ہمارے جیون میں ایسا حادثہ پیش آیا تھا، جسے دنیا شاید نہ مانے، ہم سب لوگ من ہی من بہت ہی مایوس ہو گئے تھے۔ اتنے سالوں کا ساتھی ہم سے دور ہو گیا تھا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میں ہی اس ڈیپریشن کو جھیل کر پھر کام میں جُٹ گیا، اور پورے زور و شور سے جُٹ گیا۔ یہ کام تھا نئی کہانی بنانا، نیا خیال پیش کرنا، فلم میکنگ میں ایک نیا تجربہ کرنا۔ ن۔ہ۔آپٹے کے ‘دنیا نہ مانے’ ناول پر نئی فلم بنانے کے کام میں لگ جانا ہی ڈیپریشن سے آزاد ہونے کا بہترین حل تھا۔
سکرین پلے شکل لینے لگا: ماتا پِتا کی موت کے کارن یتیم اور بے سہارا ہوئی ہروئین کی شادی دَھن کا لالچی اس کا ماما (ماموں) ایک امیر بوڑھے وکیل سے کر دیتا ہے۔ اس نوجوان لڑکی کے سارے احساسات جل کر خاک ہو جاتے ہیں۔ اپنے ساتھ کی گئی اس ناانصافی کا انتقام وہ بہت ہی شدت سے لیتی ہے۔ اس کے ایسے متشدد طرزِ عمل کے کارن اُس کے لیے اُس کے پتی اور گھر کے دیگر لوگوں کے من میں ایک طرح کی دہشت چھا جاتی ہے۔۔۔
اصل ناول میں دکھایا گیا تھا کہ ہروئین کا شادی سے پہلے ایک دوسرے نوجوان کے ساتھ پریم ہے۔ اس پریم کو جتانے والے کئی سین بھی ناول میں تھے۔ لیکن سکرین پلے بناتے سمے میں نے ان سبھی سین کو رد کر دیا۔ اس کا کارن میری رائے میں یہ تھا کہ فلم میں وہ ہی پریم سین رہتے تو شادی کے بعد اُس کی طرف سے کی گئی جدوجہد اس شادی سے پہلے پیار کے تعلق کے کارن کی گئی معلوم ہوتی۔ اس سے ہیروئین کی مورتی ایک دم معمولی ہو جاتی۔ وہ ناانصافی کا انتقام لینے کے لیے نہیں، محبت کی ناکامی سے پیدا ہوئی ناکامی کے کارن جدوجہد کررہی ہیروئین معلوم ہوتی۔ یہ مجھے پسند نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اپنے ساتھ کی گئی ناقابل معاف ناانصافی کے انتقام کے لیے اس نے خود داری کے ساتھ جو جدوجہد کی اُسی کو فلماؤں۔ بھارتی فلموں میں رومینٹک سین بہت ہی سستے ہو چلے تھے۔ اس لیے میں نے اسی پٹی پٹائی راہ پر چلنے سے انکار کر دیا۔ میں نے طے کیا کہ اپنی سماجی فلم میں ایک بھی رومینٹک سین نہیں رکھوں گا۔ یہ ہی کیوں، لفظ محبت تک کا کہیں استعمال نہیں کروں گا اور پھر بھی فلم عام لوگوں کے دلوں کو برابر چھوتی چلی جائے اس طرح اُس کی تخلیق کروں گا۔ یہ ایک دم نرالا چیلنج میں نے اپنے آپ کو دیا۔
سکرین پلے لکھ کر تیار ہو جانے کے بعد ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھیوں کو وہ پڑھ کر سنایا۔ سن کر داملے، فتے لال دونوں سوچ میں پڑ گئے۔ فتے لال جی نے کہا، “شانتارام بابو، اس میں تو ایک بھی لَوسین نہیں ہے، لوگوں کو یہ فلم کس طرح پسند آئے گی ؟”
داملے جی نے بھی اُن کی حمایت کی، “یہ ہماری پہلی ہی سماجی فلم ہے۔ یہ فیل ہو گئی تو ہماری بڑی بے عزتی ہو گی!”
“ویسا کچھ بھی ہونے نہیں جا رہا ہے، لیکن مان لیجئے کہ یہ فلم فیل ہو جاتی ہے تو یہ یقین جانیے کہ لوگ اس تجربے کو ‘اے گریٹ فیلیئر’ ہی کہیں گے۔” میں نے کہا۔
بھارت کی پہلی تجرباتی فلم (avant-garde cinema/ experimental film) کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ اس فلم میں سبھی مستعمل طور طریقوں کا استعمال نہیں کروں گا اور کاروباری کامیابی کے لیے کسی طرح سمجھوتا نہیں کروں گا۔ فلم کے لیے یہ ٹریٹمینٹ من میں پکا ہوتے ہی مجھے ہر سین کو پیش کرنے کے نئے اور انقلابی خیالات سوجھنے لگے اور من میں اٹھتی ہر نئی بات کو میں دھڑلے کے ساتھ عمل میں لانے لگا۔
فلم میں کسی سین کو اٹھانے کے لیے بیک گراونڈ میوزک دینے کا پرانا طریقہ کار میں نے چھوڑ دیا۔ اس میں سوچ یہ تھی کہ سین کا احساس بڑھانے کے لیے دیا جانے والا بیک گراونڈ میوزک سہج نہیں، غیر فطری ہوتا ہے۔ اس کے کارن سین کی حقیقت کم ہو جاتی ہے۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ بیک گراونڈ میوزک کی جگہ پر جیون میں ہمیشہ سنائی دینے والی آوازوں کا ہی استعمال کر لیا جائے۔ اُسی کے مطابق ہیروئین نِیرا کو گانے کا شوق ہونے کے کارن وہ کلاسیکل میوزک کے گراموفون ریکارڈز بجا کر ان کی لےَ پر گانا گاتی ہے، ایسے دیگر سین میں نے سکرین پلے میں جوڑے۔
اس فلم کے ہر میوزک سین کے لیے میں نے نت نئے خیال کا تجربہ کیا: نِیرا شادی کے بعد سسرال آتی ہے۔ وہاں کاکا صاحب کی چھوٹی بھانجی سے اس کی گاڑھی دوستی ہو جاتی ہے۔ نِیرا کے جیون میں اس ننھی بچی کی دوستی کے کارن کافی رس پیدا ہو جاتا ہے۔ نیرا کے سسرال آنے کے بعد کچھ سمے بیت جاتا ہے، یہ بات مجھے فلم میں دکھانی تھی۔ یہ مَیں موسم پر مبنی ایک گیت کےذریعہ دکھانا چاہتا تھا۔ لیکن اس گیت کے لیے مجھے آرکسٹرا کا استعمال نہیں کرنا تھا۔ وہ ننھی بچی اس کے اسکول میں سِکھایا گیا موسم کا گیت گاتی ہے۔ ہیروئین نیرا کمرے میں رکھا پانی کا لوٹا، گلاس اور لکڑی کا چھوٹا ڈنڈا لےکر ان کو جل ترنگ جیسا بجاتی ہے اور اس گیت کا تال سُروں میں ساتھ دیتی ہے۔ ایسا سین میں نےسوچا۔ سنگیت کا یہ تخیل اس زمانے میں ایک دم انوکھا تھا۔
آگے چل ایک سین میں ایک بھکاری کا گانا ہے۔ اس سین کو میں نے راہ چلتے بھکاری جس طرح اپن ٹین کی ڈبیاں بجا بجا کر گاتے ہیں، اور ایک ساتھی گلے میں کہیں کا ٹوٹا پرانا ہارمونیم باندھے اس کا ساتھ دیتا ہے، اسی طرح کا سین میں نے لیا۔ یہ گیت بہت ہی مقبول ہو گیا۔ اس کے لیے پہلے کیشوراؤ بھولے نے ایک دُھن کھوجی تھی، لیکن ان کی دُھن مجھے پسند نہیں آئی۔ لیکن تبھی امرتسر کے میرے ایک چاہنے والے نے کچھ گیتوں کے فونو گرافس مجھے تحفے میں بھیجے۔ ایک دن میں انہیں سننے بیٹھا۔ ان میں “آئے مدینہ” نامی ایک گیت کی دُھن مجھے بے حد پسند آئی۔
میں نے کیشوراؤ بھولے کو بھی وہ دُھن سنائی۔ انہوں نے بھی اسے پسند کیا۔ اسی دُھن پر منشی عزیز نے گیت تخلیق کر دیا:
“من صاف تیرا ہے یا نہیں پوچھ لے جی سے، پھر جو کچھ کرنا ہے تجھے کر لے خوشی سے، گھبرا نہ کسی سے۔”
اس کے بعد اسی ارادے پر مراٹھی گیت شانتارام آٹھولے نے لکھ دیا۔
فلم کے کریڈٹ ناموں سے ہی یہ ناظرین کے دل و دماغ کو جکڑ سکے ، اس لیے میں نے دکھایا کہ شروع میں کیمرے کے چوکھٹے میں ایک گراموفون آتا ہے۔ اس کے بعد ہیروئین کا ہاتھ اس چوکھٹے میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ فونوگراف چالو کرتی ہے۔ اس میں لیریکل سنگیت سنائی دینے لگتا ہے۔ گراموفون پر رکھا فونوگراف جب گھومنے لگتا ہے تو اس کے مرکزی حصے پر چپکا نام بتانے والا لیبل بھی گھومتا گھومتا باہر آتا ہے اور کیمرے کے پاس آ کر ساکت ہو جاتا ہے۔ اس پر ٹیکنیشنز اور ڈائریکٹر کے ناموں کی رہمنائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہر سمے اسی طرح لیبل کیمرے کے پاس آ کر رکتا ہے اور آخر میں اس پر فلم کا نام آتا ہے۔
اس کے بعد کے سین میں بڑھاپے کی طرف ڈھلتی عمر کا ادھیڑ ہیرو اپنے لیے پتنی طےکرنے کے لیے ہیروئین کے ماما کے گھر آتا ہے۔ وہاں وہ اب بھی میں جوان ہوں کی ادا سے خضاب لگا کر کالی کی ہوئی اپنی مونچھوں پر تاؤ دے کر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ابھی اس کی شادی کی عمر ہے۔ تبھی سڑک سے جاتا کوئی پھیری والا آواز دیتا ہے ‘ق۔۔ل۔۔ئی۔۔’ ہیرو چونکتا ہے۔ مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا اس کا ہاتھ فوراً نیچے ہو جاتا ہے، جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ اس خاص پس منظر میں آواز کے سین سے میں نے یہ بتایا تھا کہ جس طرح قلعی لگانے سے برتن روپہلے ہو جاتے ہیں، اسی طرح ہیرو کی روپہلی مونچھیں خضاب کی قلعی کرنے کے کارن کالی سیاہ دکھائی دے رہی ہیں۔
فلم کے آخر میں ہیرو کو اتنی ادھیڑ عمر میں شادی کرنے کا پچھتاوا ہوتا ہے۔ اپنے سہاگ کی اصل (حقیقت) دبلی اور بوڑھی ہے، یہ جان کر نِیرا سہاگ سِندور لگاتے سمے ہمیشہ ہچکچاتی رہتی ہے۔ آخر اس کا بوڑھا وکیل پتی خود ہی یہ کہتا ہوا کہ، ”تم اب سے سہاگ سِندور مت لگایا کرو”، اس کے ماتھے پر لگا خوش قسمت سِندور مٹا دیتا ہے۔ ہیرو کے من میں اس سمے یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر عورت بیوہ ہو جاتی ہے، تو ممکنہ طور پر اپنا دوسرا بیاہ رچا سکتی ہے اور سُکھی ہو سکتی ہے۔ اُن دنوں سفید پوش سماج میں بیاہتا کو طلاق نہیں ملتی تھی۔ ماتھے کے سہاگ سِندور کا اس طرح مٹائے جانے کا ہیروئین کے من پر زبردست صدمہ پہنچتا ہے۔ بھارتی عورت کے بنیادی سنسکاروں کو دھچکا لگتا ہے۔ اس کا کلیجہ تھرّا اٹھتا ہے۔ اسی سمے سڑک پر مری مائی کا کوئی بھگت بھگوتی کوخوش کرنےکے لیے اپنے ہی بدن پر جم کر کوڑے لگاتا ہے۔ کوڑوں کی کڑکتی آواز کا بیک گراونڈ آواز ناری کی ذہنی تکلیف کا اظہار بہت ہی پراثر ڈھنگ سے کرتا ہے۔
اسی طرح مختلف نئے خیالات کو پیش کرتے ہوے اس نئی فلم میں مَیں نے بیک گراونڈ میوزک کی جگہ پر بیک گراونڈ آواز کے ذریعے سے سین کی ڈرامائیت کو سجانے کی کوشش کی ۔ یہی نہیں اس فلم کے ذریعے میں نے یہ بھی دکھا دیا کہ معمولی استعمال کی چیزوں کو بھی فلم کا اٹوٹ انگ بنایا جا سکتا ہے۔ کونکن جا کر نئی شادی کر آیا بوڑھا ہیرو کچہری سےجب گھر لوٹتا ہے، تو راستے میں کئی واقف لوگ اوچھے انداز سے اُسے نئی شادی کے بارے میں پوچھنے لگتے ہیں۔ ان کو ٹالنے کے لیے وہ اپنی چھتری کا استعمال کرتا ہے۔ چھتری کھول لیتا ہے اور دور سے کوئی واقف آتا دکھائی دیا کہ کُھلی چھتری کی اوٹ میں اپنا منھ چھپا لیتا ہے۔ اسی طرح منھ چھپاتے چھپاتے اور واقف کاروں کی پھبتیوں سے بچتے بچاتے وہ اپنے گھر آ جاتا ہے۔ دروازے پر ہی اس کا بوڑھا نوکر کھڑا ہوتا ہے۔ وکیل اپنی ہی خوابیدگی میں کھویا کھویا چھتری تان کر ہی گھر میں گھستا ہے اور نوکر سے بھی منھ چھپا لیتا ہے۔
مالک کے اس الجھے ہوے طرز عمل سے حیران نوکر منہ کھولے دیکھتے ہی رہ جاتا ہے۔ وکیل دیوان خانے میں آتا ہے۔ دیوار پر لگی پرانی گھڑی آدھ گھنٹہ بیتنے کا کچوکا دیتی ہے۔ ہیرو اپنی خوابیدگی سے جاگ جاتا ہے اور چونک کر چھتری ایک طرف کرتا ہوا گھڑی کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔
بات یہ تھی کہ میں خود بھی خیالات کی خوابیدگی میں کھو کر کافی بھلکڑ بن جاتا تھا۔ اپنے اسی سوبھاؤ کے کارن ہی ہیرو کو چھتری تان کر گھر میں بھیجنے کا سین شوٹ کرتے سمے مجھے سوجھا تھا۔ کیشوراؤ داتے نے اپنی مسحور کن اداکاری سے اِس میں جان ڈال دی۔ دیوان خانے میں لگی اس گھڑی کے وجود کا استعمال میں نے پوری فلم میں ہر ایک کے روپ میں کئی بار کیا۔ وہ گھڑی ہیرو کی طرح ہی پرانی اور بوڑھی ہوگئی ہے۔ فلم میں ایک سین دکھایا تھا : ہیرو کی چاچی نِیرا کو دھوکا دے کر وکیل (ہیرو) کی کوٹھڑی میں بند کر دیتی ہے۔ وکیل اپنی سہاگ رات منانے کے لیے کمرے میں جانے لگتا ہے۔ وہ دروازے کی کنڈی کو ہاتھ لگاتا ہی ہے کہ نِیرا کمرے کی کنڈی چڑھا کر اندر سے بند کر دیتی ہے۔ وکیل کنڈی کھولنے کے لیے نِیرا کو ڈانٹ کر کہتا ہے۔ نیرا بھی اتنی ہی سختی سے اسے چیلنج دیتی ہے، “آپ چپ چاپ یہاں سے واپس نہ لوٹے، نہیں تویقین جانیے کہ کمرے میں رکھی لالٹین کا سارا تیل انڈیل کر میں سارے گھر کو آگ لگا دوں گی!”
بے بس وکیل باہر کے دیوان خانے میں ایک آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ غصے کے مارے ہانپنے لگتا ہے۔ ہر سانس پھولی پھولی سی آتی ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک ٹک اور ہیرو کا ہانپنا دونوں کی لےَ ایک ہو جاتی ہے۔ تبھی ‘گھرس س گھر س س’ بڑی آواز ہوتی ہے۔ گھڑی کا سپرنگ کھل گیا ہوتا ہے۔ پل بھر وکیل کو ایسا لگتا ہے، جیسے اس کے دل کی گھڑی بھی بند ہو گئی ہے۔ وہ اپنے ہاتھ سے دل کو ٹٹولنےلگتا ہے۔ گھڑی کا سپرنگ کھل جانے کی اس آواز سے تھئیٹر کے ناظرین بھی چونک جاتے تھے۔ کئی لوگ تو پردے پر دکھائی دے رہے ہیرو کی طرح اپنا سینہ بھی ٹٹولنے لگتے تھے۔ پوری فلم میں جب جب وہ گھڑی بند ہو جاتی ہے، وکیل اس کا پینڈولم زور سے ہلا کر اسے چالو کرتا رہتا ہے۔
فلم کے آخری سین میں گھڑی کا زیادہ سے زیادہ تجربہ کیا تھا: ہیرو وکیل کو اپنی بھول معلوم ہو چکی ہے۔ اس کے من میں طوفان اٹھا ہے۔ کس طرح نِیرا پھر جیون میں سکھ کے راستے پر چل پائےگی۔ اس کی پریشانی میں پریشان وہ کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بےچین من سے گھومتا رہتا ہے۔ آخر تھک کر وہ ایک کرسی پر بیٹھتا ہے۔ سامنے کی دیوار پر گھڑی کی ٹک ٹک ٹک جاری رہتی ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں ہی رات ہو جاتی ہے۔ کمرے میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ من ہی من کچھ فیصلہ کر وکیل اٹھتا ہے اور اپنے ہاتھ سے گھڑی کا پینڈولم روک کر گھڑی بند کر دیتا ہے۔ اپنے دل کی دھڑکن اپنے ہی ہاتھوں بند کرنے کا اشارہ دے دیتا ہے۔
اس سارے سین میں ہیرو کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہلوایا تھا۔ پھر بھی اس میں موجود جدوجہد، ہیرو کا کیا گیا فیصلہ وغیرہ سب باتیں بِنا کسی لفظ کے ٹھیک سے کہی جاتی ہیں۔ اس پرانی گھڑی کا استعمال بطور ایک علامت کے میں نے پوری فلم میں کر لیا۔ یہاں تک کہ وہ گھڑی فلم کا ایک جاندار کردار بن گئی!
اس گھڑی کی طرح وکیل کے کمرے میں رکھے بڑے آئینہ کا استعمال بھی میں نے ڈرامائیت بڑھانے کے لیے کیا۔ آدمی جب پس و پیش میں پڑ جاتا ہے تب آئینے میں پڑنے والا اُس کا عکس جیسے اُس کا دوسرا من ہے، اور وہ اس کی تکون کو کاٹتا رہتا ہے۔ اس مقبول سین کو اور بھی زیادہ پُراثر بنا کر میں نے پُرجوش احساس کا اخراج فلمایا۔
وکیل اپنی سفید ہوئی مونچھوں کو خضاب لگا کر کالا کر رہا ہے۔ تب اس کا عکس اس سے سوال کرتا ہے، ”تم اپنے سفید ہوے بالوں کو اس طرح کالا تو کر لو گے، لیکن تمہارے بوڑھے ہوے من کو پھر سے جوان کیسے کر پاؤ گے؟” وکیل اور اس کے عکس میں نوک جھونک ہو جاتی ہے۔ وکیل آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ پاس ہی رکھا ایک پیپرویٹ اٹھا کر اپنےعکس پر دے مارتا ہے۔ آئینہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس میں دو تین دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اب دو تین عکس وکیل کی کِھلّی اڑاتے ہنستے ہوے نظر آتے ہیں۔ وکیل اور بھی گرم ہو جاتا ہے، کسی اور بھاری چیز کو آئینے پر دے مارتا ہے۔ اب آئینہ ٹکڑوں میں بکھر جاتا ہے۔ وکیل مڑ کر جانے لگتا ہے، لیکن تبھی بہت سارے لوگوں کی طنز بھری ہنسی سنائی دیتی ہے۔ وکیل پھر پلٹ کر دیکھتا ہے کہ آئینے کے زمین پر بکھرے ایک ایک ٹکڑے میں اس کے اپنے ہی عکس اسے چِڑا کر ہنس رہے ہیں۔
اس فلم میں اس طرح جدت لیے فلمائے گئے ہر ایک سین، بیک گراونڈ ساؤنڈ، بے جان چیزوں کا جاندار استعمال وغیرہ اتنی نئی نئی باتیں تجربے میں لائی گئیں کہ ان سب کا بیان کرنے بیٹھوں تو ایک پوری کتاب بن جائےگی۔
ناول کے اوریجنل ٹائٹل ‘نا پٹناری گوشٹ’ کی ہندی تبدیلی کچھ باغی انداز سے کی—’دنیا نہ مانے’۔ مراٹھی ورژن کا نام ایک دم گھریلو، سگھڑ اور علامتی رکھا– ‘کُنکو’۔ ‘دنیا نہ مانے’ کو ہم نےسب سے پہلے کلکتہ میں ریلیز کیا۔ اس سمے میں بمبئی میں بخار سے بیمار پڑا تھا۔ کلکتہ سے تار آیا: ”دنیا نہ مانےکو ناظرین اور ناقدین نے خوب سراہا ہے۔”
تار پڑھ کر میرے تو خوشی کے آنسو بہہ نکلے۔ کتنا بڑا خطرہ اٹھایا تھا! میں نے ایک ایسی فلم بنائی تھی جو سماج کے قدیم چلن کو ایک دم جنجھوڑ دے گی۔ ایسی فلم جس میں عام دلچسپی کے ناچ، گانے یا محبت کے سین کا ایک بھی سین نہیں۔ یہ خطرہ بہت بھاری پڑ سکتا تھا۔ ہم سبھی فلم کی کامیابی کے بارے میں شُبہ میں تھے۔ لیکن میرے اس نڈر تجربے کے کامیاب ہونے کے آثار دکھائی دینے لگے۔
چونکہ سینٹرل سینما میں ہماری ‘تُکارام’ اب بھی بھیڑ مسحور کر رہی تھی، ہم نے ‘دنیا نہ مانے’ کو بمبئی کے ‘کرشن’ سینما میں ریلیز کیا۔ اس کے علاوہ اور ایک تجربہ کر کے دیکھا۔ ‘کرشن’ سینما کے ساتھ ہی بمبئی کے فورٹ علاقے میں ‘ایکسلسئر’ سنیما گھر میں بھی ایک ہفتہ کے لیے اس کی پیشکش کا انتظام کیا۔ ان دنوں فورٹ علاقے کے سبھی سینما گھروں میں صرف انگریزی فلمیں ہی دکھائے جاتی تھیں۔ وہ ایک دو ہفتے ہی چل پاتیں۔ انہیں دیکھنے والے ناظرین زیادہ تر غیر ملکی ہوتے یا مغربی تہذیب میں پلے بھارتی۔ مڈل کلاس کے عام لوگوں کے جیون پر مبنی ہماری یہ فلم وہاں کی ایلیٹ ناظرین کو کہاں تک راس آتی ہے، ہمیں شُبہ تھا۔
دو چار دن بعد ہی پیراماؤنٹ فلم کمپنی کے مالک چھوٹو بھائی دیسائی مجھ سے ملنے کے لیے ہی پُونا آئے۔ کہنے لگے، ”شانتارام، بمبئی کے سبھی فلم والے بولتے ہیں کہ تمہارا نیا فلم پربھات کے نام پر بہت ہوا تو تین چار ہپتا (ہفتہ) چلےگا، اس سے زیادہ نہیں۔ ہم نے بولا بیشٹ (Best) چلےگا۔ اُن فلم والوں کے ساتھ ہم نے ایک بیٹ (Bet) ماری ہے ہزار روپیے (روپے) کی۔ تمہیں کیا لگتا ہے، ہم بیٹ جیت جائے گا یا ہارے گا؟” اس کی مزیدار باتیں سن کر مزہ آیا۔ میں نے انہی کے لہجے میں بے فکر ہو کر کہہ دیا، “تم بیٹ جیتےگا۔ ایک دم پکا۔”
اور چھوٹو بھائی واقعی میں بیٹ جیت گئے۔ ‘دنیا نہ مانے’ ایکسلسئر میں لگاتار چار ہفتے ہاؤس فل چلی۔ وہ بھی وہاں دوسری امریکی فلم ریلیز کرنا پہلے طے ہو چکا تھا، اس لیے وہاں سے اسے ہٹانا پڑا۔ پر کرشن سینما میں بھی یہ فلم پورے ستائیس ہفتے چلی، بھارتی فلمی دنیا کی تاریخ میں ‘دنیا نہ مانے’ پہلی سماجی فلم تھی، جو لگاتار اتنے ہفتے چلی۔
اس کے بعد ‘دنیا نہ مانے’ سارے ہندستان میں ریلیز ہوئی۔ وینس فلم فیسٹول میں بھی اِسے دکھایا گیا اور وہاں کے پنچوں اور ناقدین نے اس کی بہت بہت تعریف کی۔ لیکن ہمارے ملک میں اس فلم کو لے کر کافی بھلا بُرا کہا گیا۔ ملک کے کونے کونے سے ایک سے زیادہ پتر آئے۔ لگ بھگ ہر پتر میں پتر لیکھک نے آپ بیتی لکھی تھی۔ مدراس سے ایک ایرانی نے لکھا تھا:
“میں ایک ادھیڑ عمر کا آدمی ہوں۔ میری مالی حالت اچھی ہے۔ میں نے حال ہی میں شادی کی ہے۔ میری پتنی عمر میں کافی جوان ہے، مجھ سے وہ اچھا سلوک نہیں کرتی۔ آپ کی ‘دنیا نہ مانے’ دیکھ آیا ہوں، اور پتنی کے اِس سلوک کا مطلب میری سمجھ میں آگیا ہے۔ اب میں اس کے درد کو اچھی طرح سمجھ پا رہا ھوں۔ اپنی غلطی میں نے پتنی کے پاس مان لی ہے اور اگر وہ چاہے، تو اسے اس شادی کے بندھن سے آزاد کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔ ویسے میں نے پتنی کو بتا بھی دیا ہے۔ آپ نےاس فلم کے ذریعے سے یہ جو مہان سماجی کام کیا ہے، اس کے لیے آپ کو دلی مبارک باد!”
کانپور سے ایک عورت نے لکھا تھا کہ یہ فلم دیکھنے کے بعد وہ بہت ہی غصہ ہو گئی۔ اپنے پتر کے ذریعے اس نے مجھے کافی آڑے ہاتھوں لیا تھا:
”آخر ہماری تہذیب کے خلاف اس فلم کی شوٹنگ آپ نے کی ہی کیوں؟ بھارتی ناری جنم سے ہی برداشت کرنے والی ہوتی ہے، وہ پتی مخالف بھی ہے۔ اس کے سامنے اس طرح ایک باغی ناری کا آدرش پیش کرنا کبھی مناسب نہیں۔ اس کارن ہزاروں سالوں سے چلی آ رہی ہماری ریت کی تباہی ضروری ہو جائےگی۔ اچھا ہو کہ آپ اس طرح کی فلم بنانا بند کر دیں، ورنہ ہمیں آپ کی فلموں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا!”
اس پتر کے کارن میرے من میں سوال پیدا ہوا کہ کیا واقعی میں نے کوئی غلطی کی تھی؟ اس سوال کا جواب وجیواُڑا سے آئے ایک اور پتر میں ملا۔ یہ پتر بھی ایک ناری نے ہی لکھا تھا:
”میرے سسرال میں مجھے بہت سزائیں دی جاتی ہیں۔ میرا پتی ایک الکوحل سے پرہیز کرنے والا نوجوان ہے، لیکن وہ اپنے ماتا پِتا سے بہت ڈر کر رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شادی شدہ ہو کر بھی میں اپنے آپ کو ایک دم بے سہارا محسوس کرتی ہوں۔ جیون سے کوئی لگاؤ نہیں رہ گیا ہے۔ لیکن کل آپ کی ‘دنیا نہ مانے’ فلم دیکھی اور اس کی ہیروئن کی طرح اپنا دامن صاف رکھتے ہوے مجھ سے ہو رہی نا انصافی کا انتقام لینے کا فیصلہ میں نے کیا ہے۔ اس طرح کی فلم بنا کر آپ ہم جیسی کمزور عورتوں کو ذہنی طاقت دیتے رہیں!”
اس زمانے میں اس طرح کا طوفان ‘کُنکو’ اور میرے خلاف بھی زوروں سے اٹھا تھا۔
‘موج’ کے ١٩٣٨ کے دیپاولی (دیوالی) خاص نمبر میں م۔و۔رانگنیکر نے میرے ساتھ ہوا اپنا ایک انٹرویو شائع کیا تھا۔ اس کے کچھ اقتباس یہاں دے رہا ہوں، تا کہ مجھ پر جوتنقید ہو رہی تھی اس کا کچھ اندازہ لگایا جا سکے۔ رانگنیکر نے لکھا تھا:
“۔۔۔شانتارام بابو کے اس غرور سے اُن کی انا کے بارے میں ہمیشہ quote کئے جانے والے چند لفظوں کی یاد تازہ ہو آئی۔” “میں جس پتھر پر سِندور چڑھا دوں، اس کو بھگوان بنا کر ہی چھوڑوں گا۔” شانتارام بابو کو ایسا کہتے quote کیا جاتا تھا! لیکن اپنےاس گھمنڈ کے بارے میں انہوں نے کہا، ”آپ سچ کہتے ہیں رانگنیکر جی، مَیں اس طرح ڈینگ ہانکتا رہتا ہوں، یہ تو مَیں نے پڑھا ہے اور سنا بھی ہے۔”
“شانتارام بابو اِس جملے کو کافی کچھ اکتاہٹ سے کہہ گئے، لیکن فوراً بولے، “جواب میں اس کے ساتھ کہوں گا کہ ہمارے سٹوڈیو میں کام کرتے ہوے جو اس فلمی دنیا میں نام کما گئے، ان میں سے ایک بھی اداکار پتھر نہیں تھا!”
“۔۔۔تو کیا یہ مان لیں کہ وہ پتھر اور سِندور والا جملہ کسی ایرے غیرے نے ہی شانتارام بابو کو بتا کر شائع کر دیا تھا؟ اس کی مناسب وضاحت شانتارام بابو نے اب بھی نہیں کی ہے، ایسا سمجھ کر میں نے پھر وہی سوال دہرایا۔”
“اس پر شانتارام بابو نے کہا، ‘اس طرح کے بے بنیاد لیکھوں کا ذکر ہی ہم کیوں کرنے بیٹھیں؟ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ سپیکر اپنے سننے والوں پر اثر ڈالنے کے لیے من چاہی اناؤنسمنٹ کرجاتا ہے، لیکھکوں کا حال بھی ویسا ہی ہے۔”
“لیکھکوں کی بات اٹھی تو۔۔۔ و۔س۔ کھانڈیکر کے ایک انٹرویو میں ‘پربھات’ کی سستی مقبولیت کی کِھلّی اڑاتے ہوے کی گئی بکواس یاد آئی۔ اس انٹرویو میں کھانڈیکر نے اپنی (ہنس پکچرز کی) فلم ‘جوالا’ کے وقار کی مشعل اونچی کرتے ہوے کہا تھا، ” ‘امرت منتھن’ کا بنیادی موضوع تشدد اور ہیرو راجگرو تھا۔ اس کے باوجود اس میں لمبے رومینٹک سین گھسائے گئے ہیں۔ اسی طرح ‘امر جیوتی’ میں چرواہوں کی شہزادی کا رومانس بے مطلب گھسا دیا گیا ہے۔ لیکن ‘پربھات’ کی اس سستی مقبولیت کے ٹارگٹ سے ہماری ‘ہنس’ کمپنی کا آدرش سیدھا سادہ مختلف ہے۔ ‘ہنس’ دانشورانہ سطح پر کھڑا ہونا چاہتی ہے۔”
“۔۔۔تو اس سستی مقبولیت کے بارے میں شانتارام بابو سے ان کی راۓ جاننا ناگزیر ہی تھا۔ اس پر انہوں نے کہا، ”کھانڈیکر جی اتنے اچھے لیکھک ہیں کہ ان کے اس ذکر کا جواب انہوں نے خود ہی اپنے اس انٹرویو کے دوران “جھاڑ بُہار” (رومینس) کی حمایت میں دے دیا ہے۔”
“شانتارام بابو کا یہ جواب سنتے ہی مجھے’جوالا’ میں ڈالے گئے کچھ مزاحیہ سین کی حمایت میں کھانڈیکر جی کے الفاظ یاد آئے۔ ‘جوالا’میں ایک جھاڑنے بُہارنے کا سین تھا۔ دانشورانہ سطح کے ماحول میں اس سین کی جیسے تیسے حمایت کرنے کی کوشش میں کھانڈیکر جی نے کہا تھا، ” ‘جوالا’ میں اصل میں مزاح کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن لوگوں کی مانگ کو دیکھتے ہوے وہ سین بعد میں اس میں جوڑا گیا۔”
“میں نے کھانڈیکر کے یہ الفاظ جیسے بھی یاد آ رہے تھے، شانتارام بابو کو سنائے۔ تب انہوں نے کہا، ”اب آپ ہی دیکھیے، کھانڈیکر جی اس میں نا قابل تردید روپ سے قبول کر گئے ہیں کہ ہماری مقبولیت نہایت اونچی قسم کی تھی، لہذا کھانڈیکر جی کی طرف سے گئی ہماری تنقید مسخری کے ڈھنگ کی اور صرف دانشور کسرت سی ہی لگتی ہے۔”
” کھانڈیکر جی کے ساتھ ساتھ مزاح کی بات چلی تو قدرتی طور پر مجھے اترے جی کا لکھا ‘پراچا کوّا’ ناٹک یاد آیا اور میں نے شانتارام بابو سے پوچھا، آپ نے ‘پراچا کوّا’ دیکھا ہے؟”
“شانتارام باپو نے اس کاجواب ‘نہ’ میں دیا اور فوراً مجھ سے ہی سوال کیا کہ آپ آخر ایسا کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا، ”اس ناٹک میں پربھات کی ہیروئین کو ٹارگٹ کرتے ہوے ایک جملہ ہے— سالی کیا چیخ رہی ہے۔ اور ‘کُونکو’ فلم کا ذکر گدھوں کی بارات کہہ کر کیا گیا ہے، اس لیے۔” اس پر شانتارام بابو نے فوراً کہا، ”اچھا اچھا، اب میری سمجھ میں آیا کہ اس ناٹک کمپنی کے مالک مجھ سے یہ ناٹک دیکھنے کی درخواست باربار کیوں کئے جا رہے تھے!”
“۔۔۔شانتارام بابو نے مجھ سے پوچھا، ”کیا یہ سچ ہے کہ ایک تماشا گھر کے افتتاح کے سمے اُن لوگوں نے اترے جی کو ایک قلم گفٹ کی تھی؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ بات بالکل سچ ہے۔ اس پر شانتارام جی ایک دم تالی بجا کر بولے، “تب تو آج کل اترے اسی قلم سے لکھتے ہوں گے!”
یہ تو رہی رانگنیکر جی کی بات۔ ماما وریرکر نے بھی ایک اخبار میں ‘کُنکو’ پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے اپنی تنقید میں لکھا تھا کہ نارائن ہری آپٹے کے اصل ناول میں ہیروئین کی جو محبت کا پہلو تھا، فلم میں قطعی نہیں لیا گیا ہے۔ لہذا کہانی کی روح ہی تباہ ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ شانتارام جی نے اپنی ‘کُنکو’ فلم میں اس ناول کےلیکھک کا گلا پورا کاٹ دیا ہے۔ ایک مشہور لیکھک کی’کُنکو’ کی کہانی پر ایسی بچگانہ تنقید کی جانے کی بات سن کر میری واقعی میں کچھ تفریح تو ضرور ہی ہوئی۔ نارائن راؤ آپٹے اسے پڑھ کر جھنجھلا اٹھے۔ انہوں نے ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں ان دونوں لیکھکوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور آخر میں کہا کہ، ”شانتارام بابو نے میرے ناول کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، وریرکر کی رائے کے مطابق انہوں نے میرا گلا بالکل ہی کاٹا نہیں ہے، بلکہ میری گردن اچھے طرح اونچی ہو گئی ہے۔”
مطلب یہ تھا کہ ‘کُنکو’ فلم نے سماج کے سبھی طبقوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ تنقید اور تبصروں کی جب یہ دُھلینڈی (ہندوتہوار) کھیلی جا رہی تھی، ڈیلکارنے جی کی ایک کتاب میں نے پڑھی۔ اُس کی ایک خوش بیانی نے ایسی تمام تنقیدوں کے لیے میرے نقطہ نظر میں بنیادی تبدیلی کر دی۔ خوش بیانی تھی ”تمہاری الٹی سیدھی تنقید ہو رہی ہے، تب مان لو کہ تم کام کرتےہو۔ اصل میں زندہ ہو۔ مر چکے لوگوں کے بارے میں سبھی اچھا ہی بولا کرتے ہیں۔” اس خوش بیانی کا مجھ پر اتنا اثر پڑا کہ آج تک مجھے یا میری فلموں کو لےکر اگر کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوا، پھر مجھے بھی کہیں کچھ غلطی ہو جانے جیسا لگتا ہے۔ جان بوجھ کر کی گئی سطحی تنقید کی طرف میں دھیان ہی نہیں دیتا۔ تنقید کا اپنے کام کی ترقی کی نظر سے میرے لیے کوئی استعمال نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے اندر ایک کٹھور نقاد کو ہمیشہ جگائے رکھا ہے۔ وہ نقاد مجھے وہ ساری غلطیاں صاف بتلا دیتا ہے، جو میری تنقید اور ناقدین کو بھی دکھائی نہیں دیتیں۔
‘دنیا نہ مانے’ فلم کے بارے میں ایک اور یاد ہے: یہ فلم جنوب میں ریلیز ہوئی، تب مدراس میں ہندی پرچار سبھا کے صدر ستیہ نارائن مجھ سے ملنے پُونا آئے۔ انہوں نے میرا دلی شکریہ ادا کیا۔ اس شکریہ کا کارن میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے ان سے پوچھا تو کہنے لگے، “جنوب میں آپ کی اس فلم کے کارن ہندی پرچار سبھا کا کام بہت تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں ہماری ہندی کلاسز میں شامل ہونے کے لیے اس لیے بھیڑ کیے جا رہے ہیں کہ آپ کی بنائی ہندی فلم کو وہ اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔”
اس فلم کے بارے میں اور ایک بہت ہی چُھو لینے والی یاد ہے۔ وہ اتنی سُندر ہے کہ آج بھی اس کی یاد سے تن من باغ باغ ہو اٹھتا ہے۔ کھیل کھیل میں کتاب میں کسی صفحے کے اندر رکھا ہوا پیپل کا پتہ، برسوں بعد اس کتاب کے صحفے الٹتے سمے مل جانے پر اس میں پڑی مہین، نزاکت بھری جالی دار نقاشی دیکھ کر تن من جذباتی ہو جاتا ہے نا، ٹھیک اسی طرح میری حالت اس یاد کےکارن آج بھی ہو جاتی ہے۔
ایک دن سویرے ہی میں اپنےگھر کے دیوان خانے میں بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا۔ تبھی نوکر نےآ کر بتایا کہ باہر کوئی بوڑھے سجن آئے ہیں اور آپ کا نام لے کر انگریزی میں کچھ پوچھ رہے ہیں۔ میں باہر آیا۔ جنوبی ڈھنگ کا صافہ باندھے ایک کافی بزرگ مہاشے دروازے پر کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا، “میں جنوب میں گُنٹور کا رہنے والا ہوں اور وہاں سے صرف وی۔ شانتارام جی سے ملنے آیا ہوں۔ مہربانی کر کے انہیں باہر بلائیے۔”
“آپ کو ان سے کیا کام ہے، جان سکتا ہوں؟”مَیں نے تجسس سے پوچھا۔
“بات ایسی ہے کہ مَیں نے اُن کی ‘دنیا نہ مانے’ دیکھی اور اس فلم سے میں اتنا متاثر ہو گیا کہ صرف ان سے ملنے کے لیے ہی گُنٹور سے پُونا آگیا ہوں۔”
اب میں تذبذب میں پڑا، کیسے ان مہاشےکو بتاؤں کہ میں ہی شانتارام ہوں۔ لیکن مجھ سے ملنےکی ان کی دلی خواہش کو دیکھتے ہوے مجھے آخر بتانا ہی پڑا۔ “جی، میں ہی ہوں شانتارام۔”
“آپ۔ شانتارام ہیں؟ ‘دنیا نہ مانے’ کے ڈائریکٹر؟ نا ممکن!”
مجھے سن کر ہنسی آ گئی۔ اب میں نے ہی اُن سے الٹا سوال کیا، “کیوں؟ میں شانتارام نہیں ہوں، ایسا آپ کیوں مان رہے ہیں؟”
“اس لیے کہ ‘دنیا نہ مانے’ میں اس بوڑھے وکیل کے احساسات، اس کی خواہش، پچھتاوا وغیرہ سب کچھ اتنی گہری نظر سے فلمایا کیا گیا ہے کہ ضرور ہی اس کا ڈائریکٹر کوئی اچھا تجربہ کار اور بوڑھا ہو گا۔ جائیے، مجھ سے مذاق نہ کیجئے اور اندر جا کر شانتارام جی کو چند منٹوں کے لیے ہی سہی، باہر بھجوا دینے کی مہربانی کیجئے۔ انہیں ابھی اس سمے فرصت نہ ہو، تو میں یہاں بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں۔ لیکن ان سے ملے بنا یہاں سے ہرگز جاؤں گا نہیں۔”
کیسے ان مہاشے کو سمجھاؤں کہ میں ہی اصل میں شانتارام ہوں، بالکل ہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تبھی باہر سیتارام بابو کلکرنی ہمارے گھر ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ مجھے دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کر انہوں نے سہج آواز دی۔ “کہیے شانتارام بابو، کیا ہو رہا ہے؟”
سنتے ہی اس بزرگ مہاشے کی آنکھیں حیرت سے کُھلی ہی رہ گئیں۔ انہوں نے کہا، “آپ ہی وی۔ شانتارام ہیں؟ اور اتنے جوان؟ (اس سمے میری عمر ہوگی کوئی چونتیس سال۔ لیکن عمر کے مقابلے میں میں کافی چھوٹا لگتا تھا) اجی، آپ تو عمر میں اتنے بچگانے لگتے ہیں، پھر بھی آپ نے ایک بوڑھے کے من کو پردے پر اتنی آسانی سے کیسے فلمایا؟ سچ بتاتا ہوں، آپ کو سلام کرنے کے لیے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں ہے۔ آپ کو دلی مبارک باد!”
ہچکچاہٹ کے مارے میں سمٹ سا گیا۔ کیا جواب دوں، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تبھی وہ مہاشے کرسی سے اٹھے، جیب سے ماچس نکالی، ایک تیلی جلائی۔ پاس میں ہی رکھے پوجا کےسامان سے کچھ اگربتیاں جلائیں اور مجھ سے کہنے لگے، “آپ کرسی پر بیٹھیے۔ منتروں کے ساتھ میں آپ کی پوجا کرنا چاہتا ہوں۔”
اس آدمی کے بولنے اور طرزعمل کا آخر کیا مطلب ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا، “دیکھیے، اس طرح کی پوجا کی رسموں پر میرا کوئی عقیدہ نہیں ہے آپ کو فلم پسند آئی اور یہ بتانے کے لیے آپ اتنی لمبی یاترا کر کے یہاں آئے، اس کے لیے میں آپ کا دل سے شکر گزار ہوں۔”
مہاشے میری بات سے کافی ناامید لگے۔ پھر بھی دلی احساس سے بولے، “آپ چاہیں تو اسے پوجا نہ مانیے، آشیرواد ہی سمجھیں۔ ایک بوڑھے کی دعائیں بھی کیا آپ کو پسند نہیں؟”
آشیرواد! دعائیں! کیسے انکار کرتا؟ ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ انہوں نے ہی آگے کہا، “بیٹھیے نا کرسی پر۔”
ایک کٹھ پتلی کی طرح میں کرسی پربیٹھ گیا۔ انہوں نے اگربتیوں کو دروازے کی چوکھٹ پر کسی چھید میں لگا دیا۔ جیب سے کوئی پڑیا نکالی اور اس کے اندر رکھی بھبھوت (راکھ) میرے ماتھے پر لگا دی۔ میرے ہاتھ میں ایک لیموں دیا اور بولے، “یہ بھبھوت اور پرساد بھگوان تِرُپتی بالاجی کا ہے۔ اس کی کرپا سے آپ ‘دنیا نہ مانے’ جیسی اچھی فلمیں بناتے رہیں اور ان کے بنانے کے لیے تِرُپتی آپ کو لمبی عمر اور اچھی صحت دے!”
اس بوڑھے مہاشے نے اپنے دونوں ہاتھ میرے سر پر آشیرواد کے لیے مضبوطی سے رکھے۔ میرا گلا رِندھ آیا۔ آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے انہیں ایک دم جُھک کر پرنام کیا۔
کافی دیر تک میں ان کے سامنے سر جھکائے جھکا رہا۔ جذباتی ہو جانے کے کارن منہ سے لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد آنکھیں پونچھ کر میں نے اوپر دیکھا، وہ مہاشے چلے گئے تھے۔ میں فوراً دروازے تک گیا، لیکن وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیے۔ اسی جذباتی حالت میں میں دروازے پر کھڑا رہا جیسے کسی منتر سے متاثر ہو گیا تھا۔
اس عمر کے مہاشے کے بے اعتنا انداز سے دیے گئے آشیرواد اور گاؤں گاؤں سے ملے سینکڑوں ترغیب بھرے خطوں کے کارن سماج میں بیداری پیدا کرنے والی اسی ڈھنگ کی تجرباتی فلمیں بنانے کے لیے میرا حوصلہ بڑھ گیا۔
ایک بار بمبئی جانے کے لیے پُونا اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ میری نظر کسی کو وداع کرنے کے لیے آئے وِنائک پر پڑی۔ اسے دیکھتے ہی پچھلی یادیں من میں ابھر آئیں۔
جرمنی سے لوٹ کر کولھاپور آنے پر ایک دن میں مائی سے ملنے گیا تھا۔ انہوں نے ممتا سے مجھے سہلایا اور خود گرم گرم روٹیاں بنا کر مجھے کھلائی تھیں۔ مائی کی اس ممتا کا کارن پوچھے بِنا مجھ سے نہیں رہا گیا۔ “مائی سچ بتانا، میں جب یہاں نہیں تھا، بابوراؤ اور وِنائک کو اس طرح ‘پربھات’ چھوڑ کر کیا جانا چاہیئے تھا؟ کیا انہوں نے ٹھیک کیا تھا؟”
مائی نے فوراً کہا، “انہوں نےغلطی کی۔ ارے تم ولایت سے لوٹ آتے، تمہارے ساتھ بنا کسی لاگ لپیٹ کے وہ باتیں کر لیتے۔ کیا تم ان کی بھلائی میں روڑا اٹکانے والے تھے؟”
پھر میری طرف دیکھ کر وہ ہی بولیں، “تم ضرور سوچ کر پریشان ہوے ہوگے۔ ہے نا؟”
“سچ مائی، میں بہت پریشان رہا۔ لیکن آج تم سے یہ سب سن کر جی کا غبار جاتا رہا۔” لیکن سچ تو یہ تھا کہ مائی کی ممتا بھری باتوں کے باوجود بابوراؤ اور وِنائک کے لیے میرے من کا غبار ذرا بھی کم نہیں ہوا تھا۔ ان دونوں کی بنائی فلمیں اسی غبار کے کارن میں نے دیکھی تک نہیں تھیں ۔پر کچھ ہی دن پہلے وِنائک کی ڈائریکٹ کی ‘برہمچاری’ میں نے ضرور دیکھی تھی۔ وِنائک نے اس فلم سے طنزیہ و مزاحیہ فلموں کا دروازہ فلمی دنیا میں کھول دیا تھا۔
پھر میری نظر اس کی طرف مڑ گئی۔ وہ بھی کچھ بوکھلایا سا مجھے دیکھ رہا تھا۔ وہ دوڑ کر میرے پاس آیا اور پرنام کرنے کے لیے جھکا۔ میں نے اسے پیار سے گلے لگایا اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا، “وِنائک، میں نے تمہاری ‘برہمچاری’ فلم دیکھی ہے۔ تم نے اپنی خود مختار شخصیت بنا لی ہے۔ تم پر مجھے بہت ناز ہو آیا فلم دیکھنے کے بعد!” وِنائک کی آنکھیں ساون بھادوں برس گئیں۔
‘پربھات’ کو ایک کے بعد ایک لگاتار ملتی گئی کامیابیوں کے کارن ہم سبھی معاشی نقطہ نظر سے بہت آسودہ ہو گئے تھے۔ ہم سبھی حصہ داروں نے اپنے اپنے حصہ میں کافی بڑا منافع جوڑ لیا تھا۔ منافع کا بٹوارا بھی کر لیا تھا۔
تبھی داملے جی اور فتے لال جی کے پاس کونکن کے رتناگری میں ایک پاور ہاؤس بنوانے کی تجویز آئی۔ اُس میں ہم لوگ اگر کچھ پونجی لگاتے تو اس پر ہمیں بارہ فیصد سود ملنے والا تھا۔ ہمارے حصہ داری کانٹریکٹ میں ایک دفعہ تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی فلم میکنگ اور اس سے وابستہ کاموں کے علاوہ دوسرے کسی کاروبار میں حصہ نہیں لے گا۔ اس کے علاوہ ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی دوسرا کاروبار نہیں کرے گا۔ یہ دفعہ بندش تھی۔ اس لیے داملے جی کو یہ تجویز حصہ داروں کی بیٹھک میں رکھنا پڑی۔ فلم میکنگ سے حاصل دھن اس طرح کسی دوسرے کاروبار میں لگانا اور وہ بھی صرف اسی خیال سے کہ گھر بیٹھے سود ملتا رہے، مجھے قطعی پسند نہیں تھا۔ میں نے تڑاخ سے کہا، “آپ کا سارا پیسہ مجھے دیجیے، میں اسے ‘پربھات’ میں ہی لگاتا ہوں۔ اس پر میں آپ کو بارہ کیوں سو فی صد سود دیتا ہوں!”
“اجی، کیا کہہ رہے ہیں آپ، شانتارام بابو؟” فتے لال جی نے تلملا کر کہا۔
“ایک دم صحیح فرما رہا ہوں۔ ہم لوگوں نے سینما کاروبار سے جو دھن حاصل کیا ہے، اس کو کسی دوسرے کاروبار میں لگانے کا مطلب ہے ہمارا اپنے کاروبار پر اب یقین نہیں رہا ہے! اس سے تو اچھا ہو کہ ‘پربھات’ کے قیام کے سمے ہم نے ‘پربھات نگر’ بنانے کا جو سپنا دیکھا تھا، اسی کو ہم سچ کریں۔ پانچ چھ ماہ پہلے میں نے کوڈیک کمپنی کو امریکہ میں ایک پتر بھیجا ہے۔ ایک بڑا اور اپ ڈیٹد کیمیکل روم بنانے کا پلان ان سے منگوایا ہے۔ بھارت کے کئی فلم میکر اس کیمیکل روم میں اپنی فلموں کی ڈیولپنگ کروا سکتے ہیں۔ نتیجتاً ہماری پونجی پر پچاس فی صد سود تو ضرور ہی حاصل ہو سکتا ہے۔”
داملے جی نے کہا، “لیبوریٹری وغیرہ بنوا کر دوسروں کے کام کرتے رہنے کی نسبت ہمیں اپنی فلموں کی تعداد بڑھانی چاہیئے۔”
“میں آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں۔ صرف فلم کی تعداد بڑھانے کے چکر میں ہم اپنی فلم کی خوبیاں کہیں کم نہ کر بیٹھیں۔”
داملے جی کو میری بات جچی نہیں۔ فتے لال اور سیتارام پنت چپ بیٹھے رہے۔
آخر میں داملے جی نے مجھ سے ایک بہت ہی تیکھا سوال کیا، “دوسرے فلم میکرزکا کام ہمیں نہ ملا تو اتنی بڑے کیمیکل روم میں آپ کیا دھوئیں گے؟”
میں نے جھنجھلا کر کہہ دیا، “آپ کی دھوتیاں دھوئیں گے!” اور میں فوراً وہاں سے چلا آیا۔
اس کے بعد کئی دنوں تک ہم آپس میں بولتے نہیں تھے۔ داملے جی کی بات اس طرح بہت ہی روکھے ڈھنگ سے دو ٹوک کاٹ دی، اس کا رنج مجھے ستا رہا تھا۔ لگتا تھا شاید میں انہیں اپنی بات ٹھیک ڈھنگ سے سمجھانے میں ناکام رہا ہوں۔
ایک دن ناراضی کی اس الجھن کو میں نے ہی پہل کر سلجھا لیا۔ میں کسی کام کے بہانے داملےجی اور فتے لال جی کے کمرے میں پہنچ گیا اور ان سےمعافی مانگی۔ داملے جی بھی سمجھاتے ہوے بولے، “شانتارام بابو، اس طرح ذرا ذرا سی بات پر آپا کھونے سے کام کیسے چلےگا؟ آپ ذرا ہماری نظر سے بھی تو سوچیں۔ ہم اب بوڑھے ہو چکے ہیں۔ بھگوان کی دیَا سے جو کچھ ملا ہے، اسے سنبھالتے سنوارتے زندگی کے باقی دن آرام سے بِتائیں یہی ہماری تمنا ہے۔ اس میں کیا غلط ہے؟”
“لیکن ‘پربھات’ کے قیام کے سمے آپ سب نے مجھے وعدہ کیا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک ایک لاکھ روپیہ ہو جائے تو اس کے بعد مجھے پربھات نگر وغیرہ جو بھی بنانا ہو اس میں آپ لوگ رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، اس کا کیا ہو گیا؟ داملے ماما، مہربانی کر کے یہ دھیان میں رہے کہ ہمیں جو کچھ ملا ہے وہ بھگوان کی دیَا سے نہیں، ہماری اپنی محنت سے اور کاروباری ایمانداری کے کارن ملا ہے۔ اسی بَل پر ہم اور بھی زیادہ کما سکیں گے۔” میں نے خود اعتمادی کے ساتھ کہا۔
“وہ سب تو ٹھیک ہی ہے جی۔ لیکن آپ عمر میں کافی جوان ہیں۔ ambitious ہیں اتنا جوش اب ہم میں کہاں؟”
اس طرح کی باتوں کا بھی بھلا کیا جواب ہو سکتا ہے؟
میں نے کِھلّی اڑاتے ہوے ہنس کر کہا، “تب تو آپ ایک کام کیجئے۔ پھر میرے من کے ambitions اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔ لوگ جوان دِکھنے کے لیے سفید بالوں کو خضاب لگا کر کالا بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح کا کوئی خضاب آپ میرے لیے لیتے آئیے، جو میرے کالے بالوں کو سفید بنا دےگا اور میں بھی بوڑھا دِکھنے لگوں گا۔”
میرا سر بُھنّانے لگا۔۔۔ آخر کیا کرنے سے داملے اور فتے لال دونوں میرے ساتھ خوشی اور امنگ لے کر ‘پربھات’ کا دائرہ اور بڑا کرنے میں جُٹ جائیں گے؟۔۔۔ ہم چاروں اب بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پیش رو ہوے تو کافی لمبی منزل طے کر سکتے ہیں۔۔۔ ‘تُکارام’ جیسی اور ایک آدھ فلم اِن دونوں کو ڈائریکشن کے لیے سونپ دی جائے تو کیسا رہےگا؟ ۔۔۔ پھر میرا مطلب پورا ہو جائے گا؟ ان کی شہرت اور نیک نامی اور بڑھ ہی سکتی ہے۔ ان کا ambition بھی بڑھےگا۔۔۔
میں نے فوراً داملے جی فتے لال سے فلم کے بارے میں بحث شروع کی۔ وہ دونوں خوش ہو گئے۔ سب کی راۓ سے طے رہا کہ ‘پربھات’ کی پہلی خاموش فلم ‘گوپال کرشن’ کی کہانی پر مبنی ایک بولتی فلم بنائی جائے۔ دو ایک دن میں ہی چند سین میں تبدیلی کر ہم نے کہانی کا فارمولا طے کیا۔ فوراً وشیکرن جی کو بلا بھیجا۔ انہیں نئی فلم کا خیال سمجھا دیا کہ سکرین پلے بناتے سمے من میں یہ استعارہ/ میٹافر یقینی کریں کہ کنس کو برٹش سامراج، کنس کے سپہ سالار کیشی کو نوکر شاہی اور کرشن کو عوام کی علامت کے روپ میں پیش کرنا ہے۔
ایک دن شام کو وشیکرن کے ساتھ ‘گوپال کرشن’ کے سکرین پلے پر بحث کی بیٹھک ختم کر میں گھر لوٹا، تو ایک لڑکا برآمدے میں ہی میرے انتظار میں بیٹھا تھا۔
کچھ بوکھلایا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، “دادا صاحب نے آپ کو بُلایا ہے۔۔۔”
میں ٹھیک سے سمجھا نہیں۔ تذبذب میں اُس سے پوچھا، “کون دادا صاحب؟ اور مجھے کس لیے بُلایا ہے انہوں نے؟”
اب کچھ سنبھل کر لڑکے نے کہا، “دادا صاحب فالکے جی نے آپ کو بُلا بھیجا ہے۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...