ایک دفعہ مل لو میری شرافت کا یقین آ جائے گا
ٹریفالگر کے بارے میں سڈنی میں میرے ٹریول ایجنٹ نے ابتدائی معلومات دی تھیں۔ اسی ایجنٹ نے مجھے اس کمپنی کی ایک معلوماتی کتاب بھی دی جس میں یورپ کی سیر کے لئے اس کمپنی کے مختلف پیکجز کی تفصیلات درج تھیں ۔یورپ میں ایسی کئی بڑی کمپنیاں سیاحوں کی سروس کے لئے دستیاب ہیں جن کے توسط سے آپ اپنی سہولت ،اپنے بجٹ اور دستیاب وقت کے مطابق سیر کا مکمل پروگرام بنا سکتے ہیں۔ یہ سیر دنوں سے لے کر مہینوں تک مختلف دورانیے کی ہو سکتی ہے۔ اس کے رُوٹ اور ذرائع سفر بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی اپنی ٹورسٹ کوچز‘ ڈرائیورز اور گائیڈز ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کی دلچسپی کے مطابق پیکج بناتے ہیں ۔ انہیں اپنی کوچز میں طے شدہ روٹ پر ہر جگہ پہنچانے، ہوٹلوں کا بندوبست کرنے، قابل دید مقامات کے ٹکٹ مہیا کرنے، سفری اور مقامی گائیڈفراہم کرنے کے علاوہ کئی دیگر سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح سیاح کم سے کم وقت اور بغیر کسی تکلیف اور تردد کے زیادہ سے زیادہ اہم جگہوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ ایک ماہر گائیڈ قدم قدم پر رہنمائی اور اہم مقامات کی تفصیل بتانے کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوتا ہے( یا ہوتی ہے) ۔
ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی اپنی نوعیت کی منفرد اور بڑی کمپنی ہے۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ،پیکج بے شمار اور عملہ لاتعداد ہے۔ اگر آپ یورپ کی سیر کر رہے ہوں تو ٹریفالگر کی کوچز آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گی۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے۔ لیکن یورپ بھرمیں اس کے دفاتر کا جال بچھا ہواہے۔ بہت پرانی ‘ تجربہ کار اور منظم ٹورسٹ کمپنی ہے۔ وہ سیاحوں کو ہرسہولت فراہم کرتے ہیں جس کا وعدہ کرتے ہیں ۔بلکہ بعض سہولتیں پیکج سے ہٹ کر اضافی بھی ہوتی ہیں۔
مجھے اس کمپنی کا پیکیج پسند آ یا۔ میں نے اپنے مطلوبہ پیکج کی بذریعہ انٹرنیٹ بکنگ کرائی۔ بعد میں ان کے سڈنی آفس سے بذریعہ فون بھی رابطہ رہا جس سے مزید اہم معلومات ملتی رہیں۔ اس پیکج کے مطابق اگر سیاح فردِ واحد ہو تو ہوٹل کا الگ کمرہ لینے کی صورت میں اس کے چارجز بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی دوسرے سیاح کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا پسندکر لے تو اخراجات لامحالہ کم ہو جاتے ہیں۔ میں بھی اس سفر میں اکیلا تھا ۔ اپنے کسی ہمسفر کے ساتھ رہنے میں مجھے کوئی عار نہیں تھا۔ اس طرح اخراجات بھی کم ہو جاتے اور روم میٹ کے ساتھ گپ شپ میں وقت بھی اچھا گزرتا۔ سوچا خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ لیکن ایک خدشہ بہرحال ضرور تھا کہ کسی ’فرزانے‘ سے نہ پالا پڑ جائے ۔ بہرحال انٹرنیٹ پر جب بکنگ کروائی تو میں نے انہیں اپنے لئے مخلوط رہائش کا اختیار دے دیا۔
تھوڑے دنوں بعد سڈنی آفس سے فون آگیا کہ آپ کے مطلوبہ پیکج کی بکنگ ہوگئی ہے۔ صرف ایک مسئلہ باقی ہے ۔میں نے پوچھا ’’وہ کیا؟‘‘
ایک لڑکی نے اپنی کھنکناتی ہوئی آواز میں بتایا’’ ٹریفالگر کاہوٹلنگ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر سنگل مرد ہو تو اسے دوسرے سنگل مرد کے ساتھ ٹھہرا یا جاتا ہے اور اگر عورت اکیلی ہو تو اسے کسی عورت کے ساتھ ٹھہرا یا جاتا ہے‘‘
میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا ’’میں آپ کا دائرہ ِاختیار بڑھا دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ میرے معاملے میں آپ کو آزادی ہے کہ آپ کسی بھی فرد کے ساتھ مجھے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ کم از کم مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘
وہ لڑکی ہنسی تو فون سے موسیقی سے اُبلی۔ ہنستے ہوئے بولی’’ آپ کو تو نہیں لیکن جنسِ مخالف کی اس فرد کو اعتراض ہو سکتا ہے‘‘
میں نے کہا’’ آپ ایسا کریں! اس کا فون نمبر مجھے دے دیں ۔ہو سکتا ہے سفر پر جانے سے پہلے وہ اپنا اعتراض واپس لے لے‘‘
کہنے لگی’’ آپ بہت پراعتماد ہیں‘‘
’’اس لئے کہ میں شریف آدمی ہوں‘‘
بولی ’’لگتا تو نہیں۔ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں‘‘
میں نے کہا’’ تم تو سڈنی میں رہتی ہو۔ مل لو یقین آجائے گا‘‘
وہ ہنستے ہوئے بولی’’ ہوشیار بھی ہیں۔ ملنے کی خوبصورت راہ نکالی ہے۔ ویسے میں شادی شدہ ہوں اس لئے مجھ سے مل کر آپ کو مایوسی ہی ہوگی‘‘
میں نے کہا’’ میں نے اپنی شرافت کا یقین دلانا تھا۔ اس کے لئے آپ کا غیر شادی شدہ ہونا ضروری نہیںہے۔ بہرحال جب میں سفر سے واپس آئوں گا تو آپ کو یقین آجائے گا ۔کیونکہ ظاہر ہے آپ کو شکایت نہیں ملے گی‘‘
’’ آپ بہت دلچسپ آدمی ہیں ۔بہرحال میں آپ کو بتانا چاہ رہی تھی کہ آپ کے گروپ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اکیلا بھی ہو اور کسی دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتا ہو۔ آپ اکیلے ہیں جنہوں نے یہ اختیار دیا ہے۔ اب ایسی صورت میں آپ کو پورے کمرے کے حساب سے اضافی رقم ادا کرنا ہوگی‘‘
میں نے کہا’’ دیکھیں ٹریفالگر بہت بڑی ٹورسٹ کمپنی ہے۔ اس میں بکنگ کرانے اور پیکج کا انتخاب کرنے سے پہلے میں نے اپنے بجٹ کو ملحوظ رکھا تھا۔ اب اگر میرے اختیار دیئے جانے کے باوجود آپ لوگ پورے گروپ میں میرے ساتھ کمرہ شیئر کرنے والا نہیں ڈھونڈسکتے تو یہ میرا نہیں آپ کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ بندوبست کرنا آپ کا کام ہے۔ میں طے شدہ رقم سے زائد ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں‘‘
وہ لڑکی کچھ سوچنے کے بعد بولی ’’میں ہیڈ آفس میں اپنے انچارج سے بات کرکے آپ کو دوبارہ فون کرتی ہوں‘‘
تھوڑی دیر بعد ہی اس کا فون آگیا۔ کہنے لگی ’’مبار ک ہو !آپ کی بکنگ برقرار ہے ۔آپ کو کمرہ بھی الگ ملے گا اور اضافی اخراجات بھی نہیں ہوں گے۔ حالانکہ آپ کے گروپ میں چند اور اکیلے افراد ہیں۔ وہ آپ سے سات سو ڈالر زائد ادا کر رہے ہیں لیکن سہولتیں بالکل برابر ہیں۔ آپ برائے مہربانی اپنے ہم سفر ساتھیوں کو ہماری اس رعایت کے بارے میں نہ بتایئے گا کیونکہ یہ خصوصی رعایت ہے‘‘
میں نے کہا’’ آپ بے فکرہو جائیں ۔لیکن میری شرافت کے بارے میں جب بھی جاننا چاہیں میں کہیں اور کسی وقت بھی مل سکتا ہوں‘‘
اس نے ہنستے ہوئے آفر کا شکریہ ادا کیا اور پھر رسمی باتوں کے بعد فون بند کردیا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی کے دفتر میں بہت سے سیاح جمع ہیں۔ اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ ان میں سے کون ہمارے گروپ میں شامل ہے اور کون کسی دوسری راہ کا مسافر ہے ۔ استقبالیہ کائونٹر پر دو لڑکیاں اور ایک مرد سیاحوں کی مدد کے لئے موجود تھے۔ میں نے انہیں اپنا نام بتایا تو انہوںنے میری بکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے ایک فارم بھرنے کے لئے دیا۔ میں نے ان کی مطلوبہ معلومات لکھ دیں جو زیادہ تر میرے بارے میں ہی تھیں۔ مثلا نام، پتہ، فون نمبر، لندن میں رہائش کا پتہ، پاسپورٹ، ویزہ اور دیگر ایسی ہی بنیادی معلومات تھیںجو انہیں ریکارڈ کے لئے درکار تھیں۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ کھانے کے بارے میں کوئی خصوصی ہدایت ہے تو درج کردیں۔ میں نے مسلم فوڈ(حلال) لکھ دیا ۔لیکن اس کی وضاحت ٹریفالگر والوں نے شروع میں کر دی تھی کہ وہ سفر میں حلال کھانوں کا بندوبست شاید نہ کر سکیں۔ تاہم ویجیٹرین فوڈ (سبزیوں پرمشتمل کھانا) اور دیگر کھانوں میں اپنی پسند کی کوئی بھی چیز لے سکتے ہیں مثلاََمچھلی اور انڈے وغیرہ۔
آسٹریلیا میں رہتے ہوئے حلال کھانوں کی عدم دستیابی کی صورت میں متبادل کھانوں کا ہمیں بخوبی علم ہے۔غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں اور وہاں جانے والے مسلمانوں کے لئے حلال کھانوں کا حصول بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں یہ مسائل ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے جس جانور کا نام لینا باعثِ کراہت ہے وہ یہاں لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عام کھانوں میں خنزیر کا گوشت وافر مقدار میں استعمال ہوتا ہے بلکہ اس کی چربی اور کھال بھی بہت سی اشیاء میں استعمال کی جاتی ہے۔ اسی لئے مسلمان ہر چیز خریدنے سے پہلے اس کے INGREDIENTS ضرور پڑھتے ہیں۔مثلاََ کوکنگ آئل کو صرف پکانے کا عام تیل سمجھ کر خریدااور استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اس میں استعمال ہونے والے مختلف اجزاء دیکھے جاتے ہیں ۔اگر اس میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ہے تو مسلمان وہ آئل نہیں خریدتے ۔ اس طرح صابن، شیونگ کریم ،ٹوتھ پیسٹ اور دوسری سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جن میں سور کی چربی، گوشت، کھال یا الکوحل شامل ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں مسلمانوں کے ادارے ایفک نے ایک ایسی لسٹ بنائی ہے جو مارکیٹ میں موجود مختلف اشیاء کے بارے میں یہ بتا دیتی ہے کہ اس میں کونسی حلال ہے اور کون سی حرام۔
مسلم خواتین و حضرات شاپنگ کرتے ہوئے یہ لسٹ اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔ کوئی بھی نئی چیز خریدتے وقت اس لسٹ سے اس کے بارے میں تسلی کر لیتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں کو جہاں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں، اس میں یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ان مسائل کا ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی اس نعمت کا احساس ہوتاہے کہ کہیں سے کچھ بھی خرید کر کھا پی سکتے ہیں۔ وہاں پورا ماحول اسلامی ہے۔ کسی بھی دکان سے جو دل چاہے خرید سکتے ہیں ۔تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہاں ہم کسی پارٹی میں جا کر خود کو اکیلا اور تنہا محسوس نہیں کرتے۔
یہاں آسٹریلیا میں ہم جب مقامی لوگوں کی پارٹیوں میں جاتے ہیں تو کوک کا گلاس پکڑ کر الگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پر پارٹی کا آغاز اور اختتام شراب سے ہوتا ہے۔ بیچ میں بھی حلال گوشت تو درکنار خنزیر کی ڈشیں سجی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمان پہلے تو ایسی پارٹیوں میں جانے سے کتراتے ہیں اور اگر کسی مجبوری کے تحت جانا پڑ ہی جائے تو بھوکے گھر واپس آجاتے ہیں۔ اس وقت اس ماحول میں اجنبیت اور اکیلے پن کا انہیں جو احساس ہوتا ہے وہ وطن عزیز میں رہنے والوں کو نہیں ہو سکتا۔
ایک اور مسئلہ جو درپیش آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کئی لوگ خود یا ان کی اولاد ان پابندیوں سے آہستہ آہستہ آزاد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاََشراب تو بہت سوں کے منہ لگی ہوئی ہے کیونکہ یہاں یہ عام ہے۔ بغیر کسی تردد کے اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔ ماحول بھی اس کے لئے موافق ہوتا ہے۔ شراب کے علاوہ جھٹکے یا مشینوں کے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت بھی کافی مسلمان کھاتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایک سے میں نے سوال کیا ’’یہ گوشت آپ کیوں کھا رہے ہیں یہ حلال نہیں ہے‘‘
ان میں سے کچھ کو تو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ حلال ہے یا حرام۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ یہ مرغی‘ بکر ی یا گائے کا گوشت ہے جو مسلمانوں کے لئے حلال کی گئی ہیں‘‘
’’لیکن یہ جانور اسلامی طریقے سے ذبح نہیں کئے گئے۔ اس صورت میں یہ کیسے حلال ہو سکتے ہیں؟‘‘
کئی ایک ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ایک دوست کہتا ہے ۔میں کھانے سے پہلے تکبیر پڑھ لیتا ہوں ۔اس طرح یہ حلال ہو جاتا ہے۔ حلال حرام کی تمیز اور تقوی ٰکا صحیح امتحان ان ملکوںمیں ہوتا ہے۔ ورنہ پاکستان میں میرا ایک دوست کہنے لگا ’’مجھے شراب کا شوق ہے۔ لیکن کیا کروںیہاں ملتی ہی نہیں‘‘
میں نے کہا’’ اچھا ہے نہیں ملتی ورنہ روز گناہ گار ہوتے‘‘
بولا’’’ خیالوں میں روز پی لیتا ہوں ۔عملاََاس لئے نہیں پیتا کہ ملتی نہیں۔ جس دن مل گئی ذرا دیر نہیں لگائوں گا۔ اگر خدا نیتوں کا حال جانتا ہے تو پھر میں پہلے ہی گناہگار ہوں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کچھ کرکے گناہ گار ہوتا۔ اس گناہِ بے لذت کا کیا فائدہ‘‘
میرے اس دوست کو اس کی خراب نیت کا گناہ تو ضرور ہوگا ۔لیکن شاید اتنا نہ ہو جتنا مٹکوں کے حساب سے روزانہ پینے والوں کو ہوتا ہے۔ اصل امتحان تو یہی ہے کہ یہ بآسانی دستیاب ہو اور پھر اس سے اجتناب کیا جائے۔
ٹریفالگر والوں کو جو ہدایت میں نے لکھوائی تھی اس کا ا ثر ضرور ہوا ۔ایک تو یہ کہ کہیں بھی میرے کھانے میں گوشت نظر نہیں آیا۔ دوسرا یہ کہ میرے لئے سی فوڈ، سبزیوں اور انڈوں پر مشتمل کھانے کی ہدایت میرے جانے سے پہلے مطوبہ ہوٹل یا ریسٹورنٹ کو پہنچا دی جاتی تھی۔ ہر جگہ نئے سرے سے مغز ماری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
ٹریفالگر نے مسافروں کے لئے ایک سوٹ کیس اور ایک ہینڈ بیگ ساتھ رکھنے کی اجازت دی تھی۔ میں نے یہ ہدایت پڑھی ہی نہیں ۔ میرے پاس سامانِ سفر زیادہ تھا۔ ایک سوٹ کیس ‘ ایک سوٹ کیس جتنا ہی بڑا بیگ اور ایک درمیانے سائز کا ہینڈ بیگ۔ اس طرح ایک آئٹم زائدہو گیا۔ لیکن بھلا ہو ان کا،کسینے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سارا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ الگ بات ہے کہ تمام سفر میں اس زائد سامان کی وجہ سے مجھے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا ۔ جس شہر میںپہنچتے تھے یہ تمام سامان بس سے نکال کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچوانا پڑتا تھا اور پھر اگلے دن کمرے سے واپس بس تک پہنچاناپڑتا تھا۔
دراصل یورپ سے واپسی پر میں اگرچہ دوبارہ پاکستان جارہا تھالیکن صرف کراچی۔ کیونکہ پنجاب میں اپنی فیملی سے مل کر آ گیا تھا۔ اس طرح پنجاب سے ملنے والے اور آسٹریلیا سے کراچی والوں کے لئے رکھے گئے تحائف پورے سفر میں مجھے گھسیٹنے پڑے۔ جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ یارک شائر میں میرے دوست آصف کریم اور اس کی بیگم نے پوری کر دی ۔پورے گروپ میں ،میں اکیلا پاکستانی تھا اور سب سے زیادہ سامان بھی میرے پاس تھا۔ اس طرح میں نے اپنی پاکستانیوں والی وہ روایت قائم رکھی جس کے مطابق ہمارے بس سٹاپ، ٹرین سٹیشن اور ائر پورٹ سامان سے اٹے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرینوں میں سفر کرنے والے ایک ایک مسافر کے پاس اتنا سامان ہوتا ہے جو یورپ میں سفر کرنے والے پورے کمپارٹمنٹ کے مسافروں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یورپین، امریکن اور آسٹریلین دورانِ سفر اپنے پاس کم سے کم سامان رکھنے کے قائل ہیں۔ ویسے بھی ان کی کون سی خالائیں، بھابھیاں ‘ چچیاں اور پھوپھیاں ان کے تحفوں کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں کا روگ پالتے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کرسمس پر ایک کارڈ ارسال کر دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
کئی لوگوں کے والدین کسی دوسرے شہر سے انہیں ملنے آ تے ہیں تو اپنے خرچ پر سفر کرتے ہیں۔ اپنی جیب سے ادائیگی کرکے ہوٹل میں کمرہ لیتے ہیں۔ اپنی گِرہ سے ٹیکسی کا کرایہ ادا کرکے اس ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں جہاں بیٹا یا بیٹی ایک وقت کا کھانا کھلا کر اپنا حقِ اولاد ادا کرتے ہیں۔ کھانا کھا کر بیٹا اپنے گھر اور بوڑھے ماں باپ واپس ہوٹل میں چلے جاتے ہیں۔ وہ بہت ہی خوش قسمت والدین ہوتے ہیں جن کا بیٹا یا بیٹی انہیں ایک وقت کا کھانا گھر بلا کر کھلاتے ہیں۔ لیکن رات رکنے کی اجازت انہیں پھر بھی نہیں ہوتی ۔ رہنا انہیں ہوٹل میں ہی پڑتا ہے۔
میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں
سامان بس میں رکھوانے کے بعد ہم اس میں سوار ہوئے تو ایسے لگا کہ ہوائی جہاز کی بزنس کلاس میں داخل ہوگئے ہوں۔ اسی طرح کی کھلی کھلی اور آرام دہ سیٹیں ،دبیز پردے ،ہیڈ فون اور سٹیریو کی تاریں‘ چھوٹی سی کھلنے اور بند ہونے والی میزیں اور مکمل ایئر کنڈیشنڈ ۔ میںسیٹ پر بیٹھا تو اس میں دھنس ساگیا ۔اتنی نرم اور آرام دہ تھی۔ اس عظیم الجثہ کوچ میں باون سیاحوں کا گروپ سفر کر رہا تھا۔ جنہوں نے اگلے دو ہفتے اکھٹے گزارنے تھے ۔اُدھیڑ عمر اور قدرے بوڑھے لوگ زیادہ تھے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کے لئے نکلتے ہیں۔ جوانی میں غم ِروزگار میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ گھومنے پھرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا ۔اپنی اور اولاد کی زندگی بنانے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ۔اُس وقت ان ذمہ داریوں کی وجہ سے سیر و تفریح کے لئے وقت اور پیسہ نہیں نکال پاتے۔ لیکن ان کے دِلوں میں خواہشیں اور تمنائیں کلبلاتی رہتی ہیں۔ اکثر کی تمنائیں حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بڑھاپے میں عمر بھر پروان چڑھنے والی ان خواہشوں اور خوابوںکو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ تک زندہ بھی رہتے ہیں اور جسمانی اور مالی طور پر ان خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔ اس وقت تک یہ روزگار کے علاوہ اولاد کی ذمہ داریوں سے بھی آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ اولاد ان کے لئے پرائی ہو چکی ہوتی ہے۔ کئی کی تواتنی پرائی ہوجاتی ہے کہ انہیں ایسی اولاد کے لئے ترکہ چھوڑنا بھی گوارا نہیں ہوتا ۔بلکہ وہ اس نالائق اور ناخلف اولاد سے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ تاکہ وہ ساری زندگی کا جمع کردہ سرمایہ اپنے آپ پر خرچ کر کے مریں۔ اس نا خلف اولاد کے کام نہ آئے جو اُن کے نہیں رہتے۔بعض پچھتاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی نالائق اولاد پیدا ہی کیوں کی تھی۔
ہمارے گروپ میں ان بوڑھوں کے علاوہ جوان میاں بیوی اور بچے بھی تھے۔ ان میں دو خاندان امریکہ سے آئے تھے لیکن وہ بنیادی طور پر انڈین تھے۔ ان میں ایک سرجن ڈاکٹر تھا اور دوسرا کیلیفورنیا میں سیون الیون سٹور کا مالک تھا ۔ایک جاپانی جوڑا بھی تھا جو غلطی سے اس گروپ میں شامل ہوگیا ۔غلطی سے اس لئے کہ لڑکے کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ جبکہ ہماری گائیڈ انگریزی میں رننگ کمنٹری کرتی رہتی تھی۔ لڑکی لندن میں انگریزی سیکھنے کا کورس کرنے آئی ہوئی تھی۔ اس کی انگریزی واجبی سی تھی ۔جبکہ اس کا بوائے فرینڈ ٹوکیو سے خصوصی طور پر محبوبہ سے ملنے آیا تھا ۔اس خوشی میں لڑکی اسے لے کر یورپ کی سیر پر نکلی ہوئی تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ کسی جاپانی گروپ میں شامل ہوتیجس کا گائیڈ اورمعلوماتی لٹریچر جاپانی زبان میں ہوتا ہے۔ اس سے ان کو آسانی رہتی ۔ وہ غلطی سے ہمارے گروپ میں آ تو گئے لیکن سارے سفر میں ہم سب سے الگ الگ رہے۔ہمیں دیکھ کر زیادہ سے زیادہ مسکرا دیتے تھے یا ہیلو کہہ دیتے تھے۔ اس سے زیادہ بولنا ان کے بس میں نہیں تھا ۔
اس کی کسر وہ آپس میں ہی بول کر پوری کر لیتے تھے۔ بلکہ بولنے سے زیادہ عملی طور پر ایک دوسرے میں مصروف رہتے تھے۔ ہر وقت آپس میں چپکے رہتے۔ جسم کے ساتھ جسم ‘ ہونٹوں کے ساتھ ہونٹ اور گالوں کے ساتھ گال چسپاں رہتے۔ دن کا کوئی لمحہ کم ہی ایسا ہوگا جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوں۔ ان کے ہاتھ، ہونٹ اور جسم جیسے ایک دوسرے سے جڑ گئے تھے۔ سارا دن ان کی یہ حالت رہتی تھی۔ رات کو جب وہ کمرے میں بند ہوتے تھے تو خدا جانے نوبت کہاں تک پہنچتی ہو گی۔ بالغوں کے لئے یہ تصور اتنا محال بھی نہیں۔
لڑکے کا نام جانجی تھا اور لڑکی مشی کہلاتی تھی۔ بھر ے بھرے ہونٹوں اور بولتی آنکھوں والی اس لڑکی کی آنکھیں ہر وقت مستی سی لٹاتی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار جب وہ اپنے محبوب کے سراپے سے نظریں ہٹا کر کسی اور کی طرف دیکھتی تھی تو ایسے لگتا تھا کہ اپنے محبوب پر فخر کا اظہارکر رہی ہو۔ اس کی مسکراتی آنکھیں اور دہکتے ہوئے گال اپنے محبوب سے پیار کی حدت کو نمایاں کرتے رہتے تھے۔ جانجی اور مشی آپس میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ انہیں چلتی بس کے باہر خوبصورت سے خوبصورت نظاروں سے بھی کم ہی دلچسپی ہوتی تھی۔ بس کبھی کبھار ایک لمحے کے لئے ایک دوسرے سے نظریں ہٹاکر کہیں اور دیکھ لیتے تھے۔ ورنہ ان دونوں کے لئے سارے نظارے، ساری خوبصورتیاں اور دنیا بھر کا حسن ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی پوشیدہ تھا۔ ان دونوں کی والہانہ محبت اور وارفتگی کو دیکھ کر بے اختیار خواجہ فریدؔ کا یہ کلام ذہن میں آتا تھا۔
میڈا عشق وی توں ‘ میڈا یار وی توں
میڈا جسم وی توں‘ میڈی روح وی توں
میڈا قلب وی توں جند جان وی توں
ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ جانجی اور مشی یورپ کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے نکلے ہوں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ان رنگین اور دلکش نظاروں کو اپنی محبت کا گواہ بنا رہے ہوں۔ اور کہہ رہے ہوں کہ مانا تم خوبصورت ہو، حسین ہو ،مگر اتنے نہیں، جتنا میرا محبوب ہے۔ حسن دیکھنا ہے تو ہماری آنکھوں سے دیکھو۔پھر شاید تم خود پر ناز کرنا بھول جائو اور جان جائو کہ حسن کی حقیقت کیا ہے۔
ہمارے گروپ میں شامل زیادہ تر سیاحوں کا تعلق آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ ‘ جنوبی افریقہ اور امریکہ سے تھا۔ ان ممالک کے علاوہ صرف مشی اور جانجی کا تعلق جاپان سے تھا ۔ ایک سیاح لڑکی جولی کا تعلق لندن (برطانیہ سے) تھا۔ جولی بھی دراصل آسٹریلین ہی تھی لیکن پچھلے چند برسوں سے برطانیہ میں رہائش پذیر تھی۔ ان برسوں میں جولی دوستیاں اور پیسہ بنانے میں اتنی مصروف رہی کہ لندن سے باہر کا یورپ نہ دیکھ سکی۔ اب وہ ہمارے ہمراہ یورپ کی سیر کے لئے نکلی ہوئی تھی۔ جولی کا جمیکنبوائے فرینڈ اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اس کے ساتھ نہ تھا۔
جان کا تعلق بھی سڈنی سے تھا۔ گول گول چہرے، سڈول جسم اور سنہری مائل رنگت والے جان کی عمر چالیس کے لگ بھگ ہوگی۔ کافی ہنس مکھ اور باتونی شخص تھا ۔لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے آہیں اور دلچسپ باتوں کے پیچھے کراہیں چھپی ہوئی ہیں۔اس کا ذکر آگے آئے گا ۔
جان کے علاوہ ایک اور تنہا فرد جو ہمارا شریکِ سفر تھا ،اس کا نام ڈیوڈ تھا۔ ڈیوڈ جنوبی افریقہ سے آیا تھا۔ اس کی عمر پچپن سے کم نہ ہوگی ۔لیکن اس کی صحت کافی اچھی تھی دراز قد‘ سفید مونچھیں‘ اور ہمہ وقت مسکراتی آنکھیں۔ مجموعی طور پر اس کی شخصیت کافی جاذب نظر تھی۔ ڈیوڈ بظاہرسب سے گھل مل کررہنے والا خوش اخلاق شخص تھا ۔لیکن آہستہ آہستہ اس کے اندر کے جو ہر کھلے تو اس کے دل میں چھپے نسلی تعصب کو باہر آنے میں دیر نہ لگی۔ ڈیوڈ بھی گوری رنگت کی بناء پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا تھا۔ وہ دوسری رنگت کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ڈیوڈ کے اندر کا یہ نسلی تفاخر اور دوسروں کے لئے احساس حقارت آہستہ آہستہ ہی ہم پر ظاہر ہوا ۔ورنہ بظاہر وہ ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق بوڑھا تھا۔ ڈیوڈ کو جنوبی افریقہ میں کالوں کے حق میں برپا ہونے والی انقلابی تبدیلیوں پر قلق تھا۔ بلکہ اس نے عملا ً اس ناراضگی کا ثبوت اس طرح دیا کہ جونہی جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی حکومت بنی ڈیوڈ نے احتجاجاََِِ اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیوڈ کے پاس اتنی جمع پونچی تھی کہ وہ اپنی بقیہ زندگی نہ صرف عیش و آرام سے گزار سکتا تھا بلکہ اس نے یورپ کے اس دورے کے لئے بھی رقم نکال لی تھی۔ ڈیوڈ نے مجھے بتایا ’’ایک تو یہ کہ میں نے زندگی کا زیادہ حصہ اکیلے گزارا ہے ۔ ظاہر ہے اکیلے کا خرچ بھی کم تھا ۔اس طرح میری تنخواہ کا ایک معقول حصہ بچتا رہا ۔دوسرا یہ کہ یہ بچت میں منافع بخش سرمایہ کاری میں لگاتا رہا اور تیسرا یہ کہ میرا خاندانی اثاثہ بھی اکلوتا وارث ہونے کی وجہ سے صرف میرے حصے میں آیا۔ اس لئے اب میرے اوپر کوئی معاشی دبائو نہیں‘‘
’’گویا تم فارغ البال ہو ۔ شاید اسی وجہ سے خوشحال ہو ۔لیکن تم بقیہ زندگی بھی اسی انداز میں گزارنا پسند کرو گے؟ ‘‘ایک دن میں نے اس سے پوچھا
ڈیوڈ نے کہا ’’کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں‘‘
میں نے کہا’’ دیکھو! اس وقت تم صحت مند ہو۔ اپنی دیکھ بھال کر سکتے ہو۔ جہاں چاہو، گھوم پھر کر وقت گزار سکتے ہو ۔بلکہ تم نے سمندر پار کا یہ طویل سفر بھی کر ڈالا ۔لیکن وقت اور عمر کے ساتھ انسان کا جسم اور دماغ اتنا صحت مند نہیں رہتا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اسے کسی کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی تنہائیوں کا رفیق ہو ۔جس کے ساتھ انسان اپنے دکھ درد کا اظہار کر سکتا ہو اور جو زندگی کے کٹھن سفر میں قدم سے قدم ملا کر چل سکتا ہو۔ ایک ساتھی کے قدم ڈگمگائیں تو دوسرا بڑھ کر اسے سہارا دے سکتا ہو۔ انسان جب ضعیف ‘ تنہا اور لاغر ہوتا ہے تو اسے کسی ہمدم اور رفیق کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ کیا تم نے کبھی اس وقت کے بارے میں سوچا ہے ؟ ‘‘
ڈیوڈ میری طویل بات کو بہت غور سے سنتا رہا ۔میری بات کے دوران ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنا شروع ہوگئے۔ اس کا مسکراتا چہرہ پہلے سنجیدہ پھر مغموم اور پھر رنجیدہ ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ اس کی آنکھوں میں نمی اترنا شروع ہوگئی۔ اس کی مسکراتی آنکھوں میں چھپے غم کے گوہر پانی بن کر اس کے پلکوں پر رقص کرنے لگے۔ اس نے ٹشو پیپر سے اپنی آنکھیں صاف کیں ۔مجھے اپنی باتوں کے اس ردعمل کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ اس کے آنسوؤں نے مجھے بدحواس سا کر دیا۔ میں نے ڈیوڈ سے کہا ’’سوری ! مجھے علم نہیں تھا کہ میری باتوں سے تم یوں غم زدہ ہو جائو گے۔ مجھے بہت افسوس ہے‘‘
ڈیوڈ بولا ’’طارق! تم نے کوئی غلط بات نہیں کی ۔لیکن تمہاری باتوں سے میرے اندر کے زخم تازہ ہوگئے ہیں۔ تم نے نادانستگی میں میری دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہے ‘‘
میں نے کہا ’’میں تو تمہیں فارغ البال اور خوش باش انسان سمجھتا تھا۔ ایک ایسا انسان جو اپنی تنہا زندگی سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہو اور جسے کوئی پچھتاوا یا دکھ نہ ہو ۔لیکن شاید میں غلط تھا ۔انسان کے اندر کی دنیا اتنی وسیع اور عمیق ہے کہ اندازے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ خصوصاََتمہارے جیسے بظاہر خوش باش اور شگفتہ باتیں کرنے والے شخص کے اندر جھانکنا تو بہت ہی مشکل ہے ۔لیکن انسان آخر انسان ہے۔کسی نہ کسی وقت اپنے دکھ اور غم کو ظاہر کر ہی دیتا ہے‘‘
’’مجھے غم تو کوئی نہیںلیکن تنہائی بہت محسوس کرتا ہوں ‘‘اس بدلے ہوئے ڈیوڈ نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا
میں نے کہا ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہیں کوئی غم نہیں۔تمہارے اندر سے آنسوئوں کا جو لاوا اُبلا ہے وہ تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا ہے‘‘
ڈیوڈ نے سوچتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگا ’’مجھے تم پر حیرت ہو رہی ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں میں چھپی کہانیاں اتنی آسانی سے پڑھ لیتے ہو۔ میرے درجنوں دوست ہیں، جن کے ساتھ میری اکثر محفل بھی رہتی ہے ۔لیکن ان میں سے کسی نے آج تک نہ مجھے سمجھا ہے نہ میرے درد کو جانا ہے ۔لیکن تم براہ ِراست وہاں پہنچ گئے ہوجہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا‘‘
’’ڈیوڈ آج کل کے تیز رفتار زمانے میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ دوسروں کے دل میں چھپے کرب کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔اور تمہارے اس مغربی معاشرے میں لوگ دانستہ بھی ان خار دار راہوں سے بچ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی صرف مسکراتے پھولوں کا نام ہے۔ وہ ان گلوں میں پوشیدہ نوکیلے کانٹوں سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں تاکہ اس کا ذرا سا بھی منفی اثر ان کی خوشگوار زندگیوں پر نہ پڑ ے‘‘
’’تم صحیح کہہ رہے ہو ۔ہمارے یہاں ہر کسی کو بس یہی فکر ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ خوشگوار گزرے ۔بس آج کا دن اچھا گزر جائے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے یا دوسروں کے غم کا سایہ نہ پڑے۔ زندگی کی ہموار راہوں پر کوئی کٹھن موڑ آئے تو یہ ہماری برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ پھر کسی دوسرے انسان کا دکھ اور غم ہم کیسے سن اور محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ شاید ہماری منفی سوچ کا ایک پہلو ہے‘‘
’’ ہاں یہ اس مادی اور نفسانفسی پر مشتمل دور کا ایک ضرر رساں پہلو ہے ‘‘ میں نے اس کی تائید کی۔
ڈیوڈ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’’ طارق مجھے نہیں معلوم کہ تم اس سوسائٹی کو کتنا جانتے ہو۔ لیکن آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہمارے دِلوں سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ اُڑ چکا ہے۔ ہمارے رشتے ناتے اور دنیاوی بندھن مفاد کی ڈور سے بندھے ہیں۔ شادیاں بھی جسمانی ضروریات کا کاروبار ہیں۔ بچے بے دلی سے پیدا کئے جاتے ہیں اور بے پرواہی سے پروان چڑھائے جاتے ہیں۔ مرد عورت کا رشتہ ایک دوسرے کی طلب اور ضرورت تک محدود ہوگیا ہے۔ جہاں جسمانی طلب پوری نہ ہو رہی ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو وہاں رشتے ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ محبتوں کے دعوے کھوکھلے ہیں۔اگر ایک بھی فریق اس رشتے سے فرار چاہتا ہو تو پھر کوئی رکاوٹ اس کے آڑے نہیں آتی۔ پھر یہ رشتہ صبح کے چمکتے سورج کے سامنے شبنم کے ننھے قطروں کی طرح بخارات بن کر تحلیل ہو جاتا ہے‘‘
ڈیوڈ کے اندر کا غبار زہریلے لفظوں کی شکل میں برآمد ہونا شروع ہوگیا تھا۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ’’ڈیوڈ مجھے اپنے بارے میں بتائو۔ تم نے شادی کی ہی نہیں یا نبھ نہیں سکی۔ یا تمہارے اکیلے پن کی کوئی اور وجہ ہے؟‘‘
ڈیوڈ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا’’ میں بھی معاشرے کی اس نفسانفسی ‘ خودغرضی اور بے وفائی کا شکار ہوا ہوں۔میں بھی شروع لااُبالی تھا ۔ نوجوانی کے دور میں میرے مختلف عورتوں سے تعلقات رہے۔ اس میں کچھ مہینوں اور کچھ سالوں تک جاری رہے ۔لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے صحیح معنوں میں ایک عورت سے محبت ہوگئی ۔اس وقت میری عمر تیس کے لگ بھگ تھی ۔جو لیٹ میری زندگی میں ایک خوشگوار جھونکا بن کر آئی اور میرے ہوش و حواس پر چھا گئی۔ اس وقت میرا کاروبار بھی اپنے عروج پر تھا۔ ہم نے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا کام کیا۔ کاروبار سے چند ہفتوں کی چھٹی لی اور ہنی مون منانے یورپ چلے گئے۔ واپس آکر میں اپنے کاروبار میں مصروف ہوگیااور جولیٹ جو شادی سے پہلے جاب کرتی تھی اب گھر کی زیبائش و آرائش میں مصروف رہنے لگی۔ میری کاروباری مصروفیات بڑھنے لگیں۔ گھر کے اخراجات بھی کافی بڑھ چکے تھے ۔بہرحال میں دن رات پیسہ بنانے کے چکر میں مصروف ہوگیا ۔رات گئے گھر آتا تو جولیٹ میرا انتظار کر رہی ہوتی ۔البتہ ویک اینڈ ہم شاندار انداز میں گزارتے تھے ۔سال میں ایک مرتبہ چھٹیاں گزارنے بھی کہیں نہ کہیں ضرور جاتے تھے ۔میری زندگی کا محور جولیٹ اور میرا کاروبار تھا ۔اسی طرح تین برس سرعت سے گزر گئے ۔ پھر ایک دن اس خاموشی میں پوشیدہ طوفان میری زندگی کو درہم برہم کرنے کے لئے سامنے آہی گیا ۔مجھے جولیٹ کی بے وفائی کا علم ہوگیا ۔بلکہ میں نے اسے رنگے ہاتھوں کسی کے ساتھ پکڑ لیا۔ جولیٹ نے کسی شرمندگی ‘ پچھتاوے یا ندامت کا احساس کئے بغیر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ۔میں نے اسے سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اس پر تازہ عشق کا بھوت اس شدت سے سوار تھا کہ اس نے میری کسی بات پر کان نہ دھرے ۔ ناچار مجھے اسے طلاق دینا پڑی۔
میرے دل کی دنیا تو اس نے برباد کر ہی دی تھی۔ میرے گھر اور کاروبار سے بھی جاتے جاتے آدھا حصہ لے گئی۔ کچھ اس کی وجہ سے اور کچھ میری بے توجہی کی وجہ سے کاروبار کی نائو ڈوبتی چلی گئی۔ بالآخر یہ بالکل ٹھپ ہوگیا ۔کچھ عرصہ تو میں ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتا رہا ۔بالآخر ایک سرکاری ادارے میں ملازمت مل گئی ۔جہاں اگلے بیس سال میں نے کام کیا ۔جولیٹ کی بے وفائی نے میری زندگی کی ہر صبح ،ہر شام اور ہر شب میرے دل پر چرکے لگائے۔ پندرہ سال تک میں نے کسی عورت کو اپنی زندگی میں نہ آنے دیا۔ پھر میری ملاقات الزبتھ سے ہوگئی۔ آہستہ آہستہ ہمارے تعلقات پروان چڑھتے رہے جو بالآخر شادی پر منتج ہوئے۔ یہ شادی جوانی کے دیوانے جذبوں سے خالی تھی۔ اول تو ہم دونوں ہی شاید اپنی محبتوں کو کہیں اور لٹا چکے تھے۔ دوسرا یہ کہ اب ہمارے بڑھاپے کا زمانہ شروع ہوچکا تھا ۔میری سوچ تو یہی تھی کہ ایک دوسرے کے سہارے زندگی کا آخری حصہ خوشی خوشی گزار لیں گے۔ میری جوانی کا جوہر اگلے تین برسوں میں آہستہ آہستہ معدوم ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی الزبتھ کی محبت کا دیا بھی بجھتا چلا گیا۔
پھر ایک دن الزبتھ بھیمجھے چھوڑ کر مجھ سے کم عمر والے شخص کے ساتھ چلی گئی۔ جاتے جاتے وفا ‘ چاہت اور عورت پر اعتبار کے بچے کھچے میرے ایمان کو بھی لے گئی۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے کسی عورت کی طرف ہاتھ بڑھایا اور نہ کسی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور نہ آئندہ ایسا کوئی ارادہ ہے‘‘
ڈیوڈ کی کہانی ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ صرف ایک ڈیوڈ کی کہانی تو نہیں۔ طلاق تو اس معاشرے میں اب بچوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ آسٹریلیا میں اتنے سالوں کے قیام کے دوران میں نے بے شمار رشتے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھے ہیں۔ بعض اوقات وجہ اتنی معمولی ہوتی ہے کہ یقین نہیں آتا۔ مثلاََایک صاحب نے دُکھ بھرے لہجے میں مجھے بتایا کہ اس کی بیوی پانچ سال کی رفاقت کے بعد اچانک چھوڑ کر چلی گئی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ ان صاحب نے بیگم کے کام سے گھر پہنچنے سے پہلے کھانا تیار نہیں کیا تھا ۔اس بات پر تو تو میں میں شروع ہوئی ۔ دوسرے دن ان دونوں کے درمیان ہر تعلق ختم ہو چکا تھا ۔ایک محترمہ نے بتایا کہ دس سالہ ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد اس کی خاوند سے اچانک علیحدگی ہوگئی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ میاں کی تنخواہ بڑھ گئی۔ اسی حساب سے ان کا لائف سٹائل بھی تبدیل ہوگیا۔ یورپی معاشرے کی روایت کی رو سے بیوی گھر کے اخراجات، بلوں اور چھٹیوں وغیرہ میں پچاس فیصد شامل کرتی ہے تو ان کی ازدواجی زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ لیکن یہ محترمہ خاوند کے مقابلے میں کم آمدنی رکھتی تھیں۔مساوی حصہ ادا کرنے سے قاصر تھیں۔ لہذا میاں نے اس کم آمدنی والی بیوی سے علیحدگی اختیار کرکے کسی برابر کی حیثیت والی سے بیاہ رچا لیا۔ بچوں کو اپنے حصے کا ماہانہ خرچ ادا کرنے کے وعدے کے ساتھ ان کی ماں کے ساتھ روانہ کر دیا گیا۔
اب ساری زندگی بچے باپ کے سائے سے محروم رہیں گے۔ کچھ عرصے کے بعد بچوں کی ماں بھی نئی شادی کرکے نئے خاوند کے ساتھ زندگی کے مزے لوٹنے لگے گی۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے اس معاشرے میں بہت بڑی تعداد میں بچے باپ کے بغیر اور ایک کثیر تعداد ماں اور باپ دونوں کے بغیر پروان چڑھتی ہے۔ یہ بچے بڑے ہو کر جب والدین بنتے ہیں تو وہی سلوک اپنی اولاد کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ والدین اور اولاد کی باہمی محبت اور احترام کا جذبہ مفقود ہے۔ بچے ہوش سنبھالتے ہی باپ کو اولڈ مین کہہ کر مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کسی باپ کی یہاں یہ مجال نہیں کہ اولاد کو زبردستی غلط کام سے روک سکے۔ وہ سکول نہ جائیں، نشہ کریں ،بدتمیزی کریں یا والدین کی حکم عدولی کریں، والدین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ حتی ٰکہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں اکثر لڑکے لڑکیاں والدین کو خدا حافظ کہہ کر اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ وہ والدین بہت ہی خوش قسمت ہوں گے جن کی اولاد گاہے بگاہے انہیں ملنے آتی ہو یا فون پر رابطہ رکھتی ہو۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں جب والدین سے الگ ہوتے ہیں تو پھر دوبارہ رابطہ نہیں کرتے۔ والدین بھی اس معاشرے کے پروردہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ بعض اوقات اگلی پوری زندگی اولاد ان کو اپنی شکل بھی نہیں دکھاتی۔
مر نے کے بعد سرکاری ادارے لے جا کر دفنا دیتے ہیں۔ نہ اولاد میت کو کندھا دیتی ہے اور نہ قبر پر جا کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتی ہے۔ سڈنی میں میرے گھر سے ملحق ہی ہائوسنگ کمیشن (غریبوں کے لئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رہائش ) کی بلڈنگ ہے۔ اس میں ایک ایک بیڈ روم والے چار اپارٹمنٹ ہیں۔ ہر اپارٹمنٹ ایک سنگل فرد کو الاٹ ہے۔ یہ چاروں ریٹائرڈ بوڑھے ہیں جو زندگی کا آخری حصہ حکومت کی فراہم کردہ رہائش گاہ میں حکومت کی پنشن سے گزار رہے ہیں۔ ان میں سے تین بوڑھوں کی اولاد ہے ۔ایک کی بیوی بھی ہے ۔ آج تک میں نے کسی کے لڑکے یا لڑکی کو یہاں آکر بوڑھے باپ سے ملاقات کرتے نہیں دیکھا۔ ان میں ایک بوڑھا پچھلے سال سرکاری ہسپتال میں کسمپرسی کی حالت میں چل بسا۔ مرنے سے ایک روز قبل میں اسے ملنے ہسپتال گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’لز تمہاری حالت اچھی نہیں ہے ۔اگر تم کہو تو تمہاری بیوی اور بچوں کو اطلاع دے دوں؟‘‘
لز جو ہسپتال میں کسی اپنے کی دیکھ بھال سے مکمل طور پر محروم تھافوراََبولا ’’بالکل نہیں! بالکل نہیں بلانا ۔میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں ‘‘
دوسرے دن ہسپتال والوں نے فون کرکے اطلاع دی کہ اسی رات کو وہ ’’سکون سے‘‘ مر گیا۔
انہی بوڑھوں بروس بھی شامل ہے۔ اس کی بیوی تو کافی عرصہ پہلے مر گئی تھی۔ لیکن اس کا ایک جوان بیٹا اور ایک جوان بیٹی ہے۔ پچھلیدس سالوں سے ان دونوں میں سے ایک بھی اسے دیکھنے نہیں آیا ۔پچھلے سال اس کی بیٹی نے فون کیا کہ وہ میلبورن سے نیوزی لینڈ جاتے ہوئے سڈنی ائر پورٹ پر دو گھنٹے رکے گی۔ اس رات بروس خوشی سے سو نہ سکا۔ صبح سویرے تیار ہو کروہ ائر پورٹ پہنچ گیا۔ حالانکہ اس کی بیٹی بارہ بجے پہنچنے والی تھی۔ اس کی بیٹی پہنچی اور دونوں باپ بیٹی نے سات سال کے بعد ایک گھنٹہ اکھٹے گزارا۔ پچھلے ایک سال سے بروس بیٹی سے اس ملاقات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔ اسے بیٹے کی شکل بھی بھول چکی ہے۔ بروس کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ آئندہ اس کی بیٹی یا بیٹے سے ملاقات ہو سکے گی یا نہیں ۔
یورپ ‘ امریکہ اور آسٹریلیا کے باسیوں کے لئے ڈیوڈ کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں۔ یہاں ہر محلے ‘ ہر گلی، ہر کوچے میں ایسے کئی ڈیوڈ ملیں گے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں ایسی کہانی ہمیشہ مجھے بے چین سی کر دیتی ہے۔ میں اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے لگتا ہوں ۔یہی ہوا کہ میرے سفر کے ان ساتھیوں کے دلوں میں چھپی کہانیاں سامنے آئیں تو ان میں سے بعض میرے دل و دماغ پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگئیں۔ان میں سے کچھ اس سفرنامے کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔ شاید ان کہانیوں سے میرے سفر نامے کی اصل رواداد کی روانی متاثر ہو رہی ہو لیکن اپنے اردگرد کے زندہ کرداروں کے اندر کی دلچسب دنیا کو نظر انداز کرکے صرف خستہ عمارتوں اور بوسیدہ دیواروں کو موضوع بنانا مجھے گوارا نہیں ۔کیونکہ انسان کے اندر جو دنیا آباد ہے وہ ان تاریخی عمارتوں اور فطری نظاروں سے کہیں زیادہ دلچسپی کی حامل ہے۔ انسانوں کے اندر جھانکنا اور ان کے اندر کی کہانیوں کو پڑھنا اور پھر خدا اگر ہمت دے تو انہیں دوسروں کے لئے پیش کرنا ایک مشکل مگر دلچسپ کام ہے۔ انسانوں کی آپ بیتیاں افسانوی داستانوں سے بھی زیادہ دلچسپ اور پراثر ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان میں جذبوں کی حدت اور رشتوں کی مہک شامل ہوتی ہے۔سفر کے ساتھ ساتھ اپنے ہم سفر چند مزید دلچسپ کرداروں کی کہانیاں سامنے آتی رہیں گی۔
آیا اکیلا ہوں واپسی کا علم نہیں
کاغذی کارروائی مکمل کرنے، سامان بس میں لدوانے اور مسافروں کے بیٹھ جانے کے بعد بس لندن کی پرپیچ گلیوں اور مصروف شاہراہوں سے گزرتی ہوئی ان دیکھی منزلوں کی جانب ہزاروں میل لمبے سفر کے لئے روانہ ہوگئی۔ لندن اتنا بڑا شہر ہے کہ چند دنوں بلکہ چند ہفتوں میں بھی اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ لندن کے اکثر باسی بھی پورے لندن سے واقف نہیں۔ جو لوگ شمال میں رہتے ہیں اور سٹی سنٹر میں جاب کرتے ہیں تو ان کا دائرہ سفر وہی رہتا ہے۔ وہ جنوب سے نابلد ہی رہتے ہیں۔ اس طرح جنوب والے شمالی لندن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ان کی دلچسپی کی ہر چیز ان کے اپنے علاقے میں دستیاب ہو تو انہیںلندن کے دوسرے حصوں میں جانے کی ضرورت ہی نہیںپڑتی۔ میں لندن کے ایسے درجنوں باسیوں سے ملا ہوا ہوں جنہوں نے ساری زندگی کسی مخصوص علاقے اور اس کے اِردگرد گزار دی۔ وہ شہر کے دوسرے حصوں سے اتنے ہی ناواقف ہیں جتنا ہم دوسرے ملکوں سے جانے والے سیاح ہوتے ہیں۔لندن کیجن علاقوں سے ہم گزرتے ہماری گائیڈ مختصراََ اس کے بارے میں بتا تی جارہی تھی۔
ڈیڑھ گھنٹے میں ہماری بس لندن کے مصروف حصے سے نکل کر کھیتوں، چرا ہ گاہوں اور سرسبز فارموں کے ساتھ ساتھ کشادہ شاہراہ پر تیز رفتاری سے دوڑنے لگی۔ ہمارے اِردگرد کا منظر خاصا خوبصورت تھا۔ برطانیہ کا یہ علاقہ کہیں تو ہموار فارموں پر مشتمل ہیجہاں مختلف سرسبز فصلیں اپنی بہار دکھا رہی تھیںاور کہیں ہمارے خطہ پوٹھوہار کی طرح اونچا نیچا اور ڈھلوانی علاقہ شروع ہو جاتا تھا ۔لیکن ایک قدر ہر دو علاقوں میں مشترک تھی۔ وہ تھا درخت اورسبزہ۔ کوئی جگہ سبزے اور پھولوں سے خالی نہیں تھی۔ عام درخت ‘ پھل دار درخت ‘ پھولوں بھرے پودوں کے فارم‘ صحت مند مویشیوں کے فارم اور صحت مند گوروں کی جفا کشی کے مناظر جابجا بکھرے ہوئے تھے۔ لندن جیسے مصروف شہر سے نکل کر برطانیہ کا یہ دیہی علاقہ جو قدرتی حسن سے مالامال تھا دل و دماغ کو فرحت اور تازگی کا احساس بخش رہا تھا۔
لندن سے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہماری گائیڈ نے ایک چھوٹا سا مائیکرو فون لیا اور مسافروں سے اپنا اورڈرائیور کا تعارف کروا یا۔ یہ گائیڈ جو دراز قد ،بھرے بھرے جسم، ملیح چہرے اور بڑی بڑی آنکھوں کی وجہ سے جنسِ مخالف کے لئے اپنے اندر بہت کشش رکھتی تھی کا نام مولی تھا اور اس کا تعلق ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم سے تھا ۔مولی کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ڈچ ہونے کے باوجود اس کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنی تعلیم لندن میں حاصل کی تھی ۔ انگریزی اور ڈچ کے علاوہ وہ جرمن اور سوئس زبان بھی روانی سے بول لیتی تھی۔ فرانسیسی بھی اچھی خاصی جانتی تھی۔ مولی کا جنرل نالج عموماََاور تاریخ کا علم خصوصاََ بہت اچھا تھا۔ جب وہ کسی علاقے کی تاریخ بیان کرتی تو گائیڈ کی بجائے تاریخ کی پروفیسر معلوم ہوتی تھی۔ وہ پروفیسروں کی طرح خشک علم ہی نہیں جھاڑتی تھی بلکہ اس کی باتوں میں مزاح کی پھلجڑیاں حاضرین کو مسکرانے پر مجبور کرتی رہتی تھیں۔ جہاں ضرورت ہوتی وہاں وہ مزاحیہفن کاروںکی طرح لطیفے سنانے لگتی تھی۔ مولی کی باتوں اور لطیفوں میں ہلکا پن اور فحش پن نہیں تھا ۔ورنہ پیرس اور ایمسٹرڈم میں مقامی گائیڈوں کی گفتگو کا بڑا حصہ فحش لطیفوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد ہی مولی اپنے بے تکلفانہ انداز سے سیاحوں میں گھل مل گئی۔ ٹریفالگر کمپنی کی طرف سے مولی کے علاوہ اس بس کا ڈرائیور فشر اگلے دو ہفتے کے لئے ہمارے ہمراہ تھا۔ فشر کا تعلق جرمنی سے تھا۔ اس کی انگریزی بس واجبی سی تھی۔ویسے بھی کم گو اور کام سے کام رکھنے والا تھا۔ تاہم ڈرائیور بہت اچھا تھا۔ اس پورے سفر میں اس کی ڈرائیونگ سے کسی سیاح کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ہاں اس کی خاموشی بلکہ سرد مہری سے بعض مسافر جھنجھلا سے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کا مزاج سمجھ آتا تو لوگوں کا گلہ جاتا رہتا ۔ آغاز کے برعکس اختتامِ سفر پر مسافر فشر سے خوش نظر آئے اور اس کا شکریہ بمع لفافہ ادا کیا۔
مولی نے کوچ کی ہر مسافر فیملی کو سفر کے بارے میں کچھ معلوماتی بروشر اور ایک بڑا سا نقشہ دیا جس میں سفر کا رُوٹ دکھایا گیاتھا۔ اس سے مسافروں کو اپنے رُوٹ اور اس میں آنے والے مقامات کا پہلے سے اچھی طرح علم ہو جاتا ۔میں امریکہ سے آئی ہوئی انڈین فیملی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مولی نے مجھے وہ معلوماتی بروشر نہیں دیئے۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اسی فیملی کا حصہ ہوں۔ جب میں نے اسے بلا کر بروشرز اور نقشہ مانگا تو اس نے فورا ہی نکال کر دے دیئے اور معذرت کرتے ہوئے کہا ’’سوری میں سمجھی آپ اکھٹے ہیں ‘‘
اس کا اشارہ میری اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی انڈین فیملی کی طرف تھا ۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یوں تو ہم سب اکھٹے ہیں لیکن گھر سے میں اکیلا ہی آیا ہوں۔ ہاں واپسی کا علم نہیں۔ شاید صورتِ حال بدل جائے‘‘
مولی نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا’’ اچھا آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے؟‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے مولی کو سرتاپا دیکھا اور کہا’’ مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے ساتھ ایک حسین اور ہنس مکھ گائیڈ ہوگی۔ جس کے ہوتے ہوئے آپ خود کو اکیلا نہیں محسوس کریں گے۔ مجھے کیا علم تھا کہ وہ حسین اور ہنس مکھ گائیڈ ہی مجھے اکیلا ہونے کا احساس دلائے گی‘‘
مولی قدرے شرمائی پھر مسکرائی ’’تعریف کا شکریہ! میرا یہ مقصد نہیں تھا ۔ہاں میرے ہوتے ہوئے اس بس میں آپ کو تنہائی کا احساس ہر گز نہیں ہوگا‘‘
وہ بہت زیرک تھی۔ اس نے بہت لطیفپیرائے میں اپنی اور میری حدود کو واضح کر دیا تھا کہ وہ ہمارے سفر کی گائیڈ تھی اور بس ۔’’ لیکن مولی ہم جب تک لندن واپس نہیں آجاتے ہم حالتِ سفر میں ہوں گے۔ اگر بس میں نہیں ہوں گے تو بھی مسافر ہی ہوں گے۔ ویسے بھی اکیلے پن کا احساس انسان کو زیادہ تر تنہائی میں ہی ہوتا ہے ۔ وہاں میرا کون رفیق ہوگا ‘‘میں بھی اسی سوسائٹی میں رہتا تھا۔کب چوکنے والا تھا۔
مولی سے جب کوئی جواب نہیں بن پڑا تو مسکراتے ہوئے بولی’’ آپ باتیں اچھی کر لیتے ہیں۔ میں ذرا دوسرے مسافروں کو یہ نقشے وغیرہ دے دوں پھر بات ہوگی‘‘
میں نے کہا’’ ضرور! لیکن ٹریفالگر کی ڈیل کے مطابقہماری تنہائی کا خاص خیال رکھیئے گا‘‘
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
لندن سے دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہماری کوچ Dover Hights کی پہاڑیوں سے گزر کر ڈوور پورٹ پر جا پہنچی ۔ یہاں سے ہمیں بس سمیت بحری جہاز پر سوار ہونا تھا۔ اس سے پہلے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے پاسپورٹوں اور ویزوں کو اچھی طرح جانچا پرکھا اور پھر آگے بڑھنے دیا ۔بچپن میں دیوئوں اور اژدہوں کی کہانیوں میں ہم سنتے تھے کہ وہ پورے پورے شہر کو کسطرح نگل لیتے تھے۔ بالکل اسی طرح ہمارے سامنے کھڑے اس دیوہیکل جہاز کیپیٹ میں بڑی بڑی بسیں ،درجنوں کاریں، ٹرک اور ہزاروں افراد اس طرح گم ہوتے جارہے تھے کہ نئے دور کے اس دیو کو کہانی کے دیوئوں پر برتری حاصل تھی۔ ہماری کوچ بھی اس جہاز کے پیٹ میں سما گئی تو تمام مسافر بس سے نکل کر جہاز میں پھیل گئے۔ ہماری کوچ کے علاوہ ایسی درجنوں اور کوچیں اور ہزاروں مسافر جہاز میں بھرے تھے ۔یہ ناشتے کا وقت تھا۔ اس لئے زیادہ تر مسافر ناشتہ کرنے ریسٹورنٹ جا پہنچے ۔ کچھ مسافروں کو ناشتے سے زیادہ ڈیوٹی فری شاپ کی سستی شراب سے دلچسپی تھی۔ لہذا وہ سیدھے بار پر جا کر نائو نوش میں مصروف ہو گئے۔ شاید ان کا ناشتہ، لنچ اورڈنر یہی تھا ۔کچھ جہاز میں واقع جوا ء خانے میں جا گھسے اور پوکر مشینوں سے الجھنے لگے۔ جہاز پر سوئمنگ پول، بلیئرڈ کے میز اور ٹیبل ٹینس کی سہولت بھی موجود تھی۔ میں ناشتہ کر چکا تھا۔ تاہم قطار میں لگ کر کافی خریدی اور ٹہلتا ٹہلتا جہاز کے عرشے کی طرف نکل گیا۔
دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح جہاز کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے تھے۔ تاہم سفید فام لوگوں کی اکثریت تھی ۔کہیں کہیں کالے افریقن اور کہیں میری طرح گندمی رنگت والے ایشیائی بھی تھے۔ اس پورے سفر میں جس میں مختلف مقامات پر ہماری مڈبھیڑ مختلف سیاحتی گروپوں سے رہی مجھے ایک بھی پاکستانی سیاح نہیں ملا۔ ہاں چند ایک مقامات پر بھارتی سیاح ضرور ملے۔ ان میں سے بھی اکثر بھارت کے صوبے گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ شاید بھارت کے دوسرے صوبوں کے لوگ بھی پاکستانیوں کی طرح سیرو سیاحت کو فضول تصور کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی سیاحت سے عدم دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں سڈنی میں میرے درجنوں دوست ایسے ہیں جوپندرہ بیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے سڈنی سے باہر کے آسٹریلیا کی جھلک تک نہیں دیکھی۔ ہم میں سے بہت کم ملبورن ‘ برسبین ‘ ایڈیلیڈ یا ہوبارٹ گئے ہیں۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے نیوکاسل اور وولنگ کانگ تک جانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اسی طرح جب میں یارک شائر میں تھا تو میرے میزبان آصف کریم سمیت کئی پاکستانیوں نے لندن نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ برطانیہ چھوٹا سا ملک ہے اور اسے دیکھنے کے لئے زیادہ وقت اور سرمایہ درکار نہیں ہے۔ وقت اور سرما ئے کی بہت سے پاکستانیوں کے پاس کو ئی کمی بھی نہیں ۔ لیکن ان کے شوق ذرا’وکھرے‘ قسم کے ہوتے ہیں۔ سیرو سیاحت ان کی نظر میں گوروں کے جونچلے ہیں۔ میرے ایک دوست کے بقول اس سے تو بہتر ہے کہ میں پاکستان میں اپنے گھر میں ایک اور کمرہ بنوا لوں۔خیر یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔
اس جہاز میں کرنسی تبدیل کرنے کا کائونٹر بھی موجود تھا۔ میں نے وہاں جا کر کچھ آسٹریلین ڈالرز کو فرانسیسی کرنسی میں تبدیل کروایا۔ ان کرنسی تبدیل کرنے والوں کا کمیشن اچھا خاصا ہوتا ہے۔ اس وقت تک یورپ میں یورو رائج نہیں ہوا تھا۔ اس لئے ہر ملک میں جا کر وہاں کی کرنسی خریدنا پڑتی تھی۔ پھر دوبارہ کمیشن ادا کرکے دوسرے ملک کی کرنسی لینا پڑتی تھی۔ اس طرح اگر سو آسٹریلین ڈالر کو پہلے برطانوی ‘ پھر فرانسیسی، پھر جرمن ،پھر سوئس، پھر ڈچ ،پھر بلجیم اور پھر آسٹریلین کرنسی میں تبدیل کروائیں تو کمیشن ادا کر تے کرتے آپ کے ہاتھ میں صرف پچاس ڈالر آئیں گے۔ اس طرح صرف کمیشن ادا کرتے کرتے آپ کی جیب ہلکی ہوتی چلی جاتی ہے۔اس تجربے سے میں نے یہی سیکھا کہ جس ملک میں جائیں وہاں اتنی ہی کرنسی تبدیل کروائیں جتنی ضرورت ہو۔
آج کل تو کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم نے مشکل کافی آسان کردی ہے۔ میں نے بھی متعدد ملکوں میں جہاں ضرورت پڑی کریڈٹ کارڈ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ ہر ملک میں حسبِ ضرورت اے ٹی ایم سے آسانی سے کیش نکلوایا جا سکتا ہے ۔ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی نے جو آسانیاں پیدا کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ جہاں بھی ہو ں اے ٹی ایم کے ذریعے دنیا کے دوسرے سرے پر موجود ملک کے اکائونٹ میں جمع شدہ اپنی رقم نکلوا سکتے ہیں۔ لہذا میں نے آسٹریلیا میں اپنے اکائونٹ سے برطانیہ‘ جرمنی ‘ فرانس ہر جگہ رقم نکلوائی۔اتنا ضرورہے کہ جس ملک میں ہوں اے ٹی ایم سے اس ملک کی کرنسی نکلتی ہے۔ صارف کو کرنسی تبدیل کرنے کی فیس پھر بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ جو آپ کا بنک آپ سے چارج کر لیتا ہے۔ بہرحال یہ سہولت اپنی جگہ کارآمدہے۔ کریڈٹ اور کی کارڈ کی شکل میں دو پلاسٹک کارڈ لے کر آپ دنیا کے سفر پر نکل سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر شاپنگ سنٹر اور ہر بینک ان دو کارڈز کو خوش آمدید کہتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ کو تو کھل جا سم سم والی ماسٹر کی کہا جاسکتا ہے۔
ستر منٹ کا یہ بحری سفر زیادہ تر مسافروں نے کھاتے پیتے، کھیلتے اور گھومتے گھماتے گزارا ۔ اس دوران ہم انگلش چینل کراس کرکے فرانس کی پورٹ کالسCalais جا پہنچے۔ اہلِ فرانس اس چینل کوفرنچ چینل کہتے ہیں۔انگریزوں اور فرانسیسیوں کا یہ تنازعہ کبھی ختم نہیں ہو گا ۔ ہمیں اس پہ ہلکان ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔کالس کے ساحلکے ساتھ جہاز لگا تو مسافر سیڑھیاں اتر کر اپنے اپنے مطلوبہ ڈیک پر جانے لگے جہاں ان کی بسیں یا کاریں موجود تھیں۔ میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا اپنی بس تک پہنچا تو میرے علاوہ تمام مسافر بس میں موجود تھے۔ اس وقت تک جہاز کنارے لگ چکا تھا اور بسیں سٹارٹ ہو رہی تھیں۔ مجھے بس ڈھونڈنے میں کچھ دیر اس لئے لگ گئی کہ میں نے اُترتے وقت یہ نوٹ نہیں کیا تھا کہ ہماری بس کس فلور پر پارک ہے۔ اس لئے ڈھونڈتا ہوا ایک فلور سے دوسرے اور پھر تیسرے پر پہنچا تو کچھ دیر لگ گئی۔ پہلا دن ہونے کی وجہ سے اپنی بس اور ہم سفروں کے چہرے بھیزیادہ شناسا نہیں ہوئے تھے ۔
میرے پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہماری کوچ بھی قطار میں لگ کر اژدھے کے پیٹ سے رینگ رینگ کر باہر نکلنے لگی۔ باہر نکلے تو فرنچ امیگریشن نے پاسپورٹوں کے بال کی کھال اتارنا شروع کردی۔ ( حالانکہ پاسپورٹ پر بال ہوتے ہیں نہ کھال)۔ غنیمت تھا کہ آسٹریلین ‘ امریکن‘ نیوزی لینڈ ‘ سائوتھ امریکن یا یورپین پاسپورٹوں کو دیکھ کر وہ ویزہ لگانے میں تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔خدا جانے پاکستانی‘ بھارتی یا دوسرے ایشیائی ممالک کے پاسپورٹوں پر ان کی کارروائی کتنی مشکل اور پیچیدہ ہوتی ہوگی ۔کیونکہ اس فرنچ چینل کو غیر قانونی طریقے سے عبور کرنے کے چکر میں کئی ایشیائی نوجوان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ وہ ٹرکوں کے اندر جہاں پھل اور سبزیاں لدی ہوتی ہیں، چھپ کر سرحد پار کر تے ہیں۔ تنگ جگہ میں سانس بند ہونے کے باعث کتنے ہی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میرے لندن کے قیام کے دوران ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ چھ نوجوان اپنی جان ہار بیٹھے تھے۔وہاں کے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر وہ خبر کافی نمایاں انداز میںآئی تھی۔ اسی لئے مجھے ابھی تک یاد ہے۔
انسانی سمگلنگ کا دھندہ صدیوں سے چل رہا ہے ۔ مستقبل میں بھی اس کیختم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے نقل مکانی کرنے والوں کا یہ جوا ء بعض اوقات کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی انہیںناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ دنیا کے ایک حصے میں انتہائی غربت و افلاس اور دوسرے حصے میں دولت خوشحال زندگی اور آزادی کی چکا چوند ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے کا سبب بنتی رہیں گی۔