“السلام علیکم خالہ!” مہمل نے اندر آتے ہوئے سلام کیا۔
“وعلیکم السلام!” خالہ نے اس پر ایک سرسری سی نظر ڈالی تھی۔
“خالہ کہیں جا رہیں ہیں کیا؟” مہمل نے خالہ کو سامان باندھتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
“ہاں بچے کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر جا رہی ہوں۔” انکے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
“مگر کیوں خالہ؟” مہمل جھنجھلائی تھی۔
“بیٹا مجھے یاد آ رہی ہے اپنے بچوں کی اور ویسے بھی تمہارے کالج سے تو چھٹیاں ہو گئیں ہیں۔ دو ہفتے بعد امتحان ہیں تمہارے تو تم یہ دو ہفتے پشاور میں گزارو گی۔ تو میں یہاں کیا کرونگی؟” خالہ نے اسے وہ ساری تفصیل بتائی جس سے وہ ناواقف تھی۔
“مجھے دو ہفتے چھٹیاں ہیں امتحان کی تیاری کے لیے مگر یہ کس کے کہا کہ میں یہ چھٹیاں پشاور میں گزاروں گی؟” مہمل حیران و پریشان کھڑی تھی۔
“ارے وہ آج فون آیا تھا نا رقیہ کا وہ کہہ رہی تھی کہ کل صبح تم یہاں سے نکلو گی۔” خالہ نے تحت پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“میں کہیں نہیں جا رہی۔” مہمل نے کہا اور کچن میں چلی گئی۔
“تمہاری ماں یاد کر رہی ہے تمہیں ایک تم ہی تو اسکی کل کائنات ہو۔ ترس نہیں آتا تجھے اپنی ماں پر؟ چل ضد نہ کر سامان باندھ لے کل صبح تجھے وہ بچہ لینے آئے گا اور اب مجھے ایک لفظ نہیں سننا۔” خالہ نے گویا حکم سنایا تھا۔
“کون بچہ؟” مہمل نے کچن سے آواز لگائی تھی۔
“ارے وہ داؤد! بڑا فرمانبردار بچہ ہے۔” خالہ نے بتایا اور پھر اپنے کام میں لگ گئیں۔ جبکہ کچن کے اندر موجود مہمل اسکا نام سن کر کلس کر رہ گئی تھی۔
“ہاں وہی رہ گیا ہے فرمانبردار ایک دنیا میں!” اس نے تلخی سے سوچا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“مشوانی!” شاہ اسکے گھر میں اسے آواز دے رہا تھا۔ مگر وہ چپ چاپ گھر کی پچھلی طرف موجود لان میں بیٹھا تھا۔
“ابے بہرہ ہو گیا ہے کیا کب سے آوازیں دے رہا ہوں تجھے۔” شاہ نے جب اسے عقبی حصے میں موجود لان میں بیٹھے دیکھا تو اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
“کیوں کیا ہو گیا ہے؟” مشوانی نے پوچھا۔
“کچھ نہیں سوچا تمہیں مل آؤں اور امریز لالہ کی منگنی کی مبارک بھی دے دوں۔ مگر تو کیوں اداس مجنوں بنا بیٹھا ہے؟” شاہ نے اسکی حالت پر طنز کیا تھا۔
“دے دی مبارک نا! مبارک! اب کان نہیں کھاؤ یار!” مشوانی تپا تھا۔
“یہ کیا کر رہا ہے؟ چھوڑ دے ادھر! آئندہ بعد یہ بے ہودہ حرکت نہ کرنا تم! ” شاہ نے اسکے ہاتھ سے سگریٹ چھینا تھا جو اسنے ابھی ابھی اسکے سامنے سلگایا تھا۔
“شاہ تو مجھے نہیں سمجھتا۔ مجھے سکون نہیں ملتا۔ کس عذاب میں پھنس گیا ہوں میں؟” مشوانی اب سیدھا ہوا تھا۔
“لگتا ہے چچازاد سے تو اب مجھے ملنا چاہیے اسکی زیادتیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔” شاہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔
“تم اسکے قریب نظر نہ آئیں شاہ میں جانتا ہوں کہ اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو مرے گا یا وہ اور میں دونوں کو کھونا نہیں چاہتا۔ وہ میری محبت ہے تماور تم میرے جان سے عزیز دوست۔ تجھے میری قسم ہے تو اس سے دور رہ اسکی جاسوسی مت کیا کر۔” داؤد کا لہجہ سپاٹ تھا۔ یہ دونوں اسے عجیب دوراہے پر کھڑا کر چکے تھے اور اسے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔
“کل جانا ہے اسکے ساتھ تم نے مگر یہ کیسا سفر ہے جو ساتھ ہو کر بھی ساتھ نہیں کرو گے تم لوگ؟” شاہ نے دونوں ٹانگیں سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
“کیا کہوں اب میں؟” مشوانی نے اس سے پوچھا تو شاہ تاسف سے سر ہلانے لگا۔
“چھوڑ دے یہ سب مجھے تو پتہ نہیں چلتا کہ تو کر کیا رہا ہے؟” شاہ کو اس پہ اب غصہ آنا شروع ہو چکا تھا۔
“انتظار!” مشوانی کے اس یک لفظی جواب میں بڑا درد چھپا تھا، جس کو محسوس کرتے ہوئے شاہ نا چاہتے ہوئے بھی خاموش ہو گیا۔
مشوانی اب سیدھا بیٹھا آسمان کو گھور رہا تھا۔
نجانے اس انتظار کا انجام کیا ہے؟
نہ وہ مِلتا ہے نہ مِلنے کا اِشارہ کوئی،
کیسے اُمّید کا چمکے گا سِتارہ کوئی؟
حد سے زیادہ، نہ کسی سے بھی محبّت کرنا،
جان لیتا ہے سدا ، جان سے پیارا کوئی!
بیوفائی کے سِتم تم کو سمجھ آجاتے،
کاش ! تم جیسا اگر ہوتا تمھارا کوئی۔۔۔
چاند نے جاگتے رہنے کا سبب پُوچھا ہے،
کیا کہَیں ٹُوٹ گیا خواب ہمارا کوئی؟
سب تعلّق ہیں ضرورت کے یہاں پر، “مُحسنؔ”،
نہ کوئی دوست، نہ اپنا، نہ سہارا کوئی!
(محسن نقوی)
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“ہیلو مس!” آج پھر اسنے نور کا دماغ گھمانے کے لیے فون کیا ہوا تھا۔
“جی فرمائیں!” نور نے لہجے کو حتی الامکان ہشاش بشاش رکھتے ہوئے کہا۔
“ارے میں شاہ تو نہیں جو اتنی عزت سے بات کر رہی ہو۔” اگلے نے طنز کیا۔
“کر لی بکواس تو کام کی بات کرو۔” نور نے پوچھا۔
“کب ماروں پھر میں اس شاہ کی بہن کو؟” اسنے سنجیدگی سے پوچھا تو نور نے ایک گہری سانس خارج کی تھی۔
“ولیمے کے دو دن بعد وہ ناران کے لیے نکلیں گے کہیں بھی حادثہ ہو سکتا ہے نا؟” نور نے اسے ایسے بولا جیسے اس سے یقین دہانی چاہتی ہو۔
“راجر باس!” اگلے نے میکانکی انداز میں سر ہلایا تھا۔
“ویسے یہ انتقام لگتا ہے آپ کو مزہ نہیں دے رہا نور یوسفزئی۔” اسنے سوال کیا۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے۔” نور نے کہا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نور بولی:
“وہ مجھے۔۔۔۔۔۔” نور نے لب بھینچے تھے۔
“پوری بات کریں مس!” اسنے لمبی سانس لی وہ جانتا تھا کہ نور کیا کہنے والی ہے۔
“مجھے اسکا ایڈریس سینڈ کر دو۔” نور نے جملہ مکمل کیا لیکن اسکے لہجے میں لرزش تھی۔
“فیصلہ ہو گیا ہے کیا؟” اسنے آخری امید کے طور پر دوبارہ پوچھا تھا۔
“ہاں شاید!” نور نے کہا لیکن اس سے زیادہ بات کرنے کی سکت اسکے اندر نہیں تھی۔
اس لئے وہ فون کاٹ چکی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔
دونوں ہی خاموش تھے۔ شاید کہنے کو دونوں کے پاس ہی کچھ نہیں تھا۔
وہ دونوں عجیب تھے۔
ایک دوسرے کو خود سے زیادہ جانتے تھے مگر پھر بھی دور ہوتے جا رہے تھے۔ پچھلے اتنے سالوں سے جو بن کہے ایک دوسرے کی بات سمجھ جاتے تھے اب ان دونوں میں سے ایک نہیں سمجھ پا رہا تھا۔
یا شاید!
وہ سمجھنا نہیں چاہتا تھا،
جبکہ دوسرا۔۔۔۔۔
پہلے کے رویے سے الجھنوں کا شکار تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
“کیسی تیاری ہے امتحانوں کی؟” مشوانی نے گاڑی میں موجود خاموشی کو توڑا تھا۔
وہ دونوں کراچی سے پشاور کی جانب رواں دواں تھے۔
“ہمیشہ کی طرح اچھی ہے۔” مہمل نے جواب دیا تھا۔
“مجھے نہیں لگتا کہ اس سال تم ٹاپ کر پاؤ گی۔ اس سال تم ذہنی طور پر پریشان رہی ہو اور پڑھائی کو کم وقت دیا ہے تم نے۔” مشوانی اس سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا۔
“ہاں مگر اتنی بری تیاری بھی نہیں کہ فیل ہو جاؤں۔” مہمل نے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
“کس سے ہو رہی ہے امریز خان مشوانی کی منگنی؟” مہمل نے پوچھا۔
“تم انھیں امریز لالہ بھی کہہ سکتی ہو۔”مشوانی نے جب یہ بات کہی تو وہ سر جھکا چکی تھی۔
“مجھے رشتے نہیں بنانے لوگوں سے۔” اسکے لہجے میں لچک کا احساس تک نہیں تھا۔
کیا ہم تمہارے لیے عام لوگوں کی طرح ہیں؟” مشوانی کو وہ ہمیشہ جھٹکے دیتی تھی۔
“معلوم نہیں!” اسنے کندھے اچکا دیے تھے اور اب وہ گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
جبکہ مشوانی اسکو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
آخر وہ اپنی زندگی سے چاہتی کیا ہے۔
مشوانی کو بعض اوقات وہ حد سے زیادہ بیوقوف لگتی اور کبھی حد سے زیادہ سمجھدار! لیکن اصل میں وہ کیا ہے اسکا فیصلہ اس سے کبھی نہیں ہو پایا تھا۔
“مہمل خان میں تمہارا ہمیشہ انتظار کرونگا۔ جب تک یہ سانسیں ہیں تب تک مجھ پر کسی اور کا حق نہیں ہو سکتا کیونکہ خود پر حق میں کسی کو دے ہی نہیں پاؤں گا۔ وہ اس لیے خود پر حق تو میری اپنی ذات کو بھی حاصل نہیں ہے۔” مشوانی سوچوں کے بھنور میں خود کی ذات کو تلاش کرنے کی کئی بار کوشش کر چکا تھا مگر ہر بار اسے ناکامی ہی ملتی تھی۔
تجھ سے پہلے بھی کئی زخم تھے سینے میں مگر!
اب کہ وہ درد ہے سینے میں کہ رگیں ٹوٹتی ہیں۔۔۔
– – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – –
وہ اسکا پتہ لے کر اسے خط لکھنے بیٹھی تھی۔
آج وہ اسے اپنی زندگی سے باہر کرنے لگی تھی۔
اسے شاہ سے محبت تھی اور اسکی عادت جسے آج وہ یہ پیغام لکھنے بیٹھی تھی۔
وہ عادت جسے وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی مگر اسے کسی ایک کو چننا تھا، اور دل نے فیصلہ شاہ کے حق میں دیا تھا۔
اسنے خط کئی بار لکھا لیکن ہر بار اپنے الفاظ اسے کھوکھلے لگے کیونکہ وہ کسی کے خلوص کو، عشق کو، محبت کو ٹھکرا رہی تھی۔
اسنے تنگ آ کر جو دل میں آیا لکھ دیا اور خط پوسٹ کرنے کے لیے چوکیدار کو دے دیا۔
“میں نے اسے فیصلہ بھیج دیا ہے۔” اسنے اپنے ہمراز کو میسج کیا تھا۔
جس پر اس (ہمراز شخص) نے اسے ایک شعر لکھ کر بھیجا تھا:
“وہ شخص جسے چھوڑنے میں تونے جلدی کی۔۔۔
تیرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا!”
(محسن نقوی)
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل اور مشوانی پشاور پہنچ چکے تھے۔
مشوانی اسے زنان خانے کے اندر چھوڑ کر خود امریز خان کے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔
جہاں وہ امریز خان مشوانی کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔ وہ جب اداس ہوتا اپنے بڑے بھائی کے پاس یوں لیٹ جاتا تھا۔
امریز لالہ اور شاہ ہی صرف اسکے راز سے واقف تھے۔
باقیوں کو وہ صرف ایک معمول کا رشتہ لگ رہا تھا۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ داؤد خان مشوانی کس آگ میں جل رہا ہے۔
مہمل میکانکی انداز میں وہاں موجود سب لوگوں سے مل رہی تھی۔
اسے کسی سے کوئی انسیت محسوس نہیں ہو رہی تھی جبکہ سب اس سے بڑے پیار سے بات کر رہے تھے۔
آخر کار وہ رقیہ بیگم کے کمرے میں پہنچی تو اسنے سکھ کر سانس لیا اور اپنی ماں سے مل کر اسے خوشی ہوئی تھی۔ لیکن اس شہر میں اپنی سانسیں اسے رکتی ہوئی محسوس ہر رہیں تھیں۔
اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ یوسفزئی حویلی پہنچ کر اسے تہس نہس کر دے۔ لیکن یہاں وہ مشوانی حویلی کے زنان خانے میں موجود تھی جہاں سب لوگ اس سے بڑے پیار سے پیش آ رہے تھے شاید وہ اسے اس قبیلے کے مستقبل کے سردار کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر ان کو نہیں معلوم تھا کہ ان دونوں میں تو صدیوں کا فاصلہ موجود ہے۔
معلوم نہیں یہ فاصلہ مٹنا بھی ہے کہ نہیں؟
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
اسے نور کا خط مل چکا تھا۔
اتنے عرصے سے وہ اس سے رابطے میں نہیں تھا کیونکہ نور نے اسے موقع نہیں دیا تھا کہ وہ نور کے عزائم جان سکے۔
شاید اسے معلوم بھی تھا کہ وہ اسکے حق میں فیصلہ نہ دے مگر پڑھ کر اسے شاک لگا تھا۔
اسنے فوراً پیکنگ شروع کی تھی۔
اسکے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔
اسے فوراً پشاور پہنچنا تھا!
آخری بار۔۔۔۔۔۔
درخواست کرنے؛
التجا کرنے؛
شاید کام بن جائے!
وہ دل کی باتیں زمانے بھر کو نہ یوں سناتا ، مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ، مجھے بتاتا
زبانِ خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرارہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا ، مجھے بتاتا
زمانے والوں کو کیا پڑی ہے سنیں جو حال دل شکستہ
مگر میری تو یہ آرزو تھی مجھے چلاتا ، مجھے بتاتا
مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اس کی راہ میں اپنے دل کا دیا جلاتا ، مجھے بتاتا
منیر اس نے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی کے ساتھ
میں اس کی خاطر یہ دنیا چھوڑ جاتا ، مجھے بتاتا
(منیر نیازی)
– – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...