آسمان پر سورج آگ برسا رہا تھا وہ بار بار ماتھے پہ ٹپکنے والا پسینہ صاف کرتی۔دس منٹ ہو گئے تھے اسے یہاں کھڑے مگر کوئی رکشہ بھی نہیں مل رہا تھا۔وہ پریشانی سے رسٹ واچ پر ٹائم بھی دیکھ رہی تھی۔
بھائی کو کال کرتی ہوں مگر ابھی وہ کام میں بزی ہوں گے کچھ دیر اور انتظار کر لیتی ہوں۔اچانک اسکی نظر دور سے آتی بلیک مرسڈیز پر پڑی۔
کون سا میرے لیے ہے۔وہ سر جھٹک کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔
گاڑی کے ٹائر چرچرانے کی وجہ سے اس نے مڑ کےدیکھا تو وہی بلیک مرسڈیز بالکل اسکے سامنے تھی۔۔
ارے فائزہ تم ابھی تک یہاں ہوں چلو آؤ ہم تمہیں ڈراپ کر دیں گے۔کمال نے گاڑی کے شیشے سے سر نکال کر کہا۔ڈرائیونگ سیٹ پر عرفان بیٹھا تھا۔
کمال کو دیکھ کر اسکی ڈھارس بندھی اور وہ بیک سائڈ ڈور کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
وہ دراصل آج میری گاڑی نکل گئی تھی رکشے کی تلاش میں کھڑی تھی۔فائزہ نے وضاحت کی۔
کہاں گھر ہے تمہارا؟
فائزہ نے اپنے گھر کا اڈریس تو نہیں بتایا بس سٹاپ کا بتایا کہ اسے وہاں تک ہی ڈراپ کر دیں۔
آدھے راستے میں کمال کا گھر آگیا اور وہ گاڑی سے اتر گیا اب گاڑی میں صرف عرفان اور فائزہ رہ گئے تھے
عرفان بار بار بیک ویو مرر سے فائزہ کو دیکھ رہا تھا آخر اس نے اسٹریو پر سونگ چلایا۔
تو ہی ہے میرا جنوں
تو ہی ہے میرا سکوں
تو ہی میرے من کی جستجو
قسمیں وعدے ترے
سارے سنگ ہیں میرے
تو ہی میرے دل کی آرزو
میری جاں میں نے تجھے ہی
رب سے ہے مانگا
تیری جدائی سہہ نہ پاؤں
تو ہے میرے جینے کیوجہ
وہ ساتھ ساتھ خود بھی گنگنا رہا تھا۔اسے پتہ ہی نہ چلا کب وہ گاڑی اپنے گھر کے راستے پر ڈال چکا ہے۔
ارے سنیں۔
کہاں لے جا رہے ہو۔
رکو۔
وہ زور زور سے اسے آوازیں دے رہی تھی۔
کیا ہے کیوں چِلا رہی ہو؟ عرفان نے سونگ بند کر کے پوچھا۔
کہاں لے جا رہے ہو مجھے یہ یہ راستہ؟ فائزہ ڈر کے مارے کپکپا رہی تھی۔
اوہ مائی گاڈ پتہ ہی نہیں چلا مجھے۔اس نے واپس گاڑی ریورس کی۔
تھینک گاڈ تم نے بتا دیا۔ویسے جتنا تم ڈر رہی تھی۔ جیسے بھگا کر کہیں لے جا رہا ہوں۔
تم ایسا کر بھی سکتے ہو۔
اگر ایسا کر سکتا ہوں تو بیٹھی ہی کیوں؟
کمال کیوجہ سے بیٹھی ہوں ورنہ تم بھروسے کے قابل ہو۔
کمال قابلِ بھروسہ ہے پر میں نہیں کیوں آخر کیوں؟ اس لیے کے میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
تم اسے محبت کہتے ہو۔ہوس ہے یہ محبت نہیں۔جہاں جاتی ہوں تم میرے پیچھے جاتے ہو ایک بار بھی سوچا لوگوں کی نظروں میں میرا کردار مشکوک ہوتا ہے۔مجھ پر ہر وقت یہ غلیظ نظریں گھاڑتے ہو ایک بار بھی سوچا ان نظروں سے مجھ پر کیا بیتی ہے۔محبت ہوتی تو سوچتے نا۔ وہ پھٹ ہی پڑی۔
نہیں فائزہ بے شک مجھے ٹھکرا دو مگر میری محبت پر الزام مت لگاؤ میری محبت پاک ہے اس میں ہوس نہیں ہے۔ عرفان روہانسا ہوگیا۔
محبت میں محبوب کی خوشی عزیز ہوتی ہے مگر تمہیں محبت میں ہاں چاہیے تاکہ تم وقت پاس۔۔۔۔۔
خاموش ہو جاؤ۔خاموش ہو جاؤ فائزہ تمہیں میری نظریں پریشان کرتی ہیں نا میرا وجود تمہارے لیے بے عزتی کا باعث ہے آج کے بعد میں تمہارے سامنے کبھی نہیں آؤں گا اور یہ یہ یونیورسٹی بھی چھوڑ دوں گا۔وہ اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ اسے بس سٹاپ پر اتار کر خود ادھر ادھر سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔
کاش تمہیں معلوم ہو یک طرفہ محبت کی آگ کیسی ہوتی ہے تو تم کبھی بھی نہ ٹھکراتی مجھے۔وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔یک طرفہ محبت کی آگ میں جل رہا تھا۔
کاش تم سمجھ سکتی میری محبت کو۔میری محبت پاکیزہ ہے فائزہ۔
وہ دل میں فائزہ سے مخاطب تھا۔بار بار اسکی آنکھیں دھندلا رہی تھی۔
وہ گھر آکر اسکی باتیں سوچ کر کافی پریشان رہی۔
اگر واقعی میں وہ اب یونی نہ آیا تو۔
اسکی پڑھائی کا جو حرج ہوگا اسکی ذمہ دار میں ہونگی۔
نہیں نہیں میں نے تو اسے نہیں کہا تھا کہ شکل نہ دکھاؤ اپنی۔اپنے ذہن کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔
میں کیوں اسکے بارے میں سوچ رہی ہو بھاڑ میں جاۓ ایڈیٹ۔
وہ کچن میں سالن بھی بنا رہی تھی اور ساتھ عجیب و غریب منہ بنا کر بڑ بڑا بھی رہی تھی۔
کس سے باتیں کر رہی ہو فائزہ۔ولید جو کچن میں پانی پینے آیا تھا فائزہ کو اکیلے خود سے بات کرتے دیکھ کر بولا
وہ بھائی کسی سے نہیں۔اپنی حماقت کا احساس ہوتے ہی اسے سخت شرمندگی ہوئی۔ولید واپس اپنے روم میں چلا گیا۔
ولید کے جاتے ہی وہ سالن کی طرف متوجہ ہوئی۔مگر ذہن میں ایک ہی چہرہ ابھر رہا تھا۔
________
دوسرے دن کالج میں عرفان کو یونیورسٹی میں نہ پا کر اسے صحیح معنوں میں پریشانی ہوئی۔
وہ دل ہی دل میں اسکی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی دل میں کہیں طرح کے وسوسے آرہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتہ گزر گیا عرفان یونیورسٹی نہ آیا۔
یہ عرفان کیوں نہیں کالج آرہا۔ایک ہفتہ ہوگیا اسکا منہ دیکھے ہوۓ۔وہ سب اسوقت یونی کے کیفے میں بیٹھے تھے جب مسکان نے کہا۔فائزہ دل میں مسکان کے صدقے واری جا رہی تھی کہ اسکی دل کی بات ہی پوچھ لی۔
پتا نہیں۔سیل اسکا آف ہے۔عدیل نے کہا۔
میں تو بہت مس کر رہی ہوں اسکو۔تانیہ نے بھی کہا۔وہ سب اسکی غیر حاضری سے پریشان تھے اسے یکدم شرمندگی نے آگھیرا۔
ماہی شاید تمہیں پتہ ہو؟ مسکان نے کہا
مجھے کیسے معلوم ہوگا وہ کونسا ہر بات مجھے بتاتا ہے۔ماہی نے کندھے اچکاۓ۔
اب سب کی نظر اس پر تھی۔تمہیں پتہ ہے فائزہ؟؟ پلیز اگر پتہ ہو تو ۔۔۔
میں نہیں جانتی۔ فائزہ نے انکی بات کاٹ کر کہا۔
اگر کچھ پتہ ہو تو بتا دو پلیز ہم بہت پریشان ہیں۔ماہی نے فکر مندی سے کہا۔
اسے کہاں پتا ہوگا یہ تو اس کے ساتھ کلام کرنا بھی پسند نہیں کرتی خیر میں اسکے گھر جا کر پتہ کروں گا تم سب پریشان مت ہو۔چلو اٹھو کلاس میں چلتے ہیں۔
ہاں ہاں اٹھو۔ وہ سب اپنی چیزیں اٹھا کر کلاس کیطرف چل دیے۔
مگر وہ ہاتھوں میں سر گرا کر وہی بیٹھی رہی۔وہ کلاس اٹینڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔
آپی سو جاؤ کیا مسلہ ہے دو تین دن سے دیکھ رہی ہوں آپ پریشان ہو؟ عائزہ کی رات کو آنکھ کھلی تو فائزہ کو بالکونی میں گم سم کھڑے پایا۔
کچھ نہیں ہوا۔تم سو جاؤ۔فائزہ نے جواب دیا
آپی بتاؤ نا۔ایک بار پھر عائزہ کی نیند سے بوجھل آواز کمرے میں گونجی۔
کیا بتاؤں جب کوئی مسلہ ہی نہیں ہے۔
پھر سو جائیں۔وہاں کیوں کھڑی ہیں۔فائزہ اسکے سوالوں سے زچ ہو چکی تھی۔آکر اپنے بستر پہ لیٹ گئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
کمرے میں اب عائزہ کے خراٹوں کی آواز تھی۔اور دبی دبی اسکی سسکیوں کی آواز۔
تو کیا سب مجھے اسکے یونیورسٹی نہ آنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
کیا کروں اللہ۔اب کیسے اس سے بات کروں کسطرح اسے مناؤں کہ وہ یونی آجاۓ۔
کتنے سخت الفاظ بول دیے میں نے اسے۔اسے اب اپنے الفاظ کی سختی کا احساس ہو رہا تھا۔
اللہ کرے کل وہ یونی آجاۓ۔پلیز اللہﷻ جی میری دعا قبول کر لیں۔میں اپنے الفاظ کی معافی مانگ لوں گی۔ وہ آنکھیں موندھے دل ہی دل میں خدا سے مخاطب تھی۔
اگلے دن عرفان کو یونیورسٹی میں موجود پا کر اسے یقین نہیں آیا کہ اتنی جلدی دعا قبول ہو سکتی ہے۔مگر اسے عرفان سے سوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔
عرفان نے بھی اس کے پاس آنے کی جراۘت نہیں کی۔وہ فری کلاس میں کیفے ٹیریا بھی نہیں آیا اس لیے وہ سب اسی کیساتھ تھے اور وہ پہلے دن کی طرح کیفے میں اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔آنکھوں میں نمی سی تیر رہی تھی۔
یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ عدیل جو کیفے سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لینے آیا تھا اس کے پاس آکر بولا۔
ک کچھ نہیں ویسے ہی۔
چلیں آئیں سب دوست اکھٹے ہیں اور آپ یہاں اکیلی۔مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔عدیل کو خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا مہذب بن کر بات کر رہا ہے۔اسے فائزہ پر ترس سا بھی آیا۔
وہ اسکے ساتھ گراؤنڈ میں آگئی جہاں سب دوست گپے لگا کر ہنس رہے تھے۔عرفان اسے دیکھ کر موبائل لے کر ایک طرف چل دیا۔
اؤۓ کہاں جا رہا ہے؟ کمال نے اسے روکا۔
شاید یہاں کسی کو ہماری موجودگی ناپسند ہو۔میں کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتا۔عرفان کی بات پر فائزہ نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا۔اسکے الفاظ سے فائزہ کا دل ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔
اس نے آنکھوں میں در آنے والی نمی کو چھپانے کی کوشش کی مگر عرفان دیکھ چکا تھا۔اک پل کو اسکا دل چاہا وہ اسکی ناراضگی بھلا کر اسے بانہوں میں بھر لے۔
یار کسی کو ناپسند نہیں تیری موجودگی اگر کسی کو ناپسند ہے تو وہ خود چلا جاۓ۔بتاؤ کسی کو عرفان کی موجودگی ناپسند ہے؟ کمال نے سب سے مخاطب ہوکر کہا۔
نہیں نہیں۔سب نے یک زبان ہو کر کہا۔اور فائزہ نے نظریں جھکاۓ ہوۓ تھی۔
فائزہ آپکو ناپسند ہے اسکی موجودگی؟ کمال نے سوالیہ انداز سے اس سے پوچھا۔بے اختیار اسکا سر نفی میں ہل گیا۔
عدیل اور عرفان نے بامشکل اپنی ہنسی چھپائی۔
وہ ان سب کی باتوں سے بے خبر اس بات کو لے کر پریشان تھی کہ عرفان سے سوری کسطرح کرے۔
ایک کاغذ پہ سوری لکھ کر اس کے بیگ میں ڈال دوں یا اسے تھما دوں کیا کروں اللہ۔
اگلی کلاس میں وہ لائبریری آگئی اسکا دل کسی طور بھی چین نہیں پا رہا تھا۔نظریں کتاب پر تھی اور ذہن کہیں اور تھا۔آخر ایک فیصلہ کر کہ وہ خود کو نارمل کرنے لگی۔
رات کا کھانا کھا کر وہ اسٹڈی میں جانے لگا تھا جب اسے یاد آیا کمال نے اسے ایک لفافہ دیا تھا وہ دیکھے ذرا اس میں کیا ہے۔
پتہ نہیں کس نے دیا ہے اور وہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی۔۔۔۔ وہ لفافے کو چاک کرتے ہوۓ بڑبڑا رہا تھا۔
لفافے میں سے ایک خط نکلا اس نے جلدی سے اسے کھولا۔
اسلام علیکم!
” میں نے آپ کو بہت سخت الفاظ کہے مجھے اس بات کا احساس ہوگیا ہے اس لیے آپ سے معذرت کرتی ہوں ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا میں جانتی ہوں لفظوں سے لگے زخم دیر سے بھرتے ہیں مگر پھر بھی آپ سے معافی کی درخواست کرتی ہوں۔”
نام و پتہ نہیں لکھا تھا مگر وہ پہچان چکا تھا یہ کون ہے بے اختیار اسکو لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔
چلو تھوڑی سی چوٹ تو لگی پتھر دل کو۔وہ بار بار خط کھول کر پڑھ رہا تھا کہیں کوئی اور لفظ کو اس نے شاید نہ پڑھا ہو۔وہ بستر پہ لیٹ گیا اور خط آنکھوں پر رکھ کر رومینٹک سونگ گنگنانے لگا
تیرے سامنے آجانے سے یہ دل میرا دھڑکا ہے
یہ غلطی نہیں ہے تیری قصور نظر کا ہے۔۔۔۔
فائزہ نے کمال کے ہاتھوں عرفان کو خط بھیج دیا تھا اب اسکے ردِ عمل کے بارے میں پریشان تھی۔
رات کے دو بج رہے تھے۔کروٹیں بدل بدل کر بھی اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ایک لطف بھی تھا جو اسے اندر تک سرشار کر رہا تھا اور بے چینی بھی تھی میں کہیں کچھ غلط تو نہیں کر رہی۔
ہر روگ کی کوئی نہ کوئی دوا ہوتی ہے یا روگ سے پہلے احتیاط سے کام لیں تو شاید بیماری سے ہی بچ جائیں مگر یہ محبت ایسا روگ ہے کہ لاکھ بند باندھ لیں مگر یہ ہو کر رہتی ہے۔جتنا انسان خود کو محبت کرنے سے روکتا ہے اتنی ہی شدید محبت بلکہ عشق ہوتا ہے۔پاگل پن سے بھی آگے کا عشق۔
فائزہ بھی خود پہ پہرے لگا رہی تھی مگر اب آہستہ آہستہ محبت ایک ایک کر کے سب پہرے توڑنے لگی تھی۔یہ لطف محبت کا لطف تھا جو اسے سرشار کر رہا تھا۔
۔۔۔
اگلے دن کیفے میں سب دوست موجود تھے مگر فائزہ کو ایک عجیب سی جھجک نے گھیر رکھا تھا وہ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں اکیلی ہی بیٹھ گئی۔دور سے عرفان کو اپنی جانب آتادیکھ کر اسکی جھکی نظریں اور بھی جھک گئی۔
عرفان دو تین قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں سے بات شروع کرے۔
کیسی ہو؟ عرفان نے بات کا آغاز کیا۔
ٹھیک ہوں۔
میں نے کبھی آپ جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔عرفان نے کچھ توقف کے بعد جھجکتے ہوۓ کہا۔
کیا مطلب؟ اسکی نظریں اب بھی جھکی تھی اس نے کبھی اپنے بھائی کے علاوہ کسی سے اکیلے میں بات نہیں کی تھی۔
میرا مطلب آپکی طرح پاکیزہ۔میری فیملی بہت ماڈرن ہے میں نے کبھی اپنی فیملی میں آپ جیسی لڑکی نہیں دیکھی جو نظر اٹھا کر لڑکوں کو نہیں دیکھتی۔آج سے پہلے جتنی لڑکیوں کی مجھ سے دوستی رہی ان سب نے خود مجھے دوستی کی آفر کی مگر آپ وہ واحد لڑکی ہیں جسے میں خود اپنانا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں آپ میری شریکِ حیات بنیں۔آئی لو یو۔عرفان نے رک رک کر اپنے جذبات فائزہ تک پہنچا دیے۔جو پلکیں جھکاۓ تحمل سے سب سن رہی تھی۔
آپ کچھ بولیں گی نہیں؟
فائزہ نے یکدم سر اٹھا کر عرفان کیطرف دیکھا۔اسکے لبوں پہ شرمیلی سی مسکان چھا گئی۔
یہ ان دونوں کی محبت کا آغاز تھا۔
چلیں اب سب آپکا انتظار کر رہے ہیں یہ نہ ہو سب یہاں آجائیں چلیں۔عرفان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوۓ نہ جانے کتنے سہانے سپنے تھے جو اس نے اپنی آنکھوں میں سجا لیے۔
دن یونہی گزرتے جا رہے تھے اور ان کے دلوں میں محبت کی کونپل بڑی ہو کر تناور درخت بن گئی تھی۔عرفان کی محبت شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی۔فائزہ کو بھی اسکی شدتوں کا علم تھا مگر وہ اندر سے خوفزدہ بھی تھی کہ کہیں اسکے ماں باپ مڈل کلاس ہونے کی وجہ سے اسے ریجیکڈ نہ کر دیں۔کہیں بار اس نے عرفان سے بھی اس بارے میں بات کی مگر عرفان نے ہر بار یہ بات کہہ کہ اسے تسلی دیتا۔
میرے ماں باپ نے میری ہر خوشی پوری کی ہے اور میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی کیا وہ نہیں قبول کریں گے۔بے فکر رہو۔
اور یہی اسکی خوش فہمی تھی۔بڑے لوگ اسٹیٹس کے مارے ہوۓ ہوتے ہیں۔خوشیاں کیا ہیں انکو کیا پتا۔انہیں بہو بھی اپنی طرح ماڈرن دولت مند چاہیے ہوتی ہے چاہے اس میں کوئی گن کوئی ہنر مندی نہ ہو۔
اگر انہوں نے مجھے قبول نہ کیا تو؟ فائزہ نے اسے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا۔
تو میں تمہیں بھگا کر بہت دور لے جاؤں گا جہاں صرف میں اور تم ہوں گے اور ہمارے ننھے منھے سے بچے۔اس کے اس طرح کہنے سے وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی۔
“عرفان آپ بھی نا، سچ بتائیں نا”
میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔میں اور تم راضی ہیں ماما پاپا بھی راضی ہو جائیں گے۔ اس نے مذاق میں بات اڑائی۔
آپ کوئی میری بات سریس کیوں نہیں لیتے؟ وہ زچ ہو چکی تھی۔
ہا۔ہا۔ہا او مائی سویٹ ہارٹ میں تمہیں پانے کے لیے ہر حد پار کروں گا چاہے جو ہو جاۓ میں تمہیں اپناؤں گا یہ وعدہ ہے تم سے۔
اس نے سنجیدہ ہو کر کہا۔وہ مطمئن سے ہو کر مسکرا دی۔
وہ بیڈ کراؤن کیساتھ ٹیک لگاۓ مسلسل اسکی محبت بھری باتیں اور شرارتیں سوچ کر مسکرا رہی تھی۔عائزہ جو کمرے میں داخل ہو رہی تھی اچانک اسکی نظر فائزہ پر پڑی۔
آہم۔آہم بڑی سمائل کر رہی ہیں۔ وہ بھلا کہاں باز آنے والی تھی۔
اسکی آواز پر جیسے وہ نیند سے جاگی۔
ہممم۔دال۔میں کچھ تو کالا ہے، مجھے لگتا ہے دال پوری ہی کالی ہے۔وہ بتیسی نکالتے ہوۓ اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
ایسی تو کوئی ب۔۔۔۔۔۔۔۔
خبردار اگر ٹالنے کی کوشش کی تو میں بات سنے بغیر یہاں سے اٹھنے والی نہیں ہوں اس لیے جو بھی بات ہے سچ سچ بتائی جاۓ۔وہ اسکی بات کاٹ کر تحکم سے بولی۔
فائزہ اسکی بات پر دل سے کھلکھلائی۔شاید دل خوش ہو تو بات بات پر مسکراہٹ لبوں پر آجاتی ہے۔انسان کی دلی کیفیت چاہے وہ خوشی ہو یا غمی اسکے چہرے سے ہی عیاں ہو جاتی ہے۔
فائزہ نے اسے عرفان اور اپنی محبت کی داستان سنائی۔ایک پل کے لیے بھی اس کے لبوں سے مسکراہٹ نہیں جدا ہوئی۔عائزہ سنجیدہ ہو گئی تھی اسکا دل فائزہ کی دائمی خوشیوں کے لیے دعاگو تھا مگر دل میں اک ڈر سا بھی تھا کہ اگر وہ لڑکا فلرٹ کر رہا ہو تو۔ جلد ہی دل کی بات اسکی زبان پر بھی آگئی۔
آپی کیا سچ میں وہ لڑکا آپ سے پیار کرتا ہے؟
ہاں عائزہ بہت زیادہ محبت کرتا ہے مجھ سے۔ کتنا مان کتنا یقین تھا اسے اپنی محبت پر۔
لیکن پھر بھی آپی ذرا دھیان سے یہاں محبت کو فلرٹ کر کے بدنام کیا جارہا ہے۔اور آپ بہت معصوم سی ہیں آپکو زمانے کی چالاکیوں کی خبر نہیں۔آپ لوگوں کو اپنی طرح سادہ، ایمان دار اور معصوم سمجھتی ہیں۔اس لیے محبت میں اتنا آگے مت بڑھنا یہ نہ ہو کہ کل آپکا سانس لینا بھی دوبھر ہو جاۓ۔
وہ چھوٹی سی بچی بہت سی باتیں کہہ گئی تھی۔اسے یقین ہی نہ آیا کہ عائزہ اتنی چالاک اور سمجھ دار ہو گئی ہے۔اس نے محبت سے اسے گلے لگایا۔
بس دعا کرو عائزہ مجھے محبت کے امتحان اور آزمائش میں خدا سرخرو کرے۔۔
آمین۔وہ اس سے الگ ہو کر اپنے بستر پر آگئی۔