نے خوداقبال جرم کرلیا تھا اس لۓ دو ہٸیرنگ میں ہی کیس ختم ہو گیا۔عدالت نے انکی عمر دیکھتے ہوۓ انہیں پھانسی کے بجاۓ عمر قید کی سزا دی تھی۔ جیل میں انہیں کافی مشقت کرنا پڑ رہی تھی، اس پر سے کھانا بھی صرف ایک وقت کا ملتا تھا
”ہاں! میں ٹھیک ہوں۔ بس یہاں جیل کا بستر بہت پتلا ہے رات میں مجھے ٹھنڈ لگتی ہے“ انہوں نے آہستگی سے کہا
”جی مجھے یاد تھا اس لۓ میں آپ کے لۓ کمبل اور کچھ گرم کپڑے لایا ہوں“ شہریار نے کہتے ہوۓ ساری تھلیاں انکی طرف بڑھادی۔
”شکریہ بیٹا!۔۔۔۔۔۔“ انہوں نے تھیلی کھولی اور اس میں رکھا ایک بسکٹ کا پیکٹ نکالا اور وہیں کھول کر کھانے لگے۔ وہ شاید بہت زیادہ بھوک لگی تھی۔ یہ اسکا وہ باپ تو نہیں تھا جسکی شخصیت سے ایک وقار اور رعب جھلکتا تھا
”ڈیڈ! اس سے زیادہ چیزیں جیل میں لانے کی اجازت نہیں تھی تو میں بس یہی لا سکا تھا“ شہریار نے کہا انہوں نے بس سرہلادیا اور بسکٹ کھانے میں ہی مصروف رہے
”ملاقات کا وقت ختم۔۔۔۔۔۔۔۔“ باہر سے ایک حوالدار نے آواز لگاٸ تو شہریار اٹھ کھڑا ہوا
”کہاں جارہے ہوں۔۔۔“ وہ جلدی سے اٹھے۔ انہوں نے بسکٹ ختم کرلی تھی
”ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے ڈیڈ !۔۔۔۔۔اب گھر جارہا ہوں“
”پھر کب آٶ گے؟“ انہوں نے امید سے پوچھا
”اگلے ہفتے ان شاء اللہ“
”میں تمہارا روز انتظار کرتا ہوں“ انہوں نے بتایا
”میں روزانہ تو نہیں آسکتا نا۔۔۔۔۔۔“ شہریار نے کہا اور جلدی سے باہر نکل گیا پیچھے کھڑے مصطفٰی صاحب مایوسی سے اسے جاتے دیکھ رہے تھے
گاڑی میں آکر شہریار نے جلدی سے گیٹ بند کیا اور اسٹٸیرنگ سے سر ٹکا کر رودیا۔ وہ ہر ہفتے یہاں آتا تھا اور ہر ہفتے یہاں سے جاتے ہوۓ وہ ایسے ہی روتا تھا۔ اسے اب تک اپنے باپ کو اس روپ میں دیکھنے کی عادت نہیں ہوٸ تھی۔ وہ یہ جانتا تھا کہ وہوایک مجرم کو جیل میں آرام پہنچانے کی کوشش کررہا ہے لیکن کیا کرتا؟ وہ مجرم آخر کو اسکا باپ تھا اور وہ چاہ کر بھی ان سے نفرت نہیں کر پایا تھا
رات کے ساڑھے نوبجے اسکی واپسی ہوٸ۔
”آپ کہاں رہ گۓ تھے شیری؟ ہم کب سے آپ کو فون کررہے تھے“ اسے گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر شہرذاد نے پوچھا۔
”وہ موباٸل کی بیٹری ڈیتھ ہوگٸ تھی اس لۓ فون آف ہوگیا تھا۔ تم کیوں فون کررہی تھی؟“
”شیری! ہمیں ہال پہنچنا تھا نو بجے۔ اور اب ساڑھے نو بج چکے ہیں“ شہرذاد نے کہا
”ہال؟“ شہریار نے حیرت سے پوچھا اور اگلے ہی لمحے اسکا ذہہن میں جھماکہ ہوا۔
”اوہ شٹ! میں تو بھول گیا کہ آج حنان کا ولیمہ ہے“ اب جاکے اس نے دیکھا تھا کہ شہرذاد ڈارک براٶن میکسی پر ڈارک براٶن کلر کا ہی نیٹ کا ڈوپٹہ پہنے، میک اپ کۓ بلکل تیار کھڑی تھی۔
”شہی! تم یہ میرا موباٸل چارج پر لگاٶ میں ابھی نہا کر آتا ہوں“ وہ اسے موباٸل پکڑاتا جلدی سے نہانے کے لۓ چلا گیا۔ دس منٹ بعد وہ تیار ہوکر باہر آیا۔ اس نے بلیک جینز پر بلیک ڈریس شرٹ پہنی ہوٸ تھی۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بال سیٹ کۓ پھر بیڈ پر پڑا اپنا گرے کوٹ اٹھا کر پہننے لگا کہ شہرذاد نے اسے روک دیا
”آپ یہ مت پہنے“ اس نے شہریار کے ہاتھ سے کوٹ لے لیا
”کیوں؟“ وہ حیران ہوا
”ابھی بتاتے ہیں آپ ایک منٹ رکے“ وہ کوٹ لے کر الماری کے پاس گٸ اور وہ والا کوٹ واپس ٹانگ کر ایک دوسرا کوٹ نکال لاٸ جو ڈارک براٶن کلر کا تھا
”یہ پہنے، کم از کم کوٹ تو ہمارے سوٹ سے میچنگ کا ہوگا“ اس نے معصومیت سا کہا تو شہریار ہنس دیا
”جو حکم بیگم صاحبہ“ شہریار نے شرارت سے کہا اور کوٹ پہن لیا
”آٶ سیلفی لیتے ہیں“ اس نے اپنے جیب سے موباٸل نکالا
”اف۔۔۔۔۔شیری ہم لیٹ ہورہے ہیں“
”بس ایک سیلفی“ شہریار نے کہا اور اسکے ساتھ کھڑا ہوکر سیلفی لینے لگا
”نہیں اچھی نہیں آٸ ایک اور لے“ شہرذاد نے کہا
”اچھا اب دیر نہیں ہورہی تمہیں؟“
”ایک اور لیں ورنہ ہم یہ والی بھی ڈیلیٹ کردے گے“
”تم ہمیشہ یہی کرتی ہو۔۔۔۔۔۔۔“ وہ دونوں لڑ رہے تھے، باہر سے گزرتے ارتضٰی صاحب کی نظر ان دونوں پر پڑی تو وہ مسکرادیۓ۔ انکی بیٹی زندگی کی طرف واپس لوٹ آٸ تھی اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ شہریار کا تھا۔ اگر اسکی جگہ کوٸ اور ہوتا تو کیا وہ ایک ایسی لڑکی کو قبول کرتا جو متعدد بار خودکشی کی کوشش کرچکی ہو؟ جو ڈپریشن کی پیشنٹ رہ چکی ہو؟ نہیں نا۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر کر بھی لیتا تو ساری زندگی اسے اس بات کا طعنہ دیتا کہ شہرذاد ماضی میں ذہنی مریضہ رہ چکی ہے۔ لیکن شہریار۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ انکی بیٹی سے بچپن سے محبت کرتا تھا اور اس نے شہرذاد کو اسکی تمام خوبیوں اور تمام خامیوں سمیت قبول کیا تھا اور ہر کوٸ اتنا اعلٰی ظرف نہیں ہوتا
———–*————-*————*
وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ کمرے میں کوٸ نہیں تھا۔ کوٸ ہوتا بھی کیسے؟ یہاں کا مکین تو کب کا منوں مٹی تلے جا سویا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چل کر راٸٹنگ ٹیبل کے پاس آیا۔ ٹیبل پر راٸٹنگ پیڈ، استھتواسکوپ، بلڈ پریشر مشین، شوگر کی مشین اور دواٶں کے ڈبے وغیرہ پڑے تھے۔وہ ایک ایک چیز کو ہاتھ سے چھو چھو کر دیکھ رہا تھا۔ پھر اسکی نظر الماری پر پڑی وہ لاشعوری طور وہ الماری کے پاس گیا اور اسکے دروازے کھول دیۓ۔ اندر بیشمار گاٶن، شرٹ اور پینٹ لٹکی ہوٸ تھی۔ اس نے دراز کھولا تو وہاں ایک والٹ رکھا ہوا تھا- اس نے والٹ کھول کر دیکھا تو اس میں اسی کی تصویر لگی ہوٸ تھی، وہ مسکرا دیا۔ پھر وہ چلتے چلتے اس دیوار کے پاس آیا جہاں ان کی تصویر لگی تھی۔ وہ انکی کوٸ پروفیشنل تصویر تھی۔ انکی شخصیت میں ایک رعب اور دبدہ تھا لیکن انکی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔انکی آنکھوں میں دنیا جہاں کی اداسی اور ملال تھا
”آپ جانتے ہیں بابا! کہ میری زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آٸ ہے۔ میں اس گھر میں آپکی بہو کو لے کر آیا ہوں۔ میری زندگی کی اتنی بڑی خوشی تھی، مجھے کتنی ضرورت تھی آپ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ یہاں ہوتے تو اپنی بہو کو خود اس گھر میں لاتے۔“ وہ انکی تصویر سے باتیں کررہا تھا۔ لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو کیا علی ان سے اتنی محبت سے بات کرتا جتنی محبت سے انکی تصویر سے کررہا تھا؟ کیا وہ انہیں اپنی خوشی میں شامل کرتا؟ اسکے ضمیر نے اسے کچوکا مارا۔ اسکا سر جھک گیا۔
”علی چلے دیر ہورہی ہے“ فاطمہ اسے ڈھونڈتے ہوۓ وہیں آگٸ
”ہاں چلو۔۔۔۔۔۔۔“ علی ایک آخری نظر ان کی تصویر پر ڈال کر باہر نکل گیا
وہ جتنا بھی خوش رہے لیکن ایک احساس ندامت ساری زندگی خلش بن کر اسکے دل میں رہی گا۔ اور یہ خلش آب آخری سانس تک اسکے ساتھ رہے گی
———-*————–*————*
”تم بہت اچھی لگ رہی ہو“ اسٹیج پر بیٹھے حنان نے اپنے برابر دلہن بنی بیٹھی ماہین سے کہا
”پورے تین مہنے بعد میری تعریف کی ہے تم نے“ اس نے شرارت سے کہا تو حنان سر کھجانےلگا
”یہ شہریار وغیرہ اب تک کیوں نہیں آۓ“ اس نے حنان سے پوچھا
”وہ کبھی زندگی میں وقت پر آیا“ حنان نے من بسورتے ہوۓ کہا
”ویسے میں سوچ رہا تھا کہ مرجان کو آج اپنے ساتھ گھر لے چلتے ہیں۔ بہت عرصے سے اسے نہیں دیکھا“ حنان نے گیٹ پر کھڑے مہمبنوں کو ریسیو کرتے علی اور فاطمہ کو دیکھتے ہوۓ کہا
”ہیں؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ ابھی پرسوں ہی تو اسے رخصت کیا ہے تم نے“ ماہین نے حیرت سے کہا
”ہاں تو؟ ولیمے کے بعد دلہن میکے آتی ہے، اور علی بدتمیز نے کل میری بہن کو آنے ہی نہیں دیا“ اس نے پھر سے منہ بسور لیا تو ماہین ہنسنے لگی
”آج تو میں اسے گھر لے کر ہی جاٶں گا۔“ حنان نے مصنوٸ غصے سے کہا
”تو پھر علی کو بھی ساتھ لے جانا ورنہ وہ بےچارا مرجان کے بغیر کیسے رہے گے؟“ ماہین نے ہنستے ہوۓ کہا
”کیا باتیں ہورہی ہیں؟“ اسی وقت شہریار اور شہرذاد بھی سٹیچ پر آگۓ
”ارے۔۔۔۔۔۔۔تم اتنی جلدی کیوں آگۓ؟ ابھی تو فنکشن بھی شروع نہیں ہوا“ حنان نے ہاتھ میں بندھی گھڑی دیکھتے ہوۓ شہریار پر معصوم سا طنز کیا
”ہے نا! میں تو شہرذاد سے کہہ بھی رہا تھا کہ اتنے جلدی جاکر کیا کریں گے“ شہریار نے ڈھٹاٸ کی انتہا کردی
”کبھی وقت پر نہ پہچنا تم“ حنان نے خفگی سے کہا
”تو کیا کروں یار؟ تم ماہین اور علی تو نٸے نویلے دلہا دلہن ہو اس لۓ آفس سے چھٹی مار کر بیٹھے ہو اور ساری ذمہ داری مجھ غریب پر آگٸ ہے“ اس نے مظلومیت سے کہا تو حنان اچھل پڑا
”اوہ بھاٸ! میں نے تو آج ہی چھٹی لی ہے۔ اس علی سے پوچھ جاکے جو چار دن سے چھٹی مار کر بیٹھا ہے۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بھول گیا کہ تیری شادی پر تو نے پورے ڈیڑھ ہفتے کی چھٹی ماری تھی۔“ حنان اچھا خاصا خفا تھا
”اچھا اب آپ دونوں لڑنا بند کریں۔“ شہرذاد نے ان دونوں کو لڑتا دیکھ کر کہا
”چل ادھر آکر بیٹھ۔ فوٹوگرافر کو بلوا کر ایک تصویر کھنچواتے ہیں“ حنان نے مسکراتے ہوۓ کہا
”ٹھیک ہے! علی کو بھی بلا لیتے ہیں“ شہریار نے کہا اور علی کو آواز دینے لگا
علی نے اسے دیکھا تو اس نے اسے اسٹیج پر آ نے کا اشارہ کیا۔ علی نے سرہلایا اور فاطمہ کی طرف دیکھا جو انکے کسی پرانے کلاٸنٹ کی واٸف سے مل رہی تھی۔ لوگ اسکی پہلے بھی عزت کرتے تھے لیکن اب وہ حنان شاہ کی بہن اور علی عابد کی بیوی تھی، اسکی عزت میں کٸ گنا اضافہ ہوگیا تھا
”فاطمہ!۔۔۔۔۔ذرا یہاں آنا“ اس نے فاطمہ کو بلایا تو اس نے اس خاتون سے معذرت کی اور اپنی ساڑھی سنبھالتی علی کے پاس آٸ
”جی۔۔۔۔۔۔“
”وہ شہریار اسٹیج پر بلارہا ہے گروپ فوٹو کے لۓ“
”اچھا! چلے پھر۔۔۔۔۔“ وہ علی کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھنے لگی
”علی! ایک بات پوچھوں؟“ اس نے چلتے چلتے علی سے پوچھا
”سو باتیں پوچھو تم کو اجازت کی کیا ضرورت ہے“ علی نے مسکراتے ہوۓ کہا
”اب تو سب ہی مجھے مرجان کہتے ہیں۔ بھابھی، شہریار بھاٸ اور شہرذاد بھی مجھے اسی نام سے پکارتے ہیں۔ پھر آپ مجھے فاطمہ کیوں کہتے ہیں؟“
”کیونکہ مجھے تمہارا نام فاطمہ ہی اچھا لگتا ہے، اور ویسے بھی۔۔۔۔۔۔۔میرے نام کے ساتھ تو فاطمہ نام ہی جچتا ہے“ علی نے مسکراتے ہوۓ کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر آگیا۔ جہاں باقی سب اسکا انتظار کر رہے تھے۔
وہ سب لوگ بہت خوش تھے۔ خوشیاں سب کی زندگی میں آتی ہے لیکن مکمل خوشی کسی کو بھی نہیں ملتی۔ کہیں نہ کہیں کوٸ دکھ انسان کے سینے میں دفن رہتا ہے۔
جیسے شہریار جب بھی اپنے باپ سے مل کر آۓ گا، وہ روۓ گا۔ ساری خوشیاں ایک طرف لیکن یہ ایک دکھ کہ اسکے باپ نے اسے اتنا بڑا دھوکہ دیا ساری زندگی اسکے ساتھ رہے گا۔
علی اپنی زندگی کی خوشیوں میں جتنا بھی مگن ہو لیکن عابد صاحب کی موت کا دکھ، پچھتاوا بن کر ساری زںدگی اسکے ساتھ رہے گا
شہرذاد سب کچھ بھلا کر اپنی زندگی نٸے سرے سے شروع کر چکی ہے لیکن وہ چاہ کر بھی اپنے بھاٸ کی بےرحمانہ موت کو کبھی بھلا نہ پاۓ گی۔
ماہین کو بھلے حنان نے معاف کردیا ہو لیکن ںہ کبھی اپنی زندگی کے ان لمحات کو بھلا نہ سکے گی جب حنان اس سے نفرت کرنے لگا تھا۔
حنان کا گھر مکمل ہوگیا تھا لیکن یہ دکھ اسکے ساتھ ہمیشہ رہے گا کہ وہ آخری بار اپنی دادی کا چہرہ نہ دیکھ سکا، اور اسکی لاڈو پلی بہن نے دوسال اذیت ناک زندگی گزاری تھی
اور فاطمہ۔۔۔۔۔وہ بھی چاہے جتنے خوش رہے لیکن اپنا ماضی کبھی نہ کبھی یاد ضرور کرے گی۔ اپنی زندگی کے ان دو سالوں میں اٹھاٸ جانے والی تکلیف وہ ہمیشہ یاد رکھے گی
لیکن اصل انسان وہی ہے جو دکھوں کے ساتھ بھی خوش رہنا سیکھ جاۓ۔۔۔ اور یہ لوگ اپنے اپنے دکھوں کے ساٹھ خوش رہنا جانتے تھے
دنیا کی محفل میں، اے ہمنوا!
تم کھو گۓ ہو کہاں
کھو گۓ ہو کہاں
(ختم شد)
————–*————*———-*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...