کمرے کا دروازہ کهلا اور بند هوگیا عنایہ کا دل دهڑک سا گیا ایک انجانا سا ان دیکها شخص صرف دس دنوں میں اسکی زندگی بهر کا ساتهی بن گیا تها دل میں لاکهوں ارمان تهے
لمبے سے گهونگٹ میں وہ مسکرادی
تبهی وہ ایک ہارے هوۓ جواری کیطرح اسکے برابر ڈهے سا گیا عنایہ کو حیرت هوئی
“یہ مما نے تمهارے لئیے دئیے هیں پہن لو تمہاری منہ دکهائی هے”
دو بے حد خوبصورت کنگن اسکی طرف بڑهاتے هوۓ بولا عنایہ نے کانپتے ہاتھوں سے تهام لیۓ
“سنو…. تم نے کبهی محبت کی هے؟”
سوال پوچها گیا عنایہ کے نفی میں سر هلانے پہ وہ هنسا
“اچها کیا جو نہیں کی…. ایک راز کی بات بتاؤں تمهیں”
چند لمحے خاموش رهنے کے بعد بولا
“میں نے کی هے محبت…. نہیں نہیں ایکچوئیلی مجهے هوگئی هے محبت بس وہ میری نا هوسکی”
هارے هوۓ لہجے میں بولا اور عنایہ کے اندر چهن سے کچھ ٹوٹا
“قسمت بهی کبهی کبهی کتنے عجیب کهیل کهیلتی هے نا…. جسیے هم چاهتے هیں اسے هم سے چهین کر ایک ناپسندیدہ انسان کو هماری زندگی میں شامل کردیتی هے….. اور هم محض اپنے بڑوں کی خوشی کی خاطر اس شخص کو برداشت کرنے پہ مجبور هوجاتے هیں”یہ سب وہ صرف اسے سنا رها تها
جبکہ وہ مشکل سے آنسو ضبط کئے خاموشی سے اسکی باتیں سن رهی تهی
“چلو…. سو جاؤ تم…. بہت رات هوگئی هے میں نیچے سو جاؤں گا تم یہاں آرام سے سوجاؤ”
اٹهتے هوۓ بولا
جبکہ عنایہ ٹوٹے دل کی کرچیاں سمیٹنے لگی
اپنا بستر زمین پہ سیٹ کرکے لائٹ آف کردی اور وہ چینج کرنے اور جی بهر کے رونے کی غرض سے واش روم کی جانب بڑھ گئی
اچهی طرح رودهو کر اور چینج کرکے جب وہ واپس آئی تو وہ سورها تها ایک نگاہ ڈال کر وہ چونکی
“اسکول پرنسپل سکندر سر”
وہ بڑبڑائی
“اوہ…. تو میرسکندر علی میں آپ پہ تهوپ دی گئی هوں ناپسندیدہ شخص هوں”
دکھ سے سوچا ساتھ هی آنکهیں بهر آئیں
ڈهیلے ڈهالے سے بلیک ڈریس میں بال کهولے بنا میک اپ کے دوپٹہ سے بے نیاز وہ بے حد حسین لگ رهی تهی
ایک نظر سامنے پڑے کنگن کو دیکها دل دکهه سے بهر گیا اپنا بستر سیٹ کرکے خاموشی سے جاکر لیٹ گئی آنسو ایک بار پهر سے اسکا تکیہ بهگونے لگے دل بهر کے رونے کے بعد اسے اپنا گلا سوکهتا هوا محسوس هوا تو پانی پینے کے لئیے اٹھ گئی اندهیرے میں سائیڈ ٹیبل پہ گلاس ڈهونڈنے لگی
تبهی “ٹهاہ” کی آواز نے کمرے کی خاموشی کو توڑا عنایہ لائٹ آن کرنے کے لئیے جونہیاٹهی زمین پہ بکهرے کانچ کے ان گنت چهوٹے بڑے ٹکڑے اسکے نرم و ملائم پاؤں میں گهستے چلے گئے
اور ماربل کے سفید فرش کو سرخ کرگئے
“افففف.. امی”
شدید تکلیف سے اسکے منہ سے نکلا اور وهیں فرش پہ کچهه فاصلے پہ بیٹهتی چلی گئی
گلاس گرنے کی آواز پہ سکندر چونکا مگر اٹهنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اب اس آواز پہ پٹ سے آنکهیں کهول دیں اور اٹھ کر لائٹ آن کردی
روشنی هوتے هی عنایہ نے آنکهیں میچ لیں جبکہ سکندر کی آنکهیں حیرت سے باهر کو ابل آئیں
“عنایہ… تم..”
وہ حیران بهی تها اور خوش بهی تبهی اسکی نگاہ فرش پہ بکهرے کانچ سے هوتی اسکے پاؤں پہ پڑی جہاں سے خون بہت دریا دلی سے بہہ رها تها جبکہ وہ پاؤں پکڑے روۓ جا رهی تهی
“مائی گاڈ… عنایہ یہ سب کیسے…. پاگل لڑکی.”
اسے احتیاط سے سہارا دے کر سامنے پڑی کرسی پہ بیٹهایا اور اسکے پاؤں کا جائزہ لینے لگا
“میرے خدا…. یہ تو بہت سے ٹکڑے چهبه گئے هیں چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے هیں”
اسے اٹهاتے هوۓ بولا
“مجهے کہیں نہیں جانا… اور مجھ سے چلا بهی نہیں جارها”
روتے هوۓ بےبسی سے بولی. سکندر کے دل کو کچھ هوا
“ڈونٹ وری.. میں هوں نا میں اٹها کر لے چلوگا آؤ”
اسے اٹهانے کے لئے آگے بڑهاچادر اسے اوڑاهی اور آگے بڑھ کر بازوؤں میں بهر لیا
“چهوڑیں مجهے…. مجهے نہیں جانا آپکے ساتهه چهوڑیں…”
وہ اسکے مضبوط بازوؤں میں مچل سی گئی آنسو بددستور اسکی آنکهوں سے جاری تهے
وہ شخص جو چند گهنٹے پہلے اسے اپنی محبت کی داستان سنا رها تها یہاں تک کہ اسے چهونا بهی گوارا نہیں کیا تها اب اس سے اتنی هی همدردی جتا رها تها اسکا دکھ کچھ اور بڑھ گیا
“چپ… ایک دم چپ…. اب اگر تمهاری آواز آئی نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں هوگا سمجهی”
ایک دم اسکا پارہ هائی هوگیا جبکہ عنایہ سہم سی گئی
وہ اسے گڑیا کیطرح اٹهاۓ دروازے کی جانب بڑھ گیا
.
.
وہ اسے ایک بہت بڑے هاسپٹل لے گیا جہاں ڈاکٹڑ نے اسکے دونوں پاؤں سے احتیاط سے کانچ نکال کے اور ٹانکے لگا کر پٹی کردی درد کم کرنے والی دواؤں کے ساتهه اسے تین چار دن تک چلنے پهرنے سے بهی منع کردیا
واپسی پہ بهی وہ اسے گود میں اٹهاۓ واپس لایا آدهی رات کے اس پہر گویا هاسپٹل میں زیادہ رش نہیں تها پهر بهی بہت سی نرسسز نے ان دونوں کو مغی خیز نگاهوں سے دیکها مگر سکندر کو پروا نہ تهی
.
.
“کچھ کهایا تها تم نے”
اسے بیڈ پہ لٹاتے هوۓ بولا اور عنایہ نے نا میں سر هلا دیا تکلیف اب بهی تهی مگرپین کلر انجکشن کی وجہ سے پہلے سے کافی کم تهی
“تم رکو… میں تمهارے لئے کچھ کهانے کو لے کر آتا هوں”
اسے حیران چهوڑ کر کچن کی جانب چل دیا
جبکہ عنایہ اس دوغلاۓ شخص کو حیرت اور دکھ سے سوچ رهی تهی آنسو ایک بار پهر پلکوں کی حدیں توڑ کر باهر آگئے
دوسری طرف سکندر نے اس وقت ملازموں کو جگانا مناسب نہ سمجها اور خود هی دودهه اور بریڈ لے کر واپسی کے لئے قدم بڑها دئیے
واپس آیا تو وہ بے خبر سورهی تهی
“شاید انجکشن کا اثر هے”
اس نے سوچا اور ٹرے سائیڈ پہ رکهی کانچ کے ٹکڑے فرش سے صاف کئے مبادا پهر سے نہ لگ جاۓ. ان سب کاموں سے فارغ هوکر وہ اسکے برابر ا بیٹها
دهیرے سے اسکا مہندی سے سجا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا
“آئی لو یو عنایہ”
بے ساختہ ہاتھ اپنے لبوں سے لگا لیا
سوتے هوۓ وہ بالکل ایک معصوم بچے کیطرح لگ رهی تهی سکندر بے خود سا اسے دیکهے گیا اسکا دل بار بار بس ایک هی بات دهرا رها تها
“تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جهٹلاؤ گے”
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...