(۱)
بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگَنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے
غالب کا یہ شعر عموماً غزل پر نظم کی برتری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ یہاں خیال اور ہیئت کے ناگزیر رشتے کی بات کی گئی ہے۔ ہر سچے فن کار کے ہاں خیال اپنی ہیئت کا تعین خود کرتا ہے۔ جو بات نظم میں کہی جا سکتی ہے وہ نظم ہی میں کہی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی موضوع کے لیے ناول درکار ہے تو کوئی بھی اور صنف اس کے اظہار سے قاصر ہو گی۔ ’’کچھ اور چاہیے وسعت‘‘ سے یہ واضح ہے کہ غزل کی یکسر نفی مقصود نہیں۔ شوق کا جو حصہ بیان ہونے سے رہ گیا ہے وہ غزل میں نہیں سمویا جا سکتا۔ اس کے لیے کوئی ’’ظرف‘‘ چاہیے۔ مختلف اصنافِ سخن وہ امکانی ظروف ہیں جن کے ذریعے خیالات اظہار پا سکتے ہیں۔
ناصر کاظمی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور مضامین بھی اور ’’سر کی چھایا‘‘ کی صورت میں ایک ڈرامہ تخلیق کیا۔ در اصل ان کا تمام تر تخلیقی سفر نت نئے جہانوں کی جستجو سے عبارت تھا۔
’’سر کی چھایا‘‘ ہیئت کے اعتبار سے ڈرامہ ہے اور روح کے اعتبار سے شاعری۔
ہر منظر گویا کسی نظم کا بند ہے۔ ہر مکالمہ قافیہ ردیف سے آزاد لیکن کسی نہ کسی بحر کا پابند ہے۔ ہر کردار شروع سے آخر تک ایک مخصوص بحر میں گفتگو کرتا ہے۔ مثلاً مرکزی کردار عبدل کی ہر بات اس بحر میں ہے: فعلاً فعلاً فعلاً فعلاً۔
منظوم ڈرامے پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کی زبان غیر فطری اور مصنوعی، اور امکانات محدود ہوتے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر زندہ اور بڑے نثری ڈرامے کے کردار جو زبان بولتے ہیں وہ عام زندگی میں بولی جانے والی زبان سے اتنی ہی مختلف ہوتی ہے جتنی کہ نظم۔ نظم کی طرح یہ بھی بار بار لکھی گئی ہوتی ہے۔ ادیب اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان میں سے بہت کچھ مسترد کرتا ہے اور جو کچھ چنتا ہے اسے بھی ایک خاص ترتیب دیتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی نئے الفاظ تخلیق کرتا ہے۔ گویا ادب کی زبان بہت زیادہ نتھری اور منجھی ہوئی ہوتی ہے۔ سان اوکیسے (Sean O’ Casey) کہتا ہے کہ اگر گلی یا ڈرائنگ روم میں بولا جانے والا کوئی مکالمہ ہوبہو کسی ڈرامے میں شامل کر دیا جائے تو نتیجہ نہایت مضحکہ خیز اور بھونڈا ہو گا۔ ڈی ایچ لارنس ادبی کلام (Art Speech) اور روزمرہ بول چال (Contemporary Speech) میں تفریق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف ادبی کلام ہی کلام کہلانے کا مستحق ہے (Art Speech Is The Only Speech)۔
دنیائے ادب کا مطالعہ لارنس کی اس بات کی تائید کرتا ہے۔ مثلاً اگر ہم شیکسپیئر کے کسی ہم عصر کو پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس کی زبان شیکسپیئر سے کتنی مختلف ہے۔ اس کے ہمعصر حقیقت نگاری کے شوق میں اپنی ہمعصر زبان لکھتے رہے۔ اسی لیے زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریریں غیر مقبول اور غیر معروف ہوتی گئیں۔ زبان تو سدا ارتقائی منازل میں رہتی ہے۔ وقت کی کسوٹی پر وہی تحریر پوری اترتی ہے جو تخلیقی ہو اگر اس اعتبار سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ نثری ڈراموں کی نثر بھی ایسی ہی مصنوعی ہوتی ہے جیسی کہ نظم یا بصورتِ دیگر نظم بھی ایسی ہی فطری ہو سکتی ہے جیسی کہ نثر۔ البتہ شاعری کو ڈرامے کا ذریعہ بنانے کے ضمن میں ایلیٹ نے ایک تنبیہہ بھی کر رکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر شاعری سجاوٹ کے لیے ایک اضافی سامانِ آرائش کے طور پر استعمال ہو یا صرف اس لیے کہ ادبی ذوق کے لوگوں کو ڈرامہ دیکھتے وقت شاعری سننے کا لطف بھی فراہم کیا جائے، تو یہ بالکل بے جا ہو گی۔ اسے محض شاعری کی ڈرامائی تشکیل ہونے کی بجائے ڈرامائی حیثیت میں اپنا جواز پیش کرنا چاہیے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسا کوئی ڈرامہ منظوم نہیں ہونا چاہیے جس کے لیے نثر ڈرامائی طور پر موزوں ہو۔
منظوم ڈرامے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نثر بہت سے جذبات اور احساسات کے اظہار سے قاصر ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنھیں کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو جب ’’ہمارے ‘‘ الفاظ ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے مایوس کن حد تک ناکافی نظر آتے ہیں۔ ہر وہ شخص جسے کبھی اپنے کسی عزیز کو تعزیتی خط لکھنا پڑا ہو، اس بات سے بخوبی واقف ہو گا۔ ’’ہماری‘‘ زبان کی بے چارگی اس وقت بھی سدِ راہ بنتی ہے جب ہمارا سامنا عظیم الشان حسن، کراہت انگیز بدصورتی، شدید تکلیف، غیر معمولی اچھائی یا خوفناک عیاری سے ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر نے دیکھا ہو گا؛ اگر محسوس نہیں کیا کہ شدید غصے یا رنج کے عالم میں کچھ نہ کہہ سکنے کی بے بسی، دم گھٹنے کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور خوشی اتنی بلندیوں کو چھو سکتی ہے کہ ہم الفاظ نہ ملنے کے باعث رو پڑتے ہیں۔ اس قسم کی صورتِ حال میں صرف شاعری ہی جذبے کا کچھ اظہار کر پاتی ہے کیونکہ شاعری روزمرہ زبان کی بہ نسبت ہماری داخلی سچائی کے قریب تر ہوتی ہے۔ پس شاعری انسانی روح کی ایک مستقل خواہش اور ضرورت ہے اور ڈرامے کا ایک فطری ذریعہ۔
(2)
پھر کئی لوگ نظر سے گذرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا
ڈرامے کا ڈھانچہ کچھ اِس طرح سے ہے کہ زیادہ تر مناظر کرداروں کے ماضی سے متعلق ہیں۔ پہلا منظر گاڑی کے ایک ڈبے کا اندرونی منظر ہے۔ احمد، فیاض اور مولوی صاحب باتیں کر رہے ہیں۔ مرکزی کردار عبدل ایک طرف بیٹھا ہے۔ اس کا آبائی گاؤں سورج پور جو احمد اور فیاض کی منزل ہے، راستے میں پڑتا ہے۔ وہ عبدل کو نہیں پہچانتے مگر ان کی باتیں سن کر عبدل انھیں پہچان جاتا ہے۔ فیاض اس کے بچپن کا ساتھی ہے اور احمد اس کے دوست اکبر کا کاروبار میں حصہ دار ہے۔ اپنی محبوبہ نندی سے آخری ملاقات اس کی آنکھوں میں پھر جاتی ہے:
کہاں ہو نندی؟ یاد ہیں وہ دن؟
جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے!
————
میں اور حسنی کھیل رہے تھے!!
اگلے پانچ مناظر عبدل کی یادوں کا حصہ ہیں۔ دوسرا منظر 24 برس پہلے بچپن کا ہے اور باقی چار نوجوانی کے دَور کے۔ ساتواں منظر ہمیں پھر ریل کے اندر لے آتا ہے۔ عبدل کھڑکی کے پاس بیٹھا سوچ رہا ہے۔ احمد اور فیاض دوسری طرف بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ پہلے فیاض اپنے حافظے سے کچھ باتیں بیان کرتا ہے اور پھر احمد:
میں نے وہ رات دیکھی ہے جب آسمان سرخ تھا
اگلے پانچ مناظر احمد کی یادوں پر مشتمل ہیں جو اس ترتیب سے پیش کی گئی ہیں کہ کہانی مکمل طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ آخری منظر پھر ریل گاڑی کا ہے۔ رات گہری ہو چکی ہے۔ سورج پور بہت نزدیک آ چکا ہے۔ احمد اور فیاض بدستور باتیں کر رہے ہیں۔ عبدل گہری سوچ میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔ اسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں۔ اچانک گاڑی رُک جاتی ہے۔ فیاض پہلی بار عبدل سے مخاطب ہوتا ہے۔
کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟
آپ یہاں اتریں گے صاحب؟
احمد: نہیں! یہ تو جنگل ہے!
(3)
کہتے ہیں کشمکش ڈرامے کی جان ہے۔ ’’سُر کی چھایا‘‘ میں داخلی اور خارجی دونوں کی طرح کی کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ خارجی کشمکش پھر دو طرح کی ہے: فرد کے خلاف جیسے عبدل اور بلھے کی اور پھر حسنی اور بلھے کی کشمکش بلکہ چپقلش دوسری، فرد اور معاشرے کی باہمی کشمکش جس کا شکار عبدل، نندی اور حسنی ہوتے ہیں۔ لیکن ’سر کی چھایا‘ بنیادی طور پر داخلی کشمکش کا ڈرامہ ہے۔ عبدل اس کا شکار پہلی بار اس وقت ہوتا ہے جب لوگ جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں۔
نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن
————
بولو نندی کہاں چھپی ہو؟
باہر جاؤں!
لیکن نندی
نندی مر جائے گی عبدل
————
اگلے منظر میں جب عبدل چھپتا چھپاتا گھر آتا ہے اور اپنے ماں باپ کی گفتگو سنتا ہے تو ایک نئی کشمکش میں پھنس جاتا ہے۔ ’’کبھی وہ بوڑھے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے کبھی بدنامی کا ڈر اسے ستاتا ہے۔ نندی کے بعد وہ اب گاؤں میں ٹھہرنا نہیں چاہتا۔ ‘‘
آواز: وہ رستہ ہے!
راتوں رات نکل جا عبدل!
عبدل: لیکن یہ میرا گھر!
یہ میرے ماں باپ!
کہاں جاؤں گا؟
نندی! میرے ارمانوں کا آخری سنگم
آواز: اب اس پیڑ سے اڑ جا
اس کی جڑیں اب سوکھ چکی ہیں
————
————
اس کے بعد عبدل ساتویں منظر میں نظر آتا ہے۔ وہی پہلا، گاڑی والا منظر۔ اب وہ ایک نئی کشمکش میں مبتلا ہے۔ سورج پور، اس کی مٹی، اس کا گاؤں، راستے میں پڑتا ہے:
ایک کرن پھر وقت کی سیڑھی سے اُتری ہے
لیکن میں تو —- اس دھرتی میں میرا کوئی نہیں ہے
سات برس کے بعد یہاں سے پھر گزرا ہوں
وہی پہاڑ اور وہی نظارے!
اس وادی میں کیسے اتروں!
اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔
اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے
آخری منظر میں عبدل کی کشمکش اور ذات کی تقسیم اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اُسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں اور وہ باری باری ان کا جواب بھی دیتا ہے۔ ’’آواز‘‘ کی ’’تجاویز‘‘ یا ’’آراء‘‘ کے حق میں یا خلاف فیصلے بھی کرتا ہے۔
آواز: ۔ سورج پور اُترو گے عبدل؟
وہاں نہ جانا!
وہاں ترا اب کوئی نہیں ہے!
عبدل: اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔
————
آواز: تو نے نندی کو مارا ہے!
تو نے اس کا خون پیا ہے!
تو نے حسنی کو مارا ہے!
تو اپنے ماں باپ کا قاتل
تو ہی بلھے کا قاتل ہے۔
اتنے تن داروں کا خون تری گردن پر!
تو خونی ہے!
تو قاتل ہے!
عبدل: تو جھوٹا ہے
نندی اپنی موت مری ہے
حسنی میرا جگری دوست تھا
آواز: تو بزدل ہے!
تو نے سورج پور کو اجاڑا
عبدل: تو جھوٹا ہے!
تو بزدل ہے!
اس کے علاوہ ہمیں ایک اور کشمکش کا سراغ بھی ملتا ہے۔ وہ ہے طبقاتی کشمکش۔ چھٹے منظر میں عبدل کی ماں نصیبن، جب اپنے بیٹے کی جان کے بارے میں متفکر ہوتی ہے تو نہایت بے بسی اور غصّے کے عالم میں کہتی ہے:
نہ ہوا اس وقت میری ماں کا جایا
دیکھ لیتی ان زمینداروں کا مان
میرے بیٹے کو اگر کچھ ہو گیا تو شیرمے پی لوں گی ان کے!
پھر آٹھویں منظر میں احمد چکی کی آواز سن کر کہتا ہے:
یہ آٹے کی چکی ابھی تک یونہی چل رہی ہے
یہ چکی میں کیا پس رہا ہے ؟
۔۔ ۔ مگر گاؤں بھر میں دہائی مچی ہے کہ آٹا نہیں
کال ہے، لوگ مر جائیں گے۔
لوگ بھوکوں مرے جا رہے ہیں
————
یہ سب نفع خوروں کی سازش ہے
غلّے کا توڑا نہیں!
اپنے کھیتوں کو دیکھو!
ذرا اپنی فصلوں کو دیکھو!
ہری ہیں، بھری ہیں!
مگر یہ زمیندار، یہ کالی منڈی کے تاجر!
(4)
سوائے عبدل کے سبھی کردار Types ہیں۔ نندی روایتی محبوبہ ہے جس کے ایک طرف عاشق کی محبت ہے اور دوسری طرف گھر والوں کی عزت۔ محبوب سے ملنے کی شدید خواہش بھی ہے اور ’’ظالم سماج‘‘ کا زبردست خوف بھی جس کی نمائندگی اس کا بھائی بلھا اور اس کے ساتھی کرتے ہیں۔ عبدل کے ماں باپ روایتی ماں باپ ہیں جنھیں اپنی اولاد کے دلوں سے زیادہ لوگوں کی زبانوں کا خیال ہوتا ہے۔ احمد، حسنی اور اکبر افسانوی دنیا کے جاں نثار ساتھی ہیں۔
ان سب کے برعکس عبدل دنیائے ادب کے بیشتر رومانوی مرکزی کرداروں سے مختلف نظر آتا ہے، مثلاً نندی کو کھو دینے پر نہ تو وہ فرہاد کی طرح سر پھوڑتا ہے نہ مجنوں کی طرح دیوانہ ہو جاتا ہے، نہ رومیو کی طرح زہر پیتا ہے نہ ورتھر کی طرح اپنی کنپٹی میں گولی اتارتا ہے۔ جب جنگل میں آگ لگتی ہے اور نندی بچھڑ جاتی ہے تو عبدل اسے ڈھونڈنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن جلد ہی اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ کامیابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اس کے اندر سے آواز آتی ہے۔
الٹے پاؤں ہٹ جا عبدل
نندی اب نہ ملے گی
اس کی قسمت میں جلنا ہے
الٹے پاؤں ہٹ جا!
اس کا پہلا رد عمل اس کے خلاف ہوتا ہے اور بڑا شدید:
لیکن نندی! اسے اکیلا چھوڑ کے جاؤں!
نہیں نہیں میں جل جاؤں گا!
جل جاؤں گا!
جل جاؤں گا!
لیکن پھر اس کے اندر کا حقیقت پسند انسان اسے سمجھاتا ہے:
آگ کسی کی میت نہیں ہے
اپنی جان بچا لے عبدل!
نندی اب نہ ملے گی
اندھی آگ کا رستہ چھوڑ کے راتوں رات نکل جا پیارے
وہ رستہ ہے!
————
اور بلآخر عبدل یہ مشورہ قبول کر لیتا ہے اور دل پر پتھر رکھ کے وہ ’’رستہ‘‘ اختیار کر لیتا ہے:
ناصر یہ وفا نہیں جنوں ہے
اپنا بھی نہ خیرخواہ رہنا
اس کے بعد جب ’’آواز‘‘ اسے قائل کر لیتی ہے کہ اب اس کے ’’پیڑ‘ ‘ کی جڑیں سوکھ چکی ہیں! اس کے ’’پھل‘‘ کو اندر سے ’’کیڑوں ‘‘ نے چاٹ لیا ہے اور اب اس میں کبھی ’’رس‘‘ نہیں پڑے گا تو وہ گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور ’’کڑوے نیم کی ٹہنی‘ ‘ چن لیتا ہے۔
سات برس گزر جانے کے بعد بھی اگرچہ اسے ضمیر کی خلش کبھی کبھی تنگ کرتی ہے لیکن اسے یقین ہے کہ نہ تو اس نے بے وفائی کا مظاہرہ کیا تھا نہ بزدلی کا۔ آخری منظر میں جب ’’آواز‘‘ اسے ملامت کا نشانہ بناتی ہے تو وہ اپنا پورا پورا دفاع کرتا ہے۔
(5)
ریل کے منظر کے علاوہ ’’سر کی چھایا‘‘ کے تمام مناظر ’’سورج پور‘‘ یا اس کے گرد و نواح کے ہیں اور سورج پور ایک گاؤں ہے۔ چنانچہ ہمیں ہر وہ بات نظر آتی ہے جو دیہاتی زندگی اور ماحول میں پائی جاتی ہے۔ مثلاً، مویشی، کنواں، رہٹ، حقہ، ندی، مرچوں کے کھیت، سرسوں کی پھلچی، کیکر، املی، بڑھ، پیپل اور نیم کے درخت، دھوپ، چھاؤں، تنبورہ، اِک تارہ، ناچ کتھا، میلے ٹھیلے، لوگوں کی سادگی، قناعت، ضعیف الاعتقادی، قسمت پر یقین وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سب سے زیادہ لائقِ توجہ جانور اور پرندے ہیں۔ مضافات میں پائے جانے والے تقریباً تمام چوپائے اور پرندے موجود ہیں اور بعض تو باقاعدہ کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسرے منظر کے آغاز میں کرداروں کی فہرست یوں ہے:
پپو۔ (عبدل) عمر 6 سال
گٹی۔ (حسنی)عمر 8 سال
کٹو۔ گلہری
—- بندر
بلھا۔ سورج پور کے نمبردار کا لڑکا عمر 9 سال
نندی۔ بلھے کی بہن عمر 6 سال
منظر کے دوران میں کٹو کیکر کے تنے پر سے بار بار اترتی ہے، سڑک کے درمیان تک آتی ہے، پھر بندروں کے ڈر سے یا کوئی آہٹ سن کر لوٹ جاتی ہے۔ اور اس منظر کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے: ’’بلھا نندی کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے گزر جاتا ہے اور کٹو پھر واپس کیکر کے تنے پر چڑھ جاتی ہے۔ بندر شور مچاتے ہیں۔
تیسرے منظر کے کرداروں میں گھوڑا اور بیل بھی شامل ہیں اور باقاعدہ مکالمہ بھی کرتے ہیں۔ ناچ کتھا میں ’’بندو ساز چھیڑتا ہے اور حسنی ناچنے لگتا ہے۔ ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ ‘‘
چوتھے منظر میں ’’عبدل سامنے ایک کیکر کے درخت پر گڑسل کو کنکر مارتا ہے ‘‘ پھر نندی اور عبدل کے مابین جو مکالمہ ہوتا ہے اس میں اُلّو، نیل کنٹھ، چوہے، کالے ناگ، بھیڑوں اور اونٹوں کا ذکر آتا ہے اور فاختہ تو خاصی دیر موضوعِ گفتگو بنی رہتی ہے۔
ساتویں منظر میں بھوکی گائیں اور ان کے دودھ سے خالی تھن عبدل کے خیال میں آتے ہیں۔ آٹھویں منظر میں حسنی کے گیتوں میں کونج، چیل، بل بتوریوں اور چڑیوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اکبر جنگلی کبوتروں کی ٹکڑیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بندو اُلّو کی آواز کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔
یہ پرندے، جانور اور درخت، محض پرندے، جانور اور درخت ہی نہیں ہیں۔ جاندار ہونے کی حد تک ان کا درجہ انسانوں سے کچھ کم نظر نہیں آتا۔ مثلاً، ساتویں منظر میں فیاض کا کہنا:
ہاں کچھ ایسا ہی قصہ ہے
گھوڑ سواری کھیل نہیں ہے
اپنے پاس بھی دو گھوڑے ہیں
میں نے انھیں بچوں کی طرح سے پالا ہے
یا جیسے آٹھویں منظر میں حسنی گاتا ہے:
چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے
تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے
پھر بعض کو تو عام سطح سے کچھ بلند تر مقام دیا گیا ہے۔ مثلاً چوتھے منظر میں فاختہ کے بارے میں نندی کہتی ہے:
امی کہتی تھیں یہ اک مقدس پرندہ ہے اس کونہیں مارتے!
اور آٹھویں منظر میں جب اکبر کبوتروں کو مارنے کی بات کرتا ہے تو بندو کہتا ہے:
بڑا ہی بھولا پنچھی ہے یہ سیّد اس کی ذات
بھرے سمے مت مارو اس کو مانو میری بات
یا ساتویں منظر کا یہ مکالمہ:
فیاض: گھوڑا تو بس قسمت والے کو ملتا ہے
اس کے کانوں سے جنت کی ہوا آتی ہے
اس کی ٹاپ سے دھرتی کا دل کانپ اٹھتا ہے
احمد: مگر کالے گھوڑے کی کیا بات ہے
تم نے دیکھا ہے شاید وہ گھوڑا
وہی کالا گھوڑا!
وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے!
اس کے علاوہ کچھ کو مبارک یا منحوس بھی گردانا گیا ہے۔ ساتویں منظر ہی میں احمد کہتا ہے:
مرے پاس بھی ایک چینا ہے
اس میں بڑا دم ہے بھائی!
بڑا ہی مبارک ہے یہ چینا گھوڑا
مرے پاس جس دِن سے ہے یوں سمجھ لو کہ بس لکشمی آ گئی
آٹھویں منظر میں حسنی گاتا ہے:
ایک کونج میں ایسی دیکھی اڑے چھوڑ کے ڈار
سانجھ بھئے جس دیس میں اترے وہاں نہ ہو اجیار
پھر الّو کی آواز سن کر بندو کہتا ہے:
یہ بولے جس گاؤں ماں پھر نہ بسے وہ گاؤں
یارو اب نئیں بولنا یہاں کسی کا ناؤں
اور گھوڑوں کی باتیں کرتے ہوئے احمد یہ بھی کہتا ہے:
بعض گھوڑا تو سچ مچ ہی منحوس ہوتا ہے
پرندوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ درخت بھی جاندار اور بعض انسانی خصوصیات کے حامل نظر آتے ہیں۔ مثلاً چوتھے منظر میں نندی کہتی ہے:
شام کی خامشی میں درختوں پہ کنکر نہیں مارتے
شام کو پیڑ آرام کرتے ہیں عبدل
اور عبدل کہتا ہے: وہ املی کا درخت ابھی تک اسی طرح خاموش کھڑا ہے۔
یہ درخت ان کی یادوں کا محافظ اور محبت کا گواہ ہے۔ اس کے برعکس پیپل کا یہ درخت مخالف کی صورت میں نظر آتا ہے:
عبدل: اس تالاب کے پیپل کے نزدیک نہ جانا!
یہ سب کچھ ایسا بے معنی اور بے سبب بھی نہیں۔ جغرافیائی حالات انسانی زندگی پر بے حد اثرانداز ہوتے ہیں۔ کسی خاص قسم کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی بہت سی آسائشیں اور مشکلیں محض اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہ اُس خاص علاقے میں رہتے ہیں۔ یہ وہ حالات ہوتے ہیں جن کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ صرف یہ کہ انسان کا اختیار بہت کم ہوتا ہے بلکہ یہ اس کی مرضی کے خلاف اس کی زندگی پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ انسان بے پناہ محنت اور توجہ سے ایک کام کرتا ہے مگر کوئی معمولی سا واقعہ یا حادثہ سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے:
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
گویا فطرت میں انسان کی موافق اور مخالف دونوں طرح کی قوتیں کارفرما ہیں۔ منصوبہ بندی کرتے وقت ان کا خاص دھیان رکھنا چاہیے۔ پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ موافق قوتیں مخالف قوتوں میں بدل جائیں۔ ایسا یا تو انسان کی اپنی کوتاہی سے یا باہر کے حالات میں یکدم اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر تبدیلی آنے کے باعث ہوتا ہے۔ مثلاً، زندگی کرنے کے لیے ’’سورج پور‘‘ ایک مثالی گاؤں تھا۔ عمدہ فصلیں، صحت مند مویشی، گھنا جنگل، بھرپور ندی، غرض جو چاہیے سو تھا۔ مگر جیسا کہ آخری منظر میں فیاض کی زبانی پتا چلتا ہے:
سات برس میں اس دھرتی کی ایسی کایا پلٹی!
پہلے جنگل راکھ ہوا، پھر کال پڑا
سیلاب تو بس ایسا آیا کہ توبہ میری!
دیہاتی ماحول کے ضمن میں ایک اور قابلِ توجہ بات دیہاتی زبان ہے۔ مشرقی پنجاب کے شہروں، انبالہ اور پٹیالہ اور گرد و نواح میں بولی جانے والی زبان، ’’سر کی چھایا‘‘ میں کئی جگہ استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً پہلے منظر میں ایک اسٹیشن پر ملی جلی آوازیں:
بیرا گڈی چلنے لاگی دوڑ کے آ جا
تیرا ٹکس کہاں ہے ؟
چھجو چاچا میرا بکسا کھڑکی ماں تے پھینک دے جلدی
اچھا اللہ بیلی بیرا!
ہو! چٹھی استابی پایئے!
تیسرے منظر میں کورس کی آواز:
اس بانکے رے ترچھے گھونگٹ ماں توں سارے جگ تے نیاری دیکھے
پھر ایک آواز: متھے پر جھمر لشکاں مارے مانگ ماں چمکیں ٹوماں
دوسری آواز: سارا گاؤں دہائیاں دیوے سہر ماں پڑ گئیں دھوماں
پھر عورت کا کہنا: ہٹ دور پرے کل موئے
تو میرا جوبن چھوئے
تیری اکھیوں ماں ڈالوں سوئے
کل موئے
بیل اور گھوڑے کا تمام تر مکالمہ اسی زبان میں ہے۔ بندو از اول تا آخر یہی زبان بولتا ہے اور کہیں حسنی اور بلھا بھی۔ نویں منظر میں ’’ناری‘‘ سے اور دسویں منظر میں بلھے سے حسنی کے مکالمے زیادہ تر اسی زبان میں ہیں۔
(6)
اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے
ہجرت ’’سر کی چھایا‘‘ کا ایک اہم موضوع ہے۔ ناموافق حالات میں انسان نقل مکانی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جیسے آٹھویں منظر میں حسنی کہتا ہے:
چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے
تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے
لیکن ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہو سکتی ہے جب عافیت اور بقا کا واحد راستہ ہجرت ہی ہوتا ہے۔ چھٹے منظر میں ’’آواز‘‘ کہتی ہے:
وہ رستہ ہے!
راتوں رات نکل جا عبدل!
لیکن برسوں کے رشتوں کو یکدم توڑ دینے کا تصور بھی جانکاہ ہے۔
عبدل: لیکن یہ میرا گھر!
یہ میرے ماں باپ!
کہاں جاؤں گا؟
نندی میرے ارمانوں کا آخری سنگم!
اب ’’آواز‘ ‘ مدلّل طریقے سے عبدل کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے:
اب اس پیڑ سے اُڑ جا
اس کی جڑیں اب سوکھ چکی ہیں
اس کے پھل کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے
ہوا چلے یا پانی برسے
اب اس پھل میں رس نہ پڑے گا
چاند کی کرنیں دستک دے کر
الٹے پاؤں پلٹ جائیں گی
چھلکا پیلا پڑ جائے گا
اب اس پیڑ سے اڑ جا
دور کسی جنگل میں ڈال بسیرا
کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے
’’پیڑ‘‘ خاندان اور گھر کی علامت ہے جس کی جڑیں (گاؤں سے رشتہ) سوکھ چکی ہیں۔ اس کے پھل (مستقبل) کو کیڑوں نے ایسے کھوکھلا کر دیا ہے کہ اب کسی ’’ہوا‘ ‘یا ’’پانی‘‘ سے اس میں ’’رس‘‘ نہیں پڑسکتا ہے۔ ’’چاند کی کرنیں ‘‘ ہمدرد اور تعمیر میں ممد قوتیں ہیں جو آئیں گی ضرور لیکن مایوس ہو کر لوٹ جائیں گی جیسے کسی لاعلاج مریض کو دیکھ کر طبیب۔ چھلکا یعنی ظاہری روپ رفتہ رفتہ ماند پڑ جائے گا۔ چنانچہ اب اپنے گاؤں میں عبدل کے پنپنے کا کوئی امکاں باقی نہیں رہا۔ اب چاہے اسے دور کسی جنگل میں بسیرا ڈالنا پڑے، سورج پور سے بہرطور نکلنا ہو گا۔ پھل دار درخت کو چھوڑ نا ہو گا چاہے آشیانہ کڑوے نیم کی ٹہنی پر بنانا پڑے۔ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا، اگر چہ بڑی تلخ ہے۔
ہجرت ہی کے ضمن میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بعض اوقات انفرادی اور اجتماعی ترقی اور تعمیر کے لیے ہجرت ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً، پہلے منظر میں احمد اور فیاض کا یہ مکالمہ:
احمد: (فیاض سے )
آپ بھی اب نویں شہر میں گھر بنا لیں
بڑی خوبصورت جگہ ہے
فیاض: جی ہاں!اپنا ارادہ تو پکا ہے
پھول گلی میں پچھلے برس دو قطعۂ زمین لیے تھے۔
اب تو نیویں کھدنے لگی ہیں۔
اللہ کو منظور ہوا تو گھر بھی جلدی بن جائے گا!
احمد: اب تو چاروں طرف سے وہاں لوگ بسنے لگے ہیں
نئی طرز کی کوٹھیاں بن رہی ہیں
کھلی صاف شیشہ سی سڑکیں ہیں
سڑکوں کے دونوں طرف سنگتروں کے درختوں کا اِک سلسلہ ہے۔
یہی احمد سات برس پہلے (آٹھویں منظر میں ) نقل مکانی کی آرزو کرتا ہے مگر حالات اجازت نہیں دیتے:
چلو شہر میں چل کے ڈیرہ لگائیں
مگر بھائی ہم تو پنہ گیر ہیں
شہر میں کیا کریں گے ؟
وہاں ان دنوں کام ملنا بھی مشکل ہے
اپنا کوئی یار ڈپٹی کلکٹر ہی ہوتا
نہیں یار اب تو یہیں مر رہیں گے
اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے
اب تو یہی تھل بسائیں گے
اب یہی احمد ’’پرانی‘‘ جگہ کو چھوڑ کر ’’نویں ‘‘ شہر میں ایک بہت بڑی حویلی میں رہتا ہے۔ اس کے برعکس حشمت، نصیبن اور بلھے کے ماں باپ جنھوں نے تعصب آمیز محبت کی وجہ سے گاؤں چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، سیلاب میں بہہ گئے۔ آخری منظر میں فیاض اور احمد کا یہ مکالمہ ان کے رویے پر ’’تبصرہ‘‘ کرتا ہے:
فیاض: بندو اور میں کشتی لے کر سب سے پہلے عبدل کے ڈیرے میں پہنچے
حشمت باوا اور نصیبن گھر سے نہ نکلے
احمد: میں بھی اس رات اکبر کو لے کر گیا تھا مگر وہ نہ مانے!
اجی یہ پرانے زمانے کے بوڑھے کسی کی نہیں مانتے
خیر اچھے تھے وہ لوگ!
دنیا میں اب ایسی شکلیں کہاں ہیں ؟
(7)
پھر درد نے آگ راگ چھیڑا
لوٹ آئے وہی سمے پرانے
آگ ’’سر کی چھایا‘‘ کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ کبھی یہ شدید گرمی کی شکل اختیار کرتی ہے، کبھی کڑی دھوپ کی، کہیں یہ نفرت کا شعلہ ہے، کہیں حسد کا دھواں، کبھی وصال کی آنچ اور کبھی فراق کی سوزش۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس گاؤں کی یہ کہانی ہے وہ ’’سورج پور‘‘ ہے۔ موسم گرمیوں کا ہے۔ پہلے منظر کے آغاز ہی میں احمد فیاض سے کہتا ہے:
دیکھیے نا اُدھر کس قدر دھوپ ہے!
آپ اِدھر میرے نزدیک آ جائیں
پھر تھوڑی ہی دیر بعد کہتا ہے:
چار دن کتنی جھڑیاں لگیں پھر بھی گرمی کی شدت وہی ہے!
باتوں باتوں میں سورج پور کا ذکر آتا ہے تو سات برس پرانی آگ اور گاؤں کی بربادی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ عبدل سوچتا ہے:
سورج پور اب بھی نہ بسے گا
سورج پور!۔۔ ۔ وہ آگ کی نگری!
وہ اندھیاری رات۔۔ ۔ وہ جنگل!
چوتھے منظر میں زرینہ کا گانا سن کر یاسمینہ کہتی ہے:
اچھا جی اب میں سمجھی!
تو بھی جلی ہوئی ہے
پھر عبدل کہتا ہے:
ریت کے تارے آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں
پانچواں منظر تو ہے ہی ’’آگ کا منظر‘‘ —- سات برس پہلے والا۔
عبدل: کیسے بھاگوں ؟
آگ —- آگ —- آگ
چاروں جانب آگ کا دریا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
آواز: آگ کسی کی میت نہیں ہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
چھٹے منظر میں ’’جنگل کی آگ کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں۔۔۔‘‘
آٹھویں منظر میں: ’’۔۔ ۔ الاؤ کی آگ بھڑک رہی ہے ‘‘ حسنی گاتا ہے:
رنگ برنگے گربڑے آگ کے پنکھ لگائے
گھپ اندھیری سانجھ ماں کس نے یہاں اڑائے
نویں منظر میں آگ اندر کی آگ بن جاتی ہے:
بھانبڑ جلے سریر ماں رنگ اچھالیں نین
من دیپے جس رین ماں یہی نہ ہو وہ رین
یا حسد کی آگ:
دھرتی اوپر نیلا گگن، گگن پہ ناچیں پھول
ان کی چھایا دیکھ کے جل میں جلیں بھنبھول
مگر کچھ ہی دیر بعد آگ اپنی اصل صورت میں سامنے آ جاتی ہے:
احمد: ارے وہ اُدھر آگ!
اس آگ کے پاس۔۔ ۔ اک آدمی زاد!
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
حسنی: دھڑ دھڑ جلے سوکھی لکڑی جگر جگر انگار
آگ کی اٹھتی لاٹ سے نکلیں سرخ انار
یہ آگ ناری کا پردہ بھی ہو سکتی ہے اور دفاع بھی:
اگنی برن کی اوٹ ماں، اپنا بدن چھپا
او ناری او مورکھ ناری اپنا ناؤں بتا
پھر عذاب کی شکل بھی ہو سکتی ہے:
ناری: ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
بجلی پڑے ان محلوں پر، تم پر پڑو انگار
منظر جب ختم ہوتا ہے ’’تو آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے ہیں۔۔ ۔ ‘‘
دسویں منظر میں بھی ’’چاروں طرف سے جنگل دھڑ دھڑ جلتا ہے ‘‘۔ پھر جب احمد پوچھتا ہے:
آگ کس نے لگائی تھی بھائی!
ملا کچھ پتہ؟
تو ذہن میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ فساد کی جڑ کون ہے ؟ اصل قصور کس کا ہے ؟
گیارھویں منظر میں آگ تعمیری کام کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ یہاں وہ انسان کی مطیع اور دوست ہے:
شیشہ گر: ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
یہ چمنی ہے! چمنی میں ایندھن جلتا ہے۔
ایندھن کولے کا ہوتا ہے۔ لکڑی اور پتھر کا کولہ!
یہ بھٹی ہے! بھٹی میں شیشہ پگھلتا ہے اور سانچوں میں گرتا رہتا ہے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
بارھویں منظر میں گرمیوں کی دوپہر ہے اور ’’عورت ‘ کا گانا‘‘ آگ سے معمور ہے:
کنچن روپ دکھائے
سرگم سا (سارے گاما سا)
جل میں آگ لگائے
چھم چھم ناچے کھڑی دوپہری
دھوپ کی تانیں گہری گہری
سرگم سا
جل میں آگ لگائے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
اور جب اکبر کہتا ہے: ہمارے مفتی گذر گئے ہیں
یہ آخری شمع رہ گئی تھی
تو آگ ٹھنڈک اور روشنی کا تاثر لیے ہوئے ہے۔
(8)
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
یہ شعر ناصر کاظمی کی جس غزل کا ہے، انھیں اس قدر پسند تھی کہ جب ان کے آخری انٹرویو میں ان سے شعر سنانے کی فرمائش کی گئی تو انھوں نے اس کا انتخاب کیا۔ کہا کہ ’’بعض وجوہ کی بنا پر مجھے پسند ہے کہ طلوع و غروب کے مناظر ہیں۔ حیرت و عبرت کہ دنیا میں کیا ہوتا ہے۔ کس طرح چیزیں ڈوبتی ابھرتی ہیں۔ کس طرح صبح شامیں ہوتی ہیں۔۔ ۔ ‘‘
اِتفاق کی بات ہے کہ ’’سر کی چھایا‘‘ میں بھی یہ طلوع و غروب اور چیزوں کا ڈوبنا ابھرنا بہت واضح طور پر دکھائی دیتا ہے:
رواں دواں لیے جاتا ہے وقت کا دھارا
’’سر کی چھایا‘’ جس کی ابتدا ’’کس قدر دھوپ‘‘ اور لوگوں سے بھرپور، با رونق گاؤں میں ہوتی ہے، ایسے مقام پر آ کر ختم ہوتی ہے، جہاں بے اختیار یہ شعر یاد آتا ہے۔
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
ڈرامے کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے:
’’شام کا وقت ہے۔۔ ۔ ‘‘
’’وقت —- ڈھلتا سورج‘‘
جب فیاض پوچھتا ہے، ’’سورج پور اب تھوڑی دور ہی ہو گا؟‘‘ تو احمد کا جواب ہے، ’’نہیں گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں رات پڑ جائے گی۔ ‘‘ تھوڑی دیر بعد جب ’’گاڑی ایک ننھے سے اسٹیشن پر رک جاتی ہے، تو ’’سورج ڈوب رہا ہے۔ ‘‘ پھر مولوی صاحب باتوں باتوں میں کہتے ہیں:
بتوں کی چاہ گئی ہو برا ضعیفی کا
اِدھر تو پک گئے بال اور اُدھر سدھارے دانت
اپنا دن ڈوب چکا بابا!
یہاں دن ڈوبنے کے اور معنی ہیں۔
صرف دوسرا اور تیسرا منظر ’’دن چڑھے ‘‘ کا ہے۔ چوتھا منظر پھر شام کا۔
عبدل نندی سے پہلی بات یہی کرتا ہے:
آؤ میں تم کو گھر چھوڑ آؤں
دیکھو سورج کتنا نیچے اتر گیا ہے!
جب اکبر ملتا ہے تو اس کے جملے یہ ہیں:
بڑی اندھیری ہے آج کی شام
آندھی آئے گی
اب شام کے ساتھ ساتھ تاریکی اور آندھی بھی شریک ہو گئی۔ جب گھوڑ سواروں کے آنے پر گرد اڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تو نندی کہتی ہے:
چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں
رات ہو گئی ہے!
پانچواں منظر ایسے شروع ہوتا ہے: ’’اندھیرے جنگل میں عبدل نندی کو ڈھونڈتا ہے۔۔ ۔ خاصی رات ہو گئی ہے۔ ‘‘ چھٹے منظر کا آغاز یہ ہے: ’’آدھی رات گذر چکی ہے۔ ‘‘ ساتواں منظر پھر ریل گاڑی کا ہے اور پہلا جملہ ہے، ’’سورج ڈوب رہا ہے۔ ‘‘ آٹھویں منظر میں بھی ’’شام ہو رہی ہے ‘‘۔ نواں منظر۔۔ ۔ ’’اندھیری رات ہے۔ سناٹا ایک حادثے کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔۔ ۔ ‘‘ دسویں منظر میں ’’رات ہو گئی ہے ‘‘ البتہ گیارھویں منظر میں صبح کا وقت ہے، اور بارھویں میں ’’گرمیوں کی دوپہر ہے ‘‘۔ آخری منظر کی ابتدا ’’رات ہو گئی ہے ‘‘ سے ہوتی ہے اور انتہا:
کوئی آواز بھی تو نہیں!
کوئی بتی نہیں!
یہ تو جنگل ہے سنسان جنگل!!
(9)
ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار
عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے
ناصر کاظمی سے ایک بار سوال کیا گیا کہ آپ نے شعر کیوں اور کیسے کہنا شروع کیا تو انھوں نے اس کا ایک سبب یہ بتایا کہ انھیں یوں لگتا تھا کہ جو خوبصورت چیزیں وہ فطرت میں دیکھتے ہیں، ان کے بس میں نہیں آتیں ؛ ان کی گرفت سے نکل جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہیں۔ جو وقت مر جاتا ہے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا۔ شاعری میں زندہ ہو سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو یہ جذبہ ہر تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے، خواہ شاعری ہو یا نثر، مصوری اور سنگ تراشی ہو یا موسیقی۔ جو لمحہ جتنا خوبصورت اور قیمتی ہو گا، اسے پھیلانے اور محفوظ کرنے کی خواہش اتنی ہی شدید ہو گی۔ تخلیق کار کامیاب ہو یا ناکام، اس لمحے کی یاد نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ تڑپاتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے حسن پرستی پر ماضی پرستی کا گمان ہونا کچھ ایسا عجب نہیں۔
ہر ڈرامہ نگار یا ناول نویس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے اپنے خیالات، یادوں اور خوابوں کی تشہیر کرنا چاہتا ہے۔ یعنی مخلوق کے پردے میں خالق خود بول رہا ہوتا ہے۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ تخلیق کا تخلیق کار سے ایسا ہی تعلق ہوتا ہے جیسا پھل کا درخت سے یا خوشبو کا پھول سے۔ اگر ناصر کا ظمی کے ایک اچھے قاری کو مصنف کا نام بتائے بغیر ’’سر کی چھایا‘‘ پڑھنے کو دی جائے تو وہ جلد ہی جان جائے گا کہ یہ کس کی تخلیق ہے۔
رفتگاں کی یاد، ہجرت کا تجربہ، فراق، اداسی، فطرت سے لگاؤ، جانوروں اور پرندوں سے محبت، سیر و سیاحت، گھوڑ سواری اور موسیقی کا شوق وغیرہ، ناصر کاظمی کی زندگی اور شاعری کی چند نمایاں اور اہم ترین خصوصیات ہیں اور ’’سر کی چھایا‘‘ میں بھی انتہائی شدت کے ساتھ کارفرما نظر آتی ہیں۔
’’سر کی چھایا‘‘ محض ایک پڑھی جانے والی منظوم کہانی نہیں بلکہ باقاعدہ سٹیج پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہے۔ یہ حقیقی سٹیج اور اس کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔
بقول ولسن نائٹ، ڈرامے کو کاغذ کے اوراق سے جیتے جاگتے سٹیج پر منتقل کرنا کسی نازک فرنیچر یا بھاری مشینری کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہچانے کا سا عمل ہے۔ اگر اسے جوں کا توں لے جایا جائے تو ٹوٹ پھوٹ لازمی ہے۔ اس کے مختلف حصوں یا پرزوں کو الگ الگ کر کے احتیاط سے لے جانا پڑے گا اور پھر انھیں جوڑ کر دوبارہ تشکیل کرنا ہو گا۔ چنانچہ ہدایت کار ڈرامے کو نئے سرے سے تخلیق کرنے کا اہل ہونا چاہیے۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ ڈرامے کی مابعد الطبیعاتی اساس سے واقف ہو۔ وہ اسے محض ایک اچھی کہانی نہ سمجھے جس میں کہیں ڈرامائی صورت ہائے احوال ہوں۔ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے انتہائی توجہ سے ڈرامے کی مدلل تعبیر اور تفسیر کرے۔ تفصیلات پر غور و فکر بے ثمر ثابت ہو گا جب تک ان میں رشتہ قائم کرنے والا وحدانی خیال بے نقاب نہ کیا جائے۔ محض سطح سے کام نہیں نکالا جا سکتا۔ باطنی معانی میں اترنا ضروری ہے۔ ہم کوئی ڈرامہ پیش نہیں کر سکتے جب تک اس کا مکمل احاطہ نہ کر لیں اور اسے ایک وحدت کے طور پر نہ دیکھنے لگیں۔ انفرادی لمحوں کی بجائے پورا ڈرامہ نظر میں ہونا چاہیے۔ ایک صورتِ حال دوسری صورتوں کی وضاحت یا عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دے۔ فوری اور لمحاتی تاثر کافی نہیں ہوتا۔
’’سر کی چھایا‘‘ کی مابعد الطبیعاتی اساس کیا ہے ؟ اس کے باطنی معانی کیا ہیں اور وہ وحدانی خیال کیا ہے جو اس کے اجزاء میں ایک پائیدار رشتہ قائم کرتا ہے ؟
عبدل تمام حساس انسانوں کا نمائندہ ہے۔ اس کا کرب ہم سب کا کرب ہے۔ اس کی کہانی ہر انسان کی کہانی ہے۔ انسان —- جسے چننے اور مسترد کرنے پر اختیار ہے لیکن یہی اختیار اس کی سب سے بڑی مجبوری بھی ہے۔ ’’کچھ حاصل کرنے کا مطلب بہت کچھ کھو دینا بھی ہے۔ ایک طرف دیکھنے کے معنی ہیں باقی ہر طرف سے منہ موڑ لینا۔ ایک جگہ پاؤں رکھنے کا مطلب سینکڑوں جگہ پاؤں نہ رکھنا ہے۔ پھر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اسے بھی تو ثبات نہیں۔ زندگی ہر لحظہ دستبردار ہوتے رہنے کا نام ہے۔ اپنی آرزوؤں، صلاحیتوں اور قوتوں سے، اپنے خوابوں، ساتھیوں اور پیاروں سے ؛‘‘ *اور بالآخر کیفیت اس شعر کے مصداق ہو جاتی ہے:
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
حافظہ انتہائی قیمتی نعمتوں میں سے ہے لیکن یہ اتنا بڑا عذاب بھی بن سکتا ہے کہ انسان اس کے چھن جانے کی دُعا مانگے۔ محبوب کی یاد دل دھڑکنے کا سبب بھی ہو سکتی ہے اور دم نکلنے کا باعث بھی۔ آگہی سکون بھی بخشتی ہے اور ایک دائمی آشوب بھی۔ دوربینی شکست کو فتح میں بھی بدل دیتی ہے مگر بعض اوقات جنگ سے پہلے ہی ہتھیار پھینکنے کا باعث بن جاتی ہے۔ دوراندیشی عمل کے لیے بھی محرک بنتی ہے اور بے عملی کو بھی جنم دیتی ہے۔ مستقبل کی فکر کبھی تو پیغامِ بیداری بن جاتی ہے اور کبھی ایسی مایوسی پیدا کرتی ہے کہ تمام جد و جہد لاحاصل اور بے ثمر نظر آتی ہے۔ خیالِ یار کڑی دھوپ کے سفر میں سر پر چادر کا کام دیتا ہے تو شب کی تنہائیوں میں کانٹوں کا بستر بھی بن جاتا ہے۔
تو کیا قنوطیت، یاسیت اور بے عملی ’’سر کی چھایا‘‘ کی اساس ہے ؟ ہر گز نہیں ؟ عبدل تمام مشکلات، مخالفتوں اور حادثوں کے باوجود زندگی کو ایک نعمت سمجھتا ہے وہ اگرچہ شدید محبت کرنے کا اہل ہے اور اپنی محبوبہ کے ساتھ جل مرنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے لیکن اس کے اندر کا حقیقت پسند انسان ہمیشہ غالب آ جاتا ہے۔ اس کے خواب بہت حسین اور شیریں ہیں مگر وہ دنیا کو ان پر قربان نہیں کرتا:
کچھ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں دنیا میں
ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مر جائیں
نندی کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگا دیتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ:
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
عبدل کی کہانی سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ زندگی سے فرار کی کوشش دُکھ اور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ ماضی میں پناہ لینا ممکن نہیں۔ عبدل، احمد اور فیاض بار بار یادوں کی دنیا میں جاتے ہیں لیکن جلد یا بدیر حقیقت کی دنیا (گاڑی) میں واپس آ جاتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ انھیں واپس آنا پڑتا ہے۔ آٹھویں منظر میں احمد نامساعد حالات کے باوجود شکست ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ مایوسی کی باتیں کرتے ہوئے ایک نئے عزم اور امید کے ساتھ کہتا ہے:
اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے
اب تو یہی تھل بسائیں گے
پھر گیارھویں منظر میں جب اکبر اس سے کہتا ہے:
تو اِتنی جلدی ہی کیا ہے احمد؟
میرا تو دِل کانپتا ہے جب بھی خیال آتا ہے دوستوں کا
یہ حصے وِصے کی بات چھوڑو!
جو کام کرنا ہے کرتے جاؤ!
تو اس کا جواب ہے:
میں قانون کی رو سے کہتا ہوں
ورنہ مرا دل بھی دکھتا ہے
حسنی بھی اپنا بڑا یار تھا
اور عبدل تمھارا بڑا دوست تھا
بلکہ دونوں تمھارے ہی ساتھی —-
مگر خیر! چھوڑو یہ باتیں!
ذرا کنچ گھر تو دکھا دو!
آخری دو سطریں انتہائی اہم ہیں بلکہ زیر بحث موضوع کے بارے میں فیصلہ کن۔ بیتے ہوئے حسین لمحے کسے عزیز نہیں ہوتے ؟ مگر کنچ گھر (حال اور مستقبل) زیادہ اہم ہے۔ زندگی ماضی اور مستقبل میں توازن قائم کرنے کا نام ہے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر، قوت حاصل کر کے مستقبل کو سنوارنا ہی عینِ حیات ہے:
ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا
ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے
اور دیکھا جائے تو ’’برگِ نے ‘ ‘ کا یہ شعر ’’سر کی چھایا‘‘ کا عنوان بن سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ گاڑی کے سفر نے زندگی کے سفر کو مجسم اور متحرک شکل دے دی ہے۔ مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے بھی بیتاب ہیں اور یادوں میں بھی کھو کھو جاتے ہیں۔ لیکن جونہی ماضی غالب آنے لگتا ہے، گاڑی رک جاتی ہے اور وہ بھی تاریک اور سنسان جنگل میں۔ گاڑی ایک لحاظ سے تصور کی علامت بھی ہے جو ماضی میں زیادہ دور نکل جائے تو غیر فعال ہو کر رہ جاتا ہے۔
وجۂ تسکیں بھی ہے خیال اس کا
حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے
باصر سلطان کاظمی
اگست 1981