عا صی تخلص کے شاعر کئی گذرے ہیں، لیکن خدا جانے کیا بات اس تخلص میں ہے کہ یہ کسی کو بھی شہرت نہ دلا سکا۔ سب سے زیادہ مشہور عاصی تخلص کے شاعر، گھنشیام لال نامی دلی کے بڑے شاعر تھے۔ وہ شاہ نصیر کے شاگرد اور اپنے استاد کے عاشق زار تھے۔ لیکن انھیں بھی جو نمود نصیب ہوئی وہ محمد حسین آزاد کی “آب حیات” سے ملی، کیونکہ جن اکا دکا ہندو شعرا کو آزاد کے آب حیات سے ایک دو گھونٹ مل سکے، ان میں گھنشیا م لال عاصی بھی تھے، اگر چہ آزاد نے ان کا ذکر بس رواروی میں کیا ہے، اور کچھ اچھے انداز میں بھی نہیں۔ گھنشیام لال عاصی کا دیوان ایک ہی بار چھپا، اور وہ بھی ان کے اعقاب کی سعادت مندی اور ادب دوستی کی بدولت ممکن ہو سکا تھا۔ یہ دیوان غالباً1939 میں من موہن لال ماتھر کی مساعی سے کائستھ اردو سبھا، دہلی نے شائع کیا تھا اور اس کے دوبارہ چھپنے کی نوبت شاید نہیں آئی۔ گھنشیام لال عاصی کا مزید تذکرہ انشا ء اللہ کسی آئندہ صحبت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ وہ خیال بندی کے انداز (یعنی اپنے استاد شاہ نصیر اور استاد بھائی شیخ ابراہیم ذوق کے انداز) میں بہت عمدہ کہتے تھے۔
جن عاصی کے ایک خاص رنگ کے کلام کا ذکر اور انتخاب آج منظور ہے، ان کا نا م ایک کے سوا کسی تذکرے میں مجھے نہ ملا۔ ممکن ہے اور تذکروں بھی ہو، لیکن جو تذکرے میں نے دیکھے، اور میں نے دو چار نہیں بلکہ کئی تذکرے دیکھے، ان میں موہن لعل انیس کے “انیس الاحبا” میں طوطا رام عاصی کا ذ کر ضرور ہے، اگر چہ بہت مختصر۔ اس وقت “انیس الاحبا”سامنے نہیں، لیکن انصار اللہ نظر نے اپنی “جامع التذکرہ”کی جلد اول (ص335) میں موہن لعل انیس کے حوالے سے حسب ذیل عبارت لکھی ہے:
منشی طوطا رام عاصی، ابن راجا بشن سنگھ، ولد راجا بھکاری داس، قوم سکسینہ کائستھ۔ عاصی کے والد شجاع الدولہ کے منشی تھے۔ صاحب استعداد ہے[کذا، ہیں ]۔ اپنے دادا کے انتقال کے بعد اپنی موروثی خدمت پر مامور ہوئے۔ شروع میں رائے سرب سکھ دیوانہ سے مشورۂ سخن لیتے ہیں [کذا، تھے]۔
“انیس الاحبا”چونکہ فارسی شاعروں کا تذکرہ ہے، اس لیے اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ طوطا رام عاصی اپنے زمانے کے قابل ذکر فارسی گو، بڑے گھرانے کے، خود بھی بڑی حیثیت کے حامل اور ذی علم تھے۔ رائے سرب سکھ دیوانہ چونکہ بیشتر فارسی گو تھے، لہٰذا اغلب ہے کہ طوطا رام عاصی اپنا فارسی کلام رائے سرب سکھ دیوانہ کو دکھاتے ہوں۔ اردو میں بھی رائے سرب سکھ دیوانہ کا رتبہ بہت بلند تھا (جعفر علی حسرت لکھنوی ان کے شاگرد تھے) لہٰذا ممکن ہے عاصی نے اپنا اردو کلام بھی رائے سرب سکھ دیوانہ کو دکھایا ہو۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تذکرۂ “انیس الاحبا” کی تکمیل (1783) کے وقت طوطا رام عاصی بقید حیات تھے۔
طوطا رام عاصی کا جو کلام میری نظر سے گذرا ہے اس کا نام “دیوان غزل ہائے سمدھن و جواب سمدھن”ہے اور شاعر کے بارے میں لکھا ہے کہ (فارسی سے ترجمہ) رائے طوطا رام منشی، متخلص بہ عاصی، ولد راجہ بشن سنگھ، بن راجہ بھکاری داس، کہ یہ دونوں نوا ب سعادت خان [کذا، سعادت علی خان]بہادر کے زمانے سے خدمت میر منشی گری اور خطاب راجگی سے سرفراز اور ممتاز رہے ہیں۔ یہ غزلیں بچوں کی خوشنودی کے لیے ہیں، کہ بچے انھیں شادی کی تقاریب میں “برادری کی محفل” میں پڑھتے ہیں۔
موہن لعل انیس نے لکھا ہے کہ عاصی کے باپ شجاع الدولہ کے منشی تھے، لیکن زیر نظر دیوان میں ان کی سرکاری ملازمت سعادت علی خان کے وقت سے بتائی جا رہی ہے جو شجاع الدولہ کے بہت بعد تھے۔ چونکہ موہن لعل انیس اور عاصی معاصر تھے، اس لیے انیس کا بیان زیادہ قابل قبول ہے۔ دیوان کی عبارت کسی اور کی لکھی ہوئی ہے اور اغلب یہ ہے کہ عاصی کے انتقال کے بعد ارباب مطبع، یا دیوان کے مرتب کی تصنیف کردہ ہے۔
یہ مختصر “دیوان غزل ہائے سمدھن و جواب سمدھن”بڑی تقطیع کے نو (9) صفحات پر مشتمل ہے اور علی بخش خان کے مطبع علوی واقع لکھنؤ میں ذی قعدہ کے “آخری عشرے”، سنہ 1271ہجری میں طبع ہوا تھا۔ لہٰذا اس کی تاریخ طباعت ستمبر1855کے اواخر کی متعین کی جا سکتی ہے۔ اس دیوان کے ساتھ شروع کے انچاس صفحات پر میر جعفر زٹلی کا دیوان “زٹل نامہ” کے نام سے طبع ہوا تھا، لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ عاصی لکھنوی کے “دیوان غزلیات سمدھن و جواب سمدھن” کا جو نسخہ میرے سامنے ہے وہ میرے دوست اور مشہور کتاب شناس اسلم محمود کے کتب خانے میں محفوظ اصل نسخے کی فوٹو نقل ہے۔ میں یہ مختصر تحریر اور انتخاب ان کے نام معنون کرتا ہوں۔
فارسی گوئی سے طوطا رام عاصی کے شغف کو دیکھتے ہوئے یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ اس چھوٹے سے دیوان میں فارسی غزلیں بھی ہیں۔ سمدھن کو گالیاں فارسی میں دی جائیں، یہ ضرور تعجب کی بات ہے۔ شمالی ہندوستان کے ہندو مسلمانوں میں شادی کے موقعے پر سمدھن (اور اسی اعتبار سے سمدھیانے والوں، بشمول نوشہ) کے “استقبال” میں گالی گانے کی رسم بہت عام ہے۔ ممکن ہے یہ جنوب میں بھی ہو، لیکن میں نے بھوپال کے علاقے میں ایک دلچسپ رسم کے بارے میں سنا تھا کہ شادی کے موقعے پر کوئی مناسب وقت دیکھ کر عورتیں جمع ہوتی ہیں اور مردوں کے لہجے میں (یعنی اپنے لیے صیغۂ مذکراستعمال کرتے ہوئے) سمدھیانے والوں کے حوالے سے آپس میں فحش گفتگو کرتی ہیں، اور ممکن ہے خود سمدھیانے والیاں بھی شریک محفل ہوتی ہوں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہ رسم ان علاقوں کے ہندو مسلمانوں میں عام ہے۔
دوسری بات یہ کہ زیر نظر دیوان میں لکھا ہوا ہے کہ “طفلاں ” یہ غزل گاتے ہیں۔ پھر یہ بھی درج ہے کہ یہ کلام “خوشنودی طفلاں ” کے لئے کبھی کبھی “بنام طفلاں ” کہا گیا تھا۔ میرے لڑکپن میں فحش گالیاں دیہاتی عورتیں دیہاتی شادیوں میں گاتی تھیں۔ (ان گانوں کی حیثیت ایک صنف کی تھی اور اس صنف کو بھی “گالی” کہتے تھے اور اس کی خاص دھنیں ہوتی تھیں۔ ) شہر کی شادیوں میں مجھے یاد نہیں کہ فحش گالیوں یا فحش ہنسی مذاق کی باتوں کادستور رہا ہو۔ اگر تھا تویہ کارروائی ہم “طفلاں ” سے خفیہ رکھی جاتی تھی۔ ظرافت پر مبنی گانے بھی عورتیں گاتی تھیں، اور شاید کبھی لڑکیاں بھی شریک کر لی جاتی ہوں۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ گانے جیسے بھی رہے ہوں ان میں شوخ کلام کچھ بہت شوخ نہ ہوتا تھا۔ اس صورت میں یہ بات دلچسپ اور استعجاب انگیز ہے کہ زیر نظر دیوان میں سارا کلام، خواہ اردو اور خواہ فارسی، بہت شوخ ہے۔ “طفلاں ” سے مراد لڑکے ہی ہوں گے جو اس کلام کو گاتے ہوں گے۔ (دیوان زیر نظر میں لفظ”خوانند” ہے، “سرایند” نہیں، لہٰذا ان غزلوں کو تحت لفظ یا ترنم سے پڑھا جاتا ہو گا۔ ) چونکہ “برادری” کا بھی ذکر ہے، اس لیے ممکن ہے کہ یہ پڑھنا (یا گانا ) گھر کی خاص محفلوں میں ہوتا ہو گا اور کسی باہری، یا کم مرتبہ شخص کو اس میں شریک نہ کیا جاتا ہو گا۔ گانے والے، یا سنانے والے، لڑکے رہے ہوں گے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اشعار میں لڑکوں کے نام بطور تخلص یا بطور متکلم آئے ہیں، مثلاً ؎
دل سے رہتی ہے چیت رام کے ساتھ
خواب میں آتی ہے ہر دم پاس گوبند رام کے
گھر کو ظاہر میں گو گئی سمدھن
دولت بیدار شاید پا گئی نوشہ کی ماں
یہ اردو زبان کی شان ہے کہ اس میں ایسا کلام بھی لکھا گیا اور اسے محفوظ رکھا گیا۔ ہم میں سے کچھ لوگ اب بھی اس خیال کے ہیں کہ اردو میں “عوامی ادب” نہیں ہے اور اردو صرف شہریوں کی زبان رہی ہے۔ “عوامی ادب”کی اصطلاح بے معنی ہے، لیکن یہ بات غور کے لائق ہے کہ جس صنف کو صرف “عوام” سے متعلق سمجھا گیا ہے اس میں بہت کچھ کلام “خواص” اور وہ بھی شہر کے “خواص”کا لکھا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں “عوامی” اور “خواصی”[اشرافیہ] کی تفریق بے معنی ہو جاتی ہے۔ ہماری زبان کی بڑائی یہ ہے کہ گالی جیسے “عامیانہ” فعل کو بھی ہم لوگوں نے فن بنا دیا۔ طوطا رام عاصی کے زیر نظر دیوان میں ظرافت، خوش طبعی، طباعی، طنز، مضمون آفرینی، سب کچھ موجود ہے۔ علاوہ بریں، ان میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عورتوں کا ذکر ان اشعار میں اس نہج سے ہوتا تھا کہ وہ بڑی خوبصورت، کھائی کھیلی ہوئی، ہر چیز پر تیار، معشوق صفت ہیں، تو اس سے ان کی تعریف بھی مقصود ہوتی تھی۔ یعنی سمدھن اتنی عمر کی ہونے پر بھی معشوقی کا رنگ رکھتی ہے، یا یہ کہ دولہے کی بہن کا حسن لائق تحسین ہے، خواہ اس کے چلن کیسے ہی ہوں۔ ان اشعار میں کنایہ یہ ہے کہ یہ سب عورتیں مطلوبی اور معشوقی کے درجے پر فائز ہیں۔ حقیقت میں خواہ ایسا نہ ہو، لیکن توقع کی جاتی تھی کہ عورتیں اپنی مطلوبی اور معشوقی کے تذکرے سن کر خوش ہوں گی۔
انتخاب کلام
(1)
آج جو پہنے تھی زرتار کی ساری سمدھن
دیکھتے ہی لگی دل کو مرے پیاری سمدھن
سب براتی ہیں ملاقات کے طالب راضی
ایک شب میں کرے کس کس کو بچاری سمدھن
شیشہ لے بزم میں آسب کو دے بھر بھر پیالی
چشمۂ فیض کرے خلق میں جاری سمدھن
ملاقات=ہم بستری، تیسرے شعر میں “بزم میں آسب کو دے”کا اشارہ دلچسپ ہے۔ عورت کے اندام نہانی کی چشمہ یا نہر سے تشبیہ کئی ادبی تہذیبوں میں ملتی ہے۔
(2)
ہو دیکھی جس نے وہ نغزک کی قاش سمدھن کی
رہے وہ خواب میں کب بے تلاش سمدھن کی
خدا کے واسطے کر دو مری خبر جلدی
کوئی دو گانہ جو ہو یار باش سمدھن کی
نہیں مساس کیا گر نشے میں یاروں نے
تو کیوں یہ چولی ہوئی پاش پاش سمدھن کی
ہے کھل کے ملنے لگی کس طرح حریفوں سے
مبادا ہووے چھپی بات فاش سمدھن کی
نغزک=آم کی ایک قسم، نغزک کی قاش=کنایہ از اندام نہانی، دوسرے شعر کی متکلم شاید کوئی عورت ہے، کیونکہ مضمون میں ہم جنسی کا اشارہ ہے۔
(3)
ہنستی پھرتی سر بازار تھی ماں نوشہ کی
بادۂ حسن سے سرشار تھی ماں نوشہ کی
صاحب حسن ہوئی جب سے جنا نوشہ کو
چھٹپنے میں تو بہت خوار تھی ماں نوشہ کی
جس نے دیکھا ہو اسے طفلی میں وہ ہی جانے
کیا ہی عیار طرح دار تھی ماں نوشہ کی
تھی نہ پہچانتی سمدھی سے جدا یاروں کو
مستی میں کام کی ہشیار تھی ماں نوشہ کی
دوسرے شعر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بے اولاد کی عورت خواہ کتنی ہی حسین ہو، اس کی قدر اس عورت سے کم ہوتی تھی جس کے اولاد، اور خاص کر بیٹا ہو، چوتھے شعر میں مستی=شہوت، “کام” میں ایہام ہے۔
(4)
سب دلبروں سے پیاری ہے نوشے کی والدہ
کیا چت لگن ہماری ہے نوشے کی والدہ
خوش رنگ سینہ سنگ دہن تنگ شوخ و شنگ
جوں غنچۂ بہاری ہے نوشے کی والدہ
اب تک ہے گلی ڈنڈے جوانوں میں کھیلتی
ماں باپ کی دلاری ہے نوشے کی والدہ
خورشید سی شفق میں چمکتی ہے وقت شام
پہنے جو سوہی ساری ہے نوشے کی والدہ
چت لگن=دل کو اچھی لگنے والی، تیسرے شعر میں جوانوں کے ساتھ گلی ڈنڈے کھیلنے کے مضمون میں فحش اشارہ دلچسپ ہے، سوہی=خوبصورت، عمدہ۔
(5)
کل دیکھی جو کوٹھے پہ کھڑی مادر نوشہ
زیور سے سراپا تھی جڑی مادر نوشہ
پھسلا جو ذرا پاؤں مری گود میں ناگاہ
مانند پری ٹوٹ پڑی مادر نوشہ
کیا لطف ہوا روٹھ کے آسوئی مرے پاس
مے پی کے جو سمدھی سے لڑی مادر نوشہ
خدمت سے دوبارہ مری تسکیں نہیں اس کو
ہے تیسری صحبت کو اڑی مادر نوشہ
مطلعے میں “کوٹھے پہ کھڑی” کا کنایہ ظاہر ہے، آخری شعر میں “خدمت”میں جو اشارہ تھا وہ لفظ “صحبت” کے ایہام سے مزید پر لطف ہو گیا۔
(6)
پری ہے حور ہے نوشے کی چچی
طلسم نور ہے نوشے کی چچی
خدا کے واسطے یارو نہ چھیڑو
نشے میں چور ہے نوشے کی چچی
نہ دیکھیں خواب میں ہم جانب حور
ہمیں منظور ہے نوشے کی چچی
بحمد اللہ کہ خدمت سے ہماری
بہت مسرور ہے نوشے کی چچی
چچی کا تلفظ بر وزن فَعَل کے بجائے عام لہجے کے لحاظ سے بر وزن فع لن رکھا ہے جس سے اشعار میں بے تکلفی بڑھ گئی ہے، تیرے شعر میں “دیکھیں ” اور “منظور” کی رعایت خوب ہے۔
(7)
شب جو مستی میں اکیلی آ گئی نوشے کی ماں
گرچہ سیانی تھی پہ دھوکا کھا گئی نوشے کی ماں
ولولے سے شوق کے لپٹی جو عاشق ہو کے تنگ
سیوتی کے پھول سی مرجھا گئی نوشے کی ماں
عشق پیچاں کی طرح لپٹی تو کھول آغوش پھر
دھوپ کھا کر بیل سی مرجھا گئی نوشے کی ماں
پاس سے اٹھتے جو دیکھا گھیرا لونڈوں نے اسے
بوسہ دے ہر ایک کو پھسلا گئی نوشے کی ماں
آخری شعر میں کنایہ یہ ہے کہ “لونڈوں گھیری” اس عمر رسیدہ عورت کو کہتے ہیں جو نوجوانوں میں اٹھنے بیٹھنے کی شائق ہو۔ ردیف میں گالی کا پہلو نظر انداز نہ ہونا چاہیے۔
کئی غزلیں نوشے کی پھوپھی، خالہ، بہن وغیرہ کے بارے میں بھی ہیں، لیکن ان میں کوئی خاص بات نہیں۔ فارسی غزلیں بھی ہیں اور انھیں مضامین پر مبنی ہیں۔ ایک فارسی غزل البتہ نوشہ کی “جدہ” یعنی دادی پر ہے۔ مضامین سب وہی ہیں، لیکن ایک شعر بہت برجستہ ہے۔ مضمون بھی خوب ہے کہ ابھی درخواست وصل کی نہیں ہو رہی ہے، صرف “اذن عام” کی درخواست ہے، یعنی کچھ خاص لوگوں کو تو اذن ہے ہی، طلبگاروں کا تقاضا ہے کہ اذن خاص کو اذن عام سے بدلا جائے ؎
خوشا وقتے کہ بہر اذ ن عام خلوت یک شب
نہادے ہر جوانے سر بہ پاے جدۂ نوشہ
آخری تین صفحات پر کچھ فارسی غزلیں، بہاریہ اور تہنیت کے رنگ میں ہیں۔ یہ عاصی کے کلام سے منتخب کی گئی ہیں اور انتخاب غالباً اس کتاب کے مرتب نے کیا ہے۔ عاصی کے فارسی کلام میں شستگی ہے، لیکن مضمون آفرینی بہت نہیں۔