گاڑی گھر کے سامنے رکی تھی ۔دروازہ کھولا گیا۔ وہ اپنا بھاری بھرکم لہنگا سمبھالتی ہوئی گاڑی سے نیچے اتری۔ کتنی شوق سے رو دھو کر اسنے شادی کا اتنا مہنگا لہنگا بنوایا تھا۔ لیکن نصیب کا کس کو پتا ہوتا ہے۔ کیا سوچا تھا اور ہوا کیا۔ صرمہ اور دکھ سے چلنا مشکل لگ رہا۔۔ مزید چلتی تو گر جاتی۔ مشکل سے اسکا سہارا لیتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی بارات میں صرف وہی ایک انسان تھا جسکے نام کے ساتھ منصوب ہو چکی تھی جسکے نکاح میں تھی۔ جو اسکا نصیب بن چکا تھا۔ ایسا انسان جس سے ہمیشہ چڑھتی تھی۔ گھر میں کوئی استقبال کے لیے موجود نہیں تھا۔کمرے میں داخل ہوئی۔اسکی پسند کا سجایا کمرہ سب اسکی پسند کا تو تھا۔ سوائے اس شخص کے۔ جس کے نام سے اس کا دل دھڑکتا تھا۔ اپنا سب کچھ جسے مانے بیٹھی تھی عین شادی سے کچھ دن پہلے یہ سب ہو جاۓ گا۔ ماننا بہت مشکل تھا کمرے میں آتے ہی وہ سب چیزوں کو دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔یا اللہ کیسی آزمائیش ہے میرے رب مجھے معاف کر دے۔میں گنہگار نہیں ہو میری آزمائش ختم کر دے میں نے کچھ نہیں کیا میرے رب۔وہ جو کمرے میں داخل ہورہا تھا وہی رک گیا۔۔
**___________**
کل رات سے طوفانی بارش ہورہی تھی جو ابھی کچھ رکی تھی۔ کراچی میں ویسے تو بارش نہیں ہوتی۔ لیکن جب ہو تو رکنے کا نام نہیں لیتی۔ کل سے موسم کے تیور نرالے تھے۔ سر نے بھی آج ہی کلاسز رکھنی تھی۔ یا اللہ کب رکے گی بارش وہ بڑبڑاتی ہوئی نیچے اتری۔۔۔ امی جان بھائی کو بولیں مجھے کالج چھوڑدیں۔ آج کلاس ہے میری جانا ضروری ہے۔اے دماغ تو نہیں چل گیا۔کبھی بھی بارش ہو سکتی ہے زینب بیگم اسے غصے میں دیکھتے ہوئی بولیں۔ امی نہیں ہو گی اب جانا ضروری ہے۔ آرام سے گھر بیٹھو تم۔سو رہا ہے شارم وہ اسکی ضد سے تنگ آکر بولیں۔فائنل کلاسز ہیں میں مس نہیں کر سکتی۔۔۔وہ چلائی۔میں ابھی اٹھاتی ہوں بھائی کو وہ کہتی ہوئی شارم کے کمرے کی طرف بڑھی تھی مت اٹھانا رات بھر پڑھتا رہا ہے سونے دے اسے۔۔امی جان نے بھی گویا ٹھان لیا تھا۔کہ نہیں جانے دینا آج اسے وہ بھی ضد کی پکی تھی۔۔رجسٹر اٹھایا اور اللہ حافظ کہہ کر نکل گئی زینب بیگم آواز دیتی رہ گئی
گھر سے اسٹاپ تک دس منٹ کا راستہ تھا۔بامشکل اسٹاپ تک آئی تھی۔بارش دوبارہ شروع ہو گئ۔اب کیا کرو۔۔سوائے پچتانے کے کچھ نہیں تھا۔بسیں بھی اک دو آئی تھی جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔اتنے میں آزر بائیک پر آتا دکھائی دیا۔انابیہ نے ہاتھ ہلا کر رکنے کا اشارہ کیا
لیکن شاید جلدی میں تھا دیکھا نہیں شرمندہ ہو کر اسنے ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔دوبارہ بائیک آکر رکی۔وہ غنیمت جان کر آگے بڑھی۔۔مجھے لگا نہیں دیکھا آپ نے
دیکھا ہے تو رکا ہوں۔اتنی بارش میں نکلی کیوں گھر سے وہ بھی اکیلی ۔چچا جان نے آنے دیا۔۔ہمیشہ کی طرح سنجیدہ اور غصے ناک پر رکھتے ہوئے بولا۔پلیز مجھے کالج تک چھوڑ دیں۔انابیہ التجائی ہوئی۔میں گھر جا رہا ہوں ۔گھر تک چھوڑ سکتا ہوں۔اور حالت دیکھو موسم کی۔اتنا تو بھیگ گئی ہو۔بیٹھوجلدی۔۔لیکن ضروری جانا ہے۔وہ سوچ رہی تھی۔آپ سے بات کر رہا ہوں۔بیٹھو۔۔۔کیا سوچ رہی ہو۔اس سے بحث کرنا فضول ہے۔دیکھے گا نہیں یہی عزت دے دے گا۔۔مزید بحث کرے بغیر بائیک پر بیٹھ گئی۔آﺫر نے گھر سے کچھ فاصلے پر اتار دیا دوبارہ ایسی بے وقوفی مت کرنا۔چچا جان یا شارم کے بغیر گھر سے نکلی تو اچھا نہیں ہو گا سمجھی۔۔۔وہ اپنے انداز میں اسے نصیحت کرتا اور چلتا بنا انابیہ کڑھتی رہ گئی۔۔بڑاآیا جیسے میں مان لوں گی اسکی۔کہتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی ۔۔زینب بیگم اسی کے انتظار میں تھی اندر آتے ہی اس پر چڑھ دوڑی۔منع کیا تھا جانے سے ۔کیوں گئی تھی۔بھیگ گئی ہو اب ساری کی ساری۔۔۔آگئی ہو اب تو وہ عبایا اتارتے ہوئےتپ کر بولی۔اور کمرے میں چلتی بنی۔زینب بیگم بولتی رہ گئی۔۔لیکن وہ کہاں سننے والی تھی
**_________**
سجاد احمد اور سلیم احمد دو بھائی تھے دونوں بھائیوں میں جتنا پیار تھا اتنا ہی دونوں کی بیگمات میں اختلاف اور ان بن رہتی تھی۔۔ان دونوں کی وجہ سے فضل احمد اور نصرت بیگم سجاد احمد اور سلیم احمد کے والد صاحب اور والدہ نے اپنی زندگی میں دونوں بھائیوں کو الگ کر دیا تھا۔اب دونوں بھائی الگ رہتے تھے باوجود اسکے ان کی بیگمات میں صلح نا ہو سکی۔سجاد احمد جن کی بیگم فاخرہ جو نصرت بیگم کے میکے کی دور پار کی خالہ کی بیٹی ہیں دونوں اپنے دو بیٹے آزر اور عاشر کے ساتھ رہتے ہیں۔۔۔اور سلیم احمد جن کی بیگم زینب اور دو بچے بیٹا شارم اور چھوٹی بیٹی انابیہ ہیں زینب سلیم احمد کی چچا زاد ہے جو بچپن میں والدین کے انتقال کے بعد اپنے تایا جان کے پاس رہتی ہے اور سلیم احمد کے نام سے منصوب ہوتی ہے۔لیکن فاخرہ سلیم کی شادی اپنی بہن سے کرانے پر زور ﮈالتی ہے۔۔لیکن ناکام رہتی ہےفاخرہ اور سجاد احمد کی شادی کے ایک سال بعد زینب کے گریجویشن کرتے ہی اسکی شادی سلیم سے کر دی تاکہ فاخرہ اپنے ﺫہین سے سلم کے ساتھ بہن کو بسانے کا خیال نکال دے لیکن فاخرہ کہاں چپ رہنے والی تھی۔جسکی وجہ سے گھر میں لڑائی جگھڑا رہتا ہے۔اور زینب سے اللہ واسطے کا بیر ﮈال لیتی ہے۔اور الگ رہنے کے باوجود معمولی اور چھوٹی باتوں پر ناراض ہو کئی ماہ میکے میں گزار آتی تھی۔اسے چھوٹے آزر کی بھی پرواہ نہیں ہو تی تھی اسلئے آزر زیادہ تر زینب کے پاس رہا تھا۔فاخرہ نے بچوں کو ہمیشہ دادیال سے دور دور رکھنے کی کوشش کی جبکہ اپنے خون کی کشش اور ہوتی ہے۔بڑا بیٹا آزر تو مکمل انکے ہاتھ میں تھا لیکن سجاد احمد کی بات کو پتھر پر لکیر سمجھتا تھا عاشر پر کسی کا کوئی زور نہیں تھا ناں فاخرہ بیگم کا ناں سلیم صاحب کا۔۔۔یہی وجہ تھی کی عاشر شروع سے انابیہ کو پسند کرتا ہے ۔۔انابیہ بھی اسکا پاگل پن دیکھ چکی تھی۔۔۔وہ جو کہتا کر گزرتا تھا
*____________*
آج موسم کافی خوش گوار تھا۔انابیہ ابھی کالج سے واپس آئی تھی۔وہ بھوک کی بہت کچی تھی۔ہمیشہ کی طرح وہ آتے ہی کچن کی طرف آئی تھی۔۔امی جی مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔جاؤ پہلے کپڑے چینج کرو بیٹا۔۔ابھی تمھارےتایا جان آئے گے۔۔تمھارے ابو کی کال آئی تھی۔اف تایا جان کو اپنے گھر میں سکون نہیں ہے۔۔۔نا انکی بیگم کو پرواہ ہے انکی وہ تپ کر بولی۔۔۔بکواس بند کرو انابیہ۔۔۔زینب غصے سے بولی۔۔وہ کتنا خیال رکھتے ہیں سب کا۔اور خاندان کے بڑے ہیں ۔۔انکے بارے میں میں کچھ نہیں بولی آج تک۔نا تمھارے ابو نے بولنے دیا۔میرےبڑے بھائی ہیں۔خیال رکھناآئیندہ۔۔دوبارہ کچھ نا سنوں۔۔۔اچھا سوری امی جان معافی۔۔کچھ نہی بولوں گی دوبارہ ۔جا رہی ہوں۔انابیہ امی کے تیور سمجھ گئی تھی۔وہ کبھی بھی اسے اتنی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ دادیال کے بارے میں کچھ بولے۔۔اسے پتا تھا زیادہ بولتی تو اسکی خیر نہیں تھی۔۔اسلئے فورأ کمرے میں بھاگی۔۔کمرے میں آتے ہی سب سے پہلے الماری سے موبائل نکالا۔تیس مس کال نوے میسجز ۔۔۔اسکرین پر شو ہو رہا تھا۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی اسی نمبر پر ری ﮈائل کر کے پلنگ پر نیم دراز ہوگئی
دی نمبر یو ﮈائل از آن انادر کال۔پلیز ٹرائی لیٹر۔اک دو نا جانے کتنی کال کی۔۔۔واٹ دی ہیل۔۔وہ غصے میں بڑبڑائی۔۔موبائل اٹھا کر دور پھینکا اور فریش ہونے چلی گئی واپس آئی تو موبائل کی اسکرین روشن تھی۔۔اے کالنگ۔۔۔عاشر کا نمبر اس نے اے کے نام سے سیو کیا ہوا تھا۔ٹاول سائیڑ پر رکھا اور موبائل اٹھا کر کان سے لگایا ہی تھا۔اسلام وعلیکم انابیہ بولی۔۔کیا مسئلہ ہے۔۔۔دوسری طرف سے روکھا سا جواب آیا۔۔۔ناراض کیوں ہورہے ہو کہاں تھی صبح سے کال کر رہا ہوں۔۔بتایا تھا نا کہ کالج جانا ہے۔پریشان ہو گیا تھا میں بتا دیتی وہ ہمیشہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتا تھااور انابیہ کے لیے اسے منانا بہت مشکل تھا۔بتایا تو تھا ناں۔۔فرصت ہو تو تمھیں۔۔۔اچھا بتایا تھا۔۔پریشانی میں بھول گیامیں۔۔میں سمجھا تھا شاید گھر ہوگی مجھے پہلے یہ بتاؤ نمبر کہاں بزی تھا۔وہ شک کر رہی تھی۔مصروف بندہ ہوں یار۔بھائی کی کال تھی۔اچھا اب میری بات کا جواب دو عاشر بولا۔۔ارے ایسا ہو سکتا ہے بھلا ۔۔وہ ناراض ہوئی ہاں ہو بھی سکتا ہے۔۔تمھارا بھروسہ نہیں۔۔بھروسہ نہیں وہ کیوں بھلا۔وہ چلایا۔کیا پتا تمھیں کوئی اور پسند آجائے۔تمھارے علاوہ کسی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جان عاشر تم انتخاب ہو میرا۔۔۔جھوٹے میں کیسے مانوں۔۔۔وہ شرارتأ بولی
یہ بھی ہےملو ایک بار منا دوں گا۔وہ رومینٹک ہو کر بولا۔۔۔بیا تمھارے بغیر دل نہیں لگتا یار اب صبح شام تمارا خیال رہتا ہےسکون ختم کر دیا ہے تم نے میرا۔پاگل کر دیا ہے جانم اور تم کہہ رہی ہو میں تمھیں چھوڑ دوں گا کسی اور کو پسند کر لوں گا۔تو بھیجو تائی جان کو۔ہمیشہ کی طرح وہی ضد انابیہ کی۔۔آزر بھائی شادی کے لیے راضی ہوں تو میں بھی امی جان سے بات کرو۔تاکہ جلدی میرے پاس ہو تم۔۔تائی جان مانیں گی کیا۔۔بلکل ۔کیوں نہیں مانیں گی۔میں منا لوں گا۔آزر بھائی کو کیا مسئلہ ہے شادی کیوں نہیں کرتے ہیں ۔آزر بھائی بھی پسند کرتے ہیں کسی کو۔صرف امی جان جانتی ہیں۔لیکن راضی نہیں ہیں۔۔انکشاف ہوا۔امی ان کی شادی ماہم باجی سے کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اسکے ساتھ امریکا شفٹ ہو جائیں۔ماہم آزر کے ماموں کی اکلوتی بیٹی ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ امریکا میں ہی ہوتی ہے۔اوہہہہہہہ تائی جان کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتیں وہ دل ہی دل میں بولی اچھا تبھی نواب صاحب کا غصہ ناک پر رہتا ہے اب کی بار وہ بڑبڑائی۔کیا۔۔۔۔عاشر نے شاید سن لیا تھا کچھ نہیں وہ اسے ٹال گئی۔بیا آکر مدد کرو میری۔جی امی جان آ رہی ہوں۔۔بہت بھوک لگی ہے اور امی جان بھی بلا رہی ہیں۔۔ٹھیک ہے تم جاؤ پھر بات ہوگی۔اللہ حافظ۔۔
کال ﮈسکنیکٹ ہو گئی۔۔وہ نیچے آئی سجاد صاحب اور سلیم صاحب باتوں میں مصروف تھے اسلام وعلیکم تایا جان۔۔وعلیکم اسلام کیسی ہے میری بیٹی۔میں ٹھیک ہو تایا جان آپ کیسے ہیں۔میں نے اپنی بیٹی کو دیکھ لیا سمجھو ٹھیک ہو گیا۔۔۔زینب بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو انابیہ شرمندہ ہوگئ جیسے اسے کہہ رہی ہوں دیکھو بدتمیز لڑکی بیٹھیں بھائی جان آج میں نے آپکی پسند کا بنایا ہے انابیہ بھی مسکراتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔بچے اور بھابھی کیسے ہیں بھائی۔زینب بیگم نے رسمی سوال کیا الحمدللہ سب ٹھیک ہیں۔اف امی جان بھی نا۔انابیہ کچن میں بڑبڑائی۔ابھی تایا جان گھر کے حال احوال لے بیٹھے گے۔وہ بدتمیز بلکل نہیں تھی۔بس تایا جان کی لمبی تفصیل والی باتوں سے گھبراتی تھی۔۔
آزر نے آرمی کے لئے اپلائی کیا تھا۔اسکا سلکشن ہوگیا ہے۔کچھ دن تک جانا ہے رسالپور ٹریننگ شروع ہوگی۔آزر کے لیۓ ماہم کو پسند کیا ہے فاخرہ نے۔ماہم فاخرہ کے بڑے بھائی کی بیٹی ہے۔جو آزر سے ایک دو سال چھوٹی ہے۔مگر آزر مان نہیں رہا۔بطور آزر کے اسے فلحال اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ کرنا ہے۔وہ شادی کے بندھن میں نہیں بندھنا چاھتا۔۔۔لیکن ہم چاہتے ہیں وہ ابھی منگنی کر لے شادی ایک دو سال بعد کر دے گے۔جب تک ٹریننگ بھی کمپلیٹ ہو جاۓگی۔لیکن مجھے معاملہ کچھ اور لگ رہا ہے۔شاید فاخرہ بیگم پوری بات نہیں بتا رہیں۔۔
سجاد صاحب بتانے لگے ہو سکتا ہے بھائی جان اسے کوئی پسند ہو ماﮈرن دور ہے ۔بچے خود فیصلے کرتے ہیں۔یا ہو سکتا ہے آزر بیٹے کو ابھی شادی نہیں کرنی ہو۔کچھ دیر رک جائیں ۔بچے کو سیٹ ہونے دیں۔خود بولے گا تب کر دینا
یہ سلیم صاحب تھے جو کافی دیر سے سن رہے تھے۔اب بول پڑے
ہو سکتا ہے سلیم بس پھر عاشر کی فکر ہے
عاشر کا نام سن کر اسکے کان کھڑے ہوگئے
گریجویشن ہوگیا ہے۔آزر کی طرح پڑھائی میں بھی اچھا ہے۔ایم بی اے میں داخلہ کرایا ہے۔۔اسکی زیادہ فکر نہیں ہے آﺫر کی طرح پڑھا بھی رہا ہے۔آرمی میں اسے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے میں نے کہا فلحال جاب کرو۔کل کو شادی بھی کرنی ہے۔کمائے گا نہی تو بیٹی کون دے گا اوہ جناب نے داخلہ کرا لیا بتایا بھی نہیں ویسے میں ہوں ناں۔وہ دل ہی دل میں مسکرائی
جیسا بھی ہے میرا ہے۔اسکے چہرے پر آتی مسکراہٹ زینب بیگم کو شک میں ﮈال گئئ
تم کیوں مسکرا رہی ہو تایا جان کی باتوں پر ۔وہ شرمندگی چھپانے کے لۓ بہانا بنانے لگی ایسا کیا کہا انھوں نے۔زینب بیگم نے لاعلمی کا اظہار کیا۔۔اف کچھ نہیں امی جان۔۔کھانا لگا دیں مسز ۔سلیم صاحب سے مزید بھوک برداشت نہیں ہوئی تو چلاۓجی لا رہے ہیں۔۔جاؤ ٹیبل پر کھانالگاؤ۔بھوک لگی ہے سب کو۔جی امی۔انابیہ فرمابرداری سے کھانا لگانے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیا تمھارے ابو بلا رہے ہیں۔زینب بیگم نے سلیم صاحب کا پیغام دیا اسےجی امی آرہی ہوں انابیہ جو کتابوں میں سر کھپاۓ بیٹھی تھی بولی۔اگلے ہفتے سے اسکے کالج میں پیپر شروع تھے۔لیکن تیاری بلکل نہیں تھی اسکی۔اس نے امی سے بھی کوچنگ کے بارے میں بات کی تھی۔زینب بیگم نے سلیم صاحب سے بات کرنے کا کہا تھا۔جی ابو بلایا آپنے۔۔اس نے دروازہ ناک کیا۔ارے اندر آؤ بیا بیٹا۔۔سلیم صاحب جو فائل میں سر کھپا رہے تھے۔اسکی آواز پر چونکے۔جی ابو جان۔تمھاری امی بتا رہیں تھی تم کوچنگ جوائن کرنا چاہتی ہو۔انھوں نے کچھ دیر پہلے زینب بیگم کی کی ہوئی بات کی۔
۔جی ابو تیاری بلکل نہیں ہو رہی اور پیپر ہیں کالج میں۔ کوچنگ جوائن کرنا ضروری ہے۔۔۔ انابیہ بولی۔اچھا تو پہلے تیاری کیوں نہیں کی سوال ہوا۔ابو پہلے اتنی پڑھائی نہیں ہو رہی تھی اب اچانک سے اتنا لوﮈ آگیا ہے۔میں نہیں پڑھ پا رہی۔وہ بولی۔اچھا میں کوئی اچھا سا کوچنگ سینٹر دیکھتا ہوں۔یا تمھاری نظر میں کوئی ہے تو بتاؤ۔سلیم صاحب بولےجی ابو جان۔جہاں عائشہ جاتی ہے وہ بھی اے ون کوچنگ سینٹر ہے۔۔انابیہ بولی۔اچھا کل جا کر بات کرو ۔۔لیٹ ایﮈمیشن لے گے کیا وہ۔۔سلیم صاحب بولے۔۔جی عائشہ نے بات کی تھی وہ دیں گے۔ایﮈمیشن۔۔عائشہ اور انابیہ بچپن سے سہیلیاں ہیں۔اسکول ٹیوشن مدرسہ سب ایک ساتھ۔سوائے کالج کے۔عائشہ کے میٹرک میں کم مارکس کی وجہ سے آرٹ کو سلیکٹ کیا تھا۔۔۔جبکہ انابیہ نے پری میڑیکل ہی رکھی تھی۔۔۔اور ساتھ ساتھ کافی عادات بھی بدلی تھی۔ٹھیک ہے پھر۔انھوں نے اجازت دے دی۔انابیہ لاﮈ سے ان کے گلے لگ گئی۔۔انھوں نے بھی پیار اسکے سر پر چپت لگائی
آج بڑا پیار جتایا جارہا ہے۔زینب بیگم جو سلیم صاحب کے لۓ کمرے میں چاۓ لے کر آرہیں تھیں بولیں۔۔میرے ابو جان ولﮈ بیسٹ ابو ہیں۔۔وہ ناز سے بولی۔۔۔اور میری بیٹی میری شہزادی ہے۔۔اچھابس بس زینب بیگم بولیں۔۔آپ جل رہی ہیں۔۔سلیم صاحب شرارت سے بولے۔۔میں کیوں جلوں گی بھلا۔وہ چڑ کر بولی۔۔۔۔اور میری امی جان کوین ہیں۔۔انابیہ ان کے گلے لگ گئی۔۔ارے میں تو بھول گیا تھا۔سلیم صاحب نے ایکٹنگ کرتے ہوۓ سر پر ہاتھ رکھا۔۔اچھا چاۓ لیں آپ۔۔زینب بیگم ہنس پڑی۔۔انکا ساتھ دونوں باپ بیٹی نے بھی قہقہہ لگا کر دیا۔۔اے کالنگ ۔۔۔موبائل وائبریٹ ہوا۔انابیہ نے کال کاٹ دی۔۔۔ایک دو نا جانے کتنی کالز کاٹ چکی تھی۔۔پھر غصہ کرے گا۔۔۔کیسے بات کروں۔وہ سوچ میں پڑ گئی۔اوکے ابو جان امی جان مجھے پڑھنا ہے اب میں جاؤ۔
ہاں بیٹا جاؤ۔۔توجہ سے پڑھو۔۔سلیم صاحب چاۓ کا سپ لیتے ہوۓ پیار سے بولے۔۔وہ اپنے روم میں آئی تھی۔جی اسلام وعلیکم۔۔کال کیوں کاٹ رہی تھی۔عاشر چلایا تھا۔۔ناں سلام ناں دعا۔وہ ناراض ہوئی
امی ابو کے ساتھ تھی میں۔۔۔کوچنگ کے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔۔کس کوچنگ میں لوگی داخلہ۔۔سوال ہوا۔۔وہی جہاں تم پڑھاتے ہو۔وہ شرارت سے بولی۔۔اوہہہہہہہ اچھا تو یہ بات ہے عاشر ناراض ہواانابیہ۔۔۔بلکل تم پر نظر رکھوں گی۔۔عاشر۔۔۔۔ہاہاہا اچھاتمھیں شک ہے مجھ پر۔۔بلکل ۔انابیہ ہنسی۔۔عاشر۔۔۔ٹھیک ہے بھئ رکھ لو نظر۔۔۔انابیہ۔۔۔اچھا رات میں بات کروں ابھی پڑھنا ہے مجھے۔۔۔عاشر ۔۔۔ارے میری جان پڑھا دوں گا۔سب ۔ﮈونٹ وری۔انابیہ ۔۔۔فلحال تو پڑھوں ۔۔اوکے چلو باۓ۔۔وہ جانتا تھا انابیہ بحث کرے گی۔۔جسے وہ چڑھتا تھا۔۔عاشر نے ہار مان لی۔باۓ ۔۔۔کال ﮈسکنکٹ کر دی۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...