۱- اپنے کلام میں اقبال کی ترمیم و اصلاح نقدِ ادب کا موضوع بھی ہے اور اُن کے فنی ارتقا کو سمجھنے کا ایک ذریعہ بھی۔ اقبال کی اوّلیں نظم جو اُن کی ملک گیر شہرت کا سبب بنی ’ہمالہ‘ تھی، جس کے بارے میں بعض قرائن کی روشنی میں سطورِبالا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے مطالب اور بعض معنوی تلازمات کی بدولت یہ نظم کسی ممکنہ طویل نظم کا ابتدائی حصہ یا تمہید معلوم ہوتی ہے، اس نظم کے سلسلے میں چند اور اہم نکات بھی پیشِ نظر رہنے چاہییں۔ یہ نظم مخزن میں ’’کوہستانِ ہمالہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اس پر سر عبدالقادر نے یہ مدیرانہ نوٹ لکھا:
’’شیخ محمد اقبال صاحب اقبال ایم اے، قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علومِ مغربی ومشرقی دونوں میں صاحبِ کمال ہیں۔ انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعرائے انگلستان ورڈس ورتھ کے رنگ میں کوہِ ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔‘‘
اس نوٹ سے ایک بار پھر اس تاثر کی تائید ہوتی ہے کہ سر عبدالقادر کے نزدیک اقبال کے فن کی… یا کم از کم اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں ’’انگریزی‘‘ (یعنی مغربی) خیالات کو اُردو شاعری کا جامہ پہنایا گیا تھا۔ نیز اس نظم میں اُنھیں اقبال انگریزی زبان کے شہرۂ آفاق فطرت پرست اور رُومان پسند شاعر ورڈز ورتھ کے رنگ میں لکھنے والے نظر آئے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اس نظم میں فطرت پرستی کا جو شاعرانہ رویہ نظرآتا ہے، اس کی نسبت انگریزی کے رُومان پسند شعرا (ورڈز ورتھ، شیلے، بائرن، کیٹس، ٹینی سن اور برائوننگ وغیرہم) سے قائم کی جاسکتی ہے، اقبال نے انگریزی کے ان رومان پسند شاعروں سے جو اثرات قبول کیے ان کا مطالعہ اگرچہ تفصیلی طور پر نہیں کیا گیا، تاہم کچھ قابلِ قدر کام ضرور ہوا ہے۔ (اس سلسلے میں پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم کا مقالہ ’’اقبال اور انگریزی شعرا‘‘ بالخصوص اہمیت کا حامل ہے۔)
مخزن میں شائع ہونے والی اقبال کی نظم ’’کوہستانِ ہمالہ‘‘ جو بعد کو انتخابِ مخزن (حصۂ اوّل) کے حصۂ نظم کی پہلی نظم قرار پائی۔ اپنی ابتدائی یا اصلی صورت میں یوں تھی۔
اے ہمالہ، اے فصیلِ کشور ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ پہ کچھ ظاہر نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تُو جواں ہے دورۂ شام و سحر کے درمیاں
تیری ہستی پر نہیں بادِ تغیر کا اثر
خندہ زن ہے تیری شوکت گردشِ ایام پر
امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستان ہے تُو
پاسبان اپنا ہے تُو، دیوارِ ہندوستاں ہے تُو
سوئے خلوت گاہِ دل، دامن کشِ انساں ہے تُو
مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تُو
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہرِ عالم تاب پر
سلسلہ تیرا ہے یا بحرِ بلندی موجزن
رقص کرتی ہے مزے سے جس پہ سورج کی کرن
تیری ہر چوٹی کا دامانِ فلک میں ہے وطن
چشمۂ دامن میں رہتی ہے مگر پر تو فگن
چشمۂ دامن میں ہے آئینۂ سیال ہے
دامنِ موج ہوا جس کے لیے رومال ہے
ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برقِ سرِکوہسار نے
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی، جسے
دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے
ہائے کیا جوشِ مسرت میں اُڑا جاتا ہے ابر
فیلِ بے زنجیر کی صورت چلا جاتا ہے ابر
جنبشِ موجِ نسیمِ صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے کیا مزے لے لے کر ہر گل کی کلی
یوں زبانِ برگ سے کہتی ہے اس کی خامشی
دستِ گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
کَہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنجِ خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا
نہر چلتی ہے سرودِ خامشی گاتی ہوئی
آئنہ سا شاہدِ قدرت کو دکھلائی ہوئی
کوثر و تسنیم کی مانند لہراتی ہوئی
ناز کرتی ہے فرازِ راہ سے جاتی ہوئی
چھیرٹی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر، دل سمجھتا ہے تری آواز کو
لیلیٔ شب کھولتی ہے آکے جب زلفِ رسا
دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر
خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
وہ اُچھالی پنجۂ قدرت نے گیند اِک نور کی
جھانکتا ہے وہ درختوں کے پرے خورشید بھی
دل لگی کرتی ہے ہر پتے سے جس کی روشنی
میرے کانوں میں صدا آئی مگر کچھ دور کی
دل کی تاریکی میں وہ خورشیدِ جاں افروز ہے
شمعِ ہستی جس کی کرنوں سے ضیا اندوز ہے
وہ۱؎ اُصولِ حق نمائے نقشِ ہستی کی صدا
رُوح کو ملتی ہے جس سے لذتِ آبِ بقا
جس سے پردہ رُوئے قانونِ محبت کا اُٹھا
جس نے انساں کو دیا رازِ حقیقت کا پتا
تیرے دامن کی ہوا میں سے اُگا تھا یہ شجر
بیخِ جس کی ہند میں ہے، چین و جاپاں میں ثمر
تُو تو ہے مدت سے اپنی سرزمیں کا آشنا
کچھ بتا ان راز دانانِ حقیقت کا پتا
تیری خاموشی میں ہے عہدِ سلف کا ماجرا
تیرے ہر ذرے میں ہے کوہِ اُلمپس۲؎ کی فضا
ایک جلوہ تھا کلیمِ طورِ سینا کے لیے
تُو تجلی ہے سراپا، چشمِ بینا کے لیے
اے ہمالہ داستاں اُس وقت کی کوئی سنا
مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اُس سیدھی سادھی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازۂ رنگِ تکلف کا نہ تھا
ہاں دِکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو
آنکھ اے دل کھول اور نظارۂ قدرت کو دیکھ
اس فضا کو اس گل و گلزار کی رنگت کو دیکھ
اپنی پستی دیکھ اور اس کوہ کی رفعت کو دیکھ
اس خموشی میں سرورِ گوشۂ عزلت کو دیکھ
شاہدِ مطلب ملے جس سے وہ ساماں ہے یہی
دردِ دل جاتا رہے جس سے وہ درماں ہے یہی
(اقبال)
(۱)-بدھ مذہب کی طرف اشارہ ہے۔
(۲)-کوہِ اُلمپس۔ یونان میں ایک مشہور پہاڑ ہے جس پر قدیم یونانی خیالات کے مطابق دیوتائوں کے دربار ہوتے تھے۔
۲- مذکورہ بالا فٹ نوٹس اصل نظم کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ انتخابِ مخزن میں بھی فٹ نوٹس کو… برقرار رکھا گیا ، ’بانگِ درا‘ کی نظم ’’ہمالہ‘‘… اور مخزن کی نظم ’’کوہستان ہمالہ‘‘ میں جو لفظی اختلاف ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے اس نظم کی اشاعت کے بعد بھی اس میں خاصی ترمیم کی۔ اور نظم کے چار بند (آٹھواں، نواں، دسواں اور بارہواں) حذف کردیے، اس میں وہ بند بھی ہے۔ جس میں بدھ مت کے بانی اور سرزمین ہند کے دوسرے بانیانِ مذاہب کی تعلیمات کی طرف اشارہ ہے۔ دسویں بند میں شاعر کوہِ ہمالہ سے اُن ’’راز دانانِ حقیقت‘‘ کا پتا پوچھتا ہے۔ جنھوں نے اس سرزمین کو علم و اخلاص کی روشنی عطا کی۔ اسی طرح گیارہویں بند میں ایک بار پھرشاعر کوہِ ہمالہ سے ماضی کی داستاں سنانے کی خواہش کرتا ہے۔ اگرچہ نظم کا آخری اور بارہواں بند جسے بعد میں حذف کردیا گیا۔ نظم کو ایک طرح کا نقطۂ اختتام عطا کرتا ہے۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نظم اتنی ہی تھی۔ اس کے باوجود نظم کا سارا تاروپود اسی نتیجے کی طرف رَہنمائی کرتا ہے کہ اقبال برِصغیر کی تاریخ کے حوالے سے، ابتدا ہی سے کوئی طویل نظم لکھنے کے خواہشمند تھے۔ نظم میں جو لفظی تبدیلیاں کی گئیں، اُن سے شاعر کے تیزی سے ترقی پذیر فنی شعور کا پتا چلتا ہے۔ نطم کی متروک اور موجودہ صورت کے موازنے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نظم کا موجودہ متن (مشمولہ بانگِ درا) فنی تکمیل کابہترین نمونہ ہے۔
۳- مخزن کے عام شماروں کی عدم دستیابی کے باعث یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اقبال کی کون کون سی نظمیں وقتاً فوقتاً اس جریدے میں شائع ہوتی رہیں۔ لیکن اقبال کے فن کی قدروقیمت کا جو احساس سرعبدالقادر کے قلم سے ٹپکتا ہے، اُس سے بظاہر اس خیال کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ اقبال کی وہ تمام نظمیں جو مخزن کے عام شماروں میں شائع ہوئیں، انتخابِ مخزن میں شامل کرلی گئی ہوں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مخزن میں شائع ہونے والی اقبال کی تمام نظمیں انتخابِ مخزن میں شامل نہیں ہیں۔ بہرحال انتخابِ مخزن میں شامل ہونے والی نظموں کے عنوانات یہ ہیں:
۱-کوہستانِ ہمالہ، ۲-حسن اور زوال، ۳-ایک پرندے کی فریاد، ۴-ہمارا دیس، ۵-نیا شوالہ۔ ان تمام نظموں میں اقبال نے کافی حک و اضافہ کیا۔ انتخابِ مخزن کے حصہ غزل میں اقبال کی صرف دو غزلیں شامل کی گئی ہیں، ان غزلوں کے مطلعے یہ ہیں۔
۱- ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
۲-نگاہ پائی ازل سے جو نکتہ بیں مَیں نے
ہر ایک چیز میں دیکھا اسے مکیں مَیں نے
انتخابِ مخزن میں اقبال کو جن شعرا کے دوش بدوش جگہ ملی اُن میں نظم گوئوں میں خوشی محمد ناظر، ظفرعلی (مولانا)، حسرت موہانی، نیرنگ (غلام بھیک)، اکبر الٰہ آبادی، مولوی اسمٰعیل میرٹھی، سرور جہاں آبادی، جلیل اور احسن… اور غزل گوئوں میں شاد عظیم آبادی، حسرت موہانی، مرزا ہادی، آغا شاعر قزلباش دہلوی، مرزا ارشد گورگانی، نیرنگ اور مولانا حبیب الرحمن شروانی کے نام اہم ہیں۔ ترتیب کے اعتبار سے ان شعرا میں سے بعض پر اقبال کو اور بعض کو اقبال پر مقدم رکھا گیا ہے،لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابِ مخزن کی ترتیب حفظِ مراتب کے اعتبار سے نہیں بلکہ مخزن میں اشاعت کی زمانی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔
///
حوالہ جات
۱- مطالعۂ اقبال (منتخبہ مقالاتِ اقبال)، مرتبہ گوہر نوشاہی۔