خلیق الر حمن (اسلام آباد)
اکبر حمید ی کو پہلے پہل مَیںنے حلقہ ارباب ذوق اسلام آبا د کے اجلاسوں میں دیکھا۔ سرو قدکی اِس سنجیدہ اور متین شخصیت کو ابتد ا میں مَیں نے زیادہ اہمیت نہ دی۔ مگر حلقے کی تنقید ی نشستوں میں اُن کی منطقی، مدلل اور ٹھوس گفتگوحاضر ین کو قائل کر لیتی ۔ عموماً ایسا ہوتا کہ پیش کی جانے والی تخلیق کے حق یا مخا لفت میں ایک نقطہ نظر سا بن جاتا اور لوگ ایک ہی بات پر متفق ہو جاتے ، اور بات پر جیسے مہر تصد یق ثبت ہوجاتی ،اِس صورت حال میں اکثر اکبر حمید ی کی رائے لوگوں سے مختلف اور متضاد ہو تی۔ اس بات سے قطع نظر کہ احباب اُن کی رائے کو بھی اپنی تنقید ی گفتگو کا نشا نہ بنا لیں گے ،وہ بے دھڑک اپنے خیالات کا اظہا ر کر دیا کرتے ۔ خاص طور پر نئے لکھنے والوں کے لئے اُن کی گفتگومیںنرم گوشہ ہوتا، اور تنقید میں بہت گنجائشیں محسوس ہوتیں ۔ نوجوان لکھنے والوں کے لئے اُن کی رائے ہمیشہ مثبت اور حوصلہ مند ہوتی۔ جس پر کئی پُرجوش اور سخت گیر نقا د بہت شور مچاتے اور اِس بات کو سراسر حمایت جان کر اپنی اپنی تنقیدی کسوٹیوں کے بے رحم پیمانے لے کرچڑھ دوڑتے۔لیکن مَیں نے دیکھا کہ اکبر حمیدی اور اُن کی قبیل کے دیگر بڑے ادیب ہمیشہ نئے لکھنے والوں کوتھپکیاں دے دے کر آگے بڑنے کا حوصلہ دیتے ر ہے۔ اور اُن کے اِس حربے اور رویے نے ہمیشہ اچھے اور سنجید ہ ادب کوپروان چڑھانے اور پھلنے پھولنے میں مد د ہی دی۔ اِس بات کا اندازہ مجھے خاص طو ر پر اُس وقت بھی ہوا جب مَیں نے پہلے پہل حلقہ میں اپنی نظمیں تنقید کے لئے پیش کر نا شروع کیں۔ خامی خوبی سے تو کوئی لکھنے والا مبرا نہیں، لیکن نئے لکھنے والوں کو قلم تھما کر لکھنے کا ڈھنگ بتانا اورآگے چلتے چلے جانے کا رستہ دکھانا ، کسی سچے ،ہمدرد اور نیک نیت ادیب ہی کا منصب ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات مَیں نے اکبر حمید ی جیسے بڑے لکھنے والے لوگوں سے سیکھی اور دل میں بٹھا لی ۔
رفتہ رفتہ اکبر حمید ی کے خلوص ، محبت اور دوستی نے مجھے اُن کے قریب ہونے کو موقع فراہم کیا۔ مجھے یہ بات کہنے میں خوشی محسوس ہورہی ہے کہ مَیں نے اُن کی رفاقت میں ،دوستی اور محبت کا سچا انسانی خلوص دیکھا ہے۔ مَیں نے جب اور جہاں اُن کو یاد کیا ،جب کسی کا م، یا بات کا اُن سے تقا ضا کیا ، وہ ہمیشہ مجھے چشم و دل وا کیے نظرآئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے دل میں اُن کے لئے بہت عزت ،احترام، اپنائیت اور محبت ہے۔اور مَیں اُن کی صحت ، تندرستی اور درازیٔ عمر کی دُعا کیاکر تا ہوں۔
کئی بار جب مَیں زندگی کی کسی اُلجھن یا مشکل میں گرفتا ر ہوا، تو ذہنی کتھارسس کے لئے اکبر حمید ی کے پاس جا بیٹھا ،اور اُن کی بالواسطہ گفتگو سے حوصلہ اور ہمت لے کر واپس لوٹا۔اُن کی خود نوشت کا یہ جملہ جو کہ اُن کی بائیوگرافی کا ماٹو بھی کہا جا سکتا ہے، کہ”ٹوٹنے میں جلد ی نہ کریں“ بار ہا میرے شعور کی پنہائیوں میں گونجتا رہا ہے۔ ذاتی زندگی کے معاملات ہوں ، دوستی یا تعلق داری کے ،یا علم و ادب کے،اکبر حمید ی سے ہمیشہ مَیں نے رہنمائی، ہمت اور حوصلہ پایا ہے ۔دل جیتنے اور محبت جتانے میں اُن کا انداز، مختلف ،انوکھا،وارفتہ اور والہانہ ہے۔ میری پہلی کتاب ”کنول جھیل کا گیت “ شائع ہوئی تو مَیں نے اُنہیں اپنائیت اور محبت سے کتاب پیش کی۔ چند روز گزرے تو اکبر حمید ی کا خط موصو ل ہوا ، جس میں اُنہوں نے مجھے خوب خوب سراہا ا ور پیشین گوئی کی کہ ایک دن تم نظم میں بڑا نام کماؤ گے، ستائش اور شاباشی کے علاو ہ مجھ سے شاعری میں بہت سی اُمیدیں بھی وابستہ کیں۔ نئے لکھنے والے کے لئے یہ مواقع اور حوصلہ افزائی بہت معنی رکھتی ہے۔ اور مجھے اب اِس کا اندازہ ہو تا ہے کہ اکبر حمیدی ایسی مواقع کی نزاکت اور اہمیت کو بہت اچھی طرح سمجھتے اور برتتے ہیں۔ اُن کے خط سے مجھے بہت حوصلہ ملا ،اور جس طرح اعلیٰ ظرفی اور کھلے دل سے اُنہوں نے کلمات کہے، اُس نے میرے اعتما د میں بے پناہ اضافہ کیا۔مَیں اِس معاملے میںبے حد خوش قسمت ہوں کہ مجھے ہمیشہ اپنے سینئرز کی طرف سے بہت توجہ اور حوصلہ مندی میسر آئی ،اور بہت سے بڑ ے لکھنے والوںنے میرے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا ہے۔ لیکن اکبر حمید ی کا مقام میرے دل میں بہت اُونچا ہے ۔
مَیں دل سے یہ بات مانتا ہوں کہ اکبر حمیدی بڑے شاعر و ادیب ہونے کا ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے انسان اورمخلص دوست بھی ہیں۔گھر داری اور اُس سے وابستہ رشتوں میں بھی وہ سراپا خلوص و محبت نظر آتے ہیں۔ رشتے داری ، دوست داری اور تعلق داری میں وہ ہمیشہ سے ہی ایک پسندیدہ شخص رہے ہیں۔ اگر چہ وہ میرے ماموں جان منشا یاد کے بھی گہرے اور پرانے دوست ہیں ، اور اب تو مجھے بھی اکبر حمیدی کے دوستوں میں شمار ہونے اور اس گنتی میں شمار ہونے کا شرف حاصل ہے،یہ بات الگ کہ مجھے اپنے ماموں سے دوستی اور بے حد محبت کا دعویٰ بھی ہے ، اوراُن سے میری دوستی ،مامو ں بھانجے جیسے خون کے رشتے ، عمر وں کے تفاوت اور مخصوص احترام کے باوجود بے تکلفی سے قائم ہے۔ جس میں منشا یاد کی محبت اور ادبی قربت کا بہت عمل دخل ہے۔
میری والدہ کی بیماری ، رحلت اور اُس کے بعد کے کرب انگیز دنوں میں اکبرحمیدی نے میری بہت دلگیری کی ۔ہم دونوں کے گھروں میں چند گلیوں کا ہی تو فرق تھا ، مَیں اکثر اُن کے پاس جا بیٹھتا ،اور ہم گھنٹوں باتیں کیا کرتے ۔ وہ اپنی زندگی کے نشیب و فرازسے مجھے آگا ہ کرتے اور اپنے تجربات کے آئنے میں مجھے بہت کچھ بتا تے اور سمجھاتے رہتے ۔ وہ اکثر کہتے کہ” ٹو ٹنے میں جلد ی نہ کرو“۔ اور یہ بھی کہ ”جب مشکل گھڑی آئے تو اپنی ہی ذات کی اوٹ میں ہو جا نا چاہئے “اُن کا یہ شعر زندگی کی ایسی ہی اٹل حقیقتوں کو سمجھنے کے لئے کتنا موزوں ہے
کہیں بھی رہ، در و دیوار جگمگاکے رکھ
اگر چراغ ہے چھوٹا تو لَو بڑھا کے رکھ
اُن کا کہنا تھا کہ گاہے گاہے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ ضرور کرتے رہنا چاہئے، لیکن کبھی خود کومعتوب اور کم تر نہیں سمجھناچاہیے۔اپنی ذات کی ہمت افزائی کرنا اور اپنے ساتھ دوستی کو بڑھاتے رہنابہت ضروری ہے ۔
ایسے میں تو خو د سے بھی بچھڑ جا ؤگے اکبر تم خود سے خفا رہتے ہو اچھا نہیں کرتے
جہاں تک اکبر حمیدی کے فن کا تعلق ہے اُس کا دائرہ کار وسیع ہے ۔ ناقدین نے اُن کے فن کی تما م اصناف اور جہات پر کُھل کر رائے زنی کی ہے ۔ اُن کی غزل، انشائیہ اور خاکہ نگاری نے ادب کے قدردانوں کو خوب خوب متاثر کیا ہے۔نثر میں اُن کے انشائیے اور خاکے متا ثر کن ہیں، خاص طور پر قریبی رشتہ داروں پر لکھے اُن کے خاکے قاری کے دل میں اُتر جاتے ہیں۔اِن خاکوں میں جو لگاوٹ اور اپنا ئیت ہے وہ پڑھنے والے کو اپنی ہی بپتا نظر آنے لگتی ہے۔ خون کے رشتوں کی اُنسیت اور خوشبوہمیں اپنی سانسوں میں اُتر تی محسو س ہوتی ہے۔ مَیں نے یہ خاکے شوق سے بار بار پڑھے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں خاکہ نگار اپنے بچپن ، گزرے ایام ،گاؤں اور گھر آنگن کا حقیقی اور چمکتا ہوا نقشہ کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ یہ خاکے پڑھتے ہوئے ہمارے لبو ں پر کبھی مسکراہٹ دوڑ جا تی ہے اور کبھی آنکھوں میں نمی سی چمک کر رہ جاتی ہے۔ اکبر حمیدی کے یہ خاکے پڑھ کر روح میں ایک اُداس سا انبساط پیدا ہو جا تا ہے۔
اُن کے انشائیے بھی اپنی طرز کے منفرد انشائیے ہیں، نہ صرف اسلوب اور تخلیقیت کی سطح پر بلکہ موضوعاتی سطح پر بھی وہ ہمیں چونکا دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر کہ انشائیہ نگار کا ذھن چیزوں کی عمومیت میں کس گہرائی پر جا کر مشا ہدہ کر رہا ہے ،اور وہ کسی ایک نقطے پر دائرے کی صورت ہر ہر زوایے سے نگاہ ڈالتا چلا جا تا ہے اور ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے پڑھتے ہوئے شعور میں حیرت و انبساط کی کھڑکیاں سی کھلتی چلی جارہی ہیں ۔
اکبر حمیدی ہمارے اُن چند بڑے اور سینئر لکھنے والوں میں سے ہیں ، جنہوں نے ہمیشہ حلقہ ارباب ذوق میں اپنی نگارشات پیش کی ہیں اور اُس میں کبھی تامل اورہچکچا ہٹ کا اظہار نہیں کیا۔شاعری کے ساتھ ساتھ اُن کے خاکے ، انشائیے ، مضامین اور خود نوشت کے ابواب حلقے کے پلیٹ فارم پر تنقید کے لئے تواتر سے پیش کئے جاتے رہے ہیں، اور اکبر حمیدی ہمیشہ خنداں پیشانی اور کشادہ دلی سے تنقید سنتے اور سخت سے سخت بات سننے اور سہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تخلیقات میں معنویت کی تہہ داریاں پوشیدہ ہوتی ہیں ۔صاف اور سیدھی بات میں بھی مفہوم اور معنی کا ایک سلیقہ اورسبھاؤ موجود رہتا ہوتا ہے ۔ قریب کی بات دُور اور دُور کی بات قریب آکر سر گوشیا ں سی کر نے لگتی ہے۔ یہ ہنر اورطرز اد ا، زندگی بھر کی ادبی ریاضتوں کی ہی دین ہوا کر تی ہے ، بات اتنی سیدھی اور سہل بھی نہیں جتنا لوگ عموما سمجھ لیتے ہیں۔
لیکن مَیں اِس بات کا بھی ہمیشہ قائل رہا ہوںکہ بڑے سے بڑا لکھنے والا بھی کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں ٹھوکر ضرور کھا تا ہے۔ اس کی لکھت میں بھی فیزز اور پاز ضرور آتے ہیں۔ جہاں وہ اعلیٰ ادب تخلیق کر جاتا ہے وہاں اُس سے کچھ ایسی تخلیقات بھی ضرورسر زد ہوتی ہیں جن کی سطح خود اس کے اپنے ادبی معیارات کو نہیں چھو پاتیں۔ ایسا کم و بیش ہر ادیب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور اس کا علم لکھنے والے کو خود بھی نہیں ہو پاتا۔ اس کا فیصلہ قارئین اور وقت کیا کر تے ہیں،اور اِس بات کے امکانات تو اُس وقت اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب لکھنے والے کے تخلیقی دھارے کی جہات پھیلی ہوئی بھی ہوں، اور بہتے ہوئے دریا کے پاٹ دونوں اطراف سے زیادہ وسیع ہوں۔ لیکن دریا کی گہرائی کا اندازاہ تو دریا میں اُترنے سے ہی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں مَیں اکبر حمید ی کا طرف دار ہوں کہ وہ حوصلہ مند اور جی دار تخلیق کار ہیں۔ اسِ بات کے اندیشے سے کہ وہ کسی نئی صنف میں ناکامیاب بھی رہ سکتے ہیں وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتے، بلکہ اُنہوں نے جس صنف میں بھی طبع آزمائی کی ہے وہ اُس میں سرخرو ہو ئے ہیں۔ اگر چہ تخلیق کار کسی ایک ہی صنف میں اپنا عروج حاصل کر پاتا ہے لیکن راستے تلاش کرنے کا اُسے پورا حق حاصل ہے اورلکھنے والوں میں اپنے تخلیقی سوتوں کو نئے شگافوں اور نئی سمتوں میں منتقل کر نے کا شعور اور حوصلہ ضرور ہونا چاہئے۔
اکبر حمیدی کی غزل بھی اپنی طرز کی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں وہ زندگی کے معاملات ، پیچیدگیوں اور اُلجھنوں کی طرف انتہائی نزاکت سے سہولت کے ساتھ اشارے کر جاتے ہیں اُن کی غزل بوجھل تشبیہوں اورگھمبیر فارسی تراکیب سے آلودہ نہیں۔ غزل میں انوکھا اور نیا طرز تکلم پیدا کرنا اکبر حمیدی کا خاصا ہے۔ عام بات چیت کا انداز اُن کے ہاں نمایاں ہے۔ مَیں نے غزل کے معاملے میں بھی اُن کے ہاں ظفر اقبال جیسی جرات مند ی دیکھی ہے۔ اِس بات سے قطع نظر کے شعر کی جمالیات یا معنیاتی سطح متاثر بھی ہو سکتی ہے وہ بے دھڑک زبان اور خیال کے انوکھے پن کو برت دیتے ہیں۔۔ جس سے بسا اوقات شعر آسمان کو چھو
جا تا ہے اور کبھی بساط بھر اُڑان حاصل نہیں کر پاتا۔ مگر اکبر حمیدی کی غزل اپنے مزاج اور اپنی فضا کو قائم رکھتی ہے۔ تما م اشعار قریب قریب ایک ہی موضوع اور فضا کے آس پاس رہتے اور موڈ کو قا ئم رکھتے ہیں۔ غزل کے اہم شعرا ءکی طرح اکبر حمیدی کے بھی بہت سے اشعار خاص و عام میں مقبول ہیں اور وہ برصغیر کے چند سینئر اور خصو صی غزل گووں میں شمار ہو تے ہیں۔
کوئی بتائے اگر جانتا ہو رازِ حیات یہ قافلے یہاں کس سلسلے میں ٹھہر ے ہیں
ہواس باختہ لوگوں کو گم شدہ نہ کہو یہ چلتے چلتے کہیں راستے میں ٹھہر ے ہیں
کس آسمان سے گزرا ہے درد کا دریا ستارے ٹوٹ کر آبِ رواں میں آنے لگے
خامشی جرم ہے جب منہ میںزباں ہو اکبر کچھ نہ کہنا بھی ہے ظالم کی حمایت کرنا
کندن ہی بن کے نکلوں گا زندہ رہا اگر اپنے لہو کی آگ میں ڈالا گیا ہو ں مَیں
اپنی خود نوشت ”جست بھر زندگی “میں اُنہوں نے اپنی ذات کے بہت سے معاملات ، اسرار اور بھیدوںکا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جس کے باعث مجھے اُن کی شخصیت کو سمجھنے اور جاننے کا موقع میسر آیا ۔ یہ جان کر، کہ وہ لڑکپن اور نوجوانی میں ضدی اور اکھڑرہے ہیں اوروہ کبھی بھی اُس گھی کے مصداق نہ تھے جسے سیدھی اُنگلی سے نکالا جا سکتا ہو۔ مگر ادب کی دوستی اور تربیت نے اُنہیں بچا لیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر وہ ادب تخلیق نہ کرتے تو شاید وہ اچھے انسان نہ ہوتے۔اِسی بات کے سبب میرے دل میں شعر و ادب کی توقیر دوگنی ہو گئی ہے ، کیونکہ ادب کی دُنیا میں بھی مَیں نے اکبر حمید ی جیسے خلوص و محبت اور مہر و مروت کے انسان دوست لوگ کم ہی دیکھے ہیں ۔
ہر اِک طرف سے ہے منظر بہشت کا اکبر
وہ انجمن میں کئی زاویوں سے بیٹھے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو انشائیہ کے موجودہ تخلیقی رنگ روپ میں بعض ہمعصر انشائیہ نگاروں کا نمایاں حصہ رہا ہے اور ان میں اکبرحمیدی پیش پیش ہیں۔اکبرحمیدی ایک اعلیٰ پائے کے شاعر بھی ہیں اور اپنی شعری خوﺅں کو کام میں لاکے وہ روزمرہ کے انشائی موضوعات میں بھی باتوں باتوں میں قارئین کو اتنا پار پرے لے جاتے ہیں گویا ان کی تیسری آنکھ کُھل گئی ہو اور کمال یہ بھی ہے کہ اپنی دو آنکھوںکو ہی حمیدی تیسری آنکھ کا وسیلہ بنا لیتے ہیں اور اس مانند گرد و پیش کو بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ بظاہر یہ سب کچھ بڑی آسانی سے ہو رہا ہوتا ہے او ر خیال گزرتا ہے کہ وہ یہ مرحلہ قلم برداشتہ طے کر لیتے ہیں مگر مجھے معلوم ہے اس قدر باریک فکر میں تخلیقی گپ شپ کی خوشگوار، غیر رسمی اور فراخ آسانیاں پیدا کرنے کے لیے وہ کیونکر رُک رُک کر ہر جملے میں اپنا دم پھونکتے ہوں گے۔
اکبر حمیدی کے قارئین نے ان کے انشائیوں کے گذشتہ مجموعوں کا بڑے تپاک سے خیرمقدم کیا تھا۔ مجھے یقین ہے ان کا یہ مجموعہ بھی بڑے مانوس تحّیراور مسرّت سے پڑھا جائے گا۔اس میں شک نہیں کہ انگریزی انشائیوںکی نثر میں برتر لسانی وسعت کا احساس ہوتا ہے مگر حالیہ اردو انشائیہ نے اپنی نسبتاً کمتر لسانی وسعتوں میں بھی خنداں سنجیدگی کا جو تخلیقی سماں باندھا ہے وہ شاید انگریزی انشائیے کو بھی نصیب نہیں۔ اس اعلیٰ انشائی کارکردگی میں اگر صرف چار نام ہی گنوانا مقصود ہو تو بھی اکبرحمیدی اتنے پُرکار اور فراواں ہیں کہ بے دھڑک ذہن میں گُھستے چلے آتے ہیں۔
مَیں اپنے عزیز دوست کو انشائیوں کی ایک اور اہم کتاب پیش کر پانے پر اپنی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
(انشائیوں کے مجموعہ پہاڑ مجھے بلاتا ہے میں شامل جوگندر پال کی رائے)