” تم کیسے ہو چھوٹے ” پھر مڑی اور پرفیوم سے کھیلتے سنی سا پوچھا۔سنی قریب آیا اور نیچے جھکنے کا اشارہ کیا ۔جیسے کان میں کوئی بات کہنی ہو ۔
جونہی مایا نیچے جھکی سنی نے اسکے گال پر زوردار چٹکی کاٹی ۔
” آوچ ۔ یہ کیوں کیا تم نے۔ ” وہ گال سہلاتے ہوئے سیدھی ہوئی۔
” سیمل کہتی ہے کوئی کچھ دے تو بدلے میں ہمیں بھی دینا چاہیے ۔اس سے محبت اور عزت بڑھتی ہے ۔ پچھلی بار آپ نے مجھے ایسے دھیر سارا پیار کیا تھا اب میرا بھی تو فرض بنتا تھا نا ۔” آنکھیں ٹمٹماتے ہوئے معصومیت سے بولا۔
” شیطان ۔۔” وہ دونوں ہی ایک ساتھ اسکے پیچھے آئیں تھیں مگر وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
□□□
سارے راستے مایا سنی سے باتیں کرتی رہی تھی۔ بے جا قہقہے ہر بات میں۔ اپنی خاموش فطرت کے برعکس۔
” تم ٹھیک ہو مایا۔ ” سیمل نے بغور اسکا چہرا دیکھا۔
” ہاں مجھے کیا ہونا ہے ” مایا نے کندھے اچکائے ۔
” تم کچھ چھپارہی ہو ۔مجھ سے زیادہ اس کھوکھلی ہنسی کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ تم ایسے بیہیف کیوں کر رہی ہو ۔” سیمل سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔
” آنے سے پہلے ماما سے بحث ہوئی تھی اس بات پر کہ میں ان کے ساتھ نہیں کیوں نہیں جا رہی۔ بس اسی وجہ سے اپ سیٹ ہوں۔” مایا نے گہری سانس لی۔
سیمل یاسیست سے مسکرائی۔
” تمھارے پاس کم سے کم ماں تو ہے۔ کل تم اسی ماں کے گلے لگ کے اپنا دل ہلکا کرو گی جس سے آج بحث کر کے آئی ہو۔ تم لکی ہو مایا ۔” سیمل کا لہجا بھیگ سا گیا۔
مایا نے فقط اثبات میں سر ہلا دیا۔
□□□
وہ شادی صبحانی خاندان کی لڑکی کی تھی۔ بڑے بڑے نامور اور اونچی حیثیتوں کے لوگ وہاں جمع تھے۔ وکلاء اور قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کی بھی بڑی تعداد تھی ۔ سیاست سے تعلق رکھنے والوں بھی شرکت تھے۔
” مجھے عجیب سا لگ رہا ہے مایا ۔اگر کسی نے پوچھا تو ہم کیا کہیں گے ۔وکیل کے خاندان سے ہیں یا پولیٹیکل فیملی کے ۔” وہ ایک ٹیبل کے پاس کھڑے ہوئے بولی۔۔
” کہنا دلہے صاحب کے دوست ہیں ۔” وہ مسکرائی مگر ایسے کہ سیمل کو شک ہوگیا کہ مایا اس دن واقعی ڈسٹرب تھی۔۔
وہ ولیمے کا فنکشن تھا ۔ایک بڑے سے گرونڈ میں کنوپیاں لگائیں گئیں تھیں ۔ لٹکے ہوئے فانوس اور روشنی کی بہار تھی ہر طرف ۔ جگہ جگہ فاصلے پر ٹیبل سیٹ تھے ۔ باوردی ویٹر سب کو جوس اور سوئٹس پیش کر رہے تھے۔
سنی کھڑا ہو ہو کر تھک گیا تو ایک طرف بھاگ گیا ۔وہاں کچھ اسکی عمر کے بچے کھیل رہے تھے۔ اپنی عمر کے لوگوں کے ساتھ تو الگ ہی مزا آتا ہے ۔
” مایا ۔دیکھو وہ یوسف ہے نا ” سیمل نے یونہی نظر گھمائی جب دوسرے کونے پر اسے شناسا چہرا نظر آیا ۔
” وہ یہاں کیوں ہوگا۔ ” مایا حیرت سے بولی۔
جب تک وہ دونوں یوسف کو پہچانتی وہ بھی انہیں دیکھ چکا تھا۔ فورا ہاتھ ہلاتے ہوئے آگے آیا۔
” زہے نصیب ۔ دو دو خوبصورت خواتین آج یہاں ۔یہ معجزہ کیسے ہوگیا ۔”
” داود کے مہمان ہیں ہم ۔ ” مایا نے دو لفظی جواب دیا ۔نا جانے کیوں وہ کوشش کرتی تھی یوسف سے کم ہی بات کرے اور جب بات کرتی تو اکھڑے لہجے میں کرتی۔
” اوہ تو آپ سسرالی ہیں ۔ پھر تو ہم رشتہ دار نکلے ۔ ” آنکھ دباتے ہوئے بولا ۔
مایا نے جواب نہیں دیا ۔
” میں یہاں عائشہ کی طرف سے آیا ہوں۔
فیملی فرینڈ ۔” اب کے وہ سیمل سے مجاطب ہوا ۔
آوف وائت کلر کر شرٹ کے ساتھ گرے پینٹ میں ملبوس۔ آج بال کھڑے نہیں کیے ہوئے تھے بلکے جیل لگا کر پیچھے کو سیٹ تھے۔ آج وہ واقعی کسی شریف فیملی کا لگ رہا۔ تھا ۔ ہینڈسم تو وہ تھا ہی اس پر اسکی نیلی آنکھیں ۔ صنف نازک پر باآسانی غضب ڈھا سکتی تھیں۔
” کیا آپ میرے ساتھ دانس کرنا پسند کریں گی۔ ” ماسحور کن لہجے میں بولتا وہ سیمل سے مجاطب ہوا۔
” میں۔!” وہ زرا سی گربرائی۔
” پلیز ۔ ایٹس آ پلیر فور می۔ ”
” اوکے ۔” وہ مانتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
یوسف اسے سٹیج پر لے گیا۔
پیچھے ہلکا سا میوزک بج رہا تھا۔
انکے علاوہ بھی اور لوگ رقس کر رہے تھے۔
” مجھے کچھ کہنا ہے تم سے ۔” رقس کرتے ہوئے یوسف سنجیدگی سے بولا۔
” مجھے لگتا ہے مجھے محبت ہو گئی ہے۔ ” اعتراف۔
سیمل نے ایک دم اسکا ہاتھ چھوڑا۔ اسکا زہن ایک دم بھک سے اڑا۔
“کیا۔۔!”
” ہاں مجھے تمھاری دوست سے محبت ہوگئی ہے۔” اعتراف در اعتراف
” اوہ۔۔” چہرے پر آیا تناو ایک دم ہٹا۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر سر پیچھے پھینک کر ہنسی۔ وہ بھی کیا سمجھ گئی تھی۔ ( اونہو)
” آر یو فائن ” یوسف سیمل کا یہ انداز دیکھ کر ایک دم پریشان ہوگیا۔
” تو اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ” اپنی ہنسی جھٹکتے ہوئے بولی ۔
” سیمپل میری مدد کرو ۔ اسے کنونس کرنے میں ”
” میں کیا کروں۔میں تو خود اپنی محبت کو کنونس نہیں کر پا رہی ۔” سیمل کے گلے میں کچھ اٹکا تھا جسے وہ کمال مہارت سے اندر اتار گئی۔
” ہو سکتا ہے میری مدد کرنے کے بدلے میں تمھاری محبت کنونس ہو جائے ۔” یوسف جتاتے ہوئے بولا۔
” برائیدل ۔ نا خوش لگ رہی ہے۔” سییمل بات بدل گئی۔
” یہ شادی اسکی مرضی کے خلاف ہوئی ہے۔ ” یوسف نے کندھے اچکائے۔
” اوہ “۔
مایا میرا ویٹ کر رہی ہوگی ۔میں چلتی ہوں۔ اور اگر واقعی میری دوست سے محبت کرتے ہو تو اسے خود کنونس کرکے دکھاو کسی مدد کے بغیر ۔” چیلنج کرتے ہوئے بولی اور سٹیج سے اتر گئی۔ یوسف نے بھی فورا چیلنج قبول کرتے ہوئے مسکریا۔
سٹیج سے اترتی سیمل کو معلوم نا تھا کچھ نظریں اس پر تھیں۔ مختلف انداز کی نظریں ۔ جن میں پسندیدگی تھی۔ جلن تھی اور تھی اور محبت کی شدت تھی۔
□□□
وہ ٹھورا آگے آئی تو سنی ایک بچے کے ساتھ نظر آیا ۔ بچہ رو رہا تھا اور سنی اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔
” کون ہے یہ۔ لگتا ہے اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہے۔ ” وہ فورا پاس آئی بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ بچہ اسکی کلائی میں موجود چوریوں سے کھیلنے لگا۔ کانچ کی چوڑی چھن چھن کرتی تو بچہ کھلکھلانے لگتا۔
” جانی بیٹا ۔یہاں ہو تم ” حواس باختہ سی رامین انکے قریب آئی ۔ بچے کو گود میں لیا اور پیار کرنے لگی۔
” بہت شکریہ ۔اسکا خیال رکھنے کے لیے۔ اسکے باپ نے میری جان نکال دینی تھی۔” رامین گہری سانس لیتی ہوئی بولی۔۔
” تم؟” پھر سولیا نظریں اٹھائیں۔
” حمزہ کے فیملی فرینڈ کی فرینڈ ۔ ” سیمل نے ہاتھ آگے بڑھایا ۔
” میں رامین داود ہوں۔ عائشہ کے کزن کی وائف ” رامین نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
” کیا آپ زرا میرے بیٹے کو کچھ دیر پکرے گیں۔ ” رامین نے گزارش کی ۔
” جی بلکل۔” وہ بچے کو لے کر وہیں کھڑی ہوگی۔ بچہ پھر سے اسکی چوڑیوں سے کھیلنے لگا۔
اچانک ایک آدمی اسکے سامنے آیا۔ اسکے چہرے پر طیش تھا ۔
” ہاو دیئر یو ٹچ مائی سن ” وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔
” میں ۔۔۔۔ تو بس ” وہ کچھ بولتی اس سے پہلے وہ آدمی اسکی گود سے بچہ لے کر آگے بڑھ گیا۔ اس آدمی کا پرفیوم سیمل کے ارد گرد ہی رہ گیا۔
وہ ہکا بکا سی اسے دیکھتی رہ گئی۔
کچھ فاصلے پر کھڑی رامین کو بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا۔
سیمل دیکھ سکتی تھی وہ شخص اپنی آنکھیں رامین پر گاڑھے ہوئے تھا ۔ساتھ ساتھ چبا چبا کر کچھ کہہ بھی رہا تھا۔
اسے الجھن سی ہوئی ۔
” تم کہاں رہ گئی تھی ۔ گھر سے کال آگئی ہے ۔ہمیں اب نکلنا چاہیے۔ ” مایا قریب آتے ہوئے بولی۔ عجلت میں لگ رہی تھی وہ۔
اسکے ساتھ تیزی میں باہر کی طرف بڑھتے ہوئے سیمل کا کندھا کسی مردانہ کندھے سے ٹکرایا۔ وہ جلدی میں تھی اس لیے پلٹ بھی نا سکی مگر وہ شخص کتنی دیر اسکی پشت دیکھتا رہا۔ پلک تک جھپکے بغیر ۔
” حارب ” مسز صبحانی اسے پکارتی ہوئی آگے آئیں تو وہ سر جھٹک کر ان کی طرف بڑھ گیا ۔
□□□
چار سال بعد ۔۔۔۔۔۔
لاہور میں بنے اس بنگلے میں سیمل کا کمرہ دوسری منزل پر تھا ۔
” سنی اپنا فٹبل اچھالتے ہوئے اس کے کمرے میں آیا۔ چار سالوں میں اس نے قد نکال لیا تھا ۔ وہ آتھ سال کا تھا اور اپنی عمر کے بچوں سے زیادہ بڑا لگتا تھا ۔
” سیمو یہ کیا کر رہی ہو ۔ ابا کا پھر ٹرانسفر ہوگیا ہے ۔” سیمل کو بیگ میں کپڑے ڈالتا دیکھ آگے آیا۔
سیمل نے زپ بند کی اور سر اٹھایا تو آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں۔
” سیمو کیا ہوا ” وہ پریشان سے اسکے پاس آیا۔
” سنی میری بات غور سے سنو ” وہ اس پاس بیٹھاتے ہوئے بولی۔
” تم ابا کا بہت خیال رکھو گے ۔انہیں کبھی تنگ نہیں کرو گے ۔ سکول ٹائم پر جاو گے اور ۔۔۔”
” تم یہ سب کیوں کہہ رہی ہو اور کہاں جارہی ہو ” وہ ابھی تک الجھن میں تھا۔
” میں ۔۔۔” ایک گیلی سانس اندر کھینچی ۔ ” میں موسی کو تلاش کرنے جا رہی ہوں ۔ ابا میری شادی اسامہ سے کر دیں گے ۔ میں موسی کو چاہتی ہوں ۔میں اسامہ سے ہر گز شادی نہیں کرونگی۔” وہ بار بار نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
” مجھ سے وعدہ کرو ۔سنی تم ابا کا خیال رکھو گے ۔” اپنے ہاتھوں میں اسکے ہاتھ دبائے۔
” تم مت جاو سیمو ۔ کہاں جاو گی تم ”
سنی روہنسا سا ہوا
” مجھے جانا ہو گا ۔مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہوگا ۔ اور میں واپس آونگی۔ مجھے موسی کو ابا کے سامنے بے گناہ ثابت کرنا ہے۔ تم ۔۔۔تم ابا کا خیال رکھنا” اپنے ہاتھوں میں اسکے ہاتھ مضبوطی سے دبائے پھر اپنا سر اسکے سر کے ساتھ جوڑا ۔
” تمھاری بہن تم سے بہت محبت کرتی ہے ۔ تمھاری بہن ہمیشہ تم سے محبت کرتی رہے گی۔ میں جہاں بھی ہونگی میری دعائیں تمھارے ساتھ ہونگیں۔ ابا کا خیال رکھنا اور اپنا بھی۔”
وہ بھیگے لہجے میں کہتی ہدایت دے رہی تھی۔ ابا اور سنی سے دوری کا احساس ہی اسکی جان نکال رہا تھا مگر اسے ہر صورت میں موسی پر لگا الزام ہٹانا تھا۔
جب ابا سو گئے اس وقت سیمل پچھلے دروازے سے باہر نکلی۔ سنی نے کمرے کی کھڑکی سے اسے گیٹ سے نکلتے دیکھا ۔
سیمل مڑی اور سر اوپر اٹھایا ۔
سیمل کی نظروں میں بے بسی تھی اور سنی کی نظروں میں شکوہ ۔
وہ آگے بڑھ گئی۔ ایک کالی کار آگے آکر رکی۔ سیمل نے اندر بیٹھے ہوئے ایک بار مزید سنی کی طرف دیکھا۔ وہ نظر نہیں آیا۔ وہ اسے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔
وہ بھاری دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تو وہ زن سے آگے بڑھ گئی۔
وہ ساری رات سنی نے کھڑکی میں کھڑے گزاری۔ وہ کہہ گئی تھی لوٹ کر آئے گی ۔ کیا پتا ابھی واپس آجائے ۔ کیا پتہ کبھی نا آئے۔
اور وہ ایسے ہی کھڑا رہ جائے۔
□□□