(ایک انگریزی کہانی سے مدد لی گئی)
پیش کش: ایس ایم سلیم
کردار:
۱۔ خلیل
۲۔ رضیہ
۳۔ منا
۴۔ کریم بھائی
۵۔ پوسٹ مین
۶۔ اکبر
۷۔ صنوبر خان
۸۔ نذیر
۹۔ پھوپی اماں
۱۰۔ پولیس انسپیکٹر
(opening music)
(خلیل کا گھر۔۔ خلیل رضیہ اور منا)
خلیل: ہوں، تو رضیہ آج آخری زیور بھی۔۔۔
رضیہ: وہ تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ وقت پر کام آئے
خلیل: آخری زیور کے ساتھ آخری امید
رضیہ: کل تک تو تم کہتے تھے، کوئی امید آخری امید نہیں ہوتی۔۔۔ چراغ بجھتے رہتے ہیں اور جلتے رہتے ہیں
خلیل: مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد
رضیہ: جو اب ہے کہ جو اس سے پہلے تھا
(رضیہ ہنستی ہے)
خلیل: مگر کب تک
رضیہ: میں تو یہ جانتی ہوں کہ ایک سے دن کبھی نہیں رہتے
خلیل: کبھی کبھی خیال آتا ہے میں ایک جہنم ہوں۔ تم اور تمھارا بچہ اس جہنم میں ایندھن کی طرح جل رہے ہیں، جھلس رہے ہیں۔
رضیہ: اچھا تو اب تم مجھے اور بچے کو اپنے آپ سے الگ سمجھنے لگے۔ دیکھو میں اس بات کا بُرا مان جاؤں گی۔ پھر ہنسانے کے لئے نئے نئے لطیفے تلاش کرتے پھرو گے۔
خلیل: یہ چار سال یوں گزرے ہیں جیسے چار ہزار سال گزرے ہوں۔
رضیہ: تو ہو سکتا ہے آنے والے چار ہزار سال یوں گزر جائیں جیسے چار سال گزرے ہیں۔
خلیل: تم میں کوئی ایسی بات ہے رضیہ جسے میں کوئی نام تو نہیں دے سکتا مگر کہہ سکتا ہوں کہ وہ بات کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
منا: ابو ابو
خلیل: کیوں بیٹا
منا: ابو میرا رنگوں کا ڈبہ
خلیل: جی
منا: رنگوں کا ڈبہ
رضیہ: تمھیں میں نے کل بھی سمجھایا تھا کہ چھوٹے بچے پینسل سے تصویریں بناتے ہیں رنگوں سے نہیں
منا: امی میں بڑوں کی طرح بنا لوں گا
رضیہ: نہیں منے تم ابھی بہت چھوٹے ہو
خلیل: ہمارا بیٹا آرٹسٹ بنے گا۔ ہم اسے ضرور آرٹسٹ بنائیں گے ضرور لیکن پہلا مسئلہ اس کے علاج کا ہے۔ اس کی کمزور ٹانگیں
منا: میں نے لال پینسل سے ایک تصویر میں رنگ بھرا تھا۔ پھر حامد اپنی پینسل لے گیا۔
خلیل: حامد کون
رضیہ: پڑوس کا بچہ۔۔۔ دیکھو منے آپ کو منع کیا تھا کسی کی چیز نہیں لیتے۔
منا: ابو، آپ مجھے رنگوں کا ڈبہ لادیں گے نا
خلیل: ننھے سے منے میاں۔ منی منی سی خواہشیں۔ بیگم ان پیسوں میں سے تھوڑے سے رنگ منگوا ہی دو۔
(دروازے پر دستک)
خلیل: کون صاحب
کریم بھائی: (دروازے پر) باہر آؤ
خلیل: رضیہ
رضیہ: جی
خلیل: کریم بھائی ہے اسٹور والا
رضیہ: بہت دنوں سے اس کا حساب نہیں ہوا۔
کریم: (پکارتا ہے) خلیل بھائی
خلیل: آ رہا ہوں کریم بھائی۔۔۔ (رضیہ سے) آج یہ بہت ذلیل کرے گا۔
رضیہ: واہ ذلیل کیوں کرے گا۔ پیسہ کوئی عزت سے بڑھ کر ہے۔ زیور بیچ کر جو روپے ملے۔ یہ لیجئے اسے دے آئیے۔
خلیل: پھر تم گھر کے خرچ کا کیا کرو گی
رضیہ: دیکھا جائے گا۔ اس کا حساب تو کر دو۔
خلیل: (بلند آواز) آ رہا ہوں کریم بھائی
(خلیل دروازے پر جاتا ہے)
خلیل: کریم بھائی
کریم بھائی: ابھی تو تم نے اپن کے اسٹور کی طرف سے نکلنا بھی چھوڑ دیا، بولو ٹھیک ہے
خلیل: ٹھیک ہے
کریم بھائی: دیکھو ساب۔ ہم جو اُدھر اسٹور کھولا ہے چار پیسے لگا کے تو اس لئے کہ دو پیسہ کمائے گا، بولو ٹھیک ہے۔
خلیل: ٹھیک ہے
کریم: تو صاحب ہم تمھارے دروازے پر تقاجا کرنے آیا تو ہم کوئی غلط کام نہیں کیا۔ بولو ٹھیک ہے۔
خلیل: ٹھیک ہے
کریم: تو ساب تم بہت دن سے ہمارے کو payment نہیں کیا۔ بولو ٹھیک ہے
خلیل: ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ کریم بھائی یہ لو۔ یہ رہا تمھارا حساب
کریم: ہم تو پہلے ہی جانتا تھا آپ بہت شریف آدمی ہے۔ پیسہ آئے گا تو ایک دم payment کرے گا۔ بولو ٹھیک ہے۔
خلیل: ابھی سیٹھ ٹھیک ہے۔ اچھا خدا حافظ
کریم: خدا حافظ۔۔۔ مہربانی۔۔۔ تیری بڑی مہربانی۔۔۔ بولو ٹھیک ہے۔۔۔
(کریم بھائی چلا جاتا ہے۔۔ خلیل گھر میں آتا ہے)
رضیہ: کر دیا اس کا حساب
خلیل: ہاں
(مختصر وقفہ)
رضیہ: اب کیا سوچ رہے ہیں
خلیل: سوچ رہا ہوں اس کا حساب تو کر دیا، مگر اب اپنے حساب کا کیا ہو گا
رضیہ: ہاں بن سوچے رہا بھی تو نہیں جاتا۔ اب تو چٹنی روٹی کا سہارا بھی گیا۔
(دروازے پر دستک)
خلیل: کون صاحب
پوسٹ مین: پوسٹ مین
رضیہ: نذیر بھائی کا خط آیا ہو گا
خلیل: جاتے ہوئے) اچھا بھئی
پوسٹ مین: رجسٹری ہے
خلیل: ہوں
پوسٹ مین: دستخط یہاں
خلیل: اچھا۔ لاؤ
(مختصر وقفہ)
رضیہ: نذیر بھائی کا خط آیا ہے
خلیل: نہیں
رضیہ: پھر
خلیل: بینک
رضیہ: آں
خلیل: نوٹس ہے۔ پچھلے سال بینک سے قرضہ جو لیا تھا۔
رضیہ: اچھ۔۔۔ چھا
خلیل: عقل ساتھ نہیں دیتی۔ کیا کروں۔ کیا نہ کروں۔ بینک کا پیسہ نہ گیا تو وہ گھر کا سامان بھی نیلام کرا سکتے ہیں اور گھر بھی نیلام کرا سکتے ہیں۔
(دروازے پر دستک)
خلیل: کیا تمام آفتیں آج ہی نازل ہوں گی
(دروازے پر دستک)
خلیل: کون صاحب
اکبر: (دروازے پر) اماں میں ہوں اکبر۔۔ آ جاؤں
خلیل: آ جاؤ
اکبر: (آتے ہوئے) السلام علیکم
خلیل: وعلیکم السلام
اکبر: بھابی سلام۔ منے یہ لو کیا یاد کرو گے کہ کوئی ملا تھا جس کا نام تھا اکبر چاچا
خلیل: چاکلیٹ کا ڈبہ۔۔ یار تم پہچاننے میں نہیں آ رہے۔
اکبر: ارے ابو کا منہ کیا تک رہے ہو منے۔ میری طرف دیکھو ذرا میں بھی تو اکبر چاچا ہوں۔ میں نے کہا کیا مجھے بھول گئے۔ اپنے ابو کے دوست کو
منا: امی
رضیہ: لے لو انکل لائے ہیں۔ اکبر بھائی اس کی کیا ضرورت تھی۔
اکبر: واہ بھابی ضرورت کیوں نہیں تھی۔ آج کل میں ضرورت ور روت نہیں دیکھتا ہوں۔ بس جو چیز اچھی لگی پیسہ پھینکا اور اٹھا لی دکان سے۔ ذرا میرے کپڑوں کو دیکھو۔
خلیل: کپڑے تو واقعی آج تم نے ایسے پہنے ہیں۔ آج سے پہلے ایسے کپڑے پہنے ہوئے تمھیں کبھی نہیں دیکھا میں نے۔
اکبر: ہاں اور یہ جوتا۔ اور یہ گھڑی۔۔ اور یہ پین۔ اور یہ انگوٹھی
خلیل: رضیہ دیکھ رہی ہو۔۔ سر سے پاؤں تک نئے نظر آ رہے ہیں ارے بھئی کیا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا۔
اکبر: کچھ بھی سمجھ لو مگر میں نے کہا میں نے کہا ہیں پانچوں گھی میں
خلیل: آخر کس طرح۔۔ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے
اکبر: نوکری
خلیل: نوکری میں رشوت
اکبر: اجی مجھے کوئی ایسا ویسا سمجھا ہے۔ لو بولو کہتے ہیں رشوت۔ اماں میں رشوت لوں گا۔ میں کیا جانوں رشوت کیسے لیویں ہیں۔ حلال کی کمائی ہے حلال کی
خلیل: اچھا
اکبر: ہوں۔ ایک ٹھیکیدار سے میں نے کہا کہ بھئی بتا چھوٹا خوبصورت۔۔ گھر بنانے میں کتنی رقم لگے گی۔
رضیہ: جلدی بتائیے اکبر بھائی پھر میں آپ کے لئے چائے بناؤں گی
اکبر: نہیں بھابی۔۔۔ پہلے تم چائے بنا کے لے آؤ۔۔۔ گرم گرم چائے پیوں گا پھر بتاؤں گا
رضیہ: اچھا ابھی لائی
منا: میں بھی
رضیہ: چلو تم بھی چلو۔۔ آ جاؤ گود میں
(مختصر وقفہ)
اکبر: اماں یہ کیسا کاغذ پڑا ہے۔ مجھے تو کوئی خطرناک قسم کا کاغذ معلوم ہووے ہے۔
خلیل: کچھ نہیں، نوٹس ہے
اکبر: اماں کیا کہا نوٹس۔۔۔ کیسا نوٹس۔۔ کس کا نوٹس۔۔ مجھے بتاؤ کون ہے وہ جس نے میرے دوست کو نوٹس دیا۔
خلیل: بینک
اکبر: قرضہ ! اماں تو مجھے بتاؤ میں ٹھیکیدار سے منع کر دوں گا، گھر بعد میں بنوا لوں گا، پہلے تمھارے بینک کا قرضہ دوں گا۔۔۔ بولو کتنا ہے
خلیل: کیا اسمگلنگ وغیرہ کے چکر میں پڑ گئے ہو۔
اکبر: خلیل بھیا مجھے تو آجکل ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی اچھا سا خواب دیکھ رہا ہوں۔ بس ڈر لگے ہے کہ آنکھ نہ کھل جائے۔
خلیل: قصہ آخر کیا ہے۔
اکبر: بتایا نا کہ نوکری مل گئی ہے مجھے
خلیل: ارے بھئی تو وہ کیسی نوکری ہے جس نے ایک دم نوٹوں کی بارش کر دی۔
اکبر: ٹرک چلاتا ہوں آپ کی دعا سے
خلیل: میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ اسمگلنگ۔۔ یہ تم نے بہت بُرا کیا۔
اکبر: اماں اپنی ہی کہے جاؤ ہو۔ میں کیا کہہ رہا ہوں نہیں سنتے
خلیل: ہوں
اکبر: ایک میل کے پچیس روپے دیویں ہیں مجھے
خلیل: ایک میل کے پچیس روپے
اکبر: ہاں جتنے میل ٹرک چلاؤ۔ اتنی ہی جگہ پچیس پچیس روپے ہاتھ کے ہاتھ گن لو
خلیل: کیوں۔۔ مجھے بناتے ہو
اکبر: سچ بول رہا ہوں۔۔ بھلا تم سے جھوٹ بولوں گا۔
خلیل: تو پھر کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔
اکبر: نا تمھاری قسم کوئی گڑ بڑ نہیں ہے۔ نہیں مانتے تو خط لکھ کے نذیر سے معلوم کر لو۔
خلیل: نذیر کون نذیر
اکبر: اماں یہ لو میں نے کہا اب تم نذیر بھیا کو بھی بھول گئے۔ اماں کیا ہو گیا تمھیں۔
خلیل: اپنے نذیر بھیا کو کہہ رہے ہو۔
اکبر: ہوں۔۔۔ میں آنے لگا تو کہا تھا آپا اور دولہا بھائی کو سلام کہنا
خلیل: وعلیکم السلام۔۔ تو نذیر سے کیا مطلب
اکبر: نذیر بھیا ہی نے تو مجھے نوکری دی ہے۔
خلیل: ٹرک ڈرائیور۔۔ پچیس روپے فی میل۔۔۔ کیا ان کا دماغ خراب
اکبر: دماغ خراب نہیں ہو گیا۔ بات ہی کچھ ایسی ہے
خلیل: تو وہ بات بتاؤ نا
اکبر: بتا دوں
خلیل: ہوں
اکبر: کوئی سن نہ لے کان قریب لاؤ
خلیل: ہوں۔۔ جی۔۔۔ اوہو۔۔۔ اچھا اب میں سمجھا
اکبر: سمجھ گئے نا
خلیل: ہوں۔ اوہ رضیہ آ رہی ہیں۔ ان سے صاف چھپا لینا۔ یہ آخری بات
(رضیہ چائے لے کر آتی ہے)
اکبر: آہا بھابی چائے لے آئیں۔ سچ کہہ رہا ہوں اس گھر سے اچھی چائے دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی
خلیل: رضیہ سنو
رضیہ: جی
خلیل: وہ جو نذیر ہیں نا
رضیہ: جی
خلیل: یہ اکبر بتا رہے ہیں کہ اپنی کمپنی میں نوکری دلا سکتے ہیں
رضیہ: ہائے سچ کہئیے۔ کیوں اکبر بھائی
اکبر: ہاں ہاں بھابی۔۔
خلیل: کیوں رضیہ کیا نقصان ہے اگر ہم بھی
رضیہ: آپ۔۔ آپ کو تو پاؤں چوم کے نوکری دیں گے نذیر بھیا
(میوزک)
(خلیل نذیر کے دفتر میں)
خلیل: (بہت تھکا ہوا ہے) اے بھیا ذرا ایک بات سنو گے۔
صنوبر خان: ارے بابا ایدھر آؤ۔۔ بھیک مانگتا ہے تو بستی میں جاؤ۔
خلیل: میں بھکاری نہیں ہوں
صنوبر خان: بھکاری نہیں تو بھکاری کے مافک بات کیوں کرتا ہے
(نقل اتارتا ہے) اے بھیا ذرا ایک بات سنو گے
خلیل: اصل میں تھکن کی وجہ سے پیدل آ رہا ہوں۔
صنوبر: (نقل اتارتے ہوئے) ستائیس میل سے پیدل آ رہا ہوں۔ اب بولے گا۔ بھیک نہیں مانگتا کرائے کا انتظام کرا دو
خلیل: نہیں میں یہ نہیں کہوں گا
صنوبر خان: یہ بھی نہیں کہوں گا۔ وہ بھی نہیں کہوں گا۔ تو پھر کیا کہوں گا
خلیل: تم یہاں چوکیدار ہو ؟
صنوبر خان: ہمارا یونیفارم نہیں دیکھتا تم۔ چوکیدار کا یونیفارم ایسا ہوتا ہے۔ ہم جانتا ہے چوکیدار بھی ہمارا بھائی ہوتا۔ چوکیدار بھی آدمی کا بچہ ہوتا۔۔۔ ہم بھی پہلے آدمی کا بچہ تھا۔۔ اڑے۔۔ ہم بھی پہلے چوکیدار تھا پھر ہم نے بہت اچھا چوکیداری کیا۔۔ پھر ساب ہم سے خوش ہو گیا۔۔ پھر ساب بولا۔۔ ہم تمھارے کو پیون بناتا ہے۔ بس پھر ہم چپراسی لگ گیا۔
خلیل: صاحب
صنوبر خان: اوے پھر کون بنائے گا۔
خلیل: میں صاحب کے پاس ہی تو آیا ہوں
صنوبر خان: او ساب کے پاس
خلیل: ہاں ہاں
صنوبر خان: تم کیسا آدمی ساب کے پاس آتا ہے۔ صاحب کے پاس تو آدمی لوگ جیپ میں آتا ہے۔ چھوٹا کار میں آتا ہے۔ بڑا کار میں آتا ہے۔ پیدل نہیں آتا۔
خلیل: میں ان کا رشتہ دار ہوں
صنوبر خان: ساب کا رشتہ دار (ہنستا ہے) ساب کا رشتہ دار ایسا ہوتا نہیں۔ تم ہمارے سے مسخری کرتا ہے۔
خلیل: میں ان کا رشتہ دار ہوں۔ بہت قریب کا۔ وہ ہیں کہاں
صنوبر خان: ارے خانہ خراب ہم تو مارا گیا۔ تم نے ہمارے کو پہلے کیوں نہیں بولا۔ ہمارا غلطی ماف کرو ساب۔ آؤ بیٹھو ادھر صوفے پر بیٹھو۔ ساب ابھی آئے گا۔ او ساب ہمارے کا مغز پھریلا ہے۔ پر اب سمجھ گیا آپ جان بنانے کے لئے ستائیس میل پیدل چلتا ہے۔
خلیل: وہ جلدی آئیں گے نا
صنوبر خان: او ساب۔ آپ کے پاؤں کا دو انگلی !
خلیل: (ہنستا ہے) خان صاحب ادھر کا لوگ کمزور جوتا بناتا ہے۔ راستے میں پہلے تو یہ جوتا اس جگہ سے گھسا پھر ہم تھوڑی دور اور چلے تو انگلیاں باہر جھانکنے لگیں۔
صنوبر خان: لو ساب اب تم ایسا چپل پہنو جیسا ہم پہنتا ہے۔ وہ تمہارے کو سو میل چلائے گا۔ پھر بھی نہیں ٹوٹے گا۔ اس مافک صوفے سے کمر لگاؤ، آپ تھکا ہوا ہے۔
خلیل: تھکا ہو ا۔۔۔ نہیں اب تو بہت ٹھیک ہو گیا۔
دیکھو جو پیڑوں کے نیچے نلکا ہے تو وہاں بیٹھ کر ہم نے اچھی طرح ہاتھ دھوئے، منہ دھویا، پاؤں دھوئے، پھر کوٹ اتار کے اس کی گرد جھاڑی، ادھر کی سڑکیں بہت خراب ہیں اتنی دھول تھی کہ کوٹ کو جھٹکتے جھٹکتے ہمارے بازو شل ہو گئے۔
صنوبر خان: بازو کیا ہو گئے ساب
خلیل: شل ہو گئے، تھک گئے
صنوبر خان: آپ کمزور آدمی ہے۔ بکرے کا گوشت بھون کے کھائے گا تو ایک مہینے میں ایسا ہو جائے گا (گھبرا کر) آؤ ساب آ گیا
نذیر کے قدموں کی آواز)
خلیل: اپنے آپ سے) بالکل وہی۔ ویسی ہی صورت جیسا پانچ سال پہلے تھا۔ ویسا ہی تیز تیز چلنا۔ مگر میری طرف اس نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
اس دوران نذیر قریب سے گزر کر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے)
صنوبر خان: وہ بڑا ساب ہے۔ کسی کو نہیں دیکھتا۔ سب اسی کو دیکھتا ہے۔ (گھنٹی کی آواز) اوہ ساب بلاتا ہے۔ آؤ آپ بھی آ جاؤ۔ اندر چلو۔۔ اُدھر اس سے بات کرنا۔
نذیر: صنوبر خان
صنوبر خان: جی ساب
نذیر: یہ فائل ہیں سائن کرنے کے لئے
صنوبر خان: جی ساب، کل جو آپ نے سین کیا تھا۔ وہ سب پیپر ہم نے ادھر والا ٹیبل پر پہنچا دیا۔ بالکل ٹھیک ٹھیک
نذیر: اسٹینو کو بلاؤ
صنوبر خان: ساب مس ساب ادھر آیا تھا پھر اس کا ایک ٹیلیفون آیا پھر وہ چلا گیا۔
نذیر: چلی گئیں۔ ان لوگوں کو اتنا خیال نہیں کہ۔۔۔
صنوبر خان: وہ ایک گھنٹہ کے بعد واپس آئے گا۔ ہمارے کو بولا
نذیر: کوئی فون تو نہیں آیا
صنوبر خان: ساب وہ تو مس ساب ہی کو پتہ ہو گا
نذیر: ان کے جانے کے بعد
صنوبر خان: ان کے جانے کے بعد تو آفس میں ایک دم سناٹا ہے اور ٹیلیفون بھی گونگے کے مافک چپ چاپ ہے۔ وہ سب کو ہنساتا ہے اپنی باتوں سے۔ اس لئے ہم بولا
نذیر: وہ سب کو ہنساتی رہتی ہیں اور ٹائپ نہیں کرتیں
صنوبر خان: ساب آنکھوں سے وہ پڑھتا ہے، ہاتھوں سے ٹائپ کرتا اور منہ سے ہنسانے کی باتیں کرتا ہے۔ سب کام ایک ساتھ مشین کے مافک
(فون کی گھنٹی)
نذیر: ہیلو۔۔۔ جی ہاں میں نذیر بول رہا ہوں۔ آپ کا بل میں اس کا payment کرا دوں گا۔ مگر آپ پہلے دوسری رسیدیں بھجوا دیں۔ OK خدا حافظ
(نذیر فون رکھتا ہے)
صنوبر خان چائے
صنوبر خان: اچھا ساب
(صنوبر خان جاتا ہے)
نذیر: جی تو آپ فرمائیے
خلیل: نذیر تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں خلیل ہوں
نذیر: آں
خلیل: ہاں میں خلیل ہوں
نذیر: (جذبے کے ساتھ) بھائی خلیل ! یہ آپ کو کیا ہو گیا۔
(ہڑبڑا کر) جیسے کسی کا فوٹو بگڑ جائے تو ہم اسے صرف اندازے سے پہچانتے ہیں۔ کتنے بدل گئے ہیں آپ۔
خلیل: پانچ سال ہو گئے۔ تم سے ملے ہوئے۔ پانچ سال میں بدل جانا ہی تھا۔
نذیر: مگر اتنا زیادہ بھی نہیں۔ بھلا بتائیے آپ اتنی دیر سے بیٹھے ہیں اور میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ آپ بہت بدل گئے ہیں۔
خلیل: یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ بچپن سے جو آدمی بدلنا شروع ہوتا ہے تو بدلتا ہی چلا جاتا ہے بڑھاپے تک۔۔ اور پھر
نذیر: آپ کی صحت تو بہت اچھی تھی۔ کیا بیمار ہو گئے تھے۔ تمھیں کیا ہو گیا خلیل بھائی۔ اسی کرسی پر آ جائیے میرے برابر۔ کتنے دنوں بعد آپ کو دیکھا ہے خیال نہ کیجئے گا۔
خلیل: بھیا تمھارا کوئی قصور نہیں۔ اب تو جو بھی مجھے دیکھتا ہے حیرت کرتا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اس دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔
نذیر: جب آپ اندر آ رہے تھے تو میں نے دیکھا تھا، پاؤں میں کچھ تکلیف ہے۔
خلیل: رستے میں ایک پتھر سے ٹھوکر لگی۔ اتنی زور سے کہ جوتے میں بھی سوراخ ہو گیا۔ شرم سی آ رہی ہے ٹوٹے ہوئے جوتے کی وجہ سے۔
نذیر: خلیل بھائی تم نے عجیب حال کر رکھا ہے اپنا۔ مجھے بالکل بھی خبر نہیں تھی کہ۔۔۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ رضیہ مجھے کیا سمجھتی ہے۔
خلیل: تمھیں بہت یاد کرتی ہے۔
نذیر: نہیں۔۔ مجھے غیر سمجھتی ہے، دشمن سمجھتی ہے۔ اس نے مجھ سے کیوں چھپایا۔ ہر مہینے اس کا خط مجھے ملتا ہے مگر کسی خط میں کوئی ایک بات بھی اس نے مجھے نہیں لکھی جس سے میں اندازہ لگا سکتا کہ آپ لوگ۔ اچھا تو مجھے اور باتیں بتائیے۔ رضیہ کیسی ہے۔
خلیل: رضیہ ٹھیک ہیں بالکل ٹھیک
نذیر: اور منا
خلیل: اسے بھی ٹھیک ہی سمجھو، بس یہ ہے کہ اس کی ٹانگیں جو ہیں کچھ کمزور ہیں، گود میں رہتا ہے یا ہاتھوں سے چلتا ہے۔ مگر ہے بہت ذہین
نذیر: ہوں یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ وہ ذہین ہے۔
خلیل: اور تو سب کچھ ٹھیک ہے بس اس کی ٹانگیں۔ میں سمجھتا ہوں بڑا ہو گا تو خود بخود ٹھیک ہو جائیں گی۔
نذیر: مجھے تو رضیہ پر غصہ آ رہا ہے اس نے مجھے لکھا کیوں نہیں کہ آپ کے گھر کے حالات اس حد کو پہنچ گئے ہیں۔ کیا وہ مجھے اس لائق نہیں سمجھتی، کیا میں تھوڑی بہت مدد نہیں کر سکتا تھا۔
خلیل: بھیا سب کی اپنی اپنی الجھنیں ہوتی ہیں۔ تو اپنی پریشانی سے کسی کو پریشان کرنا اچھا نہیں لگتا۔
نذیر: ہاں خلیل بھائی یہ بات تو ہے۔ وہ جو میرا کراکری کا اسٹور تھا صدر میں اسے بند کرنا پڑا۔
خلیل: تم نے لکھا تھا تو مجھے اور رضیہ کو بہت دکھ ہوا۔ رضیہ کے تو آنسو بہنے لگے تھے۔
نذیر: وہ تو ہمیشہ کی پگلی ہے۔ میں بچپن سے جانتا ہوں۔ کوئی گڑیا ادھر ادھر ہو جاتی تو کمرے میں بند ہو کے رونے کو بیٹھ جاتی تھی۔ بیوقوف کہیں کی۔ ارے اسٹور تو تین سال سے نقصان میں چل رہا تھا۔ میں بھی اسے چلائے جا رہا تھا۔ صرف اس لئے کہ بھئی اپنی چیز ہے۔ چلنے دو۔ وہ جو ملکیت سے ایک محبت سی ہو جاتی ہے اور اس کے سوا اس میں کیا رکھا تھا۔
(صنوبر خان آتا ہے)
صنوبر: ساب چائے
نذیر: پہلے ادھر خلیل بھائی کو
صنوبر: جی ساب پہلے مہمان کو
(پیالیوں کی آواز۔ صنوبر خان جاتا ہے)
نذیر: وہ جو آپ کی ملازمت تھی اس کا کیا ہوا۔
خلیل: اس نوکری کی بات تو جانے دو بھیا نذیر۔۔۔ اسے زمانہ ہو گیا چھوڑے ہوئے۔۔ مگر
نذیر: جی
خلیل: تم سے ایک بات کہوں
نذیر: آں، رضیہ سے لڑائی تو نہیں ہوئی
خلیل: یہ خیال تمہیں کیسے آیا۔ رضیہ مجھ سے یا میں رضیہ سے کیوں لڑنے لگا (ہنستا ہے) تم بھول رہے ہو۔ ہم دونوں کی محبت کو خاندان بھر میں مشہور ہے۔ لوگ مثال دیا کرتے ہیں۔
نذیر: وہ سب کچھ مجھے یاد ہے۔ یہ تو یونہی ایک خیال آ گیا تھا۔
خلیل: سنو
نذیر: جی
خلیل: تمھارے پاس ایک کام سے آیا ہوں۔ مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے
نذیر: یہ تو میں بھی سوچ رہا ہوں۔ جو کچھ بھی ہو سکے گا۔ ویسے آپ جانتے ہیں کہ اسٹور کی آمدنی تو ختم ہی ہو چکی ہے۔
خلیل: تم غلط سمجھے نذیر۔۔ اگر تم سے مانگنا ہوتا تو کبھی کا مانگ چکا ہوتا۔ مگر تم جانتے ہو کہ یہ نہ میرا مزاج ہے اور نہ رضیہ کا۔
نذیر: جی جی۔۔ وہ تو میں جانتا ہوں، کیوں نہیں جانتا
خلیل: مجھے ایک آدمی ملا تھا۔ میرے گھر آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ تم مجھے نوکری دے سکتے ہو۔
نذیر: وہ کون تھا
خلیل: وہ کوئی بھی تھا۔ مگر تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا۔ رضیہ کے پاس تمھارے خط آتے تھے۔ تم نے کبھی نہیں لکھا کہ میں نوکری دے سکتا ہوں۔ آخر کیوں مجھے تو جیسے ہی اس آدمی سے پتہ چلا میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بس پاگلوں کی طرح چل پڑا۔
نذیر: تو آپ اس لئے آئے ہیں کہ میں آپ کو نوکری دوں
خلیل: اب یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے
نذیر: مگر میرے پاس تو خلیل بھائی آپ کے لائق کوئی جاب نہیں۔ ہماری کمپنی آج کل آدمی نہیں رکھ رہی۔ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ آپ پٹرول اور تیل وغیرہ کی بزنس کے بارے میں کچھ جانتے نہیں۔ اس کاروبار میں تربیت یافتہ لوگ رکھے جاتے ہیں۔ میں نے بھی جاننے والوں کو یہاں لگوایا مگر وہ سب چھوڑ چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے بس کا یہ کام نہیں تھا۔
خلیل: تمھارے پاس میرے لئے نوکری نہیں ہے۔۔ مجھے کم از کم تم سے یہ توقع نہیں تھی۔ دوسروں کی طرح تم بھی مجھے ٹالنے کی کوشش کر رہے ہو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔
نذیر: خلیل بھائی آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں کیا آپ کے سلسلے میں غلط بیانی سے کام لوں گا۔
خلیل: تو پھر کیا بات ہے۔ اس آدمی نے تو کہا تھا کہ نوکری تمھارے ہاتھ میں ہے، تم اپنے قلم سے ملازم رکھ سکتے ہو۔ کیا افسر ہو کے آدمی جھوٹ بولنے لگتا ہے۔
نذیر: وہ کوئی شیطان ہو گا جس نے جا کر آپ سے جھوٹ بولا
خلیل: اگر تم شیطان کو ملازم رکھتے ہو تو وہ شیطان ہی ہو گا۔
نذیر: کیا مطلب
خلیل ؛ اسے تم نے ملازم رکھا ہے۔ ٹرک ڈرائیور۔ اس نے بتایا تھا کہ تمھیں ہمیشہ ڈرائیوروں کی ضرورت رہتی ہے۔
نذیر: (خوفزدہ) ٹرک ڈرائیور
خلیل: میرے پاس لائسنس ہے۔ اور یہ جگہ تم مجھے دے سکتے ہو۔
نذیر: لہجہ بدل کر) اچھا تو یہ بات ہے۔ اس لئے آئے ہیں آپ۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ بھائی خلیل کہ آپ بہت تھکے ہوئے ہیں، پہلے تھوڑا سا آرام کر لیں میں آپ کو اپنے فلیٹ میں بھجوائے دیتا ہوں۔
خلیل: میں یہاں آرام کرنے نہیں آیا۔ میرا آرام یہی ہے کہ تم مجھے نوکری دے دو نذیر بھیا۔
نذیر: اوہو۔ دیکھئے نا ابھی نہ تو میں کہیں بھاگا جا رہا ہوں اور نہ نوکری کہیں بھاگی جا رہی ہے۔ پھر بات کریں گے، ابھی مجھے دفتر کے کئی ضروری کام نمٹانے ہیں۔
(گھنٹی بجاتا ہے)
صنوبر خان: جی ساب
نذیر: دیکھو صنوبر خان یہ بھائی خلیل ہیں انھیں ہمارے فلیٹ پر لے جاؤ۔
صنوبر: چلو ساب
نذیر: یہ چابی لو۔۔ کپڑوں کی الماری میں سے شلوار قمیض نکال دینا اور ہیٹر چلا کے پانی گرم کر دینا نہانے کے لئے۔
صنوبر: اچھا ساب ہم تھوڑا نمک بھی ڈالے گا گرم پانی میں۔ پھر بھائی کا تھکن ایسا اتر جائے گا جیسے بکرے کا کھال اترتا ہے۔ بھائی ایک دم فسٹ کلاس ہو جائے گا۔
خلیل: باتوں میں دھیان نہیں رہا نذیر۔۔۔ وہ جو تمھاری پھوپھی تمھارے ساتھ رہتی تھیں
نذیر: وہ گھر پر آپ کو ملیں گی۔ پہلے سے بھی زیادہ خراب حالت ہے دماغ کی۔ آپ بالکل قابو میں نہیں ہے۔
(میوزک)
(نذیر کا گھر)
(خلیل صنوبر خان پھوپھی اماں)
پھوپھیَ (قہقہہ جس میں پاگل پن شامل ہے) ہاہاہا۔ اب میں تجھے پہچان گئی لڑکے تو وہی ہے نا۔ ہاہاہا
صنوبر: او ساب بات کرو بہت اللہ والا پھوپھی اماں ہے۔
خلیل: آپ نے مجھے پہچان لیا
صنوبر: کپڑے بدل کے تم آدمی کے بچے بن گیا ساب تو اب اس نے تمھارے کو پہچان لیا
پھوپھی: ہاں میں نے تجھے پہچان لیا، تو وہی ہے بے باپ کی بھتیجی کو لے گیا تھا۔
صنوبر: پھوپھو اماں یہ آپ کا چائے ہے پی لو۔ تم بھی لو ساب چائے ٹھنڈا ہو جائے گا۔ پھر چائے پی کے تم آرام کرے گا ادھر بستر پر۔ پھوپھی اماں کو ہم ادھر مصلّے پر بٹھا دے گا۔
پھوپھی: تو بے باپ کی بھتیجی کو لے گیا۔ پھر تیری بس پہاڑی کھڈ میں گر گئی۔ وہاں تیرا ایک بچہ ہوا۔ اس کی ٹانگیں خرگوش کی ٹانگوں سے بدل گئیں۔ ہاہاہا۔ صنوبر خان۔
صنوبر: جی پھوپھی اماں
پھوپھی: نذیر سے کہنا ایک بڑی سی کرین منگائے، کرین کو جانتے ہو
صنوبر: وہ جو بھاری چیز اٹھاتا ہے پھوپی اماں
پھوپی: ہاں اس سے کہو ایک بڑی سی کرین اس پہاڑ پر بھیج دے جس کے کھڈ میں رضیہ کی بس گر پڑی ہے۔
خلیل: رضیہ آپ کو بہت یاد کرتی ہیں پھوپی اماں۔
پھوپی: مجھے یاد کرتی ہے۔ اللہ کو یاد نہیں کرتی۔۔۔ ہاہاہا
(گاتی ہے)
مجھ کو یاد کرتی ہے
اللہ کو یاد نہیں کرتی
اللہ کو یاد نہیں کرتی
ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا
(میوزک)
(خلیل کا گھر)
منا: ابو ابھی تک رنگوں کا ڈبہ نہیں لائے
رضیہ: رضائی نہ اتارو بیٹے، ہوا لگے گی تو بخار اور تیز ہو جائے گا
منا: ابو
رضیہ: وہ بہت سے رنگوں کے ڈبے لے کے آئیں گے تمھارے ابو۔ اچھا منے اب سو جاؤ
(ہواؤں کی آواز)
یہ طوفانی رات ختم ہو تو تمھارے لئے دوائی کا انتظام کروں گی۔
منا: میرے پاس بہت سی تصویریں ہیں، ان سب میں رنگ بھروں گا۔
رضیہ: ہاں میرے بچے اپنی تصویروں میں ضرور رنگ بھرنا اچھے اچھے پیارے پیارے سے رنگ
منا: گہرے گہرے بھی اور ہلکے ہلکے بھی
رضیہ: اچھا اب تم سونے کی کوشش کرو
منا: آپ نے وہ تصویریں دیکھی ہیں۔ جن میں رنگ بھروں گا ؟
رضیہ: کہاں ہیں وہ تصویریں
منا: تکیے کے نیچے
رضیہ: تکیے کے نیچے تو ایک تصویر ہے
منا: اور بھی ہیں
رضیہ: اور کہاں ہیں
منا: آپ کو نہیں بتاؤں گا
رضیہ: بتا دو بیٹے۔ اپنی امی کو بھی نہیں بتاؤ گے
منا: اوں ہوں
رضیہ: دیکھو پھر ہم نہیں بولیں گے
منا: اچھا بتاتا ہوں
رضیہ: ہوں
منا: کیسے بتاؤں
رضیہ: جیسے سب بتاتے ہیں
منا: ایک تو وہ دیکھئے سامنے دیوار پر
رضیہ: دیوار پر ؟
منا: جی
رضیہ: دیوار پر تو کچھ بھی نہیں ہے
منا: اچھا، ادھر وہ کونے میں
رضیہ: کیسی باتیں کرتے ہو منے۔۔۔ کونے میں تصویر کہاں سے آئی
منا: امی، ہاں تصویر نہیں۔۔ پھر بھی مجھے نظر آتی ہے۔ وہ ایک ہرن ہے اس کے پاؤں میں کانٹا لگ گیا ہے۔ تو اس سے چلا نہیں جاتا۔ ابو رنگوں کا ڈبہ لائیں گے تو میں اُس ہرن کی تصویر بناؤں گا۔ بہت اچھی سی۔ اور ایک فاختہ آئے گی۔ وہ اپنی چونچ سے ہرن کے پاؤں کا کانٹا نکال دے گی۔ پھر ہرن دوڑے گا۔ تیز اور تیز اور تیز۔۔۔ امی کیا آپ سو گئیں
رضیہ: نہیں تو جاگ رہی ہوں
منا: ہرن دوڑے گا نا امی
رضیہ: ہاں تمھارا ہرن دوڑے گا، بہت تیز دوڑے گا، اچھا آؤ اب سو جائیں۔ رضائی لپیٹ لو اچھی طرح۔ ہوا بہت تیز ہے۔
(ہوا کی آواز اور موسیقی)
(نذیر کا گھر)
نذیر: رضیہ کا خط آیا ہے
خلیل: منا تو ٹھیک ہے
نذیر: لکھا ہے اسے بخار ہو گیا تھا۔ اب ٹھیک ہے
خلیل: اور
نذیر: میاں کی خیریت معلوم کی ہے
خلیل: نوکری کے بارے میں کچھ نہیں لکھا
نذیر: جی نہیں
خلیل: آں ہاں، ٹھیک تو ہے وہ جانتی ہیں جب نوکری تمھارے ہاتھ میں ہے تو انہیں لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ نہیں لکھا۔۔ یہ ٹھیک ہی کیا رضیہ نے
نذیر: (رُک رُک کر) نہیں نہیں۔۔ آپ اس کمپنی میں نوکری نہیں کریں گے، آپ کو خبر نہیں یہ کیسی کمپنی ہے۔
خلیل: خبر کیوں نہیں۔۔ مجھے خبر ہے۔ اس آدمی نے ایک ایک کر کے تمام باتیں مجھے بتائی تھیں۔ وہ کہہ رہا تھا تم جو ہو، تو مال لوڈ کر کے یہاں سے بھیجتے ہو اور یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ وہ مال کیا ہوتا ہے۔ تم ڈائنامائٹ بھیجا کرتے ہو۔
نذیر: مگر، وہ آدمی کون تھا جس نے یہ سب کچھ آپ کو بتایا
خلیل: اکبر
نذیر: اکبر، میری طرح اونچے قد کا۔۔۔ وہی اکبر
خلیل: ہاں لمبا تڑنگا۔۔۔ وہ جھوٹا آدمی نہیں
نذیر: (ہنستا ہے) نہیں اس نے جھوٹ نہیں کہا (لہجہ بدل کر) بھائی خلیل آپ نے ایک آدمی سے ایک بات سنی اور اتنی دور سے پیدل چل پڑے۔ یہ آپ نے بڑی غلطی کی۔ پہلے مجھ سے دریافت کرنا چاہئیے تھا۔
خلیل: بھیا میں نے جان بوجھ کے پہلے سے دریافت نہیں کیا، میں جانتا تھا تم لکھو گے ’’ نہیں ‘‘۔۔ اکبر نے کہا کام ذرا خطرناک قسم کا ہے مگر تم جانو میں خطروں کی پروا نہیں کرتا ہوں۔
نذیر: آپ خطرے کی پروا کریں یا نہ کریں۔ میں آپ کو یہ نوکری نہیں دوں گا۔
خلیل: نذیر یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں تو یہ سوچ کر چلا تھا کہ تمھارے پاس پہنچا اور نوکری ملی۔ بس کسی طرح تم تک پہنچ جاؤں۔ پھر دنیا کی فکر یں دور ہو جائیں گی۔ مصیبت کے دن ختم ہو جائیں گے۔ پھر ہمارے حالات وہ نہیں رہیں گے جو اب ہیں۔ بھیا میں تو سمجھا تھا کہ اکبر نے مجھے سنہری خواب دکھایا ہے اور اس خواب کی تعبیر تمھارے پاس ہے۔
نذیر: خواب کی تعبیر الٹی ہوتی ہے
خلیل: دیکھو سنو۔۔۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ تمھاری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ میری طرف دیکھو، نذیر بھیا۔ کیا میرے چہرے پر سب کچھ لکھا ہوا نہیں ہے۔ نذیر اب مجھ میں سختیاں برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی میں اس حالت میں اب دو دن بھی نہیں گزار سکتا سو سر اٹھا کر سڑک پر چلنا چاہتا ہوں۔
نذیر: آپ پاگل ہو گئے ہیں
(دوسرے کمرے سے پاگل پھوپی کے ہنسنے کی آواز آتی ہے)
پھوپی: ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا
خلیل: پھوپی کی آواز۔۔۔۔ دوسرے کمرے سے۔
نذیر: ہوں۔۔۔ وہ اپنے خیالوں میں ہنستی رہتی ہیں
خلیل: تم مجھے پاگل کہہ رہے تھے
نذیر: ہاں اس لئے کہہ رہا تھا کہ آپ کو خبر نہیں یہاں ہر سال پانچ میں ایک ڈرائیور حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔
خلیل: کیا میری زندگی اب بھی کسی حادثے سے کم ہے۔ گھر پر فاقے ہو رہے ہیں۔ کہیں سے ایک پیسہ کی امید نہیں۔
نذیر: اوہو تو آپ نے مجھے بتا دیا ہوتا۔ یہ خود آپ کا قصور ہے۔ کہ مجھے باخبر نہ رکھا آپ نے اپنے جھوٹے غرور کی وجہ سے مجھے نہیں لکھا۔ میں کچھ روپیہ کہیں سے قرض ہی لے کر رضیہ کو منی آرڈر کر دوں گا۔ بلکہ تار سے بھجوا دوں گا۔ ابا اپ گھر جائیے اور اس ملازمت کے خیال کو دل سے نکال دیجئے۔
خلیل: تم جو روپیہ بھیجو گے وہ کچھ دنوں میں ختم ہو جائے گا پھر کیا ہو گا۔
نذیر: پھر کیا ہو گا۔۔۔ خلیل بھائی آپ ابھی اتنے گئے گزرے نہیں ہیں کہ کوئی کام نہ کر سکیں۔ کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا۔ بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے آپ کو کوئی حق نہیں کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالیں۔ کسی نہ کسی دن کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا۔
خلیل: پہلے مجھے یہی امید تھی۔ مگر اب ذرہ برابر امید نہیں، میں ہر جگہ کوشش کر کے دیکھ چکا ہوں۔ ایک جگہ کلرکی ملی تھی تو وہاں سپرنٹنڈنٹ نے غبن کر لیا تو انھوں نے مجھے نکال دیا۔
نذیر: نکال دیا تو کیا ہوا۔ کیا دنیا کے تمام کام ختم ہو گئے جو آپ کو ایک کام بھی نہیں ملے گا۔
خلیل: اتنے سال سے یہی ہو رہا ہے
نذیر: حوصلہ رکھو خلیل بھائی، امید رکھو
خلیل: حوصلہ تو جتنا چاہو مجھ میں ہے مگر امید۔۔۔ میری امید کے تمام چراغ گُل ہو چکے ہیں۔ انتظار کرتے کرتے میری تمام امیدیں ایک ایک کر کے دم توڑ چکی ہیں۔
(ٹیلی فون کی گھنٹی)
نذیر: ہیلو۔۔۔ ہاں میں بول رہا ہوں مس نجمہ۔۔ ہاں تمام لیٹرز ٹائپ کر دئیے اور وہ جو موسٹ ارجنٹ تھا۔ ہاں وہ بھی ٹھیک ہے۔ میرے سگنیچر باقی ہیں۔ تو کیا کیا جائے۔ نہیں میں تو ابھی نہیں آ رہا۔۔ ایسا کیجئے کہ آپ ڈرائیور سے گاڑی نکلوائیے اور تمام پیپرز لے کر یہاں آ جائیے۔
(ٹیلی فون رکھتا ہے)
خلیل: اب میری امید اس دنیا میں صرف تم ہو نذیر
صرف تم
نذیر: میں سمجھتا ہوں ابھی آپ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔ نہیں میں نہیں کر سکتا اپنا نہیں تو رضیہ ہی کا خیال کرو۔
خلیل: ہاں ہاں میں رضیہ کا خیال کر رہا ہوں۔ اسی کے خیال نے مجھ سے یہ فیصلہ کرایا ہے (سرگوشی کی آواز) جس دن اکبر آیا تھا اس دن میں نے رضیہ کو غور سے دیکھا تھا وہ بالکل بدل چکی ہے، وہ اب پہلے سی حسین رضیہ نہیں ہے۔ کسی گڑیا سی ہوا کرتی تھی کبھی۔۔۔۔ راستے میں میرے ساتھ چلتی تھی تو ہر شخص مڑ مڑ کر دیکھتا تھا۔ وہ ابھی اٹھائیس سال کی بھی نہیں اور اس کی تمام خوبصورتی رخصت ہو گئی۔۔ میں زندگی میں اس کے لئے کچھ نہ کر سکا۔ میں نے اس سے انصاف نہیں کیا۔ اسے ایک بہتر زندگی گزارنی چاہئیے تھی۔ زندگی میں آج یہ نیا موقعہ مل رہا ہے کہ میں اس کے لئے کچھ کر سکوں میری تمام زندگی ناکام گزری ہے۔
نذیر: بے وقوفی کی باتیں نہ کرو۔ تم نے کوئی ایسی ناکام زندگی نہیں گزاری۔ بے شمار لوگ اس زمین پر ایسے ہیں جو تم سے بھی بد تر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ اور کچھ نہیں صرف تمھاری کم ہمتی ہے۔ تمھاری بزدلی ہے۔ تم حالات کا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے۔
خلیل: تم کچھ بھی کہو۔۔ مگر میں اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتا ہوں۔ میں رضیہ کا گنہگار ہوں۔ میں اسے زندگی کی خوشیاں نہ دے سکا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں اسی طرح اپنے بچے کی کمزور ٹانگوں کو دیکھتا رہوں اور سوچتا رہوں کہ اگر میرے پاس پیسہ ہوتا تو اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ جب بھی اسے دیکھتا ہوں دل کہتا ہے یہ سب تیرا قصور ہے۔
نذیر: ہاں۔۔۔ ہوں۔۔ اچھا خلیل بھائی میں اب ذرا نیچے کے کمرے میں جاتا ہوں دفتر سے فائل وغیرہ آتے ہوں گے۔
(میوزک)
نذیر: صنوبر خان تم
صنوبر خان: جی ساب
نذیر: ہم تو اسٹینو کا انتظار کر رہے تھے وہ فائل وغیرہ
صنوبر: ابھی اسٹینو نہیں آئی، اس سے بڑی مصیبت آئی ہے
نذیر: کیا
صنوبر خان: پولیس انسپیکٹر
نذیر: ارے، اوہو، اچھا، باہر
صنوبر: اسے آنے دے ساب
نذیر: ہم خود بلائے لیتے ہیں
(قدموں کی آواز)
نذیر: ہیلو انسپکٹر سلام علیکم
انسپیکٹر: وعلیکم
نذیر: آئیے آئیے تشریف لائیے۔ صنوبر خان چائے
صنوبر: جی ساب ابھی لاتا ہے
انسپکٹر: مسٹر نذیر۔۔۔ وہ حادثہ
نذیر: جی ہاں۔ تشریف تو رکھئے، سگریٹ
انسپکٹر: تھینک یو۔۔۔ وہ جو کل رات مسٹر نذیر آپ کے ٹرک کا حادثہ ہوا ہے، اس کے سلسلے میں
نذیر: اوہ انسپکٹر دوسرے حادثوں کی طرح وہ بھی ایک حادثہ تھا۔ محض حادثہ
انسپکٹر: اس کی تفتیش میرے سپرد ہوئی ہے۔ اور میں پوری تحقیقات کروں گا۔
نذیر: جی آپ اپنی پوری کاروائی کیلئے میرا مطلب در اصل یہ تھا کہ وہی آپ کے سوالات ہوں گے جو ہمیشہ ہوتے ہیں۔ اور وہی ہمارے جوابات ہوں گے جو ہمیشہ ہوتے ہیں۔ دیکھئے نا ہماری کمپنی کا کاروبار ہی ایسا ہے جس میں کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔
انسپکٹر: دیکھنا یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر میں لاپرواہی تو نہیں برتی گئی۔ اگر ایسا ہوا تو۔۔
نذیر: آپ تحقیقات کر سکتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر میں کوئی کمی نہیں پائیں گے۔
انسپکٹر: جائے حادثہ کا معائنہ بھی کرنا ہے آپ کو ساتھ چلنا ہو گا۔
نذیر: میں حاضر ہوں انسپکٹر، مگر چائے تو آ جائے۔
انسپکٹر: نہیں چائے پھر کبھی۔۔ اب چلیں
نذیر: اوکے
(موسیقی)
(نذیر کا گھر)
خلیل: پھوپی اماں کئی بار ادھر آئیں تمھارے کمرے کو دیکھا اور پھر جا کر مصلّے پر بیٹھ گئیں
نذیر: ہاں مجھے گھر لوٹنے میں دیر ہو جاتی ہے تو وہ پریشان رہتی ہیں۔ اس پاگل پن میں بھی۔
خلیل ؛ آج اتنی دیر کیوں ہو گئی
نذیر: کچھ ضروری کام تھا
خلیل: مگر میرے ضروری کام کا کیا کیا تم نے
نذیر: میں آپ کو بتا چکا ہوں وہ بہت خطرے کا کام ہے، کسی وقت بھی حادثہ پیش آ سکتا ہے۔
خلیل: مگر میں قسمت آزمانا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے میرے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو۔ تمھیں معلوم نہیں نذیر بھیا کہ میرے دل میں کتنی آرزوئیں کتنی تمنائیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ارمان۔ مضبوط سیاہ جوتا، دو چار جوڑے کپڑوں کے۔ ہفتے مین کم سے کم چار دن گوشت کا انتظام، کبھی کبھی ہم فلم دیکھنے جائیں۔
نذیر: بس کیجئے خلیل بھائی۔
خلیل: نہیں نذیر میں تمھارا دامن نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے حساب لگا لیا ہے، ایک میل ٹرک چلانے کا معاوضہ پچیس روپے تو سوچو مین اس میں سے کتنی بچت کر سکتا ہوں۔ ہزاروں روپے، پھر منے کا علاج بھی ہو جائے گا اور رضیہ، وہ کتنی خوش ہو گی۔
نذیر: آپ ایسی خطر ناک نوکری کریں گے۔ تو کیا وہ خوش رہ سکے گی۔
خلیل: اسے کیا خبر کہ کسی نوکری ہے۔ میں اس کے کہوں گا کہ دس روپے روز ملتے ہیں اور باقی رقم بینک میں، کیوں کیسی ترکیب ہے ؟
نذیر ؛ اصل میں آپ نے خطرے کا نام سنا ہے، خطرے کو محسوس نہیں کیا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں ذرا کان کھول کر سنئے۔
خلیل: میں سن رہا ہوں
نذیر: میرے پاس جگہ خالی ہے بلکہ اسی آدمی کی جگہ خالی ہے جو تم سے ملا تھا۔
خلیل ؛ اکبر ؟۔۔۔ کیا وہ نوکری چھوڑ گیا۔
نذیر: وہ مر گیا۔۔۔
خلیل: انا للہ و انا الیہ راجعون
(یہاں سے نذیر کی باتوں میں زور پیدا ہوتا ہے اور خلیل خوفزدہ ہوتا چلا جاتا ہے)
نذیر: ڈیوٹی پر۔۔۔ کام کرتے ہوئے۔۔ کل رات ہی آپ کی اطلاع کے لئے میں اسی کی انکوائری میں پولیس کے ساتھ تھا۔ اب تک
خلیل: اچھا آدمی تھا۔۔ بڑا ہنس مکھ
نذیر: سنئے۔ وہ جو آپ کہہ رہے تھے ڈائنامائٹ، تو ہم ٹرک میں ڈائنامائٹ نہیں بھیجتے، وہ ایک اور چیز ہوتی ہے۔ نائٹرو گلیسرین
خلیل: خیر وہ ڈائنامائٹ ہو یا نائٹروگلیسرین اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمیں تو بس احتیاط سے ٹرک چلانا ہے۔
نذیر: میری بات نہ کاٹئیے۔ معلوم ہے نائٹرو گلیسرین کیا ہوتا ہے۔ کوئی ذرا زور سے کھانس ہی دے تو یہ بھک سے اڑ جاتا ہے۔ پتہ ہے اسے کس طرح بھیجا جاتا ہے، ایک بڑی سی ٹرے جو کچھ اس طرح کی ہوتی ہے۔ یوں پنکھے کی طرح۔ تاکہ اس کے سب حصے الگ الگ رہیں اور سب حصوں کے درمیان ربڑ لگا دیتے ہیں۔
تاکہ ذرا بھی رگڑ نہ لگ سکے۔ یہی ایک طریقہ ہے اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا۔
خلیل: جب اتنی احتیاط کر لی جاتی ہے تو پھر نذیر بھیا تو خوف کیا ہے۔
نذیر: بات ختم کر لینے دو۔ یہ جو چیز ہے نائٹرو گلیسرین تو یہ ایک خاص قسم کے ٹرک میں بھیجی جاتی ہے۔ آدھی رات کے بعد۔ اس کے لئے ایک خاص سڑک ہے۔ جس سے ٹرک گزرتے ہیں۔
کسی آبادی سے نہیں گزر سکتے۔ ان کی مرمت کی اگر ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لئے اسپیشل ورک شاپ ہے۔ سمجھے میں کیا کہہ رہا ہوں۔ کتنا خطر ناک کام ہے۔
خلیل: تو بھئی میں احتیاط سے ٹرک چلاؤں گا۔ مین جانتا ہوں ٹرک کیسے چلایا جاتا ہے۔ بھیا میں سلو چلاؤں گا۔
نذیر: تو کیا آپ کا خیال ہے کہ وہ آدمی۔۔۔ اکبر۔۔۔ وہ ٹرک چلانا نہیں جانتا تھا یا وہ سلو نہیں چلا سکتا تھا۔
خلیل: ایک میل کے پچیس روپے اس حساب سے ہفتے میں کئی ہزار ہوتے ہیں۔ مجھے بھی تو ایسی ہی اجرت ملے گی۔
نذیر: ہاں اجرت تو اتنی ہی ملے گی۔ ایک میل کے پچیس روپے۔ مگر یہ تو سوچئے کمپنی اتنا زیادہ کیوں دیتی ہے۔ روپیہ روپیہ۔ بڑی سی تنخواہ مگر کب تک۔ چھوٹا سا کوئی پتھر کا ٹکڑا سڑک پر پڑا ہے بے ضرر سا چھوٹا پتھر کا ٹکرا اب آپ کے ٹرک کی ہیڈ لائٹ ہے۔ فرض کیجئے اس لائٹ میں وہ چھوٹا سا پتھر اپ دیکھ نہ سکے۔ اور بس پھر اس کے بعد نہ روپیہ نہ روپیہ لینے والا۔ جیسا کہ اس آدمی کے ساتھ ہوا۔ جس کا ذکر آپ کر رہے تھے۔
خلیل: مگر میں۔۔۔
نذیر: سنتے رہئیے۔۔۔ آپ تو بڑی احتیاط سے ڈرائیو کر رہے ہیں، مگر فرض کیجئے اتفاق سے تیز آندھی آ جاتی ہے
خلیل؛ مگر میں ؟
نذیر: پھر وہی مگر میں۔۔ سنتے رہئیے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اچھے خاصے جا رہے ہیں۔ اور گرد کا ایک ذرہ آپ کی آنکھ میں پڑ جاتا ہے اور اسٹیرنگ ویل پر آپ کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور ٹرک دیوار سے ٹکرا جاتا ہے یا کوئی اور بات جو ہمارے خیال میں بھی نہ ہو۔۔۔ اور وہ آدمی اب ہم اس سے پوچھ بھی نہیں سکتے کہ بھئی تمھارے ساتھ کیا ہوا۔ گواہی دینے کے لئے نہی ٹرک باقی ہے اور نہ اس آدمی کی لاش۔ کچھ بھی تو نہیں ہے۔ ممکن ہے کسی دن بہت دور کسی کھیت میں ٹرک کا کوئی جلا ہوا پرزہ کسی کو ملے۔ مگر ڈرائیور ! ڈرائیور کا کبھی پتہ نہیں چلتا، ایک ناخن تک ہاتھ نہیں آتا۔ بس یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ مقر رہ وقت پر مقر رہ جگہ نہیں پہنچتا۔ تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ وہ فنا کے راستے پر چلا گیا۔
(بلی کی آواز)
خلیل: بلی !
نذیر: ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا۔ معلوم ہے کل رات کیا ہوا۔ وہ پل پر سے گزر رہا تھا، ہو سکتا ہے کہ وہ بے سبب ہی گھبرا گیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ سائیڈ میں کسی چیز سے ذرا سی ٹھیس لگ گئی ہو ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ وہ پل اپنی جگہ سے غائب ہے۔ نا ٹرک ہے نہ وہ آدمی ہے۔
(بلی کی خوفناک آواز)
خلیل: وہ دروازے کے سامنے سے گزری ہے۔ کالا رنگ آنکھیں چمکدار
نذیر: وہ پڑوس کی بلی ہے۔ اکثر چلی آتی ہے۔
خلیل: اچھا
نذیر: کیا اس نوکری میں تمھیں پل بھر بھی چین مل سکے گا۔ سوتے اور جاگتے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے گا کہ کیا خبر کل کا سورج دیکھنا نصیب نہ ہو۔
(بادل کی آواز)
اور چھٹی کے دن تمھارے لئے قیامت بن جائیں گے۔ یہاں ایک دن چھوڑ کر ڈرائیوروں کو آف دیا جاتا ہے۔ تاکہ ان کے اعصاب کو ذرا آرام مل جائے۔ اور وہ گھر میں پڑے ہوئے ڈراؤنے خواب دیکھتے رہیں۔ کیوں اب آپ نے خوف سے آنکھیں کیوں بند کر لیں۔
(بینگ)
خلیل: (خواب میں ڈر جاتا ہے) منے منے، رضیہ رضیہ، منے رضیہ۔۔ رضیہ منے
پھوپی: ہاہاہا۔۔۔ ڈر گیا خواب میں
خلیل: آں۔۔۔ رضیہ۔۔۔ اوہ میں سو رہا تھا۔۔۔ کیسا ڈراؤنا خواب
پھوپی: ڈراؤنے خواب تجھے وہی دکھاتا ہے
خلیل: پھوپی اماں یہ کس کے لئے کہہ رہی ہیں آپ
پھوپی: وہ جو تجھے سلائے جاتا ہے تھپک تھپک کے
(گاتی ہے)
آ جا ری نندیا۔۔۔ آ جاری نندیا۔۔۔ ہاہاہا
خلیل: نذیر کہاں ہیں
پھوپی: اسے صنوبر خان بلانے آیا تھا۔ وہ دفتر چلا گیا۔ اس نے پہاڑی پر کرین نہیں بھیجی۔ نہیں بھیجی نا
خلیل: جی پھوپی اماں
پھوپی: وہ نیند کا شہزادہ ہے اس سے بچ کے رہو وہ اپنی نیند سے دوسروں کو بھی سلا دیتا ہے۔ لڑکے تو جاگ رہا ہے
خلیل: اب تو میں جاگ رہا ہوں پھوپی اماں
پھوپی: نہیں تو سو رہا ہے ہاہاہا۔۔ میں تجھے جگاؤں گی
خلیل: جی
پھوپی: لے یہ کاغذ لے اس میں تیرا علاج لکھا ہے، لکھ دیا میں نے، لکھ دیا میں نے۔ لکھ دیا میں نے۔۔۔ ہاہاہا
(میوزک)
(نذیر کا دفتر)
خلیل: (پر جوش آواز میں) صنوبر خان
صنوبر خان: جی ساب
خلیل: تمھارا صاحب کدھر ہے
صنوبر خان: وہ اپنے کمرے میں، ادھر
(مختصر وقفہ)
نذیر: بھائی خلیل آپ
خلیل: ہاں میں
نذیر: اتنے سویرے آپ دفتر میں کیوں آئے آپ جانتے ہیں کہ میں اس وقت بہت مصروف ہوتا ہوں زیادہ باتوں کا میرے پاس وقت نہیں ہے۔
(پکارتا ہے) صنوبر خان اسٹینو کو بھیجو
خلیل: میں تم سے زیادہ باتیں نہیں کروں گا صرف ایک بات
نذیر: جی جلدی سے کہئیے
خلیل: میں یہ نوکری کروں گا
نذیر: خلیل بھائی، کیا آپ ہوش میں ہیں
خلیل؛ ہاں پہلے میں سویا ہوا تھا۔ اب ہوش میں ہوں
نذیر: یہ آپ کا فیصلہ ہے
خلیل: ہاں تم مجھے یہ ملازمت دو گے۔ یہ ملازمت دو گے۔ یہ ملازمت تم مجھے دو گے
نذیر: (غصے میں) بے وقوف آدمی (لہجہ بدل کر) ٹھیک ہے رات کو ڈیوٹی پر آ جانا۔
(میوزک)
(آدھی رات کے وقت خلیل ڈیوٹی پر پہلے دن آیا ہے)
صنوبر خان: ٹرک لوڈ ہو گیا ساب
نذیر: وہ آپ کا ٹرک ہے
خلیل: اوہ اچھا۔۔۔ خدا حافظ
نذیر: سنئے
خلیل: ہوں
نذیر: اب بھی وقت ہے ایک بار اور سوچ لیجئے
خلیل: میں نے سوچ لیا ہے۔۔۔ خدا حافظ
نذیر: خدا حافظ
خلیل: بسم اللہ الرحمن الرحیم
(ٹرک کے اسٹارٹ ہونے کی آواز)
(طویل میوزک جس سے وقت گزرنے کا احساس ہو)
(بیس سال بعد۔۔۔ خلیل کا گھر)
خلیل: (جو اب بوڑھا ہے) ہاہاہا۔۔۔ نذیر بھائی منے کو قومی ہاکی ٹیم میں لے لیا گیا
نذیر بھیا سن رہے ہو
نذیر: ہاں بھائی خلیل مبارک ہو
خلیل: واہ رے تیری قدرت یہ وہی منا ہے جو آج سے بیس سال پہلے ٹانگوں سے معذور تھا۔
(ٹیلی فون کی گھنٹی)
رضیہ: (جو اب بوڑھی ہے) ہلو۔۔ جی، جی ہاں موجود ہیں۔ آپ کون صاحب ہیں۔۔۔ آپ کا فون ہے
خلیل: کون ہے ؟
رضیہ: اکاؤنٹینٹ
خلیل: ہلو۔ سلام علیکم۔۔ جی۔۔ یعنی تیار ہے۔ بہت بہت شکریہ۔۔ اپنے بیٹے کو بھیجوں گا۔ اسے دے دیجئے گا۔ خدا حافظ
(فون بند کرتا ہے)
وہ کہہ رہے ہیں کہ۔۔۔ وہ جو ہمارا فنڈ ہے اس کا چیک تیار ہے
رضیہ: یا اللہ تیرا شکر ہے
خلیل: نذیر بھیا۔۔ آج ہمارے گھر کی خوشی تم دیکھ رہے ہو اور ایک وہ دن تھا۔ میں کس حال میں تمھارے پاس پہنچا تھا۔۔ یاد ہے
نذیر: جی ہاں
خلیل: اور دیکھ لو۔۔۔ رٹائرمنٹ کے بعد بھی میں جیتا جاگتا تمھارے سامنے موجود ہوں
نذیر: وہ در اصل میں جو مخالفت کر رہا تھا تو میرا مطلب یہ تھا کہ۔۔۔
خلیل: ہاں بھیا میں جانتا ہوں کہ اپنے خیال کے مطابق تم میری بھلائی کی بات کر رہے تھے اور ممکن ہے کہ میں اس روز تمھاری بات مان جاتا اور نوکری کا ارادہ چھوڑ دیتا۔۔ مگر۔۔
نذیر: مگر کیا ؟
خلیل: افسوس اب تمھاری پھوپی اماں دنیا میں نہیں ہیں۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے۔ یوں تو انہیں کچھ ہوش نہ تھا۔ پر انھوں نے میری آنکھوں سے ہر پردہ ہٹا دیا۔ اور میں نے ایک دم فیصلہ کر لیا
نذیر: آنکھوں پر سے پردہ کس طرح اٹھا دیا۔ انھوں نے۔۔ پھوپی اماں نے۔
خلیل: انھوں نے ایک کاغذ کے پرزے پر اسی حالت میں جسے تم پاگل پن کہتے ہو۔۔ ایک بات مجھے لکھ کر دی تھی اور کہا تھا۔۔ لے یہ تیرا علاج ہے۔۔
نذیر: کیا لکھا تھا انھوں نے
خلیل: اس کاغذ کو میں نے تعویذ کی طرح بازو پر باندھ لیا۔ اب بھی بندھا ہوا ہے۔ لو اپنے ہاتھ سے کھولو اور خود پڑھ لو۔
نذیر: لائیے۔۔ آں۔۔۔ آں
پھوپی کی آواز: ہاہاہا۔۔۔ پگلے تو کس الجھن میں ہے، یاد رکھ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔۔ ہاں۔۔۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔۔ ہاہاہا
(میوزک)
٭٭٭
ماخذ:
http://raisfroughe.wordpress.com
رئیس فروغ ڈاٹ ورڈپریس ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید