حیدر قریشی
8 ؍اکتوبر2005 کے قیامت خیز زلزلہ کی خبریں دیکھ
دیکھ کر15 ؍اکتوبر کو ارتجالاََ غزل کے یہ اشعار ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوٹتے،گرتے ہوئے گھر نہیں دیکھے جاتے
بد دعا جیسے یہ منظر نہیں دیکھے جاتے
پھول چہروں پہ کھِنڈے ڈر نہیں دیکھے جاتے
آنکھ سے خوف کے پیکر نہیں دیکھے جاتے
ارضِ خوش رنگ کے سب کوہ و دمن لرزاں ہیں
خون روتے ہوئے پتھر نہیں دیکھے جاتے
گر گئے دستِ دعا گنبد و مینار کے ساتھ
خاک ہوتے ہوئے منبر نہیں دیکھے جاتے
زندگی رُلتی رہی کیسے قضا کے ہاتھوں
اور احوالِ ستم گر نہیں دیکھے جاتے
قہر برساتی ہے کہ چشمِ فلک روتی ہے؟
جو بھی ہے اس کے یہ تیور نہیں دیکھے جاتے
برفباری کا جہنم بھی چلا آتا ہے
منجمد ہوتے مقدر نہیں دیکھے جاتے
دیکھتے دیکھتے آنکھوں میں اُتر آتے ہیں
اور۔۔یہ غم کے سمندر نہیں دیکھے جاتے
دیکھتے رہتے ہیں ہر حال میں حیدرؔ پھر بھی
گرچہ ٹی وی کے مناظر نہیں دیکھے جاتے