اسلم عمادی نے اپنے منتخب مضامین، تبصروں اور تذکروں پر مشتمل نثر پاروں کو ’’تعارف و معیار‘‘ میں یکجا کیا ہے۔ ’’تعارف و معیار‘‘ سے قبل موصوف کی نثری تحریروں کا پہلا مجموعہ ’’ادبی گفتگو‘‘ کے نام سے شائع اور مقبول ہو چکا ہے۔ یہ اُن کی نثری تحریروں کا دوسرا مجموعہ ہے لیکن مشمولات کے پیش نظر اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
موصوف عمادی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے آباء و اجداد نے ہندستان میں اپنی علمی خدمات کے وصف فتوحات حاصل کیں۔ اسلم عمادی پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن بنیادی طور پر ایک سوچتے ہوئے ذہن کے مالک ہیں اور شاعری میں اپنی فکر کو پیش کرتے ہیں۔ چوں کہ تلمذ الرحمن ہیں اسی لیے کسی کو اپنا اُستاد نہیں بنایا، فکرِ صحیح اور وجدان کی رہنمائی میں کلام موزوں کرنا شروع کیا۔ ابتداء میں غزل پر توجہ دی چناں چہ پہلی غزل ۱۹۶۲ء میں حیدرآباد کے روزنامہ ’’رہنمائے دکن‘‘ کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوئی جب اسلم عمادی کی عمر صرف ۱۴ برس کی تھی۔ تا حال شاعری کے چار مجموعے اور غزل کا ایک مجموعہ شائع ہو کر اپنے قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
اسلم عمادی کو نثر لکھنے میں بھی خاص دل چسپی ہے۔ اُن کا پہلا نثری مضمون ادارۂ ادبیاتِ اُردو کے رسالہ ’’سب رس‘‘ میں ۱۹۶۵ء میں اشاعت پذیر ہوا اُس وقت صاحبِ موصوف کی عمر صرف ۱۷ برس کی تھی۔ ’’سب رس‘‘ اُس زمانے میں اپنے شباب پر تھا اور اُردو کے بڑے سے بڑے ادیب و محقق کی آرزو ہوتی تھی کہ اُس کی تخلیق ’’سب رس‘‘ کا حصہ بنے۔ نوجوان اسلم عمادی کے لیے یہ ایک کارنامہ سے کم نہ تھا کیوں نہ ہو، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔۔۔ اسلم عمادی شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی ابتداء ہی سے اپنی تخلیقات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں موجود اُن کی مختلف تحریروں پر موجود سنین اس کی سند پیش کرتے ہیں۔ اسلم عمادی نے اپنے اس مجموعہ میں چھ عنوانات ’’مطلعِ سخن‘‘، ’’خصوصی مطالعے‘‘، ’’مختصر اہم تحریریں‘‘، ’’بابِ کویت‘‘، ’’فردوسِ مکاں‘‘ اور ’’ چند اور تبصرے‘‘ کے تحت اپنی تخلیقات اکٹھا کی ہیں۔
’’مطلعِ سخن‘‘ میں اسلم عمادی نے شاعری اور شاعری کی اہمیت و افادیت سے بحث کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ انسانی جذبات و محسوسات کی کامیاب ترسیل کے باعث شاعری کے ساتھ ساتھ شاعر بھی زندہ رہے گا۔ فہرست کے دوسرے عنوان ’’خصوصی مطالعے‘‘ کے تحت اُنھوں نے جو مضامین یکجا کیے ہیں کتاب کا یہ حصہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلے دو مضامین اُردو کے دو جدید شاعر شکیب جلالی اور عرفان صدیقی کے کلام کو موضوع بنا کر لکھے گئے ہیں اور ان شاعروں کی فکر کو روشن کرنے کی سعی بلیغ کی گئی ہے۔
’’منجمد پُر شور دریا‘‘ حیدرآباد کے معروف جدید لب و لہجہ کے شاعر جناب مصحف اقبال توصیفی کی شاعری پر قابلِ ذکر مضمون ہے۔ مصحف اقبال نے شاعری کے پہلے دور میں روایتی موضوعات کو طبع آزمائی کے لیے اپنایا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اُنھوں نے نظم و غزل میں نہ صرف ہیئت کے تجربے کیے بلکہ زندگی کی حقیقتوں کو پیش کیا۔ اسلم عمادی، مصحف اقبال توصیفی کے اس بدلتے ہوئے رویہ اور رجحان کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان دونوں ادوار میں شاعر کامیاب نظر آتا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’ وہی شاعر جو ابتدائی دور میں چاہتوں، دوست داریوں اور کارِ جہاں کی جہد میں مصروف ملتا ہے، اب حقائق سے روشناس ہو کر غیر رومانی فلسفیانہ صداقتوں سے دوچار ہے اور بکھرتی ہوئی زندگی کو سمیٹنے کے لیے کوشاں ملتا ہے اور کمال یہ کہ دونوں ادوار میں اسلوب کی مخصوص انفرادیت قائم ہے۔‘‘ (ص: ۵۴)
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلم عمادی تخلیقات کے مطالعہ کے بعد متن میں پوشیدہ بین السطور میں موجود معنوں کی گرفت کرتے ہوئے اُن کی باز تخلیق کرتے ہیں جو اُن کے تنقیدی شعور کی دلیل ہے۔ اسلم عمادی نے ’’مجتبیٰ حسین کو سلام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون اس مجموعہ میں شامل کیا ہے، اس مضمون میں اسلم صاحب کا تنقیدی شعور اپنی داد چاہتا ہے۔
مجتبیٰ حسین نے نثر کی کئی اصناف میں اپنی تخلیقات پیش کیں ہیں، انشائیہ، کالم، خاکہ، سفرنامہ، مضامین وغیرہ وغیرہ۔ اسلم عمادی نے مجتبیٰ حسین کی ان تحریروں کا بغور مطالعہ کرنے بعد ان اصناف کی پیش کش کے پس منظر میں کارفرما مجتبیٰ حسین کے فن کے وسیلہ اور مزاج کو گرفت میں لیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’ایک کامیاب انشائیہ نگار کی حیثیت سے مجتبیٰ حسین اپنی تحریروں میں وسیلہ اور مزاج اشاعت کی مناسبت سے مواد پیش کرتے ہیں۔ کالم نگاری میں صحافتی زبان کی سادگی ملتی ہے۔ تو خاکوں میں اختصار کے ساتھ اپنے نرالے انداز سے تعارف، ان کے مستقل مضامین مختلف طول کے ہوتے ہیں، بعض تشفی بخش حد تک موضوع کی مناسبت سے طول رکھتے ہیں اور دائرہ تحریر کشادگی رکھتا ہے تو بعض وسیلۂ اشاعت کے لحاظ سے مختصر لیکن مسکت۔‘‘ (ص: ۵۷)
مجتبیٰ حسین اور اسلم عمادی ہم عصر ادیب و فنکار ہیں دونوں نے تقریباً ایک ہی زمانہ بلکہ سالِ ادب کی دنیا میں قدم رکھا پھر دونوں حیدرآبادی پھر دونوں دوست۔ اسلم عمادی نے جس فنکارانہ ایمانداری سے مجتبیٰ حسین کی تحریروں پر اظہارِ کیا ہے اُسی طریقۂ کار سے اُنھوں نے نوجوان شاعرہ کے فن کو بھی تنقیدی شعور کی کسوٹی پر آنکہ ہے۔ چناں چہ کنیڈا کی متوطن پروین شیر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان کی زبان معیاری اور بیان بالراست ہے وہ ایک مہذب معاشرہ کی شاعرہ ہیں جو دنیا کے حسن و قباحت کو اپنے معیاراتِ صیقل پر پرکھتی ہیں۔ ان کی شاعری میں نیچرل شاعری کی طرح لفظیات ملتی ہیں مثلاً پہاڑ، چاند، تارہ، جھرنا، بچہ، بچی، ڈالی، پتّی، پھول، کیاری، بستی، وادی، دریا وغیرہ۔‘‘ (ص: ۶۹، ۷۰)
بظاہر تو یہ ایک معمولی بیانیہ معلوم ہوتا ہے کہ نیچر شاعری کا حصہ ہوتا ہی ہے۔ لیکن اُردو شاعری کی روایت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سرسید تحریک کے تحت نیچرل شاعری کو فروغ ہوا لیکن بعد میں (اکبر الہٰ آبادی اور دوسروں کی تنقید کی وجہ سے) شعراء نے اس کو ترک کر دیا اب جب کہ بیسویں صدی کے آخر میں پروین شیر نے اس روایت کا احیاء کیا ہے تو یہ ایک اچھی تبدیلی کہی جائے گی۔ اسلم عمادی کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے نذیر فتح پوری کی فرمائش پر پروین شیر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اس عنصر کی نشاندہی فرمائی۔
اس مجموعہ میں شامل آیندہ دو مضامین ’’نور پرکار کی نظم: کہا اُس نے‘‘ اور ’’شاہد میر کی غزل سرائی‘‘ سے متعلق ہیں۔ محسن جلگانوی کی کتاب ’’جدید شاعری کی نمائندہ آوازیں‘‘ اور جعفر جری کی ایک نمائندہ تصنیف ’’غزلِ مسلسل روایت اور فن‘‘ اس مجموعہ میں شامل ایسے مضامین ہیں جن کی داد اسلم عمادی صاحب نے دل کھول کر دی ہے کہ مواد اور اُس کی پیش کش پڑے منضبط انداز میں کی گئی ہے۔ یہ دونوں ہی حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے اسکالر ہیں اور غالباً یہ دونوں کتابیں اُن کی ڈاکٹریٹ کی کاوشیں ہیں۔
’’تعارف و معیار‘‘ میں شامل مضامین کا تیسرا عنوان ’’بابِ کویت‘‘ ہے۔ اس میں آٹھ شاعر و ادیب کے فن کو موضوع بنایا گیا ہے۔ در اصل یہ حصہ اس کتاب کا حاصل ہے۔ (بات ’’مختصر اہم تحریریں‘‘ میں اس بابت شمار ہو سکتا تھا) ۱۹۸۰ء کے بعد مابعد جدے دیت کے تصورات جب تنقید کا حصہ بنے تو اُس مہاجر شعراء و ادیبوں کی تخلیقات کا مطالعہ خصوصی انداز میں کیا جانے لگا اور اس ادب کو مہجری ادب کا نام دیا گیا۔ ’’بابِ کویت‘‘ میں شامل مضامین اسی مہجری ادب کو پیش کرتے ہیں اس باب میں اسلم عمادی نے سات شاعر اور ایک افسانہ نگار اور اُن کے فن کا تعارف پیش کیا ہے۔ یہاں طوالت سے دامن بچانے کے لیے افسانے کا ایک مختصر اقتباس اور اسلم عمادی نے شعراء کے جن اشعار کا انتخاب کیا اُن میں سے چند شعر بلا تبصرہ و تعارف پیش کیے جاتے ہیں کہ یہ اقتباس اور یہ اشعار خود اپنا تعارف ہیں۔ افسانے کا اقتباس دیکھیے:
’’ اس سے پہلے یہاں میرا اپنا تھا کون؟ آج میں اکیلی کب ہوں تم بھی تو ہو۔ اپنا گھر بار چھوڑ آنے کے بعد ہم سب اس گھریلو ماحول کے لیے ترستے ہیں جو ہمارے کلچر کا خاصہ ہے، تم مجھے باتوں میں نہ اُلجھاؤ آج میں جانے بغیر نہ مانوں گی۔ آخر میرا بھی تو کچھ حق ہے؟‘‘ (افسانہ ’’ شام کا مسافر‘‘ از عمیر بیگ۔ ص: ۱۱۶)
اشعار ملاحظہ ہوں:
اب رنگ بھرے نہ کوئی مصور حیات میں
ہر لمحہ انتشار کا موسم ہے زندگی
جڑوں سے کاٹ دیئے ہیں وفاؤں کے رشتے
اثر کیا ہے یہاں تک جفا کے تیشے نے
(عامر قدوائی)
خوش تھے کچھ ایسے تیری رفاقت کے شوق میں
منزل گنوا دی ہم نے مسافت کے شوق میں
ہمارے دل پہ کوئی نقش چھوڑ دو یارو
تمھارے شہر میں ہم ہیں مسافروں کی طرح
وہ جس کے عشق میں صحرا کی ہم نے خاک چھانی ہے
اسی کی یاد نے دل کا چمن شاداب رکھا ہے
(رشید میواتی)
دشت و صحرا چھان کر اور سر پہ مٹی ڈال کر
میں بھی مجنوں ہو گیا ہوں اطلاعاً عرض ہے
(فیاض وردگ)
تیرے سکھ کی خاطر جاناں
اپنے درد بھلا بیٹھے ہیں
(بدر سیماب)
پا بریدہ شخص کی حاجت ہے گھر
اک مسافر کے لیے مسکن عبث
(مسعود حساس)
اسلم عمادی کا کِیا ہوا کویت کے شعراء کا یہ انتخاب خاصے کی حیثیت رکھتا ہے اور انتخاب کنندہ کے شعری ذوق و شوق اور تنقید شعور کی داد طلب کرتا ہے۔ اسلم عمادی کویت کے شاعر مسعود حساس کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ اقتباس دیکھیے:
’’شاعر نیا نیا ہے، جذبۂ اظہار سے سرشار ہے، نئی زبان اور نئی تراکیب میں بات کرنا چاہتا ہے اسی لیے کبھی کبھی دائرہ احتیاط سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی چند غزلیں جو شاید ردیف و قافیہ نبھانے اور برائے وزن بیت کی روش کے تحت لکھی گئی ہیں شاید قبولیت میں نہ آ سکیں۔‘‘ (ص: ۱۴۷)
مسعود حساس کے کلام پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسلم عمادی نے کیسا نفیس طریقہ اختیار کیا ہے۔ آج کا کوئی نوجوان اسکالر نقاد ہوتا تو معیوب اشعار کی قطار لگا دیتا۔ در اصل جس انکساری سے مضمون نگار نے شاعر کو صلاح دی ہے وہ اسلم عمادی کا خاندانی وصف ہے کہ وہ عمادی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
الغرض ’’تعارف و معیار‘‘ ادب کی ایک معتبر کتاب ہے۔ تمام مضامین انتخاب ہیں۔ کتاب میں جو مضامین شامل ہیں اُن کے پڑھنے سے اسلم عمادی کے تنقیدی شعور اور دقعتِ نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسلم عمادی کا ہمیں شکر گذار ہونا چاہیے کہ اُنھوں نے تقریباً نصف صدی کے ادب کو پیش کیا ہے۔ جدے دیت، مابعد جدے دیت اور مہجری ادب کا یہ خوب صورت گلدستہ ہے۔
پروفیسر حبیب نثار
صدر شعبۂ اُردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد۔
گچی باؤلی، حیدرآباد۔
تلنگانہ اسٹیٹ (انڈیا)
یہ صبح و شام کا فتنہ کبھی تمام نہ ہو
خدا کرے کہ یہ دنیا کبھی تمام نہ ہو
نگاہیں دیکھتی جائیں بدلتے چہروں کو
ازل ابد کا تماشہ کبھی تمام نہ ہو
(اسلم عمادی)