بڑا گھنٹا گھر شہر کے بالکل وسط میں تھا۔ شروع میں شاید اس کا رنگ سرخ رہا ہو مگر اب وقت کی گرد نے اسے ایک ایسا رنگ دے دیا تھا جو صرف وقت ہی چن سکتا ہے۔ بلند اتنا کہ میلوں دور سے نظر آ جائے۔ چوکور مینار کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی ہر سمت پر لگی گھڑی بلکہ گھڑیال ہی کہیئے، بھی جہازی تھے۔ اہلیانِ شہر کے لئے فخر کی بات تھی کہ کوئی سو سالہ پرانے اس گھنٹا گھر کی سوئیاں کبھی نہیں رکی تھیں۔ اور پابند ایسی کی جب چاہیں سوئیاں ملا لیں۔ کہنے والے تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ جب گورے یہاں سے گئے تو انہوں نے بی بی سی کی سوئیاں اس سے ملا لی تھیں اور اب بھی ہر سال موازنہ کر لیتے ہیں کہ کہیں ان کا وقت پیچھے نہ رہ جائے۔ حالانکہ ذرا سوچئیے اس بات کا کتنا امکان ہے۔ تو خیر، اس گھنٹا گھر کے اطراف کی عمارتیں بھی ذرا جگہ چھوڑ کر تعمیر کی گئی تھیں۔ شہر کی شان و شوکت بڑھانے لئے کچھ ایسی پلاننگ کی گئی تھی کہ کسی بھی وقت یہاں ہزاروں شہری جمع ہو سکتے ہیں یوں اسے مرکزیت سی حاصل ہو گئی تھی۔ آپ اسے قاہرہ کا طاہری چوک یا چین کا تیانامن چوک کہہ سکتے ہیں، لیکن جو تاریخ زمین کے ان گول ٹکڑوں میں لکھی گئی تھی یہ گھنٹا گھر چوک ہنوز اس سے محروم تھا۔ حالانکہ لوگ اکثر آس لگا لیتے تھے کہ بھئی چوک تو مل گیا ہے اب ذرا سی ہی آنچ کی کسر باقی ہے۔ نادان یہ نہیں جانتے کہ اس ذرا سی آنچ کو خون جگر درکار ہوتا ہے۔
عموماً گھنٹا گھر چوک پر چند درجن افراد موجود ہوتے تھے۔ چند ہاکر حضرات، کچھ بے فکرے، اور کچھ لوگ اپنی جلدی میں ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف نکلنے کی فکر میں۔ روز کے معمول کے بر خلاف اس وقت گھنٹا گھر چوک شہریوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دائرے کی شکل کے چوک میں لوگ قطار اندر قطار کھڑے تھے۔ دائرے کے اندرونی حصے میں جو لوگ تھے وہ سب ٹکٹکی لگائے بڑے گھڑیال کو دیکھ رہے تھے، جیسے ابھی اس میں سے کوئی پرندہ نکل کر تبدیلی کی نوید دے گا۔ جب کہ بیرونی دائروں میں جمع لوگ اندرونی دائرے والوں کی پشت پر نظریں جمائے تھے، کہ اس بات کا علم کسی کو نہیں تھا کہ یہ سب لوگ یہاں کیوں جمع ہیں۔ یہ بھی عام سے انسانوں کا اجتماع تھا اور وہی انسانی نفسیات یہاں بھی کارگر تھی۔ چند لوگ ٹکٹکی باندھے ایک سمت میں دیکھنے لگیں تو تھوڑی سی دیر میں ایک اجتماعی تجسس وہاں جمع ہو کر اسی سمت دیکھنے لگتا ہے۔ بلکہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو سب مل کر آسمان پر تلوار دیکھ سکتے ہیں، گزرتے رتھ بھی دیکھے گئے ہیں اور چرخہ کاٹتی بڑھیا بھی، یہ سب دیکھنے والوں کے حسنِ ظن پر ہے اور کچھ اس ضرورت پر کہ آسمان پر اس وقت کس معجزے کے نظر آنے کی ضرورت ہے۔ کچھ بیو وقوف اسے اجتماعی نظر بندی کا نام دیتے ہیں مگر کہنے والوں کی زبان کس نے روکی ہے اور ہمارے ہاں تو ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔
یہ گھنٹا چوک میری روزانہ کی گزرگاہ ہے۔ یہاں سے کوئی چوتھائی میل کے فاصلے پر ایک بلند قامت عمارت کی بائیسویں منزل پر ایک دفتر میں کام کرتا ہوں۔ دوپہر کے کھانے کے لئے تقریباً روز ہی یہاں آ جاتا۔ اور گھنٹا گھر چورا ہے کے اطراف کسی ریسٹورانٹ میں کھانا کھا لیتا۔ باہر کی تازہ ہوا مل جاتی اور ذرا چہل قدمی بھی ہو جاتی۔ آج جو یہاں پہنچا ہوں تو یہ چوراہا ایسا کھچا کھچ بھرا ہوا ہے کہ دوسری طرف پہنچنا نا ممکن ہو گیا۔
‘‘کیا قصہ ہے بھائی یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں ‘‘ میں نے اپنے سامنے کھڑے ایک شخص سے دریافت کیا۔
‘‘پتہ نہیں میں خود بھی یہی معلوم کرنے کے لئے رک گیا ہوں ‘‘ ۔
جب معلوم نہیں تو یہاں رک کر کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو۔ میں نے اپنا سوال زبان تک نہیں آنے دیا۔ ہمارے شہر میں لوگوں کے پاس ایک ہی چیز کی فراوانی ہے اور وہ ہے وقت۔ دن کے کسی بھی وقت اگر آپ اپنے گھر، دکان یا دفترسے باہر نکلیں تو ایسے سینکڑوں لوگ جنہیں کسی کام میں مصروف ہونا چاہئیے تھا، آپ کو بیکار اور بے مصرف بیٹھے، کھڑے یا لیٹے ملیں گے۔ وقت ان کے دائیں بائیں تیزی سے گزر رہا ہو گا، مگر وقت کی پر واہ وہی کرے جس کی پرواہ خود وقت کر رہا ہو۔
‘‘ارے صاحب لگتا ہے گھنٹا گھر خراب ہو گیا ہے، وقت رک گیا ہے ‘‘ میرے دائیں ہاتھ پر موجود ایک صاحب بولے
‘‘وقت رک گیا ہے، کیا مطلب؟‘‘
‘‘یہی کئی کئی گھنٹوں سے یہ گھنٹا گھر کام نہیں کر رہا‘‘
‘‘ارے تو گھنٹا گھر خراب ہو گیا ہو گا، انتظامیہ ٹھیک کروا دے گی، یہاں لوگوں کو تو بس مجمع لگانے کے لئے بہانہ چاہئیے ‘‘ ۔
‘‘نہیں جناب گھنٹا گھر خراب نہیں ہوا۔ وقت رک گیا ہے، شہر کی تمام گھڑیاں رک گئی ہیں۔ وقت آگے نہیں بڑھ رہا‘‘
‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘ میری نظر فوراً اپنی کلائی پر پڑی۔ واقعی میری گھڑی رکی ہوئی تھی اور دو گھنٹے پہلے کا وقت بتا رہی تھی۔
‘‘لیکن‘‘
‘‘لیکن کیا؟‘‘
‘‘لیکن وقت رک گیا ہے کا مطلب ہے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ رک گیا ہے تو رک جائے ؟‘‘ میرے سامنے کھڑے ایک شخص نے الجھ کر کہا۔
‘‘یہی کہ اب ہم انسانی اور تہذیبی تاریخ میں جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب تک وقت کا پہئیہ دوبارہ اپنی گردش شروع نہیں کرے گا، ہم تاریخ کے اسی گوشے میں پھنسے رہیں گے !‘‘
‘‘لیکن میرا کیا ہو گا؟ میری تو آج چھ بجے شادی ہے۔ گھڑی کی سوئی تو بارہ پرہی اٹکی ہوئی ہے۔ بارہ بج کر ایک سیکنڈ ہونے سے انکاری ہے۔ اگر چھ نہیں بجیں گے تو میری شادی کیسے ہو گی‘‘ ایک طرف سے روہانسی آواز آئی۔
‘‘ارے میاں اسے عطیۂ خداوندی سمجھو کہ تمھیں بیوی سے بچا لیا ‘‘ کسی بیوی جلے کی آواز آئی۔
‘‘اور مجھے اپنے بچوں کو چار بجے ہی اسکول سے لینا ہے۔ کیا وہ اسکول میں ہی رہیں گے، نہ چار بجے گا نہ بچوں کو اسکول سے لے سکوں گا۔ ‘‘ ایک اور آواز ابھری۔ اب سارے مجمع کو پتہ چل گیا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ہر طرف سے قسم قسم کی بولیاں سنائی دے رہیں تھیں۔ خلقت کو سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وقت نے ہمسفری سے انکار کر دیا تو وہ تاریخ کے اس موڑ سے کیسے آگے بڑھیں گے۔
‘‘یہ وقت رک گیا ہے یا ہم اس کی مخالف سمت میں جا رہے ہیں ‘‘ کسی دیوانے نے آگ لگائی۔
‘‘کیا مطلب ہم پیچھے کی سمت کیسے لوٹ سکتے ہیں ؟‘‘
‘‘بھئی اگر وقت ایک گھنٹہ آگے جا رہا ہو، لیکن ہم اس سے ایک گھنٹہ پیچھے، تو ان دونوں سمتوں کی کشمکش میں ہمیں تو یہی لگے گا کہ وقت جیسے رک گیا ہو‘‘ میرے دائیں جانب جو صاحب کھڑے تھے وہ کافی ذہین معلوم ہوتے تھے۔
‘‘یعنی وقت کو دوبارہ چلانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم واپسی کا سفر روک دیں ‘‘ کسی اور فرزانے نے آواز لگائی۔
اب چورا ہے پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، جتنے منہ اتنے مشورے۔ کہنا تو یہ چاہئیے کہ جتنے ذہن اتنے مشورے مگر اس کے لئے ذہن اور زبان میں ربط درکار ہو گا جو کچھ اتنا عام بھی نہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اگر وقت رک گیا ہے تو مجھے اب بھوک کیوں محسوس ہو رہی ہے، صبح کا کھایا ہوا کھانا معدے میں ہی رک کیوں نہیں گیا۔ شاید بھوک وقت کی قید سے آزاد ہے۔ بھوک نے کتنی ہی بار ثابت کیا ہے کہ وہ زمان و مکان، جن اور عمر کی قید سے بالاتر ہے۔ میں نے بے چارگی سے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، اس جمِ غفیر کو چیر کر اس وقت کسی غذا کی توقع رکھنا معجزے سے کم نہ ہوتا۔ میں نے بیچارگی سے کندھے اچکائے۔ وقت سے انسان کا رشتہ تو بڑے بڑے فلسفیوں کی سمجھ میں نہیں آیا، میں کیوں اپنے آپ کو ہلکان کر رہا ہوں، میں نے اپنے آپ کو سمجھالیا۔ مجھے اب نوکری کے لئے واپس لوٹنا چاہئیے۔ لیکن وقت اگر تھم گیا ہے تو مجھے واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، جس وقت میں کھانے کے وقفے کے لئے نکلا تھا، وقت تو اس سے آگے بڑھا ہی نہیں ہے۔ جب جانے کا وقت آئے گا تو چلا جاؤں گا اور جانے کا وقت اب آئے گا نہیں۔ لیکن اگر مینیجر کی گھڑی چل رہی ہوئی تو کیا ہو گا؟
‘‘ارے جناب یہ زمان و مکان کا مسئلہ تو آئن اسٹائن سے بھی حل نہیں ہوا تھا۔ آپ کیوں فکر کر رہے ہیں، سارے شہر کی گھڑیاں بند ہیں ‘‘ میرے برابر میں کھڑے ہوئے صاحب واقعی بہت ذہین تھے، مجھے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی جانب بار بار دیکھنے سے وہ میری بے چینی کو بھانپ گئے تھے۔ گھنٹا گھر کے اطراف مجمع اب زمین پر بیٹھ گیا تھا، لگتا تھا سارا شہر امڈ آیا ہے۔
‘‘ان لوگوں کو ویسے بھی کہاں جانا ہے ؟‘‘ میرے پڑوسی نے زہر خند لہجے میں طنز کیا۔ ‘‘گھر گئے تو بھوک منہ پھاڑے کھڑی ہو گی۔ ان کے لئے وقت کا منجمد ہونا تو گویا آسمانی تحفہ ہے۔ شام ہو گی تب ہی تو اگلے وقت کی بھوک کا انتظام کرنا ہو گا۔ آنے والے کل کی مصیبتوں اور صعوبتوں سے بھی محفوظ ہو گئے۔ ‘‘
میں اس قنوطیت کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔
‘‘ارے صاحب یہ کیا بات ہوئی۔ آنے والے کل میں کسی کی شادی، کسی کی پیدائش، کسی کی نئی نوکری، کسی کی پہلی تنخواہ، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ کل تو اتنا دلفریب، اتنا پر امید،
اتنا پر کشش ہوتا ہے۔ کل کی آس ہی تو ہمیں رواں رکھتی ہے۔ ‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
‘‘میاں، کیا مریخ سے اترے ہو؟‘‘ میرا پڑوسی اب مڑ کر پوری طرح میری طرف متوجہ ہو چکا تھا۔
‘‘ کیا مطلب؟‘‘
‘‘بھائی، بہت سیدھا سادھا سا سوال ہے، کیا مریخ سے اترے ہو؟‘‘
‘‘ارے مریخ سے کیوں اترتا؟ اسی شہر کی پیدائش ہے میری۔لیکن اس شہر میں بھی لوگ کل کے انتظار میں جیتے ہیں کہ شاید، شاید۔۔ ‘‘ میری آواز میں ناراضگی تھی
‘‘تو کیا اس شہر کے کسی کنویں میں رہائش ہے آپ کی جو اس قسم کی گفتگو کر رہے ہو۔ مستقبل میں بہتری۔ لگتا ہے تمھارے گھر میں لغت نہیں۔ جا کر دیکھ لینا۔ م سے مستقبل ضرور ہوتا ہے لیکن ب سے بہتری نہیں۔ ‘‘ ۔ پھر وہ اچانک ہنس پڑا۔ ‘‘تم یقیناً گرامر اسکول میں پڑھے ہو گے، مجھے یاد ہے آکسفورڈ کی انگریزی لغت میں ایف سے فیوچر اور بی سے بیٹرمینٹ کے الفاظ موجود ہیں۔ ‘‘
میں منہ کھولے پڑوسی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اسے کیسے پتہ چلا کہ میں گرامر اسکول میں پڑھا ہوں۔
‘‘ارے میاں بقراط اب اس وقت کو کیسے چلایا جائے ؟‘‘ بہت سے لوگ اب ہماری گفتگو کی جانب متوجہ ہو گئے تھے، ان ہی میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں آواز اٹھائی۔ باقی مجمع تو اب بھی گھنٹا گھر کی جانب متوجہ تھا لیکن ہمارے اطراف میں ایک بڑھتا ہوا مجمع ہم دونوں کے ساتھ گفتگو میں شریک ہو گیا تھا۔
‘‘بھئی جس خدا نے ہر چیز بنائی ہے، اسی نے وقت بھی۔ استخارہ کر لیں وہی یقیناً راہ بھی سجھا دے گا۔ ‘‘ کسی صاحب نے صلاح دی۔
میرے پڑوس میں کھڑے شخص کی حیثیت اب ایک لیڈر کی سی ہو گئی تھی۔ لوگ جو جملے اچھال رہے تھے، سوال کر رہے تھے، حل بتا رہے تھے، ان سب کا رخ خود بخود اس کی طرف ہو گیا تھا۔ وہ بھی اس غیر متوقع سر افرازی پر بہت خوش نظر آتا تھا۔ جو ساری عمر محنت کر کے لیڈری کماتے ہیں ان کی مسرت تو چھپائے نہیں چھپتی، یہاں تو حادثاتاً مل گئی تھی۔ اس نے ایک غیر محسوس طریقے سے یہ مرکزیت قبول کر لی تھی۔ اس نے اس جملے کا جواب نہیں دیا صرف مسکرا کر نفی میں سر ہلا دیا۔
‘‘کیا مطلب آپ نفی میں کیوں سر ہلا رہے ہیں، کیا خدا کے پاس اس کا حل نہیں ؟ کسی اور سمت سے آواز آئی۔
‘‘بھئی دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں خدا بھی نہیں چھیڑتا، ایک تاریخ اور دوسرا وقت‘‘ میں اپنے پڑوسی کی مدد کو آیا۔
‘‘نہیں چھیڑتا یا نہیں چھیڑ سکتا‘‘ کہیں سے چیلنج کیا گیا۔
اب لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہماری طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
‘‘یہ آپ کی ذہنی کیمیا پر منحصر ہے ‘‘ میں نے اطمینان سے جواب دیا۔ میں اس خطرے سے بے خبر تھا جو مجھے گھیر رہا تھا۔ اپنے لئے یہ خندق کھودتے دیکھ کر، میرا پڑوسی جیسے سرگوشی میں بولا:
‘‘میاں مریخ سے نہیں تو باہر سے ضرور آئے ہو۔ ذرا دور ہٹ کے کھڑے ہو ورنہ اپنے ساتھ مجھے بھی مروا دو گے۔ اب اپنی یہ سیکولر چونچ بند رکھنا اور مجمعے کے کسی سوال کا جواب مت دینا۔ ‘‘
‘‘کیوں مرواؤں گا، کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ مجھے اپنی خوفزدہ سی آواز سنائی دی۔
‘‘ہائے گرامر اسکول کے یہ گھامڑ۔ بند ذہنوں سے آزاد خیالی کی امید رکھتے ہیں۔ بھئی بند کمرے میں تو گھٹن ہی رہے گی ناں، تازہ ہوا کے لئے کوئی کھڑکی یا دروازہ تو کھولنا ہی پڑے گا۔ یہاں تو معمار یہ کہہ گئے ہیں کہ دروازہ یا کھڑکی کھولی تو گھر مسمار۔ ‘‘
میرے چہرے پر شاید حماقت منجمد دیکھ کر وہ بے بسی سے بولا:
‘‘بھائی کسی نادیدہ سمت سے کوئی گولی، کوئی جنت کا دلدادہ خود کش تمھاری سوچ کے پر کتر دے گا، چپ رہو یا پرے ہٹ کے کھڑے ہو۔ میں ابھی جینا چاہتا ہوں۔ وقت جاری ہو یا ساکت میں نے ابھی جینے کی آس نہیں چھوڑی، اور ہاں جینے کے گر بھی سیکھ گیا ہوں ‘‘ مجھے لگا اس نے مجھے آنکھ ماری ہے۔
‘‘ارے بھئی آپ لوگ کس بحث میں پڑ گئے ہیں۔ اس امتحان میں ہمیں جب اللہ نے ڈالا ہے، تو وہ خود کیوں نکالے گا۔ وہ تو غالباً یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی دی ہوئی عقل ہم کیسے استعمال کرتے ہیں اور ہم کیا سبب پیدا کرتے ہیں ‘‘ اس نے مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے کہا۔
‘‘تو بقراط تم ہی کوئی ترکیب نکالو‘‘ اس طنزیہ جملے میں بھی ایک التجا ایک امید ضرور تھی۔
‘‘ارے صاحب کمشنر صاحب کے انتظار میں ہی تو یہ مجمع جمع ہے، وہ ہی آ کر کوئی صورت نکالیں گے ‘‘ کسی اور صاحب نے آواز بلند کی۔
‘‘کمشنر صاحب‘‘ اب میرے پڑوسی سے بھی چپ نہ رہا گیا ‘‘بلی سے دودھ کی رکھوالی کی امید کی جا رہی ہے ‘‘ ۔
مجمع یہ سن کر ہنس پڑا۔ اب قسم قسم کی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے بھی لگنے لگے۔ لوگوں میں دبا دبا سا جوش با آسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔
‘‘بقراط اپنی بات واضح کرو‘‘ ایک آواز آئی۔ اب مجمع کا موڈ ذرا سا بہتر ہو چکا تھا، توجہ مجھ پر سے ہٹ چکی تھی۔
‘‘بھئی ان ہی لوگوں کی وجہ سے تو وقت رک گیا ہے۔ یہ وقت سے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ ان کے تعاقب میں تو وقت بھی ہانپ جاتا ہے۔ دوسری سمت بہت سے لوگ وقت کو گویا پیچھے کھینچ رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں اور کیا ہوتا۔ حکمراں آگے بھاگ رہے ہوں اور وقت ان کے تعاقب میں۔ دوسری طرف ایک طبقہ وقت کو پیچھے کھینچ رہا ہو۔ تو وقت کا انجماد کیوں کر حیرت کا باعث ہے۔ ‘‘ بقراط واقعی بقراط تھا۔
‘‘پھر اس کا حل تو بہت دشوار نہ ہوا‘‘ میرے ذہن میں ذہانت کی ایک بجلی سی کوندی۔ لوگ فوراً مڑ کر میری طرف متوجہ ہو گئے۔ پڑوسی نے غیر محسوس طریقے سے میرا ہاتھ دبایا، گویا میری گرامر اسکول کی اپج کو وارننگ دے رہا ہو۔ حدِ ادب یہاں زبان سینے، کاٹنے اور کھینچنے کے ماہرین جمع ہیں۔
‘‘یا تو وقت کے آگے بھاگنے والوں کی طنابیں کاٹ دو تاکہ یہ وقت کے آگے بھاگنا بند کر دیں۔ نہ بھی بند کریں تو ہماری اوقات کا ان کے وقت سے رشتہ ٹوٹ جائے، وہ اپنے وقت کی لہر میں رہیں ہم اپنے وقت کی۔ انہیں قابو نہ کر سکیں تو آزاد کر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وقت کو پیچھے کی سمت کھینچنے والوں کو ماضی سے حال میں لے آئیں۔ صدیوں کی محرومیاں۔۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ میری بات مکمل ہوتی میرے بقراط پڑوسی نے میرا ہاتھ اس سختی سے دبایا کہ درد سے میرا منہ بند ہو گیا۔ کیا کہا آپ نے، درد سے منہ بند نہیں ہوتا بلکہ تکلیف کی شدت سے چیخ نکل جاتی ہے۔ آپ درست کہہ رہے ہیں مگر اس کے چیخ کے بعد کا مرحلہ بھول رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے اطراف کی خاموشی پر کان دھریے۔
‘‘تجویز تو گرامر کی اچھی ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘ بقراط نے میرا مذاق اڑا کر گویا میری بات کی تمام تلخیوں کو مزاح کے مصالحہ تشرف سے دھو دیا۔
‘‘بھئی بقراط اپنے دوست کو تو خاموش ہی رکھو‘‘ نہ جانے کیوں مجھے یہ آواز جانی پہچانی سی لگی۔ پیروں کے بل اچک کر دیکھا تو اپنے مینیجر کی شکل نظر آئی، نظریں ملتے ہی اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔
‘‘بقراط تم بولتے رہو، ان صاحب کی باتیں تو احمقانہ ہیں ‘‘ مینیجر نے پھر آواز لگائی۔
اب گویا خاموشی میرے ذاتی مفاد میں تھی۔ مینیجر کی ناراضگی مول لینا وقت کو کھو دینے کے مترادف تھا انجماد کو تو جانے ہی دیجئیے۔
‘‘وقت کو پیچھے کھینچ لینے میں حرج ہی کیا ہے، صرف آگے بھاگنے والوں کی طنابیں کاٹ دو۔ صدیوں پہلے بھی تو وقت چلتا ہی تھا، اسی رفتار سے چلتا رہے گا، ذرا نیکیوں کے امکانات کا تصور کیجئیے۔ جو لوگ ہمارے شاندار ماضی، ہمارے نظامِ راشدین سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کا وقت آ گیا ہے ‘‘ ایک باریش نوجوان جس کے کاندھے پر ایک انگوچھا پڑا تھا مجمعے کو کہنیوں سے ہٹا تا آگے بڑھنے لگا، اس کی نگاہیں مجھ پر پیوست تھیں۔
‘‘ہاں بھئی بقراط کیا طریقہ نکالیں کہ وقت کا پہیہ دوبارہ گھومنے لگے ‘‘ مجھے تو لگتا تھا جیسے اب سارا مجمع اپنا رخ گھنٹا گھر سے موڑ کر ہماری طرف متوجہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں کے اس مجمعے میں ہماری معمول کی آواز کی بحث کیسے ان تک پہنچ رہی تھی۔ یہ بہت حیرت انگیز بات تھی۔ شاید سارا مجمع ہی اپنے آپ سے اس بحث میں الجھا ہوا تھا۔ ہماری گفتگو تو بس ایک بازگشت تھی۔ ابھی بقراط نے کوئی جواب دیا بھی نہیں تھا کہ مجمع میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی۔
‘‘کمشنر صاحب آ گئے، کمشنر صاحب آ گئے ‘‘ لوگوں میں ایک دبا دبا جوش تھا۔ آنکھوں میں امید کے دیپ جل اٹھے تھے۔ گھنٹا گھر کی منجمد سوئیاں مذاق اڑا رہی تھیں۔
بائیں جانب کا مجمع کائی کی طرح پھٹنے لگا۔ انسانوں کا سمندر حکمرانی کے لئے پھٹنے لگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ موسیٰ اکیلے ہی اس راستے پر چل کر اپنی کھال بچا لیتے ہیں۔ درمیان میں جو جگہ بنی تو کمشنر صاحب اس سے گزرتے گھنٹا گھر کی جانب بڑھنے لگے، لیکن ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے بہت سے بھاری بوٹ چل رہے تھے۔ مجمعے میں جو انبساط کی لہر سی دوڑی تھی وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ جوتوں کی آواز اور سنگینوں کے سر کیا نظر آئے، تبدیلیِ اوقات کے امکانات معدوم ہونے لگے۔
‘‘ابھی تو پچھلے قدموں کی دھول بھی نہیں جمی تھی کہ پھر‘‘ بقراط نے شاید اپنے آپ سے کہا تھا۔ وہ زور سے کہتا تب بھی شاید کوئی نہ سنتا۔ سب آوازیں بھاری جوتوں کی دھمک میں دب گئی تھیں۔ ان جوتوں کی بناوٹ میں اس خوبی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ باقی سب آوازیں دب جائیں۔ میں نے داہنی جانب دیکھا تو وہ انگوچھا بردار جوان مجمعے کو کہنیوں سے ہٹاتا، اس سمندر میں خود اپنی جگہ بناتا تیزی سے ہماری سمت بڑھ رہا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایسے کئی نوجوان ہماری طرف بڑھتے نظر آئے۔
‘‘ہاں بھئی بقراط کیا حل نکالیں ‘‘ ہمارے اطراف کا مجمع ان تبدیلیوں سے جیسے ناواقف بقراط سے حل طلب کرہا تھا۔ لوگ جیسے ایک مسیحا کے انتظار میں خود اپنی ذہنی سوجھ بوجھ کھو بیٹھے تھے۔
بھاری جوتوں، باریش جنت کے طلب گاروں اور وقت کے آگے بھاگتے کمشنروں کے درمیان منجمد وقت کو دوبارہ چلانے کی کیا امید رہ گئی تھی۔ بقراط، اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ اس کی گرفت میں میرا ہاتھ بہت تکلیف میں تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکال کر بھاگنا چاہا، تو اس نے پکڑ کر کھینچ لیا اور ہم دونوں نیچے بیٹھ گئے۔ نہ چیونٹی دیکھو گے نہ کچلنے کو دل چاہے گا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...