تُو بن جا گلی بنارس کی ،میں شام تلک بھٹکوں تجھ میں۔۔۔
تیری باتیں چٹ پٹ چاٹ سی ہیں، تیری آنکھیں گنگا گھاٹ سی ہیں۔۔۔
میں گھاٹ کنارے سو جاؤں ں ں ں ں۔۔۔
نمل اور غنویٰ کمرے میں آئیں تو وہ کانوں میں ہینڈز فری لگائے سُر لگانے کی پوری کوشش کر رہی تھی مگر سُر نے بھی قسم کھا رکھی تھی آج بھی اس کے قریب نہیں آئیگا بس۔ آنکھیں بند کیے پوری مدہوش تھی مگر نمل گلا پھاڑے ہنس رہی تھی۔ پیٹ پہ ہاتھ رکھے وہ اس کی پھٹی ہوئی آواز پہ بے تحاشا ہنس رہی تھی اور غنویٰ بھی اپنی ہنسی چھپانے کی مکمل کوشش میں تھی۔
فجر کو کوئی ہوش نہیں تھی اور نمل تو باقاعدہ القابات سے نواز رہی تھی ۔ وہ تینوں مگن تھیں جب زہرہ بی کے عصا کی ٹُک ٹُک انہیں بالکل اپنے کمرے میں محسوس ہوئی۔ نمل اور غنویٰ تو فوراً الرٹ ہوئی تھیں مگر فجر ابھی بھی مگن تھی۔ اسے تو شاید نمل اور غنویٰ کے بھی کمرے میں آنے کی خبر نہ تھی۔
زہرہ بی نے اس کے پاس آکرایک ہاتھ سے ہینڈزفری کھینچیں اور دوسرے ہاتھ میں پکڑا عصا اس کے کندھے پر مارا۔ وہ اچھل ہی پڑی۔ سُر گلے میں ہی کہیں پھنس گیا تھا۔
“کس میراثی کی روح حلول کر گئی ہے تجھ میں؟ کوئی شرم حیا رہا ہی نہیں ہے۔ آج جمعہ ہے کوئی درود ہی پڑھ لے کمبخت ۔ ” وہ لب پہ لب جمائے آنکھیں جھکائے بیڈ پر ویسی کی ویسی ہی جم چکی تھی۔
“اب کیوں زبان تالو کو لگ گئی ہے تیری؟ اب بھی گلا پھاڑ نا دادی کے سامنے ۔ اور کتنی بار تجھے بولا ہے یہ اپنا پٹہ گلے میں ہی نہ ڈال کے رکھا کر مرد بھی لُور لُور پھرتے ہیں ادھر ۔ اسے سر پر ڈال میری گندی نسل”انہوں نے اس کا دوپٹہ عصا ہی سے اس کے سر پر کیا۔غنویٰ حیرانی سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی یہ صبح والی زہرہ بی تو ہرگز نہیں تھیں۔ نمل بھی چپکی پڑی تھی۔
“اور تُو جوہے گلا تیرا بھی کم نہیں ہے۔ نئیں میں کیہنی آں شرم ویچ کھادی اے تُسیں؟”
(نہیں میں کہتی ہوں شرم بیچ کھائی ہے تم لوگوں نے؟)
اب نمل کے کندھے کو ٹہوکا دیا گیا تھا۔ اس نے آنکھیں مزید جھکائیں اورتھوک نگلا۔
“میں کی پُچھ رہی آں؟کوئی شرم نئیں ؟آ جیہڑے اِڈے کھوتے نے تاڈےلگدے کُجھ، سارا دن کوئی اتہ تے نہ پتہ بس ہر کمرے اچ گھسی جانا ہندا بغیر اجازت۔ میں کیہنی اناں دا ای لحاظ رکھ لوو۔ ”
(میں کیا پوچھ رہی ہوں؟ کوئی شرم نہیں؟ یہ جو اتنے گدھے ہیں تم لوگوں کے لگتے کچھ، سارا دن کوئی اتہ پتہ نہیں اوربغیر اجازت گھسے چلے آتے ہیں ہر کمرے میں۔میں کہتی ہوں ان کا ہی کچھ لحاظ کر لیا کرو)
ان کے منہ سے ٹھوس پنجابی نکل رہی تھی اور غنویٰ اب بھی صبح والی زہرہ بی کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی تھی۔ ہاں مگر رعب اب بھی وہی تھا ۔ ایک آن سے آئی تھیں اور اسی آن سے انہوں نے گرجنا شروع کیا تھا۔
“کڑیاں او تُسیں ۔ حیا کریا کرو۔ نئیں ہیگا تے آ جہیڑی سامنے بیٹھی ادے کولوں ای ادھار لے لو”
(لڑکیاں ہوتم۔ حیا کیا کرو۔ نہیں ہے تو یہ جو سامنے بیٹھی ہے اسی سے ادھار لے لو)
غنویٰ کی گردن ایک دم جھک گئی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
“نمل!پتر میں صبح کی بولیا سی؟ کہ میری پوتیاں دی شان کی اے؟”
(نمل! بیٹا میں نے صبح کیا بولا تھا؟ کہ میری پوتیوں کی شان کیا ہے؟)
وہاں اب کوئی ذی روح نہ موجود تھا کہ سوائے زہرہ بی کے سب کے سانس خشک ہوئے پڑے تھے۔
“کہ انُّوں دل اچ رکھیا جائے۔ تے پتر دند کڈ کے مراثی بن کے یا او وَڈی اجر ونگوں موبائل تے ٹُک ٹُک کر کے نئیں دل اچ جگہ بندی”
(کہ اسے دل میں رکھا جائے۔ مگر بیٹادانت نکال کے میراثی بن کے یا وہ بڑی اجر کی طرح موبائل پر ٹُک ٹُک کر کے نہیں دل میں جگہ بنتی)
نمل رونے کو تیار تھی۔فجر تو اس لمحے کو کوس رہی تھی جب اس نے ہینڈز فری لگا کے گانے کا سوچا تھا۔ زہرہ بی کے آنے کا بھی پتہ نہ چل سکا۔
“غنویٰ پتر! تم سے بھی یہ امید نہیں تھی مجھے۔ ”
انہوں نے اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کیا۔ اس کی گردن سینے سے لگ چکی تھی اور دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا کہ ان کا رعب دل پر حاوی تھا۔
“کسی اوچھی بات پر ساتھ ہنسنے والے کو دوست نہیں کہتے ۔ اوچھی بات سے اچھی بات کی طرف راغب کرنے والے کو دوست کہتے ہیں ۔ اور یہ اوچھی بات سے مرادبے حیائی یا فحاشی کی ہی بات نہیں ہے۔ اس سے مراد ہر وہ بات ہے جو اخلاق کے زمرے سے باہر ہو۔ گانا گانا اوچھی حرکت نہیں۔ اس آواز سے دوسروں کی عبادت میں مخل ہونا غلط حرکت ہے۔ ہنسنا اوچھی حرکت نہیں ہے مگر گلا پھاڑ کے ہنسنا اور وہ بھی ایک لڑکی کا یوں ہنسنا اوچھی حرکت ہی ہے۔ اپنے دوست میں کچھ غلط دیکھو تو فوراً اس کی تصحیح کرو۔ ”
وہ ان کے قریب ہی بیڈ کے ایک طرف بیٹھی ان کو ہولے ہولے سمجھا رہی تھیں۔
“میں گانے سے منع نہیں کرتی تجھے فجر لیکن پتر اتنا تو خیال کیا کر کہ بوڑھی دادی ساتھ والے کمرے میں آرام کر رہی ہے یا نماز پڑھ رہی یا ذکر اذکار میں مصروف ہے۔ ” فجر کو واقعتاً شرم محسوس ہوئی۔
“اب کی بار معاف کرتی ہوں۔ لیکن آئیندہ کے لیے میں نہ تو ایسی حرکت کی امید رکھوں گی نہ ہی معاف کروں گی۔ سمجھ لینا اب سب خود ہی۔ سجاول فیصل آباد پہنچ گیا ہے ابھی کال کی تھی اس نے۔ جبل حبل کے ساتھ ہی آئیگا گھر۔ اب اٹھ کے کھانے کی تیاری کرو اپنی ماؤں کے ساتھ۔ بہن نے بھی بھوکی نے آنا ہے اس کا ہی خیال کر لو نمل زمان ” ایک بار پھر سے شرم دلاتیں وہ عصا زمین پر دھرتی باہر کو چل دی تھیں جبکہ وہ تینوں ابھی بھی اسی پوزیشن میں تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“بھائی میں کیا کہہ رہی تھی وہ بھی تو سن لیں” وہ کب سے شور مچا رہی تھی مگر وہ تینوں ایسے باتوں میں مصروف تھے کہ اس کو بالکل بھلایا ہوا تھا۔
“جبل بھائی ی ی ی ی۔۔۔” اس نے جبل کا کندھا زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔
“کیا مسئلہ ہےتھیٹے ۔ کبھی چپ بھی رہ لیا کر ” و ہ اکتا کے بولا۔
“اوکے فائن میں چپ ہوں اب کچھ بھی نہیں بولوں گی آپ کو ۔ اور گھر جا کر زہرہ بی کو سب باتیں بتاؤں گی دیکھئے گا اب آپ ” وہ منہ بنا کر بولی اور دھپ دھپ کرتی جا کر گاڑی کے پاس کھڑی ہوگئی جبکہ ان تینوں کو جان کے لالے پڑ چکے تھے۔
“ارے میری سوہنی بہن کیا کہہ رہی تھی مجھے بتاؤ” سجاول اس کے پیچھے بھاگتا ہوا آیا تھا۔
“کچھ نہیں کہہ رہی تھی میں” اس نے منہ موڑا اور بیگ کی زپ کھولنے بند کرنے لگی۔ جبل اس کے پاس آیا ۔
“اوئے یار منال پتر میں اس لیے غصے میں بولا تھا کہ کام کی بات کر رہے تھے نا ہم۔ اس طرح تنگ تو نہیں کیا کرتے نا۔ اچھا لو کان پکڑ کے سوری کہتا ہوں سچی آئیدہ کچھ بھی نہیں بولوں گا پکا!” اس نے پکا پہ زور دیتے ہوئے اسے یقین دلانا چاہا مگر منال بھی اپنے نام کی اکلوتی تھی اسے یقین اتنی آسانی سے آنا ہی نہ تھا۔
“میری بات سنو منال بیٹا! یہ دونوں بالکل بھی ٹھیک نہیں کرتے میرے بیٹے کے ساتھ ۔ میں سب جانتا ہوں ۔ آجاؤ ہم اکٹھے گھر چلتے ہیں یہ آتے رہیں گے ۔ اور جو بھی بات کرنی ہے راستے میں کرتی جانا سب سنوں گا میں۔ بلکہ آؤ آئس کریم بھی کھلاتا ہوں نا، آجاؤ” اب حبل اس کے پاس آیا اور باقاعدہ پچکارنے لگا تھا جبکہ وہ دونوں منہ کھولے اس کی چالاکی ملاحظہ فرما رہے تھے۔
“پکا نا؟” منال بھی ایسی شیطان تھی کہ فوراً مان گئی تھی۔ وہ دونوں مزید غش میں آئے۔
“سو فیصد پکا۔ چلو آؤ چلیں” وہ گاڑی کی دائیں طرف آیا اور دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔
منال نے بھی چالاکی دکھائی اور فرنٹ دور کھول کر فٹ سے بیٹھ گئی مبادا جبل ہی نہ بیٹھ جائے۔ جبکہ جبل کیا بیٹھتا وہ تو ابھی تک شاک میں تھااور کبھی سجاول کو دیکھتا کبھی حبل کی چالاکی سمجھنے کی کوشش کرتا۔
یہ سب شعوری کوشش ہی تھی۔ اگر منال ان میں سے ایک کے بھی ساتھ ہوتی تب بھی کام سبھی کا ہونا تھا سو شاک کی کیفیت دکھانا صر ف ایک ایکٹنگ تھی اور اس خاندان کا ہر بچہ ایکٹنگ کرنے میں ماہر تھا۔
جیسا کہ منال۔ جی ہاں منال بھی کم نہ تھی۔ یہ منہ بنانا تو بہانہ تھا۔ بات تو منوا ہی لی تھی اس نے۔ آئس کریم کا ہی تو بول رہی تھی وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ۔ اور وہ تینوں، باتوں سے فرصت ملتی تو اس کی سنتے نا۔ سو اس نے ناراض ہو کر منہ بنا کر وہی بات ایک دم سے منوا لی تھی۔
وہ دونوں سجاول کی کار کی طرف گئے اور سجاول نے حبل کو اوکے کا میسج کیا جس نے انہیں گھر پہ ملنے کا میسج کر دیا ہوا تھا تا کہ منال کی تسلی بھی ہو جاتی اور ان کا کام بھی۔
لیکن جہاں تک ان کے کام کا معاملہ تھا وہ تو اس نے پھر بھی نہیں کرنا تھا کہ بہنوں کی پارٹی ہر بار جیت ہی جایا کرتی تھی ۔ وہ ہر بات جا کر نمل اور فجر کے گوش گزار کیا کرتی تھی اور ان میں اب غنویٰ کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کافی دیر سے وہاں کھڑی تھی مگر کام تھا کہ ہو کے نہیں دےر ہا تھا۔ کبھی ایک جگہ سے سائن کروانے پڑتے تو کبھی کسی دوسرے آفس کا پتہ تھما دیا جاتا۔ جمعہ کا وقت تھا اور ابا بھی اسے وہاں چھوڑ کر مسجد کی طرف نکل گئے تھے۔ اس وقت آفس بھی جمعہ کی بریک کی وجہ سے بند تھے سو اس نے وہیں ایک کینٹین کا رخ کیا۔
بھانت بھانت کے لوگ تھے جو اسے گھور رہے تھے۔ اسے ان کی پرواہ نہ تھی ۔ مگر وہ جو ہر بار جانے کیسے اس کے آنے کا پتہ معلوم کر لیا کرتا تھا وہ آج بھی وہاں ٹکا ہوا مسکراتی آنکھوں سے اپنی دیکھتا اسے وہاں نظر آ ہی گیا تھا۔
دل ایک دم سے جیسے گم ہی ہو گیا تھا۔ ایک قدم بھی اٹھانا محال ہوا۔
وہ ایڑھیوں پر ہی گھوم گئی اور تیز تیز چلنے لگی۔
یوں چلے ہوئے اسے لگا ابھی بس گر جائے گی۔ مگر چلتے چلے جانا بہتر تھا۔
اس کی طرف پشت کیے ہوئے مخالف سمت میں جاتے ہوئے بھی وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے آ رہا ہے ۔
دور ایک گراؤنڈ کی طرف جاتے ہوئے اس نے اچانک سے پیچھے رُخ کیا۔ وہ ویسے ہی چلتا ہوا عین اس کے سامنے رک گیا ۔
آج لازمی اسے منہ توڑ جواب دینا تھا۔
“کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ کومیل صاحب؟” چہرہ تپنے لگا تھا۔
“آپ بہت اچھے سے جانتی ہیں عبادت صاحبہ!” مسکراتی شہد رنگ آنکھوں کی جوت بڑھ گئی تھی۔
“بڑی حویلی کے مردوں کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں ۔ آپ کو زہرہ بی کا ہی کچھ لحا ظ ہونا چاہیے” اس نے رخ موڑا۔ اس کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل ترین امر تھا۔
“میرا نہیں خیال میں نے اخلاق سے گری کوئی بھی حرکت کی ہے اب تک”
“یہ اخلاق سے گری حرکت ہی ہےمحترم !کہ آپ ایک شریف زادی کا پیچھا کرتے ہیں”
“ارے کہاں محترمہ! میں تو نمل آپی کا فارم لینے آیا تھا۔ آپ تو بائے چانس نظر آگئی ہیں ” اس نے ہمیشہ کی طرح بات بنائی۔ رُخ موڑے کھڑی عبادت نے ہونٹوں کے کنارے سے پھوٹنے والی مسکراہٹ کو دانتوں سے کچلا اور اس کی طرف رُخ کیا۔
“وہ اس طرف سے فارم ملتے ہیں۔” اس نے اپنے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور حتی المقدور نظریں چرائے رکھیں۔
“میں لے چکا ہوں ۔ آپ کو چاہیے تو ابھی حاضر ہو جاتا ہے حکم کریں” وہ سینے پہ بائیں طرف ہاتھ رکھے تھوڑا سا جھکتا ہوا بولا ۔
دل اسے دیکھنے پر مجبور ہوا۔
وہ سیدھا ہوا اور اسے مسکراتے ہوئے دیکھنے لگا جس نے فوراً سے نظریں چرائی تھیں۔
“میں بھی لے چکی ہوں کچھ سائن کروانے تھے بس” وہ آہستگی سے بولی تو کومیل کا دل کھائی میں گرنے کو ہوا ۔
“اور چاچا کہاں ہیں؟” وہ ادھر ادھر دیکھتے اور اسے بات کرنے پر اکساتے ہوئے بولا ۔
“جمعہ ادا کرنے گئے ہیں۔ کچھ دیر میں آتے ہونگے۔” آواز اب بھی مدھم ہی تھی۔ وہ شہادت کی انگلی کے ناخن سے ہاتھ میں پکڑی فائل پر جانے کیا کھرچنے میں مصروف تھی۔
کومیل کے لیے یہ لمحہ غنیمت ہی تھا کہ دھوپ اور اس کا سامنے ہونے کے کارن تپا ہوا لو سا دیتا ہوا وہ سنہری سا چہرہ اس کے سامنے تھا اور جی بھر کے دیدار کیا جا سکتا تھا کہ نظریں تو جھکی ہی رہا کرتی تھیں۔
“رانی نے بتا ہی دیا پھر آپ کو” جب کافی دیر وہ کچھ نہ بولا تو عبادت ہی کو بات بڑ ھانی پڑی۔
“ارے نہیں نہیں۔ آپ تو ہاتھ جوڑ چکی تھیں اس کے سامنے ۔ وہ اب اس کے بعد بھی مجھے بتا دیتی کیا؟ بالکل بھی نہیں ۔ وہ بہت اچھی دوست ہے آخر۔ میں تو نمل آپی کے فارم کے لیے آیا تھا ابھی بتایا نا بائے چانس دکھی ہیں آپ” اس نے کہا تو وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی ایک بار پھر گال دہکنے لگے تھے۔
(یہ رانی بھی نا۔ کمبخت سب باتیں اگل دیتی ہے۔ آج اس کی جان میں نکالتی ہوں)
“اب دیکھ لیا تو جائیں ۔ اگر ابا نے مجھے دیکھا تو ان کا دل دکھے گا۔ مہربانی کریں اور اب آئیندہ دور ہی رہیے گا” لہجے میں سختی سموتے ہوئے وہ بولی۔
” بھئی دور ہی تو ہوں میں اب بھی ۔ اور بات جہاں تک چاچا کی ہے تو وہ بھی مل ہی چکے ہیں مجھے ابھی کچھ دیر پہلے۔ آپ کے ساتھ کھڑا ہوں اس کا ہر مطلب غلط رو میں ہی نہیں بنتا محترمہ کبھی مجھے سیریس بھی سمجھ لیا کریں میں چھ سال سے آپ کو یوں ہی دیکھتا آ رہا ہوں۔ اب کی بات نہیں ہے میری نوجوانی کی بات ہے ۔ اب تو اس سال بیس کی لائن بھی کراس کر گیا ہوں میں ۔ یو نو ایم میچور ناؤ۔ فلرٹ نہیں کر رہا میں ۔ رانی یا منال کے علاوہ اور جانتا بھی کون ہے اس بات کو؟ میں نے کوئی چرچا ہی کیا ہو آپ کا؟ کبھی آپ جناب سے آگے ہی بڑھا ہوں ؟” سرخ و سفید چہرہ تپنے لگا تھا مگر آواز میں اب بھی سختی نہ لا سکا تھا وہ۔
وہ خاموش رہی۔ جانتی تھی سبھی کچھ ۔ سمجھتی بھی سبھی کچھ تھی مگر کومیل کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسے ہی لا جواب کررہا تھا۔
“میں کسی بھی معاملے میں آپ کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ بس آپ سے اتنی منت ہے کہ میرے راستے میں مت آیا کریں ۔ میں اتنے اونچے خواب نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی مجھ میں ہمت ہے ایک بے نام سے رشتے کے لیے ابا کے آگے سوال کرنے کی۔ اور۔۔۔”
“تو کون کہہ رہا ہے کہ آپ خواب دیکھیں یا ابا سے سوال کریں کسی بھی رشتے کے متعلق؟ ” کومیل نے اس کی بات کاٹی۔
“آپ اپنی زندگی میں جو بھی کرنا چاہتی ہیں کریں میں نے کچھ بھی نہیں کہا آپ سے۔ جو خواہش ہے آپ کی وہ پورے دل سے پوری کریں بلکہ اس کے لیے میری کوئی مدد چاہیے میں سو جان سے حاضر رہوں گا ایک ٹانگ پہ کھڑا ہوں گا تب بھی مدد کروں گا۔ خوش رہیں بس آپ۔ اور جہاں تک سوال کی بات ہے تو اس کے لیے بھی میں نے آپ کو پابند نہیں کیا عبادت۔ میں خود سوال کروں گا چاچا سے آپ کے لیے۔ میں نے کب کہا ہے کہ میرے لیے آپ اپنے ابا کے سامنے آواز اونچی کریں یا سوال کریں ان سے؟”
وہ خاموش رہی کہ یہ سب باتیں سو فیصد درست ہی تھیں۔
“بس ایک بات کے لیے پچھلے سال سے اب اس لمحے تک میں آپ سے ایک ہی درخواست کرتا ہوں کہ خود کو کچھ سال سنبھال کے رکھیں۔ کام میں مصروف رکھیں تا کہ چاچا آپ کو کسی اور کے ساتھ منسوب نہ کریں۔ اس چیز کے لیے بس ہاتھ جوڑ کے درخواست کرتا ہوں مجھے نتیجے میں آپ ہی چاہیے ہیں چا ہے مجھ سے یہ مہینوں بعد نظر آنے والی جھلک بھی چھین لیں میں جی جان سے قبول کروں گا اس کو بھی۔ بس آخر میں آپ سامنے مل جائیے گا” وہ دو قدم آگے بڑھا تا آہستہ سے اپنے ہاتھ جوڑتا اسے دیکھ رہا تھا۔ اونچا لمبا وہ لڑکا ، سرخ و سفید چہرے پہ ہلکا ہلکا سا بھورا روواں ،براؤن ٹی شرٹ اور بلیو جینز پینٹ میں ، شہد رنگ سی آنکھیں لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ جبکہ نیلی ڈھیلی ڈھالی قمیص اور ہم رنگ ہی لنگی شلوار پہنے ، کالی چادر میں خود کو چھپائے عبادت کی تو سٹی گم ہو چکی تھی۔
“پلیز؟” وہ پھر سے بولا۔
“وہ ابا آ رہے ہیں پیچھے۔ ہاتھ نیچے کریں” عبادت نے ایک طرف سے آتے ابا کو دیکھ کر اسے کہا تو وہ اس کی بات سمجھتے ہوئے ہنس کر اپنے ہاتھ کھول گیا تھا۔
“میں بھی آج گھر ہی جا رہا ہوں۔” اس نے بات بدلی تھی کہ ابا اب پاس آ چکے تھے۔
وہ مسکراہٹ چھپاتی سر جھکا گئی ۔کومیل نے بھی دل پہ ہاتھ رکھتے نظریں ابا کی طرف موڑی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...