“تم آئی کیوں نہیں؟” وہ پوچھ رہا تھا… “شام پانچ بجے کا وقت دے رکھا تھا… اب دس بج رہے ہیں…”
انگوٹھی کو مٹھی میں ہی بھینچ کر فرزام دو قدم آگے ہوا… اس کے برابر آ کر کھڑا ہوا اور اس کی طرف دیکھنے لگا… ایک نظر افق کو دیکھا… وہ اس وقت چکرا کر گرنے کے قریب تھی…
وہ مسکرا رہا تھا… “تمہیں میں بعد میں پوچھتا ہوں… یہ کون ہیں؟ ان سے تعارف کرواؤ… تمہارے کزن ہی ہوں گے… میں اپنا تعارف خود ہی کروا دیتا ہوں… آئی ایم ڈاکٹر عدن غلام علی… آپ کہہ سکتے ہیں افق کا امان…”
ہاتھ اس نے آگے کیا… جسے تھاما نہیں گیا… فرزام’ افق کی طرف دیکھ رہا تھا… افق’ عدن کے آس پاس پھیلے اندھیرے کو دیکھ رہی تھی… جو اسی کی طرف بڑھ رہا تھا… افق گونگی بن گئی اور فرزام بہرا ہونے کے قریب تھا…
“افق کا امان” فقرے کی بازگشت بہت جان لیوا تھی اور یہ بازگشت تھم ہی نہیں رہی تھی… کینیڈا میں ترتیب دیے گئے سارے جملے اس باز گشت کے بھنور میں جا پھنسے…
“ایک ہفتہ پہلے مجھے یہ مل تھیں… آج کے دن کا وعدہ کیا تھا’ دوبارہ ملنے کا… یہیں قریب میں ہی ایک ہوٹل ہے… میں کافی دیر سے وہاں بیٹھا انتظار کر رہا تھا… وہاں تو یہ آئیں نہیں’ یہاں نظر آ گئیں… میرے رہا ہونے کو سیلیبریٹ کرنا تھا… سب افق کی وجہ سے ہی ہوا… ورنہ میں ابھی تک جیل میں ہی ہوتا…”
افق نے فرزام کا بازو کھینچا… “چلیے! گھر چلتے ہیں…”
“یہ کیا کہہ رہا ہے افق؟” فرزام کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا… وہ جو سن رہا تھا’ اس کے بعد لگتا تھا کہ اگلا کچھ سنائی نہیں دے گا…
“یہ جھوٹ بول رہا ہے…” افق بمشکل کہہ سکی…
سامنے کھڑا عدن مسکرایا… “یہ کریڈیٹ لینا ہی نہیں چاہتی… میں نے ٹیبل صرف دو لوگوں کے لیے ہی بک کروائی ہے… ورنہ میں آپ کو بھی ضرور انوائٹ کرتا… آپ سمجھ ہی سکتے ہوں گے…” وہ فرزام کی طرف دیکھ کر بات کر رہا تھا… آخر میں گھٹیا انداز سے آنکھ ماری…
شریف بیویوں کے شریف شوہر سرِراہ ایسے الفاظ اور ایسے گھٹیا انداز پر گریبان پکڑ لیا کرتے ہیں…
“یہ کیا کہہ رہا ہے؟” پھر سے یہی سوال سختی سے کہا
گیا…
“چلیے گھر پلیز…” افق اس کا کوٹ کھینچ رہی تھی… “یہ مجھے بلاوجہ تنگ کر رہا ہے…”
“میں تنگ کر رہا ہوں…” وہ ہنسا… “تم ایسے کیوں بات کر رہی ہو؟ ابھی چند دن پہلے تو تم مجھ سے ملی تھیں…ملی تھیں کہ نہیں؟ تب تو تم ٹھیک تھیں… اب ایسے بات کر رہی ہو… اپنے کزن سے ڈر رہی ہو؟ انہیں میرے بارے میں بتایا نہیں؟”
افق نے فرزام کے بازو پر دباؤ ڈالا اور آگے چلنے لگی…
“تمہارا یہ رویہ مجھے حیران کر رہا ہے افق!” ساتھ ساتھ چلتے وہ بلند’ حیران آواز میں بولا “تم نے مجھے جیل سے ضمانت پر آزاد کروایا ہے… مجھے اپنا شکریہ تو ادا کرنے
دو…”
وائٹ گولڈ کی انگوٹھی فرزام کی مٹھی میں ہی شرمندہ ہو گئی… اس کا بازو گھسیٹتی تیز تیز چلتی افق اسی انگوٹھی میں ٹوٹ پھوٹ گئی… فرزام نے اپنا بازو افق کے ہاتھ سے آزاد کروایا…
“تم نے اسے جیل سے آزاد کروایا؟” خود رک کر اور اسے بھی روک کر وہ پوچھ رہا تھا… عدن دو قدم دور کھڑا تھا… افق نے فرزام کی طرف التجا سے دیکھا کہ یہاں سرِراہ اس گناہ کے سامنے’ جو دو قدم ہی پیچھے کھڑا ہے’ یہ سب نہ پوچھے… اس پر شک ضرور کرے لیکن اس پر یقین بھی رکھے…
اپنے پیچھے کھڑے شخص سے اسے نفرت تھی… اپنے سامنے کھرے شخص میں اس کی جان تھی اور ان دونوں کے درمیان کھڑی وہ ڈوب مرنے کے قریب تھی… اس کی خوشی ملیامیٹ ہو گئی… اس بار سرِراہ اس کی عزت پر غلام علی نے نہیں’ عدن غلام علی نے ہاتھ ڈالا تھا…
کیا وہ یہ کہتی’ ہاں کیا…… یا کہتی نہیں…. دونوں ہی سچ تھے اور دونوں ہی جھوٹ تھے… اس سوال کا سیدھا جواب کوئی نہیں تھا… اس سوال کے سب الٹے اور الجھے ہوئے جواب تھے… جواب دینے میں یہ معمولی سا تامل فرزام کو بہت سے جواب ایسے ہی دے گیا… ایک دم ہی وہ افق سے بہت دور جا کھڑا ہوا…… بہت دور…
“تم اپنا وعدہ پورا کرو…” وہ آگے بڑھا… اس کے ہاتھ سے بیگز لیے اور تیزی سے چلنے لگا…
“فرزام!” اس نے بلند آواز میں چیخ ہی مار دی تھی… وہ رکا نہیں… وہ بھی تیز تیز چلتی اس کے پیچھے گئی… “میری بات سنیے! میں سب بتا دیتی ہوں… ایسے نہ کریں…”
“بتانا ہوتا تو تم چھپاتیں کیوں؟”
اسی کی طرح تیز آواز میں اپنی آواز کہ نمی چھپا کر وہ بھاگنے کے قریب تیز ہو گیا… اگر وہ رکا تو وہ واقعی عین سڑک پر سب کے درمیان زمین پر پھیل کر اونچی آواز سے رونے لگے گا اور اس بار وہ بہت روئے گا…
افق “فرزام’ فرزام!” ہی کرتی رہ گئی… وہ ٹیکسی لے کر چلا گیا… افق ہانپنے لگی… کوٹ کا کالر آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا…
فرزام کے لیے کیا گیا میک اپ بہہ رہا تھا… وہ پھر سے گھٹنوں میں سر دے کر رونے کے لیے تیار تھی اور وہ اونچی آواز سے رونے لگی… عدن اس کے سر پر آ کھڑا ہوا…
“چلیں افق!”
ساری نفرت اور پوری قوت سے اس نے زوردار تھپڑ اس کے دائیں گال پر لگایا… اس بددعا پر جو نہ جانے اسے کون دے گیا تھا… وہ وقت ہی ہو گا…
……… ……………… ………
چند قانون دانوں کے بیان اور سینیٹرز کے شور مچانے پر اتنا ضرور ہوا کہ ایسے کیسوں کی سماعت میں تیزی آ گئی… ویسے بھی وہ سالوں سے بند تھے… انہیں اب سزا سنائی جانی تھی یا رہا کر دیا جانا تھا… عدن اور اس کے جیسے چند اور لوگ باہر رہ کر کیس لڑ سکتے تھے… لیکن وہ امریکا سے باہر نہیں جا سکتے تھے… کیس کی سماعت میں تیزی آتے ہی عزیز نے جان لگا دی تھی… وہ ایک بےحد محنتی اور ایمان دار انسان تھا اور حقیقتاً عدن کے لیے پریشان تھا… اسے معلوم تھا کہ لالچ میں اس سے غلطی ضرور ہوئی ہے… لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے ساتھ یہ سب کیا جائے…
اسے امید تھی کہ جلد ہی اس کا مقدمہ بھی ختم ہو ہی جائے گا… فی الحال یہی بہت تھا کہ وہ باہر آ چکا تھا… عدن نے عزیز کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اسے افق کے بارے میں بتائے… لیکن عزیز نے صاف لاعلمی ظاہر کر دی کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتا… عدن کو یقین نہیں آ رہا تھا…
عزیز نے اس کے لیے رہائش کا انتظام کر دیا تھا… پاکستان میں وہ سب سے بات کر چکا تھا… اب اسے صرف بات کرنے کے لیے افق چاہیے تھی… وہ اس ہیومن رائٹس کے ادارے کے دفتر آ گیا… جس کا نمائندہ اسے سیل میں آ کر ملا تھا… بظاہر وہ ان کا شکریہ ادا کرنے گیا تھا… لیکن باتوں ہی باتوں میں وہ معلومات لیتا گیا کہ ان کے پاس عدن کا کیس لے کر کون آیا تھا… اسے مسٹر جین کے اور ان کی این جی او کے بارے میں بتایا گیا… افق کے بارے میں بھی بتایا گیا… مسٹر جین کی این جی او کی ویب سائٹ پر اسے چند ماہ پہلے ہوئے فنڈ ریزنگ ایونٹ کی بہت ساری تصاویر ملیں… اسے بتایا گیا تھا کہ افق نے ان کی این جی او کے لیے کام کیا ہے… ان کے لیے فنڈز اکٹھے کیے ہیں… مختلف ویب پیجز کا جائزہ لیتے اس کی نظر اس پیج پر بھی پڑی… جس میں فنڈ ریزنگ میں اچھے اسکور لینے والوں کے نام اور ان کے جمع کیے گئے فنڈز کی نشاندہی کی گئی تھی… بہت سے ناموں میں ایک نام افق کا بھی تھا… ایک طرف اس کی پیش کی گئی برانڈ “چنر” کا نام درج تھا… بریکٹ میں ملک کا اور شہر کا نام درج تھا…
عدن نے سرچ انجن میں چنر کی ویب سائٹ نکال لی اور جہاں جہاں برانڈ چنر مل سکتی تھی’ وہ پتے بھی ان میں سے ایک پتا بوسٹن کے ایک اسٹور کا تھا’ جہاں سے اس برانڈ کو خریدا جا سکتا تھا…
وہ بہت خوش تھا… اس نے اسے ڈھونڈ لیا تھا… اب وہ افق کو سرپرائز دینا چاہتا تھا… ایک بار اسٹور جا کر اس نے تصدیق کر لی تھی کہ وہی افق ہے… اسے بتایا گیا تھا کہ وہ دو یا تین دن بعد وہاں کا چکر لگاتی ہے… رابطہ نمبر کے طور پر اسے پاکستان میں موجود آفس کا کارڈ ہی دیا جا رہا تھا…
وہ مسلسل دو دن وہاں جاتا رہا… وہ قریبی ریسٹورنٹ میں بیٹھ جاتا… جہاں سے وہ اسٹور پر نظر رکھ سکتا تھا… سارا دن ایسے ہی بیٹھا رہتا… سالوں بعد وہ اسے دیکھنے جا رہا تھا’ اس سے ملنے جا رہا تھا… اس نے اس کی زندگی بچا
لی… اسے باہر نکالا… اس پر اس کی زندگی کا سب سے بڑا احسان کیا… عین مرنے کے وقت اسے زندگی کی نوید دی… اس کا اسپتال ضبط کر لیا گیا تھا… ڈاکٹری کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا تھا… اس کی صحت’ اس کا مردانہ حسن و وجاہت سب کچھ تباہ ہو چکا تھا… رشتے اور رتبے کے نام پر اس کے پاس کچھ نہیں رہا تھا… شروع کے صرف دو ڈھائی سالوں میں ہی اس کی ہمت پست ہو چکی تھی…ماریہ جس طرح اسے چھوڑ گئی… اس نے اپنا سر دیواروں پر مارا…
وہ اسے چھوڑ جاتی لیکن اس کی تھوڑی مدد تو کر دیتی… وہ امریکن تھی… وہاں پیدا ہوئی تھی… اس کے لیے بہت کچھ کر سکتی تھی… الٹا اس نے طلاق لے لی اور اس کا سسر جس کی گندی بیٹی کی وہ چوکیداری کرتا رہا تھا… ایک بار آ کر اس سے ملا تک نہیں… وہ دنوں ان دونوں کو گالیاں دیتا رہا… وہ انہیں بدذات سمجھتا تھا… وہ عدن کے لیے ایسے بےغیرت تھے… جس میں نام کی بھی غیرت نہیں تھی… نائٹ کلب میں ڈانس کرنے والی ڈانسر بھی اس کے نزدیک ماریہ سے زیادہ شریف اور قابل عزت تھی…
اسے احساس ہوا کہ وہ دراصل اپنے پیمانے سے گر گیا تھا… اس کا پیمانہ صرف افق تھی… جہاں اس نے کالج کی بہت سی جان چھڑکنے والی امیرزادیوں کو لفٹ نہیں کروائی تھی… وہاں اس نے یہ لفٹ صرف افق کو کروائی تھی… اس نے فاش غلطی کی جو وہ بہک گیا… جبکہ اس نے سوچ ہی لیا تھا کہ اسے صرف افق سے ہی شادی کرنی ہے… وہ اچھے خاصے مہنگے پرائیویٹ اسپتال میں نوکری کر سکتا تھا… اپنا کلینک بنا سکتا تھا… بےحد پرآسائش نہ سہی’ آرام دہ زندگی ضرور گزرتی… لیکن یہ آرام دہ زندگی اسے امریکن چند فٹی سیل میں بیٹھ کر دکھائی دی… جب وہ یہاں نہیں تھا تو اسے ڈبل اسٹوری اسپتال بنا بنایا بوسٹن میں نظر آ رہا تھا… آغا کے اسٹورز کی چین نظر آ رہی تھی… غلام علی غلام کو آغا کے ذاتی طیارے کے مالک ہونے کا غرور توڑنا تھا…انہیں اس شخص آغا سے شدید نفرت تھی… اس شخص نے ہمیشہ انہیں ہر میدان میں پیچھے چھوڑا تھا… عیاش’ الو’ بےغیرت… وہ اسے بہت سے ناموں سے یاد کرتے… لاس ویگاس میں وہ جا جا کر کیا کرتا ہے… ایک دن غلام علی نے بہت رازداری سے ازبک بیوی کے کان بھرنے چاہے وہ پہلے تو اپنے شوپر کی طرح سنتی رہی…
“وہ ایک ماہر جواری ہے… یہ میں جانتی ہوں… باقی کی معلومات مجھے کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ ہیں…” مطلب آئندہ اپنی بکواس بند ہی رکھنا…
تب اسے ماریہ جنت نظر نظر آئی تھی… جو حور بھی تھی اور ایک دنیاوی جنت کی مالک بھی… تب کیوں س. ٹھیک لگتا تھا؟ اب سب کیوں برا لگ رہا ہے؟ عدن یہ بات نہیں جان سکا… وہاں وہ دن رات ایک ہی کام کرتا… “وہ افق کو یاد کرتا” ان دنوں اس پر افق کی محبت کا بھوت برے طرح سے طاری ہو گیا… اسے اس کے نام کے دورے پڑتے…
وہ یہی تانے بانے بنتا رہتا کہ اگر وہ آج یہاں نہ ہوتا تو ایک گھر میں افق کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوتا… اس کے بچے ہوتے… بےحد محبت کرنے والی بیوی ہوتی… تب اسے معلوم ہوا کہ زندگی میں ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسری کی تمنا نہیں کرنی چاہیے… “سکون اور محبت”
اسے یاد آتا کہ وہ اس سے کتنی بےلوث محبت کرتی تھی… ایسی محبت جو کچھ مانگتی نہیں’پر دے سب دیتی ہے…
“اتنی اچھی پلاننگ میں یہ سب کیسے ہو گیا…” وہ اپنے بال نوچتا… جب سب افق کے ساتھ سارے منصوبے بنا چکا تھا تو وہ سب کیوں نہ مضبوط رہا…
اتنے سالوں میں غلام علی نے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا… آسٹریلیا میں پڑھنے والا اس کا چھوٹا بھائی حادثے کا شکار ہو گیا تھا… اس کی ریڑھ کی ہڈی تباہ ہو چکی تھی… غلام علی کے پیسے کے کنوئیں خالی ہو رہے تھے…
ان گزرے سالوں میں ان کی کمر ٹوٹ چکی تھی… فیکٹریاں نقصان میں ہی جا رہی تھیں… قرضوں کی قسطوں کی ادائی نہ ہو سکی… سود در سود بڑھ گیا… یہ کھیل غلام علی کے ہاتھوں سے نکل گیا اور دونوں فیکٹریاں بینک نے ضبط کر لیں… جس فیکٹری میں آگ لگی تھی اس سمیت بینک نے فیکٹریاں نیلام کر دیں… غلام علی کے پاس ایک چھوٹی تین کنال کی فیکٹری ہی بچی تھی… یہ ایسے ہی تھا جیسے وہ مرسیڈیز چلاتے چلاتے سائیکل پر آگئے ہوں… لاہور ڈی ایچ اے کا بنگلہ بھی بک چکا تھا… سیالکوٹ کا گھر ہی بچا تھا… فارم ہاؤس پر بھی مزید قرضہ لے لیا گیا تھا…
غلام علی چاہتے تھے کہ بس وہ جلد سے جلد واپس آ
جائے… اب بھی وہ اسے چھوٹا سا اسپتال تو بنا کر دے ہی سکتے تھے نا… اسپتال کے کاروبار میں اتنا منافع ہے کہ دنوں میں ہی ان کا نقصان پورا ہو ہی جائے گا… پھر وہ تو امریکن ڈاکٹر بھی ہے… کہنے میں کیا جاتا ہے کہ اتنے سال اس نے امریکا میں پریکٹس کی ہے… امریکیوں کا علاج کرتا رہا
ہے… پاکستان میں انہوں نے اس کے جیل جانے کی خبر کو سب سے چھپا کر رکھا تھا… وہ فیکٹری بیچ کر اسے ایک بڑا اسپتال بنا دیں گے اور نہیں تو چھوٹے چھوٹے دو تین ہی بنا لیں گے… غلام علی نے بہت اعلا منصوبے بنا رکھے تھے…
“حالات یہ ہی رہے تو ہم فٹ پاتھ پر آ جائیں گے…” بارہ کینال کے گھر میں رہنے والے غلام علی کو فٹ پاتھ کے نام سے ہی نفرت تھی… جبکہ یہی فٹ پاتھ گاہے بگاہے انہیں خواب میں دکھائی دیتا تھا…
“تم بھاگ نہیں سکتے وہاں سے؟ کوئی ایجنٹ ڈھونڈو عدن! کوئی تمہیں کینیڈا کے راستے یا برازیل کے راستے نکال سکے… میں یہاں بھی ایسا ایجنٹ ڈؤنڈ رہا ہوں… تم بھی کوشش کرو… سنا ہے یہ سیاہ فام بہت طاق ہیں ان کاموں میں… بہت سوں کو امریکا لے آتے ہیں غیر قانونی…”
اس نے سنتے ہی صاف صاف انکار کر دیا… “میں دوبارہ پھنس جاؤں گا اگر ایسے بھاگتے پکڑا گیا تو ان کا شک یقین میں بدل جائے گا… وہ مجھے دہشت گرد ہی سمجھ لیں گے… میں مر جاؤں گا یہیں مقدمہ بھگتے بھگتے لیکن دوبارہ جیل نہیں جاؤں گا…”
“مرد بنو عدن…. زندگی میں خطرات مول لینے ہی پڑتے
ہیں…”
“میں سوئی چبھنے جتنا خطرہ بھی مول لینا نہیں چاہتا…” صاف انکار…
“اتنے ڈرپوک ہو تم…” انہیں غصہ آ گیا…
“جیل میں رہا ہوں… پولیس والوں کی شکل دیکھتے ہی جان نکل جاتی ہے…”
“امریکا کا پانی پی کر تم بزدل بن گئے ہو…” وہ اسے اکسا رہے تھے…
“امریکا نہیں’ جیل کا پانی پی کر…”
“مرد ہی جیلوں میں جاتے ہیں…”
“پھر وہی مرد کسی اور قابل نہیں رہتے پاپا…”
انہوں نے فون ہی بند کر دیا… ایک طرف اس کے آنے کی خوشی’ دوسری طرف اس کی بزدلی پر افسوس…
اس کی ہائی فائی فیشن ایبل ماں ڈپریشن کی مریضہ بن چکی تھی… وہ روتی پہلے تھی… بات بعد میں کرتی تھی… اس کی بہن نے یونیورسٹی کے ایک لوئر مڈل کلاس لڑکے سے خود ہی شادی کر لی تھی اور آج کل وہ دبئی میں
تھی… غلام علی کو ایک عرصہ منانے کے بعد اس نے اس لڑکے سے خود ہی نکاح کر لیا… اس کے باپ کے پاس دولت کے علاوہ کوئی دلیل نہیں تھی دی جانے کے لیے اور اس کے پاس دولت کے علاوہ ہر دلیل تھی’ اس لڑکے کے حق میں دی جانے کے لیے… اسے اپنی بہن کے بارے میں معلوم ہوا تو اسے خود پر اور افسوس ہوا… کاش! وہ بھی اپنی بہن کی طرح کا ہی ہوتا…
رہائی کے تیسرے روز رات کے وقت اپنے فلیٹ میں اندھیرا کیے وہ آخری بازی ہارا شخص بنا بیٹھا تھا… سودوزیاں کا حساب وہ جیل میں ہی لگا چکا تھا… ماریہ سے لے کر اپنی ڈاکٹری تک… غلام علی سے آغا تک… اس نے ہر چیز کی گنتی کر لی تھی… اسے سب مایا اور کھوکھلا نظر آیا… سب بےکار… اسے بہت احساس ہوا کہ زندگی کی اصل کامیابی اصل اور کھرے انسانوں کا حاصل کرنا ہے… انسانی تعلقات میں اول آنا ضروری ہے… جذبوں اور سچائی میں اول…… وہ جان گیا کہ برے وقت میں انسان کو صرف ایک ہی چیز کہ ضرورت پڑتی ہے… “اپنے انسان کی”
قید کے عرصے میں وہ ایسی کان میں دبا رہا’ جہاں اسے کوئلوں اور ہیروں کی پہچان ملی… تاعمر اس نے کوئلوں سے ہی خود ہی کو سیاہ کیا تھا… ہیرے کو تو اس نے ٹھوکر مارنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی… افق کو…..طہٰ کو…… اس کی بہن فضا کو…. اپنے اسکول دوست طہٰ کی بہن فضا کو اپنے پیچھے پاگل کر دیا… آج وہی طہٰ ٰاقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کا ہیڈ تھا… اس کی بہن جس نے عدن کے لیے نیند کی گولیاں کھا لی تھیں… ریڈ کراس کے لیے کام کرتی تھی اور وہ چار دوست جو اس کے ساتھ ڈی ایچ اے کے بنگلے میں رہے تھے… وہی ایگل گروپ کے ممبرز…… آج بڑے بڑے ڈاکٹر بن چکے تھے… ایک تو امریکا میں ہی ہارٹ سرجن تھا… غلام علی نے تعاون کے لیے جب رابطہ کیا تو اس نے صاف انکار کرنے کی زحمت بھی نہیں کی اور آئندہ سے ان کا فون سننا ہی بند کر دیا…
تو ایسی صورت حال میں…… اس سب حساب کتاب میں اس کے پاس افق ہی بچی تھی… این جی او کے نمائندے سے اس کے بارے میں جان کر پہلے تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ نیلے گنبد میں رہنے والی بمشکل ایف اے پاس لڑکی نے اتنی بڑی این جی او کو حرکت دے دی ہے… اس نے بار بار نمائندے سے پوچھا کہ “کیا وہ ایک پاکستانی مسلم لڑکی افق کی بات کر رہا ہے…” تو اس نے بتایا کہ “ہاں! یہی لڑکی ان کے دفتر میں آئی تھی اور اس کے بارے میں بتا کر گئی تھی…”
اس رات عدن نے یہ نہیں سوچا کہ وہ کیسے اتنی کامیاب ہو گئی… اس نے صرف اتنا سوچا کہ اس کے لیے افق اتنی فعال ہو گئی…
باہر نکلتے ہی وہ اب اس سے شادی کر لے گا… اس نے اور افق نے بہت انتظار کر لیا… بس…… اسے اس کی میٹھی آواز اور بھولی صورت یاد آئی…. شرافت سے جھکا اس کا سر اور محبت سے بھرا اس کا دل….. اب یہ دل کسی اور کا نہیں…
……… ……………… ………
کالج سے سیدھا وہ اسٹور آ گئی تھی…
“کوئی آپ کے بارے میں پوچھ رہا تھا…” اسٹور کے ورکر نے اسے بتایا…
“کون تھا؟”
“نام نہیں بتایا…… صرف پوچھ رہے تھے…”
“آرڈر دینا تھا؟”
“میں نے آرڈر کا پوچھا تو مسکرانے لگے… پوچھ رہے تھے کہ آپ کب’ کب آتی ہیں… میں نے کارڈ دے دیا تھا آپ کے ہیڈ آفس کا…” کچھ ہی دیر میں وہ اسٹور سے باہر آ گئی… جب پیچھے سے کسی نے آ کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا…
“فرزام……” ایسا صرف وہی کر سکتا تھا…
“یہ فرزام کون ہے؟” ہاتھوں کو فوراً ہٹا لیا گیا… آواز پر وہ ایسے پلٹی’ جیسے سانپ نے کاٹ مار لیا ہو… جس پر اس کی نظر پڑی… وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ….. شان دار عمارت کا بدنما کھنڈر بنا عدن تھا… اس کی سرخ و سفید دودھیا رنگت’ لمبے عرصے سے گردوں کے عارضے میں مبتلا مریض سے بدرنگی اور گد میلی ہو چکی تھی… تھوڑا بہت جو گوشت جسم پر بچا تھا’ وہ ڈھلتی عمر کے بیماری زدہ مرد کی جھریوں بھری کھال جیسا تھا…
اپنے وقت کا شاہکار عدن عرف امان’ کھنڈرات بنا کھڑا تھا…
“یہ فرزام کون ہے افق؟” اس نے دوبارہ پوچھا… کون تھا’ جو اس طرح اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ سکتا تھا اور کون تھا’ جس کے ہاتھ رکھنے پر افق کو کوئی اعتراض نہیں
تھا… وہ صبح سے اس کا یہاں آ کر انتظار کر رہا تھا… ریسٹورنٹ اسٹور کے سامنے تھا… لیکن سڑک پار کر کے… کئی بار وہ اسٹور کے قریب بھی چلا گیا تھا… ریسٹورنٹ اوپن تھا اور دن کے شروع میں وہاں زیادہ رش نہیں ہوتا تھا… اس کی نظر ایک طرف اٹھی اسے گمان ہوا ک یہ افق ہی ہے… لیکن اسے یقین نہیں آیا کہ کیا یہ افق ہو سکتی
ہے… وہ کپ آئس کریم کھا رہی تھی… نیلے رنگ کی پسٹل جینز پر اس نے مشرقی طرز کا کرتا پہنا ہوا تھا… ہلکے خاکی کرتے پر اس نے گہرے سرخ رنگ کا اسکارف گردن کے گرد لپیٹا ہوا تھا… بال کھلے ہوئے تھے اور بالوں میں سرخ ہی رنگ کا ہیر بینڈ لگا ہوا تھا… دونوں کانوں میں ایر فون فکس تھے اور کپ سے چمچے سے آئس کریم نکال نکال کر کھاتے ہوئے وہ ہنس رہی تھی… وہ یقیناً کسی سے فون پر بات کر رہی تھی…
“میں تمہارے آس پاس ہی ہوں…” فرزام کہہ رہا تھا…
“کوئی نہیں…” اس نے آس پاس دیکھا…
“گردن گھماؤ مت نا….. اسے ذرا سا جھکا لو…”
وہ ہنسی…. وہ سمجھ گئی….. اس کے پاس چند منٹ ہی تھے بات کرنے کے لیے… عدن کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ یقین کرے کہ سرخ اسکارف میں جو لڑکی شرارت چال چلتی جا رہی ہے’ وہ افق ہی ہے…
اتنے سالوں میں کیا اس نے صرف یہی ایک کام کیا کہ وہ اور سے اور خوب صورت ہوتی گئی… اس بار اس نے اپنے ساتھ کیا کیا…. کیا کہ وہ اتنی خوب صورت ہو گئی’ اتنی پراعتماد… بوسٹن کی سڑک پر وہ ایسے چل رہی ہے… جیسے بوسٹن میں ہی پیدا ہوئی ہے… چادر کا کونا منہ میں دبا
کر…… سر کو جھکا کر پیدل چلنے والی…. ہر ادا پر گھبرانے والی….. ڈر جانے والی’ کس ادا سے ہنس رہی ہے… اسے دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اسے کوئی فکر’ کوئی غم نہیں ہے… عدن کا تصور ذرا الٹ تھا… اس میں ایک تصور خاص غالب تھا کہ وہ اداس آنکھیں لیے ہر طرح سے بہت اداس ہو گی… اپنے امان سے دور…… اس کی جدائی میں گھلتی’ اس کے پیار کے لیے تڑپتی’ افق عبدالقدوس…
وہ چل کر اسٹور کے پاس ہی آ کر کھڑا ہو گیا تھا…
افق نے نفرت سے اسے دیکھا… عدن اس نظر پر حیران رہ گیا…
“ہو آر یو؟” اس سوال پر بھی حیران رہ گیا…
“میں کون ہوں؟” اس نے ہنسنے کی صرف کوشش ہی کی…
“تمہاری جرات کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی؟” اگلا سوال پہلے سے بھی برا تھا… انداز اس سے بھی بدتر تھا… ساتھ ہی وہ اپنے بیگ میں سے کچھ ڈھونڈنے لگی… موبائل ہاتھ میں نکال کر پکڑا…
عدن اسے دیکھتا رہ گیا… “تم پولیس کو فون کر رہی ہو؟” اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب افق کر رہی ہے…
“آئی….. ایم سوری افق… ایسے تو نہ کرو…” فون کو ہاتھ میں پکڑے پکڑے ہی افق نے اسے دیکھا…
“تم نے مجھے ہاتھ کیوں لگایا؟” کہنا تو وہ یہ چاہتی تھی کہ تم باپ’ بیٹے نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے…
“میں پھر سے سوری کہتا ہوں….. لیکن تم میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہی ہو؟” اس کے انداز اور کڑے تیوروں پر وہ بری طرح سے الجھ گیا… ساتھ ہی اس کی آواز رندھ گئی اور آنکھوں میں نمی نظر آنے لگی… افق کو بڑا ترس آیا…
“کیا چاہتے ہو ڈاکٹر عدن….. کیوں آئے ہو یہاں؟”
“تمہیں شکریہ کہنے آیا تھا…” فی الحال وہ یہ کہہ ہی نہیں سکا کہ تم سے فوری شادی کرنے کے لیے آیا ہوں’ جو افق اب اس کے سامنے کھڑی تھی’ وہ چادر کا کونا منہ میں دبا کر بیٹھی افق نہیں تھی…
“کیوں؟” افق نے حیران ہونے کی کمال اداکاری کی…
“مجھے معلوم تھا کہ تم ہی مجھے آزاد کرواؤ گی…”
“میں نے؟ میں نے کیا کیا؟ تم جیل میں تھے کیا؟”
عدن اس بات پر الجھ گیا… “اتنی بڑی این جی او کا نمائندہ تم ہی نے تو بھیجا تھا میرے پاس….. مارش نام تھا اس
کا…”
“میں نے تمہارے پاس کوئی نمائندہ نہیں بھیجا تھا…”
“اس نے خود مجھے تمہارا نام بتایا تھا…”
“تو تم بھی جیل میں تھے؟ وہ تمہارے پاس بھی چلا گیا؟” عدن اور الجھ کر اسے دیکھنے لگا…
“این جی او جن لوگوں کے لیے کام کر رہی تھی… مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان میں تم بھی ہو….. ہم نے عرب…… بنگلہ دیش اور چند دوسرے ملک کے لوگوں کے لیے تھوڑا سا کام کیا تھا اور بس….” افق نے کندھے اچکائے…
“تم جھوٹ بول رہی ہو…” عدن کو یقین ہی نہیں آیا…
“تم کیا سمجھ رہے ہو’ مجھے اس سے مطلب نہیں ہے…”
“تم ایسے کیوں کر رہی ہو افق؟” وہ پھر سے رو دینے کے قریب ہو گیا…
“کیسے؟”
“اجنبی کیوں بن رہی ہو….. اتنے سالوں بعد ملی ہو… کوئی حال احوال پوچھو… کوئی بات کرو… میں پاگل ہو رہا تھا تم سے ملنے اور تمہیں دیکھنے کے لیے…”
“تم نے کہا’ تمہیں میرا شکریہ ادا کرنا تھا… جب کچھ کیا ہی نہیں تو کیسا شکریہ…” افق نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا…
“تم جھوٹ بول رہی ہو…… صاف جھوٹ…. تم تو جھوٹ بولتی ہی نہیں افق! اب کیوں؟ میں جانتا ہوں’ تم ناراض ہو مجھ سے…”
اس سب پر افق کا جی چاہا کہ وہ دھکا دے کر اسے سڑک پر گرا دے… اب یہ شخص اس سے اور کیا چاہتا ہے… اس کی سب خوبیوں کو جانتے ہوئے بھی چھوڑ گیا تو اب اور کیا چاہتا ہے… نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہاتھوں اس کی مدد ہو گئی تھی… اس مدد کو اس نے انسانیت کے خانے میں لکھ دیا تھا… عدن کے خانے میں نہیں…
“تم نے اپنی محبت کا حق ادا کر دیا…” عدن کی اگلی بات افق کو چانٹے کی طرح لگی…
“کون سی محبت؟” افق کا سر گھوم گیا… اب ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہو رہا… شاید بہت غلط ہونے جا رہا ہے…
“ہماری محبت….” اس نے بڑے دھڑلے اور جوش سے کہا…
“ڈاکٹر عدن….. زبان سنبھال کر…” اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی… “میری محبت میرا شوہر ہے اور بس….. اس چکر کو جس میں مجھے پھنسایا تھا’ اسے محبت کا نام مت دو…”
قید سے پہلے “تم دہشت گرد ہو…” اس پر آسمانی بجلی بن کر گرا تھا… رہائی کے بعد “میری محبت’ میرا شوہر” وہی بجلی بن کر اس پر گرا… حیرانی’ صدمہ’ خوف’ لاچاری’ بےبسی’ دکھ’ سب آگے پیچھے اس پر وارد ہوئے… جب اسے مارش نے افق کے بارے میں بتایا تو وہ یہی سمجھا کہ قسمت افق پر مہربان ہو گئی ہے اور اس نے کسی نہ کسی طرح اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ امریکہ تک آ پہنچی ہے…
“تم نے شادی بھی کر لی افق؟” یہ بازی بھی ہاتھ سے گئی… عدن کا یہ سوال ایسے تھا کہ تم نے تو مجھے موت کی ہی سزا سنا دی… اس کا گدمیلا رنگ سیاہ پڑ گیا… دو آنسو آنکھوں سے نکلے…
ایک بار پھر سے افق کو اس پر ترس آیا…
“کیوں نہ کرتی؟” اس نے بہت اعتماد سے پوچھا… عدن کو تو شکرگزار ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس کا گریبان نہیں پکڑ رہی… کوئی سوال نہیں کر رہی… اس نے بمشکل سر کو ہلایا…
“ہاں کرنی چاہیے تھی…” اس کی طرف سے پیٹھ موڑ کر وہ مخالف سمت میں چلنے لگا…
“دوبارہ کبھی میرے راستے میں مت آنا…” افق کی آواز اس کے پیچھے آئی… اس نے تائید میں سر کو ہولے سے ہلا دیا… اب وہ ایک ایسے انسان کی طرح سڑک پر چل رہا تھا’ جو نہ کسی میدان کا کھلاڑی تھا’ نہ ہی تماشائی… دنیا کے سب ہی کھیل تماشے اس کے لیے ختم ہو گئے… بےنام قدم ہی اٹھیں گے اب… جو کہیں بھی رک جاتے ہیں اور کسی سمت بھی نہیں جاتے…”
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...