خاور اعجاز(ملتان)
کہانی !
کہاں سے کہاں تُو مجھے لے کے پھِرتی رہی
باغِ جنّت کی رُخصت سے آغاز ہوتی ہے
پانی پہ بہتی ہُوئی ایک کشتی کے ہمراہ چلتی ہے
بازارِ مصر اور سِینا کے صحرا سے ہوتی ہُوئی
شہرِ مکہ میں کچھ دن ٹھہرتی ہے
اور پھِر مدینہ کی سمت آ نِکلتی ہے
تیرے مآخذ
پُرانے صحیفوں کے دریاؤں سے پھُوٹتے ہیں
ہزاروں برس کا سفر کر کے آئی ہے تُو
بھید تخلیق کے اپنے الفاظ میں باندھ لائی ہے تُو
کس طرح زِندگی کو بسر کرنا ہے
یہ بتایا مجھے
ضابطے اور قانون اخلاق و برتاؤ کے
سب سِکھائے مجھے
خانہء دِل بھی کافی تھا
لیکن کہا
اپنے رَب کی عبادات کے واسطے گھر بنا
مَیں نے تعمیل کی
گھر کی بنیاد رکھی
ہر اِک اینٹ کے درمیاں میں تِری یاد رکھی
مگر اے کہانی !
مِرا ذکر ہی
داستانِ محبت میں معدوم ہونے لگا ہے
یہ معلوم ہونے لگا ہے
خود اپنے ہی گھر میں ٹھہرنے کی صورت نہیں اَب
تجھے کیا ہماری ضرورت نہیں اَب ! ؟