(Last Updated On: )
ارے ارے کدھر ایسے کیسے چل دیے اندر۔۔۔
پتا بھی ہے روحاب بھائی کو پورا آدھا گھنٹہ لگا کر اندر بھجوایا ہے۔
لیکن اگر تم دس ہزار نکالتے ہو تو میں فوراً پیچھے ہٹ جاتی ہوں۔
معارج آدھ کھلے دروازے کے بیچ و بیچ پھیل کر کھڑی تھی۔
اس نے ہاتھ پھیلا کر موحد کو پیسے اس کے ہاتھ پر رکھنے کا کہا۔
مگر موحد اس سے بھی زیادہ چالاک تھا۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے پیسے جیب سے نکالے اور گننے لگا۔
اور پھر سائیڈ پر دیکھ کر بولا جی سلمان بھائی آپ کدھر گھوم رہے ہیں آپکی وائف تو یہ رہیں۔
معارج نے اپنے ہسبنڈ کا نام سنا تو تھوڑا سا باہر نکل کر اس طرف دیکھنے لگی جہاں موحد سلمان کو آواز دے رہا تھا۔
وہ تھوڑا سا باہر کیا نکلی موحد نے اسے سارے کا سارا باہر نکال دیا اور بولا۔
ایسے اتنی دقتوں سے جو باہر دیکھ رہی ہو ایسا کرو نیچے صوفے پر بیٹھے ہیں پاس بیٹھ کر غور سے دیکھ لو۔
اور پھر اندر گھس کے زور سے دروازہ بند کر گیا۔
موحد کنجوس کہیں کہ تمہیں تو میں دیکھ لوں گی۔معارج پاؤں پٹکتی ہوئی وہاں سے نکل لی۔
موحد دروازہ بند کر کے واپس مڑا تو سامنے سے آتی انعم سے ٹکر ہو گئی۔
اتنی لمبی ہیل پہننے کی وجہ سے انعم خود کو سنبھال نا پائی اور سیدھا موحد کی بانہوں میں آگئی۔
ارے واہ آتے ہی اتنی مہربانی۔
لگتا ہے یہ ٹہل ٹہل کر میرا ہی انتظار کیا جا رہا تھا۔موحد خوش ہوتے ہوئے بولا۔
نہیں وہ تو میں آپ کی اور معارج آپی کی آواز سن کر آئی تھی یہی دیکھنے کہ معارج آپی کیا کہہ رہی ہیں۔مجھے اندر آنے سے روک رہی تھی کہہ رہی تھی کہ پہلے دس ہزار نکالو۔
اب مجھے میرے ہی کمرے میں آنے کے لئے دس ہزار کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
حد ہوگئی یعنی۔
اچھا تو کیا دے دیے آپ نے۔انعم نے پوچھا۔
ایسے کیسے دے دیتا جانتا ہوں اس نے روحاب بھائی سے دس ہزار لینے کے باوجود بھی آدھا گھنٹہ لگا کر انہیں اندر جانے دیا۔
اور سیدھی سی بات ہے مجھ سے اتنا لمبا انتظار نہیں ہوتا اس لئے بھگا دیا اسے۔
خیر چھوڑو معارج کو میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آج تو تم دل میں اتر جانے کی حد تک پیاری لگ رہی ہو۔انعم بھی ریڈ اور گولڈن لہنگا پہنے ہوئے تھی۔
سجل اور انعم دونوں کے لہنگے ایک جیسے بنوائے گئے تھے۔
آپ بھی بہت پیارے لگ رہے ہیں۔
بدلے میں انعم نے بھی اس کی تعریف کی۔اہم شکریہ جناب۔
اب تم ادھر بیڈ پر بیٹھو کہ آج ساری باتیں کھڑے کھڑے ہی کر لینی ہیں۔
انعم خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔انو تم جانتی ہو ناں ثانیہ آپی کی وجہ سے جو کچھ بھی ہوا وہ ابھی تک سب کی ذہن میں تازہ ہے۔
ابھی بھی گزرا ہوا وقت سب کو تکلف دیتا ہے۔انکی یاد سے سب کو سکون کم تکلف زیادہ ہوتی ہے۔
آج میں بھی تم سے ایک وعدہ کرتا ہوں اور تم بھی کرو گی کہ ہم دونوں مل کر اس گھر کو جنت کا گہوارہ بناۓ گے۔
سب کو اتنی خوشیاں دیں گے کہ سب وہ کچھ بھول جائیں گے جو پیچھے گزر چکا ہے۔
اپنی اس نئی زندگی کو حسین اور پر سکون بناۓ گے۔بولو کرتی ہو وعدہ۔
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
میں یونہی مست نغمے لٹاتا رہوں
تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رہو
میں تمہیں دیکھ کر گیت گاتا رہوں
کتنے جلوے فضاؤں میں بکھرے مگر
میں نے اب تک کسی کو پکارا نہیں
تم کو دیکھا تو نظریں یہ کہنے لگیں
ہم کو چہرے سے ہٹنا گوارا نہیں
تم اگر میری نظروں کے آگے رہو
میں ہر اک شئے سے نظریں چراتا رہوں
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو ۔۔۔
میں نے خوابوں میں برسوں تراشہ جسے
تم وہی سنگ مرمر کی تصویر ہو
تم نہ سمجھو تمہارا مقدر ہوں میں
میں سمجھتا ہوں تم مری تقدیر ہو
تم اگر مجھ کو اپنا سمجھنے لگو
میں بہاروں کی محفل سجاتا رہوں
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
موحد نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا تو انعم نے سر ہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا اور ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
موحد نے اسکا ملائم و نازک ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
آج میں بہت خوش ہوں کہ میں نے جس لڑکی کو دل و جان سے چاہا اسے پا لیا۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ہر وہ خوشی دوں گا جس کی تم تمنا رکھتی ہو۔
ہمیشہ تمہارا ساتھ دوں گا۔
کبھی بھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر خود کو اکیلی محسوس مت کرنا کیوں کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہونگا انو۔جی موحد۔۔۔
انعم بس اتنا ہی بول سکی۔
آنکھوں میں خوشی کے آنسو لئے اس نے موحد کے کندھے سے سر ٹکا دیا۔
موحد نے اپنی جیب سے سرخ رنگ کی ایک ڈبیہ نکالی۔
جس میں ان دونوں کے نام کی گولڈ کی انگوٹھی تھی۔
موحد نے وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ کی تیسری انگلی میں سجا دی۔
جس طرح اس انگوٹھی پر ہم دونوں کا نام ایک ساتھ ہے اس طرح آج سے ہم دونوں بھی ایک ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
تم بھی تو کچھ بولو انو۔
میں بس یہ کہوں گی کہ میں اب یہ انگوٹھی اپنی انگلی سے کبھی نہیں اتاروں گی کیوں کہ یہ آپکے پیار کی پہلی نشانی ہے اور اسے میں خود سے اب کبھی جدا نہیں کروں گی۔۔۔
انعم کے ان الفاظ نے موحد کے دل تک ٹھنڈک پہنچا دی۔
اور کچھ نہیں بولو گی۔
اور یہ کہ آپ بہت اچھے ہیں۔
انعم نے شرماتے ہوئے کہا اور موحد کے سینے میں منہ چھپا گئی۔
موحد کو انعم کے اس طرح کرنے پر بے حد پیار آیا۔بدلے میں اس نے بھی انعم کے گرد بہت پیار سے بازو حائل کر دیے۔
۔******************
موحد اور انعم نیچے آئے تو صحن کے بیچ و بیچ بیٹھی کوئی لڑکی زور زور سے رو رہی تھی۔
غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا وہ تو حسینہ تھی۔
ارے حسینہ تمہیں کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو۔
موحد کے پوچھنے کی دیر تھی بس پھر کیا تھا حسینہ ہو گئی شروع۔
آپ ہیں میرے رونے کی وجہ موحد جی۔
آپ نے دھوکہ دیا ہے مجھے بے وفائی کی ہے میرے ساتھ۔
وعدہ کیا تھا آپ نے مجھ سے کہ آپ مجھے چاند پر لے کر جائیں گے۔
میرے لئے نیلے رنگ کے شاپر میں تارے توڑ کر لائیں گے۔
مجھے پرستان کی ملکہ بنا کر رکھیں گے۔
سارے وعدے جھوٹے تھے آپ کے۔
حسینہ کے دل کے ٹوٹے ٹوٹے ہو چکے تھے۔
اس کے دل ٹوٹنے کی آواز موحد کے کانوں تک پہنچی تو اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔
مگر پھر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو گرینڈر مشین کی آواز ہے۔
موحد اپنے دماغ پر زور دیتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس نے ایسے حسین وعدے آخر کئے کب تھے۔
انعم دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے پوچھ رہی ہو کہ
“یہ سب کیا ہے جناب”
جبکہ موحد ادھر ادھر دیکھتا بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔
اور پھر سامنے دیکھتا ہوا پیچھے قدم اٹھانے لگا کہ جلد از جلد باہر کے دروازے تک پہنچ جاۓ۔
مگر تب ہی پیچھے سے آتی سجل سے اس کی ٹکر ہوئی۔
سجل کے ہاتھ میں پکڑا شیشے کا گلاس فرش پر جا گرا۔
اف موحد کیا مصیبت آن پڑی ہے الٹے پاؤں کیوں چل رہے ہو۔
سجل کے پوچھنے پر موحد نے سامنے کھڑی مصیبت یعنی حسینہ عرف “نرا ہاسا” کی طرف اشارہ کیا۔
ارے موحد جی اب آپ کہاں جا رہے ہیں میرے سوالوں کا جواب تو دیتے جائیں۔
حسینہ اس کی طرف بڑھی۔
جبکہ موحد حسینہ نامی بلا کو اپنی طرف آتا دیکھ فرش پر پڑے کانچ کے ٹکڑوں پر سے جمپ لگاتا ہوا باہر کی طرف بھاگ گیا۔
لاؤنج میں بیٹھے تمام افرار کے قہقے چھوٹ گئے۔
سب جان چکے تھے کہ حسینہ اب مرتے دم تک موحد کا پیچھا نہیں چھوڑنے والی تھی۔
۔****************
آٹھ سال گزر چکے تھے۔
روحاب اور سجل کی ایک بیٹی روشانے جبکہ موحد اور انعم کا ایک بیٹا صالح تھا۔
دونوں سات سال کے تھے۔
ایک دوسرے سے بہت لڑتے جھگڑتے تھے مگر پھر دو منٹ بعد ہی ایسے ہو جاتے جیسے کبھی لڑے ہی نا تھے۔
آٹھ سالہ ثانیہ جب ان کے ساتھ ہوتی تو وہ کھیل میں اسے اپنا پارٹنر بنانے کے لئے لڑتے۔
مگر ثانیہ بڑے آرام اور پیار سے ان دونوں کی لڑائی ختم کروا دیتی اور ایسا کھیل شروع کر دیتی جس میں کسی قسم کے پارٹنر کی کوئی گنجائش ہی نا ہوتی تا کہ جھگڑا شروع ہی نا ہو۔
ثانیہ ہوبہو ابیہا کا پیکر تھی۔
بلکل ویسی ہی نرم طبعیت۔
ابیہا نے شروع سے ہی اسے دعائیں اور کلمات سکھانا شروع کر دیے تھے۔
اس لئے اس کا زیادہ تر رحجان دینی تعلم کی طرف تھا نا کہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح کھیلوں پر۔
وہ پانچوں وقت کی نماز ادا کرتی۔
اور پھر اس کے بعد ابیہا کے ساتھ بیٹھ کر قرآن مجید کا سبق دوہراتی جو کہ روز اسے ابیہا پڑھاتی تھی۔
ثمرین اور رمیز کے ساتھ ساتھ باقی سب کے دل میں بھی ثانیہ کو دیکھ کر ٹھنڈک سی پر جاتی۔
۔*****************
سجل اور روحاب ہر سال کراچی آتے تھے اور وہاں کے یتیم خانے میں یتیم بچوں کے لئے کپڑے جوتے اور ضرورت کی دوسری چیزیں بانٹتے تھے۔
یہ تمام چیزیں وہ روشانے کے ہاتھوں ان بچوں کو دیا کرتے۔
یتیم خانے سے ہوتے ہوئے وہ کراچی کر دربار میں آئے۔وہ ڈبہ پیکنگ جو انہوں نے خاص طور پر ریسٹورنٹ سے کروائی تھی بانٹنے لگے۔
ماما میں ان انکل کو بھی کھانا دوں ناں یہ ایک شاپر دیں مجھے۔
کن انکل کو بیٹا سب کو دے تو دیا ہے۔
سجل نے لائن میں کھڑے تمام لوگوں کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں روشانے ایک ایک ڈبہ پکڑا چکی تھی کوئی بھی خالی ہاتھ نا تھا۔
نہیں ماما وہ والے انکل رہ گئے ہیں۔
روشانے نے اس انکل کی طرف اشارہ کیا جو ان سب سے قدرے دور ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔
سجل نے اس طرف دیکھا جس طرف روشانے انگلی سے اشارہ کر رہی تھی تو اس طرف نظر پڑتے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑے شاپر زمین پر جا گرے۔
ماما کیا کر رہی ہیں آپ بابا دیکھیں ناں ماما نے سارے شاپر نیچے گرا دیے۔
ارے سجل کیا کرتی ہو اگر شاپر پکڑے نہیں جا رہے تھے تو بھلا مجھے پکڑا دیتی۔
سجل کدھر گم ہو گئی تم۔۔۔۔
روحاب وہ زارون۔۔۔۔
سجل یہ تمہیں آج زارون کہاں سے یاد۔۔۔۔
روحاب نے سجل کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے سائیڈ پر دیکھا تو اسے بھی چپ لگ گئی۔
وہ یقیناً زارون ہی تھا۔
یہ تو زارون ہے مگر یہ یہاں کیسے اور وہ بھی اس حال میں۔
روحاب ایک منٹ کی بھی دیر لگاۓ بغیر اس تک پہنچا سجل بھی اس کے پیچھے بھاگی۔
زارون آپ یہاں اس حال میں کیسے۔۔۔
سجل نے اس سے پوچھا۔اس پر اس نے سر اٹھا کر ایسے دیکھا جیسے شائد اسی کا ہی نام لیا گیا ہو۔سجل نے اس کی طرف دیکھا پھٹے ہوئے کپڑے بغیر جوتے کے پاؤں جسم پر جگہ جگہ چوٹوں کے نشان رنگ کالا سیاہ دھول مٹی سے بھرے ہوئے بکھرے بال۔۔۔وہ کہیں سے بھی زارون نہیں لگ رہا تھا۔
مگر وہ دونوں اسے دور سے بھی پہنچان سکتے تھے۔سجل کو زارون کی وہ تحریر یاد آگئی۔
“میں واپس نہیں گیا سجل میں یہیں ہوں مگر جہاں بھی ہوں تم سب سے بہت دور ہوں”
زارون جواب دو تم کہاں رہتے ہو تم تو واپس چلے گئے گئے تھے ناں۔
اب کی بار روحاب نے پوچھا۔
ارے صاحب اس پاگل سے کیا پوچھتے ہیں یہ تو پچھلے پانچ سالوں سے یہیں ہے۔
پاگل ہے یہ بچے اسے پتھر مارتے ہیں اور یہ چپ چاپ کھاتا رہتا ہے۔
میں نے تو آج تک اسے بولتے نہیں دیکھا لگتا ہے گونگا ہے بس ہاتھ جوڑ کر معافی ہی مانگتا رہتا ہے۔
لگتا ہے کسی کی بددعا لگی ہے اس بے چارہ کو بڑے ہی برے حال میں ہے ایسے ہی پڑا رہتا ہے ہر وقت۔
ایک آدمی انہیں بتا کر زارون کو چاول والا شاپر پکڑا کر آگے بڑھ گیا۔
زارون نے جلدی سے شاپر کھولا اور چاول کھانے لگا۔سجل کے کانوں میں اس آدمی کے الفاظ گھونجنے لگے
“بس ہاتھ جوڑ کر معافی ہی مانگتا رہتا ہے”
سجل کو اس کے حال پر رونا آگیا۔
روحاب کا حال بھی اس سے کچھ کم نا تھا۔وہ زارون کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور بولا۔
زارون ادھر دیکھو میری طرف میں روحاب اور یہ سجل پہنچانا ہمیں۔
زارون نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر کھانے کا شاپر دوسری طرف کر کے خود بھی اس طرف منہ کر لیا ایسے جیسے وہ اس سے اس کا کھانا چھین لیں گے۔زارون ہمارے ساتھ چلو گے ہمارے گھر اور تمہارے اپنے گھر۔
تمہیں پتا ہے سب نے تمہیں معاف کر دیا ہے کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔
روحاب دوبارہ اس سے مخاطب ہوا۔مگر اس بار وہ کھانے کا شاپر وہیں پھینکے وہاں سے اٹھ گیا۔
زارون رکو کہاں جا رہے ہو۔
مگر زارون ان کی ایک نا سنتا وہاں سے غائب ہو گیا۔
۔******************
روحاب میں نے انہیں کبھی کوئی بددعا نہیں دی۔قسم سے میں نے تو اس بارے میں کبھی سوچا تک نہیں۔ میں نے تو انہیں تب ہی معاف کر دیا تھا جب وہ معافی مانگنے آئے تھے۔
سجل نے روتے ہوئے روحاب کو یقین دلانا چاہا۔
ہاں سجل مجھے پتا ہے تم رو نہیں چپ کر جاؤ۔
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی ان کو اس حال میں دکھوں گی وہ تو ہمیں پہنچان تک نہیں رہے۔سجل تم پلیز چپ کر جاؤ مجھے تو خود کچھ سمجھ نہیں آرہی۔
اب یہاں سے چلو اور روشانے بیٹا مجھے اپنا ہاتھ پکڑاو۔
روشانے نے روحاب کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ساتھ چل پڑی۔
۔****************
کیا ہوا سجل کیا سوچ رہی ہو۔
روحاب شرٹ کے بٹن بند کرتا بیڈ پر کچھ سوچتی سجل کے پاس آبیٹھا۔
میں زارون اور ثانی آپی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔اچھا کیا سوچ رہی ہو ان کے بارے میں۔
میں سوچ رہی ہوں کہ آج ثانی آپی ہمارے ساتھ ہوتیں تو شائد وہ بدل چکی ہوتیں ہمارے ساتھ خوش ہوتیں۔
کاش وہ ایسا نا کرتیں۔
ثانی آپی نے تو اس زندگی کی تلخیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے موت کو گلے لگا لیا۔
مگر زارون اب جس حال میں ہیں وہ اس حال سے نجات حاصل کرنے کے لئے تو موت کو بھی گلے نہیں لگائیں گے۔
کیا وہ ساری زندگی اسی حال میں رہیں گے۔انہیں تو کچھ بھی یاد نہیں پھوپھو ابیہا آپی رومان انکل کوئی بھی تو یاد نہیں۔
مجھے تو ان کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی نجانے کیا ہو رہا ہے۔
وہ تو ہمارے ساتھ آنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔کاش وہ ہمارے ساتھ آجاتے تو پھپھو کتنی خوش ہوتیں انہیں دیکھ کر۔
سجل ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا پھپھو انہیں دیکھ کر وقتی طور پر تو خوش ہو جاتیں مگر پھر ساری زندگی اسے اس حال میں دیکھ دیکھ کر تکلیف میں رہتیں صرف پھپھو ہی نہیں بلکہ ہم سب بھی۔
پھپھو نے پہلے کم تکلیفیں جھیلی ہیں جو انہیں ایک اور تکلف دکھا دی جاتی۔
پھپھو کے لئے زارون کے اس حال سے انجان رہنا ہی بہتر ہے۔
وہ ہمارے ساتھ نہیں آیا ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا۔اور رہی بات ثانیہ کی تو دیکھو سجل ثانیہ نے جو کچھ بھی کیا اسے بدلے میں وہی سب ملا۔
اس نے اپنی زندگی خود ختم کی موت کو گلے اس نے خود لگایا۔
اگر وہ ہمارے ساتھ رہتی تو شائد ہماری زندگی اتنی مطمئن نا ہوتی۔
اور تم بھی جانتی ہو کہ اس نے اپنی زندگی اسی شرط پر ختم کی کیوں کہ اس سے پہلے وہ تمہاری زندگی ختم کرنے کی پلاننگ کر چکی تھی۔
تم نے سنا ہی ہوگا کہ مرنے والوں کے ساتھ تو صبر آجاتا ہے مگر زندہ لوگوں کے ساتھ نہیں۔
پھپھو زارون کو اس حالت میں دیکھتی رہیں گیں تو انہیں کبھی صبر نہیں آئے گا۔
اس لئے پلیز تم ان سے زارون کا ذکر کبھی مت کرنا انہیں بہت دکھ ہوگا۔
اور تم فکر مت کرنا میں نے زارون کے لئے ہر مہینے ضروری چیزیں بھجوانے کا ذمہ لگوا دیا ہے۔
کم از کم اس کا ظاہری حال تو بہتر ہو۔
اور ہاں میں خود بھی وہاں جاتا رہوں گا۔
تم اب زیادہ سوچو مت اور آرام کرو۔میں ذرا روشانے کو لے کر آیا اس نے بھی عادت ڈال لی ہے رات دیر تک جاگنے کی کھیل رہی ہو گی صالح کے ساتھ میں لے کر آیا ابھی۔
روحاب نیچے چلا گیا جبکہ سجل آنکھیں موند کر لیٹ گئی۔
۔***************
ارے بچو بس بھی کر دو پورے گھر میں ادھم مچا رکھی ہے۔
لاؤنج کا برا حال کر کے رکھ دیا ہے ارے بس بھی کرو اب۔
شہلا بیگم ان دونوں کو روکتیں جو کہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے لاؤنج میں پھیلی چیزیں اٹھانے لگیں۔
ارے بھابھی بیٹھ جائیں ان بچوں کا کیا ہے آپ نے ابھی چیزیں اٹھانی ہیں انہوں نے دوبارہ پھیلا دینی ہیں۔
زرمین پھپھو انہیں صوفے پر بٹھاتیں خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
سجل بھی تھکی ہاری کچن سے نکل کر ان کے پاس آبیٹھی۔
انعم قالین پر بیٹھی صوفے کے ساتھ ٹیک لگاۓ ان دونوں کو کب سے دیکھ رہی تھی۔
انعم تم کیا سوچ رہی ہو۔
سجل تھوڑا سا آگے کھسک کر انعم کے پاس ہوگئی۔کچھ خاص سوچ رہی ہوں آپی۔
اچھا تم جو کچھ بھی خاص سوچ رہی ہو کیا مجھے نہیں بتاؤ گی۔
ارے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ میں جو سوچ رہی ہوں وہ آپ ہی سے تو کہوں گی۔
اچھا تو پھر بتاؤ جلدی سے ایسا کیا سوچ رہی تھی تم۔ہاں بیٹا بتاؤ۔
سجل کے ساتھ ساتھ ثمرین بیگم نے بھی پوچھا۔میں یہ سوچ رہی تھی کہ۔۔۔
انعم بولتے بولتے رکی تھی یا شائد جھجھک رہی تھی۔اب بولو بھی انعم بھلا مجھ سے کچھ کہنے کے لئے تمہیں سوچنے کی ضرورت کب سے پر گئی۔
آپی میں سوچ رہی تھی کے روشانے کو اپنی بیٹی بنا لوں۔
انعم نے آخر وہ خاص بات کہہ ہی ڈالی۔
انعم کی بات پر سجل کے ساتھ ساتھ شہلا ثمرین اور زرمین پھپھو بھی مسکرا دیں۔
انعم کو ان کی مسکراہٹ سے اپنا جواب مل گیا تھا۔تب ہی گھر کے مرد حضرات گھر میں تشریف لائے۔
موحد ان سب کے پاس آیا اور بولا اسلام علیکم کیا یہاں پر کوئی خاص ڈسکشن ہو رہی تھی۔
جی بہت خاص مگر کیا ڈسکشن ہو رہی تھی یہ میں آپکو بعد میں بتاؤں گی۔
انعم نے موحد کی بات کا جواب دیا۔
تب ہی رومان بھی یہیں آگیا۔
ارے آگیا میرا بھائی پر یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔یہ میں کیمرہ لایا ہوں موحد بھائی۔
چلیں اس کیمرے کی پہلی تصویر کی شروعات آپ سے کرتے ہیں میرا مطلب ہے کہ آپ سب سے ہو جاۓ ایک فیملی پکچر۔
موحد جو اسکی پہلی بات سے خوش ہو رہا تھا اس کے مطلب بتانے سے اسکا منہ بن گیا۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر تصویر ٹاپ کی ہونی چاہیے ورنہ تیری خیر نہیں۔
چلیں سب اپنی اپنی جوڑیاں بنا لیں۔
ماما پاپا چھوٹے پاپا اور چھوٹی ماما آپ لوگ بھی۔پڑے ہو بدتمیز کہیں کا اس بات پر شہلا نے اسے ایک چپٹ لگائی۔
سب لائن میں کھڑے ہو گئے۔
روحاب سجل کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
جبکہ موحد نے انعم کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے اپنے اور پاس کر لیا۔
ابیہا بھی میکے آئی ہوئی تھی۔صالح بھاگ کر ابیہا اور ثانیہ کو بھی بلا لایا۔
روشانے اور صالح اپنے دونوں ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بناۓ ان سب کے آگے کھڑے ہوگئے۔
ثانیہ بھی اپنی معصوم سے مسکراہٹ لئے ان دونوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
سب ریڈی ہیں کیا۔۔۔ون ٹو تھری اور یہ۔۔۔۔۔۔۔
ایک منٹ روکو ارے مجھے اور میرے بچوں کو بھول گئے کیا۔
معارج اپنے بچوں کو لئے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئی۔بچوں کو بچوں کی لائن میں کھڑا کیا اور خود ابیہا کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔
رومان دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا کہ شائد ابھی کوئی اور بھی ٹپک پڑے۔
اوئے رومان یہ تو باہر کیا دیکھ رہا ہے کوئی نہیں آنے والا اب۔
چل جلدی سے ایک ٹاپ والی فوٹو کینچ۔
موحد نے اسے آواز لگائی۔
رومان کیمرے کو ٹائمر لگاتا خود بھی آکر تصویر کا حصہ بن گیا۔
کمرے نے ان سب کی مسکراہٹوں کو ہمیشہ ہمیشہ کہ لئے اپنے اندر محفوظ کر لیا۔
۔*****************
“””ختم شد”””