سوویت روس کاانہدام عالمی سطح پرمزدور تحریک اورترقی پسند تحریک کے لیے ایک سانحہ اورتاریخی دھچکہ ثابت ہوا جس کے اثرات بہت گہرے مرتب ہوئے۔
میں اپنے اسکول کے دنوں سے سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھا۔ میرے نزدیک تمام مسائل کاحل غیر طبقاتی نظام تھا۔ چین اور سوویت یونین بارے میری معلومات محض اتنی تھیں کہ وہاں سب لوگ برابر ہیں۔ میرا خیال تھاپاکستان میںبھی ایسا ہی نظام ہوناچاہیے لیکن سوویت روس ٹوٹنے سے میرے خیالات بالکل الجھ کر رہ گئے۔ جدوجہد سنٹر آناجانا شروع ہوا تو میں سٹالنزم اورٹراٹسکی ازم ایسے الفاظ سے متعارف ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بالشویک انقلاب کی تاریخ سے تفصیلاً آگاہ ہوا۔ آہستہ آہستہ بہت سے سوالوں کے جواب ملنے لگے۔میں گھنٹوں بیٹھا شعیب بھٹی،فاروق طارق اورسی ایم مجاہدسے سوویت انقلاب کی تاریخ، اس کی خامیوں،کامیابیوں اور ناکامیوں پرمعلومات حاصل کرتا۔ ان دنوں جدوجہد گروپ جدوجہد انقلابی تحریک کے نام سے ایک مہم شروع کرنے کا پروگرام بنارہاتھا۔مہم کامقصد تھا کہ ملک بھرمیںرابطے کرکے محنت کش طبقے کی ایک پارٹی کی طرف قدم بڑھایا جائے۔
مگرایک نئی پارٹی کیوں؟ میںساتھیوں سے سوال کرتا۔ساتھی ایک مرتبہ پھرایک لمبی بحث شروع کردیتے جس کی اکثر مجھے سمجھ نہ آتی البتہ بحث کے آخر میںمجھے لگتا کہ یہ لوگ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔
اس بحث کے دوران مجھے نظریہ مسلسل انقلاب کالفظ اکثر سننے کاملتا۔ ساتھی مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے: ’’کامریڈ! پاکستان میں بائیں بازو والوں کی ناکامی کی وجہ یہ رہی ہے کہ وہ سٹالن کے مرحلہ وار انقلاب کے نظرئیے پرعمل درآمد کرتے رہے۔ نوآبادیاتی دنیا کا انقلاب تب ہی ممکن ہے اگر ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کوحکمت عملی بنایا جائے۔‘‘
مجھے نہ تونظریہ مسلسل انقلاب کی سمجھ تھی اورنہ ہی سٹالن کے مرحلہ وار انقلاب والی تھیوری کاپتہ تھا۔ٹراٹسکی کا نام اب جاناپہچانا لگتا کہ اس کاذکر ہروقت جدوجہد سنٹر میںیوں ہوتاتھا گویا وہ پاکستان ہی کاکوئی سیاستدان ہو۔
سوشلسٹ نظریات بارے میری دلچسپ بڑھتی جارہی تھی لہٰذا میں نے چھوٹے چھو ٹے کتابچے جوجدوجہد سنٹر میںموجود تھے، پڑھنا شروع کئے۔ رفتہ رفتہ میںٹراٹسکی اورلینن کی موٹی موٹی کتابیں پڑھنے لگا۔کیمپس کے بعد جدوجہد سنٹر کا چکر لگانا میرے معمولات میں شامل ہوگیا اورآنے والے چند سال تاآنکہ میں سویڈن چلاآیا، سنٹر جانا میری روزمرہ زندگی کااہم ترین معمول تھا۔ میرے دوست اورہم جماعت اکثر مجھے جدوجہد سنٹر جا کر وقت ضائع کرنے پر ملامت کرتے اور میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ وقت وہاں جا کر ضائع نہیں ہوتا البتہ افسوس اس بات کاہے کہ جدوجہد سنٹر اتنی دیر سے پہنچا ہوںکہ پہنچتے پہنچتے بہت سا وقت ضائع ہوگیا ہے۔
آج مڑکردیکھتاہوںتو خود کوخوش قسمت محسوس کرتاہوں کہ اگرجدوجہد سنٹر نہ پہنچا ہوتاتواس عالمی ترقی پسندتحریک اورانقلابی سیاسی نظریات سے ناآشنا رہتاکہ جدوجہد گروپ جس کامحض ایک حصہ ہے۔
ان نظریات نے مجھے ان سوالوں کے جواب دئیے جوکہیں نہیں مل رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا میری تکمیل ہوئی ہے۔مجھے اپنے نظریات پرفخر کے ساتھ ساتھ مکمل اعتماد ہے۔
کدوں تیک ایویں سواروسوار چلسی
اوڑک ہیٹھلی اتے آونی اے
اساں مدتاں دے ہوٹے دیندیاں نیں
مہیٹ لے کے کھیڈ مکاونی اے
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں انقلابی مزدور نظریات سرخرو ہوں گے۔ پھر اٹھے گا اناالحق کانعرہ کہ سپارٹا کی بغاوت سے لے کر کیوبا کے انقلاب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔